پروف ریڈ اول نو طرز مرصع

صابرہ امین

لائبریرین
صفحہ 70 سے 75 تک
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ص 70
وہ ماہ شب چار درہم رونق افزاحدیقہ فردوں پیرا کی ہو کر اوپر مسند زربفت نقرہ کے جلوہ آرا ہوئی ۔ واہ جی واہ جس وقت وہ قمر طلعت داخل باغچہ نمونہ جنت کے ہوئی، عطر گلاب رخسارہ زلیخائے شبِ مہتاب کا، تقویت بخش دماغ تماشائیوں کا ہو کے، زینت آرا بزم کامرانی کا ہوگیا اور یوسف عکس بیاض نگینہ ہائے الماس انجم کا، او پر خاتم مینا رنگ سبز ریاض خُلد آئین کے زیب افزا دہدہ نورانی کا ہوا ؂

کنِّے کیا خرام چمن میں کہ اب صبا
لاتی ہے بوئے ناز سے بھر بھر کے جھولیاں

نوعروسان شبّو 226 کیں او پر فرش چاندنی کے لباسِ نَقرہ سے بہار افروز بزم دل فریبی ودلر بائی کی تھیں اور ماہ رویان نُسترن کیں اوپر بساط چمن کے خلعت سیمیں سے رونق افروز خوبروئی وخوشنمائی کی تھیں ؂

جوں ہی آئی بزم میں وہ ماہرو سیمیں عذار
ہوگیا مہتاب پر کچھ اور ہی نور آشکار
کیا قیامت شکل تھی، مہتاب جس کے حُسن کو
دیکھتا تھا دورہی سے آنکھ اپنی پھاڑ پھاڑ
کیا کروں تعریف اس کی نقرئی پوشاک کی
موج دریا میں ہو جیسے ماہ تاباں کی بہار
زیورِ الماسی میں دیکھا چُپھے نور جمال
ماہ کی ہووے جھلک، جوں درمیان آبشار
وقتی کیا سپر ہے تحسیں کہ کچھ کہنا نہیں
جب میسر ہو کبھی، اس جی کو کردیجئے نثار
بہ مجرد ۲۲۷ جلوہ آرا ہونے اُس شمع شبستان حُسن و جمال کے یہ فقیر مانند پروانے کے تصدّق ۲۲۸ ہو کر بصورت بندہ ہائے جاں نثار کے رو برو آ کے حاضر ہوا۔ اس عرصہ میں

ص 71


خواجہ سرا بیچ سفارش میری کے کچھ کلمہ خیر بولا ۔ فقیر نیں اُس وقت طرف خواجہ سرا کے مخاطب ہو کے کہا، کہ میاں ؂
جو گزری مجھ پہ اُسے مت کہو، ہوا سو ہوا
بلا کشانِ محبت پہ، جو ہوا سو ہوا

ناز نیں از بس کہ عبارکدورت کا میری طرف سے بیچ خاطر کے رکھتی تھی، ایک بددماغی سے میری طرف متوجہ ہو کے بولی کہ اب صلاح وقت یہی ہے کہ سوتوڑے دینار سرخ کے
زادِراہ لے کر وطن مالوف کو سدھار یے ۔ فقیر کہ سوخته آتش عشق و محبت کا تھا، سنتے ہی اس بات کے ، آهِ سرد دلِ پُردرد سے بَر لا یا۔ جو وقت تلف ہونے حق کے سوائے چارہ ساز حقیقی کے کوئی دادرس اس بیچارے کا نظر نہ پڑا۔ لا چار نائرہ تاسف کا بھٹّی سینہ سے مُلتَہِب ۲۲۹ کر کے اس شعر کے تئیں بے اختیار پڑھ کر رویا ؂
داد کو پہنچا نہیں فرہاد ناحق مرگیا
دیکھ لی ہم نے خدا تیری خدائی واه واه
اور اُس کی خدمت میں گزارش کیا کہ یقین خاطر عالی کے ر ہے اگر اس عاجز کے تئیں طمع دينار و درم کی ہوتی تو جان و مال سے تصدّق فرق مبارک کے نہ ہوتا لیکن افسوس کے زمانے
سے مَراتب حقوق شناسی کے اٹھے، جب معشوق خانہ خراب نیں اس قدر بے مہری کو کا م فرمایا تب کسی عاشق کمبخت نے یہ واسوخت تحریر خامہ سوز و گداز کا کیا ہے کہ جس کا یہ بند حسب حال اپنے پڑھتا ہوں ؂

تم سے امیدیہ تھی ، دل کومرے شاد کرو
نہ کہ اُلفت کے تئیں چھوڑ کے بیداد کرو
خاکساری مری ناحق تو نہ برباد کرو
کچھ تو اس فدویت اگلی سے تئیں یاد کرو



ص 72

کہ کوئی مجھ بغیر اُس وقت خریدار نہ تھا
حالتِ غم میں کوئی مونس و غم خوارنہ تھا
اس بات کو گوش کر کے اُس شیریں زبان نے برہم ہو کے کہا۔ چہ خوش، مینڈ کی کو بھی زکام ہوا۔ اے عزیز تو دیوانہ ہوا ہے کہ اندازہ سے قدم باہر رکھ کے سودائے حال بیچ سر بے مغز کے پکاتا ہے، از برائے خدا اس گفتگو بے معنی سے درگزر۔ اگر اور کسی سے یہ ادائے خارج عمل میں آتی ، واللّٰہ کہ مارا جاتا، پرتجھ سے کچھ کہنانہیں لیکن بہتر یہ ہے کہ اب آپ اپنی راہ لیجیے کہ بیچ لوح تقدیر کے آب و خورد تیری ہمارے پاس یہیں تک لکھی تھی۔ اس وقت فرہاد دشت بلا کا آنکھوں میں آنسو بھر لا کے بولا۔ اگر بیچ دیوان مشیّت کے منشور نا کامی کا میرے نام ہی پر ثبت ہے، تو خیر ؂

واجب القتل ہیں ہم لائق تلوار ہیں ہم
ہاں میاں سچ ہے کہ ایسے ہی گنہگار ہیں ہم

وہی لیلیٰ ناقہ ۲۳۰ بددماغی کی اس بات کے سننے سے اور بھی خفا ہوئی اور کہا کہ رمز وایما کی بات چیت اپنے تئیں خوش نہیں آتی۔ یہ اشارہ اور کنایہ کسی اور سے کر، اختلاط پیش از آشنائی چہ معنی ؂

یہ بھی کوئی طرز ہے، کہنے کی کسی سے ناداں
دردسر زیادہ نہ کر، چپ ہو، بس اب زیادہ بک

یہ کہہ کر عالم خفگی میں خراماں خراماں متوجہ دولت سرا کے ہوئی۔ پھر میں نیں ہر چندسر پٹکا، اس طرف رُخ توجہ کانہ فرمایا۔ لاچاریہ مجنوں صحرائے بیخودی کا ساتھ دلِ بریاں و دیدہ گریاں کے اس مکان سے مایوس ہو کے اُٹھا اوراسی ساعت سے چالیس روز تک شبانہ روز حیران و پریشان بیچ عالم دیوانگی کے کوچ گردی و صحرانوردی میں بے خواب و خَور ۲۳۱ مانند
مجذوبوں کے مخمس حضرت تحسین صاحب کا کہ بعینہ حسب حال فقیر کے تھا ، پڑھ پڑھ کے

