ابن حسن،
۱۔ کیا آپ بالکل اس احساس سے عاری ہیں کہ آپ نے حلال و حرام کی بحث پر فضائل کی بحث کو مقدم کر کے چیزیں باکل غلط ملط کر دیں ہیں؟
2۔ دوسرا آپ پہلے یہ ثابت کریں کہ فضائل کی روایات سے کسی چیز کا حلال یا حرام ہونا ثابت ہوتا ہے؟
3۔ تیسرا آپ یہ ثابت کریں کہ ہمارے کسی عالم نے کہا ہو کہ فضائل کی یہ روایت "صحیح" ہے اور اس پر ایمان لانا واجب ہے؟ تو ابتک آپ نے جتنی روایات پر اپنا زور رکھا ہوا ہے، آپکو چیلنج ہے کہ پہلے انکی سندیں پیش کریں، پھر ثابت کریں کہ وہ صحیح ہیں۔
اہل تشیع علماء کے متعلق میں بہت پہلے بیان کر چکی ہوں کہ وہ حلال و حرام اور فقہ کے متعلق صحیح کی شرط لگاتے ہیں جبکہ فضائل میں کمزرو روایات کو بھی بیان کرتے ہیں بالکل ایسے ہی جیسے اہلسنت کے سلف علماء نے ہزاروں ایسی فضائل کی ضعیف روایات اپنی کتابوں میں نقل کی ہیں کہ انہیں علم تھا کہ یہ روایات صحیح کی شرائط پر پورا نہیں اترتیں۔
مہوش علی
یہ بات تو بعد کی ہے کہ فضائل کی بحث پہلے ہونی چاہیے یا کوئی اور (یہ بات بھی ذہن میں رہے کہ متعہ اہل تشیع کے سوا اس امت کے نزدیک حرمت کے ہی درجہ میں ہے ۔ اور اہل تشیع کے نزدیک متعہ جو نہ کرے تو اس کا ایمان ہی کامل نہیں )
لیکن یہاں جو زیادہ ضروری بات ہے کہ آپ نے واضح و صریح جھوٹ بولا ہے اور اب اپنے اس جھوٹ کو بجائے اس کے آپ تسلیم کریں آپ خلط مبحث کر کہ اپنی جان بچانا چا رہی ہیں سب سے پہلے تو اس بات کا جواب دیجئے کہ آپ نے غلط بیانی سے کام لیا کیوں۔ اتنے بلند بانگ دعووں کے ساتھ جو بحث آپ نے شروع کی اس میں جھوٹ کی قطا کوئی گنجائش نہیں ہوتی آپ نے کہا تھا کہ یہ حدیث جس میں متعی کا مقام آنحضرت تک کرنے کی بات کی گئی وہ تو ہماری ہے ہی نہیں اور کاشانی صاحب نے تو یہ کہا ہے کہ یہ روایت مجھول ہے اور مخالفین نے ہم سے منسوب کردی ہے لیکن جب منھج الصادقین کا متعقلہ صفحہ دیکھا گیا تو ایسی کوئی بات موجود نہیں تھی۔
2۔میں اس فورم کے ممبران کو یہ بتا دوں کہ اس میں بچاری مہوش علی کا کوئی قصور نہیں ہے یہ جھوٹ کہ کاشانی صاحب نے اس روایت کے بارے میں کہا ہے ان بر ما مجھول است یہ جھوٹ گھڑنے کا سہرا جاتا ہے Answering Ansarنامی ویب سائیٹ کو اور چونکہ مہوش اپنا زیادہ تر مواد اسی ویب سائٹ سے حاصل کرتی ہیں لہذا یہ جھوٹ بھی ان کو وہیں سے مل گیا اس کو آپ حضرات بھی دیکھ سکتے ہیں
http://www.answering-ansar.org/answers/mutah/en/chap5.php
