نکاح المتعہ کا تعارف (حصہ دوم)

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
ش

شوکت کریم

مہمان
گر تکرار نکال دی جائے تو یہ صرف ایک ہی روایت ہے جو بتلا رہی ہے کہ علی ابن ابی طالب ابن عباس کو بتلایا کہ خیبر میں پالتو گدھے کے گوشت اور عقد المتعہ حرام کر دیا گیا تھا۔ پورے ذخیرہ حدیث میں ایک بھی ایسا اور راوی نہیں ہے جسے یہ علم ہو کہ خیبر میں متعہ کو رسول اللہ نے حرام کیا جبکہ دسیوں مختلف روایات اور صحابہ ایسے ہیں جنہوں نے خیبر میں صرف اور صرف پالتو گدھے کی حرمت کے متعلق سنا جبکہ ان کو دور دور تک متعہ کی حرمت کا علم نہیں۔

ابن عباس کا ذکر مکمل طور پر گذر چکا ہے اور مکمل دلائل دیے جا چکے ہیں کہ وہ آخری عمر تک عقد المتعہ کے قائل رہے اور انکے بعد انکے شاگرد اور اہل مکہ و یمن عقد المتعہ کے جواز پر قائم رہے، اور آپکی طرف سے اسکے مقابلے میں کوئی جوابی دلیل پیش نہیں کی گئی ہے۔

2۔ اور پھر ابن عباس رسول ص کی وفات کے 60 برس جب تک زندہ رہے عقد المتعہ کے جواز میں فتوے دیتے رہے، مگر ان جھوٹ باندھنے والوں کا خیال تھا کہ ان 60 سالوں کے بعد آخری وقت بستر مرگ پر مرتے دم پڑے ابن عباس پر اس رجوع کا جھوٹ باندھ دیا جائے تو کوئی انکا یہ جھوٹ پکڑ نہ سکے گا۔ مگر یہ چال بھی انکے اپنے حلق میں پھنس گئی جب ابن عباس کے بعد انکے بلند پایہ تابعین شاگرد و اہل مکہ و یمن مستقل طور پر عقد المتعہ کے جواز پر قائم رہتے ہیں۔ حسب معمول ان تمام تر ثبوتوں سے پھر آنکھیں پھسل گئیں ہیں۔ میں چیزوں کو دہراؤں گی نہیں کیونکہ مجھے ادھر کسی سے بات منوانی نہیں ہے بلکہ فقط اپنے دلائل پیش کر کے آگے بڑھ جانا ہے۔

بقول آپ یہ ہو نہیں‌ سکتا کہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کو حرمت متعہ کا پتہ نہ ہو مگر حضرت عباس رضی اللہ عنہ کو تو گدھے کی حرمت کا بھی علم نہیں تھا۔ حافظ ابن حجر عسقلانی رح فتح الباری جلد 9 ص 204 پر لکھتے ہیں۔

أن ابن عباس كان يرخص في الأمرين معا ۔

سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ دونوں میں رخصت کے قائل تھے۔

والحكمة في جمع علي بين النهي عن الحمر والمتعة أن ابن عباس كان يرخص في الأمرين معا، فرد عليه علي في الأمرين معا

حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے ان دونوں اقوال میں جمع کرنے کی حکمت یہ ہے کہ حضرت ابن عباس ان دونوں کی رخصت کے قائل تھے پس حضرت علی المرتضیٰ نے بھی دونوں کی اکھٹی تردید کی۔

ملاحظہ کیجئے آن لائن لنک

اور

علامہ حافظ ابن قیم لکھتے ہیں۔ اس حدیث کے ذریعے حضرت علی رضی اللہ عنہ نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کے ان دو مسئلوں کے بارے میں جنہیں آپ مباح سمجھ رہے تھے یعنی متعہ اور لحوم الحمر کے خلاف دلیل پکڑی اور ان دونوں کی حرمت بیان کی۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔زاد لمعاد جلد ۴ ص ۱۸۴
 

S. H. Naqvi

محفلین
کی مرے قتل کے بعد اس نے جفا سے توبہ ہائے اس زود پشیماں کا پشیماں ہونا​

یہ سب کچھ جو آپ نےاس فورم پر بیان کیا ہے انہی الفاظ‌ میں اور اسی انداز بیان اور اسی ترتیب میں نیٹ پر پی ڈی ایف کی شکل میں موجود ہے۔ اب خدا جانے وہ کاوش بھی آپکی تھی یا آپ نےاس سے استفادہ کیا ہے۔ اس لیے یہ بات تو رہنے ہی دیں۔ اور یہ کوئی میدان جنگ نہیں محفل ہے تمام تر اختلاف رائے کے باوجود سب محفلین ہیں۔ سب دوست ہیں اور دشمن کوئی نہیں۔

حوالے کے لئے یہ لینک ملاحظہ کیجئے۔

اب جب ایک فریق کا لنک دے دیا ہے تو یہ دوسرے فریق کا لنک بھی دیکھ لیجئے

اور خود دیکھ لیجئے حقیقت کیا ہے !!!![/QUOTE]

جزاک اللہ شوکت بھایٔ یہ لنک تو " ضرب حیدری" کی مثل ہے کہ اس سے "قلعہ متعہ" کا دروازہ مثال تنکہ، دور ہواؤں میں اڑتا نظر آ رہا ہے
 

مہوش علی

لائبریرین
کچھ لوگوں کی عادت ہوتی ہے دوسروں میں عیب نکال کر ان پر الزامات لگانا۔ ایسے لوگوں کو عیب ڈھونڈنے سے کوئی روک سکتا ہے اور نہ الزامات لگانے سے۔ بہرحال جو اہل انصاف ہیں، ان قارئین کے لیے میں بات صاف کر دیتی ہوں۔

دو چیزوں میں فرق کیجئے:
۱۔ جھوٹ بولنا
۲۔ غلط فہمی کا شکار ہونا

جھوٹ وہاں بولا جاتا ہے جہاں کچھ چھپانا ہو۔ مگر آپ دیکھیں گے یہاں پر اصل بات کی حقیقت وہی نکلی ہے جو میں بیان کر رہی تھی مگر غلط فہمی ہوئی ثانوی مسئلے میں کہ کس نے کیا کہا۔

1. آج سے کافی سالوں پہلے سے میں یہ الزام تواتر کے ساتھ لگتا دیکھتی آ رہی ہوں اور ہر ڈسکشن فورم میں یہ روایت پیش کر کے اہل تشیع کا استہزاء اڑایا جاتا تھا۔ مگر جب اُن سے پوچھا گیا کہ ہماری کون سی حدیث کی کتاب میں موجود ہے تو وہ کہیں ملتی نہ تھی اور نہ اسکا کوئی ریفرنس (جی ہاں وہی حدیث کی کتاب جس کا عذر ابن حسن اپنی باری آنے پر غنیۃ الطالبین کے لیے بنا رہے ہوتے ہیں)۔ مجھے تو غیر اُس وقت چیزوں کا کچھ زیادہ علم نہ ہوتا تھا اور علمی دنیا میں میں نے نیا نیا قدم رکھا تھا مگر اسکے جواب میں ہمیشہ یہ کہا گیا کہ ہم پر الزام ہے اور ہماری کتابوں میں کہیں اس روایت کا ذکر نہیں۔
پھر اہل تشیع کی رد میں ایک ویب سائیٹ بنا www.d-sunnah.net ۔ میں نے سب سے پہلے اس سائیٹ کے حوالے سے ڈسکشن فورم میں یہ امیج دیکھا تھا۔خیر مجھے تو اُس وقت عربی آتی تھی اور نہ فارسی مگر اسکے بعد ڈسکش فورم میں موجود لوگوں نے (جو کہ مجھ سے کہیں زیادہ علم رکھتے تھے) یہی اعتراض کیا کہ اسکے فٹ نوٹ میں لکھا ہے کہ یہ روایت مجہول ہے۔

sadken3.jpg




۱۔ چنانچہ خود فیصلہ کریں کہ یہ کہنا کہ کاشانی نے لکھا ہے کہ یہ روایت مجہول ہے، کیا یہ "غلط فہمی" ہے یا پھر "جھوٹ"؟
(اور یہ کاشانی صاحب تو کئی صدیوں بعد نویں صدی میں پیدا ہوئے ہیں، مگر اس سے قبل کے علماء کو سرے سے اس روایت کا پتا ہی نہیں تھا۔ چانچہ پتا نہیں انہوں نے مخالفین کے باتیں سن سن کر اُن پر یقین کرتے ہوئے یہ بات لکھ دی، یا پھر اللہ جانے کیا وجہ ہوئی، مگر حقیقت یہی ہے کہ نہ کاشانی صاحب اور نہ انکی بیان کردہ یہ بغیر کسی سند کی روایت کسی طرح ہم پر حجت ہو سکتی ہے)۔
ابن حسن خود اس بات کا اعتراف کر رہے ہیں کہ انکے پاس اس روایت کی کوئی سند نہیں۔ چنانچہ ہمارا بنیادی اصل ٹاپک اس روایت کی صحت تھی، نہ کہ کاشانی جو کہ ثانوی مسئلہ تھا۔ اور اب جبکہ یہ بنیادی اصل مسئلہ حل ہو چکا ہے اور یہ ثابت ہو چکا ہے کہ ہم اس روایت کے متعلق صحیح کہہ رہے تھے تو پھر اس اب یہ بات "جھوٹ بولنے" کی نہیں ہے بلکہ "غلط فہمی" کی ہے کیونکہ ہر دو صورت میں ہمارا اصل مقصد پورا ہو رہا ہے۔ غلط فہمی پر اپنے الفاظ واپس لیے جا سکتے ہیں، مگر جھوٹ بولنے کا الزام کسی صورت قبول نہیں کیا جا سکتا۔

از ابن حسن:
اس پورے ترجمہ کا بھی بطور خاص آخری جزو قابل غور ہے جہاں کاشانی صاحب نے ترجمہ کیا ہے کہ ہر کہ چہار بار متعہ کند درجہ او مانند درجہ من باشد
یہاں صاف طور سے یہ کہا جارہا ہے کہ جو چار دفعہ متعہ کرے گا اس کا درجہ میرے درجے کے مانند ہو گا۔ اب کیا مانند کا بھی آپ کو مطلب بتایا جائے؟؟؟

ابن حسن، اگر آپ نے یہ سمجھ لیا ہوتا کہ حق بات آشکار ہونے کے بعد پھر بھی اعتراضات کرنے سے فقط وقت کا ضیاع ہوتا ہے اور کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ کاشانی صاحب حجت نہیں ہیں بلکہ آپکی اپنی کتاب میں حسن روایت سے ثابت ہے کہ درجتی کا مطلب ہے کہ قیامت ان کے ساتھ ہوں گے، نہ کہ مرتبے میں ان کے برابر آ جائیں گے۔

اور میں تو بذات خود ان فضائل والی روایات پر یقین نہیں رکھتی اور اختلاف رکھتی ہوں کہ ایسی کہ اس ضمن میں کمزور روایات بیان ہوں۔ مگر ایک بات کا میں یقین دلا دوں کہ لوگوں کے نزدیک اس ثواب کی وجہ کچھ اور ہے اور وہ یہ کہ:

Jama al Tirmidhi, Bab al Ulum page 92 [Printed in Deoband]:

Rasulullah (s) stated: 'Whoever revives my Sunnah, has revived me, whoever revives me shall be in Paradise with meْ"

آئیے اب کچھ اُن لوگوں سے ملیں جنہوں نے واقعی جھوٹ بولا ہے

ابن حسن،
آپ نے جس لنک کا حوالہ اوپر دیا ہے، کیا اس میں آپ نے "ابن ہاشمی" صاحب کا اہل تشیع پر یہ جھوٹ نہیں پڑھا کہ جس میں وہ دعوی کر رہے ہیں کہ یہ "درجتی" والی روایت شیعوں کی متعبر کتاب "الکافی" میں موجود ہے؟ یہ دیکھئے اس ابن ہاشمی کے جھوٹ کا لنک۔
یہ ابن ہاشمی اکیلے نہیں بلکہ ہمیشہ سے ہم اپنے خلاف یہی جھوٹ سنتے چلے آئے کہ شیعوں کی الکافی کی روایت ہے، اور جب ہم حوالہ پوچھتے تھے تو وہ ندارد۔
ابن حسن، مسئلہ یہ ہے کہ آپ کو اپنی طرف والے لوگوں کے یہ جھوٹ مشکل ہی دکھائی دیں۔ چلیں ابن ہاشمی کی بات رہنے دیں کہ اس کا گفتگو میں ذکر نہ تھا، مگر ایسا ہی ایک کھلم کھلا جھوٹ گرافک بھیا نے دوسری مرتبہ سب کے سامنے بولا ہے مگر اس پر آپ کو یقینا کوئی تکلیف ہوتی دکھائی نہیں دیتی۔

از گرافک بھیا:
جناب تحقیق کے بعد ہی کچھ کہنے کی جسارت کر رہا ہوں۔ اصول کافی مطبوعہ لاہور میرے پاس اردو میں موجود ہے اور باب المتعہ سے میں اس کی تصدیق کر چکا ہوں۔

اور یہ پہلی مرتبہ نہیں، ۔۔۔۔ بلکہ یہ غلط بیانی انہوں نے دوسری مرتبہ کی ہے۔
پہلی مرتبہ انہوں نے کی تھی جب انہوں امام خمینی پر ترغیب کا الزام لگایا تھا۔ اور آپ کو پتا بھی تھا کہ یہ غلط بیانی سے کام لے رہے ہیں، مگر پھر بھی آپ نے انکی یہ غلط بیانی بیان نہ کی۔ خیر اللہ بہتر دیکھنے والا ہے۔

میرے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ مجھے دوسروں کے عیوب زیادہ اچھالنے کی عادت نہیں، اس لیے گرافک بھیا کو اللہ کے حوالے کر کے انکی ہدایت کی دعا کر کے انہیں انکے حال پر چھوڑ دیتی ہوں۔ مگر اگر ہم پر الزامات لگنے شروع ہوئے تو ہم جواب کا حق محفوظ رکھتے ہیں۔

************************

اور یہ روایت:
اور پھر یہ کیسا اندھا انصاف ہے کہ کاشانی والی روایت تو انہیں توہین نظر آئے مگر غنیۃ الطالبین کی روایت میں انہیں کوئی توہین نظر نہ آئے کہ جو بیوی کے ساتھ رات کو سونے کو مجاہد کے جہاد سے بہتر کہے، ساری رات کی عابد کی عبادت سے افضل کہے، سارے دن کے متقی کے روزے سے افضل کہے، چنانچہ اسی لیے ملتا ہے کہ کچھ لوگ جہاد پر نہیں جاتے تھے بلکہ گھروں میں بیویوں سے چمٹے رہتے تھے کہ ایک رات میں کئی کئی جہادوں کا ثواب کمائیں گے۔ اور یہ تو کچھ بھی نہیں، اسکا ثواب تو اس کائنات اور اس زمین و آسمان کے مابین جو کچھ ہے اُس سب سے افضل بیان کیا جا رہا ہے، تو اب پھر توہین کا وہ کونسا پہلو ہے جو کہ باقی رہ گیا؟؟؟ مگر نہیں یہ سب کچھ نظر نہیں آنا ہے کہ خود پر ہزار ہا خون بلکہ سب کچھ ہی معاف ہیں اور تمام قاعدے قوانین اعتراضات توہین بس اور بس دوسروں کے لیے ہیں۔

اس کی صفائی پیش کرتے ہوئے ابن حسن کا عذر یہ ہے کہ شیعہ کتاب میں بھی ایسی روایت موجود ہے جو غسل کرنے والی عورتوں و مردوں کو بے پناہ ثواب کا بیان کر رہی ہیں۔ تو ابن حسن یہ سمجھنے کی کوشش کریں کہ ہماری روایات کے پیچھے جار کر چھپ جانا عبث بے کار ہے۔
ہم تو پہلے سے ہی کہہ رہے کہ فضائل والی ان روایات کی کوئی اہمیت نہیں کہ جس پر مناظرے کا جنگی ساز و سامان لاد کر دوسرے کو ذلیل کرنے کے لیے حملہ آور ہو جائیں۔ اس حرکت میں خود آپ بھی ننگے ہوں گے کیونکہ فضائل والی روایات کے متعلق یہی تمام اصول آپکے ہاں بھی موجود ہیں۔ کاش یہ سادہ سی بات آپکے سمجھ آ جاتی کہ اگر آپ نے حلال حرام ثابت کر دیا تو پھر فضائل کی اس لمبی اور ایک دوسرے کو نیچا دکھانے والی بحث کی ضرورت ہی پیش نہیں آئے گی اور یہ روایات خود بخود زمین میں دفن ہو جائیں گی۔
چنانچہ آپ اب شیعہ روایت کے پیچھے چھپ نہیں سکتے، بلکہ آپ کو سامنے آ کر تسلیم کرنا چاہیے کہ:
۔ آپکی یہ روایت توہین ہے ساری رات عبادت کرنے والے کی،
۔ اُس زاہد کی جو پورے دن روزے رکھ کر تقوے میں گذارتا ہے۔
۔ اُس مجاہد کی جو سارا دن جہاد میں مصروف رہتا ہے۔
یہاں اب میں آپ سے مطالبہ کروں گی کہ سیدھا سادھا آپ اپنی اس روایت کا جواب دیں اور شیعوں کی روایات انہیں کےلیے رہنے دیں کہ انکے نزدیک یہ صرف مباشرت نہیں بلکہ حلال اللہ کو جاری رکھنے کا مسئلہ ہے۔ اگر آپ سیدھا سا کہہ دیں کہ ہاں اس روایت سے توہین نکلتی ہے اور فضائل میں ایسی روایات بیان ہو جاتی ہیں، تو یہ مسئلہ سیدھا سادھا حل ہو جائے گا۔
ویسے آپ کو اپنی اس روایت کا علم بھی ہونا چاہیے:
صحیح ترمذی، آنلائن لنک:
حضرت اوس سے روایت ہے کہ مجھ سے رسول اللہ ص نے فرمایا جس نے جمعے کے دن غسل کیا اور غسل کروایا (یعنی بیوی کے ساتھ مباشرت کر کے اُسے اپنے ساتھ جنبی کروا کر یہ دونوں غسل کروائے) اور مسجد جلدی آ کر امام کا ابتدائی خطبہ پایا اور خطبے کے دوران خاموش رہا تو اس کو ہر ہر قدم پر ایک سال تک روزے رکھنے اور تہجد پڑھنے کا اجر دیا جاتا ہے۔
(روایت آگے بیان کرتی ہے) محمود نے اس حدیث میں کہا کہ وکیع نے کہا کہ اس نے غسل کیا اور پنی بیوی کو غسل کروایا۔ (یہ روایت حسن ہے)

