پروف ریڈ اول نو طرز مرصع

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۱۴۱

اُس نازنیں کی آنکھوں میں میرا مقام ہے
دل میں مرے خیال یہی صبح و شام ہے
اُس گلبدن کو میری طرف سے کوئی کہو
تیری جُدائی کا مجھے اب غم تمام ہے

بدیں مِنوال بے استقلال تین سال گرفتا رنج و نکال کا تھا اس عرصے میں ایک سوداگر بامال و زر با کر و فر وارد ہوا و تحفہ ہائے ہر ولایت و اقلیم کے بہ آں صاحب تاج و دیہیم و خداوند ناز و نعیم کے گزرانے اور شرف ملازمت، عالی جناب کرامت مآب کا حاصل کیا۔ بادشاہ نے تفتیش حال طبیب ہر ولایت عجیب و غریب از دور و قرت کا کیا، اُس سیاح ممالک رُبع مسکوں اور دشت پیمائے کوہ و ہاموں کے نے عرض کیا کہ حضرت جہاں پناہ سلامت بیچ ولایت ہندوستان جنت نشان کے ایک جوگی پسر بہ نہایت حُسن و جمال اور علم حکمت میں صاحب کمال ایک جزیرے میں دنگ و دوال سے رہتا ہے۔

رباعی

جوگی پسرے نہفتہ در خاکستر
دُزدیدہ رُخ از لیلی و از مجنوں سر
در خاک فزوں شود جمالش آرے
آئینہ ز خاک می شود روشن تر

برس روز کے بعد ایک روز بہجت افروز کہ روز عید اُس کے کا مقرر ہے، ایک باغ بے زغن و زاغ میں سے بہ خاطر فراغ نکل کر بیچ دریا کے شناوری کرتا ہے اور بعد غسل وقت مُعاودت کے کہ بیماران و رنجوران ہر دیار کے اوپر دروازہ باغ کے از راہِ دور و دراز باعجز و نیاز، چارہ ساز بیچارگان عالم کا جان کر رجوع لاتےہیں اور فوج فوج جمع ہوتے ہیں، وہ افلاطون وقت اور بقراطِ زماں ایک نظر دیکھ کر بہ ملاحظہ نبض وقار ورے کے ایک ایک نسخہ لکھ
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۱۴۲

کر، ہر ایک کی گود میں ڈال دیتا ہے اور مریض بہ مجرد عمل کرنے کے شفائے کامل حاصل کرتا ہے۔ اگر حکم ہو تو شاہزادۂ عالی جاہ خلایق پناہ، سلطنت و اُیُہت دستگاہ کو بیچ جزیرہ مذکور کے پہنچا دوں۔ بادشاہ سننے اس بات کے سے مانند گُل کے شگفتہ و خنداں ہوا اور فرمایا کہ ازیں چہ بہتر اور مجھے ساتھ، ایک وزیر صاحب تدبیر اور اُس سوداگر کے روانہ کیا۔ بعود انقضائے چند مدت کے بفضل الٰہی اوپر منزل مقصود کے پہنچا۔ بارے آب و ہوا وہاں کی سے امیدوار زندگانی کا ہوا۔

رباعی

از فیض ہواش در تنم جاں آمد
یا قاصد خوش خبرز ملک جاناں آمد
بادل گفتم اے اسیرِ غم و درد
خوش باش کہ شام غم بپایاں آمد

اوپر دل میرے کے ایک فرحت حاصل ہوئی لیکن زبان کو یارائی گفتگو کی نہ تھی اور اشک بے اختیار چشمۂ چشم کے سے جاری تھے اور دل اپنے کو، ساتھ اس شعر کے تسلی کرتا تھا؂

رسید مژدہ کہ ایام غم نہ خواہد ماند
کسے ہمہشہ گرفتار غم نہ خواہد ماند
فراق و ہجر دلا دم بہ دم نہ خواہد ماند
ز یار رسم جفا و ستم نہ خواہد ماند
چناں نہ ماند چنیں نیز ہم نہ خواہد ماند

بعد اِنقضا کئی ایام کے قریب دو سہ ہزار مریض کے کہ امیدوار شفا کے تھے نہایت شادی اور مبارک بادی سے کہا کہ فردا روز عید سعید جوگی کا ہے۔ ان شاء اللہ تعالیٰ شفائے کامل نصیب ہر بیمار کو ہو گی۔ القصہ صبح کے وقت کہ خورشید جہاں تاب دریچہ مشرق کے سے برآمد
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۱۴۳

ہوا بعد ایک ساعت کے وہ نیر سپہر حسن و لطافت کا بر آیا اور کہا؂

در فراقِ یار جوگی گشتہ ام
بہر آں دلدارجوگی گشتہ ام
میل دارد شاہِ من با جوگیاں
زیں سبب لاچار جوگی گشتہ ام

اور بیچ دریاے مواج کے کہ متصل دیوار باغ کے تھا، واسطے غسل و شناوری کے گیا۔ بعد فراغ عبادت معہود کے طرف بیماران ہر ملک و دیار کے رُخ توجہ کا فرمایا اور ایک قلمدان مرصع در برد و دستار جوڑہ دار برسر برہنہ، لنگوٹ بند سینہ فراخ، چار شانہ، خوش شکل، خوبرو، بہ جُفت بُرۃوتِ تاب دادہ از تمتعات دنیوی آزاد، ایک ایک متنفس کو دیکھنا اور نسخہ دینا شروع کیا تاکہ نوبت مجھ تک پہنچی۔ میری طرف دیکھ کر اور متأمل ہو کر بعد فراغ جمیع بیماران و امیدواران کے میرے تئیں ہمراہ اپنے بیچ باغ کے لے گیا اور ایک مکان دلچسپ میں حکم رہنے کا فرمایا اور آپ بیچ ایک خلوت خانے کے گیا۔ بعد عرصۂ چہار روز کے میرے پاس آیا اور مجھ کو بہ ہمہ وجود خوش پایا تبسم کیا اور کہا کہ بیچ سیر اس گلزار کے مشغول رہ اور میوہ ہائے گونا گوں جس قدر رغبت طبع ہو تناول کر اور ایک مرتبان معجون کا عنایت کیا کہ برابر نخود کے ہر روز بلا ناغہ عمل میں لا۔ یہ کہہ کے اُٹھ گیا اور میں موافق فرمانے کے عمل کرتا تھا۔ چنانچہ روز بروز قوت و بشاشت حاصل ہوتی تھی لیکن عشق اُس صنم کا غالب تھا۔ ایک کتاب کہ لُب لباب ہر علم و عمل کے تھی، بیچ ایک طاقچہ ایوان کے دھری تھی۔ پس اکثر اوقات اپنے بیچ مطالعہ اُس کے صرف کرتا۔ چنانچہ تمامی عمل و حکمت و تسخیر پر قادر ہوا، بعد مدت سال تمام کے روز بہجت افروز عید کے جوگی خلوت خانے سے نکلا اور قلمدان و کاغذ مجھ کو سپرد کیا اور کہا کہ ساتھ آ۔ پس باہر نکلتے ہی بیرون دروازے باغ کے کہ خلقت بسیار اور مریض بے شمار گرفتار مرض و آزار جمع ہوئے تھے۔ سبھوں نے زبان اپنی بیچ ثنا و تحیت کے کھولی اور وزیر و سوداگر و مردم ہمراہی میرے آداب شکرانہ بجا لائے اور جوگی اوپر قاعدہ مُستمرہ کے عمل
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۱۴۴

