نکاح المتعہ کا تعارف (حصہ دوم)

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
ش

شوکت کریم

مہمان
من لا یحضر الفقیہ جلد ۳۔4588۔
سعدان نے ابی بصیر سے اور انہوں نے حضرت امام جعفر صادق سے روایت کی ہے آپ نے فرمایا کہ زن یہودیہ سے نکاح نہیں ہوتا اور نہ زن نصرانیہ سے نکاح ہو گا۔ متعہ کا نکاح ہو یا غیر متعہ کا نکاح۔

متعہ کی حلت ذرا اپنی ہی کتابوں کے آئینے میں‌ دیکھیں۔

من لا یحضر الفقیہ جلد ۳۔4584-
حضرت امام رضا نے فرمایا کہ متعہ صرف اسی شخص کے لئے حلال ہے جو اس کی معرفت رکھتا ہو اور جو اس سے جاہل اور ناواقف ہو تو اس کے لئے حرام ہے۔

من لا یحضر الفقیہ جلد ۳۔4592۔
حفص بن بختری نے حضرت امام جعفر صادق سے روایت کہ ہے ایک ایسے شخص کے متعلق کہ جو ایک پاکیزہ عورت سے متعہ کرتا ہے۔ آپ نے فرمایا اس کے گھر والوں کے نزدیک معیوب ہے اس لئے مکروہ ہے۔

من لا یحضر الفقیہ جلد ۳۔4598۔
جمیل بن صالح نے روایت کہ ہے ان کا بیان ہے کہ ہمارے بعض اصحاب نے حضرت امام جعفر صادق سے عرض کیا کہ متعہ کے متعلق میرے دل میں کچھ شکوک پیدا ہوگئے ۔ اس لئے میں نے حلف اٹھا لیا کہ تا ابد کوئی نکاح متعہ نہیں کروں گا۔ تو حضرت امام جعفر صادق نے ارشاد فرمایا کہ اگر تم نے حکم خدا کی نافرمانی کی تو گنہگار ہو گے۔
 
ش

شوکت کریم

مہمان
ابن حسن:
آپ لاکھ سر پٹخ لیں اور الزامات لگا لیں، مگر ابھی تک حسب معمول ایک بھی روایت ایسی نہیں پیش کر سکے ہیں جس کی سند ہو اور ہمارے لیے حجت ہو۔ آپ کا پورا متاع حیات اس وقت مکمل طور پر ایسی روایات ہیں جن کہ کوئی وقعت نہیں اور نہ وہ ہمارے اوپر حجت ہیں اور فضائل وغیرہ کے ضمن میں بیان ہوئی ہیں۔ چنانچہ اب لاکھ اچھل لیں، کود لیں، چیخ لیں چلا لیں مگر ثابت پھر بھی ٹھینگا نہیں کر پا رہے۔ ایک درجتی والی روایت پر سب سے زیادہ شور تھا، تو اُس کی حقیقت بھی سامنے آ گئی کہ اُسکی کوئی اصل نہیں اور نہ درجتی والی روایت خود موصوف کی کتاب میں موجود ہے۔ اب چاہے لاکھ کاشانی کاشانی کرتے رہیں، مگر کاشانی ہم پر حجت نہیں ہے۔

اوپر والی پوسٹ‌میں روایات ان خوش نصیب روایات میں سے ہیں جو کہ تختہ مشق بننے سے رہ گئیں ہیں اگر ان پر بھی نظر کرم ہو جائے تو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اور دوسرا یہ ہم پر حجت نہیں ہے سے کیا مراد ؟؟؟؟ کیا آپ اپنے تمام ہم خیالوں کی نمائندہ ہیں اور کیا اس ہم کی پشت پر تمام ہم خیالوں کا وزن ہے۔ یا پھر اس سے مراد صرف آپ ہیں؟؟؟؟
 

میر انیس

لائبریرین
مہوش بہن، مجھے مجبوراً آپ کو تنبیہہ کرنا پڑ رہی ہے کہ آئندہ صحابہ کبار اور امہات المومنین (رضوان اللہ علیہم اجمعین) کے بارے میں زبان سنبھال کر بات کریں۔ شکریہ۔
نبیل آپ سے میری مودبانہ گذارش ہے کہ آپ جانبداری کا مظاہرہ نہ کریں اس سے پہلے کیا کیا نا کہا گیا جب سے میں فورم پر آیا ہوں بہت سی غیر اخلاقی باتی میں نے دیکھی ہیں پر آپکی طرف سے کبھی کوئی تنبیہ نہیں آئی جس بات کا کی وجہ سے آپ نے تنبیہ کی وہ حضرت نوح کی بیوی اور بیٹے سے متعلق ہے اور جب اللہ خود قران میں نبی کی بیوی کی مزمت کر رہا ہے تو اگر ہم اسی قران پر چلنے والے ایسا کریں تو کیا گناہ ہوگا ۔ بے شک قران ہی تو سرچشمہ ہدایت ہے۔
 