ص 73


روتا پھرتا تھا:
مخمس
ارے قاصد تو جا کر یار کے کوچہ میں کہہ آنا
کہ تحسیں عشق میں تیرے سدا رہتا ہے دیوانا
تری حسرت میں اُس کو رات دن رہتا ہے غم کھانا
یہ حالت ہوگئی اُس کی نہیں جاتاہے پہچانا
لبوں پر جان ہے اّس کی کہ جیوں لبریز پیمانا
شب فرقت میں تیری سخت بیتابی سے روتا ہے
نہ دن کو چین ہے اُس کو نہ د کھ ہے رات سوتاہے
نہ اُس کو کچھ دوا سے ہو، نہ کچھ افسوں سے ہوتا ہے
نپٹ ہی گریہ وزاری سے اپنے جی کوکھوتا ہے
تجھے لازم ہے اُس تک ایک دن تشریف لے جانا
کبھی سودائیوں کی طرح سیتی آہ بھرتا ہے
کبھی دیوانگی سیتی گریباں چاک کرتا ہے
کبھی مجنوں صفت گھر چھوڑ کر صحرا میں پھرتا ہے
کبھی فرہاد کی صورت لگا تیشے کو مرتا ہے
کبھی مانند پروانہ کے خاکستر ہو جل جانا
کبھی گھبرا کے اشک آنکھوں میں بھر لاتا ہے رقّت سے
کبھی سوزِ درونی سے جلے ہے غم کی حدّت سے
کبھی جھنجھلا کے جی دینے پر آجاتا ہے دقّت سے
کبھی مرنے کی رکھتاہے تمنا دکھ کی شدت سے
کبھی مجذوب کی صورت سے سنگِ کودکاں کھانا


ص 74

کوئی کہتا ہے سودا ہے اسے، فصّاد ۲۳۲ کو لاؤ
کوئی کہتا ہے، کچھ آسیب ہے، سیانے کو دکھلاؤ
کوئی کہتا ہے عاشق ہے، کہیں واں اس کو لیجاؤ
طبیب عشق کی دوکان کوئی اس کو بتلاؤ
علاج اس کا یہی ہے شربتِ دیدار پلوانا
نہ اس کو چین سے مقصد، نہ ہے آرام کی خواہش
نہ کچھ مینا سے مطلب ہے، نا اس کوجام کی خواہش
نہ کچھ رسوا کے ہونے سے غرض، نَے نام کی خواہش
دوانہ ہو کے رکھتا ہے، سدادشنام کی خواہش
مگر حاصل ہے اس کو عمر سے ساقی کا آجانا
جسے گزری نہیں، راز دل، بیتاب کیاجانے
جگر جلنے کی لذّت آگ پر، سیماب کیاجانے
مراتب دوستی کے، تارک الاحباب، کیاجانے
کوئی بے مہر ، حال دیده پُرآب کیاجانے
عبث ہے داستانِ غم تجھے رو رو کے سمجھانا

جو مدار زندگی انسان ضعیف البنیان کامحض او پراَ َکل وشُرب ۲۳۳ کے ہے، لاچار عالم بے طاقتی میں حرکت مَذ بوحی ۲۳۴ سے بھی معذور ہوکر زیر دیوار اُسی مسجد کے جا پڑا اور آہستہ
آہستہ وے اشعارمخمس کے زبان حال کی سے پڑھتا تھا۔ اتفاقاً ایک روز اسی خواجہ سرانے بہ تہیہ نماز جمعہ کے اُسی حالت میں اوپر سر میرے کے گزر گیا۔ ہر چند فقیر حالت بیخودی میں اصلاً صورت اپنی بحالت اصلی درست نہ رکھتا تھا لیکن از بسکہ آثار حزن و ملال کا پڑھنے اشعار درد آمیز کے سے او پر چہرے میرے کے آشکار تھا۔ خواجہ سرا نے احوال میر املاحظہ
کر کے نہایت خون جگر کا کھایا اور بہ مقتضائے رحم دلی کے نپٹ ہی دلسوزی سے میری طرف

ص 75


خطاب کر کے کہا ؂
دیکھا تھا اُن دنوں میں یہ چنگا بھلا غریب
عاشق ہو ئے سے پہنچ گیا مرگ کے قریب
یاں کون در دَرس ہے ترا اور کہاں طبیب
اس مرض سے لکھا تھا، جو مرنا تو یا نصیب
عاشق تو کیوں ہوا تھا سزا ہے تری یہی

تب میں نے کہا کیا کیجیئے ؂

جان اُس کا ہے، دل اُس کا ہے، جگر اس کا ہے
تیرِ بیدادجدھر رُخ کرے، گھر اُس کا ہے

چنانچہ مطابق اُس کے ہے، دل اُس کے ایک کَبِت بھی یاد ہے:

کَبِت
نار نار کیوں نہ تجوں، نین نین کیوں نہ تجوں، سیسں سیسں کیوں نہ تجوں ، جاوے یاہی تن تیں تن کیوں نہ جر جاؤ ، جز کیوں نہ جھاڑ ہو جاؤ ، جھاڑ کیوں نہ اُڑ جا ؤ برہا کی پَوَن تیں
یہ حال، یہ جیو، تبھ بن، آوے جبھ بنواری آویں، یا آوے واہی بن تیں رنگ جاؤ ، روپ جاؤ، جے لے ہوے سوہی جاؤ مادھو جی کی ہُسیت نہ جاؤ میرے من تیں اور ایک مضمون موافق اس کے اور پڑھا:

عشرت سے دو جہاں کی، یہ دل ہاتھ دھوسکے
اُس کے قدم کو چھوڑ سکے، یہ نہ ہوسکے

آخِرش بعد تاسّف تمام کے ایک شخص کے تئین نزدیک میرے چھوڑ کر آپ واسطے ادائے نماز کے متوجہ مسجد کا ہوا، اور وقت معاودَت کے فقیر کے تئین درمیان ایک میانے کے سوار کر کے ہمراہ اپنے بیچ خدمت اُس تخت نشیں کِشور غرور کے لے جا کے چِلوَن کے
 
آخری تدوین:

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۹۰

ماہتاب کے تئیں روشن کیا یعنی اس وقت ابرِ سیاہ میں یکایک چاند نکلا تب کچھ اور ہی تماشا نظر آیا گویا نافرمانی لباس سے کسی ماہرو نے نقاب چہرہ سے اُٹھاکر جلوہ دکھلایا۔ غرض چاندنی کے نکلتے ہی جوان میرے تئیں اوپر بالاخانہ بُرج باغ کے لے گیا۔ از بس کہ بُرج باغ کا دیوار شہر پناہ کے سے اتصال رکھتا تھا، میرے تئیں اُس کی بلندی پر اپنے حُسن کے روبرو تمام چراغانِ بازار شہر کا، یوں معلوم ہوتا تھا، جس طرح آفتاب کے آگے ذرے چمکتے ہیں اور میں اُس عالم میں جوان کے گلے میں ہاتھ ڈالے ہوئے خوش وقت تھی۔ اس عرصہ میں ایک کنیز بد ہیئت ایک شیشہ آتشیں شراب دو آتشہ سےلبریز کہ جس کے چند قطرہ میں انسان حیوان بن جائے، ہاتھ میں لیے مانند کُسُوف (۲۹۲) کے خورشید جمال میرے کے تئیں دابتی ہوئی آئی، جو ازبس کریہہ منظر تھی، میرے تئیں آنا اُس کا، دل کو نہ بھایا اور اُس جوان سے پوچھا کہ یہ تحفہ معجون کہاں سے بہم پہنچائی۔ تب نہایت خوشامدسے لگا کہنے کہ یہ وہی کنیز مغنیہ ہے کہ آپ کی عنایت سے خرید ہوئی۔ خیر، جو میرے تئیں معلوم ہوا کہ جوان نے اُس کے تئیں نپٹ خواہش سے خرید کیا ہے، شاید کچھ گوشہ خاطر کا بھی طرف اُس کے مصروف رکھتا ہو، لاچار پاس خاطر اُس کی، سنگ آمد و سخت آمد، جانکر خاموش ہو رہی لیکن مزاج اسی وقت سے منغض ہوا۔تِس پر قیامت یہ کہ اس بدبخت نے بہ مقتضائے اس کے کہ کند ہم جنس باہم جنس پرواز، ساقی اُسی ناپاک کو مقرر کیا۔ اُس وقت جیسے طوطی کو ساتھ زاغ کے بند کرتے ہیں، نوبت میری گزری، نہ پائے رفتن نہ روئے ماندن۔ قصہ مختصر جو اُس کی نفس امارہ جوش پر تھی، علیٰ التواتر دو چار جام شراب کے بیچ صُراحی حلقوم جوان کے ڈھالے اور ایک آدھ پیمانہ بیچ گلابی غنچہ وہاںمیرے کے۔ آخرش رنڈی کچھ بدمست سی ہو کر جوان کے ساتھ عشوہ سازی و غمزہ پردازی میں آئی اور وہ بھی کچھ چِیلا سا حالت مستی میں بے لحاظ ہو چلا۔ اُس وقت میری یہ حالت ہوئی کہ اگر زمین پھاٹے تو سما جاؤں۔ لیکن میں احمق جب بھی بتوقع حرف وفا اُس بے وفا کے یہ دو بند واسوخت کے پڑھ اُٹھی؂
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۹۱

