صابرہ امین
لائبریرین
صفحہ 70 سے 75 تک
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ص 70
وہ ماہ شب چار درہم رونق افزاحدیقہ فردوں پیرا کی ہو کر اوپر مسند زربفت نقرہ کے جلوہ آرا ہوئی ۔ واہ جی واہ جس وقت وہ قمر طلعت داخل باغچہ نمونہ جنت کے ہوئی، عطر گلاب رخسارہ زلیخائے شبِ مہتاب کا، تقویت بخش دماغ تماشائیوں کا ہو کے، زینت آرا بزم کامرانی کا ہوگیا اور یوسف عکس بیاض نگینہ ہائے الماس انجم کا، او پر خاتم مینا رنگ سبز ریاض خُلد آئین کے زیب افزا دہدہ نورانی کا ہوا
کنِّے کیا خرام چمن میں کہ اب صبا
لاتی ہے بوئے ناز سے بھر بھر کے جھولیاں
نوعروسان شبّو 226 کیں او پر فرش چاندنی کے لباسِ نَقرہ سے بہار افروز بزم دل فریبی ودلر بائی کی تھیں اور ماہ رویان نُسترن کیں اوپر بساط چمن کے خلعت سیمیں سے رونق افروز خوبروئی وخوشنمائی کی تھیں
جوں ہی آئی بزم میں وہ ماہرو سیمیں عذار
ہوگیا مہتاب پر کچھ اور ہی نور آشکار
کیا قیامت شکل تھی، مہتاب جس کے حُسن کو
دیکھتا تھا دورہی سے آنکھ اپنی پھاڑ پھاڑ
کیا کروں تعریف اس کی نقرئی پوشاک کی
موج دریا میں ہو جیسے ماہ تاباں کی بہار
زیورِ الماسی میں دیکھا چُپھے نور جمال
ماہ کی ہووے جھلک، جوں درمیان آبشار
وقتی کیا سپر ہے تحسیں کہ کچھ کہنا نہیں
جب میسر ہو کبھی، اس جی کو کردیجئے نثار
بہ مجرد ۲۲۷ جلوہ آرا ہونے اُس شمع شبستان حُسن و جمال کے یہ فقیر مانند پروانے کے تصدّق ۲۲۸ ہو کر بصورت بندہ ہائے جاں نثار کے رو برو آ کے حاضر ہوا۔ اس عرصہ میں
ص 71
خواجہ سرا بیچ سفارش میری کے کچھ کلمہ خیر بولا ۔ فقیر نیں اُس وقت طرف خواجہ سرا کے مخاطب ہو کے کہا، کہ میاں
جو گزری مجھ پہ اُسے مت کہو، ہوا سو ہوا
بلا کشانِ محبت پہ، جو ہوا سو ہوا
ناز نیں از بس کہ عبارکدورت کا میری طرف سے بیچ خاطر کے رکھتی تھی، ایک بددماغی سے میری طرف متوجہ ہو کے بولی کہ اب صلاح وقت یہی ہے کہ سوتوڑے دینار سرخ کے
زادِراہ لے کر وطن مالوف کو سدھار یے ۔ فقیر کہ سوخته آتش عشق و محبت کا تھا، سنتے ہی اس بات کے ، آهِ سرد دلِ پُردرد سے بَر لا یا۔ جو وقت تلف ہونے حق کے سوائے چارہ ساز حقیقی کے کوئی دادرس اس بیچارے کا نظر نہ پڑا۔ لا چار نائرہ تاسف کا بھٹّی سینہ سے مُلتَہِب ۲۲۹ کر کے اس شعر کے تئیں بے اختیار پڑھ کر رویا
داد کو پہنچا نہیں فرہاد ناحق مرگیا
دیکھ لی ہم نے خدا تیری خدائی واه واه
اور اُس کی خدمت میں گزارش کیا کہ یقین خاطر عالی کے ر ہے اگر اس عاجز کے تئیں طمع دينار و درم کی ہوتی تو جان و مال سے تصدّق فرق مبارک کے نہ ہوتا لیکن افسوس کے زمانے
سے مَراتب حقوق شناسی کے اٹھے، جب معشوق خانہ خراب نیں اس قدر بے مہری کو کا م فرمایا تب کسی عاشق کمبخت نے یہ واسوخت تحریر خامہ سوز و گداز کا کیا ہے کہ جس کا یہ بند حسب حال اپنے پڑھتا ہوں