کر کے متوجہ بیماروں کا ہوا۔ ایک جوان با روئے چوں آفتاب و گیسوئے مشک تاب کہ ضعف و قادر اوپر کھڑے ہونے کے نہ تھا، در زمرۂ مریضان و مجانین دیکھا اور بعد فراغ خلق اللہ کے مجھ کو فرایا کہ اس کو ساتھ لے آؤ چنانچہ بہ موجب فرمانے اُس کے وہ اندرون باغ کے پہنچا۔ پس بیچ خلوت خانہ خاص کے لے جا کر قدرے کھوپڑی اُس کی تراش کے چاہتا تھا کہ زنبور سےہزار پایہ کے تئیں کہ اُس کے مغز پر جم رہا تھا، اُٹھاوے اتنے میں میں کہ روزن میں سے دیکھتا تھا، اس حقیقت کو دریافت کر کے بولا، کہ دست پناہ اُس کی پیٹھ پر گرم کر کے رکھ خود بخود جدا ہو گا، و اِلا مغز نہ چھوڑے گا۔ پھر خوف زندگی کو ہے۔ یہ سُن کر میری طرف دیکھا اور وہاں سے اُٹھ کر بیچ ایک گوشۂ باغ کے جا کر اپنے تئیں ایک درخت سے لٹکایا، اور جان بحق تسلیم ہوا۔ میں نے وقوع اس واقعہ جاں گداز سے نہایت تاسف کیا اور چاہا کہ بیچ خاک کے دفن کروں دو کلید جوڑے میں سے نکلے۔ اُسے مدفون کر کے قفل اُن کلیدوں کا متلاشی ہوا جس وقت کہ حجرہ ہائے مقفل دریافت کر کے کھولے، دیکھتا کیا ہوں کہ تمام پُر از جواہر و زر ہیں اور ایک صندوقچہ مخملی طلائی مقفل ایک طاقچہ میں رکھا ہے۔ اس کے تئیں جو کھولا تو اسم اعظم اور ترکیب چِلا نشینی اور تسخیر جنات و ارواح و شمس وغیرہ پایا۔ بہ مرد دیکھنے اس نعمت عظمیٰ و دولت کبریٰ کے فرحت و نشاط بازہ و مسرت و انبساط بے اندازہ حاصل کر کے، یاد کرنا اُن اسموں کا شروع کیا اور دروازہ باغ کا کھول کر مردماں ہمراہی کو ساتھ لے کر جواہر و کتب و زر وغیرہ کشتیوں میں پُ کر کے ازراہ دریا روانہ وطن کا ہوا۔ بعد چندے گرد دار الخلافت عالیہ کے پہنچا۔ والد بزرگوار نہایت مشتاق اور بے قرار واسطے استقبال کے آیا۔ میں نے بعد از قدمبوسی کے عرض کیا؂

حب الوطن از ملک سلیماں خوشتر
خارِ وطن از سنبل و ریحاں خوش تر
یوسف کہ بہ مصر بادشاہی می کرد
می گفت گدا بودنِ کنعاں خوش تر
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۱۴۵

اس کمترین کے تئیں حکم ہو کہ بیچ اس باغ قدیم کے اقامت پذیر ہووے۔ فرمایا کہ اے نور چشم میں نے اُس مکان کے تئیں منحوس و نامبارک جان کر ویران مطلق کیا۔ بہتر یوں ہے کہ بیچ قلعہ مبارک کے ایک حویلی مقطع و مصفا و مکان بہجت افزا، طرب پیرا، رواں آسا پسند کر کے داد عیش و عشرت کی دے اور پائیں باغ واسطے فرحت طبع اور سیر کے مقرر کر میں نے پر بجِد ہو کر اسی باغ کے تئیں از سر نو رشکِ ارم کا کیا اور بہ خاطر جمع واسطے تسخیر جنوں کے بیچ اربعین کے بیٹھا۔ بعد چہل روز کے ایک بڑی سی آندھی مع غرش رعد و تپش برق کے نمودار ہوئی اور بادشاہ جنوں کا تخت پر آیا۔ میں نے بہ مجرد دیکھنے کے سلام بہ آداب تمام ادا کیا۔ اُس پیر مرد نے کہا کہ اے جوان مطلب تیراکیا ہے، میں نے عرض کیا کہ یہ کوچہ گرد صحرائے جنوں کا اوپر دختر روشن اختر پاکیزہ گوہر تیری کے ایک مدت سے عاشق و فریفتہ و مشتاق و طاق ابروئے حلاوت سے بے مذاق ہے اگر اس مہجور سراپا رنجور کے تئیں شب دیجور مہاجرت کی سے بہ صبح وصال اُس صاحب حسن و جمال کے رہنمائے گم گُشتگان بادیہ ضلالت و گمراہی کا ہو کر خضر وار چشمۂ جمال اُس نونہال باغیچہ دلبر و دلداری کے سے اس تشنۂ دیدار کو سیراب کرے تو بعید از عنایات، بے غایات و توجہات بلا نہایات نہ ہو گا۔ تب اُس بزرگ دانش سُترگ نے کہا کہ آدمی زاد کو ساتھ آتشیں نہاد کے نسبت اور موافقت کیوں کر ہو۔ میں نے بعد از عہد و پیمان واثق کے کہا کہ سوائے دیکھنے دیدار فایض الانوار اس سر و جوئبار محبوبی کے اور کچھ سروکار نہیں۔ اُن نے کہا کہ اوپر اس بات کے کہ الکریم اِذا وعد و فی ہرگز راسخ دم و ثابت قدم نہیں رہنے کا کہ آدم زاد کو وفائے عہد نہیں۔ اور بے وفائی مُخمر خمیر اس کے کی ہے لیکن میں تجھ سےازراہ خیر خواہی کے کہتا ہوں کہا کہ اگر قصد مباشرت کا کرے گا تو باعث ہلاکت اُس کی کا اور موجب مزید محنت و مشقت تیری کا ہوگا؂

من انچہ شرط بلاغ است با تومی گویم
تو خواہ از سخنم پند گیر خواہ ملال
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۱۴۶

میں نے کہا کہ ایک نظر مجھ دیدار فرحت آثار اس کے سے نور افزا دیدۂ رسیدہ کا کر۔ رنج و راحت:

ع :: ہرچہ از دوست می رسد نیکوست

ناگاہ وہ نازنین با نہایت زیب و تزئین دروازے سے در آئی۔

فرد

کماں ابرو مرے گھر کیوں نہ آوے
کہ جس کے واسطے کھینچے ہیں چلے

اور میں نے مانند جان کے بغل میں لیا اور وہ نازنین وفائے عہد اور پرہیزگاری میری سے نہایت تعجب کرتی تھی اور بایک دیگر بیچ اُس باغ کے بخوبی شب و روز بسر لے جاتے تھے۔ اس آرام جان نے طرف میرے دلسوزی اور یگانگت سے کہا کہ کتاب اپنی سے خبردار رہ کہ جنان بے ایمان لے جائیں گے۔ چنانچہ ایک رات، بیچ حالت مستی کے شیطان غالب ہوا اور میں نے چاہا کہ ہاتھ بیچ گردن اُس کی ڈال کر کام دل حاصل کروں۔ اتنے میں ایک شخص نےکہا کہ کتاب مجھ کو دے، اپنے پاس رکھنی خوب نہیں۔ میں کہ مست خواب غفلت اور عشق اُس کے کا تھا، بے تحقیقات اور شناسائی کے اوراد اور دعوات بغل سے نکال کر حوالہ اُس کے کیا۔ اُس نازنین نے کہا کہ اے ظالم پند مرا فراموش کر دی، کا راز دست برفت اور بے خود ہو کے پڑی۔ میں نے جو پسِ پشت نگاہ کی تو ایک عفریت بچہ نظر آیا۔ میں نے اوپر اُس کےحملہ کر کے، جوں ہی چاہا کہ بیچ قابو کے لا کر خوب ہی ضرب شلاق کروں کہ ایک اور ہی شخص کتاب ہاتھ اُس کے سے لے گیا۔ پس چند افسوں کہ یاد رکھتا تھا، پڑھ کے اُس عفریت بچہ کو بہ صورت گاؤ کیا۔ بعد ازاں جو اوپر بالیں اُس ناشنین خجستہ آئین کے گیا، مدہوش اور خاموش پایا۔ عیش میرا ساتھ طیش کے مبدل ہوا اور اُس وقت سے ترک اختلات کا کر کے اس کُنج باغ میں اوقات حیات اپنی کے بسر لے جاتا
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۱۴۷

