صفحہ نمبر 181 تا 185
صفحہ نمبر 181
دختر عاقلہ و بالغہ کا دریافت کرنے ، اس مصیبت کے سے ، نشہ اتر گیا اور رقص موقوف کیا اور ازراہ غیرت کے نہایت پیچ و تاب کھا کے کہا کہ اے مادر مہربان آفات ناگہانی سے پناہ مانگیے اور حادثات زمانہ سے صبر کیجیے کہ الصّ٘بْرُ مِفْتَاحُ الْفَرَح کہتے ہیں اور بیٹے پر کیا موقوف ہے۔ اگر بیٹی صاحب فراست و کِیاسَت ہو تو بیٹے پر فخر رکھتی ہے۔
فرد
نہ ہرزن ، زن است ، ونہ ہر مرد ، مرد
خدا پنج انگشت ، یکساں نہ کرد
پس ودا اپنے کو بلا کر بیچ خلوت کے کہا کہ اگر مجھ کو زندہ چاہتا ہے تو سرانجام تجارت کا تیار کروو اِلَّا خون اپنا کروں گی اور سر تیرے دھروں گی ۔ ددا لڑکی کا بولا کہ اے صاحب زادی ۔
خیال ٹھٹھہ ٥٨٤ بہت نام خدا جی پر ہے
چشم بد دور مزاج ، ان دنوں شوخی پر ہے
حقیقت اس کی یہ ہے کہ عین عمفوان شباب میں جو کوئی کہ گل روئے مبارک کا دیکھے گا ، بے اختیار بلبل وار شیفتہ رنگ و بوئے اس چمن لطافت و ملاحت کا ہوگا اس وقت پیچھا چھڑانا مشکل پڑے گا ۔ اشعار
جو کہ دیکھے اس آفتاب کے تئیں
کیا کرے جی کہ اس اضطراب کے تئیں
گرم بازار دل جلوں کا ہے
کوئی نئیں پوچھے ہے کباب کے تئیں
صفحہ نمبر 182
کھولیو مت بزار میں ہر گز
اس جنوں کے بھرے کباب کے تئیں
میں آ گے سے جتاتا ہوں بقول آنکہ ” یکے نقصان مایہ و دیگر شماتت ہمسایہ “ یعنی باعث بدنامی و برہم زنی ننگ و ناموس حضرت وزیر الملک ارسطو فطرت آصف کا ہوگا ۔ اس خورشید آسمان عقل و فرہنگ کے تئیں یہ سخن ددا کا گراں بار پلہ میزان تمیز کا نہ آیا ۔ “ آپ بہ تاکید شدید اور بہ جد و جہد تمام کے ، بیچ تہیہ اسباب تجارت کے ہوئی ۔ ددا کے متابعت طبع شریف اس کی کو باعث زندگی اپنی کا جانتا تھا جو کچھ کہ شایان تاجران عمدہ خاندان کے ہوتا ہے ، واسطے خرید تحفہ جات ہر دیار کے لکھ ہا خرچ کر کے اطلاع اس فرزانہ کو کی ۔ چنانچہ اس یگانہ جہاں نے ازراہ عیاری کے لباس مردانہ اوپر قامت کے آراستہ کیا اور بیچ نصف شب کے مانند ماہ چہار دہم کے برج حمل محل کے سے نکل کر سریع السَیر ہوئی ۔
زن دستور نے دریافت اس کیفیت کا کرکے ، اخفا راز کا از جملہ واجبات جانا ۔ اور تاکید اکید ٥٨٥ جمیع خادمان محل کو کی کہ کوئی اظہار اس حادثۂ جاں گزا کا نہ کرے ، خبر شرط ہے والا ندامت کھینچے گا ۔ القصّہ وہ عاقلہ بعد مدت سہ ماہ بیچ دار المعمور نیشا پور کے پہنچی اور بہ طریق سیر روانہ اردوئے معلی کی ہوئی ۔ بیچ عین رونق بازار کے ایک دوکان میں سوداگر رونق افزا دیکھا کہ جواہر گراں مایہ اور اسباب نفیسہ رو برو اس کے موجود ہے اور کئی خدمت گار سلیقہ شعار دست بستہ حضور میں مستعد خدمت کے ہیں اور دکان میں ایک صندلی بچھی ہے اور اوپر گدی مخمل کے ایک کتا لیٹا ہے اور پٹہ چودہ لعل کا زیب گلوئے ناقص اس کے کا ہو رہا ہے اور ایک لگن طلائی میں پانی بھرا ہے اور دو غلام بیچ خدمت سگ کے حاضر ہیں ایک رومال سے پونچھتا ہے اور ایک چَنور سے ٥٨٦ سے مَگس رانی ٥٨٧ کرتا ہے اور ایک قفس فولادی دھرا ہے کہ دو جوان خوبرو چار ابرو مقید سَلاسِل غموم ہموم ٥٨٨ کے بیٹھے ہیں ۔ وزیر زادی بیچ اس تماشے کے مشغول ہوئی اور ایک خلقت واسطےدیکھنے حسن و جمال اس کے مجتمع تھی ۔
صفحہ نمبر 183
فرد
تیر نگہ تھے کھانے ، سو کھا چکے کسو کے
بہتر ہے داغ دل میں ، اب تو بھلا کسو کے
بارے وقوع اس واقعہ کے سے سوداگر کی دختر وزیر پر جا پڑی ۔ بہ مجرد معائنہ دیدار پر انوار اور وضع شوخ و طنَّاز اس کی کے بہ ہزار جان عاشق جمالِ لیلی تمثال اس بدیع الجمال کا ہوا اور کہا کہ اگر قدوم مسرت لزوم ، اپنے سے میرے غریب خانہ کو رونق افروز کرے تو سر عزت و افتخار اس خاکسار کا اوپر اوج آسمان کے پہنچا دے گا ، بعید از تَفَقُّدَات اور تَلَطُّفَات سے نہ ہو گا
جو تیرے عشق میں کوئی جی جلا فرہاد ہو جاوے
تو ایسا شخص تو شیریں کا پھر استاد ہو جاوے
کہاں تک بلبلوں کا دل ، چمن میں شاد ہو جاوے
ہمیشہ دام لے جب باغ میں ، صیاد ہو جاوے
اس عاقلہ نے حصول مدعائے خاص اپنا بیچ ملاقات کے جان کر کمال اشتیاق سے دوکان سوداگر کے تئیں رونق افزا جواہر زواہر دیدار سراسر انوار اپنے سے کیا ۔ وہ مرد جہاندیدہ ، گرم و سرد زمانہ چشیدہ ، نہایت تملق اور تعلق خاطر سے پیش آیا اور رسم تواضع و مہمانداری کی بہ جان و دل بجا لایا اور پوچھا کہ کس ملک آباداں سے تشریف ارزانی فرمایا ہے اور موجب آنے کا اس ملک بیگانے میں کیا ہے ۔ اس عاقلہ نے کہا کہ باپ میرا سوداگر ہے اور مال دنیا سے گنجینہ بے شمار رکھتا ہے ۔ میرے تیں بیچ حین حیات اپنے کے واسطے آزمائش کے اسباب تجارت کا ہمراہ دے کر روانہ اس ولایت کا کیا ہے کہ بچشم خود مال گزاری اور سلیقہ شعاری اور تجارت پیشگی میری دیکھے تو بالکل خاطر جمع ہو ۔ کس واسطے کہ
صفحہ نمبر 184
فرد
فرزند اگرچہ بے تمیز است
در چشم پدر بسے عزیز است
اس باعث سے یہ اول سفر میرا ہے کہ بیچ اس ولایت بیگانہ کے اتفاق آب و خور کا پڑا ۔ اسُ بزرگ دانش سُترگ نے کہا کہ یہ بے مقدار بیچ اس شہر کے پارۂ عزت و افتخار رکھتا ہے اور پیشہ تجارت سے خوب کچھ دیکھا اور کیا ہے ۔ اگر آپ ازراہ تَفَضُّلات و عنایات کے کلبۂ احزان میرے کے تئیں رشک ارم کا کریں تو خرید و فروخت ، معرفت میری سے انشاء اللہ نتیجہ نیک ہو گا ۔ جب کہ اشتیاق اس کا بے حد و نہایت دیکھا ، فرمانا اس کا قبول کیا :
فرد
وہی پابند ہو سکتا ہے ، تیرے دام الفت کا
جو قید ننگ و نام اپنے ، ستی آزاد ہو جاوے
تب ان نے کہا کہ از برائے خدا یہ میری زبان سے فرماتے ہیں ۔ پس دیوان خانہ خاص واسطے دختر وزیر کے خالی کیا اور لوازمہ اکل و شرب کا الوان طعام و اقسام اشربہ و عطریات سے حاضر کیا ۔ بعد اس کے ایک تماشہ عجب نظر آیا کہ ایک دسترخوان زر بفتی اور غوری حبشی میں پلاؤ اور گوشت واسطے کلب کے طلب کیا ، پس دونوں غلاموں نے مگس رانی کر کے بہ احتیاط تمام اس کے تئیں کھلا کر پس خوردہ اس کا ان دونوں جوان مقید قفس فولادی کو بہ ضرب شلَّاق کھلایا اور بہ زجر و توبیخ پانی بھی اس کا جھوٹا پلایا اور موئے سر ان کے تابہ کمر پہنچے تھے ناخن مانند چنگال زاغ و زغن دراز ہوئے تھے ۔ دختر خجستہ اختر یہ مقدمہ دیکھ کر سخت آزردہ ہوئی اور کھانا پینا اس کے گھر کا مکروہ بلکہ حرام جانا اور استفسار اس احوال سیرت مآل کا کیا ۔ تاجر نے کہا کہ یہ قصہ پر غصہ آج تک میں نے کسی سے اظہار نہیں کیا بلکہ اس
صفحہ نمبر 185
واسطے خواجہ سگ پرست مشہور ہوا ہوں لیکن تم کو مفصل اطلاع دوں گا ، موقوف بر وقت ہے ۔ اس عاقلہ کو کام اپنا منظور تھا اس بات کے خیال نہ پڑی ۔ قصہ کوتاہ تا مدت دو ماہ وہ جادو نگاہ ساتھ اس مرد محبت دستگاہ کے متفق اور مجتمع رہی اور اس قدر دل سوداگر کا بیچ کمند زلف تابدار اپنی کے پھنسایا کہ ایک لمحہ مفارقت اس کی کو باعث مرگ اپنی کا اور موجب ہلاک کا جانتا تھا اور بے اختیار کہتا تھا کہ میرے تئیں حق تعالیٰ نے دولت دنیاوی سے بہت کچھ دیا ہے لیکن نور چشم و راحت جان ناتواں کے بعد میرے وارث اس اس مال و دولت کا ہو ۔
نہیں ہے ۔ میں نے تجھ کو بیچ فرزندی کے لیا اور یہ سب نقد و جنس بہ خوشی تجھ کو نذر کیا بلکہ شادی اس مقدمہ کی مقرر کرکے تمام عمدہ و اکابرین شہر کو بہ طور ضیافت اپنے ڈیرے بلایا اور مطلع اس معاملے کا کیا اور کہا
فرد
اگر حسرت کا سودا بن پڑا اس عشق بازی میں
تو مجنوں پھیر ویرانہ ، تیرا آباد ہو جائے
چانچہ اس عاقلہ نے بعد قابو کرنے اور محیط ہونے کے پگڑی پھیر رکھی اور ازروئے عقل کے نہایت ملول اور غمگین بیٹھی سوداگر نے دیکھ کر سبب گَلال و مَلال طبع کا استفسار کیا تب اس عاقلہ نے کہا کہ مجھ کو دو مشکل پیش ہیں ۔
فرد
نہ ہوں اس عشق میں کیوں کر میں نالاں
کہ سینہ غم کے سینے سے ملا ہے
اگر بیچ خدمت سراپا ! افادت تمہاری کے اوقات گزاری کروں تو والد بزرگوار مانند یعقوب کے بیچ غم مہاجرت ، اس یوسف ثانی کے نابینا ہو جائے گا اور کہے گا کہ بہ سبب سَن طفولیت کے خانماں فراموش کر کے اور کہیں کا ہو رہا اور جو قصد اُس سمت کا کروں تو