اور آپکے لیے غنیۃ الطالبین کی روایت کا لنک ایک بار پھر، کیونکہ اس میں آپ کو ابھی تک سمجھ نہیں آرہا ہے کہ جو چیزیں اس میں بیان ہوئی ہیں اسکے عشر عشیر چیز بھی ہماری کتابوں میں نہیں ہے، اور وہ یہ کہ زمین اور آسمان میں جو کچھ ہے وہ سب کا سب اس بیوی کے ساتھ مباشرت کرنے کے مقابلے میں ہیچ ہے (یعنی پیچھے کچھ بھی نہیں رہ گیا)۔ اس روایت کو اچھی طرح پڑھیے (بلکہ یہ کئی روایات ہیں)، اور اسکے بعد پھر یہ سمجھ کر استغفار پڑھنا شروع کریں۔

*******

بندریا کو سنگسار کرنے پر عمدۃ القاری کی روایت کا سہارا:
از ابن حسن:
عمرو بن میمون کہتے ہیں کہ میں یمن میں تھا اپنے لوگوں کی بکریوں میں، ایک اونچی جگہ پر میں نے دیکھا ایک بندر ایک بندریا کو لے کر آیا اور اس کا ہاتھ اپنے سر کے نیچے رکھ کر سو گیا اتنے میں ایک چھوٹا بندر آیا اور بندریا کو اشارہ کیا اس نے اپنا ہاتھ بندر کے سر کے نیچے سے کھینچ لیااور چھوٹے بندر کے ساتھ چلی گئی اس نے اس کے ساتھ صحبت کی میں دیکھ رہا تھا پھر بندریا لوٹی اور آہستہ سے پھر اپنا ہاتھ بندر کے سر کے نیچے ڈالنے لگی لیکن وہ جاگ اٹھا اور ایک چیخ ماری تو سب بندر جمع ہو گئے۔اس بندریا کی طرف اشارہ کرتا اور چیختا جاتا تھا آخر سارے بندر ادھر ادھر گئے اور اس چھوٹے بندر کو پکڑ لائے میں اسے پہچانتا تھا پھر انہوں نے ان کے لیے گڑھا کھودااور دونوں کو سنگسار کر ڈالا تو میں نے رجم کا یہ عمل جانوروں میں بھی دیکھا۔

عذر گناہ بدتر از گناہ است۔ دنیا کا کوئی ذی ہوش شخص یہ قبول نہیں کر سکتا کہ زمانہ جاہلیت کے دور کا ایک شخص وہ کچھ ہوتے دیکھے جو کائنات میں آجتک بنی نوع انسانی کی کئی ہزار سالہ تاریخ میں اربوں انسانوں نے کبھی ہوتے نہیں دیکھا۔ اور سونے والا بڑا بندر تو پھر بہت عارف اللہ ٹہرا جو صرف ہاتھ سرکنے پر اُسے پتا چل گیا کہ بندریا نے زنا کیا ہے ورنہ اسلام میں حضرت عمر تو چار عینی گواہوں کی عینی شہادت کے باوجود بھی ایسے نتیجے پر نہیں پہنچ سکے تھے (حضرت عمر نے عین اسلام کے مطابق صحیح کام کیا تھا اور بندر کی یہ کہانی جھوٹی ہے)، اور پھر بقیہ بندروں کا بغیر عینی گواہوں کے بندریا کو زمین میں گاڑ دینا آجتک بنی نوع انسان نے نہ دیکھا، پھر اُسے اس جرم میں سنگسار کرنا آج تک کسی انسان نے تصور بھی نہیں کیا، اور پھر اس انصاری کا بھی اس کار خیر میں شریک ہو کر اُسے بندریا کو سنگسار کرنا سمجھ سے باہر ہے کہ اُس جاہلیت کے زمانے میں تو زنا عام تھا اور یہ سخت سزا تو اسلام نے آ کر نافذ کی تاکہ اسے روکا جائے۔۔۔۔۔۔ اور سب سے مزیدار حصہ کہ وہ چھوٹا بندر کہ جس کے ساتھ زنا کیا گیا، وہ تو فرار ہو گیا۔
کیا آپ کو اندازہ نہیں ہو رہا کہ بخاری کی فضائل والی یہ روایت سوائے رطب و یابس کے اور کچھ نہیں، اور اسکے صحیح روایت ہونے کا اصرار کرکے آپ صحابی ابن میمون پر ہی جھوٹ بولنے کا الزام لگوائیں گے۔

باقی چیزیں میں ابھی روکتی ہوں۔ اگر آپ نے یہ اصول تسلیم کر لیا کہ فضائل پر بحث کرنے کا کوئی فائدہ نہیں اور آگے آپ اسلامی طریقہ بحث پر راضی ہوئے جو کہ احسن طریقے سے پیغام پہنچانے کا حکم دیتا ہے اور وہ یہ کہ شریعت میں حلال حرام پر بات کر لو بجائے ایک دوسرے کو ذلیل و بدنام کرنے کے لیے خلط ملط بحث شروع کرنے کے، تو پھر ٹھیک ہے، ورنہ پھر کی پھر دیکھی جائے گی۔ انشاء اللہ۔



 
ش

شوکت کریم

مہمان
یہاں اب میں آپ سے مطالبہ کروں گی کہ سیدھا سادھا آپ اپنی اس روایت کا جواب دیں اور شیعوں کی روایات انہیں کےلیے رہنے دیں کہ انکے نزدیک یہ صرف مباشرت نہیں بلکہ حلال اللہ کو جاری رکھنے کا مسئلہ ہے۔ اگر آپ سیدھا سا کہہ دیں کہ ہاں اس روایت سے توہین نکلتی ہے اور فضائل میں ایسی روایات بیان ہو جاتی ہیں، تو یہ مسئلہ سیدھا سادھا حل ہو جائے گا۔

یہ اچھا طریقہ ہے جیسے شیعوں کے نزدیک یہ حلال ہے اسی طرح‌ہمارے نزدیک یہ حرام ہے۔ اور آپ نے ہم پر حرام کیے ہوئے کو حلال کروانے کے لئے تو ہماری کوئی روایت کوئی لفظ کوئی دلیل نہیں چھوڑی اور جب خود پہ چوٹ آئی تو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کتنی آسانی سےکہہ دیا رہنے دیں۔ اسی لئے کہتے ہیں کہ شیشے کے گھروں میں بیٹھ کر پتھر نہیں مارنے چاہیں۔

معاف کیجئے گا یہ مطالبات اور اعتراضات ایک اوپن فورم پر مناسب نہیں اگر یہ کچھ کرنا تھا تو یہ موضوع محفل پر شروع کرنا ہی نہیں‌تھا۔ آرام سے ایک بلاگ بناتیں اور مزے سے اپنی مرضی اور شرائط کے تحت جو چاہتی لکھ لیتیں۔

فورمز پر ایک اصول اخلاقیات اور ذاتیات کا خیال رکھتے ہوئے پوسٹ کرنے پر کسی کو اعتراض نہیں ہونا چاہیے۔

رہی روایات کا ضعیف ہونا تو متعقلہ فریق کا کام ہے کہ وہ اس کا بتائے۔

آپ نے اہلسنت و اہلحدیث کی کتابوں سے حوالے اپنی من مانی تشریح کے تحت پیش کیے ہم نے تو اعتراض نہیں‌کیا کہ ان ان شرائط کے تحت پیش کریں۔

آپ ہماری کتابوں‌ کو کھنگالیے ہم آپکی کتابوں کو کھگالتے ہیں۔ آپ ہمارے تحفظات کا جواب دیجئے ، ہم آپ کے تحفظات کا جواب دیتے ہیں۔ اور بس ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس میں اتنا برہم ہونے کی کوئی بات نہیں ۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
ش

شوکت کریم

مہمان
ہاں رک گئے۔ تو اس کی وجہ اوپر عمران بن حصین کی روایت میں دیکھ لیں کہ کیوں رک گئے۔
بلکہ دیگر اُن تمام روایتوں میں دیکھ لیں جہاں حضرت عمر دھمکی دے رہے ہیں کہ رسول اللہ ص کے دور میں دو متعے جاری تھے اور وہ ان کی ممانعت کرتے ہیں اور اگر عقد المتعہ کی صورت میں وہ سنگسار کر دیں گے۔

یہاں میں علامہ شبلی نعمانی رحمہ کی شہرہ آفاق کتاب الفاروق میں سے چند اقتباسات پیش کر رہا ہوں جن سے کہ ظاہر ہوگا کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ اور اکابر صحابہ رضی اللہ عنہ کے مابین کیسے تعلقات تھے۔ اور جو ظاہر کرتے ہیں کہ ممکن ہی نہیں کہ عمر رضی اللہ عنہ کتاب و سنت کے خلاف کوئی فیصلہ کر سکتے اور کرتے تو کوئی روک نہ سکتا!

فتح بیت المقدس کے لئے عیسائیوں کا عمر رضی اللہ عنہ کا بلانا ، علی رضی اللہ عنہ کا مشورہ اور نیابت

عیسائیوں نے ہمت ہار کر صلح کی درخواست کی اور مزید اطمینان کے لئے یہ شرط اضافہ کی کہ عمر رضی اللہ عنہ خود یہاں آئیں اور معاہدہ صلح ان کے ہاتھوں سے لکھا جائے، ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کوخط لکھا کہ بیت المقدس کی فتح آپ کی تشریف آوری پر موقوف ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے تمام معزز صحابہ کو جمع کیا اور مشورت کی حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ عیسائی مرعوب اور شکستہ دل ہو چکے ہیں آپ انکی درخواست رد کر دیں تو ان کو اور بھی ذلت ہو گی اور یہ سمجھ کر کہ مسلمان ان کو بالکل حقیر سمجھتے ہیں۔بغیر شرط کے ہتھیار ڈال دیں گے۔ لیکن حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اس کے خلاف رائے دی۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان ہی کی رائے کو پسند کیا اور سفر کی تیاریاں کیں۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو نائب مقرر کر کے خلافت کے کاروبار ان کے سپرد کئے۔

صفوان ابن سلیم کا قول ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں چار شخص فتویٰ دیتے تھے ۔ عمر رضی اللہ عنہ ، علی رضی اللہ عنہ ، معاذ اور ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ (تذکرۃ الحفاظ علامہ ذہبی ذکر ابی موسیٰ اشعری)
امام شعبی کا مقولہ ہے ۔ علم چھ صحابہ سے سیکھتا جاتا تھا۔ (فتح المغیث ص ۳۸۱)

حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور ابی بن کعب رضی اللہ عنہ

شام کے سفر میں بمقام جابیہ بے شمار آدمیوں کے سامنے جو مشہور خطبہ پڑھا اس میں یہ الفاظ بھی فرمائے۔
جو شخص قرآن سیکھنا چاہے تو ابی بن کعب کے پاس اور فرائض کے متعلق کچھ پوچھنا چاہے تو زید کے پاس اور فقہ کے متعلق پوچھنا چاہے تو معاذ کے پاس جائے۔

اگر چہ فضل و کما ل کے لحاظ سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے سوا کوئی ہمسر نہ تھا ۔ تاہم وہ اہل کمال کے ساتھ اس طرح پیش آتے تھے جس طرح خود بزرگ کے ساتھ پیش آتے تھے۔ علامہ ذہبی نے تذکرۃ الحفاظ میں لکھا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کی نہایت تعظیم کرتے تھے اور ان سے ڈرتے تھے۔ اور جب ان کا انتقال ہوا تو فرمایا کہ آج مسلمانوں کا سردار اٹھ گیا۔


متعہ کے متعلق سب سے زیادہ پیش کی جانے والی حدیث کے راوی کا قول

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا قول ہے کہ عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ ایک ساعت بیٹھنا میں سال بھر کی عبادت سے بہتر جانتا ہوں۔ (استیعاب قاضی بن عبدالبرو ازالۃ الخلفاء صف ۳۱۹ حصہ اول)

امام شعبی رحمہ کا بیان ہے کہ عمر رضی اللہ عنہ ، عبداللہ بن مسعود اور زیدبن ثابت رضی اللہ عنہ باہم ایک دوسرے سے استفادہ کرتے تھے اور اسی وجہ سے ان کے مسائل باہم ملتے جلتے تھے۔ (فتح المغیث صفحہ۳۸۱)

حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے گویا اپنے دامن تربیت میں پالا تھا۔ یہاں تک کہ لوگوں کو اس پر رشک ہوتا تھا۔ صحیح بخاری میں خود حضرت عبداللہ بن عباس سے روایت ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ مجھ کو شیوخ بدر کے ساتھ بٹھایا کرتے تھے اس پر بعض بزرگوں نے کہا کہ آپ اس نو عمر کو ہمارے ساتھ کیوں شریک کرتے ہیں۔ اور ہمارے لڑکوں کو جو ان کے ہمسر ہیں کیوں یہ موقع نہیں دیتے، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا یہ وہ شخص ہے جس کی قابلیت تم کو بھی معلوم ہے۔

محدث ابن عبدالبر نے استیعاب میں میں لکھا ہے حضرت عمر رضی اللہ عنہ ابن عباس کو محبوب رکھتے تھے اور ان کو تقرب دیتے تھے۔ اکثر ایسا ہوتا تھا کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی مجلس میں کوئی مسئلہ پیش ہوتا۔ عبداللہ بن عباس اس کا جواب دینا چاہتے لیکن کم سنی کی وجہ سے جھجکتے ، حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان کی ہمت بندھاتے اور فرماتے علم سن کی کمی اور زیادتی پر موقوف نہیں ، کوئی شخص اگر عبداللہ بن عباس کے مجتہدات کو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے مسائل سے ملائے تو صاف نظر آئے گا کہ دونوں میں استاد اور شاگرد کا تناسب ہے۔
لونڈیوں حقوق کے لیے قانون سازی

حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے زمانہ تک امہات اولاد یعنی وہ لونڈیاں جن سے اولاد پیدا ہو جائے برابر خریدی اور بیچی جاتی تھیں۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس کو بالکل روک دیا۔

باقی چیزیں میں ابھی روکتی ہوں۔ اگر آپ نے یہ اصول تسلیم کر لیا کہ فضائل پر بحث کرنے کا کوئی فائدہ نہیں اور آگے آپ اسلامی طریقہ بحث پر راضی ہوئے جو کہ احسن طریقے سے پیغام پہنچانے کا حکم دیتا ہے اور وہ یہ کہ شریعت میں حلال حرام پر بات کر لو بجائے ایک دوسرے کو ذلیل و بدنام کرنے کے لیے خلط ملط بحث شروع کرنے کے، تو پھر ٹھیک ہے، ورنہ پھر کی پھر دیکھی جائے گی۔ انشاء اللہ۔

کم از کم میں تو ایسی کسی شرط کے حق میں‌ نہیں ہوں۔ لہذا ٹھیک کہا آپ پھر کی پھر ہی دیکھی جائے گی۔

اللہ سبحان و تعالیٰ‌ ہم سب کو یقین و ایمان کی روشنی عطا فرمائیں۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اٰمین
 

S. H. Naqvi

محفلین
باقی چیزیں میں ابھی روکتی ہوں۔ اگر آپ نے یہ اصول تسلیم کر لیا کہ فضائل پر بحث کرنے کا کوئی فائدہ نہیں اور آگے آپ اسلامی طریقہ بحث پر راضی ہوئے جو کہ احسن طریقے سے پیغام پہنچانے کا حکم دیتا ہے اور وہ یہ کہ شریعت میں حلال حرام پر بات کر لو بجائے ایک دوسرے کو ذلیل و بدنام کرنے کے لیے خلط ملط بحث شروع کرنے کے، تو پھر ٹھیک ہے، ورنہ پھر کی پھر دیکھی جائے گی۔ انشاء اللہ۔