ہوں اور یہ تیاری نہال زمرد واسطے اِشتغال طبیعت اور رفع سودا کے ہے اور بعد ہر ماہ کے بیچ اس صحرا کے جانا اور مرتبان کو توڑنا اور غلام کا مارنا واسطے کام اس کے ہے کہ خلق اللہ کا دل اوپر احوال میرے کے جلے اور کوئی بندۂ خدا بیچ حق میرے کے دعا کرے کہ بہ مقصد و مراد اپنی پہنچوں۔ احوال میرا یہ ہے کہ گزارش کیا۔ میں نے کہا کہ اے سرگروہِ قافلۂ عاشقاں قسم ہے رب العزت کی کہ جب تک تجھ کو کامراں نہ دیکھوں، تلاش مطلب اپنے سے دست بردار رہوں اور میں نے رخصت ہو کرسر بیچ بیابان کے رکھا۔ تامدت پنچ سال در شہرہا و بیابان با ہرزہ گرد و صحرا نورد رہا۔ لابار عاجز ہو کر اوپر ایک کوہ کے پہونچا اور چاہا کہ اپنے تئیں پہاڑ سے ایسا ہی ڈالوں کہ استخواں سے نشان نہ رہے کہ ایک متبرک ذات خضرصفات دو چار میرے ہوا اور بہ طریق اُس رفیق کے وعدہ کیا کہ ان شاء اللہ تعالیٰ مقصد اپنے کو پہونچے گا خاطر جمع رکھ۔ اس عرصہ میں ملاقات تمھاری میسر آئی۔ اب امیدوار فضل الٰہی کا ہوں کہ بہ برکت قُدُوم تمھارے، مطلب میرا حاصل ہون
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۱۴۸

قصہ درویش سوم

تب درویش سویم نے طوطی زبان کے تئیں اوپر سرگزشت اپنی کے یوں مُترنم کیا کہ ؂

اے دوستاں ز حال منِ زار بشنودید
از داستانِ ایں دل افگار بشنوید
ہر چند نیست منزلت و قدر بندہ را
آیا کشیدہ ام ز بس آزار بشنوید

یہ بندہ بادشاہزادہ مُللک عجم کا ہے اور وہ شہر یار عالی تبار، گردوں وقار سوائے میرے اور فرزند بیچ مشکوے خلافت کے نہ رکھتا تھا۔ ازاں جا کہ تقاضا ایام شباب اور جاہلیت کا ہے، بیچ سیر و تماشا و شکار بسیار اور لہو و لعب بے شمار کے لیل و نہار سرشار رہتا تھا اور داد عیش و نشاط و مسرت و انبساط کی بایاران ہمراز و مصاحبان و مساز دیتا تھا۔ ایک روز باچندے از دوستان صادق و مُحبان موافق مانند گل ہائے بوستان رونق افزا صحرا کا ہوا۔ دیکھتا کیا ہوں کہ ساقی سحاب کے نے با آئین ہمت بندوں کے لطف بسیار اوپر حال سبز بختان روزگار کے
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۱۴۹

مبذول کر رکھا ہے اور صحن صحرا از بس نسرین و نسترن سے رشک افزائے ماہ و پروین کا ہو رہاہے۔ اتفاقاً بیچ اس بہار کے ایک آہو مشکیں موسراسر سحر و جادو۔

فرد

غزالے در ریاضِ جاں چریدہ
ز شوخی بر رُخِ صحرا رمیدہ

سامنے سے نظر آیا۔ قلاوہ مرصع در گردن و جلاجل طلا ددردست دجُل زربفت برپشت، برخلاف وحشیان دشت کے باکمال اطمینان بیچ میدان خالی از انسان کے کھڑا ہے، میرے تئیں ہوس زندہ دستگیر کرنے اُس کے کی دامن گیر خاطر کے ہوئی اور رفقائے ہمراہی سے کہا۔

فرد

اس ہرن نے جو من ہرا میرا
دل کے رہنے کا یہ شکاری ہے

بے مدد و اِعانت تمھاری زندہ دستگیر کیا چاہتا ہوں کوئی اور تعاقب اور ہمراہی نہ کرے، خبر شرط ہے اور گھوڑا برق آہنگ سبک خیز، طرف اس کے چلایا اور وہروبرو سےہو اہوا۔ چنانچہ یہ یکہ تاز عرصہ روئے زمین کا بیچ دستگیر کرنے اُس ہوئے مجسم کے بال سعی کے باد صرصر سے دام لیتا تھا، لیکن کچھ پیش رفت نہ تھا۔ آخرش یہ شہسوار اور وہ مرکب راہوار عرق عرق اور تربتر تمام روز خراب ہو کر از راہ طیش و جنوں کے ترکش سے تیر اور قربان سے کمان لے کر اور ساتھ زہ کےملاقات دے کر بسم اللہِ اللہُ اکبر کہہ کے ایک تیر مارا کہ ران آہو میں ہم ترازو ہوا۔ وہ لنگ، لنگاں اوپر دامن پہاڑ کے چلا اور اس فقیر مضطر نے گھوڑا چھوڑ کر پیادہ پا تعاقب کیا اور مانند موسیٰ کے اس کوہِ طور نور اعلیٰ نور پر امیدوار دید ارشاہد مراد کا ہوا۔ بالائے کوہ کے ایک چشمہ اور چند اشجار اور ایک گنبد دوار نظر آیا۔ میں
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۱۵۰

مانند سکندر کے اُس چشمۂ آب حیات پر پہنچ کر بیچ وضو کرنے کے مشغول ہوا۔ یکایک صدا نوحہ کی گنبد سے گوش زد ہوئی کہ اے نور دیدۂ من والے جگر گوشۂ من جس نے تجھ سے یہ سلوک کیا ہے، الٰہی برور من نشیند و از رفقا بہرہ نہ بیند۔ بہ مجرد سُننے اس آواز کے قصداً طرف گنبد کے رُخ توجہ کا فرمایا۔ دیکھتا کیا ہوں کہ ایک مرد محاسن سفید ملبس بہ لباس سیاہ اوپر مسند کے بیٹھا ہے اور تیر گو ران آہو سے نکالتا ہے۔ میں نے روبرو جا کے ادب سے سلام کیا اور اُن نے جواب سلام دیا۔ پھر میں نے عرض کیا کہ حضرت سلامت یہ تقصیر اس گنہگار سے صادر ہوئی، اب امیدوار ترحم عالی کا ہے کہ معاف ہووے۔ فرمایا کہ بابا خدا بخشے۔ میں نے متفق ہو کر تیر ران آہو سے نکال کر مرہم اوپر زخم کے لگایا۔ بارے اُس بزرگ ذات خضر صفات نے واسطے میرے بہ شفقت تمام ماحضر حاضر کیا۔ پس میں بعد فراغ طعام کے اوپر پلنگ کے واسطے استراحت کے متوجہ ہوا۔ بہ سبب ماندگی اور کسل اعضا کے سے فی الفور کین داران خواب اوپر قافلہ بیداری کے تاخت لا کر کلی متاع گراں بہائے ہوشیاری کی لوٹ لے گئے۔ بعد ایک لمحہ کے آواز گریۂ و زاری کی بیچ گوش ہوش میرے کے مستمع ہوئی، آنکھ کھول کر دیکھتا کیا ہوں کہ تنِ تنہا پلنگ پر لیٹا ہوں اور صاحب خانہ سے مکان خالی ہے۔ پس جو آگے صُفہ کے ایک پردہ پڑا تھا اُس کے تئیں اُٹھا کر ملاحظہ کیا کہ ایک تخت مرصع بچھا ہے اور اوپر اُس کے ایک نازنین چہاردہ سالہ باروئے چوں آفتاب و گیسوئے چوں مشک ناب باغمزۂ دل آویز و تبسم شکر ریز بہ لباس فرنگ، نہایت شوخ و شنگ بہ ادائے معشوقانہ و نگاہ جاودانہ بیٹھی ہے؂