تم سے امیدیہ تھی ، دل کومرے شاد کرو
نہ کہ اُلفت کے تئیں چھوڑ کے بیداد کرو
خاکساری مری ناحق تو نہ برباد کرو
کچھ تو اس فدویت اگلی سے تئیں یاد کرو
ص 72
کہ کوئی مجھ بغیر اُس وقت خریدار نہ تھا
حالتِ غم میں کوئی مونس و غم خوارنہ تھا
اس بات کو گوش کر کے اُس شیریں زبان نے برہم ہو کے کہا۔ چہ خوش، مینڈ کی کو بھی زکام ہوا۔ اے عزیز تو دیوانہ ہوا ہے کہ اندازہ سے قدم باہر رکھ کے سودائے حال بیچ سر بے مغز کے پکاتا ہے، از برائے خدا اس گفتگو بے معنی سے درگزر۔ اگر اور کسی سے یہ ادائے خارج عمل میں آتی ، واللّٰہ کہ مارا جاتا، پرتجھ سے کچھ کہنانہیں لیکن بہتر یہ ہے کہ اب آپ اپنی راہ لیجیے کہ بیچ لوح تقدیر کے آب و خورد تیری ہمارے پاس یہیں تک لکھی تھی۔ اس وقت فرہاد دشت بلا کا آنکھوں میں آنسو بھر لا کے بولا۔ اگر بیچ دیوان مشیّت کے منشور نا کامی کا میرے نام ہی پر ثبت ہے، تو خیر
واجب القتل ہیں ہم لائق تلوار ہیں ہم
ہاں میاں سچ ہے کہ ایسے ہی گنہگار ہیں ہم
وہی لیلیٰ ناقہ ۲۳۰ بددماغی کی اس بات کے سننے سے اور بھی خفا ہوئی اور کہا کہ رمز وایما کی بات چیت اپنے تئیں خوش نہیں آتی۔ یہ اشارہ اور کنایہ کسی اور سے کر، اختلاط پیش از آشنائی چہ معنی
یہ بھی کوئی طرز ہے، کہنے کی کسی سے ناداں
دردسر زیادہ نہ کر، چپ ہو، بس اب زیادہ بک
یہ کہہ کر عالم خفگی میں خراماں خراماں متوجہ دولت سرا کے ہوئی۔ پھر میں نیں ہر چندسر پٹکا، اس طرف رُخ توجہ کانہ فرمایا۔ لاچاریہ مجنوں صحرائے بیخودی کا ساتھ دلِ بریاں و دیدہ گریاں کے اس مکان سے مایوس ہو کے اُٹھا اوراسی ساعت سے چالیس روز تک شبانہ روز حیران و پریشان بیچ عالم دیوانگی کے کوچ گردی و صحرانوردی میں بے خواب و خَور ۲۳۱ مانند
مجذوبوں کے مخمس حضرت تحسین صاحب کا کہ بعینہ حسب حال فقیر کے تھا ، پڑھ پڑھ کے
ص 73
روتا پھرتا تھا:
مخمس
ارے قاصد تو جا کر یار کے کوچہ میں کہہ آنا
کہ تحسیں عشق میں تیرے سدا رہتا ہے دیوانا
تری حسرت میں اُس کو رات دن رہتا ہے غم کھانا
یہ حالت ہوگئی اُس کی نہیں جاتاہے پہچانا
لبوں پر جان ہے اّس کی کہ جیوں لبریز پیمانا
شب فرقت میں تیری سخت بیتابی سے روتا ہے
نہ دن کو چین ہے اُس کو نہ د کھ ہے رات سوتاہے
نہ اُس کو کچھ دوا سے ہو، نہ کچھ افسوں سے ہوتا ہے
نپٹ ہی گریہ وزاری سے اپنے جی کوکھوتا ہے
تجھے لازم ہے اُس تک ایک دن تشریف لے جانا
کبھی سودائیوں کی طرح سیتی آہ بھرتا ہے
کبھی دیوانگی سیتی گریباں چاک کرتا ہے
کبھی مجنوں صفت گھر چھوڑ کر صحرا میں پھرتا ہے
کبھی فرہاد کی صورت لگا تیشے کو مرتا ہے
کبھی مانند پروانہ کے خاکستر ہو جل جانا
کبھی گھبرا کے اشک آنکھوں میں بھر لاتا ہے رقّت سے
کبھی سوزِ درونی سے جلے ہے غم کی حدّت سے
کبھی جھنجھلا کے جی دینے پر آجاتا ہے دقّت سے