کیوں رے بے مہر تجھے یاد ہے وہ اگلی چاہ
ایک دن میری جدائی کا تجھے تھا سو ماہ

تو جا اخلاص کا اپنے نہیں کرتا ہے نباہ
کہہ تو اب کون سا اثبات کیا مجھ پہ گناہ

غیر سے سامنے میرے تو لڑاتا ہے نگاہ
اس قدر ہم سے تو بیزار ہے سُبحان اللہ

گر بظاہر بہ کسے خلق نکو خواہی کرد
شوخ ہاما تو چہ کردی کہ بہ اوخواہی کرد

اس قدر چشمِ مروت کا اُٹھا مت یکبار
چھوڑ کر حق کو نہ کر کفر کی باتیں زنہار

خوبریوں میں تجھےکن نے بیایا سج دار
ورنہ خوباں میں کوئی تجھ کو نہ کرتا تھا شمار

بلکہ پھرتا تھا تو ہر ایک کے گھر سو سو بار
اپنی مجلس میں نہ دیتا تھا کوئی تجھ کو بار

ایں زماں جائے تو دردیدۂ مردم شدہ است
روئے زیبائے تو از دیدۂ ما گم شدہ است

آخرش وہ جو کہتے ہیں کہ "تربیت نااہل راچوں گردگاں بر گنبد است"۔ یہ سب گفتگو یوں ہوئی جیسے بھینس کے آگے بین باجے یعنی اُس قمار باز قمار خانۂ بے حیائی کے نیں نقد ہوش و عقل اپنے کے تئیں کھیل ڈالا اور خزینہ سینہ کا متاع الفت و محبت میری کے سے خالی کیا اور اسی وقت بہ مقتضائے بے غیرتی کے ہوائے نفسانیت جوان کی نیں دامن شرم گاہ کنیز کے کے تئیں مانند گریبان غنچہ سیاہ دھتورے کے چاک کیا اور اُس کنیز بے تمیز
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۹۲

نیں بیچ عالم بدمستی کے خمخانۂ ملاقات جوان کے سے ساغرِ مراد کا پیا۔ ہنگامۂ ناز و نیاز کا گرم ہوا اور پیمانہ بوس و کنار کا لبریز۔ اُس وقت؂

نہ اُس بے وفا کو وفا سے اثر
نہ اُس بے حیا کو حیا سے نشاں

تب کاسہ دماغ میرے کا مانند دیگ کے آتشِ جنوں سے جوش میں آیا اور معنی الخبیثاتۃ للخبیثین کا مطابق حال اُن دونوں نابکار کے جان کے حالت غضب میں سخت کہتی ہوئی اُٹھی۔ جوان نے اپنے دل میں سوچا کہ اگر ملکہ ناخوش اُٹھی خدا جانے کہ صبح کیا قیامت نازل ہو گی، پس اس کے تئیں یہیں فیصل کیجیے۔ بارے یہ ارادہ کر کے موافق صلاح اُس فاحشہ کے اول مکر و تزویر سے میرے ئیں پُھسلا ُپرچا بٹھلایا اور اُس بادۂ ہوش رُبا کے دو چار جام متواتر سے میرے تئیں مدہوش کیا۔ جس وقت دُزد غفلت کے نے اوپر قافلہ حواس میرے کے شب خوں کیا، اُس بے رحم سنگ دل نے سنگ ستم کا اوپر سینۂ الفت کے رکھ کے اِس بے گناہ کو ساتھ تیغ بے دریغ کے زخم ہائے کاری سے رشک گلہائے ارغواں کا کیا۔ میں کہ کُشتۂ تیغ ابروئے خمدار اس کے کی تھی، اُس وت بھی اپنی محبت سے نہ چوکی کہ باوجود اس حرکت کے جوان کی طرف مخاطب ہو کے کہا؂

مُبادا ہو کوئی قاتل ترا گریباں گیر
مرے لہو کو تو دامن سے دھو ہوا سو ہوا

اور ایک رباعی مرزا سوداؔ صاحب کی کہ حسب حال اُس وقت کے تھی، پڑھی؂

بدلہ ترے ستم کا کوئی تجھ سے کیا کرے
اپنا ہی تو فریفتہ ہووے خدا کرے

قاتل ہماری لاش کو تشہیر ہے ضرور
آئندہ تا کوئی نہ کسی سے وفا کرے
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۹۳

یہ کہہ کر خاموش ہوئی پھر میرے تئیں خبر نہیں۔ شاید بعد اس ماجرے کے اُس قصاب نے اپنی دانست میں میرے تئیں بے جان سمجھ کر درمیان اُس صندوق کے کہ تو واقف ہے، زیر دیوار شہر پناہ کے لٹکایا لیکن اگر اوقات آدمی کے مرنج مرنجان سے گزرتے ہوں گردش فلکی سے اُس کے حال پر اگر رسی ظلم کی کبھی دراز بھی ہو تو اُس کے حق میں حبلُ المتین عنایات فضل الٰہی کی غروۃ الۃثقیٰ توفیقات فیض نا متناہی کی ہو جاوے۔ واقعی سچ ہے تو یہ ہے دشمن چہ کند چومہرباں باشد دوست، قدرت خدا کی دیکھیے کہ اُس وقت اپنے فضل و کرم سے تیری تئیں بھیجا کہ باعث شفا کا ہوا:

قطعہ

وہ جانب کبریا ایسا ہے جس کی حمد میں
ہو سکے آدم کی خلقت سے کوئی رطب اللساں

اتنی ہی ہے آرزو میری کمال عجز سے
اپنے بندوں پر رہے یونہی سدا وہ مہرباں

ہر چند مقتضا حیا کا نہیں کہ باوجود اس رسوائی کے اپنے تئیں سلامت رکھوں لیکن کیا کروں، رشتہ حیات کا زبردست تھا:

ع : جو جو خدا دکھاوے سو لاچار دیکھنا

قصہ کوتاہ بعد از ظہور صورت شفا کے تیرے تئیں بے خرچ دیکھا، وہ رُقعہ شیدی بہار نامی اپنے خزانچی کو لکھا تھا کہ میں خیریت سے بالفعل جلوہ افروز فلانے مکان کی ہوں تو خبر میری بیچ جناب سِر اوقات عصمت حریم بادشاہی کے پہنچا دیجیو اور بہ مجرد ملاحظہ شُقہ کے گیارہ توڑے اشرفیوںض کے حوالہ اس عزیز کے کیجیو اور جب تیرے تئیں واسطے خرید کرنے جواہر و خلعت کے اوپر دوکان یوسف سوداگر بچے کے بھیجا، اصل یوں ہے کہ میرے دل میں تھا کہ تیرے تئیں مرد اجنبی جان کے اغلب کہ تکلیف دعوت کی کرے گا۔ چنانچہ تصور میرا درست پڑا کہ وہاں بہ موجب خیال میرے کے عمل میں آیا اور یوں تو اُس کے تئیں متوقع
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۹۴

ایفائے وعدہ کا کر کے واسطے اِسترضا میری کے آیا۔ جو یہ بات بہ موجب تخیل میرے کے ہوئی بہ خیال اس کے کہ جب تو نقل اِجابت کا خوان دعوت اس کے سے تناول کرے گا شاید کہ وہ بھی، اگر توں بجد ہو تو شراب ضیافت تیری کی سے مخمور ہو، رخصت تیری اُس وقت مقرون بہ صلاح جانی۔ بعد سہ شبانہ روز کے توں جو مہمانی سے فراغت کر کے نزدیک میرے آیا اور بہ سبب اس غیر حاضری کے عرق انفعال کے اوپر چہرہ کےلایا، اُس وقت میں نے تیری تشفی کے واسطے کہا کہ کچھ مضائقہ نہیں رفتن بہ ارادت و آمدن بہ اجازت، توں زِنہار دامن اطمینان کے تئیں غبار وسواس کے سے آلودہ نہ کر لیکن تیرے تئیں بھی اُس کی ضیافتکی تیاری از جملہ واجبات ہے۔ توں حسب الحکم میرے واسطے طلب اُس جوان کے گیا۔ پر میں جو دیکھتی ہوں تو کچھ اسباب ضیافت کا تیار نہیں۔ جو ایام سلف سے رسم و آئین مقرر ہے کہ سلاطین اس مملکت کے نہہ ماہ تک بیچ مُہمات مالی و ملکی کے مشغول رہتے ہیں اور باقی موسم برسات میں بیچ دارالخلافت عالیہ کے رونق افزا ہوتے ہیں، اتفاق حسنہ یہ کہ اس وقت دو چار ماہ پیشتر سے والد بزرگوار یعنی خسر و عالی تبار والی اس دیار کا موافق قاعدہ مُستمرہ کے بیچ گرد و نواممالک دمشق کے متوجہ بہ نظم و نسق اُمورات سلطنت کے ہوا تھا اور شبستان دل میرے کے تئیں آتشِ غضب خشمگین کی سے خوف جلا دینے کا تھا، جب تک کہ تو معاودت کرے، میں فرصت کو غنیمت جان کے بیچ جناب بادشاہ بیگم کے کہ مادرِ مہربان تھی، سوار ہو کر پہنچی جو ستار حقیقی نے وصف ستار عیوبی کی بیچ حق مادر بزرگوار کے عطا فرمایا ہے، ابردا سے انتہا تک قصہ سرگزشت اپنی کا اور حقیقیت گناہ و بے گناہی کی مفصل نقل کی۔ معلوم ہوا کہ مادر مہر پرور نے میرے غائب ہونے سے بہ مُقتضائے دور اندیشی کے سنگ شہرت کا اوپر دیوار رسوئی کے نہیں مارا، کہ آخرش یہی سنگ اُلٹ کر تمام خاندان کے ننگ و ناموس کا سر ٹکڑے کرے گا لیکن مخفی تلاش تھی۔ اس عرصہ میں زبانی شیدی بہار خزانچی کے رقعہ کے رو سے خبر معلوم ہوئی۔ بعد ازاں میں جا پہنچی۔ تب اوپر حال میرے کے آبدیدہ ہو کر فرمایا کہ کمبخت توں نے جو دیدہ دانستہ شیشہ ننگ و ناموس سلطانی کا رسوائی کے
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۹۵

پتھر پر توڑا، یہ کیا کِیا۔ ہزار حیف۔ علاوہ اُس کے پیمانۂ عمر اپنی کے تئیں بادۂ زندگانی سے خالی کیا، توبہ و استغفار کر۔ خوب ہوا سو ہوا؂

تقدیر کے لکھے کو امکان نہیں دھونا
تقصیر نہیں دل کی قسمت کا بدا ہونا

پر اب مطلب تیرا کیا ہے؟ تب میں نے کمال محجوبی سے عرض کیا کہ جو کِلک کے قضا نے بیچ دیوان مشیِت کے مجھ سیہ اختر کے حق میں یون رقم کھینچا ہو کہ اس خواری اور بدنامی سے بیچ زمانے کے بسر لے جاؤں، اس سے یہی بہتر کہ تن قضا کو دوں اور نقد جاں کے تئیں حوالہ مقتاضی اجل کے کروں لیکن ستم یہ ہے کہ وہ دونوں نابکار میرے ہاتھ سے نجات پا کے چاشنی لذت کی خوان زندگانی کے سے حاصل کریں اور میری آتش حسرت تلافی کی دل کی دل ہی میں سرد ہو، پس امیدوار ہوں کہ اگر کار پرداز ان کار گاہ حضور عالیہ کے تئیں ارشاد ہو تو سامان ضیافت کے تئیں، آئین شائستہ سے بیچ غریب خانہ کے زیر ترتیب کا دیویں کہ میں بہ حیلہ ضیافت کے اُن دونوں سیہ بختوں کو بُلوا کر بہ پاداش نکو ہیدہ عمل کے انتقام اپنا لوں یعنی رحیق حیات کی ایاغ وجود ناپاک اُن کے سے اوپر خاک عدم کے ڈالوں، بارے کچھ تو تلافی مافات کی ہو۔ مادر سراپا مہر بہ تقاضائے عطُوفت مادری کے عیب میرے کے تئیں مستور کر کے سب لوازمہ ضیافت کا ہمراہ اُسی خواجہ سرا کے کہ عالم صِغر سِن سے محرم اسرار میرا ہے، بھیجا اور باری داران حضور کےتئیں اپنے اپنے عہدہ پر بدستور محفل سلطانی کے آراستہ کیا جب فر اس سپہر کے نے اسپک نیلگوں شب کو بیچ عرصۂ شام کے استادہ کیا توں اُس جوان جواہر فروش کے تئیں ہمراہ لے کر داخل میہمان خانہ کےہوا۔ جو میرے تئیں اُس کی معشوقی کو بھی بُلوانا منظور تھا، تیرے تئیں واسطے طلب اُس کےتقید کیا۔ چنانچہ وہ بھی آتے ہیں بادہ پیما پیمانۂ عشرت کی ہوئی۔ جس وقت کمیں دارانِ مستی کے اوپر بدرقہ ہوشیاری اُن بے ہوشوں کی تاخت لائے اور تو بھی مانند قالب بے جان کے دست و پا دراز کر کے مست شراب غفلت کا ہوا میں نے ایک قلماق
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۹۶