3 ۔ مہوش اگر یہ احدیث غیر مستند ہیں تو اس کا صحیح طریقہ یہ تھا کہ آپ اپنے علما کے اقوال پیش کر دیتیں اور کہ دیتیں کہ یہ حدیث غیر مستند اور ان کی چونکہ سند معلوم نہیں لہذا یہ ضعیف ہیں اور کاشانی نے غلط بات پیش کی ہے نہ کہ آپ جھوٹ کا ہی سہارا لیتیں آئندۃ Answering Answarکی ویب سائٹ ذرا غور سے دیکھ کر جواب دیجئے گا ۔
4۔تو ابن حسن، بے وقوف جا کر آپ کسی اور کو بنائیے گا۔ غنیہ الطالبین کے مؤلف کو اللہ کی جانب سے کوئی براہ راست الہام نہیں ہوا تھا جو انہوں نے یہ حدیث (بلکہ حدیثیں) بیان کی ہیں، بلکہ انہوں نے بھی یہ چیز پیچھے اپنی کسی حدیث کی کتاب سے ہی لی ہے۔ چنانچہ بات کتاب کی نہیں، بلکہ اصول کی ہے کہ جس طرح کاشانی صاحب نے فضائل میں ایسی روایات نقل کی ہیں کہ جن کی کسی سند کا ہی نہیں پتا اسی طرح غنیہ الطالبین میں نقل ہوئی ہیں۔۔۔۔ مگر آپکا دوغلا پن یہ ہے کہ کاشانی کی روایت کی وجہ سے ہم پر تو آگ اگل رہے ہیں، مگر خود اپنے آپ پر ہزار خون معاف ہیں۔
پہلی بات تو یہ کہ بدتمیزی سے کام مت لیجئے اور تمیز کے دائرے میں رہ کر جواب دینے کی کوشش کیجئے یہ دوغلا پن کا انتہائی ناشائسہ لفظ استعمال کرنے سے پہلے کچھ اور نہیں تو اس چیز کا خیال کریں کہ آپ ایک خاتون ہیں اور آپ کو ایسی زبان زیب نہیں دیتیگو کہ اس سے پہلے اسی فورم پر آپ کو ایک وارننگ انتظامیہ کی طرف سے جاری کی جاچکی ہے لیکن افسوس صد افسوس آپ پر کوئی اثر نہیں ہوا۔
2۔ میں نے اس سےقبل کی پوسٹ میں بالکل صاف الفاظ میں یہ بات کہی تھی کہ آپ کو جھوٹ کا سہارا لینے کی بجائے یہ کہ دینا چاہیے تھا کہ یہ روایت بلا سند ہے لیکن آپ نے ایسا نہیں کیا اور اگر غنیتہ الطالبین کے مصنف نے یہ روایت کہیں پیچھے سے نقل کی ہے اور ان پر الہام نہیں ہوا اور اس سلسلے میں سند وغیرہ کی کوئی حیثیت نہیں تو ٹھیک ہے ہم اس حدیث کو قبول کرتے ہیں (کیونکہ اس میں کسی کی کوئی توہین نہیں ہے)اور اب آپ کے پاس بھی کوئی بہانہ نہیں بچتا لہذا اب آپ بھی کاشانی کی اس انتہائی لغو عبارت کو قبول کی اس کو اون کیجئے جس میں اس نے دو روایات میں متعی کا درجہ نبی پاک کے برابر کر یا۔ ہے اس کا کوئی جواب آُپ کے پاس؟؟؟
اور دھوکے پر دھوکا نہیں دیجئیے گا۔ ہمارے نزدیک کتب اربعہ "اہم" ہیں، مگر ہم نے کبھی ان کے متعلق "صحیح" کا دعوی نہیں کیا ہے۔ چنانچہ ہم پر جھوٹ باندھنے سے پرہیز فرمائیے۔ خود الکافی میں بے تحاشہ روایات ہمارے نزدیک ضعیف ہیں، اور اسی لیے علامہ باقر مجلسی اور پتا نہیں دس بارہ پندرہ کتنے اہل تشیع علماء نے الکافی کی شرحیں لکھی ہیں جس میں انہوں نے روایات کے رجال کی درجہ بندی کی ہے کہ کون سی روایت صحیح ہے اور کون سی ضعیف۔