کبھی مرنے کی رکھتاہے تمنا دکھ کی شدت سے
کبھی مجذوب کی صورت سے سنگِ کودکاں کھانا
ص 74
کوئی کہتا ہے سودا ہے اسے، فصّاد ۲۳۲ کو لاؤ
کوئی کہتا ہے، کچھ آسیب ہے، سیانے کو دکھلاؤ
کوئی کہتا ہے عاشق ہے، کہیں واں اس کو لیجاؤ
طبیب عشق کی دوکان کوئی اس کو بتلاؤ
علاج اس کا یہی ہے شربتِ دیدار پلوانا
نہ اس کو چین سے مقصد، نہ ہے آرام کی خواہش
نہ کچھ مینا سے مطلب ہے، نا اس کوجام کی خواہش
نہ کچھ رسوا کے ہونے سے غرض، نَے نام کی خواہش
دوانہ ہو کے رکھتا ہے، سدادشنام کی خواہش
مگر حاصل ہے اس کو عمر سے ساقی کا آجانا
جسے گزری نہیں، راز دل، بیتاب کیاجانے
جگر جلنے کی لذّت آگ پر، سیماب کیاجانے
مراتب دوستی کے، تارک الاحباب، کیاجانے
کوئی بے مہر ، حال دیده پُرآب کیاجانے
عبث ہے داستانِ غم تجھے رو رو کے سمجھانا
جو مدار زندگی انسان ضعیف البنیان کامحض او پراَ َکل وشُرب ۲۳۳ کے ہے، لاچار عالم بے طاقتی میں حرکت مَذ بوحی ۲۳۴ سے بھی معذور ہوکر زیر دیوار اُسی مسجد کے جا پڑا اور آہستہ
آہستہ وے اشعارمخمس کے زبان حال کی سے پڑھتا تھا۔ اتفاقاً ایک روز اسی خواجہ سرانے بہ تہیہ نماز جمعہ کے اُسی حالت میں اوپر سر میرے کے گزر گیا۔ ہر چند فقیر حالت بیخودی میں اصلاً صورت اپنی بحالت اصلی درست نہ رکھتا تھا لیکن از بسکہ آثار حزن و ملال کا پڑھنے اشعار درد آمیز کے سے او پر چہرے میرے کے آشکار تھا۔ خواجہ سرا نے احوال میر املاحظہ
کر کے نہایت خون جگر کا کھایا اور بہ مقتضائے رحم دلی کے نپٹ ہی دلسوزی سے میری طرف
ص 75
خطاب کر کے کہا
دیکھا تھا اُن دنوں میں یہ چنگا بھلا غریب
عاشق ہو ئے سے پہنچ گیا مرگ کے قریب
یاں کون در دَرس ہے ترا اور کہاں طبیب
اس مرض سے لکھا تھا، جو مرنا تو یا نصیب
عاشق تو کیوں ہوا تھا سزا ہے تری یہی
تب میں نے کہا کیا کیجیئے
جان اُس کا ہے، دل اُس کا ہے، جگر اس کا ہے
تیرِ بیدادجدھر رُخ کرے، گھر اُس کا ہے
چنانچہ مطابق اُس کے ہے، دل اُس کے ایک کَبِت بھی یاد ہے:
کَبِت
نار نار کیوں نہ تجوں، نین نین کیوں نہ تجوں، سیسں سیسں کیوں نہ تجوں ، جاوے یاہی تن تیں تن کیوں نہ جر جاؤ ، جز کیوں نہ جھاڑ ہو جاؤ ، جھاڑ کیوں نہ اُڑ جا ؤ برہا کی پَوَن تیں
یہ حال، یہ جیو، تبھ بن، آوے جبھ بنواری آویں، یا آوے واہی بن تیں رنگ جاؤ ، روپ جاؤ، جے لے ہوے سوہی جاؤ مادھو جی کی ہُسیت نہ جاؤ میرے من تیں اور ایک مضمون موافق اس کے اور پڑھا:
عشرت سے دو جہاں کی، یہ دل ہاتھ دھوسکے
اُس کے قدم کو چھوڑ سکے، یہ نہ ہوسکے
آخِرش بعد تاسّف تمام کے ایک شخص کے تئین نزدیک میرے چھوڑ کر آپ واسطے ادائے نماز کے متوجہ مسجد کا ہوا، اور وقت معاودَت کے فقیر کے تئین درمیان ایک میانے کے سوار کر کے ہمراہ اپنے بیچ خدمت اُس تخت نشیں کِشور غرور کے لے جا کے چِلوَن کے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ص 70