کے تئیں حکم کیا کہ ان دونوں ناپاک کے تئیں ساتھ تیغ بے دریغ آبدار کے اوپر بستر فنا کے آرام سے سُلا دے۔ چنانچہ اُس نے بہ موجب اجازت میری کے سر اُن دونوں بے حیاؤں کا مانند گوئے اوپر زمین نیستی کے لوٹایا، توں جو مُورد عبات میرے کا ہوا تھا، اُس کی وجہ یہ ہے کہ میں نے تیرے تئیں اجازت تیاری لوازمہ میہمان داری کی دی تھی نہ کہ برخلاف میرضی میری کے دل جمعی سے آشنائے دو روزہ کے ساتھ ہم پیالہ و ہم نوالہ ہو جائے۔ یہ حرکت البتہ میرے تئیں خوش نہ آئی اور واقعی جب توں از خود بے خود ہوا، پرھ شرط رفاقت کی کہاں رہی لیکن سوابق حقوق تیرے نے گردن میرے کے تئیں اس قدر زیر بار منت کا کر رکھا تھا کہ الماضِی لا یذکر کو کام فرمایا۔ قصہ کوتاہ و سخن مختصر، اے عزیز طوطی نُطق پرداز، حکایت سرگزشت میری کی اس قدر گویا تھی کہ بیچ چمن گفتگو کے نخمہ سرا ہوئی۔ پر اب آرزو دل کی یہ ہے کہ جو میں پاس خاطر تیری کے تئیں بجا لائی پس تو بھی حرف زبان میری کے تئیں گزُلگ اِغماض کے سے محو نہ کر یعنی اب قدم سکونت کا بیچ اس دیار کے قائم رکھنا صلاح وقت نہیں، آگے مختار ہے۔

اے یاران غمگسار، ملکہ جدول کلام کی اوپر صفحۂ بیان کے یہاں تک کھینچ کر خاموش ہو رہی۔ اُس وقت میں کہ بمقید سلسلۂ عشق و گرفتار دام محبت اُس کی کا تھا، رضائے خاطر اُس کی کے تئیں سب چیز پر مقدم جان کے بولا؂

ہے پرورش سخن کی تری مجھ کو یاں تلک
چلنا زمیں کا کیا ہے اُڑوںآسماں تلک
بے مرضیٔ شریف کروں گا نہ کام کچھ
تنگی سے گر ہو چاک گریبانِ جاں تلک

زیادہ اس سے کیا کہیے۔ تب ملکہ نے میرے تئیں رفیق دل سوز اپنا جان کے حکم کیا کہ دوباد پا سُبک رو سُبک خرام اصطبل بادشاہی سے طلب کر کے مستعد تیاری روانگی کا، رہو۔ چنانچہ بندہ نے حسب الحکم ملکہ کے دو گلگوں برق رفتار جلد بازی و سُبک خرامی میں
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۹۷

ایسے ہی خوب کہ بے مبالغہ ہوائےمجسم کہنا چاہیے؂

چمن میں صنع کے اُن کی سُبک روی آگے
کبھو نہ ایک قدم چل سکے نسیم بہار
غرض وہ گرم عِناں ہو کے جب چمک جاوے
نہیں پہنچتی ہے برق اُن کی گرد کو زنہار

لا کر حاضر کیے، جس وقت باج بہادر ماہتاب کے نے روپ متی زہرہ کے تئیں اوپر اشہب خوش خرام شپہر کے سوار کر کے مُسافت چند کُڑدہ کی طے کی تھی، چار گھڑی شب باقی ماندہ تھی یہ فقیر ملکۂ قمر طلعت کے تئیں اوپر شبدیز شبرنگ کے لباس مردانہ سے سوار کر کے اور آپ بھی کُمیت تیز رفتار پر ہمراہ ہو کر مانند باج بہادر و راپ متی کے چلاو شبانہ روز بہ طرز مہر و ماہ کے سریع السیر ہو کے تھوڑے عرصہ میں مسافت چند روزہ کی طے کر آیا۔ کوئی گھڑی میں راہ کاٹنے کے واسطے موتی آبدار حکایات دلچسپ کے نثار حُسن مسامع اُس مایۂ ناز کے کرتا ور کوئی ساعت پھول کلمات دلفریب کے گلزار وہاں اُس کے سے بیچ چمنِ سمع اِس شراپا نیاز کے جھڑتے۔ اسی طور سے ہنستے کھیلتے باتیں کرتے چلے جاتے تھے۔ ہر ایک روز عید تھا اور ہر ایک رات شب برأت۔ ہر منزل میں کنول دل کا نہایت بالیدگی سے یوں کھل رہا تھا جیسے دِہ میں کنول پھول رہتا ہے اور ہر مقام میں غنچہ خاطر کا ازبس شگفتگی سے یوں پھول رہا تھا جس طرح موسم بہار میں شگوفہ کھل رہتا ہے۔ لیکن میرے تئیں اس سپہر بے مہر کی کج روی پر آتا ہے کہ یکایک عشرت کے لفظ سے شین کے نقطے دور کر کے سین کے حرف کو پیش پہنچایا کہ عشرت کے لفظ کا بے نقطگی سے بازار گرم ہوا اور تو کیا کہوں، دل جلے پر یہ شعر مرزا سوداؔ صاحب کے، زبان سے بے اختیار اُس کے حق میں نکلتے ہیں؂

مستعد اتنا ہے یہ افعی گزند خلق پر
پیچ اُس کے چال کا دیکھا تو ہے شکل وہاں
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۹۸

خوان پر اُس روسیہ کے مت سمجھ تاروں کو نُقل
چمکے ہیں تودے میں خاکستر کے یہ چنگاریاں
ختم اُس پر ہو چکی بدخلقی و بد خصلتی
پھر نہ آیا اپنے گھر اُس کے گیا جو میہماں
کام عالم کا بسانِ جؤئے تصویر اُس کے ہاتھ
بند رہتا ہے بمعنی گر بصورت ہو رداں
جب تلک ہر گز نہ کھولے کار بستہ سے گرہ
بانہ باندھا چاہیے محکم کر اُس پر یہ گماں
دیکھ ٹک احوال عنقا کا کہ اس ظالم کے ہاتھ
نام گر پیدا کرے کوئی تو مٹ جائے نشاں
پابرہنہ میں پھروں، خوبوں کی خاطر دھوپ میں
خار کے سر پر کرے دامان گُل کو سائباں
کیا کروں اُس کے تلؤن کی طبیعت کی میں نقل
کیا کروں بیرنگیِ گردش کا اب اُس کے بیاں
پس جو ایسا ہو کوئی، اے دل نہ کیجیے اسکا ذکر
آشنا کراب غزل خوانی سے تو اپنی زباں
گر نسیم زلف کا اُس کے چمن میں ہو بیاں
نکہت گُل سے پریشاں ہو دماغ بلبلاں
طوطیٔ تصویر اُس کے روبرو کرتی ہے نطق
محو جو دیدار کا تیرے ہوا آئینہ ساں

یعنی عین مزے میں اُس پری چہرہ نے کہ جس کی تعریف میں اس روسیاہ کا ذکر کرتے کرتے عاجز ہو کے آخر کے دو شعر پڑھ گیا ہوں، مجھ سے کہا کہ غنچہ دہاں میرے کا تشنگی تپش
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۹۹

سے کمھلایا جاتا ہے، اگر کہیں سے تھوڑا سا پانی ملے تو چشمۂ آبِ حیات سے گویا حیاتِ جوداں پائے۔ میرے تئیں جو آرام خاطر اس آرام خاطر کا اپنے آرام و خاطر پر مُقدم تھا، اُس نازنین کے تئیں زیر سایہ درخت کے بٹھلا کر بہ تلاش پانی کے چلا۔ چلتے چلتے درمیان اُس صحرائے ہولناک کے ایک دریا مہیب کہ جس کے خیال سے زہرہ دل کا آب ہو جائے نظر آیا۔ بارے فقیر کے تئیں باوجود وحشت کے ایک طمانیت حاصل ہوئی اور اس چشمہ سے ایک صُراحی پُر کر کے نزدیک اُس درخت کے لے پہنچا۔ وہاں جو دیکھتا ہوں تو خیریت نہیں یعنی وہ ماہ شب چہار دہم بیچ ابر غیب کے سما گئی۔ تب میں گھبرا کر یہ اشعار پڑھتا ہوا چلا؂