اس زلف جاں گُزا کو، صنم کے، بلا کہوں
افعی کہوں، سیاہ کہوں، اژدہا کہوں
قاتل نگہ کو پوچھتےکیا ہو کہ کیا کہوں
خنجر کہوں کٹار کہوں نیمچا کہوں
 

صابرہ امین

لائبریرین
131-135

ص 131

ہوئے اور فقیر، قدمشق میں در زنجیر ، کام اپنے میں نہایت متحیر اور بے تدبیر، همراه اُس جماعت کثیر کے حیران و پریشان، مهجور از اقربا وخویشاں، بہ شکل وصورت دَرویشاں، تماشا قدرت الہی کا معائنہ کرتا تھا، کہ اس عرصہ میں وہ جوان گاؤ سوار ہمچورستم و اسفند یارنشہ مستی میں سرشار ، مانند سیماب کے بیقرار ظاہرو نمودار ہوا۔ یہ ذرّہ بے مقدار کہ ایک مدت سے مشتاق دیدار، فائز الانوار، اُس کےکا تھا، مانند قالب بے جان و بے تاب و تواں، متحیر و

حیران رہا به حدّ یکہ وہ نیّر سپہر، عظمت وکَر امت و مظهر، شجاعت و شَهامَت ۴۷۳ موافق قاعده مَعہود کےعمل میں لا کر معاوَدَت مكان مالوفہ کو کر گیا اور خلائق شہر کی نے رُخ طرف آبادی کے کیا۔ تب میں نے ورطہ بے ہوشی کے سے او پرساحل افاقت کے پہنچ کر کہا۔

بیت

وہ صنم جب سے بسا دیدہ حیران میں آ
آتشِ عشق پڑی عقل کے سامان میں آ

فرد

تہی دستانِ قسمت راچہ سو د از رہبر کامل
کہ خضر از آب حیواں تشنہ می آرد سکندر را

مدت ایک ماہ تک پھر منتظر اس واردات کا رہا۔ بعد اِنقضائے عرصہ تیسں روز کے کہ میرے اوپر برابرتیسں سال کے گزرے تھے ، وہ دن پھر نصیب ہوا اور میں نے اپنے دل پر یہ ارادہ مضبوط کیا کہ اپنے تئیں به استقلال طبیعت ہوشیار رکھ کر اور درپے اُس جوان کے جاکر، مغز سخن کے سے مطلع ہوں ۔ بقول اِس کے۔

بیت

دکُھ تو دیتا ہے اُسے جی سے رجھادوں تو سہی
شاہ بازِ مدعا کو ہاتھ لا دوں تو سہی

.
 
آخری تدوین:

صابرہ امین

لائبریرین
ص 132


القصه وه گاؤ سوار بر آمد ہوا اور بدستور سابق کے وہ تحفہ سب کو دکھلا کے مرتبان کو توڑ کر اور غلام ہمراہی پر وار شمشیر کا کر کے چلا۔ جو یہ بندہ پیچھے اس کے جلد قدم ہو کر روانہ ہوا ، خلقت شہر میں سے کئی ایک آدمیوں نے میرے تئیں پکڑ ا اور جانے نہ دیا اور کہا کہ اگر زندگانی سے سیر ہوا ہے تو اس طرح سے کیوں جی دیتا ہے، کوئی اور طرح مرنے کی مقررکر۔ ہم اس طرح سے تجھے مرنے نہ دیں گے۔ ایں مرتبہ باز ہموں آش در کا سہ ماند۔ لا چارو مجبور ہمراہ خلق اللہ کے داخل شہر کے ہوا اور ایک مہینہ کہ برابر ہزار سال کے تھا، به ہزار خرابی بسر لے گیا اور جو بتاریخ سَلخ ۴۷۴ کے کہ فی الحقیقت غَرَّہ ۴۷۵ کامیابی میری کا تھا ، ماہ نو نظر آیا اورعلی الصباح بقول اس کے ::

بیت

جس کو لذّت ہے سجن کے دید کی
اُس کو خوش وقتی ہے صبح عید کی


جميع خلقُ الله رونق افزاصحرا کی ہوئی، یہ فقیر از سرگشته، بادلِ بَرِشته ۴۷۶، پیشتر ہی پہر رات سے اُٹھ کر بیچ ایک نیستان ۴۷۷ کے کہ سر راه اس جوان کے تھا، جا بیٹھا تا کہ کوئی مانع ومتعّرض احوال میرے کا نہ ہو۔ جس وقت وہ جوان به قاعده قدیم طریقہ اپنا ادا کر کے باز

گشت ہوا اور مانند نسیم کے روانہ مکان مالوفہ کا ہوا، میں نے بھی اُفتان و خیزاں، رواں دواں تعاقب کیا۔ اُس جوان نے معلوم کیا کہ کوئی شخص آتا ہے، فی الفور جلو گاؤ کی پھیر کے ایک نعرہ مہیب مارا اور شمشیر نیام سے نکال کر حملہ کیا، میں از راہ غریبی کے سلام اور آداب بجا لایا۔تب وہ نا آشنا مزاج متکلم ہوا کہ اے درویش مفت میں ہوا تھا ، جا بچ گیا کہ زندگی تیری تھی اور خنجر مرصع نکال کر طرف میرے ڈال دیا۔ گویا کچھ سحر کیا تھا کہ اُس وقت مجھ کو نہ پائے رفتار نہ یارائے گفتار تھا۔ جب کہ دوشیر غرّاں ۴۷۸ وپیلِ دَماں بیشتر کو روانہ ہوا، میں بھی جرأت کر کے پیچھے سے چل نکلا۔ پھر وہ عزیز آ نے میرے سے مطلع ہوکر به قصد ہلاک
 
آخری تدوین:

صابرہ امین

لائبریرین
ص133


کر نے میرے کے پھرا۔ تب تو میں نے قسم دے کر کہا:

فرد

چھٹے ہم زندگی کی قید سے اور داد کو پہنچے
وصیت ہے ہمارا خوں بہا جلّاد کو پہنچے

اے عزیز ایسا ہی وار کر، کہ تَسمه ۴۷۹ لگانہ رہے اور اس رہ نَوردی و بیابان گَردی سے خَلاصی پاؤں ۔ بہ مجرد سننے اس کلام حیرت انجام کے سردُھنا اور کہا اے سر گُروه قافله شیطان کے میرے تئیں کیوں ناحق خون میں گرفتار کرتا ہے، جا اپنا کام کر، میں نے اوپر”صَاحِبُ الغَرض مَجنُون “کے عمل کر کے پیچھا اُس کا نہ چھوڑا۔ اور کہا:

فرد



تجھ ابروئے خمدار سے ہرگز نہ پھرے دل
کیوں جاوے سپاہی، دم شمشیر سے ٹل کر

پھر تو دیدہ و دانستہ متعرض ۴۸۰ احوال میرے کا نہ ہوا اور قریب دو فَرسُخ ۴۸۱ کے راہ بیابان کی طے کی ۔ اس عَرصہ میں ایک باغ نمودار ہوا۔ جوان نے او پر دروازه باغ کے پہنچ کر ایک ایسا نعرہ مہیب مارا کہ خودبخود وا ہوا اور آپ اندر تشریف لے گیا اور میں با ہر متحیر و متفکر کھڑا رہا۔ بعد ایک ساعت کے ایک غلام چوں ماہ تمام پیام اس مرجعُ الانام کا لے کر آیا کہ اے اجل گرفته ۴۸۲ ، اُس ماہ دو ہفته نے نهفته با ایں حال خراب وخستہ حضور میں طلب کیا ہے۔ چنانچہ یہ تباہ ہمراه اُس جادو نگاہ کے بیچ خدمت اس شاہ کے پہنچ کر ہم نگاہ ہوا اور ایک سلام، بہ آئین اہل اسلام با ادب تمام ادا کیا اور به موجب ارشاد کے شاد و ناشاد یہ عقیدت نهاد، بیچ اُس جائے نو ایجاد کے بیٹھا۔ جوان کو دیکھا کہ اُس عمارت عالی اغیار سے خالی کے اوپر مسند زریں کے ایک شہ نشین نیکو آئیں میں ازبس تمکیں، نہایت محزوں و غمگیں بیٹھا ہے اور اسباب زرگری کا پیش پا اُفتادہ اور ایک جھاڑ زَمردیں َجلا دَاده بیچ تیاری اس کے مستعد و
 