وہ ماہ شب چار درہم رونق افزاحدیقہ فردوں پیرا کی ہو کر اوپر مسند زربفت نقرہ کے جلوہ آرا ہوئی ۔ واہ جی واہ جس وقت وہ قمر طلعت داخل باغچہ نمونہ جنت کے ہوئی، عطر گلاب رخسارہ زلیخائے شبِ مہتاب کا، تقویت بخش دماغ تماشائیوں کا ہو کے، زینت آرا بزم کامرانی کا ہوگیا اور یوسف عکس بیاض نگینہ ہائے الماس انجم کا، او پر خاتم مینا رنگ سبز ریاض خُلد آئین کے زیب افزا دہدہ نورانی کا ہوا
کنِّے کیا خرام چمن میں کہ اب صبا
لاتی ہے بوئے ناز سے بھر بھر کے جھولیاں
نوعروسان شبّو 226 کیں او پر فرش چاندنی کے لباسِ نَقرہ سے بہار افروز بزم دل فریبی ودلر بائی کی تھیں اور ماہ رویان نُسترن کیں اوپر بساط چمن کے خلعت سیمیں سے رونق افروز خوبروئی وخوشنمائی کی تھیں
جوں ہی آئی بزم میں وہ ماہرو سیمیں عذار
ہوگیا مہتاب پر کچھ اور ہی نور آشکار
کیا قیامت شکل تھی، مہتاب جس کے حُسن کو
دیکھتا تھا دورہی سے آنکھ اپنی پھاڑ پھاڑ
کیا کروں تعریف اس کی نقرئی پوشاک کی
موج دریا میں ہو جیسے ماہ تاباں کی بہار
زیورِ الماسی میں دیکھا چُپھے نور جمال
ماہ کی ہووے جھلک، جوں درمیان آبشار
وقتی کیا سپر ہے تحسیں کہ کچھ کہنا نہیں
جب میسر ہو کبھی، اس جی کو کردیجئے نثار
بہ مجرد ۲۲۷ جلوہ آرا ہونے اُس شمع شبستان حُسن و جمال کے یہ فقیر مانند پروانے کے تصدّق ۲۲۸ ہو کر بصورت بندہ ہائے جاں نثار کے رو برو آ کے حاضر ہوا۔ اس عرصہ میں
ص 71
خواجہ سرا بیچ سفارش میری کے کچھ کلمہ خیر بولا ۔ فقیر نیں اُس وقت طرف خواجہ سرا کے مخاطب ہو کے کہا، کہ میاں
جو گزری مجھ پہ اُسے مت کہو، ہوا سو ہوا
بلا کشانِ محبت پہ، جو ہوا سو ہوا
ناز نیں از بس کہ عبارکدورت کا میری طرف سے بیچ خاطر کے رکھتی تھی، ایک بددماغی سے میری طرف متوجہ ہو کے بولی کہ اب صلاح وقت یہی ہے کہ سوتوڑے دینار سرخ کے
زادِراہ لے کر وطن مالوف کو سدھار یے ۔ فقیر کہ سوخته آتش عشق و محبت کا تھا، سنتے ہی اس بات کے ، آهِ سرد دلِ پُردرد سے بَر لا یا۔ جو وقت تلف ہونے حق کے سوائے چارہ ساز حقیقی کے کوئی دادرس اس بیچارے کا نظر نہ پڑا۔ لا چار نائرہ تاسف کا بھٹّی سینہ سے مُلتَہِب ۲۲۹ کر کے اس شعر کے تئیں بے اختیار پڑھ کر رویا
داد کو پہنچا نہیں فرہاد ناحق مرگیا
دیکھ لی ہم نے خدا تیری خدائی واه واه
اور اُس کی خدمت میں گزارش کیا کہ یقین خاطر عالی کے ر ہے اگر اس عاجز کے تئیں طمع دينار و درم کی ہوتی تو جان و مال سے تصدّق فرق مبارک کے نہ ہوتا لیکن افسوس کے زمانے
سے مَراتب حقوق شناسی کے اٹھے، جب معشوق خانہ خراب نیں اس قدر بے مہری کو کا م فرمایا تب کسی عاشق کمبخت نے یہ واسوخت تحریر خامہ سوز و گداز کا کیا ہے کہ جس کا یہ بند حسب حال اپنے پڑھتا ہوں