عشق ہے دامِ بلا، زلفِ پریشاں مددِے
راہ بھولا ہے یہ دل، خضر، بیاباں مددے
ہجر میں یار کے پھرنا ہے مجھے دشتِ عظیم
پا برہنہ ہے مرا، خارِ مغیلاں مددے

جہاں کہیں سیلِ سرشک میرے کارِیزش کرتا دریا از بس خِجالت سے آب آب ہو جاتا اور جس جگہ نایرہ آہ میری کا مُلتہِب ہوتا، شعلہ نہایت حسرت سے سوخت ہو جاتا۔ اسی طرح سے ڈھونڈتا پڑا پھرتا تھا اور قدم قدم پر بیٹھ بیٹھ کر آئینے کی مثال، پشت بہ دیوار حیرت ہو کر دیدۂ پُر آب سے رو رو کر یہ شعر پڑھتا تھا؂

بٹھا گیا ہے کہاں یار بے وفا مجھ کوں
کوئی اُٹھا نہ سکا مثلِ نقش پا مجھ کوں
کبھی مُقیم حرم ہوں کبھی ہوں ساکنِ دیر
کِیا خراب مرے دل نے جا بجا مجھ کوں

اگر روز ہے تو آتشِ اِستیلائے اشتیاق اُس کی سے جگر داغ و سینہ پُر سوز، اگر شب ہے تو اشتعالہ آہ فراق اُس کے بیچ کا نون دل کے شعلہ افروز – نہ جی کو قید جسم کی سے
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۱۰۰

رہائی اور نہ چشم کو ساتھ جی کے توقع آشنائی۔ دل اُس کی یاد میں نہایت بیتاب اور جان اُس کے خیال میں سراپا اضطراب؂

روٹھا ہے اب وہ یار، جو ہم سے جدا نہ تھا
یوں بے وفا ہوا ہے، گویا آشنا نہ تھا
یہ جور عشق، کس کے، بلا کی نظر میں تھا
جب لگ ہزار جاں سے یہ دل مبتلا نہ تھا

واقعی اگر مجنوں دِل مُضطرب میرے کا مفتُون جمال اُس لیلی نژاد کا نہ ہوتا تو اس کمبخت کو صحرا نوردی و دشت پیمائی سے کیا کام تھا۔ واہ واہ حضرت دل نے مجھ غریب پر خوب وار کیا؂

میں دشمن جاں ڈھوندھ کے اپنا جو نکالا
سو حضرتِ دل، سلمہ اللہ تعالٰی

آخرش جب بیچ پائے تلاش و اُمید کے آبلے یاس و نومیدی کے پڑے لاچار تن بہ تقدیر دے کر یہ خیال میرے جی میں گزرا:

مخمس

اس زیست سے بہتر ہے اب موت پہ دل دھریے
جل بجھیے کہیں جا کر یا ڈوب کہیں مریے
کس طور کٹیں راتیں کس طور سے دن بھریے
کچھ بن نہیں آتی ہے، حیراں ہوں کیا کریے
کیا کام کیا دل نے، دیوانےکو کیا کہیے

اس عرصہ میں بیچ صحرائے لق و دق کے ایک پہاڑ نظر آیا، میرے دل میں یہ ارادہ مصمم ہوا کہ اوپر اس کوہ کے جا کے ایسا ہی گروں کہ استخواں سے نشان نہ رہے ۔ چنانچہ اُس طرف کو متوجہ ہوا۔ چلتے چلتے اوپر ارتفاع پہاڑ کے پہنچ کر چاہتا ہوں کہ قلہ کوہ سےگرا کر
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۱۰۱

اپنے تئیں ضائع کروں کہ اس اثنا میں ایک سوار سبز پوش باساز و یراق مُسلح ناگہانی پیدا ہو کر، مجھے سے فرمانے لگا کہ توں زینہار مُرغ روح اپنے کے تئیں بیچ ہوائے ناکامی کے پرواز نہ دے۔ بعد اِانقضائے چند روز کے بیچ مرزبوم روم کے تین درویش اور ہمدرد تیرے بایک دگر ملاقات کریں گے۔ اُس وقت ان شاء اللہ بہ طفیل طرخندہ سیر نامی بادشاہ روم کے کہ اُس کے تئیں بھی ایک مشکل لاحل درپیش ہے، فیض صحبت ہم دیگر کے سے شاہد مقصود ہر ایک کے نقاب حجاب کا درمیان سے اُٹھا کر چہرہ کشاہوں گے، یہ بات فرما کر پھر بیچ عالم غیب کے غائب ہو گیاَ

قصیدہ

تب وہیں پوچھا، مرے دل نے یہ پیر عقل سے
کس کے تھا نورِ قدم سے جلوہ افزا یہ مکاں
کس کا یہ ارشاد میرے حق میں ہے تسکیں فزا
جس کے سُننے ہی سے میری ہو گئی خاطر نشاں
یوں کہا پیرِ خرد نے مجھ سے اے ناداں خموش
کیا مری طاقت ہے تجھ سے گر کروں اُس کا بیاں
مطلق آگاہی نہیں، اِس راز سے میرے تئیں
اس کی تحقیقات کا، ہرگز نہ کر مجھ پر گماں
واقف اس اسرار کا، کوئی نہیں جُزذاتِ حق
راز کا اس کے نہیں، کوئی بجز حق رازداں
لیکن اتنا میں سمجھتا ہوں کہ جُز ذات علی رضی اللہ عنہ
کس کو قدرت ہے جو اس صورت سے آ کر ہو عیاں
اس کی قدر و منزلت کا کیا کروں تجھ سے میں ذکر
عرش جس کا فرش ہو، کُرسی ہو جس کی لامکاں
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۱۰۲

کس کا ہے مقدور، جو کچھ لکھ سکے اُس کا جلال
کون ہو سکتا ہے اُس کے وصف سے رطلب اللساں
پر کیا تو نے جو مجھ سیتی سوال اس بات کا
اس کا دیتا ہوں جواب، اب دل سے اُس پر کر نشاں
تاقیامت ہو نہ آدم پر ہویدا سِر غیب
تا نہ ہووے منکشف اس پر کبھو راز نہاں
لیکن اُس کی ذات کے مظہر کا یہ اسرار ہے
ہے جو کچھ مخفی جہاں میں، اُس پہ رہتا ہے عیاں
پس بقول حضرتِ تحسینؔ کہ اپنے طرز میں
بےتکلف ہے وہ گویا طوطیِ ہندوستاں
ہو جو کچھ الہام مولا اُس پہ اے دل کر عمل
ہو جو فتح الباب مقصد اُس طرف کو ہو رواں

بارے بندہ بہ موجب ہدایت اپنے مولا مُشکل کشا کے روانہ منزل مقصود کا ہوا۔ اگرچہ دل کے تئیں تسکین امید کی حاصل ہوئی تھی لیکن خار فراق اُس گلبدن کا، بیچ پائے تلاش میرے کے، اس قدر چبھا تھا کہ جب تلک گلدستہ مراد کا گلستانِ وصال محبوب دل نواز کے سے رونق بخش دیدۂ انتظار کا نہ ہوسے، رونے سے سروکار رکھوں چنانچہ اُس جنگل مہیب میں تن تنہا روتا ہوا چلا اور اُس وقت سِوائے قافلۂ اشک کو کوئی ہمراہ نہ تھا:

مخمس

کبھی منصور کی بالیں پہ جا جا شب کو روتا تھا
کبھی اشک اپنے سے یعقوب علیہالسلام کی تُربت کو دھوتا تھا
کبھی فرہاد کی حالت میں اپنے جی کو کھوتا تھا
کبھی تخم جنوں مجنوں کی جا وادی میں بوتا تھا
کبھی گلشن میں جا بُلبل کے سر سے سر پٹکتا تھا
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۱۰۳