صابرہ امین

لائبریرین
ص 134


آمادہ ہے۔ بوقت شام کے وقت برخاست ہونے اُس کے کا تھا، غلامان غلماں سرشت کہ گردشہ نشین اُس کے حاضر تھے، ہر ایک بیچ حجروں کے مخفی ومستواری ہوئے ۔ میں بھی به طرح دریافت کر کے ایک حجرہ میں گیا۔ وہ جوان عالی خاندان بیچ ایک آن کے دروازے حُجروں کے بند کر کے طرف گوشہ باغ کے روانہ ہوا اور ساتھ اس نرگا وسواری کے بہ ضرب و شَلّاق ۴۸۴ پیش آیا۔ جیوں ہی کہ آواز فریاد و فغاں گاؤ کی گوش زدمیر ے ہوئی ، نہایت خوف و رِجا کے مقام میں آ کر اور حجرے سے نکل کر عقب ایک تنے درخت کے پنہاں ہوا، دیکھتا کیا ہوں کہ اُس جوان نے چوب دستی ہاتھ سے ڈال کر اور ایک کلید جیب سے نکال کر ایک مکان مُقَفّل کو کھولا اور داخل ہوا۔ میں نے مانند جسم بے جان کے اس مکان نمونه طوفان سے حرکت نہ کی، چنانچہ بعد ایک ساعت کے اُن نے اس مکان سے نکل کر اوپر پشت اُس گاؤ کے دست شفقت کا پھیر کر، ایک بوسہ دیا اور دانہ دکھلا کر متو جہ شہ نشین کا ہوا۔ میں نے اپنے تئیں جلدی بیچ حجرہ کے پہنچایا اور اُن نے دروازے حجروں کے کھول دیے اور غلام باہر آئے۔ آپ وضو کر کے واسطے ادائے نماز کے کھڑا ہوا۔ بعد فراغ نماز کے دستر خوان پر بیٹھے کر آواز کی کہ درویش کہاں ہے۔ میں فی الفور باہر آیا اور بیچ خدمت فیض موہبت اس عالی درجت کے حاضر ہوا، اشارہ بیٹھنے کا کیا۔ بہ موجب حکم کے آداب بجالا کے اوپر گوشہ بساط کے مؤدب بیٹھا اور تناول طعام سے فراغت کر کے، غلاموں کے تئیں رخصت خواب کی دی اورمجلس خواب کی آراستہ کر کے میری طرف مخاطب ہو کے فرمایا کہ اے عزیز سچ کہه مطلب تیرا کیا ہے میں نے جو کچھ مطلب و مدعا تھا مفصل گزارش کیا۔ وہ مرد، ایک آہ سرد، دلِ پُر دردسے بر لاکربے خود ہوا اور کہا :

بیت

الہی درد مندی وہ دلِ بے درو منداں را
کہ بے درداں نمی دانند،حال دردمنداں را

بعد ایک ساعت کے اِفاقت میں آیا اور ایک آہ کھینچی۔ تب تو میں نے حالت تعَشُّق اس
 

صابرہ امین

لائبریرین
ص135


کے کی دریافت کر کے بہ قسم کہا، کہ اے عاشق صادق، واے ہمدردموافق، تیرےتئیں لائق ہے کہ اوپر حقیقت حال، کثیر الاختلال، حیرت اشتمال، اپنے کے میرے تئین مُطّلع کرے کہ اول سرِشتہ مقصود تیرے کا بیچ چنگل کے لا کے بعد ازاں پیروی مطلب اپنے کی کروں، بقول اس کے:

بیت


شاه بازِ مدعا کو ہاتھ لادوں تو سہی
آتشِ حسرت کوسینہ سے بُجھا دوں تو سہی

القصّہ اُس مسند نشین کشورعشق کے نے مشفق شفیق اور بہ دل و جان رفیق اپنا جان کر معشوقہ داستاں کے تئیں اس وجہ سے حُلّی بند زیور بیان کا کیا کہ میں فرزند دلبند ، به جاں پیوند والی اس ولایت نیم روز بہجت افروز کا ہوں ۔ بادشاہ نے وقت توّلد میرے مُنجمانِ دانش ورورُ تالان خرد پرور کے تئیں طلب کرکے فرمایا کہ زائچہ طالع اس روشن اختر والا گہر نصیبه در نونہال، بلند اقبال ۴۸۶ خجستہ خِصال گل گلشن شهریاری ، ثمر شجر سعادت و بختیاری کا درست کریں اور روز بروز و ماہ بہ ماہ و سال بہ سال کے بیچ عرض مُعتَکِفُان ۴۸۷ بساط مسرت مناط ۴۸۸ کے گزارش کریں۔ چنانچہ بعد تَقَیّد کمال کے از راہ علم اپنے، اہل تنجِیم ۴۸۹ نے عرض کیا کہ بہ فضل الہی و توفیقات نا متناہی از جمیع کَسُب کمالات وفنون شہر یاری و جهانگیری و کشور کشائی کے سے کمال ہی آگاہی حاصل کرے گا اور کوئی دقیقه از دقایق سخاوت و شجاعت وفتوت ومروت کے سے نہ چھوڑے گا مگر بیچ سن چہاردہ سالگی کے دیکھنے آفتاب یا ماہتاب کے سے ایک خطرہ درپیش ہے۔ لازم که تا مدت چهارده سال دھوپ اور چاندنی بلکہ آسمان کو نہ دیکھے۔ اگر یہ مدت بخیریت گزری، تو کامران جہاں وسلطان زماں و شهریار دوراں ہووے ،وَالّا بہت مصیبت اور رنج کھینچے گا۔ اَغلب کہ دیوانہ ہو اور خونریزی کرے بلکہ آبادی اور انسانوں سے اجتناب کرے اور اُلفت ساتھ حیوانوں کے پکڑے۔ چنانچہ یہ حقیقت دریافت کر کے حضرت ولی نعمت قدر قدرت، کیواں منزلت نے از راه شفقت کے میرے تئیں مع دایہ و چند نفر خواص کے بیچ ایک خانه باغ کے پرورش کا حکم فرمایا اور یہ باغ
 

قرۃالعین اعوان

لائبریرین
صفحہ نمبر 181 تا 185


صفحہ نمبر 181



دختر عاقلہ و بالغہ کا دریافت کرنے ، اس مصیبت کے سے ، نشہ اتر گیا اور رقص موقوف کیا اور ازراہ غیرت کے نہایت پیچ و تاب کھا کے کہا کہ اے مادر مہربان آفات ناگہانی سے پناہ مانگیے اور حادثات زمانہ سے صبر کیجیے کہ الصّ٘بْرُ مِفْتَاحُ الْفَرَح کہتے ہیں اور بیٹے پر کیا موقوف ہے۔ اگر بیٹی صاحب فراست و کِیاسَت ہو تو بیٹے پر فخر رکھتی ہے۔

فرد​

نہ ہرزن ، زن است ، ونہ ہر مرد ، مرد​
خدا پنج انگشت ، یکساں نہ کرد​


پس ودا اپنے کو بلا کر بیچ خلوت کے کہا کہ اگر مجھ کو زندہ چاہتا ہے تو سرانجام تجارت کا تیار کروو اِلَّا خون اپنا کروں گی اور سر تیرے دھروں گی ۔ ددا لڑکی کا بولا کہ اے صاحب زادی ۔