محترمہ معاف کیجیۓ گا ، مجھے آپ محور سے ہٹی ہویٔ لگ رہی ہیں، آپ سے سوال کیا پوچھا جاتا ہے اور آپ جواب کیا دیتی ہیں اگر یہی حال رہا تو مجھے لگتا ہے اس دھاگے کا عنوان ' سوال گندم جواب چنا' رکھنا پڑے گا۔۔۔۔۔۔!
آپ ایک ہی بات کے پیچھے لٹھ لے کر کیوں پڑ گٔیں ہیں؟ کاشانی فضایٔل کی روایت مجحول ہے تو کیا آپ کوآپ کی مزید چار کتب میں دیٔے گٔے حوالے نظر نہیں آ رہے؟؟؟؟؟
اور اصل مقصد ان روایات کو پیش کرنے کا یہ تھا کہ
ا صل پيغام ارسال کردہ از: مہوش علی
دوسری چیز جسے آپ پھر نظر انداز کر گئے وہ یہ ہے کہ پچھلی پوسٹ میں واضح کیا گیا تھا کہ "نکاح دائمی" کو ہر حالت میں عقد المتعہ پر فوقیت ہے اور یہ سفر یا ایسے ملتے جلتے انتہائی حالات میں ہی کیا جاتا ہے۔
آپ اپنے اس جواب کی وضاحت ان روایات کو سامنے رکھ کر کریں اور بتایٔں کے جب متعہ کی اتنی فضیلت بیان کی جا رہی ہے اور متعہ نہ کرنےوالے کو ایمان اور مومنین کی فہرست سے نکالنے کی وعیدیں کی جا رہی ہیں المحتصر آپ کی کتب پڑھ کر تو صاف لگتا ہے کہ جس نے متعہ نا کیا تو بس اس سے بڑا بدنصیب کویٔ نہیں اور وہ گیا۔۔۔۔۔۔۔۔ اور آپ یہا‌ں کچھ اور کہہ رہی ہیں آپ کے اسی دعوے کےجواب میں‌ ہمیں‌ مجبوراً آپ کو یہ آہینہ دکھانا پڑا اور آپ بقول شخصے، آہیٔنہ ان کو دکھایا تو برا مان گٔے، بہت ہی برا مان گیٔیں، تو محترمہ یہ کیا بات ہے کہ آپ متعہ کو انتہایٔ ضرورت کے وقت حلال کر رہی ہیں اور آپ کا فقہ اسے ان الفاظ میں جزو ایمان ثابت کر رہا ہے کہ جس نے متعہ نہ کیا وہ ہم میں سے نہیں اور اس کا ایمان ناقص ہے اور وہ قیامت کو رسوا اٹھے گا؟؟؟؟
اور دوسری بات کے "انتہایٔ حالات" میں تو خنزیر کھانا بھی جایٔز ہے تو کیا اسے بھی آپ منوایٔں گی کے خنزیر حلال ہے؟؟؟؟ اور اگر یہ انتہایٔ ضرورت کا فعل ہے تو آپ اسے عام مسلمانوں کے لیے حلال کرنے کے لیے اتنا زور کیوں لگا رہی ہیں سیدھا اسی طرح کہیں نا تو ہم بھی متعہ کو خنزیر کی طرح حلال جان لیں گے۔۔۔۔۔۔۔!
اور آگے سے اوٹ پٹانگ روایات بیان کرنے کی ابتداء ہم نے تو نہیں کی آپ ہی کی طرف سے ہویٔ ہے اب خدا جانے آپ نے ہمارے سوال کے مقصد کوسمجھ کے یا پھر نا سمجھی کی وجہ سے یہ کام شروع کیا اور بحث کو الجھا دیا۔
اور کیا آپ کو نہیں لگتا کے " باقی چیزیں" آپ نے کچھ زیادہ ہی روک نہیں لیں؟؟؟؟؟ آپ فضا یٔل میں زیادہ الجھنے کے بجاۓ ان سے متصل ہمارے سوال کا جواب دیں اور بحث کو شایٔشتہ انداز میں آگے چالا یٔں اور اگر آپ کو انہی معروضات میں الجھنا ہے تو اور اسی میں‌ اپنی ہار کو چھپانا ہے تو پھر صیح ہے، " پھر کی پھر " دیکھی جاۓ گی واپسی کا راستہ کھلا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔!
 
کچھ لوگوں کی عادت ہوتی ہے دوسروں میں عیب نکال کر ان پر الزامات لگانا۔ ایسے لوگوں کو عیب ڈھونڈنے سے کوئی روک سکتا ہے اور نہ الزامات لگانے سے۔ بہرحال جو اہل انصاف ہیں، ان قارئین کے لیے میں بات صاف کر دیتی ہوں۔

دو چیزوں میں فرق کیجئے:
۱۔ جھوٹ بولنا
۲۔ غلط فہمی کا شکار ہونا

جھوٹ وہاں بولا جاتا ہے جہاں کچھ چھپانا ہو۔ مگر آپ دیکھیں گے یہاں پر اصل بات کی حقیقت وہی نکلی ہے جو میں بیان کر رہی تھی مگر غلط فہمی ہوئی ثانوی مسئلے میں کہ کس نے کیا کہا۔

اگر آپ اپنی اس غلط فہمی کا اعتراف مہذبانہ انداز میں پہلے ہی کر لیتیں تو یہ عذر قابل قبول ہوتا لیکن اس دوران آپ نے اتنی قلابازیاں کھائیں ہیں اور اتنا جارحانہ انداز اختیار ہے کہ اب بات صرف آپ کی اس اظہار غلط فہمی پر ختم نہیں ہوسکتی (اور درحقیقیت یہ ہے بھی غلط فہمی نہیں بلکہ نرم سے نرم الفاظ میں غلط بیانی)

غلط فہمی اس وقت تک غلط فہمی رہتی ہے جب تک کوئی بتانے والا حقیقی بات بتا نہ دے اور جو شخص غلط فہمی کا شکار ہو وہ اپنی غلطی کو قبول نہ کر لے۔
آپ سے اس روایت کے سلسلے میں پہلے ہی کہا تھا میں نے کہ مہوش اگر آپ صرف یہی کہ دیتیں کہ اس روایت کی کوئی سند نہیں ہے اور یہ روایت ہم اہل تشیع کے نزدیک مجھول ہے تو بات صاف ہوجاتی لیکن نہ صرف آپ نے ایک غلط دعوہ کیا اور اس پر قائم رہیں اور ایک دفعہ بھی آپ نے اس سلسلے میں اپنی غلط فہمی کا نہ اقرار کیا اور نہ اس سلسلے میں کوئی معذرت کی یہاں تک کہ اب جب گفتگو اس انتہا تک پہنچی تو اب آپ غلط فہمی کا عذر پیش کر رہیں ہیں اب اس میں غلطی کسی کی ہے کیا اس کا اندازہ کرنا مشکل ہے؟؟(اللہ جانے کیوں یہ بات مجھے ہر پوسٹ میں دہرانے کی ضرورت پڑ رہی ہے)


1. آج سے کافی سالوں پہلے سے میں یہ الزام تواتر کے ساتھ لگتا دیکھتی آ رہی ہوں اور ہر ڈسکشن فورم میں یہ روایت پیش کر کے اہل تشیع کا استہزاء اڑایا جاتا تھا۔ مگر جب اُن سے پوچھا گیا کہ ہماری کون سی حدیث کی کتاب میں موجود ہے تو وہ کہیں ملتی نہ تھی اور نہ اسکا کوئی ریفرنس (جی ہاں وہی حدیث کی کتاب جس کا عذر ابن حسن اپنی باری آنے پر غنیۃ الطالبین کے لیے بنا رہے ہوتے ہیں)۔ مجھے تو غیر اُس وقت چیزوں کا کچھ زیادہ علم نہ ہوتا تھا اور علمی دنیا میں میں نے نیا نیا قدم رکھا تھا مگر اسکے جواب میں ہمیشہ یہ کہا گیا کہ ہم پر الزام ہے اور ہماری کتابوں میں کہیں اس روایت کا ذکر نہیں۔
پھر اہل تشیع کی رد میں ایک ویب سائیٹ بنا www.d-sunnah.net ۔ میں نے سب سے پہلے اس سائیٹ کے حوالے سے ڈسکشن فورم میں یہ امیج دیکھا تھا۔خیر مجھے تو اُس وقت عربی آتی تھی اور نہ فارسی مگر اسکے بعد ڈسکش فورم میں موجود لوگوں نے (جو کہ مجھ سے کہیں زیادہ علم رکھتے تھے) یہی اعتراض کیا کہ اسکے فٹ نوٹ میں لکھا ہے کہ یہ روایت مجہول ہے۔
۱۔ چنانچہ خود فیصلہ کریں کہ یہ کہنا کہ کاشانی نے لکھا ہے کہ یہ روایت مجہول ہے، کیا یہ "غلط فہمی" ہے یا پھر "جھوٹ"؟
(اور یہ کاشانی صاحب تو کئی صدیوں بعد نویں صدی میں پیدا ہوئے ہیں، مگر اس سے قبل کے علماء کو سرے سے اس روایت کا پتا ہی نہیں تھا۔ چانچہ پتا نہیں انہوں نے مخالفین کے باتیں سن سن کر اُن پر یقین کرتے ہوئے یہ بات لکھ دی، یا پھر اللہ جانے کیا وجہ ہوئی، مگر حقیقت یہی ہے کہ نہ کاشانی صاحب اور نہ انکی بیان کردہ یہ بغیر کسی سند کی روایت کسی طرح ہم پر حجت ہو سکتی ہے)۔
ابن حسن خود اس بات کا اعتراف کر رہے ہیں کہ انکے پاس اس روایت کی کوئی سند نہیں۔ چنانچہ ہمارا بنیادی اصل ٹاپک اس روایت کی صحت تھی، نہ کہ کاشانی جو کہ ثانوی مسئلہ تھا۔ اور اب جبکہ یہ بنیادی اصل مسئلہ حل ہو چکا ہے اور یہ ثابت ہو چکا ہے کہ ہم اس روایت کے متعلق صحیح کہہ رہے تھے تو پھر اس اب یہ بات "جھوٹ بولنے" کی نہیں ہے بلکہ "غلط فہمی" کی ہے کیونکہ ہر دو صورت میں ہمارا اصل مقصد پورا ہو رہا ہے۔ غلط فہمی پر اپنے الفاظ واپس لیے جا سکتے ہیں، مگر جھوٹ بولنے کا الزام کسی صورت قبول نہیں کیا جا سکتا۔

مہوش آپ کی اس تقریر سے تو آپ کا کیس اور بھی زیادہ کمزور پڑ جاتا ہے لیکن اس سے پہلے میں ایک اور چیز کی طرف توجہ دلانا چاہوں گا

The only book this can be found in a book called 'Minhaj Sadiqeen' page 356 by Fatahullah Kashani (d. 988 H). The complete name of the book is 'Minhaj al-Sadqeen Fi Elzam al-Mukhalifin fi al-Tafsir' [The way of those who are true in binding over the opponents in Tafsir]' and is not a Hadith book but a comparative Tafsir, which is about refuting the Sunni Tafsir while proving the Shia Tafsir, therefore the book is usually classified as 'Shia/Sunni dialogue book' rather than a Shia Tafsir book. Hence it is a book in which Fatahullah Kashani refuted the lies and rumors which at that point of time were popular among the Sunni and Nasibi masses against the Shias. Thus, how stupid, in fact how cunning of these Nawasib to re-copy those very rumors or Nasibi claims from the book and attribute it to Sheikh Kashani while Sheikh Kashani himself refuted them! Kashani himself stated about this tradition:


ان برما مجهول است

"According to us this tradition is Majhul (unknown)"

یہ ہے Answering Ansar کا موقف اس روایت کے بارے میں

اور اب مہوش کا سب سے اول موقف دیکھیئے

چلیں یہ بات درست ہے کہ یہ فتح اللہ کاشانی، متوفی 988 ہجری، کی کتاب "منہاج الصادقین" کے صفحہ 356 پر موجود ہے۔ مگر اس کی ذرا حقیقت تو دیکھئے۔ اس کتاب کا پورا نام ہے "منہاج الصادقین فی الالزام المخالفین فی التفسیر" یعنی اس کتاب میں وہ مخالفین کے اعتراضات کا جواب دے رہے ہیں۔ چنانچہ ایک اعتراض اسی عقد المتعہ والی روایت پر تھا، چنانچہ اس روایت کو نقل کر کے وہ بھی مخالفین سے پوچھتے ہیں کہ انہوں نے کہاں سے یہ روایت نقل کی ہے کیونکہ شیعہ کتب میں تو یہ کہیں موجود ہی نہیں اور شیعہ علماء کے نزدیک تو بالکل مجہول (نامعلوم) ہے۔ انکے الفاظ ہیں: "ان برما مجھول است" یعنی ہمارے لیے تو یہ روایت بالکل نامعلوم ہے۔ چنانچہ آپ ان دجالی کذابوں کی عیاری دیکھئے کہ جن افواہوں کا رد کرنے کے لیے یہ روایت کتاب میں نقل کی گئی، اُسی کو انہوں نے شیخ کاشانی پر جھوٹ باندھ کر منسوب کرنا شروع کر دیا۔


اب میں آپ سے کچھ سوالات کرنا چاہوں گا۔

1۔ آپ کے اس اولین موقف میں کسی فٹ نوٹ کاذکر نہیں ہے بلکہ یہ اس ویب سائٹ کا ترجمہ ہے مع کچھ اضافی الفاظ مثلا دجالی کذابوں وغیرہ وغیرہ کہ جو آپ نے محض یہاں نقل کر دیا ہے اور اس ویب سائٹ کی طرح آپ نے بھی سارا الزام مخالفین پر رکھتے ہوئے بالکل و صریح الفاظ میں کاشانی سے اس رویت کی نفی کی ہے۔
2۔بعد ازاں بھی جب آپ کو اس روایت کے صفحے کا عکس دکھا دیا گیا تو بھی آپ نے کوئی غلط فہمی کا اعتراف نہیں کیا بلکہ جھٹ آپ بات کو گھوما کر روایت کی سند تک جا پہنچی اور مسند امام آھمد بن حنبل سے اس روایت کی الفاظ کو تقویت پہچانے لگیں۔
3۔ آپ نے اپنے آخری موقف میں قبول کیا ہے کہ آپ کو پہلے ہی کسی فورم پر بتایا جاچکا تھا کہ یہ الفاظ کاشانی کے نہیں بلکہ فٹ نوٹ پر دئیے ہوئے ہیں تو آپ نے جھوٹ کیوں بولا اور کیوں نہیں پہلی پوسٹ میں حقیقت بیان کی؟؟
4۔خود پر جھوٹ بولنے کا الزام آپ کو قبول نہیں لیکن مخالفین کو فورا اور بلا وجہ دجال و کذاب آپ نے کہ دیا اور اب بتائیے یہ دجال و کذاب اس وضاحت کے بعد کون ثابت ہوتا ہے؟
5۔اور پھر یہ صرف جھوٹ ہی نہیں بلکہ جب آپ کو اس بات کا علم تھا اور آپ کو لوگوں نے یہ بات بتا دی تھی کہ مجھول ہونے کی بات فٹ نوٹ میں کہی گئی ہے تو کیا یہ ایک علمی خیانت نہیں کہ جو بات کاشانی نے کہی نہیں وہ آپ کاشانی سے منسوب کر کہ پھیلائیں اور یہ کہیں کہ مخالفین نے یہ روایت ہماری کتب میں داخل کر دی ہے یعنی غور طلب بات ہے آپ نے صرف یہی نہیں کہا کہ کاشانی کہہ رہے ہیں کہ یہ روایت مجھول ہے بلکہ آپ نے مزید ایک پیراگراف ہی کاشانی سے منسوب کر دیا اور وہ یہ تھا
چنانچہ اس روایت کو نقل کر کے وہ بھی مخالفین سے پوچھتے ہیں کہ انہوں نے کہاں سے یہ روایت نقل کی ہے کیونکہ شیعہ کتب میں تو یہ کہیں موجود ہی نہیں اور شیعہ علماء کے نزدیک تو بالکل مجہول (نامعلوم) ہے۔ انکے الفاظ ہیں: "ان برما مجھول است" یعنی ہمارے لیے تو یہ روایت بالکل نامعلوم ہے۔ چنانچہ آپ ان دجالی کذابوں کی عیاری دیکھئے کہ جن افواہوں کا رد کرنے کے لیے یہ روایت کتاب میں نقل کی گئی، اُسی کو انہوں نے شیخ کاشانی پر جھوٹ باندھ کر منسوب کرنا شروع کر دیا۔

اب بتائیے کہ یہ کس کی عیاری ہے جو مخالفین کو تو دجال و کذاب کہ رہا ہے لیکن حرکت خود جھوٹ و فریب کی کر رہا ہے؟؟؟ اور کون کس پر جھوٹ باندھ رہا ہے؟
خود اپنے لیے تو جھوٹ کا الزام قبول نہیں لیکن دوسروں کو دجال و کذاب کہنے میں بڑا مزا آتا ہے آپ کو؟؟؟ اور غلط فہمی اسی کا نام ہے؟؟
اور جو یہ بات آپ کہ رہی ہیں کہ مخالفین کی باتیں سن سن کر انہوں نے یہ روایت لکھ دی تو یہ الہام آپ کو آخر ہو کہاں سے رہا ہے کہ اس روایت کا مخالفین سے کچھ تعلق ہے؟؟ یہ روایت بھلے آپ پر حجت نہ ہو آپ کے علما پر تو حجت ہے چنانچہ برہان المتعہ کے مولف نے تو اس حدیث کو صحیح بتایا ہے بلکہ وہ اس جواز میں پوری تقریر فرما رہے ہیں
pagesf.jpg