اس طرح سے اُفتاں و خیزاں بیچ مرز بوم روم کے پہنچ کر رہبری طالع کے سے نعمت غیر مُترقب ملاقات ہم دیگر کی کہ بسم اللہ نسخۂ جمعیت و کامرانی کی ہے، حاصل کی۔ اب امید قوی ہے کہ ان شاء اللہ چشم تمنا کی مشاہدۂ جمال خجستہ خصال فرخُندہ سیر کے سے جلد منور ہو۔ بعد ازاں یقین ہے کہ دامنِ آرزو ہر ایک کا گل ہائے کامیابی سے گل چین مراد کا ہوئے۔ اے یاران غم گُسار، قصہ سرگزشت اس سرگشتہ بادیہ غربت کا اس قدر تھا کہ گزارش کیا لیکن معلوم نہیں کہ کب تلک شبِ دیجور مہاجرت کی شمع وِصال جاناں کے سے روشنی پاوے گی اور کس گھڑی کلبۂ احزاں میرا قُدُوم عشرت لُزوم اُس مایۂ ناز یعنی ملکہ دل نواز کے سے رشک گلستان ارم کا ہو گا۔

فرخندہ سیر کہ ایک گوشہ میں بیٹھا ہوا، گوش خیال کے تئیں مائل اِصغائے ماجرائے درویش اول کے رکھتا تھا، سُننے اس داستان ندرت بیان کے سے ازبس خوش وقتی سے بیچ قالب کے نہ سمایا اور متوجہ اِستِماع قصہ سرگزشت درویش دویم کا ہوا۔
 

شمشاد

لائبریرین
قصہ درویش دوم

تب درویش دوم نے عندلیب خوش لہجۂ زبان کے تئیں بیچ گلزار بیان کے یوں داستان سرا اِس معنی رنگیں کا کیا کہ

یہ بندہ پِسر فرمانرٔ وائے مُلک فارس کا ہے، جو اکتسابِ کمالات ہر فن کا جوہر ابنائے ملوک کا ہے والد بزرگوار یعنی والی اُس دیار کے نے میرے تئیں عہد طوولیت سے واسطے تکمیل فنونِ جہاندار اور تحصیل شیون شہریاری کے بیچ خدمت مُعلمان دانش و رواد یبان خرد پرور کے نصب کیا اور اتالیقان صاحب ذکاء کے تئیں جہت اصلاح طبع نو آموز کے تعین فرمایا کہ آئین آداب خلافت و فرمانروائی و قوانین انتظام سلطنت و کشور کشائی کے سے بیچ تربیت میری کے کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ کریں۔ چنانچہ بہ فضل الٰہی بیچ سن چہاردہ سالگی کے فیض تربیت ان کی سے شایستگیِ حال و آراستگیِ مقال بہ ہمہ وجوہ حاصل کی۔ جو بیچ تہذیب اخلاق و حسن معاش کے بہرہ وافر رکھتا تھا، شبانہ روز اوقات عزیز کے تئیں، بیچ صحبت ارباب فضل و کمال کے سُننے حکایات رنگیں و افسانہ ہائے شیریں کے سے تمتُع کافی حاصل کرتا۔ اتفاقاً ایک روز اصحاب فِطنت
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۱۰۵

و خبرت سے ایک شخص نے کہ بیچ مطالعہ کتب تواریخ کے مہارت تمام رکھتا تھا، ذِکراً بلبل زبان کے تئیں بیچ سبزہ زار محفل مسرت کے بہ ترنُم تعریف حاتم طائی کے اس طور سے کہ صدائے سخاوت و مروت اُس کے کی بیچ گلشنِ دہر کے قیامت تک مترنم رہے گی، نخمہ سرا کیا۔ بندہ نے کہا اگر مجملاً کیفیت حال اُس کے سے بیان کرے تو میں بھی سمع دل کے سے مستمع ہو کر اطلاع حاصل کروں۔

اُس عزیز نے طوطیِ شیریں مقالِ ناطقہ کے تئیں بہ تقریر حکایت دل پذیر احوال حاتم کے بہ طریق اجمال کے شکر ریز تکلم کا کیا کہ ایام سلف میں جس وقت نوفل نامی ایک شخص رؤسا عرب سے، ساتھ حاتم کے مُنازعت و مُخاصمت سے پیش آ کے لشکر جرار سے مستعد کارزار کا ہوا، اس وقت حاتم نے بہ مقتضائے کرم جِبلِی کے بہ خیال اس کے بیچ میدان جدال و قِتال کے خون بندہ ہائے الٰہی کا ناحق وبال گردن میر ی کا ہو گا، اپنے تئیں بہ جان واحد کے بیچ کنج ایک غار کے مخفی و متواری کیا۔ بہ مُجرد اِستماع خبر غائب ہونے حاتم کے نوفل نے تمامی متاع و اِملاک کے تئیں ضبط کر کے اذن عام دیا کہ جوکوئی سر حاتم کا لاوے، دو سو اشرفی انعام پاوے۔ جو ہر ایک کے تئیں ہو اور حِرص زر کی دامن گیر ہے، ایک عالم بہ توقع اشرفیوں کے واسطے تلاش حاتم کے اُٹھا، اتفاقاً نزدیک اُس غار کے ایک پیر مرد نے بادوسہ بچہ صغیر اور ایک پیر زن بہ تہیہ ہیزم کشی کے گزر کیا۔ ازبس کہ تلاش حاتم کی شہرۂ آفاق تھی، اس حالت میں پیرزن نے پیر مرد سے کہا کہ کاش اگر رہبریِ طالع و یاوریِ بخت کے سے حاتم ہمارے ہاتھ آوے، تو خراب آبادِ مفلسی و پرشانی بیچ شہرستان جمعیت و شادمانی کے پہنچ کر شاخسار مُراد کے سے گل کامیابی چُنیں۔ پیر مرد نے کہا، یہ سچ ہے؂

اگر عدم سے نہ ہو ساتھ فکر روزی کا
تو اب و دانہ کو لے نہ ہو گُہر پیدا
نہیں میں طالب رزق آسمان سے کہ مجھے
یقیں ہے کاسۂ واژوں میں کچھ نہیں ہوتا
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۱۰۶

وے نصیب کہاں کہ اپنا کاسۂ اُمید صہبائے کامرانی کے سے لبریز ہو تو اپنے شغل میں رہ۔

ع : ہرچہ نصیب است بہ تومی رسد

لاچار پیرزن مایوس ہو کر خاموش رہی۔ اس عرصہ میں حاتم کہ مُتصل غار کے درمیان غار کے تھا ستاھ، کرم و ہمت و سخاوت و مروت اس کی مُقتضی نہ ہوئی کہ باوجود سُننے اس بات کے نقد جاں کے تئیں نثار استدعا پری مرد کے نہ کرے اور اس مفلوک بے چارہ کے تئیں وِرطۂ احتیاج کے سے اوپر ساحل جمعیت کے نہ پہنچاوے۔ واقعی اگر آدمی کے تئیں کرم نہ ہو، مانند باغ کے ہے کہ گُل ندارت اور جس دل میں رحم نہ ہو، مانند ایاغ کے ہے کہ مُل ندارد، بہ قول تحسینؔ؂

شیشہ ہے بے شراب کا، جس دل میں تو نہ ہو
کس کام کا وہ گل ہے کی جس گل میں بو نہ ہو

پس حاتم نے غار سے اُٹھ کر پیر مرد سے کہا کہ اے عزیز حاتم میں ہوں تو اپنے ساتھ میرے تئیں نزدیک نوفل کے لے جا کے کیسۂ آرزو کے تئیں متاع امید کی سے پُر کر :