یہ آپ نے معقول بات کی تو اب آپ کی کتب کی جس روایت میں آپ کو شبہ ہو اس میں آپ اپنے علما کے اقوال بیان کر دیجئے اور اس کی سند پر بحث کر لیجئے یہ طریقہ ایک علمی طریقہ ہے لیکن جھوٹ نہ بولیئے۔
2۔ آپ کی کتب اربعہ یا صحاح اربعہ کا درجہ آپ کے نزدیک ویسا ہی جیسا کہ اہل سنت کے نزدیک صحاح ستہ کا درجہ ان کتب میں تمام احادیث سو فیصد درست نہیں بلکہ ان میں ضعیف و کمزور روایات موجود ہیں لیکن پھر بھی کہلاتی یہ صحاح ستہ ہی ہیں اور احادیث کی دیگر کتابوں سے ان کو افضل مانا جاتا ہے یہی بات آپ کی کتب اربعہ کی بھی ہے جیسا کہ آپ نے فرمایا اب اس میں دھوکہ پر دھوکہ کیا ہے وہ ذرا بتادیجئے؟
اور اوپر "درجات" والی روایت کی ہماری کتب میں کوئی اصل نہیں، مگر اہلسنت کے فضائل کی کتب میں البتہ کچھ درجے والی روایات ملتی ہیں چنانچہ ایک اور بات صاف کر دوں کہ ہمیں بدنام کرنے کے لیے جو "درجہ" کا ترجمہ یہ کیا جاتا ہے کہ رسول اللہ ص کا "مرتبہ" پا جائے گا، وہ عربی کے لحاظ سے بالکل غلط ترجمہ ہے۔ بلکہ "درجہ" کا مطلب عربی زبان کے حوالے سے یہ ہے کہ اُن کے ساتھ، اُن کی رفاقت میں جنت میں داخل ہو گا یعنی اُن کی صفوں میں ہو گا۔
اسکا ترجمہ ہے:
"The Prophet (s) grabbed Hasan and Husayn by the hands and said: 'Whoever loves me, these two and their parents, shall be with me, in my rank (Arabic Word: Darajati ) on the Day of Judgement".
یہاں پر کسی نے "درجتی" کا مطلب "مرتبہ" نہیں لیا ہے، مگر یہ بیماری صرف اُس وقت شروع ہوتی ہے جب ہم پر آگ اگلنی ہو۔
اور اس روایت کی اسناد میں دیکھ لیں کہ لکھا ہوا ہے "اسنادہ حسن
مہوش آپ پھر صرف Answering Ansawr کی ہی تحقیق پر تکیہ کیے ہوئے ہیں اور یہ کمزوری کی نشانی ہے۔ یہ بات آپ ا س وقت کرتیں جب میں نے منھج الصادقین کا متعقلہ صفحہ کا عکس نہ دیا ہوتا آپ نے غور سے دیکھا نہیں یہ حدیث نہ صرف کاشانی صاحب نے بیان کی ہے بلکہ اس کا فارسی ترجہ بھی دیا ہے جس کے بعد یہ بات کہ درجہ کا کیا مطلب کاشانی لے رہے اس کے لیے آپ کی یا Answering Ansawr کی تشریح کی ضرورت نہیں رہ جاتی اس پورے ترجمہ کا بھی بطور خاص آخری جزو قابل غور ہے جہاں کاشانی صاحب نے ترجمہ کیا ہے کہ ہر کہ چہار بار متعہ کند درجہ او مانند درجہ من باشد
یہاں صاف طور سے یہ کہا جارہا ہے کہ جو چار دفعہ متعہ کرے گا اس کا درجہ میرے درجے کے مانند ہو گا۔ اب کیا مانند کا بھی آپ کو مطلب بتایا جائے؟؟؟
2۔ اس صفحے پر ایک اور روایات ہے کہ متعی نہ صرف اللہ کے غصہ سے نجات پالے گا بلکہ نبی پاک کے ساتھ جنت میں بھی ساتھ ہو گا۔ صرف متعہ کر کہ وہ نبی پاک کے ساتھ جنت میں ہو گا؟؟؟ استغفر اللہ ( ویسے آپ نے جو استغفراللہ کی تسبیح پڑھنے کا مشورہ ایک سابقہ پوسٹ میں دیا تھا تو واقعتا میں سنجید گی سے اس پر عمل کرنا کا سوچ رہا ہوں ایسی کفریات اپنے ہاتھوں سے لکھنے کے بعد)