یعنی انہوں نے یہ حدیث نقل کی پھر جو بات کہتے ہیں اس کا اختصار یہ ہے کہ وہ پہلے پوچھتے ہیں کہ عقل کی روشنی میں یہ کیسے ممکن ہے کہ مباحات و تلذزات خصوصا شہوت رانی پر اتنا زیادہ ثواب عطا ہو پھر خود ہی جواب دیتے ہیں جس کا مفہوم یہ ہے کہ تمام مباحات و تلذدات اگر اطاعت و عباد و انقیاد اللہ کے لیے ہوں تو ان پر ضرر جزا ملتی ہے اور خصوصا وہ اطاعات جو متروک العمل ہو گئیں ہوں تو ان کے احیا پر پر لا تعداد ثواب ملتا ہے (یعنی یہ کہ اگر کوئی شخص متعہ یہ سمجھ کر کرے کہ یہ ایک متروک سنت ہے تو یہ ممکن ہے کہ متعہ کے ذریعے وہ نعؤذ باللہ آنحضرت کا مقام پا لے)
پھر یہی نہیں منھج الصادقین میں اس روایت کے علاوہ ایک اور روایت میں بھی متعی کو نبی پاک کے ساتھ جنت میں جانے کی گارنٹی دی گئی ہے اور اس کا حوالہ پہلے ہی آ چکا ہے اور اس کو تو فٹ نوٹ میں بھی مجھول نہیں کہا گیا اب اس کا کیا مہوش جواب دیں گی؟


ابن حسن، اگر آپ نے یہ سمجھ لیا ہوتا کہ حق بات آشکار ہونے کے بعد پھر بھی اعتراضات کرنے سے فقط وقت کا ضیاع ہوتا ہے اور کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ کاشانی صاحب حجت نہیں ہیں بلکہ آپکی اپنی کتاب میں حسن روایت سے ثابت ہے کہ درجتی کا مطلب ہے کہ قیامت ان کے ساتھ ہوں گے، نہ کہ مرتبے میں ان کے برابر آ جائیں گے۔

اور میں تو بذات خود ان فضائل والی روایات پر یقین نہیں رکھتی اور اختلاف رکھتی ہوں کہ ایسی کہ اس ضمن میں کمزور روایات بیان ہوں۔ مگر ایک بات کا میں یقین دلا دوں کہ لوگوں کے نزدیک اس ثواب کی وجہ کچھ اور ہے اور وہ یہ کہ:


Jama al Tirmidhi, Bab al Ulum page 92 [Printed in Deoband]:

Rasulullah (s) stated: 'Whoever revives my Sunnah, has revived me, whoever revives me shall be in Paradise with meْ

حق بات تو انشاءاللہ یہاں سب پر ضرور آشکار ہو گی اور بلکہ میرے خیال میں تو ہونے لگی ہو گی کہ یہاں نقوی و شوکت کریم صاحبان نے آپ کے اس متعہ کے بارے میں بہت کچھ نقل کر دیا ہے بہر حال آپ کا یہ جواب صرف فرار کی ایک کوشش ہے ۔ عربی میں دیگر الفاظ کی طرح درجہ کے بھی بہت سارے معنی ہو سکتے ہیں احادیث میں بھی،لیکن مسئلہ یہ ہے کہ کاشانی آپ کے نزدیک بھلے ہی حجت نہ ہوں لیکن خود اپنے ہی الفاظ کی تشریخ میں کیا وہ سند و حجت نہیں؟؟ یعنی ایک طرف آپ یہ کہ رہی ہیں کہ یہ رویت مجھول ہے اور کاشانی کے سوا اور کوئی اس روایت کو نقل نہیں کرتا اور کاشانی نے بھی کہاں سے لی ہے آپ کو نہیں معلوم لیکن خود جب کاشانی جو اس روایت کو نقل کرنے میں بقول آپ کے تنہا ہے وہی اپنی اس روایت کا ترجمہ و شرح بیان کرتا ہے تو آپ اس کو قبول کرنے سے انکار کر دیتی ہیں؟ ایں چہ بو العجبی است؟؟ کاشانی حجت ہو یا نہ ہو لیکن کاشانی کے کہے ہوئے الفاظ کا مطلب آخر کوئی کیسے کاشانی سے بہتر جان سکتا ہے؟؟؟

ااور یہ جو حدیث آخر میں آپ نے نقل کی ہے صاحب برہان المتعہ نے ایسی ایک روایت کو بنیاد بناتے ہوئے منھج الصادقین کی روایت کو قبول کر لیا ہے اور وہ بھی اس حدیث کے قائل ہیں بالکل ویسے ہی جیسا کہ کاشانی قائل ہیں۔ اور اگر آپ اس موقع پر یہ حدیث بیان کررہی ہیں تو اس سے تو آپ بھی منھج الصادقین کی اس حدیث کی قائلیں میں شمار ہو تی ہیں نا کہ مخالفیں میں؟؟؟ واہ کیا دانش مندی ہے؟؟

آئیے اب کچھ اُن لوگوں سے ملیں جنہوں نے واقعی جھوٹ بولا ہے


ابن حسن،
آپ نے جس لنک کا حوالہ اوپر دیا ہے، کیا اس میں آپ نے "ابن ہاشمی" صاحب کا اہل تشیع پر یہ جھوٹ نہیں پڑھا کہ جس میں وہ دعوی کر رہے ہیں کہ یہ "درجتی" والی روایت شیعوں کی متعبر کتاب "الکافی" میں موجود ہے؟ یہ دیکھئے اس ابن ہاشمی کے جھوٹ کا لنک۔
یہ ابن ہاشمی اکیلے نہیں بلکہ ہمیشہ سے ہم اپنے خلاف یہی جھوٹ سنتے چلے آئے کہ شیعوں کی الکافی کی روایت ہے، اور جب ہم حوالہ پوچھتے تھے تو وہ ندارد۔
ابن حسن، مسئلہ یہ ہے کہ آپ کو اپنی طرف والے لوگوں کے یہ جھوٹ مشکل ہی دکھائی دیں۔ چلیں ابن ہاشمی کی بات رہنے دیں کہ اس کا گفتگو میں ذکر نہ تھا، مگر ایسا ہی ایک کھلم کھلا جھوٹ گرافک بھیا نے دوسری مرتبہ سب کے سامنے بولا ہے مگر اس پر آپ کو یقینا کوئی تکلیف ہوتی دکھائی نہیں دیتی۔اور یہ پہلی مرتبہ نہیں، ۔۔۔۔ بلکہ یہ غلط بیانی انہوں نے دوسری مرتبہ کی ہے۔
پہلی مرتبہ انہوں نے کی تھی جب انہوں امام خمینی پر ترغیب کا الزام لگایا تھا۔ اور آپ کو پتا بھی تھا کہ یہ غلط بیانی سے کام لے رہے ہیں، مگر پھر بھی آپ نے انکی یہ غلط بیانی بیان نہ کی۔ خیر اللہ بہتر دیکھنے والا ہے۔

میرے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ مجھے دوسروں کے عیوب زیادہ اچھالنے کی عادت نہیں، اس لیے گرافک بھیا کو اللہ کے حوالے کر کے انکی ہدایت کی دعا کر کے انہیں انکے حال پر چھوڑ دیتی ہوں۔ مگر اگر ہم پر الزامات لگنے شروع ہوئے تو ہم جواب کا حق محفوظ رکھتے ہیں۔
مہوش آپ کی ان باتوں سے اس گفتگو کا کیا تعلق ہے؟ کیا آپ یہ کہنا چاہتی ہیں کہ آپ کے جھوٹ کو آشکار کرنے سے پہلے جو کچھ ویب کے اوپر موجود ہے اس کی میں چھان پٹک کروں اور تمام افراد کی غلط بیانی کو بیان کروں اس کے بعد آپ کی باری آئے۔؟؟ ہاشمی صاحب کیا کہ رہے ہیں یا کہاں کہاں متعہ کے بارے میں کیا کہاجارہا ہے اس کا مجھ سے کیا تعلق ہے۔ میری مخاطب آپ ہیں یا میں سارے ویب کی تطہیر کا ذمہ دار ہوں؟؟


اس کی صفائی پیش کرتے ہوئے ابن حسن کا عذر یہ ہے کہ شیعہ کتاب میں بھی ایسی روایت موجود ہے جو غسل کرنے والی عورتوں و مردوں کو بے پناہ ثواب کا بیان کر رہی ہیں۔ تو ابن حسن یہ سمجھنے کی کوشش کریں کہ ہماری روایات کے پیچھے جار کر چھپ جانا عبث بے کار ہے۔
ہم تو پہلے سے ہی کہہ رہے کہ فضائل والی ان روایات کی کوئی اہمیت نہیں کہ جس پر مناظرے کا جنگی ساز و سامان لاد کر دوسرے کو ذلیل کرنے کے لیے حملہ آور ہو جائیں۔ اس حرکت میں خود آپ بھی ننگے ہوں گے کیونکہ فضائل والی روایات کے متعلق یہی تمام اصول آپکے ہاں بھی موجود ہیں۔ کاش یہ سادہ سی بات آپکے سمجھ آ جاتی کہ اگر آپ نے حلال حرام ثابت کر دیا تو پھر فضائل کی اس لمبی اور ایک دوسرے کو نیچا دکھانے والی بحث کی ضرورت ہی پیش نہیں آئے گی اور یہ روایات خود بخود زمین میں دفن ہو جائیں گی۔

فضائل والی روایات کی کوئی حقیقیت نہیں چہ خوب ۔ محترمہ آپ کی اس بات کی وقت کیا ہے ،ہمیت کیا ہے۔آپ اپنے ٹاپ کے محدثین کے مقابلے میں درجہ کیا رکھتیں ہیں جو آپ کی بات سر آنکھوں پر رکھی جائے اور شیخ صدوق اور کلینی صاحب جیسے افراد کی بات رد کر دی جائے؟؟؟
کیا آپ تمام اہل تشیع کو اپنی تقلید کی دعوت دے رہیں ہیں کیا آپ امام یا نائب امام کاد رجہ پا گئیں ہیں یعنی متعہ کی فضیلت اتنے ذوق و شوق سے آپ کی کتب میں پائی جاتی ہے کہ یوں لگتا ہے کہ تمام چیزیں اس کے مقابے میں ہیچ ہیں متعہ جو نہ کرے وہ ہم میں سے نہیں ، متعہ نہ کرنے والے کاا یمان کامل نہیں ، متعہ کرنے والا نبی پاک کے ساتھ جنت میں جائے گا، خدا کے غصے سے نجات پائے گا۔ شمار ابرار میں ہو گا ، شب معراج میں نجات کی بشارت ، ایک غسل جنابت کا ثواب بیان و شمار سے باہر کیا یہ سب جزوی باتیں ہیں ؟؟؟ یہ سب بے کار ہیں؟؟ جس عمل کے بغیر ایمان ہی کامل نہ ہو جس کے فضائل میں محدثین عظام و مفسرین کرام اپنا زور قلم صرف کر دیں ان کو نظر انداز کر کہ کیا آپ تائیں گئی کہ کیوں آپ کی بات مانی جائے؟
اور پھر یہی نہیں بلکہ بقول نقوی صاحب کہ

آپ اپنے اس جواب کی وضاحت ان روایات کو سامنے رکھ کر کریں اور بتایٔں کے جب متعہ کی اتنی فضیلت بیان کی جا رہی ہے اور متعہ نہ کرنےوالے کو ایمان اور مومنین کی فہرست سے نکالنے کی وعیدیں کی جا رہی ہیں المحتصر آپ کی کتب پڑھ کر تو صاف لگتا ہے کہ جس نے متعہ نا کیا تو بس اس سے بڑا بدنصیب کویٔ نہیں اور وہ گیا۔۔۔۔۔۔۔۔ اور آپ یہا‌ں کچھ اور کہہ رہی ہیں آپ کے اسی دعوے کےجواب میں‌ ہمیں‌ مجبوراً آپ کو یہ آہینہ دکھانا پڑا اور آپ بقول شخصے، آہیٔنہ ان کو دکھایا تو برا مان گٔے، بہت ہی برا مان گیٔیں، تو محترمہ یہ کیا بات ہے کہ آپ متعہ کو انتہایٔ ضرورت کے وقت حلال کر رہی ہیں اور آپ کا فقہ اسے ان الفاظ میں جزو ایمان ثابت کر رہا ہے کہ جس نے متعہ نہ کیا وہ ہم میں سے نہیں اور اس کا ایمان ناقص ہے اور وہ قیامت کو رسوا اٹھے گا؟؟؟؟
اور دوسری بات کے "انتہایٔ حالات" میں تو خنزیر کھانا بھی جایٔز ہے تو کیا اسے بھی آپ منوایٔں گی کے خنزیر حلال ہے؟؟؟؟ اور اگر یہ انتہایٔ ضرورت کا فعل ہے تو آپ اسے عام مسلمانوں کے لیے حلال کرنے کے لیے اتنا زور کیوں لگا رہی ہیں سیدھا اسی طرح کہیں نا تو ہم بھی متعہ کو خنزیر کی طرح حلال جان لیں گے۔۔۔۔۔۔۔!
اور آگے سے اوٹ پٹانگ روایات بیان کرنے کی ابتداء ہم نے تو نہیں کی آپ ہی کی طرف سے ہویٔ ہے اب خدا جانے آپ نے ہمارے سوال کے مقصد کوسمجھ کے یا پھر نا سمجھی کی وجہ سے یہ کام شروع کیا اور بحث کو الجھا دیا۔

یعنی یہ کہ یا تو آُ پ یہ دعوہ ہی نہ کرتیں
دوسری چیز جسے آپ پھر نظر انداز کر گئے وہ یہ ہے کہ پچھلی پوسٹ میں واضح کیا گیا تھا کہ "نکاح دائمی" کو ہر حالت میں عقد المتعہ پر فوقیت ہے اور یہ سفر یا ایسے ملتے جلتے انتہائی حالات میں ہی کیا جاتا ہے۔
اور یا تو متعہ کے ان فضائل کا جواب دیجئے جو آپ کی انتہائی متعبر کتابوں میں بھی پائے جاتے ہیں اور جن سے متعہ کی فضیلت نکاح پر ثابت ہوتی ہے۔

میں اس زاہد کی، اس مجاہد کی، اس عابد کی توہین اس وقت اِس روایت سے قبول کروں گا جب آپ کاشانی کی روایت کی روشنی میں

حضرت حسین کی
حضرت حسن کی
حضرت علی کی
اور آنحضرت کی
توہین تسلیم کر کہ سب سے اپنے جھوٹ پر معافی چاہیں گی۔

اور ساتھ ساتھ اگر آپ پچھلی ایک پوسٹ پر نظر ڈالیں تو اسی مجاہد کی یہی توہیں آپ کو ایک اور پوسٹ میں اپنی ہی کتب کی روشنی میں نظر آجائے گی

2q35ens.jpg



صحیح ترمذی، آنلائن لنک:
حضرت اوس سے روایت ہے کہ مجھ سے رسول اللہ ص نے فرمایا جس نے جمعے کے دن غسل کیا اور غسل کروایا (یعنی بیوی کے ساتھ مباشرت کر کے اُسے اپنے ساتھ جنبی کروا کر یہ دونوں غسل کروائے) اور مسجد جلدی آ کر امام کا ابتدائی خطبہ پایا اور خطبے کے دوران خاموش رہا تو اس کو ہر ہر قدم پر ایک سال تک روزے رکھنے اور تہجد پڑھنے کا اجر دیا جاتا ہے۔
(روایت آگے بیان کرتی ہے) محمود نے اس حدیث میں کہا کہ وکیع نے کہا کہ اس نے غسل کیا اور پنی بیوی کو غسل کروایا۔ (یہ روایت حسن ہے)

امام ترمذی نے یہ حدیث نقل کی ہے جمعہ کے غسل کی فضیلت میں اور اس میں جمعہ کے غسل کرنے کا یہ بیان ہے اور اس میں وکیع کا اضافہ ہے کہ خود غسل کیا اور اپنی بیوی کو بھی کرایا اب یہ غسل جمعہ ہے غسل جنابت نہیں جمعہ کےدن مرد و خواتیں دونوں کے لیے غسل کرنا ضروری ہے اس میں جنابت کی کوئی قید نہیں لیکن کیا کہنے مہوش کہ کہ جو بات اس حدیث میں موجود نہیں وہ مہوش خود سے بیان کر رہی ہیں مہوش یہ الفاظ
یعنی بیوی کے ساتھ مباشرت کر کے اُسے اپنے ساتھ جنبی کروا کر یہ دونوں غسل کروائے

آپ نے لیے کہاں سے ہیں یہ الفاظ ذرا پہلے ان کے بارے میں تو بتائیے اگر آپ اس کا حوالہ نہیں دے سکیں تو اب یہ ایک جھوٹ ہو گا اور حدیث میں اپنی رائے سے کلام کرنے کے مترادف ہو گا۔ ویسے اس طرح کی کرشمہ کاریوں کے بغیر کیا آپ صاف بات نہیں کر سکتیں ؟