فرد​

خیال ٹھٹھہ ٥٨٤ بہت نام خدا جی پر ہے​
چشم بد دور مزاج ، ان دنوں شوخی پر ہے​


حقیقت اس کی یہ ہے کہ عین عمفوان شباب میں جو کوئی کہ گل روئے مبارک کا دیکھے گا ، بے اختیار بلبل وار شیفتہ رنگ و بوئے اس چمن لطافت و ملاحت کا ہوگا اس وقت پیچھا چھڑانا مشکل پڑے گا ۔ اشعار


جو کہ دیکھے اس آفتاب کے تئیں
کیا کرے جی کہ اس اضطراب کے تئیں
گرم بازار دل جلوں کا ہے
کوئی نئیں پوچھے ہے کباب کے تئیں​


صفحہ نمبر 182

کھولیو مت بزار میں ہر گز
اس جنوں کے بھرے کباب کے تئیں​


میں آ گے سے جتاتا ہوں بقول آنکہ ” یکے نقصان مایہ و دیگر شماتت ہمسایہ “ یعنی باعث بدنامی و برہم زنی ننگ و ناموس حضرت وزیر الملک ارسطو فطرت آصف کا ہوگا ۔ اس خورشید آسمان عقل و فرہنگ کے تئیں یہ سخن ددا کا گراں بار پلہ میزان تمیز کا نہ آیا ۔ “ آپ بہ تاکید شدید اور بہ جد و جہد تمام کے ، بیچ تہیہ اسباب تجارت کے ہوئی ۔ ددا کے متابعت طبع شریف اس کی کو باعث زندگی اپنی کا جانتا تھا جو کچھ کہ شایان تاجران عمدہ خاندان کے ہوتا ہے ، واسطے خرید تحفہ جات ہر دیار کے لکھ ہا خرچ کر کے اطلاع اس فرزانہ کو کی ۔ چنانچہ اس یگانہ جہاں نے ازراہ عیاری کے لباس مردانہ اوپر قامت کے آراستہ کیا اور بیچ نصف شب کے مانند ماہ چہار دہم کے برج حمل محل کے سے نکل کر سریع السَیر ہوئی ۔

زن دستور نے دریافت اس کیفیت کا کرکے ، اخفا راز کا از جملہ واجبات جانا ۔ اور تاکید اکید ٥٨٥ جمیع خادمان محل کو کی کہ کوئی اظہار اس حادثۂ جاں گزا کا نہ کرے ، خبر شرط ہے والا ندامت کھینچے گا ۔ القصّہ وہ عاقلہ بعد مدت سہ ماہ بیچ دار المعمور نیشا پور کے پہنچی اور بہ طریق سیر روانہ اردوئے معلی کی ہوئی ۔ بیچ عین رونق بازار کے ایک دوکان میں سوداگر رونق افزا دیکھا کہ جواہر گراں مایہ اور اسباب نفیسہ رو برو اس کے موجود ہے اور کئی خدمت گار سلیقہ شعار دست بستہ حضور میں مستعد خدمت کے ہیں اور دکان میں ایک صندلی بچھی ہے اور اوپر گدی مخمل کے ایک کتا لیٹا ہے اور پٹہ چودہ لعل کا زیب گلوئے ناقص اس کے کا ہو رہا ہے اور ایک لگن طلائی میں پانی بھرا ہے اور دو غلام بیچ خدمت سگ کے حاضر ہیں ایک رومال سے پونچھتا ہے اور ایک چَنور سے ٥٨٦ سے مَگس رانی ٥٨٧ کرتا ہے اور ایک قفس فولادی دھرا ہے کہ دو جوان خوبرو چار ابرو مقید سَلاسِل غموم ہموم ٥٨٨ کے بیٹھے ہیں ۔ وزیر زادی بیچ اس تماشے کے مشغول ہوئی اور ایک خلقت واسطےدیکھنے حسن و جمال اس کے مجتمع تھی ۔

صفحہ نمبر 183
فرد​

تیر نگہ تھے کھانے ، سو کھا چکے کسو کے
بہتر ہے داغ دل میں ، اب تو بھلا کسو کے

بارے وقوع اس واقعہ کے سے سوداگر کی دختر وزیر پر جا پڑی ۔ بہ مجرد معائنہ دیدار پر انوار اور وضع شوخ و طنَّاز اس کی کے بہ ہزار جان عاشق جمالِ لیلی تمثال اس بدیع الجمال کا ہوا اور کہا کہ اگر قدوم مسرت لزوم ، اپنے سے میرے غریب خانہ کو رونق افروز کرے تو سر عزت و افتخار اس خاکسار کا اوپر اوج آسمان کے پہنچا دے گا ، بعید از تَفَقُّدَات اور تَلَطُّفَات سے نہ ہو گا


جو تیرے عشق میں کوئی جی جلا فرہاد ہو جاوے
تو ایسا شخص تو شیریں کا پھر استاد ہو جاوے
کہاں تک بلبلوں کا دل ، چمن میں شاد ہو جاوے
ہمیشہ دام لے جب باغ میں ، صیاد ہو جاوے

اس عاقلہ نے حصول مدعائے خاص اپنا بیچ ملاقات کے جان کر کمال اشتیاق سے دوکان سوداگر کے تئیں رونق افزا جواہر زواہر دیدار سراسر انوار اپنے سے کیا ۔ وہ مرد جہاندیدہ ، گرم و سرد زمانہ چشیدہ ، نہایت تملق اور تعلق خاطر سے پیش آیا اور رسم تواضع و مہمانداری کی بہ جان و دل بجا لایا اور پوچھا کہ کس ملک آباداں سے تشریف ارزانی فرمایا ہے اور موجب آنے کا اس ملک بیگانے میں کیا ہے ۔ اس عاقلہ نے کہا کہ باپ میرا سوداگر ہے اور مال دنیا سے گنجینہ بے شمار رکھتا ہے ۔ میرے تیں بیچ حین حیات اپنے کے واسطے آزمائش کے اسباب تجارت کا ہمراہ دے کر روانہ اس ولایت کا کیا ہے کہ بچشم خود مال گزاری اور سلیقہ شعاری اور تجارت پیشگی میری دیکھے تو بالکل خاطر جمع ہو ۔ کس واسطے کہ


صفحہ نمبر 184

فرد​

فرزند اگرچہ بے تمیز است
در چشم پدر بسے عزیز است

اس باعث سے یہ اول سفر میرا ہے کہ بیچ اس ولایت بیگانہ کے اتفاق آب و خور کا پڑا ۔ اسُ بزرگ دانش سُترگ نے کہا کہ یہ بے مقدار بیچ اس شہر کے پارۂ عزت و افتخار رکھتا ہے اور پیشہ تجارت سے خوب کچھ دیکھا اور کیا ہے ۔ اگر آپ ازراہ تَفَضُّلات و عنایات کے کلبۂ احزان میرے کے تئیں رشک ارم کا کریں تو خرید و فروخت ، معرفت میری سے انشاء اللہ نتیجہ نیک ہو گا ۔ جب کہ اشتیاق اس کا بے حد و نہایت دیکھا ، فرمانا اس کا قبول کیا :


فرد

وہی پابند ہو سکتا ہے ، تیرے دام الفت کا
جو قید ننگ و نام اپنے ، ستی آزاد ہو جاوے

تب ان نے کہا کہ از برائے خدا یہ میری زبان سے فرماتے ہیں ۔ پس دیوان خانہ خاص واسطے دختر وزیر کے خالی کیا اور لوازمہ اکل و شرب کا الوان طعام و اقسام اشربہ و عطریات سے حاضر کیا ۔ بعد اس کے ایک تماشہ عجب نظر آیا کہ ایک دسترخوان زر بفتی اور غوری حبشی میں پلاؤ اور گوشت واسطے کلب کے طلب کیا ، پس دونوں غلاموں نے مگس رانی کر کے بہ احتیاط تمام اس کے تئیں کھلا کر پس خوردہ اس کا ان دونوں جوان مقید قفس فولادی کو بہ ضرب شلَّاق کھلایا اور بہ زجر و توبیخ پانی بھی اس کا جھوٹا پلایا اور موئے سر ان کے تابہ کمر پہنچے تھے ناخن مانند چنگال زاغ و زغن دراز ہوئے تھے ۔ دختر خجستہ اختر یہ مقدمہ دیکھ کر سخت آزردہ ہوئی اور کھانا پینا اس کے گھر کا مکروہ بلکہ حرام جانا اور استفسار اس احوال سیرت مآل کا کیا ۔ تاجر نے کہا کہ یہ قصہ پر غصہ آج تک میں نے کسی سے اظہار نہیں کیا بلکہ اس


