نو عمر لڑکیوں کے مبینہ اغوا اور جبرا قبول اسلام پر ہندو برادری کا دھرنا

جاسم محمد

محفلین
نو عمر لڑکیوں کے مبینہ اغوا پر ہندو برادری کا دھرنا
96526315_gettyimages-506576140.jpg

AFP
سندھ کے ضلع گھوٹکی میں اس سے پہلے بھی ایسے مبینہ واقعات پیش آئے ہیں جن میں ہندو برادری نے الزام لگایا کہ ان کے گھر کی لڑکیوں کو اغوا کر لیا گیا ہے (فائل فوٹو)
ایک طرف دنیا بھر میں ہندو برادری رنگوں کا تہوار منانے میں مصروف ہے، تو دوسری جانب سندھ کے ضلع گھوٹکی میں ہندوؤں نے اپنی برادری کی دو لڑکیوں کے مبینہ اغوا کے خلاف قومی شاہراہ پر دہرنا دیا ہوا ہے۔

قصبے ڈھرکی سے تعلق رکھنے والے چمن لال نے نامہ نگار ریاض سہیل کو بتایا کہ مسلح افراد نے بدھ کو ان کے گھر پر حملہ کیا اور ان کی دو بہنوں کو اغوا کر کے لے کئے۔

لڑکیوں کی عمریں 14 اور 15 سال بتائی جاتی ہیں۔ تاہم چمن لال کے بقول جب ان کے خاندان نے پولیس کو شکایت کی تو انھوں نے کارروائی کرنے کی حامی بھری، لیکن اب تک کوئی پیش رفت نہیں ہے۔

’ہم اپنا تہوار منا رہے تھے، لیکن رنگوں کے بجائے اب ہم خون کی آنسو رو رہے ہیں۔ ہماری کوئی سننے کو تیار نہیں ہے۔‘

دوسری جانب ڈھرکی کے صحافیوں کو ایک ویڈیو پیغام موصول ہوا ہے جس میں دونوں لڑکیاں مذہب تبدیلی کرنے کے بارے میں بتا رہی ہیں اور مطالبہ کر رہی ہیں کہ انھیں پولیس سے تحفظ فراہم کیا جائے۔

ویڈیو میں ایک لڑکی کے چہرے پر واضح طور پر ہولی کا سرخ رنگ دیکھا جا سکتا ہے۔

تاہم ڈھرکی پولیس کے ڈی ایس پی اظہار لاہوری نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ کہ لڑکیاں اغوا نہیں ہوئیں، بلکہ اپنی مرضی سے گئی ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ اغوا کی واردات کے نوعیت مختلف ہوتی ہے اور اس واقعے میں زور زبردستی شامل نہیں۔

واضع رہے کے سندھ میں رائج شادی کے قانون کے تحت 18 سال سے کم عمر افراد کی شادی نہیں ہوسکتی۔

جب ڈی ایس پی اظہار سے اس حوالے سے والدین کے موقف کے بارے میں پوچھا گیا انھوں نے کہا کہ جب لڑکیوں کے والدین اپنے دعوے کا ثبوت لائیں گے تو ہی قانونی کارروائی کی جائے گی۔

ان کے مطابق لڑکیوں کے لواحقین اب تک ایف آئی آر درج کروانے نہیں آئے، اسی لیے پولیس نے کوئی کارروائی نہیں کی۔

یاد رہے کہ سندھ کے ضلع گھوٹکی میں اس سے پہلے بھی ایسے مبینہ واقعات پیش آئے ہیں جس میں ہندو برادری نے الزام لگایا کہ ان کے گھر کی لڑکیوں کو اغوا کر لیا گیا ہے۔

سندھ میں مذہب کی جبری تبدیلی کی روک تھام کا ایک قانون بھی سندھ اسمبلی میں پیش کیا گیا تھا اور اس میں مذہب کی تبدیلی کا ایک طریقہ کار بھی واضح کیا گیا تھا۔

تاہم مذہبی جماعتوں کے دباؤ اور احتجاج کے بعد اس قانون پر عملدرآمد روک دیا گیا۔ یہ بل مسلم لیگ-فنکشنل کے رکن نند کمار گوکلانی نے پیش کیا تھا۔ وہ کہتے ہیں کہ پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت نے گورنر کو قانون پر دستخط نہ کرنے کا کہا تھا۔

انھوں نے الزام لگایا کہ ایسا لگتا ہے جیسے حکومت انتہاپسندوں کے سامنے ہتھیار ڈال چکی ہے۔

تاہم پاکستان پیپلز پارٹی کا موقف ہے کہ اس قانون میں ترامیم کے بعد اسے دوبارہ اسمبلی کے سامنے رکھا جائے گا۔
 

جاسم محمد

محفلین
رینا اور روینا کے مسلمان ہونے کا معجزہ اور شناختی کارڈ کا قصہ
23/03/2019 حاشر ابن ارشاد



امی اور ابو روایتی مسلمان تھے بلکہ کسی حد تک سخت گیر بھی مگر تنگ نظر نہیں تھے۔ گھر میں قرآن کے ساتھ اناجیل اربعہ اور مہا بھارت کے تراجم بھی موجود تھے۔ بچپن میں جو پہلی باقاعدہ مذہبی کتاب میرے ہاتھ میں تھمائی گئی وہ مولانا مودودی کی تفہیم القرآن تھی پر اس کے بعد ابو کی لائبریری کے دروازے بغیر کسی خاص ہدایت کے مجھ پر وا کر دیے گئے۔ یہ قصہ کہیں لکھ چکا ہوں کہ کیسے اس چھوٹی سی عمر میں یہ خیال ذہن میں جگہ بنا لینے میں کامیاب ہو گیا کہ مذہب ایک اختیار ہے، جبر نہیں اور والدین نے بھی اس خیال کی توثیق کر دی۔ پر بہت جلد یہ سمجھ میں آ گیا کہ یہ فیصلہ کرنا کہ کون سا راستہ چننا ہے، سہل نہیں ہے۔ جتنا پڑھتا گیا، لگتا کہ کم ہے۔ الجھنیں بڑھتی چلی گئیں۔ اسی کشمکش میں عمر کے اٹھارہ سال گزر گئے۔

سرکاری بلوغت کی عمر کو پہنچنے کے بعد یہ بھی لازم تھا کہ شناختی کارڈ بنوایا جائے۔ سو متعلقہ دفتر پہنچا۔ شناختی کارڈ کے فارم لیے، تصاویر وغیرہ اور باقی لوازمات کی کاپیاں پہلے ہی اکٹھی کر رکھی تھیں۔ اب فارم بھرنا تھا۔ پہلے ہی صفحے پر ایک خانہ مذہب کا تھا۔ وہاں پہنچا تو ٹھٹک گیا۔ کیا لکھا جائے؟ ابھی تو فیصلہ ہوا ہی نہیں تھا۔ لیکن قواعد کی رو سے کوئی خانہ خالی نہیں چھوڑا جا سکتا تھا۔ بہت سوچنے کے بعد یہ فیصلہ کیا کہ نمازیں تو پڑھتے ہی ہیں اور روزے بھی رکھ لیتے ہیں کہ ابھی تک اس دین کو ترک کرنے کا کوئی ارادہ نہیں بنا تھا جو ایک رسم اور روایت کی طرح پیدائش سے میرا حصہ بن گیا تھا اس لیے مسلم لکھنے میں کوئی ہرج نہیں لیکن یہ بتانا ضروری ہے کہ یہ پیدائش کا جبر ہے، میرا اختیار نہیں تاکہ اگر کبھی اختیار کی جوت جاگے تو حوالہ موجود ہو۔ فارم انگریزی میں تھا۔ خوشخطی کے ساتھ خانے میں لکھا ”مسلم بائی برتھ“ باقی خانے بھرنا آسان تھا۔ دستخط کیے۔ فارم جمع کروایا اور گھر چلا آیا۔

مقررہ مدت کے بعد شناختی کارڈ وصول کرنے دفتر پہنچا تو کھڑکی پر بیٹھے کلرک نے بجائے کارڈ کے میرا فارم مجھے واپس کر دیا۔

”فارم مسترد ہو گیا ہے“ بابو نے پان چباتے ہوئے مجھے اطلاع کی۔
پوچھنے پر صاحب نے مذہب کے خانے پر لگا سرخ دائرہ مجھے دکھایا۔

”اس میں کیا مسئلہ ہے“ میں نے کچھ سمجھتے، کچھ نہ سمجھتے ہوئے بھی پوچھنا مناسب سمجھا
”اؤ بھائی، مسلمان ہو تو مسلم لکھو۔ مسلمان نہیں ہو تو نان مسلم لکھو۔ یہ بائی برتھ کیا ہوتا ہے“

میں نے سمجھانے کی کوشش کی کہ پیدائش کے جبر کا فلسفہ بیان کر سکوں پر کلرک سننے میں چنداں دلچسپی نہیں رکھتا تھا اور میرے پیچھے قطار بھی لمبی تھی۔ تھوڑی دیر کی بک بک چخ چخ کے بعد مجھے بتا دیا گیا کہ مسلم اور نان مسلم کے علاوہ کوئی تیسرا انتخاب ممکن نہیں۔ اور لامذہب ہونا تو بالکل ہی ممکن نہیں۔ دل تو کیا کہ شناختی کارڈ پر ہی لعنت بھیج دوں لیکن شناختی کارڈ کے بغیر لائسنس نہ بنتا اور لائسنس کے بغیر ابو موٹر سائیکل مجھے دینے سے انکاری تھی۔ تھوڑی دیر میں موٹر سائیکل چلانے کی سرخوشی میرے فلسفہ حیات پر غالب آ گئی۔ دوسرا فارم لیا۔ مذہب کے خانے میں مسلم لکھا اور اگلے ہی دن فارم کی تصدیق کروا کے دوبارہ جمع کروا دیا۔ کچھ دن میں شناختی کارڈ بن کر آ گیا اور پیدائش کے جبر کے بعد سرکار کے جبر کی وجہ سے مردم شماری میں ایک اور مسلمان کا اضافہ ہو گیا۔

آٹھ دس سال کی عمر سے مذہبی فکر کا باقاعدہ مطالعہ شروع ہوا تھا۔ شروع میں ہلکی پھلکی کتابیں پڑھیں۔ اٹھارہ سال کی عمر تک پہنچتے تقابل ادیان پر بہت سا بھاری بھرکم فلسفہ بھی ہضم کیا پر سرکار نے جس دن میرے لیے مذہب کے انتخاب کے فیصلے کا دن چنا تو دس سال کے مطالعے کے بعد بھی میں کوئی فیصلہ کرنے سے قاصر تھا۔ یہ ضرور معلوم ہو گیا تھا کہ لا ادری یا پھر ملحد ہونا شاید اتنا مشکل نہیں ہے کہ مذاہب کی بنیادی قدر مشترک ایک ہی ہے اور اگر اس قدر مشترک کو مسترد کیا جا سکے تو پھر ایک دین کے بعد دوسرے اور تیسرے دین کا مطالعہ کیے بغیر بھی اس راستے کو ہی چھوڑا جا سکتا ہے پر ایک دین ترک کرکے دوسرا دین شعوری طور پر اختیار کرنا جان جوکھوں کا کام ہے۔ ہم جس مذہب میں پیدا ہوتے ہیں اس میں ذہن سازی کا عمل آنکھیں کھولنے کے بعد شروع ہو جاتا ہے۔

شعوری ارتقاء کا فلسفہ ہمیں یہ بتاتا ہے کہ زندگی کے پہلے دس سال شخصیت سازی میں سب سے اہم ہوتے ہیں اور یہ وہ وقت ہے جس میں دوسرے آپ کی شخصیت کی تعمیر کرتے ہیں۔ جو وہ سوچتے ہیں، جس طرح وہ سوچتے ہیں وہ آپ کی ذات میں اس طرح پیوست ہو جاتا ہے کہ آپ میں سے اکثر عمر بھر اس حصار سے باہر نہیں نکل پاتے۔ آپ عمر بھر یہ سمجھتے ہیں کہ آپ اپنے ذہن سے سوچ رہے ہیں پر آپ کا ذہن ایک ایسے کنویں کا اسیر ہے جس کی دیواریں آپ کے بچپن میں ہی چن دی جاتی ہیں۔ اور عمر بھر آپ اس کنویں کی دیوار کو حد شعور سمجھتے ہوئے اپنے فیصلے کرتے ہیں۔

ہر دین میں ایک خود حفاظتی نظام موجود ہے جو آپ کے ذہن میں یہ راسخ کرتا چلا جاتا ہے کہ وہی دین برحق ہے اور باقی سب دین جھوٹے ہیں۔ آپ کا طریق درست ہے اور باقی سب غلط ہیں۔ ہم میں سے اکثر تقابل ادیان کے ضمن میں کسی بھی مطالعے سے نفور رکھتے ہیں کہ وہ اپنے کنویں میں اپنے آپ کو محفوظ اور خوش سمجھتے ہیں پر وہ جو کبھی اس مسئلے میں الجھ جائیں، بہت مطالعے کے بعد بھی مذاہب کے بیچ کوئی خاص جوہری فرق تلاش نہیں کر پاتے۔ دونوں صورتوں میں نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ آپ جس مذہب پر پیدا ہوتے ہیں، عموما اسی پر فوت ہو جاتے ہیں۔ مذہب کی تبدیلی ایک کٹھن فیصلہ ہے، شعوری طور پر یہ فیصلہ جب بھی ہو گا اس کے پیچھے طویل ریاضت اور وسیع مطالعہ موجود ہو گا۔

لیکن اس ملک ضیا داد میں ایسے معجزات کی کمی نہیں جہاں لوگوں پر کسی مطالعے یا ریاضت کے بغیر ہی اپنے مذہب کا بودا پن اور دوسرے مذہب کی حقانیت ایسے واضح ہوتی ہے کہ وہ ایک لمحہ تاخیر کیے بغیر ترک دین کر کے ایک دائرے سے دوسرے دائرے میں قدم رکھ دیتے ہیں۔ تاہم اس ضمن میں کچھ اور حقائق بہت دل چسپ ہیں۔ سب سے اہم بات یہ کہ جو دائرہ ترک کیا جاتا ہے وہ عیسائی یا ہندو مذہب کا ہوتا ہے اور جو اختیار کیا جاتا ہے وہ اسلام کا۔ دوسرا یہ کہ چند مثتثنیات کے علاوہ عمومی طور پر یہ معجزہ سندھ میں کم عمر اور خوب رو ہندو لڑکیوں اور پنجاب میں عیسائی لڑکیوں کے ساتھ پیش آتا ہے۔ ہر ایسے روح پرور واقعے میں ایسے مسلمان مرد ضرور ہوتے ہیں جو ان نو مسلموں کی حفاظت اور دلجوئی کی خاطر ان سے فوری نکاح کر لیتے ہیں۔ یہ بات تو بتانے کی ضرورت نہیں کہ یہ ایک اعلی روحانی مقام پر فائز کسی پیر، خطیب یا سیاسی راہ نما کی نظر کرم ہوتی ہے جو دلوں کو ایمان کی روشنی سے منور کرنے کا سبب بنتی ہے۔

اس سلسلے میں سندھ کے ضلع گھوٹکی کو ہمیشہ امتیاز حاصل رہا ہے۔ برصغیر کے اولیاء کرام کی لاکھوں کروڑوں ہندوؤں کو داخل اسلام کرنے کی عظیم روایت کو جس طرح گھوٹکی کی درسگاہ بھرچونڈی شریف کے کرتا دھرتا میاں عبدالحق عرف میاں مٹھو نے نبھایا ہے اس کی مثال نہیں ملتی۔ ان کے دست شریف پر سینکڑوں ہندو لڑکیاں اسلام قبول کر چکی ہیں۔ حاسدین البتہ یہ اشارہ کرتے ہیں کہ یہ فضیلت کبھی کسی ہندو مرد نے حاصل نہیں کی۔ ان حاسدین کو یہ بتانا چاہیے کہ ایک ہندو لڑکی کے مسلمان ہونے سے مستقبل کے مسلمان بچوں کی ایک پوری فیکٹری گویا تیار ہوتی ہے پھر اس سے ان مسلمان مردوں کو الگ ثواب کمانے کا موقع ملتا ہے جو ان سے میاں مٹھو کے زیر سایہ نکاح کرتے ہیں۔

ہندو لڑکوں نے اگر اسلام قبول کرنا شروع کر دیا تو ان کے لیے مسلمان لڑکیاں بھی ڈھونڈنی پڑیں گی جن سے ان کا نکاح کیا جا سکے۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ جو اپنے دین کا نہ ہوا کیا پتہ وہ ہمارا بھی نہ ہو۔ کل اگر وہ لڑکا گھوٹکی سے فرار ہو کر اپنے دین پر پلٹ گیا تو ان شریف مسلمان لڑکیوں کا کیا ہوگا۔ یہ کلیہ نومسلم لڑکیوں پر لاگو نہیں ہوتا کیونکہ اگر وہ ایسی کوشش کریں تو ان کے شوہر ان کی ٹانگیں نہ توڑ دیں کیونکہ مرد عورتوں پر حاکم ہیں نہ کہ عورتیں مردوں پر۔



برسوں سے یہ سلسلہ چلا آ رہا ہے۔ میاں مٹھو اب حکمران جماعت کے ٹکٹ پر ایوان نمائندگان میں بھی موجود ہیں۔ ان کے فرزند میاں شمن بھی اب اس دھندے، معاف کیجیے گا، اس روحانی جہاد کے فروغ کے لیے اسی طرح کوشاں ہیں جیسے کہ ان کے والد محترم۔ چراغ سے چراغ جلتا ہے۔ اب کچھ روز پہلے ہی بارہ سالہ رینا اور چودہ سالہ روینا نے ان کے دست مبارک پر اسلام قبول کیا ہے اور ساتھ ہی دو نوجوان مہیا کر دیے گئے جو ان بے سہارا نومسلم لڑکیوں سے نکاح کر کے ان کے کفیل بن گئے۔

شنید ہے کہ بچیوں کے باپ نے اغوا کا پرچہ کرانے کی کوشش کی لیکن ایمان کی دولت سے مالامال سندھ پولیس نے یہ مذموم کوشش ناکام بنا دی۔ بچیوں کی ماں اسی دوران شاید کسی علالت کی وجہ سے وفات پا گئی تو کم بخت ہندو کمیونٹی نے اس کو یوں پیش کیا جیسے وہ اپنی بچیوں کے غم میں مر گئی ہو۔ خود سوچیے اندرون سندھ میں اس بالی عمر میں اس کی بچیاں اپنے گھر کی ہو گئیں اور وہ بھی بالادست عقیدہ رکھنے والے مردوں کے گھر کی کہ اب کوئی ان کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھ سکتا۔ یہ خوشی کا موقع ہے کہ دکھ کا۔ ماں کی آئی تھی سو مر گئی۔ ویسے بھی روز ہزاروں مرتے ہیں۔ اس میں اتنا ڈرامہ کرنے کی کیا ضرورت ہے۔

درگاہ بھر چونڈی شریف کا یہ وتیرہ ہے کہ وہ جو کام کرتے ہیں وہ ڈنکے کی چوٹ پر کرتے ہیں۔ لوگ باگ کچھ دن سے ان بچیوں کے اغوا اور جبری نکاح کی افواہیں اڑا رہے تھے۔ ان کے تدارک کے لیے باقاعدہ پریس کانفرنس کی گئی۔ بچیوں کو ان کے شوہروں کے ساتھ بٹھایا گیا اور درگاہ کے نمائندے نے صحافیوں کو ان کے قبول اسلام کی داستان سنائی۔ رینا اور روینا میں کم عمری کے علاوہ ایک قدر مشترک ہے اور وہ ہے ان کی خوب صورتی۔ پریس کانفرنس میں ان کے چہرے یوں بھی ایمان کے نور سے دمک رہے تھے۔ یا شاید اس کی وجہ یہ تھی کہ ان کے منکوحہ شوہر جو اس پریس کانفرنس میں بٹھائے گئے تھے ان کے مقابلے میں انتہائی کم رو تھے۔ شاید ان پڑھ بھی پر اس سے کیا ہوتا ہے۔ مرد تو مرد ہوتا ہے۔

اس کم عمری میں مذہب ترک کر دینے کا عرفان حاصل کرنے پر شاید میاں مٹھو ان کا نام گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ کے لیے بھی نامزد کریں۔ 2016 میں سندھ اسمبلی نے قانون پاس کیا تھا جس کی رو سے اٹھارہ سال سے کم عمر کے تبدیلی مذہب پر پابندی عائد کر دی گئی تھی پر ہمارے اکابرین مذہب کو داد دیجیے کہ ان کے شدید احتجاج کے باعث اسمبلی کو اس قانون کو واپس لینا پڑا ورنہ آج رینا اور روینا گمراہی کے اندھیرے میں بھٹکتی رہ جاتیں۔

سندھ میں کم عمری کی شادی کے خلاف بھی ایک غیر اسلامی قانون ہے لیکن قانون کا کیا ہے۔ قانون دین سے بالاتر تھوڑی ہے۔ اگر میاں مٹھو اور میاں شمن کہتے ہیں کہ بارہ اور چودہ سال کی لڑکیوں کی شادی ہو سکتی ہے تو بس ہو سکتی ہے۔ سندھ ہائی کورٹ اور سندھ پولیس ہو گی اپنے گھر کی۔ ظلم کے ضابطے، ہم نہیں مانتے، ہم نہیں مانتے۔ یہ سب اپنی جگہ پر سندھ میں چونکہ میاں مٹھو کی مخالف پارٹی برسر اقتدار ہے اور ان کا دین ایمان بھی مشکوک ہے اس لیے پریس کانفرنس اور بچیوں کی مع ان کے مجازی خداؤں کے رونمائی کے لیے سنی تحریک پنجاب کے دفتر کو چنا گیا۔

چلیے۔ یہ سب ہو گیا پر بالترتیب چار اور چھ سال بعد جب روینا اور رینا اپنا شناختی کارڈ کا فارم بھریں گی تو مذہب کے خانے میں کچھ لکھنے سے پہلے کیا سوچیں گی۔ مسلم بائی برتھ، مسلم بائی چوائس یا مسلم بائی فورس لکھنے کا انتخاب تو ہے نہیں۔ ہاں ایک انتخاب اور تھا جو ان سے بہت پہلے لے لیا گیا پر شناختی کارڈ تو بننا ہے۔ تو چپ کر کے وہ اس خانے میں مسلم لکھیں گی اور دل میں ماں کی گود، باپ کے دست شفقت، پرشاد کی مٹھائی، آرتی کی شمع اور مندر کی گھنٹیوں کو یاد کر کے خاموشی سے رو دیں گی۔
 

جاسمن

لائبریرین
استغفراللہ۔
ظلم ہے یہ۔ بہت بڑا ظلم۔
ہم یہ آخر کیا کر رہے ہیں!
بچیوں کو اغوا اور جبری مذہب بدلنا، جبری شادی۔۔۔استغفراللہ۔
کتنے دلوں پہ چھری چلا دی ظالموں نے۔ کیسی کیسی آہیں لیں۔
شرم کا مقام ہے۔
حضرت عمر رضی اللہ تعالی یاد آرہے ہیں۔
 

جاسم محمد

محفلین
وزیر اعظم پاکستان عمران خان نے اس معاملہ کو اٹھایا ہے اور سندھ حکومت کو تاکید ہے کہ وہ فورا اسے حل کریں
 

جاسم محمد

محفلین
دوسری طرف بھارتی انتہا پسند ہندو حکومت اس معاملہ کو الیکشن مہم کیلئے کیش کروا رہی ہے۔ اس کو بھی ترجمان تحریک انصاف حکومت نے بھرپور انداز میں شٹ اپ کروایا ہے

پاکستان کے اندرونی معاملات میں بولنے پر فواد چوہدری کا سشما سوراج کو کرارا جواب

1604710-fawadsushma-1553416479-624-640x480.jpg

یہاں اقلیتوں کومساوی حقوق حاصل ہیں، فواد چوہدری۔

اسلام آباد: وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری کا کہنا ہے کہ ہندو لڑکیوں کا اغوا پاکستان کا اندرونی معاملہ ہے جب کہ یہ مودی کا بھارت نہیں جہاں اقلیتوں سے نارواسلوک کیا جاتاہے۔

سندھ سے 2 ہندو لڑکیوں کے مبینہ اغوا سے متعلق بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج کی ٹوئٹ پر وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے کہا کہ ہندو لڑکیوں کامعاملہ پاکستان کا اندرونی معاملہ ہے، یہ عمران خان کانیا پاکستان ہے، یہاں اقلیتوں کومساوی حقوق حاصل ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ مودی کابھارت نہیں جہاں اقلیتوں سے ناروا سلوک کیا جاتاہے، امید کرتے ہیں بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج بھارتی اقلیتوں کےحقوق کےمعاملے پر بھی ایسا ہی ردعمل دیں گی۔

واضح رہے کہ ڈھرکی کی 2 ہندو لڑکیاں مبینہ طور پر لاپتہ ہوگئی ہیں، سوشل میڈیا پر واقعے کی تفصیلات وائرل ہونے کے بعد وزیر اعظم عمران خان نے اس کا نوٹس بھی لیا ہے لیکن خود کو جمہوریت کا چیمپیئن سمجھنے والی بھارت کی وزیر خارجہ سشما سوراج نے ٹوئٹ کی تھی کہ انہوں نے پاکستان میں بھارتی ہائی کمیشن سے اس کی تفصیلات طلب کی ہیں۔

 

جاسم محمد

محفلین
اسلام آباد : نو مسلم بہنوں کی عدالت سے تحفظ فراہمی کی درخواست، سماعت کل ہوگی

ویب ڈیسک 25 مارچ 2019

اسلام آباد : اندرون سندھ سے تعلق رکھنے والی نو مسلم دو بہنوں کی جانب سے تحفظ فراہم کرنے کی درخواست اسلام آباد ہائی کورٹ نے کل سماعت کیلئے مقرر کردی ۔

تفصیلات کے مطابق ہندو مذہب چھوڑ کر اسلام قبول کرنے والی گھوٹکی کی دو بہنوں نے تحفظ کیلئے اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کرلیا ہے، درخواست گزاروں کا مؤقف ہے کہ ہمیں ہراساں کیا جارہا ہے، جان کو بھی خطرہ ہے لہٰذا حکومت سیکیورٹی فراہم کرے۔

عدالت نے درخواست سماعت کیلئے منظور کرلی، اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کل درخواست پر سماعت کریں گے، درخواست میں وزارت داخلہ اور وزیراعلیٰ سندھ کے علاوہ آئی جی پنجاب، سندھ اور اسلام آباد کو بھی فریق بنایا گیا ہے۔

درخواست میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ میڈیا میں ان بہنوں سے متعلق غلط پروپیگنڈا کیا جارہا ہے، جس کے سبب دونوں بہنوں اور ان کے شوہروں کی جان کو خطرات لاحق ہیں۔

اسلام قبول کرنے سے متعلق ان کا کہنا ہے کہ ہم دونوں بہنیں کافی عرصے سے اسلامی تعلیمات سے متاثر تھیں، اور اہل خانہ کے خوف کے باعث اسلام قبول کرنے کا باقاعدہ اعلان نہیں کیا۔

درخواست میں دونوں بہنوں نے یہ اعتراف بھی کیا کہ ہم پر کسی قسم کا کوئی دباؤ نہیں اسلام زور زبردستی کی بجائے اپنی مرضی سے قبول کیا ہے۔
 

محمداحمد

لائبریرین
اسلام قبول کرنے سے متعلق ان کا کہنا ہے کہ ہم دونوں بہنیں کافی عرصے سے اسلامی تعلیمات سے متاثر تھیں، اور اہل خانہ کے خوف کے باعث اسلام قبول کرنے کا باقاعدہ اعلان نہیں کیا۔

نئی سچویشن پر بھی کچھ لکھا ہے ہم سب والوں نے؟
 

جاسم محمد

محفلین
اسلام آباد ہائیکورٹ کا دونوں نومسلم لڑکیوں کوسرکاری تحویل میں دینے کا فیصلہ
ویب ڈیسک منگل 26 مارچ 2019

1606867-muslim-1553578615-383-640x480.jpg

آئندہ سماعت تک وفاقی حکومت اوراسلام آٓباد انتظامیہ بچیوں کی محافظ ہوں گی، ہائیکورٹ: فوٹو: فائل

اسلام آباد: ہائیکورٹ نے دونوں نو مسلم لڑکیوں کو ڈپٹی کمشنر کے حوالے کردیا۔

ایکسپریس نیوزکے مطابق اسلام آباد ہائیکورٹ میں چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے نومسلم لڑکیوں کے تحفظ کی درخواست پرسماعت کی۔ ڈی جی ہیومین رائٹس بھی عدالت میں پیش ہوئے۔جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ یہ حساس معاملہ ہے جس سے پاکستان کا تشخص جڑا ہے، نبی ﷺ کے فتح مکہ اور خطبہ حجتہ الوداع پر دو خطاب موجود ہیں، وہ دونوں خطاب اقلیتوں کے حوالے سے ہمارے لئے قانون و آئین کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ کرنا ہماری ذمہ داری ہے۔ اقلیتوں کے حقوق آئین پاکستان میں درج ہیں اورقرآن پاک سے بھی واضح ہیں۔ عدالت ہرشہری کے بنیادی حقوق کی حفاظت کرے گی۔

سماعت کے دوران ڈی جی ہیومن رائٹس نے کہا کہ لڑکیوں کو شلٹرہوم یا دیگرجگہوں پررکھ سکتے ہیں۔ حکومتی نمائندے نے کہا کہ ایک ہفتے میں انکوائری مکمل کرلیں گے۔ چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے ریمارکس دیئے کہ سنا ہے وزیراعظم بھی انکوائری کا حکم دے چکے ہیں، وفاقی وزیرشیریں مزاری بھی اس معاملے کودیکھ رہی ہیں، معاملہ جب تک عدالت میں ہے لڑکیوں کو سندھ نہیں لے جایا جا سکتا جب کہ وزیراعظم نے جو انکوائری آرڈرکی ہے اس کی رپورٹ آئندہ منگل تک جمع کرائی جائے۔

عدالت نے دونوں لڑکیوں کوڈپٹی کمشنر کے حوالے کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ آئندہ سماعت تک وفاقی حکومت اور اسلام آٓباد انتظامیہ بچیوں کی محافظ ہوں گی۔ ڈسٹرکٹ اینڈسیشن جج کوگارڈین جج مقرر کررہے ہیں۔ آئندہ سماعت پر رپورٹ آجائے پھرمعاملے کو دیکھتے ہیں۔ عدالت نے نومسلم لڑکیوں کی درخواست کی سماعت آئندہ منگل تک ملتوی کردی۔

دوسری جانب سماعت کے بعد لڑکیوں نے میڈیا سے گفتگوکرتے ہوئے کہا کہ اسلام مرضی سے قبول کیا ہے، اسلام قبول کرنے کیلئے کسی نے دھمکیاں نہیں دیں۔
 

وقارسہیل

محفلین
اگر اس دور میں کھلے عام یہ ظلم ہورہاہے تو قیام پاکستان کے وقت کتنے مسلمانوں کو بے دردی سے شہید کیا گیا ہوگا۔ کتنی خواتین کی عصمت دری کی گئی ہوگی۔ اللہ حفاظت فرما۔
 

فلسفی

محفلین
اس پر دنیا کیوں نہیں چیختی؟

اگر اس دور میں کھلے عام یہ ظلم ہورہاہے تو قیام پاکستان کے وقت کتنے مسلمانوں کو بے دردی سے شہید کیا گیا ہوگا۔ کتنی خواتین کی عصمت دری کی گئی ہوگی۔ اللہ حفاظت فرما۔

آ عندلیب مل کے کریں آہ و زاریاں
تو ہائے گل پکار میں چلاؤں ہائے دل

جس دنیا میں ایسے لوگ امن کا نوبل انعام لیے گھوم رہے ہوں جن کی گردن پر ہزاروں بےگناہوں کا خون ہو تو وہاں منافقت کے علاوہ آپ کو کیا ملے گا؟ کسی کو زبردستی اسلام میں داخل کرنا بھی غلط اور اسلام سے زبردستی خارج کرنا بھی غلط لیکن کیا کریں مجموعی طور پر دنیا کا رجحان یہی ہے کہ اسلام یا مشرقی روایات کے خلاف کوئی "ٹوٹا" (فلم) ریلیز کردو اور "آسکر ایوارڈ" جیت لو۔ ایسے میں یک طرف موقف کو اچھالنا کچھ لوگوں کی مجبوری ہوتی ہے۔

غیر مسلم زیادتی کرے اور وہ سامنے آ جائے تو لوگ یہ کہنے پر مجبور ہوتے ہیں کہ ظلم، زیادتی اور غلطی کا کوئی مذہب نہیں لیکن اسلام اور مسلمانوں کے معاملے میں فورا لیبل اسلام اور تمام مسلمانوں پر لگا دیا جاتا ہے۔ حیرت ان براؤنیز (خوامخواہ کے لبرل) پر ہوتی ہے جو اس منافقت کی تائید کرتے نظر آتے ہیں۔ جن بےچاروں کو مشرق سے گھن آتی ہے اور مغرب والے تو ویسے ہی ان کو بلڈی دیسی کہہ کر رد کردیتے ہیں۔ یعنی دھوبی کا کتا ۔۔۔

موضوع کے لحاظ یہ عرض کردوں کہ ظلم، ظلم ہوتا ہے۔ اگر اس واقعے میں زبردستی کی گئی ہے اور "میاں مٹھو" نام کی شخصیت پر لگائے جانے والے الزامات میں حقیقت ہے تو میری رائے میں اس شخص کو عبرت کا نشان بنا دینا چاہیے کیونکہ یہ مذہب کی خدمت نہیں کر رہا بلکہ مذہب کو بدنام کر رہا ہے۔
 

فلسفی

محفلین
دین کے معاملہ میں کوئی جبر نہیں۔ باقی سب باتیں ہیں۔

عام انسان: 1+3 چار ہوتے ہیں۔
خاص انسان: نہیں 3+1 چار ہوتے ہیں۔
عام انسان: جی بالکل 1+3 ہوں یا 3+1 دونوں کا جواب چار ہوتا ہے۔
خاص انسان: نہیں 3+1 چار ہوتے ہیں۔
عام انسان: جی وہی عرض کیا ہے کہ 1+3 ہوں یا 3+1 دونوں کا جواب چار ہوتا ہے۔
خاص انسان: نہیں 3+1 چار ہوتے ہیں۔
:atwitsend::atwitsend::atwitsend::atwitsend:
 

جاسم محمد

محفلین
موضوع کے لحاظ یہ عرض کردوں کہ ظلم، ظلم ہوتا ہے۔ اگر اس واقعے میں زبردستی کی گئی ہے اور "میاں مٹھو" نام کی شخصیت پر لگائے جانے والے الزامات میں حقیقت ہے تو میری رائے میں اس شخص کو عبرت کا نشان بنا دینا چاہیے کیونکہ یہ مذہب کی خدمت نہیں کر رہا بلکہ مذہب کو بدنام کر رہا ہے۔
ہندو لڑکیوں کا اغواء، موم بتی مافیا کا پروپیگنڈا اور حقیقت
تصور حسین شہزاد جمعرات 28 مارچ 2019
1608358-hindumuslimgirlsx-1553674414-999-640x480.jpg

غربت کی زندگی اور اونچی ذات کے ہندوؤں سے تنگ آکر ان بہنوں نے عزت کو ترجیح دی اور اسلام قبول کرلیا۔ (فوٹو: فائل)

ہمارے میڈیا میں اچانک شور اُٹھا کہ سندھ کے علاقے گھوٹکی سے مبینہ طور پر دو ہندو لڑکیاں اغواء ہوگئی ہیں۔ لڑکیوں کے لواحقین کی جانب سے الزام عائد کیا گیا کہ اغواء ہونے والی لڑکیوں کو زبردستی اسلام قبول کروایا جائے گا۔ اس شور پر وزیراعظم نے بھی فوری نوٹس لیا اور متعدد گرفتاریاں بھی ہوئی ہیں تاہم معاملہ عدالت پہنچ چکا ہے۔ یہ پہلا واقعہ نہیں کہ ہندو لڑکیوں کے فرار کو اغواء کا نام دیا گیا ہو۔ اِن سے قبل بھی بہت سی ہندو لڑکیاں گھروں سے بھاگ کر آئیں، اسلام قبول کیا اور مسلمان لڑکوں سے شادیاں کیں۔ اب مسلمان ہونے والی روینا نے اپنا نام آسیہ اور رینا نے شازیہ رکھ لیا ہے۔ روینا کا نکاح صفدر جبکہ رینا کا برکت سے ہو چکا ہے۔

دونوں لڑکیوں نے اپنے ایک ویڈیو پیغام میں کہا تھا کہ وہ بغیر کسی دباؤ کے مسلمان ہوئی ہیں اور انہوں نے مرضی سے شادی کی ہے۔ دونوں لڑکیاں اسلام آباد ہائیکورٹ میں پیش ہوئیں۔ دونوں بہنوں کی جانب سے دائر درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا کہ انہوں نے مرضی سے اسلام قبول کیا ہے اور اپنی پسند سے ہی شادی ہے، اب انہیں جان کا خطرہ ہے، تحفظ فراہم کیا جائے۔

جسٹس اطہر من اللہ نے کیس کی سماعت کی جس میں دونوں نو مسلم بہنیں عدالت میں اپنے وکلاء کے ہمراہ پیش ہوئیں۔ اس دوران جسٹس صاحب نے ڈپٹی کمشنر اسلام آباد کو روسٹرم پر طلب کیا۔ فاضل جج نے ریمارکس جاری کرتے ہوئے کہا کہ یہ حساس معاملہ ہے، جس سے پاکستان کا تشخص جڑا ہے۔ نبی پاکﷺ کے فتح مکہ اور خطبہ حجۃ الوداع پر دو خطاب ہیں اور دونوں خطاب اقلیتوں سے متعلق قانون و آئین کی حیثیت رکھتے ہیں۔ چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ کا کہنا تھا کہ یہ ملک کے امیج کا معاملہ ہے، لڑکیوں کو ڈپٹی کمشنر کے حوالے کر رہے ہیں، ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج کو گارڈین مقرر کر رہے ہیں۔ عدالت عالیہ نے چیف سیکرٹری سندھ اور دیگر فریقین سے آئندہ سماعت پر رپورٹ طلب کر لی ہے۔

جسٹس اظہر من اللہ نے حکم جاری کرتے ہوئے کہا کہ لڑکیوں کو شیلٹر ہوم یا دیگر جگہوں پر رکھا جا سکتا ہے اور ایس پی لیول کی افسر بچیوں کی حفاظت کےلیے تعینات کی جائے۔ عدالت نے مزید کارروائی منگل تک ملتوی کردی ہے۔

یہ لڑکیاں کیوں بھاگیں؟ حقائق کیا ہیں؟ اور میڈیا اسے کیوں اچھال رہا ہے؟ یہ سوالات اپنی جگہ اہم ہیں، جن کے جواب تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔

ان دونوں بہنوں کا تعلق ہندوؤں کی انتہائی نچلی ذات بھگیواڑ سے ہے۔ ہندوؤں میں غربت بہت زیادہ ہے۔ دوسرا وہاں کے امیر ہندو اپنی ہی برداری کے غریب ہندوؤں کے ساتھ جو سلوک روا رکھتے ہیں وہ تشویشناک ہے۔ ہندوؤں میں کزن میرج نہیں ہوتی، اور بھاری جہیز کے بغیر بھی کوئی رشتہ نہیں لیتا۔ اس لیے غریب گھرانوں کی لڑکیاں اچھی زندگی کے خواب آنکھوں میں سجائے یہ راستہ اختیار کرتی ہیں۔ مذہب تبدیل کر کے انہیں عزت بھی مل جاتی ہے اور دولت بھی جبکہ ایک خاندان چھوڑنے کے بدلے پورے ملک میں انہیں احترام دے کر اپنوں کا پیار دیا جاتا ہے؛ جس سے ان کا اسلام کی جانب راغب ہونا ایک فطری امر ہے۔

جہاں تک یہ سوال ہے کہ صرف لڑکیاں ہی اسلام کیوں قبول کرتی ہیں، لڑکے کیوں نہیں؟ تو یہ صرف میڈیا کا پروپیگنڈا ہے۔ لڑکیوں کی نسبت لڑکے زیادہ اسلام قبول کرتے ہیں اور بعض اوقات تو خاندان کے خاندان اسلام قبول کر لیتے ہیں۔ مگر ہمارا میڈیا انہیں نمایاں نہیں کرتا، کیوں کہ میڈیا میں این جی اوز کا اثر و رسوخ بھی ہے اور این جی اوز کو ایک مخصوص ایجنڈے کے تحت ہی ایسے ایشوز اٹھانے ہوتے ہیں۔

پاکستان میں کسی مسلمان لڑکی کے ساتھ جو ظلم مرضی ہوجائے، میڈیا اسے کوئی اہمیت نہیں دیتا، حتیٰ ایک لائن کی خبر بھی نہیں لگائی جاتی جبکہ کسی ہندو، عیسائی یا قادیانی لڑکی کی بات آجائے تو زمین و آسمان کے قلابے ملادیئے جاتے ہیں اور ایسا پروپیگنڈا کیا جاتا ہے کہ پوری دنیا میں پاکستان کو بدنام کرکے رکھ دیا جاتا ہے۔

یہ سوال کہ لڑکیاں کیوں بھاگیں؟ ظاہر ہے غربت کی زندگی میں پس رہی تھیں اور، مقامی صحافیوں کے بقول، اونچی ذات کے ہندو انہیں تنگ بھی کرتے تھے، مگر ان بہنوں نے وہاں رُسوا ہونے کے بجائے عزت کی زندگی کو ترجیح دی اور اسلام قبول کرلیا۔

اب این جی اوز مافیا، جسے عرف عام میں ’’موم بتی مافیا‘‘ بھی کہتے ہیں، شور مچا رہا ہے۔ انہوں نے عدالت کے فیصلے کا بھی انتظار نہیں کیا۔ لڑکیوں کا مؤقف بھی نہیں سنا اور ایک دم ہماری معاشرتی و اسلامی اقدار پر یک طرفہ حملہ کر دیا کہ ظلم ہوگیا! لڑکیوں کو جبری مذہب تبدیل کروا لیا گیا وغیرہ۔ ریاست کو اس حوالے سے اس موم بتی مافیا کے ہاتھوں بلیک میل ہونے کے بجائے یہ دیکھنا چاہیے کہ حقائق کیا ہیں۔

حقائق کی روشنی میں فیصلے کرنا عدالت کا کام ہے، این جی اوز مافیا کا نہیں۔ لہذا انہیں لگام دی جانی چاہیے۔ این جی اوز کے حکام کو سوچنا چاہیے کہ وہ بلاوجہ اور بغیر کسی ٹھوس ثبوت کے پاکستان اور اسلام کو بدنام کر رہے ہیں۔ پہلے لڑکیوں کا مؤقف سن لیتے۔

راقم گزشتہ 20 سال سے صحافت سے وابستہ ہے۔ پاکستان میں کسی بھی جگہ پر جبری مذہب تبدیلی کا کوئی معاملہ نہیں ہوتا۔ یہ محض این جی اوز کا پروپیگنڈا ہے۔ وہ کوئی ایک مثال بھی پیش کرنے سے قاصر ہیں جنہیں جبری مذہب تبدیل کرنے کےلیے کہا گیا ہو۔

راقم کے حلقہ احباب میں بھی سکھ، ہندو، عیسائی اور قادیانی ہیں، مگر آج تک کسی ایک نے بھی یہ شکایت نہیں کی کہ اسے مذہب کی تبدیلی کےلیے مجبور کیا جا رہا ہے۔ بلکہ مسلمان دیگر مذاہب کے لوگوں کو اپنے مسلمان بھائیوں کی نسبت زیادہ احترام دیتے ہیں۔ این جی اوز کے اس ’’کارِ خیر‘‘ میں ہمارا انگریزی میڈیا پیش پیش ہے۔ انگریزی میڈیا بھی ٹٹول ٹٹول کر ڈھونڈ رہا ہوتا ہے کہ کوئی خبر ایسی ملے جس میں قادیانیوں، ہندوؤں یا عیسائیوں کو ہراساں کیا گیا ہے۔ وہ خوب مرچ مصالحہ لگا کر اسے شائع کرتے ہیں جبکہ اردو میڈیا کا کردار اس حوالے سے کسی حد تک اطمینان بخش اور ذمہ دارانہ ہے۔

راقم کے خیال میں حکومت کو اس حوالے سے واضح پالیسی بنانی چاہیے جس میں وطن کی حرمت اور امیج کو خراب کرنے والوں کا بھی محاسبہ کیا جا سکے۔ ملک دشمنوں کے ہاتھوں میں کھیلنے والے ایسے ایک دو ہی دبوچ لیے گئے تو باقیوں کو ویسے ہی ’’سکون‘‘ ہوجائے گا، کیوں کہ سب سے پہلے وطن کی ساکھ اہم ہوتی ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
 
Top