اور آپکے لیے غنیۃ الطالبین کی روایت کا لنک ایک بار پھر، کیونکہ اس میں آپ کو ابھی تک سمجھ نہیں آرہا ہے کہ جو چیزیں اس میں بیان ہوئی ہیں اسکے عشر عشیر چیز بھی ہماری کتابوں میں نہیں ہے، اور وہ یہ کہ زمین اور آسمان میں جو کچھ ہے وہ سب کا سب اس بیوی کے ساتھ مباشرت کرنے کے مقابلے میں ہیچ ہے (یعنی پیچھے کچھ بھی نہیں رہ گیا)۔ اس روایت کو اچھی طرح پڑھیے (بلکہ یہ کئی روایات ہیں)، اور اسکے بعد پھر یہ سمجھ کر استغفار پڑھنا شروع کریں۔
غنیتہ الطالبین کے بارے میں ایک اصولی بات میں پہلے بیان کر چکا ہوں اس کو دہرانے کی ضرورت نہیں سمجھتا اور آپ پہلے یہ بتائے کہ بحار الانوار کی بھڑیئے والی روایت کیا آپ کو ہضم ہو گئی جو اس کا جواب آپ نے نہیں دیا؟؟

اور پھر ثواب کہ اس پہاڑ کے بارے میں کیا خیال ہے آپ کا

pages1.jpg


14806164.jpg


یہ تو بڑی صاف روایت ہے حضرت سلمان فارسی ، مقداد بن اسود اور عمار بن یاسر نبی پاک سے روایت کر رہے ہیں اور بیان کرنے والے ہیں جناب ملا باقر مجلسی اب اتنے ثواب کے انبار جو پہاروں کے برابر ہے ہر بوسہ کے عوض حج و عمرہ کا ثواب مل رہا ہے غسل جنابت کے ہر قطرے کے عوض ایسے فرشتے پیدا کیے جارہے ہیں جو قیامت تک حمد و تقدیس کریں گئے اور جن کا ثواب متعی کو دیا جائے گا اور پھر یہی نہیں جو اس کار ثواب میں سعی کرے گا اس کا ثواب بھی متعی کے برابر ہو گا( ویسے اب اس تھریڈ کے شروع کرنے کی وجہ سمجھ میں آرہی ہے)


عذر گناہ بدتر از گناہ است۔ دنیا کا کوئی ذی ہوش شخص یہ قبول نہیں کر سکتا کہ زمانہ جاہلیت کے دور کا ایک شخص وہ کچھ ہوتے دیکھے جو کائنات میں آجتک بنی نوع انسانی کی کئی ہزار سالہ تاریخ میں اربوں انسانوں نے کبھی ہوتے نہیں دیکھا۔ اور سونے والا بڑا بندر تو پھر بہت عارف اللہ ٹہرا جو صرف ہاتھ سرکنے پر اُسے پتا چل گیا کہ بندریا نے زنا کیا ہے ورنہ اسلام میں حضرت عمر تو چار عینی گواہوں کی عینی شہادت کے باوجود بھی ایسے نتیجے پر نہیں پہنچ سکے تھے (حضرت عمر نے عین اسلام کے مطابق صحیح کام کیا تھا اور بندر کی یہ کہانی جھوٹی ہے)، اور پھر بقیہ بندروں کا بغیر عینی گواہوں کے بندریا کو زمین میں گاڑ دینا آجتک بنی نوع انسان نے نہ دیکھا، پھر اُسے اس جرم میں سنگسار کرنا آج تک کسی انسان نے تصور بھی نہیں کیا، اور پھر اس انصاری کا بھی اس کار خیر میں شریک ہو کر اُسے بندریا کو سنگسار کرنا سمجھ سے باہر ہے کہ اُس جاہلیت کے زمانے میں تو زنا عام تھا اور یہ سخت سزا تو اسلام نے آ کر نافذ کی تاکہ اسے روکا جائے۔۔۔۔۔۔ اور سب سے مزیدار حصہ کہ وہ چھوٹا بندر کہ جس کے ساتھ زنا کیا گیا، وہ تو فرار ہو گیا۔
کیا آپ کو اندازہ نہیں ہو رہا کہ بخاری کی فضائل والی یہ روایت سوائے رطب و یابس کے اور کچھ نہیں، اور اسکے صحیح روایت ہونے کا اصرار کرکے آپ صحابی ابن میمون پر ہی جھوٹ بولنے کا الزام لگوائیں گے۔

یقین مانیئے بے تحاشہ ہنسی آرہی ہے کیا دلائل ہیں کیا منظر کشی ہے۔
1۔ محترمہ یہ بات بندروں کی ہو رہی ہے انسانوں کی نہیں۔جو آپ گواہوں کو بیچ میں لیے آئیں۔ عمرو بن میمون صرف اپنی رائے دے رہے تھے اور ان کا یہ خیال تھا کہ یہ رجم ہے ۔
2۔یہ بات زمانہ جاہلیت کی ہورہی ہے جب ایسےتواہمات عام تھے یہ بات زمانہ اس اسلام کی نہیں ہوری اس وقت جناب عمرو بن میمون نے جو کچھ سمجھا وہ بیان کر دیا۔
3۔ جانوروں کے بارے میں آپ جانتی کیا ہیں۔ جانوروں کی زندگی میں بہت کچھ ایسا ہوتا ہے جو ایک ناواقف کے لیے حیران کن ہو لیکن اگر کوئی محض نیشنل جیوگرافک یا ڈسکوری چینل ذرا شوق سے دیکھتا ہو اس کو معلوم ہو گا کہ مادہ کے لیے جانوروں میں شدید رسہ کشی ہوتی ہے اور اس سلسلے میں بے حد جیلسی بھی ان میں پائی جاتی ہے اوپر جو واقعہ بیان ہوا ہے وہ جانوروں کی اسی جیسلی کا ہی واقعہ ہے اور اس سے زیادہ اس کی کچھ اہمیت نہیں۔
اور اگر اربوں لوگوں نے کسی بندر کو ایسا کرتے نہیں دیکھا تو اربوں لوگوں کے لیے یہ بات بھی بالکل نئی ہے کہ کوئی بھڑیا اپنی مادہ کی زچگی میں آسانی کے لیے کسی آدمی سے مدد مانگے اور پھر یہ یقین دلائے میں وہ اس آدمی کے کسی محب کو نقصان نہیں پہنچائے گا (ویسے وہ بھڑیا محبوں کو پہچانے گا کیسے؟)


باقی چیزیں میں ابھی روکتی ہوں۔ اگر آپ نے یہ اصول تسلیم کر لیا کہ فضائل پر بحث کرنے کا کوئی فائدہ نہیں اور آگے آپ اسلامی طریقہ بحث پر راضی ہوئے جو کہ احسن طریقے سے پیغام پہنچانے کا حکم دیتا ہے اور وہ یہ کہ شریعت میں حلال حرام پر بات کر لو بجائے ایک دوسرے کو ذلیل و بدنام کرنے کے لیے خلط ملط بحث شروع کرنے کے، تو پھر ٹھیک ہے، ورنہ پھر کی پھر دیکھی جائے گی۔ انشاء اللہ۔

یہاں کوئی کسی کو کیسے ذلیل و بدنام کر رہا ہے ذرا اس بات کی تشریح تو کر دیجئے؟ کیا‌آپ کی کتب کے فرمودات کو نقل کرے سے آپ کی خودانخواستہ ذلت ہوتی ہے؟
 

مہوش علی

لائبریرین
اور دوسری بات کے "انتہایٔ حالات" میں تو خنزیر کھانا بھی جایٔز ہے تو کیا اسے بھی آپ منوایٔں گی کے خنزیر حلال ہے؟؟؟؟ اور اگر یہ انتہایٔ ضرورت کا فعل ہے تو آپ اسے عام مسلمانوں کے لیے حلال کرنے کے لیے اتنا زور کیوں لگا رہی ہیں سیدھا اسی طرح کہیں نا تو ہم بھی متعہ کو خنزیر کی طرح حلال جان لیں گے۔۔۔۔۔۔۔!
السلام علیکم
نقوی بھائی صاحب، مسئلہ یہ ہے کہ آپ غصے میں ہیں اور اس لیے آپ کو ہمارے دلائل نظر نہیں آ رہے ہیں۔

1. جب اللہ کا رسول گواہی دے رہا ہے کہ عقد المتعہ پاکیزہ حلال طیبات میں سے ہے تو پھر اسکے بعد یقینا ہم آپکی بات کو وزن نہیں سے سکتے۔ آپ بے شک اس وقت آپکی نظروں میں لسان نبوت کی یہ گواہی کوئی اہمیت رکھے یا نہ رکھے، مگر آپ ہمیں کیسے مجبور کر پائیں گے کہ ہم بھی لسان نبوت کی اس گواہی سے اپنا منہ پھیر لیں۔

2. جابر بن عبداللہ انصاری اور سلمۃ بن الاکوع فرماتے ہیں انکے پاس رسول اللہ ص کی طرف سے "منادی" کروائی گئی کہ اللہ کے رسول ص تمہیں اجازت دیتے ہیں کہ تم عورتوں سے عقد المتعہ کرو۔

Sahih Muslim , Book 008, Number 3246:

Jabir b. 'Abdullah and Salama b. al-Akwa' said: There came to us the proclaimer of Allah's Messenger (may peace be upon him) and said: Allah's Messenger (may peace be upon him) has granted you permission to benefit yourselves, i. e. to contract temporary marriage with women.​
ذرا بتلائیں کہ کب اور کہاں اللہ کے رسول نے خنزیر کا گوشت کھانے کی منادی کروائی ہو؟

3۔ اور اگر آپ پھر بھی اپنے الزام پر اڑے رہیں کہ عقد المتعہ خنزیر کا گوشت کھانا ہے تو پھر آپکو سمجھنا چاہیے کہ اسلاف کا 1300 سال تک باندیوں سے عارضی تعلقات قائم کرنا خنزیر کھانے سے بھی بدتر فعل قرار پائے گا۔
 

مہوش علی

لائبریرین
بقول آپ یہ ہو نہیں‌ سکتا کہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کو حرمت متعہ کا پتہ نہ ہو مگر حضرت عباس رضی اللہ عنہ کو تو گدھے کی حرمت کا بھی علم نہیں تھا۔

آپکے دعوے کے بالکل برعکس حضرت ابن عباس کو خیبر پر گدھے کی حرمت کے واقعے کا بہت اچھی طرح علم تھا۔ مگر اسی خبیر کے موقع پر کیے جانے والے کسی متعہ کے حرام ہونے کے واقعہ کا انہیں دور دور تک کوئی علم نہ تھا اور نہ پوری زندگی انکے منہ سے خیبر میں عقد المتعہ کے حرام ہونے کے کسی واقعے کے متعلق ایک لفظ نکلا۔
اور ایک ابن عباس ہی اکیلے نہیں، بلکہ انکے ساتھ جابر بن عبداللہ انصاری بھی موجود ہیں جو کہ خیبر میں پالتو گدھوں کے گوشت کی ممانعت کے واقعہ سے تو بہت اچھی طرح واقف ہیں اور ان سے اس معاملے میں صحیح طریقے سے بیان کردہ کئی روایات موجود ہیں۔ مگر نصف صدی کے بعد تک انکے منہ سے خیبر میں کسی عقد المتعہ کی حرمت کے واقعے کے متعلق ایک لفظ نہیں نکلتا۔ (اور اگر ان صحیح روایات کی موجودگی میں پھر بھی دعوی کریں کہ جابر بن عبداللہ انصاری خیبر میں موجود نہیں تھے تو پھر یہ بھی فرما دیجئے گا کہ آپکے پاس اسکے کیا ثبوت ہیں)۔

ابن عباس خیبر میں پالتو گدھوں کے گوشت کی ممانعت کے واقعے سے بہت اچھی طرح واقف تھے۔ اور یہ ابن عباس نہیں، بلکہ صحابہ کے گروہ تھے جن میں اس ممانعت کی "علت" پر غلط فہمی پائی جا رہی تھی۔ ذیل میں میں دارالعلوم دیوبند کا ریفرنس دیکھئے:
دارلعلوم دیوبند کا فتوی

۳- غزوئہ خیبر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شہری گدھے کے گوشت کھانے سے منع کردیا اور ان دیگچیوں کو انڈیل دینے کا حکم دیا جس میں گوشت پکایا گیا تھا۔ لیکن یہ ممانعت، بہ حیثیت تشریع، و تبلیغ کے تھی کہ آبادی کے گدھے بہ ہر صورت حرام ہوں گے۔ یا ممانعت کی وجہ یہ تھی کہ اس غزوہ میں سواری کے لیے گدھے استعمال کیے گئے تھے، لشکر کی مصلحت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے، بہ حیثیت امیر لشکر یہ حکم فرمایاتھا۔ صحابہ کرام میں یہ دونوں رائیں موجود تھیں۔


مسند ابوعوانہ میں، عبداللہ بن ابواوفی کی روایت ہے کہ:
اصابتنا مجاعة لیالی خیبر فلما کان یوم خیبر وقعنا فی لحوم الحمر الاہلیة فانتحرناہا فلما غلت بہ القدور نادی منادی رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ان اکفئوا القدور ولا تاکلوا من لحوم الحمر شیئا
قال: فقال ناس: انما نہی عنہا رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم لانہا لم تخمس، وقال آخرون: حرمہا البتة(۲۰)
غزوئہ خیبر کے موقع پرایک رات ہم کو سخت بھوک لگی، جب دن ہوا تو ہم لوگ، شہری گدھوں پرٹوٹ پڑے،اور ان کو ذبح کرنا شروع کردیا اور جب گوشت دیگچی میں ابلنے لگا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے منادی نے اعلان کیا کہ دیگچیوں کو الٹ دو اور گوشت ہرگز نہ کھاؤ۔

اب بعض لوگوں نے کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس لیے منع فرمایا کہ ان گدھوں میں سے ”پانچواں حصہ (خمس)“ نہیں نکالاگیا تھا (ان کی تقسیم نہیں ہوئی تھی) اور بعض لوگوں نے کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے قطعی طور پر حرام کردیا تھا۔



  • I do not know whether the Prophet forbade the eating of donkey-meat (temporarily) because they were the beasts of burden for the people, and he disliked that their means of transportation should be lost, or he forbade it on the day of Khaibar permanently.

[نوٹ: علت میں صحابہ کے مابین آراء یہ تھیں کہ:
1۔ پالتو گدھا نجس چیزیں کھاتا ہے اس لیے حرام قرار دیا گیا۔
2۔ پھر رائے تھی اگر واقعی گدھا نجس چیزیں کھاتا ہے تو جنگلی گدھا بھی حرام قرار دیا جاتا۔
3۔ چنانچہ وجہ تھی کہ خیبر والے دن اُسی وقت گدھوں کو ایسی حالت میں پکایا جانے لگا کہ انکا "خمس" نہیں نکالا گیا تھا اور اسی وجہ سے وہ ابھی تک حرام تھے (خمس کا حکم قرآن میں ہے اور وہ کبھی منسوخ نہیں ہوا ہے)
4۔ کچھ نے کہا وجہ یہ تھی رسول اللہ ص کو پسند نہ آیا کہ سامان ڈھونے والے جانور کو یوں ذبح کر کے ضائع کر دیا جائے۔

چنانچہ خیبر میں ہوئے اس واقعہ کا تو ہر ہر شخص کو اچھی اچھی طرح علم ہے اور اختلاف صرف اس ممانعت کی "علت" میں ہے۔ مگر اسی خیبر میں متعہ کی ممانعت کے واقعہ تک کا لوگوں کو دور دور تک نصف صدی گذر جانے کے بعد بھی کوئی علم نہیں ہے۔
"واقعہ" اور اسکی "علت " میں فرق کو ملحوظ خاطر رکھئے۔

پالتو گدھے کے واقعہ کو 15 سے زائد صحابہ نے مستقل نقل کیا ہے، مگر ان میں سے کوئی بھی ایک لفظ عقد المتعہ کےخیبر میں پیش آنے والے کسی واقعے کے متعلق نہیں نکالتا۔
اسکے مقابلے میں ایک ایک قول علی ابن ابی طالب سے منسوب کیا گیا ہے جس میں دونوں گدھے اور متعہ کی حرمت بیان کی گئی ہے (مگر متعہ کے کسی واقعہ کی ایک بھی تفصیل بیان نہیں ہوئی ہے)
پھر دوسرا عبداللہ ابن عمر سے ایک قول میں صرف گدھے کا ذکر ہے جبکہ دوسرے قول میں متعہ کا ذکر ہے (مگر متعہ کے کسی واقعہ کی ایک بھی تفصیل نہیں ملتی، صرف یہ کہہ دیا جاتا ہے عقد المتعہ حرام ہوا)۔

عبداللہ ابن عمر کی طرف ہم پھر بعد میں پلٹیں گے کیونکہ ابن عمر سے اوپر والے متعہ کے قول کے برخلاف انکا ایک اور قول بھی مروی ہے جو اس قول کے خلاف جا رہا ہے۔

واقعے کا بیان
جو لوگ اپنی طرف سے روایات گھڑتے تھے، اُنکے لیے ہمیشہ یہ آسان چیز ہوتا تھا کہ کسی کی طرف بات منسوب کر کے ایک دو باتیں کہہ دو۔
مگر پھر بھی اللہ کا شکر ہے کہ عقل بہت بڑا انسانی تحفہ ہے اور پھر بھی بہت سے Tools ایسے موجود ہیں جو کہ اس جھوٹ کو پکڑ لیتے ہیں۔ تاریخ انہی میں سے ایک وہ اوزار ہے جس کی مدد سے انسان ایسی بہت سی جھوٹی گھڑی ہوئی باتوں کا پتا چلا سکتا ہے۔
چنانچہ خیبر کے متعلق یہ جھوٹ بول تو دیا گیا، مگر یہ جھوٹ جا کر دوسری بہت سی باتوں سے ٹکرا گیا۔ ذیل میں اہلسنت علماء کا خود اس معاملے تذبذب دیکھنے کے قابل ہے۔

Negative

However, there are some who those who are not equally convinced. Ibn al-Qayyim, a 14th century Sunni Islamic scholar writes [5]:
“ In Khayber there were no Muslim women since it was a Jewish settlement and up till then, Muslims were not permitted to marry Ahl'ul Kitab (Jews & Christians). The permission came later on in Surah Mai'da, Muslims were not supposed to contract marriage with Ahl'ul Kitab during the battle of Khayber, and in any case they were not interested in marrying the women of their enemies before Khayber was captured. After the victory, the ladies were captives or "Mamlookeen" and there was no need to marry them. The companions of the Prophet (S) did not contract temporary marriage with Jewish women neither did the Prophet (S) allow it, and no one mentioned Mut'ah during the battle of Khayber. Muslim scholars say that Mut'ah was permissible after Khayber and they believe that it was cancelled on the Day of Fath Makka (victory). Therefore, it is clear that though this tradition is one of the two strongest amongst all traditions concerning the revocation of Mut'ah, it is nevertheless shaky, and cannot revoke a verdict contained in the Qur'an. ” “ If we accept that Mut'ah was cancelled on the Day of Khayber then what we are saying is that cancellation occurred twice and this has never happened in religion for sure and will not happen [6]. ” Ibn Hajar Asqalani, a 15th century Sunni Shafi'i Islamic scholar writes:
“ On Mut'ah's prohibition comments of Ibn Abbas have a weak chain. Whilst his fatwa on Mut'ah's permissibility is more Sahih [7]Ali al-Qari, a 17th century Sunni Hanafi Islamic scholar writes:
Ibn Zubayr mocked Ibn Abbas for issuing a fatwa on Mut'ah's permissibility and this event happened after the death of 'Ali, during the Khilafath of Ibn Zubayr and this proves that Ibn Abbas believed in the permissibility of Mut'ah until his dying days [8] ” Others include:

Allamah ibn Barr said that the tradition on the prohibition of Mut'ah on the Day of Khayber is wrong.
The tradition prohibiting Mut'ah during the victory of Makka is more Sahih.