صفحہ نمبر 185

واسطے خواجہ سگ پرست مشہور ہوا ہوں لیکن تم کو مفصل اطلاع دوں گا ، موقوف بر وقت ہے ۔ اس عاقلہ کو کام اپنا منظور تھا اس بات کے خیال نہ پڑی ۔ قصہ کوتاہ تا مدت دو ماہ وہ جادو نگاہ ساتھ اس مرد محبت دستگاہ کے متفق اور مجتمع رہی اور اس قدر دل سوداگر کا بیچ کمند زلف تابدار اپنی کے پھنسایا کہ ایک لمحہ مفارقت اس کی کو باعث مرگ اپنی کا اور موجب ہلاک کا جانتا تھا اور بے اختیار کہتا تھا کہ میرے تئیں حق تعالیٰ نے دولت دنیاوی سے بہت کچھ دیا ہے لیکن نور چشم و راحت جان ناتواں کے بعد میرے وارث اس اس مال و دولت کا ہو ۔

نہیں ہے ۔ میں نے تجھ کو بیچ فرزندی کے لیا اور یہ سب نقد و جنس بہ خوشی تجھ کو نذر کیا بلکہ شادی اس مقدمہ کی مقرر کرکے تمام عمدہ و اکابرین شہر کو بہ طور ضیافت اپنے ڈیرے بلایا اور مطلع اس معاملے کا کیا اور کہا

فرد​

اگر حسرت کا سودا بن پڑا اس عشق بازی میں
تو مجنوں پھیر ویرانہ ، تیرا آباد ہو جائے​


چانچہ اس عاقلہ نے بعد قابو کرنے اور محیط ہونے کے پگڑی پھیر رکھی اور ازروئے عقل کے نہایت ملول اور غمگین بیٹھی سوداگر نے دیکھ کر سبب گَلال و مَلال طبع کا استفسار کیا تب اس عاقلہ نے کہا کہ مجھ کو دو مشکل پیش ہیں ۔

فرد​

نہ ہوں اس عشق میں کیوں کر میں نالاں
کہ سینہ غم کے سینے سے ملا ہے

اگر بیچ خدمت سراپا ! افادت تمہاری کے اوقات گزاری کروں تو والد بزرگوار مانند یعقوب کے بیچ غم مہاجرت ، اس یوسف ثانی کے نابینا ہو جائے گا اور کہے گا کہ بہ سبب سَن طفولیت کے خانماں فراموش کر کے اور کہیں کا ہو رہا اور جو قصد اُس سمت کا کروں تو
 
آخری تدوین:

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۲۱۶

سر شار تھا کہ زنان قبائل و عشائر واسطے ماتم پُرسی کے آئیں، ہر ایک کیا جوان، کیا لڑکی آتی تھی اور جو اندام اپنی کے تئیں میرے ماتھے پر ٹکر مارتی تھی اور بیٹھتی تھی، قریب تھا کہ دھکے سے مارا جاؤں کہ ناگاہ ایک شخص نے پس پشت سے آ کر گریبان میرا پکڑا۔ پہچانا تو وہی شخص تھا کہ جن نے کتخدا کیا تھا۔ مجھ سے پوچھا کہ گریہ و زاری اور اس قدر بے قراری کیوں کرتا ہے۔ میں نے کہا کہ اب ایسا معشوق ماہ پارہ اس خانماں آوارہ سے جدا ہوتا ہے، کیوں نہ روؤں۔ کہا، اے مرد مرگ اپنی پررو، اس کے لیے کیا روتا ہے۔ میں نے منع کیا تھا تیری خاطر میں نہ آیا۔ ع

خود کردہ را علاج و در مانے نیست

پس میرے تئیں بیچ مہمان خانے کے لے گئے اور تمامی اِملاک اور نقد و جنس خانہ داری کا جمع کر کے بیچنا شروع کیا اور زر نقد بہم پہنچا کر جواہر خرید اور صندوقچہ میں کر کے رکھا اور میوہ و نان و کباب چالیس روز کا آزوقہ اور تابوت اس اہل خانہ بادل یبانہ کا اُٹھایا اور بادشاہ مع اُمریان و برہمنان بید خواناں سب ہمراہ ہوئے اور بیچ اُس حصار مقفل سہ قفل کے کہ میں نے آتی دفعہ دیکھا تھا، لے گئے۔ بہت سے آدمیوں نے جمع ہو کر دروازہ کھولا اور میرے تئیں مع صندوق جواہر اور تابوت اور خوراک چہل روزہ کے وہاں چھوڑا اور وزیر اور بادشاہ اور برہمنوں نے عذر خواہی کی کہ اس دائر الفنا میں ایک روز آتے اور ایک روز جاتے ہیں، صبر کر کہ بت بزرگ فریاد کو تیری پہنچے اور خوش رہ۔ میں نے چاہا کہ کچھ کہوں کہ اس عرصہ میں اس پیر خیر خواہ نے بہ زبان عجم مجھ سے کہا کہ اگر کچھ عذر لایا تو آتش جہنم میں جلا دیں گے، خاموش ہو جا، جو کچھ دیکھتا ہے، تقدیر الہٰیہ سے ہے، کسی کی تقصیر نہیں۔ القصہ میرے تئیں اُس حصار ناہموار میں محبوس اور زِیست سے مایوس کر کے اپنے ڈیروں کو گئے۔ میں تنہا گرفتار مصیبت و بلا نظر اوپر خدا کر کے بیٹھا۔ وقت دوپرہ کے تابش آفتاب کی سے اور تعفن اِستخواں ہائے بوسیدہ سے نزدیک تھا کہ جان قالب سے خالی کروں کہ بیچ آرزوئے سایہ کے کئی ایک صندوق جمع کر کے سایہ بنایا۔ دن کو اس کے نیچے گزران کرتا اور رات کو
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۲۱۷

اوپر جا کر سو رہتا۔ جس وقت کہ مدت چہل روز آخر ہوئی اور وجہ خوراک کی ہو چکی نہایت بے قراری سے حیران و پریشان ہوا اور بیچ حق برادران حق ناپسند کے بد دعا کی کہ کس غضب میں ڈالا اور ایک لات اوپر نعش اُس دختر وزیر کے ماری کہ کمبخت اگر تو حاملہ نہ ہوتی اور اس طرح نہ مرتی تو مجھ کو کیوں لے مرتے اور منابات جناب الٰہی میں کرتا تھا اور کہتا تھا۔