3۔ جو حدیث آپ نے بیان کی ہے بالفرض اس کا ہی ترجمہ اگر اخذ کیا جائے تو بھی ترجمہ یہ ہوتا ہے جس نے ایک بار متعہ کیا وہ حضرت حسین کا ساتھ پاگیا جس نے دوبار متعہ کیا وہ حضرت حسن کا ساتھ پاگیا جس نے تین دفعہ متعہ کیا وہ حضرت علی کا ساتھ پاگیا اور جس نے چار دفعہ متعہ کیا وہ آنحضرت کا ساتھ پا گیا۔
تو کیا اس ترجمہ کے بعد اس حدیث میں کوئی خوبی پیدا ہو گئی کیا چار دفعہ کے متعی کو آنحضرت کی رفاقت ملنے کی جو خوشخبری سنائی جارہی ہے اس میں آنحضرت کی کوئی توہین آپ کو نظر نہیں آتی؟؟؟ اور پھر اس سے سستا کام تو اور کوئی ہوا نہیں حکومت ایران کو چاہیے کہ علمی حوزوں کی جگہ متعوں کے اڈے بنا دیے اور جنت کا فری ٹکٹ بانٹے۔
اور پھر یہ کیسا اندھا انصاف ہے کہ کاشانی والی روایت تو انہیں توہین نظر آئے مگر غنیۃ الطالبین کی روایت میں انہیں کوئی توہین نظر نہ آئے کہ جو بیوی کے ساتھ رات کو سونے کو مجاہد کے جہاد سے بہتر کہے، ساری رات کی عابد کی عبادت سے افضل کہے، سارے دن کے متقی کے روزے سے افضل کہے، چنانچہ اسی لیے ملتا ہے کہ کچھ لوگ جہاد پر نہیں جاتے تھے بلکہ گھروں میں بیویوں سے چمٹے رہتے تھے کہ ایک رات میں کئی کئی جہادوں کا ثواب کمائیں گے۔ اور یہ تو کچھ بھی نہیں، اسکا ثواب تو اس کائنات اور اس زمین و آسمان کے مابین جو کچھ ہے اُس سب سے افضل بیان کیا جا رہا ہے، تو اب پھر توہین کا وہ کونسا پہلو ہے جو کہ باقی رہ گیا؟؟؟ مگر نہیں یہ سب کچھ نظر نہیں آنا ہے کہ خود پر ہزار ہا خون بلکہ سب کچھ ہی معاف ہیں اور تمام قاعدے قوانین اعتراضات توہین بس اور بس دوسروں کے لیے ہیں۔
یہ اعتراض کرنے سے پہلے اور بیوی سے چمٹے رہنے کا طعنہ دینے سے پہلے ایک نظر من لا یحضرہ الفقیہ کی اس روایات پر بھی آپ نظر ڈال لیتیں جس میں متعہ کے ایک غسل جنابت کا ثواب متعی کے سارے بالوں کے برابر دیا جارہا ہے اور حضرت جبرئیل کی زبانی تمام متعی مرد و عورتوں کی بخشش کی خوشخبری شب معراج کو آنحضرت کو دی جارہی ہے (استغفراللہ)۔
پہلی روایت، صحیح بخاری کی
Sahih al Bukhari Volume 5, Book 58, Number 188 (Online Link to Official English Translation):
Narrated 'Amr bin Maimun:
During the pre-Islamic period of ignorance I saw a she-monkey surrounded by a number of monkeys. They were all stoning it, because it had committed illegal sexual intercourse. I too, stoned it along with them.