تم سے امیدیہ تھی ، دل کومرے شاد کرو
نہ کہ اُلفت کے تئیں چھوڑ کے بیداد کرو
خاکساری مری ناحق تو نہ برباد کرو
کچھ تو اس فدویت اگلی سے تئیں یاد کرو
ص 72
کہ کوئی مجھ بغیر اُس وقت خریدار نہ تھا
حالتِ غم میں کوئی مونس و غم خوارنہ تھا
اس بات کو گوش کر کے اُس شیریں زبان نے برہم ہو کے کہا۔ چہ خوش، مینڈ کی کو بھی زکام ہوا۔ اے عزیز تو دیوانہ ہوا ہے کہ اندازہ سے قدم باہر رکھ کے سودائے حال بیچ سر بے مغز کے پکاتا ہے، از برائے خدا اس گفتگو بے معنی سے درگزر۔ اگر اور کسی سے یہ ادائے خارج عمل میں آتی ، واللّٰہ کہ مارا جاتا، پرتجھ سے کچھ کہنانہیں لیکن بہتر یہ ہے کہ اب آپ اپنی راہ لیجیے کہ بیچ لوح تقدیر کے آب و خورد تیری ہمارے پاس یہیں تک لکھی تھی۔ اس وقت فرہاد دشت بلا کا آنکھوں میں آنسو بھر لا کے بولا۔ اگر بیچ دیوان مشیّت کے منشور نا کامی کا میرے نام ہی پر ثبت ہے، تو خیر
واجب القتل ہیں ہم لائق تلوار ہیں ہم
ہاں میاں سچ ہے کہ ایسے ہی گنہگار ہیں ہم
وہی لیلیٰ ناقہ ۲۳۰ بددماغی کی اس بات کے سننے سے اور بھی خفا ہوئی اور کہا کہ رمز وایما کی بات چیت اپنے تئیں خوش نہیں آتی۔ یہ اشارہ اور کنایہ کسی اور سے کر، اختلاط پیش از آشنائی چہ معنی
یہ بھی کوئی طرز ہے، کہنے کی کسی سے ناداں
دردسر زیادہ نہ کر، چپ ہو، بس اب زیادہ بک
یہ کہہ کر عالم خفگی میں خراماں خراماں متوجہ دولت سرا کے ہوئی۔ پھر میں نیں ہر چندسر پٹکا، اس طرف رُخ توجہ کانہ فرمایا۔ لاچاریہ مجنوں صحرائے بیخودی کا ساتھ دلِ بریاں و دیدہ گریاں کے اس مکان سے مایوس ہو کے اُٹھا اوراسی ساعت سے چالیس روز تک شبانہ روز حیران و پریشان بیچ عالم دیوانگی کے کوچ گردی و صحرانوردی میں بے خواب و خَور ۲۳۱ مانند
مجذوبوں کے مخمس حضرت تحسین صاحب کا کہ بعینہ حسب حال فقیر کے تھا ، پڑھ پڑھ کے
ص 73
روتا پھرتا تھا:
مخمس
ارے قاصد تو جا کر یار کے کوچہ میں کہہ آنا
کہ تحسیں عشق میں تیرے سدا رہتا ہے دیوانا
تری حسرت میں اُس کو رات دن رہتا ہے غم کھانا
یہ حالت ہوگئی اُس کی نہیں جاتاہے پہچانا
لبوں پر جان ہے اّس کی کہ جیوں لبریز پیمانا
شب فرقت میں تیری سخت بیتابی سے روتا ہے
نہ دن کو چین ہے اُس کو نہ د کھ ہے رات سوتاہے
نہ اُس کو کچھ دوا سے ہو، نہ کچھ افسوں سے ہوتا ہے
نپٹ ہی گریہ وزاری سے اپنے جی کوکھوتا ہے
تجھے لازم ہے اُس تک ایک دن تشریف لے جانا
کبھی سودائیوں کی طرح سیتی آہ بھرتا ہے
کبھی دیوانگی سیتی گریباں چاک کرتا ہے
کبھی مجنوں صفت گھر چھوڑ کر صحرا میں پھرتا ہے
کبھی فرہاد کی صورت لگا تیشے کو مرتا ہے
کبھی مانند پروانہ کے خاکستر ہو جل جانا
کبھی گھبرا کے اشک آنکھوں میں بھر لاتا ہے رقّت سے
کبھی سوزِ درونی سے جلے ہے غم کی حدّت سے
کبھی جھنجھلا کے جی دینے پر آجاتا ہے دقّت سے