بیت

بہ قیدِ زندگی ہر کس اسیر است
ز فکر آب و نانش ناگزیر است

کہ ایک پیر زال کو ساتھ ایک نعش مرد کے لائے اور بدستور مذکور چھوڑ گئے۔ میں نے جو دیکھا کہ آکر زنِ ضعیف ہے، ایک پایہ صندوق کا اس کے سر پر ایسا ہی مارا، کہ ایک ضربت میں فیصل ہوئی، اور خوراک چہل روزہ پر متصرف ہوا۔ بعد چند روز کے ایک اور مردہ آیا کہ غُل کمال اور شورش رجال سنی۔ میں نے کہا کہ کوئی بڑا آدمی مُوا ہے کہ جس کا یہ غل ہے۔ بارے اُسی طرح دروازہ کھلا اور ایک دُختر چہاردہ سالہ باروئے چوں آفتاب و گیسوئےمُشک تاب لباس کتخدائی در بروتاج عروسی بر سر مع تابوت اور ایک صندوق جواہر اور خوراک موافق قاعدہ معہود کے چھوڑ گئے اور دروازہ حصار کا بند ہوا۔ بہ موجب تقدیر کے بیچ عشق اس نازنین کے پائے بند ہو کر دام اُلفت میں پھنسا اور پوچھا کہ تو کون ہے۔ کہا کہ میں دُختر وکیل مطلق بادشاہ کی ہوں۔ شب زفاف میں شوہر میرے کو درد قولنج نے لیا کہ جان بحق تسلیم ہوا، تو اپنی حقیقت کہہ۔ میں نے سرگزشت اپنی بیان کی اور اُس ماہر و سمن بو کے ساتھ ہم بستر ہوا اور خوش رہنے لگا۔ الغرض ہر ماہ میں ایک مُردہ آتا اور میں آزوقہ پر متصرف ہوتا تھا۔ تا آنکہ وہ سرو جوئے بار خوبی کی حاملہ ہوئی اور ایک طفل تولد ہوا۔ کئی ماہ اور گزر گئے۔ طرح محبت و مؤدت کی ایسی پڑی کہ باہم بہ لہو و لعب خوش رہتے تھے۔ ایک روز میں نے ہم خوابہ سے کہا کہ کوئی طرح گزاری کی اس قید فرنگ سے کیا چاہیے، واِلا یہ زندگی بہ
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۲۱۸

منزلہ مرگ ہے، وہ بھی روئی اور کہا کہ تو مرد ہے کچھ بن سکے تو فکر کر۔ میں نے جو گرد نواح حصار سیر کی تو ایک بدر رو سنیچہ ہائے آہنی سے جڑی ہوئی دیکھی اور معلوم کیا کہ اگر سیخچے ٹوٹیں تو بہزار تنگی گزر ہو۔ پس ہر روز میخ ہائے صندوق کو پتھر پر گھس کے بیچ توڑنے سنیچوں کے مشغول رہا کہ مدت سہ سال میں یہ کام درست ہوا۔ اور اُس دل پسند کے تئیں ایک فرزند اور تولد ہوا۔ بارے بہ ہزار تلاش راہ برآمد ہونے کی درست کر کے اور جواہر گراں بہا و بیش قیمت کہ سرمایہ زندگی اور تجارت کا جانتا تھا ہمراہ لے کر حصار سے باہر ہوا۔ ایک لڑکا عورت کی گود میں ایک میرے کاندھے پر اور کتا ہمراہ اُس وضع سے روانہ ہوا۔ اُس صحرا اور اُس دشت میں کہیں علف اور برگ اشجار اور کہیں بیخ گیاہ سے قوت اپنی کر کے منزل بہ منزل متوجہ آبادی کے ہوئے۔ تاآں کہ بیچ ایک شہر کے پہنچ کر ایک حویلی بر سر دریا کے کرایہ لی اور حمام جا کے حجامت بنوائی اور پوشاک تیار کر کے آمد و رفت مردم شہر سے شروع کی اور چند جواہر خور ریزہ بیچ کر دوکان تجارت کی آراستہ کی اور چند غلام اور کنیزک برائے خدمت مول لے کر رکھے اور شکر الٰہی ادا کیا۔ یہ فقیر اوپر بام خانہ کے اکثر اوقات واسطے سیر دریا کے بیٹھتا اور دور دور نظر کرتا۔ ایک روز دو نفر عجمی دیکھے بعد ازاں جو دور بین ہاتھ میں لے کر خوب طرح سے غور کیا تو معلوم ہوا کہ دونوں برادر ہیں۔ چند نفر قراول بھیج کر ان کو بُلوایا۔ بعد ملاقات کے کہا کہ اے بے رحمان، ستمگار، واے ظالمان سراسر آزار، یہ شعار ثقاوت آثار تمہارا نہیں جاتا ہے وہ نکوئی ہماری اور تمھاری یہ بدخوئی۔ لعنتُ اللہِ علی قومِ الظالِمِین۔ تب تو یے دونوں صاحب میرے پاؤں پر گر پڑے اور زار زار روئے اور ندامت اور پشیمانی کھینچی۔ میرا خون اخوت کا جوش پر آیا۔ تقصیر معاف کی اور نصائح و فصائح کر کے بہ لباس فاخرہ آراستہ کیا اور شب خوابی کے واسطے ایک مکان بنایا، چنانچہ شب و روز بیچ پرداخت احوال اُن کے مستعد اور سرگرم رہتا۔ تا ایں کہ ایک روز، یہ خاکسار بہ موجب طلب ضیافت کھانے ایک آشنا کے ڈیرے گیا۔ یہ دونوں بھائی بدتر از قصائی ازراہ آشنائی گھر میں داخل ہوئے۔ مادر طِفلاں نے کہ قبیلہ جمیلہ اس بے
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۲۱۹

وسیلہ کے تھی، اپنے تیں ایک حجرہ میں ڈالا اور دونوں لڑکے باہر رہے۔ دونوں نابکار، مفسد شعار نے ہاتھ دونوں بچہ ہاے صغیر کا پکڑ کے کہا کہ تو حجرہ سے باہر آ اور جو کچھ ہم کہیں قبول کرو اِلا دونوں لڑکوں کو تیرے جی سے مار ڈالیں گے۔ وہ عفیفہ پاک دامن راضی نہ ہوئی۔ ان بدبختوں نے ہر دو طفل بے گناہ کا سر تن سے جدا کیا اور وہ بی بی نیک بخت سر اپنا پتھر سے مار کے مر گئی۔ اس عرصہ میں میں پہنچا اور یہ حقیقت دریافت کر کے غلاموں سے فرمایا کہ بگیر ید ایں ہر دو قُرم ساقاں را۔ غلام میرے اُن کے تئیں لپٹ گئے اور مشکیں باندھ کے لائے۔ تس پر بھی میں نےقصاص سے درگزر کی اور بیچ پنجرہ فولادی کے حبس فرمایا اور بہ چودہ جواہر کہ بیچ گلے سگ وفادار بہتر از برادران ناہجار کے ہیں، اُسی حصار سے لایا تھا۔ حضرت سلامت۔ یہ دونوں موجود ہیں اور کوئی بات خلاف معمول عمل میں لایا ہوں یا جھوٹ ظاہر کیا ہو، جو چاہے سو کیجیے۔

میں نے اوپر جواں مردی اور مردانگی اُس پاک دیں و پاکیزہ یقیں کے آفریں اور تحسیں کی اور دختر وزیر سے پوچھا کہ کون شخص ہے۔ اُن عاقِلہ و بالِغہ نے آداب بجا لا کے عرض کیا کہ یہ کنیز ناچیز دختر وزیر کی ہے کہ وسطے مخلصی والد بزرگوار کے لباس مردانہ اوپر اپنے آراستہ کر کے اس سوداگر کو لائی اور حضور میں حاضر کیا۔ بیشتر جو کچھ مرضی مبارک ہو، انسب و اولٰی ہے۔ یہ بات سن کر سوداگر بے ہوش ہوا اور نعرہ جانکاہ مارا کہ حاضران مجلس خاموش ہوئے۔ بعد ایک ساعت کے ہوش میں آیا اور کہا افسوس صد افسوس، اس قدر محنت اور مشقت ضایع اور برباد گئی۔ تب میں نے کہا کہ اے سوداگر کیا محنت برباد گئی کہ اس قدر ملول اور مغموم ہوا۔ کہا کہ حضرت سلامت میرے اولاد نہ تھی اور فرزندی میں اسے لیا تھا، سو کہاں میسر ہوا۔ میں نے اُس کے کان میں مژدۂ وصال دختر وزیر کا کہا۔ بارے خوش ہوا۔ بعد اُس کے اُس لڑکی کو اندرون خاص محل کے بھیج کر تیار شادی کی کی اور نہایت دھوم دھام و جلوس تمام سے بہ عقد ازدواج سوداگر کے دی۔ وزیر کو اسپ با زین زر خلعت زیب آور بھیج کر قید سے چھوڑا اور بہ دستور سابق اوپر کام وزارت کے مامور کیا۔ اُس تاجر سے اور دختر وزیر سے دو
 
Top