This is absolutely wrong. Temporary marriage never took place in Khayber.
This is something that no one involved in the Seerah and the history Muhammad has ever acknowledged (that Mut'ah was prohibited on Khayber).

This is something that no one involved in the Seerah and the history of Muhammad has ever acknowledged (that Mut'ah was prohibited on Khayber).

"I have heard scholars saying that the tradition related of Ali only talked of the prohibition of the eating of the meat of domestic asses and there was no mention of Mut'ah, and the tradition is silent on that matter". Then they quote Ibn Qayyim in Zad al-Ma'ad Volume 2 page 142:
If we accept that Mut'ah was cancelled on the Day of Khayber then what we are saying is that cancellation occurred twice and this has never happened in religion for sure and will not happen.
سب سے بڑا مسئلہ یہ ہوا کہ خیبر والی یہ روایت جا کر خود فتح مکہ والی دوسری گھڑی ہوئی روایت سے جا ٹکرائی۔ (صحیح مسلم کی روایت میں حضرت علی سے منسوب کیا گیا کہ خیبر کے دن عقد المتعہ کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے منع کر دیا گیا) چنانچہ اب یہ وہ ہڈی ہے جو نگلی جاتی ہے اور نہ اگلی جاتی ہے۔
 

S. H. Naqvi

محفلین
=مہوش علی;621592]السلام علیکم
نقوی بھائی صاحب، مسئلہ یہ ہے کہ آپ غصے میں ہیں اور اس لیے آپ کو ہمارے دلائل نظر نہیں آ رہے ہیں۔

1. جب اللہ کا رسول گواہی دے رہا ہے کہ عقد المتعہ پاکیزہ حلال طیبات میں سے ہے تو پھر اسکے بعد یقینا ہم آپکی بات کو وزن نہیں سے سکتے۔ آپ بے شک اس وقت آپکی نظروں میں لسان نبوت کی یہ گواہی کوئی اہمیت رکھے یا نہ رکھے، مگر آپ ہمیں کیسے مجبور کر پائیں گے کہ ہم بھی لسان نبوت کی اس گواہی سے اپنا منہ پھیر لیں۔

2. جابر بن عبداللہ انصاری اور سلمۃ بن الاکوع فرماتے ہیں انکے پاس رسول اللہ ص کی طرف سے "منادی" کروائی گئی کہ اللہ کے رسول ص تمہیں اجازت دیتے ہیں کہ تم عورتوں سے عقد المتعہ کرو۔

Sahih Muslim , Book 008, Number 3246:

Jabir b. 'Abdullah and Salama b. al-Akwa' said: There came to us the proclaimer of Allah's Messenger (may peace be upon him) and said: Allah's Messenger (may peace be upon him) has granted you permission to benefit yourselves, i. e. to contract temporary marriage with women.​


پناہ رب الرحیم کی، آخر کار آپ نے اپنا پول خود ہی کھول دیا، آپ نے وہی اہل کتاب، یہودیوں اور نصرانیوں والا کام شروع کر دیا نا۔۔۔

اے اہل کتاب تم سچ کو جھوٹ کے ساتھ خلط ملط کیوں کرتے ہو اور حق کو کیوں چھپاتے ہو جبکہ تم جانتے بھی ہو۔ سورۃ: 3 آیہ: 71 رکوع: 7
اور
کیا یہ لوگ یہ نہیں جانتے کہ جو کچھ یہ چھپاتے اور جو کچھ ظاہر کرتے ہیں اللہ کو سب معلوم ہے۔ سورۃ: 2 آیہ: 77 رکوع: 9،
ویسے ایک عا لمہ ہونے کے ناطے آپ سے ایسی حرکت کی توقع تو نہیں‌تھی مگر کیا کیا جائے نقش اسلاف پہ چلنا آپ کی مجبوری ہے۔۔۔۔۔۔!

جناب ہادیٔ دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم کا نام نامی اپنے مقصد کے لیے استعمال کرتے ہویٔ آپ کو ایک دفعہ بھی کویٔ سوچ نہ آیٔ کہ آپ یہ کر کیا رہی ہو؟؟؟؟؟
جہاں‌آپ کو مندرجہ بالا حدیث مبارک نظر آیٔ اور اس طرح کی بھی،
2yzg0sg.jpg


تو کیا آپ کو اس کی ممانعت کی اسی جیسی کؤی حدیث نظر نہیں آیٔ، مثلاً
2dvit1u.jpg

اور یہ بھی،
243qoux.jpg


اپ آپ مجھے صرف یہ بتایٔں‌کہ آپ نے اپنے مطلب کی حدیث ہی کیوں‌ چنی؟ اور اگر آپ حق سامنے لانا چاہتی تھی تو سب کی سب کیوں نہ سا منے لایٔں؟؟؟ تا کہ تصویر کے دونوں‌ رخ سب کے سامنے آ جاتے ، مگر کیا کیا جائے اس سے حق تو سامنے آ جاتا مگر آپ کی "میں" جو ختم ہو جاتی۔۔۔۔۔۔!

اپ تک کی بحث سے قاریٔن کو پتا چل چکا ہو گا کہ حقایٔق کیا ہیں‌ اور کون لوگ اپنے اپنے مطلب کی چیز کو حلال کروا کر کیا کیا مقاصد حاصل کر نا چاہتے ہیں، جیسا کہ مندرجہ بالا اقتباس میں ہوا کہ صرف ایک حدیث کہ جس میں شروع اسلام میں متعہ کی اجازت دی گیٔ اسکو تاقیامت اجازت کے لیے استعمال کیا گیا، اور جن میں‌ تا قیامت مما نعت ہویٔ ان کا کہیں‌ ذکر ہی نہیں۔۔۔۔۔! کیا یہ ظلم عظیم اور جرم عظیم نہیں‌ہے؟؟؟ اور اپنے مقصد کے لیے کلام ربی کے بعد کلام رسول سے کھلواڑ نہیں ہے؟؟؟؟

اور آخر میں‌ عرض کہ جب آج کل کے دور میں کنیزیں‌ ختم، غلامی کا دور ختم ہو چکا ہے تو پھر اس مسلئے کو دوبارہ زندہ کرنا اور بار بار اس کی مثالیں‌ دینا کہاں‌کا انصاف ہے اور کیسی عقلمندی ہے، چہ معنی دارد؟؟ اور ایک گناہ کو دوسرے گناہ کے حلال کے لیے مثال بنانا کہاں کی علمیت ہے؟؟ عذر گناہ بد تر از گناہ ، اللہ ہمیں‌ ہدایت کی توفیق عطا فرمائے۔​
 

باذوق

محفلین
یہ سب کچھ جو آپ نےاس فورم پر بیان کیا ہے انہی الفاظ‌ میں اور اسی انداز بیان اور اسی ترتیب میں نیٹ پر پی ڈی ایف کی شکل میں موجود ہے۔ اب خدا جانے وہ کاوش بھی آپکی تھی یا آپ نےاس سے استفادہ کیا ہے۔ اس لیے یہ بات تو رہنے ہی دیں۔ اور یہ کوئی میدان جنگ نہیں محفل ہے تمام تر اختلاف رائے کے باوجود سب محفلین ہیں۔ سب دوست ہیں اور دشمن کوئی نہیں۔

حوالے کے لئے یہ لینک ملاحظہ کیجئے۔
اس موضوع پر اور اسی مواد سے ملتی جلتی ایک پ ڈ ف فائل کئی سال سے تو یہاں بھی موجود ہے۔
 
اور آخر میں‌ عرض کہ جب آج کل کے دور میں کنیزیں‌ ختم، غلامی کا دور ختم ہو چکا ہے تو پھر اس مسلئے کو دوبارہ زندہ کرنا اور بار بار اس کی مثالیں‌ دینا کہاں‌کا انصاف ہے اور کیسی عقلمندی ہے، چہ معنی دارد؟؟ اور ایک گناہ کو دوسرے گناہ کے حلال کے لیے مثال بنانا کہاں کی علمیت ہے؟؟ عذر گناہ بد تر از گناہ ، اللہ ہمیں‌ ہدایت کی توفیق عطا فرمائے۔
اگر کنیزوں اور غلاموں والا سسٹم گناہ تھا تو براہ کرم یہ بات کرنے سے پہلےضرور سوچ لیجئے کہ آپ کے اس فتوے کی زد میں کیا کیا آگیا ہے۔:rolleyes:
 
ش

شوکت کریم

مہمان
3۔ اور اگر آپ پھر بھی اپنے الزام پر اڑے رہیں کہ عقد المتعہ خنزیر کا گوشت کھانا ہے تو پھر آپکو سمجھنا چاہیے کہ اسلاف کا 1300 سال تک باندیوں سے عارضی تعلقات قائم کرنا خنزیر کھانے سے بھی بدتر فعل قرار پائے گا۔

میرے حساب سے تو آپ اپنے ہی شروع کئے ہوئے دھاگے سے واک آوٹ کر گئیں تھیں۔ خیر دوبارہ آمد سے خوشی ہوئی۔

اور ساتھ ہی دکھ جس چیز سے ہوا وہ آپ کے دہرے معیارات کی وجہ سے ۔۔۔ خود آپ کہتی ہیں کہ بات چیت کو اسلامی طریقے سے اور عالمانہ طریقے سے جاری رکھیں۔ مگر اوپر اقتباس میں‌ دیے گئے اپنے الفاظ پر ٹھنڈے دل سے غور کریں۔ کہ ان میں‌ کتنی عالمانہ شان جھلک رہی ہے۔ حالانکہ اس سے پہلے دو دفعہ عرض کر چکا ہوں کہ آپ لونڈیوں کو آزاد عورتوں سے نہ ملائیں۔ لونڈیوں کا مسئلہ ہی اور ہے اور احکامات بھی اور ہیں اور خود اللہ سبحان و تعالیٰ‌ نے اپنی کتاب میں ان کی الگ حیثیت کو بیان کیا ہے۔ مگر آپ ہیں کہ جب جواب نہیں‌بن پڑتا تو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کوسنے دینے شروع کر دیتی ہیں۔

اور لونڈیوں کا وجود کس تہذیب میں‌ نہیں تھا۔ اور کیا 1300 سال تک باندیوں کا استعمال صرف اور صرف مسلمانوں اور خاص طور پر ہمارے ہی اسلاف نے کیا ؟؟؟

رہی بات ہمارے اسلاف کی تو قسم رب کعبہ کی ہم کو فخر ہے ان پر بے شمار برائیوں کے باوجود وہ معاشرے میں‌ موجود بہت سی دوسری قوموں اور تہذیبوں سے برتر و اعلیٰ‌تھے۔ اور یہی وجہ تھی کہ ہمارے اسلاف کے دور میں مشرق و مغرب ، شمال و جنوب ہر طرف اسلامی پھریرے لہرا رہے تھے۔

بیت المقدس دو دفعہ ہمارے اسلاف نے فتح کیا بتایے کتنی لونڈیاں ان فتوحات سے حاصل کیں۔ ؟؟؟؟؟ ایک بھی نہیں ؟؟؟؟

اور جب حاصل کیں بھی تو ان کو حقوق بھی دیٕے گئے اور اپنے خاندانوں میں‌ اس طرح‌مدغم کر دیا گیا کہ پہچان ہی نہ رہی کہ یہ عورت کل کی لونڈی تھی۔

اللہ سبحان و تعالیٰ‌نے کفارے کے طور پر لونڈی غلاموں کو آزاد کروانے کا جو سلسلہ ہمیں تعلیم کیا وہ بتدریج نافذ ہوتا رہا۔ اور

سب سے پہلے میں‌ سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کر چکا ہوں۔ دو لونڈیاں پوری امت کی مائیں ہیں۔ ہم کیوں شرمندہ ہوں آپ کے کوسنوں‌ سے ۔۔۔۔ آپ کے صرف کوسنے ہیں اور ہمارے پاس اسلاف کا عمل۔

پھر اور پوسٹ میں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے‌‌حکم کا تذکرہ کر چکا ہوں۔

حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے زمانہ تک امہات اولاد یعنی وہ لونڈیاں جن سے اولاد پیدا ہو جائے برابر خریدی اور بیچی جاتی تھیں۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس کو بالکل روک دیا۔

کیا آپ نہیں جانتیں کہ ہارون الرشید اور مامون الرشید کی ماں کون تھی ؟؟؟؟

کیا آپ نہیں جانتیں کہ ہندوستان پر ایک عرصے تک ہمارے اسلاف کے تربیت یافتہ اور آزاد کردہ غلاموں نے حکومت کی اور ایک الگ خاندان "خاندان غلاماں کا لقب پایا"۔

یہ ہمارے اسلاف ہی تھے کہ جن کی مساوات اور اونچ نیچ سے نفرت دیکھ کر ہندوستان کے پسے ہوئے طبقوں نے اسلام کو لبیک کہا۔

اور جب ہم نے اپنے اسلاف کی روایات کو ترک کیا تو آج ہم اپنے ہی وجود کا بوجھ نہیں‌ اٹھاپا رہے۔

لونڈیوں اور غلاموں کو جتنے حقوق ہمارے اسلاف نے دیے دنیا میں‌ موجود‌ کوئی قوم اس کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔ مگر پتہ نہیں کیوں آپ آج کے نوجوان کو ہمیشہ اس 1300 سالہ دور کی تاریک تصویر ہی دکھانے کی کوشش کرتی ہیں۔ اور نہیں‌ سوچتیں کہ تاریخ‌ میں‌ ہیر پھیر کر کے آپ کتنے بڑے جرم کی مرتکب ہو رہی ہیں۔ آپ نوجوانوں کو مایوسی کے گڑھے اور شرمندگی کی دلدل میں‌ ڈبونے کی کوشش کیوں کرتی ہیں۔ اگر اس موضوع پر بات کرنی ہے تو الک سے ایک تھریڈ تاریخ اسلام کا کھول لیں اور آپ اس میں‌‌‌‌ جی بھر کے اندھیرے پھیلایے اور ہم ان شا اللہ روشنی پھیلائیں‌ گے۔ اس تھریڈ میں‌اس طرح کی باتوں کا جواب دینے سے موضوع سے الگ ہونا پڑتا ہے جو کہ موضوع سے انصاف کے ضمن میں‌نہیں‌ آتا۔ اور اس موضوع سے متعلق بہت کچھ ادھار ہے اس کو چکانے کی کوشش کیجئے نہ کہ غیر متعقلہ طبقات کا ذکر کر کے موضوع کو الجھانے کی کوششیں۔

ہمارے لیے ہمارے اسلاف کے اعمال بالخوص لونڈیوں اور غلاموں کے سلسلے میں ایسے نہیں‌ کہ ہم شرمندہ ہوں بلکہ ایسے ہیں کہ ہم فخر سے خوش ہوں اور ان کے راستے پر چلنے کی کوشش کرتے ہوئے آج کے دور میں‌ جو ہم نے اونچ نیچ شروع کی ہوئی ہے اس کو ختم کریں۔
 

دوست

محفلین
مگر پھر بھی اللہ کا شکر ہے کہ عقل بہت بڑا انسانی تحفہ ہے اور پھر بھی بہت سے tools ایسے موجود ہیں جو کہ اس جھوٹ کو پکڑ لیتے ہیں۔ تاریخ انہی میں سے ایک وہ اوزار ہے جس کی مدد سے انسان ایسی بہت سی جھوٹی گھڑی ہوئی باتوں کا پتا چلا سکتا ہے۔
چنانچہ خیبر کے متعلق یہ جھوٹ بول تو دیا گیا، مگر یہ جھوٹ جا کر دوسری بہت سی باتوں سے ٹکرا گیا۔ ذیل میں اہلسنت علماء کا خود اس معاملے تذبذب دیکھنے کے قابل ہے۔
ماشاءاللہ۔ ہم متعہ کو عقل کی بنیاد پر حرام ٹھہرائیں تو یہ دین سے بغاوت ٹھہرے اور خود اپنے مطلب کے لیے جہاں‌ چاہیں اللہ، رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بات کرتے کرتے عقل کی فضیلت کا بھی خیال آجائے۔
 
ش

شوکت کریم

مہمان
سب سے بڑا مسئلہ یہ ہوا کہ خیبر والی یہ روایت جا کر خود فتح مکہ والی دوسری گھڑی ہوئی روایت سے جا ٹکرائی۔ (صحیح مسلم کی روایت میں حضرت علی سے منسوب کیا گیا کہ خیبر کے دن عقد المتعہ کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے منع کر دیا گیا) چنانچہ اب یہ وہ ہڈی ہے جو نگلی جاتی ہے اور نہ اگلی جاتی ہے۔

گو کہ میری بہت سی پوسٹیں جو کہ خالصتآ متعہ سے متعلق تھیں اور درجات سے متعق نہیں‌‌ تھیں اور حوالے بھی آپ ہی کی کتاب سے دیے گئے تھے آپ شیر مادر سمجھ کر ہضم کر چکی ہیں۔ اور اب پھر سے انہی اعتراضات کو نئے نئے پہلوں سے سامنے لا رہی ہیں۔ مگر ہم کوئی شکوہ نہیں کریں گے اور حتی الامکان کوشش کریں گے کہ موضوع سے انصاف ہوسکے اور کوئی تشگی نہ رہے۔ جیسے کہ آپ کے پسندیدہ فورم پاک نیٹ پر نظر آتی ہے۔ اور اس سلسلے میں میں برادر نبیل اور شمشاد اور جو بھی اس فورم کی منیجمنٹ میں شامل ہیں‌‌‌‌‌۔ سب کو خراج تحسین پیش کرتا ہوںکہ انہوں نے ایک اتنی اچھی محفل سجائی کہ جس کی وجہ سے پوسٹ کرنے والے کسی بھی مفحفلین کو تشنگی کا احساس نہیں‌ہوتا۔ درحقییقت یہ موضوع اور محفلین دونوں سے حقیقی انصاف ہے۔

اب جب ہم 1300 سال بعد اس وقت کے حالات و روایات کو دیکھتے ہیں‌اور دیکھتے بھی اپنے نظریے کی عینک پہن کے تو حقیقت کیا خاک سمجھ آئے گی۔ بہت عرصہ پہلے ایک تصویر دیکھی تھی کہ جس کو ایک بندہ دیکھتا تو کہتا تھا کہ یہ نوجوان لڑکی ہے اور دوسرا دیکھتا تو کہتا تھا کہ بوڑھی بہت ہی بوڑھی عورت ہے ۔۔۔۔ اور کچھ کو دونوں ہی نظر آ جاتیں۔ علی ہذا القیاس۔

خوش قسمتی سے مجھے وہ تصویر نیٹ پر مل گئ ہے جو میں محفلین کے سامنے پیش کر رہا ہوں۔

fx8jue.gif


یہی مسئلہ ہمارے درمیان ہے۔ ورنہ ایک بات تو سچ ہے کہ اللہ کا ہاتھ جماعت پر ہے اور جماعت کبھی گمراہی پر جمع نہیں ہو سکتی۔ یہی مسئلہ متعہ کے بارے میں ہے سواد اعظم یعنی بڑی جماعت کا جو موقف ہے وہ غلط نہیں‌ہو سکتا اور ایک کم عقل والا انسان بھی سمجھ سکتا ہے کہ مذہبی معاملات ہمیشہ سے مردوں کے ہاتھوں میں رہے اور متعہ میں مردوں ہی کے لیے فائدہ ہی فائدہ ہے یعنی پانچوں انگلیاں گھی میں‌ اور سر کڑاھی میں۔ اوربقول آپ کے مرد جنسیات کی طرف زیادہ راغب ہیں اسی لئے اللہ نے مردوں کو یہ چھوٹ‌دی تو پھر ایسا کیوں ہوا کہ امت کے کثیر تعداد مردوں نے اپنے ہی پاؤں پر کلہاڑی ماری اور مسلسل مارے ہی جارہے ہیں۔ صرف اس لیے کہ اسلام نے انہیں رشتوں‌کی پہچان کروائی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جس سے تو متعہ کرے گا وہ کسی کی ماں ہو گی یا ہو سکتی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سوچ ذرا اس کا بیٹا یا بیٹی جب بڑےہوں گے تو وہ کیا خیال کریں گے کہ انکی ماں صرف لوگوں کے پہلو ہی گرماتی رہی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ کسی کی بیٹی بھی ہو گی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ باپ کیا سوچے گا کہ اسکی بیٹی کےنصیب میں سدا مردوں کے ہاتھوں کھلونا بننا ہی لکھا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ کسی کی بہن بھی ہو گی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس کے بہن‌بھائی کیا سوچیں گے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کہ انکی بہن صرف مردوں کی خواہش نفسانی بجھانے کا ایک TOOL ہے اور بس اس کی معاشرے میں کوئی حیثیت نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کون ماں‌یہ سوچ کر اپنی بیٹی کوجنتی ہو گی کہ اس کی بیٹی جوان ہو کر دلہن نہ بنے اور اپنے بچوں بچیوں‌کو نہ کھلائے ؟؟؟؟؟

دل لرذ اٹھتا ہے حوا کی بیٹی کا ایسا استحصال ہوتے دیکھ کر چاہے کسی بھی طرح‌سے ہو کسی بھی لبادے میں ہو ہے تو استحصال ہی ؟؟؟؟؟ آپ ہمیں دور گذشتہ کی لونڈیوں کے طعنے دیتی ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور خود جو اس روشن صدی میں دوبارہ لونڈیوں کا نظام واپس لانے کی کوشش کر رہی ہیں۔ (اور یہ آپ ہی کتابوں سے دیئے گئے حوالوں سے اور عقلی دلائل سےثابت شدہ ہے کہ زن متعہ کی حیثیت ایک کنیز سے زیادہ نہیں۔

یہ کیسا اندھیر ہے کہ ایک عورت مرد کے ساتھ نکاح کرتی ہے اور اسے مرد کے بستر پر بھی حق نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کیا وہ ایک مشین ہے مردوں کے جذبات ٹھنڈے کرنے کی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس کے حقوق ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس کی خواہشات کچھ نہیںِ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

آپ جب اس روشنی میں دیکھیں تو ان شا اللہ آپ کو تمام روایات میں ربط‌ بھی نظر آئے گا اور یہ جو آپ سلف‌ کی عبارتیں جو انکے دوران بحث و مباحثہ ہوتی رہیں نقل کرتی رہیں ان میں‌بھی ربط نظر آئے گا۔

اب ہم آتےہیں حدیث ممانعت متعہ فی خبیرکی طرف ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

علما سچ کی تلاش میں ہر طرف ہر پہلو کی طرف دیکھتے ہیں‌اور جانچتے ہیں اور ان کی جانچ کو بیان کرنا انصاف نہیں انصاف یہ ہے کہ ان کی بحث کے نتیجے کو بیان کیا جائے۔ نتیجہ تو ظاہر ہے وہ ہے جس کو سواد اعظم نے اختیار کیا اور وقت کے اماموں اورانکے پیروکاروں نے اختیار کیا۔

بہرحال آپکی تسلی کے لئے نیچے چند حوالہ جات دے رہا ہوں‌۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ امید ہے افاقہ ہو گا۔

خیبر میں متعہ کی حرمت بیان کی گئی وہی طریقہ جو شراب کے سلسلے میں اختیار‌کیا گیا‌ اور لوگوں کے ذہن میں بات ڈال دی گئی۔ اور فتح مکہ میں قیامت تک کے لئے ممانعت کر دی گئی۔ اور فتح مکہ اور اوطاس کے واقعات چونکہ ساتھ ساتھ ہی پیش آئے اس لیے بعض روایت میں‌جو تعارض نظر آتا ہے وہ درحقیقت تعارض‌نہیں‌ ۔‌ سورج کب نکلا ، کیسے نکلا کیوں نکلا ؟؟؟ اس سے اس بات پر فرق نہیں پڑتا کہ وہ نکل چکا ہے اور روشنی سارے عالم میں پھیل چکی ہے اب کوئی خود کو کمرے میں بند کر لے تو سورج کا کیا قصور۔ حرمت کیوں ہوئی، کب ہوئی اس سے قطع نظر یہ بات طے شدہ ہے کہ حرمت ہوئی اور قیامت تک کے لئے ہوئی اور فطرت سلیم اور عقل جو اللہ کی طرف سے دیا گیا واقعی ایک ہتھیار ہے مگر استعمال کنندہ کا محتاج ہے یہی تسلیم کرتی ہے کہ یہ ہی صحیح‌ ہے۔ اور یہ بات دلائل اور روایت سے ہماری کتابوں سے بھی اور آپکی کتابوں سے بھی ثابت ہے اور درج ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اب کون ہے منکر روایت فاروق صاحب یا ؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟

تہذیب الاحکام جلد ۲ ص ۱۸۲ مطبوعہ ایران۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں روایت کو مانا گیا ہے اور تقیہ کہا گیا۔

ان هذا الرواية وردت موردة التقية ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ روایت یقینا تقیہ کے طور پر وارد ہوئی ہے۔

وسائل الشیعہ جلد ۵۔ص۔ ۴۳۸ میں‌ درج ہے۔

اباحۃ المتعۃ من ضروریات مذہب الامامیۃ۔ شیخ محمد بن حسن۔

شیخ الطائفہ بھی لکھتے ہیں‌کہ یہ روایت تقیہ ہے۔

فالوجہ فی ہذا الروایۃ ان علی التقیۃ لانہا موافقۃ لذاھب العامۃ و الاخبار الادلۃ موافقۃ لظاھر الکتاب و اجماع الفرقۃ علی موجھا فیحب ان یکون العمل بھادون ھذہ الروایۃ الشاذۃ۔

شیخ محمد بن حسن الحر العاملی کہتا ہے۔ اقول حملہ الشیخ وغیرہ علي التقية يعني في الرواية لان اباحة المتعة من ضروريات مذهب الامامية ۔ یعنی جن روایات میں حضرت علی سے متعہ کی ممانعت آتی ہے اس کو ہم تقیہ پر محمول کرتے رہیں گے۔ کیونکہ شیعہ امامیہ کی دوسری مستند روایات سے متعہ کا حلال ہونا واضح ہے اور متعہ کی اباحت مذہب امامیہ کی ضروریات دین میں سے ہے۔ اس لیے ممنوع والی روایتوں سے استدلال کرنا صحیح نہیں بلکہ عمل اسی پر ہوگا جن پر شیعوں کا اجماع ہے۔ وسائل الشیعہ جلد ۷ ۴۴۱ مطبوعہ تہران

حضرت علامہ ابو جعفر احمد بن محمد نحوی مصری لکھتے ہیں ۔ ان ابن عباس لما خاطبه علي بهذا لم يحاجه فصار تحريم المتعۃ اجماھا لان الذین یحلونھا اعتمادھم علی ابن عباس ۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے حضرت ابن عباسؓ سے بات چیت کی تو حضرت ابن عباسؓ نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے کوئی حجت نہ کی پس اس کے ذریعہ متعہ کی حرمت پر اجماع ہو گیا اس لیے کہ جو لوگ متعہ کی اباحت کے قائل تھے ان کا سارا دارومدار ابن عباس کے قول پر تھا ۔ تفسیر نحاس ص ۱۰۶

قاضی عبدالجبار متعزلی لکھتے ہیں وانکر ذالک علی رضی اللہ عنہ لما بلغہ اباحۃ ابن عباس انکار ظاہر اوقد عنہ رضی اللہ عنہ الرجوع عن ذالک فصار اجماعا من کل صحابۃ۔
جب حضرت علی رضی اللہ عنہ کو حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کے متعہ کے مباح ہونے کے قول کی خبر پہنچی تو آپ نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ پر سخت انکار کیا اور مروی ہے کہ ابن عباس رضی اللہ عنہ نے اپنے قول سے رجوع کر لیا تھا۔پس حرمت متعہ پر تمام صحابہ کا اجماع ہو گیا۔ (تفسیر تنزیہ القرآن ص ۸۴)

اور اب ایک شعیہ عالم کی رائے

شیعی عالم ڈاکٹر موسی الموسوی لکھتےہیں ۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اپنی خلافت کے زمانے میں اس حرمت کو برقرار رکھا اور جواز متعہ کا حکم صادر نہیں فرمایا۔ شیعی عرف اور ہمارے فقہاء شیعہ کی رائے کے مطابق امام کا عمل حجت ہوتا ہے خصوصاً جب کہ امام با اختیار ہو۔ اظہار رائے کی آزادی رکھتا ہو اور احکام الٰہی کے اوامر و نواہی بیان کر سکتا ہو اس صورت میں امام علی رضی اللہ عنہ کی حرمت متعہ کو برقرار رکھنے کا مطلب یہ ہوا کہ وہ عہد نبوی میں حرام تھا۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو ضروری تھا کہ وہ اس حکم تحریم کی مخالفت کرتے اور اس کے متعلق صحیح حکم الٰہی بیان کرتے اور عمل امام شیعہ پر حجت ہے میں نہیں سمجھ پایا کہ ہمارے فقہاء شیعہ کو یہ جرات کیسے ہوئی کہ وہ اس کو دیوار پر مار دیتے ہیں۔ اصلاح شیعہ ۱۱۲

ایک روایت استبصار سے اس میں نہ فتح‌ مکہ کا خبیر کا ذکربھی نہیں مگر حرمت متعہ کا ذکر واضح ہے۔

حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ۔ حرم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لحرم الحمر الاھلیۃ ونکاح المتعۃ ۔ الاستبصار جلد ۳ ص ۱۴۲
 

نبیل

تکنیکی معاون
میری گزارش ہے کہ گفتگو کو موضوع پر ہی جاری رکھیں۔ کنیزوں، لونڈیوں وغیرہ کے پہلے ہی بہت دھاگے کھلے ہوئے ہیں۔
 

مہوش علی

لائبریرین
نقوی بھائی،
آپکی پوسٹ میں کہاں میرے اس سوال کا جواب دیا گیا ہے:

=مہوش علی;621592]السلام علیکم
نقوی بھائی صاحب، مسئلہ یہ ہے کہ آپ غصے میں ہیں اور اس لیے آپ کو ہمارے دلائل نظر نہیں آ رہے ہیں۔

1. جب اللہ کا رسول گواہی دے رہا ہے کہ عقد المتعہ پاکیزہ حلال طیبات میں سے ہے تو پھر اسکے بعد یقینا ہم آپکی بات کو وزن نہیں سے سکتے۔ آپ بے شک اس وقت آپکی نظروں میں لسان نبوت کی یہ گواہی کوئی اہمیت رکھے یا نہ رکھے، مگر آپ ہمیں کیسے مجبور کر پائیں گے کہ ہم بھی لسان نبوت کی اس گواہی سے اپنا منہ پھیر لیں۔

2. جابر بن عبداللہ انصاری اور سلمۃ بن الاکوع فرماتے ہیں انکے پاس رسول اللہ ص کی طرف سے "منادی" کروائی گئی کہ اللہ کے رسول ص تمہیں اجازت دیتے ہیں کہ تم عورتوں سے عقد المتعہ کرو۔

sahih muslim , book 008, number 3246:

jabir b. 'abdullah and salama b. Al-akwa' said: There came to us the proclaimer of allah's messenger (may peace be upon him) and said: Allah's messenger (may peace be upon him) has granted you permission to benefit yourselves, i. E. To contract temporary marriage with women


میرے سوال تو بہت سادہ سے تھے کہ بتلائیں:

1۔ کہاں اللہ کے رسول ص نے خنزیر کے گوشت کو حلال پاکیزہ طیبات میں سے قرار دیا ہے؟

2۔ کہاں اللہ کے رسول ص نے منادی کروا کر صحابہ کو خنزیر کا گوشت کھانے کی اجازت دی ہے؟