ع : خنک آں کس کہ گوئے نیکی بُرد

پیر مرد نے کہا کہ فی الواقعہ میرے تئیں فلاح و بہبود اپنی مسلم ہے لیکن نہ اس صورت سے کہ دست طمع کا ناحق خون تیرے سے آلودہ کروں۔ استغفرُ اللہ یہ وہ مثل ہے کہ بارہ برس پیچھے روزہ کھولا تو چرکین سے۔ تو ہرگز مُصر اس بات کا نہ ہو۔ مجھ سے یہ حرکت لغو زینہار نہیں ہونے کی کہ مرد آدمی کے نزدیک اس طرح رفعت حاجت اپنی محض دوں ہمتی و بے حمیتی ہے۔ حاتم نے ہر چند مبالغہ کیا، انکار اس کا کم نہ ہوا۔ لاچار حاتم نے کہا، اگر تو میرے تئیں نہیں لے چلتا تو میں خود بخود شاہ سے جا کر اظہار کرتا ہوں کہ فلانے شخص نے میرے تئیں بیچ غار کے پنہاں کیا تھا۔ آخرش پیر مرد وہاں سے باہر نکل کر لگا کہنے کہ جو،
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۱۰۷

جو خدا دکھائے سو لاچار دیکھنا، یہ بھی اپنی قسمت ہے کہ نیکی برباد گناہ لازم۔ اس گفتگو میں انبوہ مردم کا جمع ہوا اور حاتم کے تئیں دستگیر کر کے حضور نوفل کے گئے، پیچھے پیچھے بڈھا بھی اس گروہ میں شامل ہوا۔ نوفل نے پوچھا کہ حاتم کے تئیں کون لایا۔ ایک عزیز کہ سرگروہ لشکر شیطان کے تھے، بولےکہ یہ عرش پر جھنڈا ہم نے گاڑا اور ایک عزیز اُس سے بھی پرے چلے۔ غرض ہر ایک اپنی اپنی ترنگ میں خوش تھا گویا دو سو اشرفیوں کا توڑا باندھ کے لے تو جاویں گے لیکن پیر مرد، بیچارہ خاموش ایک گوشہ میں کھڑا ہوا، تماشا قدرت الٰہی کا ملاحظہ کرتا تھا۔ اس عرصہ میں حاتم نے نوفل سے کہا کہ اگر مجھ سے سُنے تو راست کہوں کہ میرے تئیں وہ پری مرد کہ ایک گوشہ میں غریب سا کھڑ اہے لے آیا۔تیرے تئیں لیاقت ہو تو قِیافہ سےسمجھ دیکھ اور مُوافق اُس کے شرط اخلاص کی بجا لا اور داد اخلاق کی دے، کہ خلق مُحمدی نور ایک چراغ ہدایت کا ہے کہ بیچ ایوان مزاج ہر اہل مزاج کے درخشاں ہو رہا ہے اور یہ جلوہ اُسی کی جوت کا ہے کہ وہ لعل شب چراغ درمیان نگیں خاتم سلیمانی لیل و نہار کے حلیہ دست قدرت خدا کا ہے۔ اس وقت نوفل نے پیر مرد کے تئیں نزدیک بُلا کر استفسار ماجرے کا کیا۔ اس عزیز نے تمام قصہ ابتدا سے انتہا تک نقل کیا۔ نوفل نے اس بات کے سننے سے نہایت متحیر اور محجوب ہو کر اُس مردود جھوٹے بدذات کے تئیں کہ مگس چِرکیں طمع کی بن کر اشرافیوں کی لالچ میں گرفتار کرنا حاتم سے شخص مخیر کا روا رکھ کر بولا تھا کہ عرش پر جھنڈا ہم نے گاڑا، نوفل نے نپت زجر و توبیخ سے کہا کہ اے حارِث ملعون، سچ کہہ یہ کیا حرامزدگی تھی کہ حاتم بے چارے پر وار کیا تھا۔ ائیے، لیجیے اشرفیاں موجود ہیں اور مشکیں بندھوا کر ایسی پاپوش کاری کی کہ سر گنجا ہو کر مانند تونبی کے بن گیا، مجھے تو ہنسی اس بات پر آتی ہے کہ ایک کِلاونت اُس وقت حاتم کی گرفتاری کا بِدھاوا گانے آیا تھا، یہی گا رہا تھا کہ یہ تو نبا میرے طنبورے کے واسطے عنایت ہو۔ تب نوفل نے تبسم کر کے اُسے چھوڑ دیا اور اپنی محفل میں ذکر کیا کہ جھوٹ بولنا ایسی بد بلا ہے کہ مرد آدمی کے نزدیک کوئی گناہ اِس سے بدتر نہیں، خدا کسی کے نصیب نہ کرے استغفر اللہ میرے
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۱۰۸

نزدیک تو اگر فرشتہ بھی جھوٹا ہو تو واللہ وہ بھی شیطان ہے۔ آخرش نوفل نے اوپر جواں مردی و بزرگ ہمتی حاتم کے ہزار آفریں کر کے تصور کیا کہ ساتھ ایسے شخص کے کہ بیچ غمخوارگی بیچارگان عالم بے سرانجامی کے اپنی جان سے دریغ نہ کرے اور رضائے حق کے تئیں رضا اپنی پر مقد رکھے، خشونت و خصومت رکھنا، شرط مروت و فُتوت کی نہیں بلکہ سخت دوں ہمتی و پست فطرتی جاننا چاہیے، پس نہایت تپاک سے حاتم سے کہا، سُبحان اللہ؂

لکھے ثنائے جود کا تیری جو ایک حرف
نقطہ نہ پاوے راہ قلم کی زباں تلک
تجھ سا نہیں ہے ایک زمانے میں بے مثال
دیتا ہے تو جو داد سخاوت کی یاں تلک

اور لوازم اِکرام و احترام اس کے سے کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ کر کے ازسر نو اوپر مسندحکومت و ریاست کے متمکن کیا۔

سنتے ہو صاحبو، جس وقت زبانی اُس جلیس محفل بلاغت کے قصہ حاتم کا بیچ سماع میرے کے پہنچا۔ موج سخاوت کی بیچ دریائے ددل، میرے کے جوش میں آئی اور بیچ خیال میرے کے گزرا کہ حاتم نجیائے عرب کے سے ایک شخص تھا کہ علم سخاوت کا اس درجہ بلند کیا اور میرے تئیں واہب بے ہمتا نے فرمانروائے ملک فارس کا کیا ہے، اگر نعمت عظمیٰ فیض بخشی و فیض رسانی کے سے محروم رہوں تو واقعی جائے فراواں تأسف و حسرت کی ہے اور اپنے جی میں جو سوچتا ہوں تو واقعی دنیا میں کوئی امر شریف تر سخاوت سے نہیں۔ پس اُسی وقت کار پردازان حضور کے تئیں حکم کیا کہ ایک عمارت عظیم الشان چالیس در نہایت مرتفع و بلند بیرون شہر پناہ کے درست کرو۔ چنانچہ چند روز میں ایک مکان وسیع رفیع حست دلخواہ میرے تیار ہوا اور میں صبح سے شام تک دست سخاوت سے موتی ثواب کے چنتا۔ یعنی جس در سے ارباب حاجب کف سوال کی کھولتے، زربخشی و گہر ریزی سے دامن اہل مراد کا پُر کرتا۔ اتفاقاً ایک روز ایک قلندر نے ایک دروازے سے آ کے سوال کیا۔ میں نے اُس کے سوال کا جواب بالصواب دیا۔ وہ پھر دوسرے دروازے
 
Top