بخاری کی اس کتاب کا نام ہے "انصار کے فضائل"
اس کے ذیل میں امام بخاری فرماتے ہیں:
" ابن میمون کہتے ہیں: (اسلام سے قبل) جاہلیت کے زمانے میں میں نے ایک "بندریا" دیکھی کہ جسے بہت سے بندروں نے گھیر رکھا تھا۔ اور وہ سب کے سب اُس بندریا کو پتھر مار رہے تھے کیونکہ اُس بندریا نے زنا کاری کی تھی۔ چنانچہ میں (انسان) نے بھی پتھر اٹھا کر اُس بندریا کو مارنے شروع کر دیے (سنگسار کرنے کے لیے)۔"
۔ اگر اسلام لانے کے بعد کی بات ہوتی تب بھی شاید انسان کچھ عذر پیش کر دیتا، مگر یہ جاہلیت کے زمانے کی بات ہو رہی ہے کہ اُس میں یہ انصاری شخص کا مرتبہ ایسا بڑا تھا اور وہ ایسا عارف باللہ تھا کہ اپنے فضائل میں وہ اللہ کے رسول جناب سلیمان علیہ السلام کے برابر پہنچا ہوا تھا کہ جانوروں کی بولی سمجھتا تھا۔
اُس نے سب سے پہلے وہ انوکھی چیز دیکھی جو پچھلے کئی ہزار سالہ بنی نوع انسانی کی تاریخ میں آج تک کسی شخص نے نہیں دیکھی، اور وہ یہ کہ بہت سے بندر مل کر ایک بندریا کو گھیرے ہوئے ہیں اور اُسے پتھروں سے سنگسار کر رہے ہیں۔
پھر اُسے شاید بندروں سے استفسار کرنے کے بعد معلوم ہوا، یا پھر شاید علم غیب کی طاقت تھی کہ پتا چلا کہ اُن بندروں میں اسلامی شریعت رائج تھی، اور اس لیے ایک بندریا نے چونکہ ایک بندر کی زوجہ ہوتے ہوئے کسی دوسرے بندر سے زناکاری کر لی تھی، اس لیے اُسے اس چیز کے جرم میں سنگسار کیا جا رہا تھا۔
بہرحال اُس بندریا کے اس جرم کا پتا چل جانے کے بعد وہ ایسا عالی شان و مرتبت انصاری تھا کہ اُس نے بھی اس کار خیر میں حصہ لینے کے لیے بندریا پر سنگباری شروع کر دی (اور جس دوسرے بندر سے زناکاری کی گئی تھی، اُسکا علم نہیں کہ اُس پر بھی حد جاری ہوئی یا نہیں، یا پھر وہاں بھی کانا قانون اور کانی شریعت نافذ تھی کہ جہاں سزائیں صرف عورتوں کے لیے تھیں)۔
بخاری شریف میں کتاب انصار کے مناقب کا ایک ذیلی باب ہے جاہلیت کی قسامت کا بیان ۔عہد جاہلیت کا یہ واقعہ امام بخاری نے بیان کیا ہے عمدۃ القاری میں یہ پورا واقعہ بیان کیا گیا ہے جس مہوش کے تمام اعتراضات کا جواب موجود ہے۔ اور وہ پورا قصہ کچھ یوں ہے کہ
عمرو بن میمون کہتے ہیں کہ میں یمن میں تھا اپنے لوگوں کی بکریوں میں، ایک اونچی جگہ پر میں نے دیکھا ایک بندر ایک بندریا کو لے کر آیا اور اس کا ہاتھ اپنے سر کے نیچے رکھ کر سو گیا اتنے میں ایک چھوٹا بندر آیا اور بندریا کو اشارہ کیا اس نے اپنا ہاتھ بندر کے سر کے نیچے سے کھینچ لیااور چھوٹے بندر کے ساتھ چلی گئی اس نے اس کے ساتھ صحبت کی میں دیکھ رہا تھا پھر بندریا لوٹی اور آہستہ سے پھر اپنا ہاتھ بندر کے سر کے نیچے ڈالنے لگی لیکن وہ جاگ اٹھا اور ایک چیخ ماری تو سب بندر جمع ہو گئے۔اس بندریا کی طرف اشارہ کرتا اور چیختا جاتا تھا آخر سارے بندر ادھر ادھر گئے اور اس چھوٹے بندر کو پکڑ لائے میں اسے پہچانتا تھا پھر انہوں نے ان کے لیے گڑھا کھودااور دونوں کو سنگسار کر ڈالا تو میں نے رجم کا یہ عمل جانوروں میں بھی دیکھا۔
یہ ہے پوری روایت یعنی نہ عمرو بن میمون کو جانوروں کی بولی آتی تھی ۔ نہ ان کا درجہ حضرت سلیمان کے برابر تھا اور مہوش خوش ہوجائیں کہ بندریا کے ساتھ بندر کو بھی سنگسار کیا گیا تھا۔
اچھا مہوش اگر آپ کو ایسی روایات پسند ہیں تو کہیے آپ کی کتب سے بھی ایسی روایات کا انبار دیکھایا جاسکتا ہے لیکن پہلے ایک بات تو بتائیے کہ یہ بطور خاص کاشانی صاحب کی روایت کے جواب میں آپ کو بندر والی روایت ہی کیوں نظر آئی؟
ویسے آپ نے بحار الانوار دیکھی ہے جس میں ائمہ کے حالات بیان کیئے گئے ہیں تقریبا ہر امام کی ایک خصوصیت نظر آتی ہے کہ ان سب کو جانوروں کی بولیاں آتی تھیں مثلا بحار الانوار کی چھٹی جلد جو جناب زین العابدین کے حالات میں ہے اس میں امام کو لومڑی ہرنی بکری یہاں تک بھڑیے سے باتیں کرتا دکھایا گیا ہے مثال کے طور پر
ایک دفعہ امام زین العابدین اپنی ذاتی زمینوں کی طرف تشریف لے جارہے تھے کہ ایک بھڑیا سامنے آیا جس کے بال نہیں تھے اور ڈراونی شکل کا تھااور جو آنے جانے والوں کے لیے خوف و ہراس کا سبب بنا ہوا تھا امام کے قریب جاپہنچا اور اس نے امام سے کچھ کہا ۔ امام نے کہا تو واپس چلا جا میں انشاء اللہ تیرا کام کر دوں گا یہ سن کر وہ چلا گیا اور لوگوں نے امام سے پوچھا کہ حضور یہ بھڑیے نے آپ سے کیا عرض کیا اور اس کا کیا کام اٹکا ہوا ہے امام نے فرمایا کہ وہ یہ کہتا تھا کہ میری مادہ پر زچگی دشوار ہو رہی ہے لہذا میری اور اس کی مشکل آسان فرمائیے اور اللہ سے دعا فرمائیے تاکہ جلدی مشکل آسان ہو جائے اور میں آپ سے وعدہ کرتا ہوں کہ میں اور میری نسل کا کوئی بھڑیا آپ کے کسی محب کو نقصان نہیں پہچائے گا۔ چنانچہ میں نے بارگاہ الہی میں دعا کی ہے۔(بحار الانوار جلد 6 بحالات امام زین العابدین ص 38 )
اب اگر اس میں آپ کی ہی طرح استہزا کرنا چاہوں تو امام کی زبان دانی سے لے کر بھڑیئے کی زچگی میں مشکل کشائی تک بہت کچھ ہے کہنے کو اور یہ بات بھی یاد رہے کہ یہ بھی پہلی ہی راویت ہے اس طرح کی اور روایات میں سے۔
ایک بار پھر، اگر اوپر بخاری والی روایت پیش کرنے سے ہمارے اہلسنت برادران میں سے کسی کی دل آزاری ہوئی ہو تو میں معافی مانگتی ہوں۔ میں کبھی خود سے ایسی چیزیں شروع نہیں کرتی ہوں، مگر جب فریق مخالف گھٹیا حرکتوں پر اتر آئے تو میں انتہائی مجبور ہو کر صرف جوابا ایسا کرتی ہوں۔ امید ہے کہ آپ میری اس مجبوری کو مدنظر رکھیں گے۔
مہوش اگر آپ کو گھٹیا یا گھٹیا حرکتوں کرنے والی کہا جائے تو کیا یہ بات کسی بھی طرح مناسب ہوگی۔ یقنا ہر گز نہیں آپ سے تمام تر اختلاف کے باوجود کوئی ایسی زبان آُپ کے بارے میں استعمال کرے تو یہ چیز ناقابل قبول ہو گی بہتر ہے بہت بہتر ہے کہ آپ احتیاط کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑیں۔
2۔ اہل سنت کا اگر اتنا ہی درد آپ کو ہوتا تو آپ اس واقعے کی کچھ چھان پٹک کر لیتیں یوں تو ہر جگہ ہر بات میں آپ کو عمدۃ القاری کی یاد آجاتی ہے اور آپ جگہ جگہ اس کے حوالے دے چکی ہیں لیکن اب آپ کو عمدۃ القاری کھولنے کا خیال نہیں آیا اور آپ نے فٹاک سے اعتراض جڑ دیا تو اپ کے ہی الفاظ میں کہ یہ دھوکے پر دھوکہ کسی اور کو دیجئے۔
اور اب آخری بات اس پوسٹ کو جواب دینے سے پہلے وضاحت سے بتائیے کہ
آپ نے کیوں منھج الصادقین کی روایت کے بارے میں جھوٹ بولا جب تک آپ اس بات کا کوئی واضح جواب نہیں دے دیتیں اس وقت تک یہ سوال آپ سے کیا جاتا رہے گا۔