میرے سوالات کے جواب دینے کی بجائے آپ مجھ پر غلط الزام بازی کیوں شروع کر رہے ہیں۔ آپ نے جو روایات پیش کی ہیں ان کا جواب میں پہلے کئی مرتبہ دے چکی ہوں، ان روایات میں موجود "تضادات" دکھلا چکی ہوں، اہلسنت کے بے تحاشہ علماء کے بیانات دکھا چکی ہوں، آپکی کتب سے صحیح روایات دکھا چکی ہوں کہ ابن عباس، جابر بن عبداللہ انصاری، ابو نضرہ، ابن زبیر، سعید بن جبیر، عطا، جیسے بلند پایہ لوگوں کو نصف صدی سے زیادہ عرصہ گذر جانے کے بعد دور دور تک نہ خیبر میں حرام ہونے کسی واقعے کا علم ہے، اور نہ فتح المکہ میں، نہ اوطاس میں اور نہ حجۃ الوداع میں۔
اور وجہ کیا ہے؟ وجہ ہے کہ یہ جھوٹی روایات اُس وقت تک گھڑی ہی نہیں گئی تھیں۔
بلکہ ابن عباس کیا، بلند پایہ تابعین شاگرد جو کہ ایک صدی بعد تک زندہ رہے، ان کے فرشتوں کو بھی دور دور تک ایسے کسی واقعے کا علم نہیں اور یہ روایات اُنکے بھی بعد گھڑی گئیں۔
اب آپ بے شک ان گھڑی ہوئی روایات کو بے شک لے کر بیٹھے رہیے، مگر نہ یہ میرے اوپر خنزیر کے حلال پاکیزوہ طیبات والے سوال کا جواب ہے، اور نہ ہی اہل عقل و انصاف اب ان گھڑی ہوئی روایات سے دھوکا کھانے والے ہیں۔
اور میرا کام فقط دلائل کو بیان کرنا ہے کسی سے منوانا نہیں اور اللہ میرا گواہ ہو کہ میں نے اپنی استطاعت کے مطابق اچھے طریقے سے دلائل پہنچا دیے ہیں۔ شکر الحمد للہ۔​
 

S. H. Naqvi

محفلین
اگر کنیزوں اور غلاموں والا سسٹم گناہ تھا تو براہ کرم یہ بات کرنے سے پہلےضرور سوچ لیجئے کہ آپ کے اس فتوے کی زد میں کیا کیا آگیا ہے۔

میری مراد اس سسٹم کوغلط کہنا یا کسی قسم کا تبصرہ کرنا نہیں تھا کہ یہ ایک الگ موضوع ہے۔ محترمہ مہوش جو متعہ کے حوالےسے بار بار ان کا تذکرہ کر رہی تھیں۔ اس کا رد کرنا مقصود تھا۔
 

مہوش علی

لائبریرین
میرے حساب سے تو آپ اپنے ہی شروع کئے ہوئے دھاگے سے واک آوٹ کر گئیں تھیں۔ خیر دوبارہ آمد سے خوشی ہوئی۔

اور ساتھ ہی دکھ جس چیز سے ہوا وہ آپ کے دہرے معیارات کی وجہ سے ۔۔۔ خود آپ کہتی ہیں کہ بات چیت کو اسلامی طریقے سے اور عالمانہ طریقے سے جاری رکھیں۔ مگر اوپر اقتباس میں‌ دیے گئے اپنے الفاظ پر ٹھنڈے دل سے غور کریں۔ کہ ان میں‌ کتنی عالمانہ شان جھلک رہی ہے۔ حالانکہ اس سے پہلے دو دفعہ عرض کر چکا ہوں کہ آپ لونڈیوں کو آزاد عورتوں سے نہ ملائیں۔ لونڈیوں کا مسئلہ ہی اور ہے اور احکامات بھی اور ہیں اور خود اللہ سبحان و تعالیٰ‌ نے اپنی کتاب میں ان کی الگ حیثیت کو بیان کیا ہے۔ مگر آپ ہیں کہ جب جواب نہیں‌بن پڑتا تو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کوسنے دینے شروع کر دیتی ہیں۔

اور لونڈیوں کا وجود کس تہذیب میں‌ نہیں تھا۔ اور کیا 1300 سال تک باندیوں کا استعمال صرف اور صرف مسلمانوں اور خاص طور پر ہمارے ہی اسلاف نے کیا ؟؟؟

رہی بات ہمارے اسلاف کی تو قسم رب کعبہ کی ہم کو فخر ہے ان پر بے شمار برائیوں کے باوجود وہ معاشرے میں‌ موجود بہت سی دوسری قوموں اور تہذیبوں سے برتر و اعلیٰ‌تھے۔ اور یہی وجہ تھی کہ ہمارے اسلاف کے دور میں مشرق و مغرب ، شمال و جنوب ہر طرف اسلامی پھریرے لہرا رہے تھے۔

بیت المقدس دو دفعہ ہمارے اسلاف نے فتح کیا بتایے کتنی لونڈیاں ان فتوحات سے حاصل کیں۔ ؟؟؟؟؟ ایک بھی نہیں ؟؟؟؟

اور جب حاصل کیں بھی تو ان کو حقوق بھی دیٕے گئے اور اپنے خاندانوں میں‌ اس طرح‌مدغم کر دیا گیا کہ پہچان ہی نہ رہی کہ یہ عورت کل کی لونڈی تھی۔

اللہ سبحان و تعالیٰ‌نے کفارے کے طور پر لونڈی غلاموں کو آزاد کروانے کا جو سلسلہ ہمیں تعلیم کیا وہ بتدریج نافذ ہوتا رہا۔ اور

سب سے پہلے میں‌ سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کر چکا ہوں۔ دو لونڈیاں پوری امت کی مائیں ہیں۔ ہم کیوں شرمندہ ہوں آپ کے کوسنوں‌ سے ۔۔۔۔ آپ کے صرف کوسنے ہیں اور ہمارے پاس اسلاف کا عمل۔

پھر اور پوسٹ میں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے‌‌حکم کا تذکرہ کر چکا ہوں۔

حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے زمانہ تک امہات اولاد یعنی وہ لونڈیاں جن سے اولاد پیدا ہو جائے برابر خریدی اور بیچی جاتی تھیں۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس کو بالکل روک دیا۔

کیا آپ نہیں جانتیں کہ ہارون الرشید اور مامون الرشید کی ماں کون تھی ؟؟؟؟

کیا آپ نہیں جانتیں کہ ہندوستان پر ایک عرصے تک ہمارے اسلاف کے تربیت یافتہ اور آزاد کردہ غلاموں نے حکومت کی اور ایک الگ خاندان "خاندان غلاماں کا لقب پایا"۔

یہ ہمارے اسلاف ہی تھے کہ جن کی مساوات اور اونچ نیچ سے نفرت دیکھ کر ہندوستان کے پسے ہوئے طبقوں نے اسلام کو لبیک کہا۔

اور جب ہم نے اپنے اسلاف کی روایات کو ترک کیا تو آج ہم اپنے ہی وجود کا بوجھ نہیں‌ اٹھاپا رہے۔

لونڈیوں اور غلاموں کو جتنے حقوق ہمارے اسلاف نے دیے دنیا میں‌ موجود‌ کوئی قوم اس کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔ مگر پتہ نہیں کیوں آپ آج کے نوجوان کو ہمیشہ اس 1300 سالہ دور کی تاریک تصویر ہی دکھانے کی کوشش کرتی ہیں۔ اور نہیں‌ سوچتیں کہ تاریخ‌ میں‌ ہیر پھیر کر کے آپ کتنے بڑے جرم کی مرتکب ہو رہی ہیں۔ آپ نوجوانوں کو مایوسی کے گڑھے اور شرمندگی کی دلدل میں‌ ڈبونے کی کوشش کیوں کرتی ہیں۔ اگر اس موضوع پر بات کرنی ہے تو الک سے ایک تھریڈ تاریخ اسلام کا کھول لیں اور آپ اس میں‌‌‌‌ جی بھر کے اندھیرے پھیلایے اور ہم ان شا اللہ روشنی پھیلائیں‌ گے۔ اس تھریڈ میں‌اس طرح کی باتوں کا جواب دینے سے موضوع سے الگ ہونا پڑتا ہے جو کہ موضوع سے انصاف کے ضمن میں‌نہیں‌ آتا۔ اور اس موضوع سے متعلق بہت کچھ ادھار ہے اس کو چکانے کی کوشش کیجئے نہ کہ غیر متعقلہ طبقات کا ذکر کر کے موضوع کو الجھانے کی کوششیں۔

ہمارے لیے ہمارے اسلاف کے اعمال بالخوص لونڈیوں اور غلاموں کے سلسلے میں ایسے نہیں‌ کہ ہم شرمندہ ہوں بلکہ ایسے ہیں کہ ہم فخر سے خوش ہوں اور ان کے راستے پر چلنے کی کوشش کرتے ہوئے آج کے دور میں‌ جو ہم نے اونچ نیچ شروع کی ہوئی ہے اس کو ختم کریں۔

سوال مشرق، جواب مغرب

سوال ہے کہ کیا اسلاف کا 1300 سال تک یہ ایمان نہیں رہا کہ کنیز کے ساتھ وقتی تعلقات قائم کرنے کے بعد اسے آگے بیچا جا سکتا ہے؟
سوال ہے کہ کیا 1300 سال تک اسلاف یہ Practice جاری نہیں رکھے ہوئے۔

مجھ سے تو مطالبے ہوتے ہیں جواب فقط "ہاں" یا "ناں" میں ہوں۔ مگر خود مشرق کو چھوڑ کر پورے مغرب کی پرواز لگا آتے ہیں، مگر مقصد پھر بھی دور دور تک پورا نہیں ہوتا۔

کنیزوں کو اتنے حقوق دینے کے باوجود کیا پچھلے 1300 سالوں تک اسلاف کی یہ پریکٹس نہ تھی کہ عارضی تعلقات کے بعد انہیں آگے بیچ دیا جاتا تھا؟

تو اگر آپ اب بھی الزام لگائیں کہ "محصنین" اور دیگر اسلامی حدود و قیود میں رہتے ہوئے عقد المتعہ خنزیر کا گوشت ہے تو پھر ان کنیز عورتوں کے ساتھ عارضی تعلق تو پھر ہر صورت خنزیر کے گوشت سے بدرجہا بدتر ٹہرا۔

اب آپ سر پٹخیے یا سر ہی قلم کروا دیجئے، مگر اپنی اس 1300 سالہ تاریخ کو کیسے بغل میں دبا کر چھپا سکتے ہیں۔ کوئی اور چارہ نہیں ہے تو کھل کر حدیث کا انکار کرتے ہوئے منکریں قول رسول کی صفوں میں جا کر پناہ حاصل کر لیجئے، مگر برائے مہربانی مشرق کا سوال پوچھا جائے تو مغرب کی پرواز نہ شروع کر دیں۔ ہمارا وقت قیمتی ہے اور آپکی ان پروازوں کے پیچھے بھاگ کر ہمیں اپنا قیمتی وقت برباد نہیں کرنا۔

اور جو میں نے اوپر لکھا تھا:
3۔ اور اگر آپ پھر بھی اپنے الزام پر اڑے رہیں کہ عقد المتعہ خنزیر کا گوشت کھانا ہے تو پھر آپکو سمجھنا چاہیے کہ اسلاف کا 1300 سال تک باندیوں سے عارضی تعلقات قائم کرنا خنزیر کھانے سے بھی بدتر فعل قرار پائے گا۔

آپ کو اس میں توہین کا کون سا پہلو نظر آ رہا ہے؟
جب آپ ہمیں عقد المتعہ کرنے پر 1400 سال سے زناکاری اور خنزیر کا گوشت کھانے کا طعنہ دیتے آ رہے ہیں، تو جواب میں ہم نے اگر ادب سے آئینہ پیش کر دیا ہے تو اس پر پھر بھڑکنا کیسا؟

****************

اور شیعہ کتاب کی اس خیبر والی روایت پر آپ نے اپنا دارومدار رکھا ہوا ہے، اور اس میں بھی بار بار پلٹ کر وہی کترو بیونت کر رہے ہیں۔ ذرا بتلائیں کہ:

1۔ یہ روایت تو صحیح روایت ہی نہیں اور اسکے دو راوی غیر شیعہ ہیں۔
مگر آپکی اپنی حالت یہ ہے کہ اپنی صحیح روایات تک سے منہ پھیرنے میں منٹ نہیں لگاتے۔
تو کیا وجہ ہے صرف تقیہ والا بیان نظر آیا مگر ان دو غیر شیعہ راویوں والا بیان نظر نہیں آیا؟

اور ابھی تک تو تمام بات آپکی کتابوں سے ہو رہی تھی، مگر اگر ہماری کتابوں پر آئیں گے تو ادھر آپ کو تواتر کے ساتھ روایات ملیں گی کہ عقد المتعہ حلال اللہ ہے اور حضرت عمر نے ایک واقعے کے بعد اپنی ذاتی رائے سے اسکی ممانعت کی تھی۔

مگر مسئلہ یہ ہے کہ اگر ہماری کتاب میں ایک غیر صحیح روایت بھی نقل آئی تو اس بنیاد پر آپ ہمیں تختہ دار پر چڑھا دیں گے، مگر اپنی کتابوں میں موجود بے تحاشہ روایات (بمع صحیح روایات) جب آپکے مؤقف کے خلاف بیان دیں تو اپنے آپ پر تو آپ ہزار خون معاف رکھتے ہیں۔
اور جو روایات آپ عقد المتعہ کو حرام کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں، اُن کی حقیقت بھی جلد یہاں پیش کر دی جائے گی کہ اللہ نے ایسی تدبیر کی ہوئی ہے کہ آپکی ہر چال ناکام ہے، اور ان ممانعت والی روایات میں تضادات ہی تضادات ہیں اور سب ایک دوسرے کو مردود ٹہرا رہی ہیں۔


2۔ اور ڈاکٹر موسوی نے تو کھلم کھلا وہی کردار ادا کیا ہے جو سلمان رشدی اور تسلیمہ نسرین نے ادا کیا ہے۔ ان کی تحریروں میں سوائے ضعیف روایات کو بنیاد بنا کر جھوٹے الزامات کے سوا کچھ نہیں اور اس لیے ہم ان سے بیزاری اختیار کرتے ہیں اور جو جھوٹ یہ بولتے ہیں اس پر اللہ سے کذاب کے لیے لعنت کی دعا کرتے ہیں۔

مگر اب آپ سے سوال ہے کہ جن اہلسنت علماء نے اوپر خیبر والے واقعے پر تاریخ اور دیگر روایات کی روشنی میں تنقید کی ہے، کیا یہ بھی جھوٹے ہیں؟ کیا آپ ان سے بیزاری اختیار کرتے ہوئے ان پر جھوٹ بولنے کی وجہ سے اللہ کی لعنت بھیجتے ہیں؟ کیا آپ انہیں اہلسنت فقہ کا یوں ہی دشمن مانتے ہیں جیسا کہ ہم ڈاکٹر موسوی کو اہل تشیع کا کھلا دشمن مانتے ہیں؟ کیا آپ ان اہلسنت علماء کو یونہی سلمان رشدی و تسلیمہ نسرین کی صفوں میں دیکھتے ہیں جیسے ہم ڈاکٹر موسوی کو دیکھتے ہیں؟؟؟

اگر نہیں، تو پھر ہم کو ڈاکٹر موسی کے نام تختہ دار پر کیوں چڑھاتے ہیں اور خود پر اپنے اُن تمام اہلسنت علماء کے حجتیں کیوں معاف رکھتے ہیں؟؟؟

اور اب میں آپکے ان دو رخے رویوں پر احتجاج کروں گی تو مجھ پر الٹا الزامات لگنے شروع ہو جائیں گے۔

*********************

کنیز عورتوں کے مسئلے پر ایک مرتبہ پھر پلٹتے ہوئے۔ بے شک اسلام نے انہیں بہت حقوق دیے ہیں، مگر ہمیں اللہ کے نام انصاف کا حکم دیا گیا ہے، اور اسکا مطلب ہے کہ ہر چیز کو انصاف کے ساتھ پیش کر دیں چاہے وہ ہمارے خلاف ہی کیوں نہ جاتی ہوں۔

چنانچہ کنیز عورتوں کی جس طرح منڈیاں لگا کرتی تھیں، اور جس طرح وہ فروخت ہوتی تھیں، اور جو انکے متعلق شریعت کے مسائل فقہ کی کتب میں ملتے ہیں، کہ جن پر 1300 سال کی اسلاف کی تاریخ ہے ۔۔۔۔ یہ بہت سی روایات ہیں جنہیں آپ مغرب کی پرواز شروع کرنے سے پہلے ایک مرتبہ دیکھ لیا کریں۔
 
ش

شوکت کریم

مہمان
اوپر میں نےایک اقتباس دیا تھا ڈاکٹر موسیٰ‌الموسوی کی کتاب اصلاح شیعہ سے۔ مناسب ہے کہ ان کا تھوڑا سا تعارف بھی کروا دیا جائے اور کتاب کا لنک بھی دے دیا جائے تا کہ حجت تمام ہو۔

ڈاکٹر موسٰی الموسوی، الامام الاکبر سید ابوالحسن الموسوی الاصفہانی کے پوتےہیں۔ سند پیدائش 1930 ہے اور مقام پیدائش نجف اشرف ہے۔ اجتہاد کے موضوع پر فقہ اسلامی میں‌ایم اے کی ڈگری حاصل کی۔
1955 میں‌طہران یونیورسٹی سے اسلامی قانون میں‌ڈاکٹریٹ اور 1959 میں‌پیرس یونیورسٹی سے فلسفہ میں‌پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔
منسلکہ کتاب اصلاح‌شیعہ کے صفحہ 190 سے متعہ کا بیان شروع ہوتا ہے۔
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top