کبھی مرنے کی رکھتاہے تمنا دکھ کی شدت سے
کبھی مجذوب کی صورت سے سنگِ کودکاں کھانا
ص 74
کوئی کہتا ہے سودا ہے اسے، فصّاد ۲۳۲ کو لاؤ
کوئی کہتا ہے، کچھ آسیب ہے، سیانے کو دکھلاؤ
کوئی کہتا ہے عاشق ہے، کہیں واں اس کو لیجاؤ
طبیب عشق کی دوکان کوئی اس کو بتلاؤ
علاج اس کا یہی ہے شربتِ دیدار پلوانا
نہ اس کو چین سے مقصد، نہ ہے آرام کی خواہش
نہ کچھ مینا سے مطلب ہے، نا اس کوجام کی خواہش
نہ کچھ رسوا کے ہونے سے غرض، نَے نام کی خواہش
دوانہ ہو کے رکھتا ہے، سدادشنام کی خواہش
مگر حاصل ہے اس کو عمر سے ساقی کا آجانا
جسے گزری نہیں، راز دل، بیتاب کیاجانے
جگر جلنے کی لذّت آگ پر، سیماب کیاجانے
مراتب دوستی کے، تارک الاحباب، کیاجانے
کوئی بے مہر ، حال دیده پُرآب کیاجانے
عبث ہے داستانِ غم تجھے رو رو کے سمجھانا
جو مدار زندگی انسان ضعیف البنیان کامحض او پراَ َکل وشُرب ۲۳۳ کے ہے، لاچار عالم بے طاقتی میں حرکت مَذ بوحی ۲۳۴ سے بھی معذور ہوکر زیر دیوار اُسی مسجد کے جا پڑا اور آہستہ
آہستہ وے اشعارمخمس کے زبان حال کی سے پڑھتا تھا۔ اتفاقاً ایک روز اسی خواجہ سرانے بہ تہیہ نماز جمعہ کے اُسی حالت میں اوپر سر میرے کے گزر گیا۔ ہر چند فقیر حالت بیخودی میں اصلاً صورت اپنی بحالت اصلی درست نہ رکھتا تھا لیکن از بسکہ آثار حزن و ملال کا پڑھنے اشعار درد آمیز کے سے او پر چہرے میرے کے آشکار تھا۔ خواجہ سرا نے احوال میر املاحظہ
کر کے نہایت خون جگر کا کھایا اور بہ مقتضائے رحم دلی کے نپٹ ہی دلسوزی سے میری طرف
ص 75
خطاب کر کے کہا
دیکھا تھا اُن دنوں میں یہ چنگا بھلا غریب
عاشق ہو ئے سے پہنچ گیا مرگ کے قریب
یاں کون در دَرس ہے ترا اور کہاں طبیب
اس مرض سے لکھا تھا، جو مرنا تو یا نصیب
عاشق تو کیوں ہوا تھا سزا ہے تری یہی
تب میں نے کہا کیا کیجیئے
جان اُس کا ہے، دل اُس کا ہے، جگر اس کا ہے
تیرِ بیدادجدھر رُخ کرے، گھر اُس کا ہے
چنانچہ مطابق اُس کے ہے، دل اُس کے ایک کَبِت بھی یاد ہے:
کَبِت
نار نار کیوں نہ تجوں، نین نین کیوں نہ تجوں، سیسں سیسں کیوں نہ تجوں ، جاوے یاہی تن تیں تن کیوں نہ جر جاؤ ، جز کیوں نہ جھاڑ ہو جاؤ ، جھاڑ کیوں نہ اُڑ جا ؤ برہا کی پَوَن تیں
یہ حال، یہ جیو، تبھ بن، آوے جبھ بنواری آویں، یا آوے واہی بن تیں رنگ جاؤ ، روپ جاؤ، جے لے ہوے سوہی جاؤ مادھو جی کی ہُسیت نہ جاؤ میرے من تیں اور ایک مضمون موافق اس کے اور پڑھا:
عشرت سے دو جہاں کی، یہ دل ہاتھ دھوسکے
اُس کے قدم کو چھوڑ سکے، یہ نہ ہوسکے
آخِرش بعد تاسّف تمام کے ایک شخص کے تئین نزدیک میرے چھوڑ کر آپ واسطے ادائے نماز کے متوجہ مسجد کا ہوا، اور وقت معاودَت کے فقیر کے تئین درمیان ایک میانے کے سوار کر کے ہمراہ اپنے بیچ خدمت اُس تخت نشیں کِشور غرور کے لے جا کے چِلوَن کے
آخری تدوین: