جاسم محمد
محفلین
نو عمر لڑکیوں کے مبینہ اغوا پر ہندو برادری کا دھرنا
AFP
سندھ کے ضلع گھوٹکی میں اس سے پہلے بھی ایسے مبینہ واقعات پیش آئے ہیں جن میں ہندو برادری نے الزام لگایا کہ ان کے گھر کی لڑکیوں کو اغوا کر لیا گیا ہے (فائل فوٹو)
ایک طرف دنیا بھر میں ہندو برادری رنگوں کا تہوار منانے میں مصروف ہے، تو دوسری جانب سندھ کے ضلع گھوٹکی میں ہندوؤں نے اپنی برادری کی دو لڑکیوں کے مبینہ اغوا کے خلاف قومی شاہراہ پر دہرنا دیا ہوا ہے۔
قصبے ڈھرکی سے تعلق رکھنے والے چمن لال نے نامہ نگار ریاض سہیل کو بتایا کہ مسلح افراد نے بدھ کو ان کے گھر پر حملہ کیا اور ان کی دو بہنوں کو اغوا کر کے لے کئے۔
لڑکیوں کی عمریں 14 اور 15 سال بتائی جاتی ہیں۔ تاہم چمن لال کے بقول جب ان کے خاندان نے پولیس کو شکایت کی تو انھوں نے کارروائی کرنے کی حامی بھری، لیکن اب تک کوئی پیش رفت نہیں ہے۔
’ہم اپنا تہوار منا رہے تھے، لیکن رنگوں کے بجائے اب ہم خون کی آنسو رو رہے ہیں۔ ہماری کوئی سننے کو تیار نہیں ہے۔‘
دوسری جانب ڈھرکی کے صحافیوں کو ایک ویڈیو پیغام موصول ہوا ہے جس میں دونوں لڑکیاں مذہب تبدیلی کرنے کے بارے میں بتا رہی ہیں اور مطالبہ کر رہی ہیں کہ انھیں پولیس سے تحفظ فراہم کیا جائے۔
ویڈیو میں ایک لڑکی کے چہرے پر واضح طور پر ہولی کا سرخ رنگ دیکھا جا سکتا ہے۔
تاہم ڈھرکی پولیس کے ڈی ایس پی اظہار لاہوری نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ کہ لڑکیاں اغوا نہیں ہوئیں، بلکہ اپنی مرضی سے گئی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اغوا کی واردات کے نوعیت مختلف ہوتی ہے اور اس واقعے میں زور زبردستی شامل نہیں۔
واضع رہے کے سندھ میں رائج شادی کے قانون کے تحت 18 سال سے کم عمر افراد کی شادی نہیں ہوسکتی۔
جب ڈی ایس پی اظہار سے اس حوالے سے والدین کے موقف کے بارے میں پوچھا گیا انھوں نے کہا کہ جب لڑکیوں کے والدین اپنے دعوے کا ثبوت لائیں گے تو ہی قانونی کارروائی کی جائے گی۔
ان کے مطابق لڑکیوں کے لواحقین اب تک ایف آئی آر درج کروانے نہیں آئے، اسی لیے پولیس نے کوئی کارروائی نہیں کی۔
یاد رہے کہ سندھ کے ضلع گھوٹکی میں اس سے پہلے بھی ایسے مبینہ واقعات پیش آئے ہیں جس میں ہندو برادری نے الزام لگایا کہ ان کے گھر کی لڑکیوں کو اغوا کر لیا گیا ہے۔
سندھ میں مذہب کی جبری تبدیلی کی روک تھام کا ایک قانون بھی سندھ اسمبلی میں پیش کیا گیا تھا اور اس میں مذہب کی تبدیلی کا ایک طریقہ کار بھی واضح کیا گیا تھا۔
تاہم مذہبی جماعتوں کے دباؤ اور احتجاج کے بعد اس قانون پر عملدرآمد روک دیا گیا۔ یہ بل مسلم لیگ-فنکشنل کے رکن نند کمار گوکلانی نے پیش کیا تھا۔ وہ کہتے ہیں کہ پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت نے گورنر کو قانون پر دستخط نہ کرنے کا کہا تھا۔
انھوں نے الزام لگایا کہ ایسا لگتا ہے جیسے حکومت انتہاپسندوں کے سامنے ہتھیار ڈال چکی ہے۔
تاہم پاکستان پیپلز پارٹی کا موقف ہے کہ اس قانون میں ترامیم کے بعد اسے دوبارہ اسمبلی کے سامنے رکھا جائے گا۔
AFP
سندھ کے ضلع گھوٹکی میں اس سے پہلے بھی ایسے مبینہ واقعات پیش آئے ہیں جن میں ہندو برادری نے الزام لگایا کہ ان کے گھر کی لڑکیوں کو اغوا کر لیا گیا ہے (فائل فوٹو)
ایک طرف دنیا بھر میں ہندو برادری رنگوں کا تہوار منانے میں مصروف ہے، تو دوسری جانب سندھ کے ضلع گھوٹکی میں ہندوؤں نے اپنی برادری کی دو لڑکیوں کے مبینہ اغوا کے خلاف قومی شاہراہ پر دہرنا دیا ہوا ہے۔
قصبے ڈھرکی سے تعلق رکھنے والے چمن لال نے نامہ نگار ریاض سہیل کو بتایا کہ مسلح افراد نے بدھ کو ان کے گھر پر حملہ کیا اور ان کی دو بہنوں کو اغوا کر کے لے کئے۔
لڑکیوں کی عمریں 14 اور 15 سال بتائی جاتی ہیں۔ تاہم چمن لال کے بقول جب ان کے خاندان نے پولیس کو شکایت کی تو انھوں نے کارروائی کرنے کی حامی بھری، لیکن اب تک کوئی پیش رفت نہیں ہے۔
’ہم اپنا تہوار منا رہے تھے، لیکن رنگوں کے بجائے اب ہم خون کی آنسو رو رہے ہیں۔ ہماری کوئی سننے کو تیار نہیں ہے۔‘
دوسری جانب ڈھرکی کے صحافیوں کو ایک ویڈیو پیغام موصول ہوا ہے جس میں دونوں لڑکیاں مذہب تبدیلی کرنے کے بارے میں بتا رہی ہیں اور مطالبہ کر رہی ہیں کہ انھیں پولیس سے تحفظ فراہم کیا جائے۔
ویڈیو میں ایک لڑکی کے چہرے پر واضح طور پر ہولی کا سرخ رنگ دیکھا جا سکتا ہے۔
تاہم ڈھرکی پولیس کے ڈی ایس پی اظہار لاہوری نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ کہ لڑکیاں اغوا نہیں ہوئیں، بلکہ اپنی مرضی سے گئی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اغوا کی واردات کے نوعیت مختلف ہوتی ہے اور اس واقعے میں زور زبردستی شامل نہیں۔
واضع رہے کے سندھ میں رائج شادی کے قانون کے تحت 18 سال سے کم عمر افراد کی شادی نہیں ہوسکتی۔
جب ڈی ایس پی اظہار سے اس حوالے سے والدین کے موقف کے بارے میں پوچھا گیا انھوں نے کہا کہ جب لڑکیوں کے والدین اپنے دعوے کا ثبوت لائیں گے تو ہی قانونی کارروائی کی جائے گی۔
ان کے مطابق لڑکیوں کے لواحقین اب تک ایف آئی آر درج کروانے نہیں آئے، اسی لیے پولیس نے کوئی کارروائی نہیں کی۔
یاد رہے کہ سندھ کے ضلع گھوٹکی میں اس سے پہلے بھی ایسے مبینہ واقعات پیش آئے ہیں جس میں ہندو برادری نے الزام لگایا کہ ان کے گھر کی لڑکیوں کو اغوا کر لیا گیا ہے۔
سندھ میں مذہب کی جبری تبدیلی کی روک تھام کا ایک قانون بھی سندھ اسمبلی میں پیش کیا گیا تھا اور اس میں مذہب کی تبدیلی کا ایک طریقہ کار بھی واضح کیا گیا تھا۔
تاہم مذہبی جماعتوں کے دباؤ اور احتجاج کے بعد اس قانون پر عملدرآمد روک دیا گیا۔ یہ بل مسلم لیگ-فنکشنل کے رکن نند کمار گوکلانی نے پیش کیا تھا۔ وہ کہتے ہیں کہ پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت نے گورنر کو قانون پر دستخط نہ کرنے کا کہا تھا۔
انھوں نے الزام لگایا کہ ایسا لگتا ہے جیسے حکومت انتہاپسندوں کے سامنے ہتھیار ڈال چکی ہے۔
تاہم پاکستان پیپلز پارٹی کا موقف ہے کہ اس قانون میں ترامیم کے بعد اسے دوبارہ اسمبلی کے سامنے رکھا جائے گا۔