S. H. Naqvi

محفلین
انسان جب فرقہ پرستی میں پڑتا ہے تو ایسا ہی نابینا پن اس کی آنکھوں میں آ جاتا ہے کہ شیعت کی گڑھ کی بات کرتا ہے مگر خود قرآن کو دیکھنے سے قاصر ہر جاتا ہے جہاں نبی کا بیٹا اور نبی کی بیوی، اس نبی کے گھر اور گڑھ میں رہتے ہوئے گمراہ ہو کر غرق ہو جاتے ہیں۔

اللہ کہتا ہے کہ دلیل لاؤ اگر تم سچے ہو۔

مگر ہم جب اپنے ان بھائیوں سے دلیل کا مطالبہ کرتے ہیں تو یہ جواب میں دلیل کی بجائے پکڑ کر ڈاکٹر موسوی کو لے آتے ہیں۔

اللہ تعالی ان کو ہدایت دے۔ امین۔

اتنی دلیلوں کے بعد بھی وہ کہتے ہیں کہ دلیل لاؤ۔ یہ تو طے شدہ ہے کہ آپکے نزدیک دلیل وہی قابل قبول ہے جو آپکے بودے مؤقف کو تقویت دے۔ اور طرفہ تماشا ہے کہ جب ایسے دلائل آپکی کتابوں سے دوستوں نے پیش کیے تو آپ انکی انکاری بھی ہو گئیں۔

جہاں تک بات ہے صحابہ کے تلوار اٹھانے اور مولا علی علیہ السلام کے تلوار اٹھانے کی ؟؟؟

تو آپ بہت بڑی غلطی کر رہی ہیں ۔۔۔۔۔۔۔ مولا علی علیہ السلام اماموں میں شامل اور انکے سرخیل ، شان اولیا ہیں اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تلوار ہیں ،اور آپ ایک امام اور اس کے پیروکار کا مقابلہ کرنے کی غلطی کر رہی ہیں۔

کم از کم مجھے اس سے کوئی مطلب نہیں کہ کسی نے کیا کہا اور کسی نے کیا کیا اور نہ کیا ؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟ کہ میرے نزدیک امام کا قول حجت ہے نہ کہ اس کے پیروکار کا ؟؟؟
 
ش

شوکت کریم

مہمان
میں نے اوپر انکی کتاب کا مکمل لنک پیش کر دیا ہے۔ اب آپ کو پھر بھی نسائی میں نہ ملے تو یہ آپکا قصور یا پھر آپکی پسندیدہ کتاب کے مؤلف سپاہ صحابہ کے حافظ اقبال رنگونی کا بات سے فرار حاصل کرنا ہے۔

لنک مکمل نہیں تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ شاید اسی لیے مکمل نہیں تھا کہ درمیان سے عبارت اٹھائی گئی تھی اور سیاق و سباق کو ہضم کر لیا گیا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ خیر برادر باذوق نے مکمل لنک بھی دے دیا ہے اور خاطر خواہ تبصرہ بھی کر دیا ہے۔
 

میر انیس

لائبریرین
اوپر والی پوسٹ‌میں روایات ان خوش نصیب روایات میں سے ہیں جو کہ تختہ مشق بننے سے رہ گئیں ہیں اگر ان پر بھی نظر کرم ہو جائے تو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اور دوسرا یہ ہم پر حجت نہیں ہے سے کیا مراد ؟؟؟؟ کیا آپ اپنے تمام ہم خیالوں کی نمائندہ ہیں اور کیا اس ہم کی پشت پر تمام ہم خیالوں کا وزن ہے۔ یا پھر اس سے مراد صرف آپ ہیں؟؟؟؟

میرے بھائی اسکا صاف مطلب ہے کہ جسطرح سلمان رشدی اور تسنیمہ نسرین باوجود مسلمان مصنف ہونے کیلیئے ہم پر حجت نہیں ہیں کیونکہ انہوں نے جن نظریات کا اظہار کیا وہ نظریات اسلام کے بنیادی نظریات کی نفی کرتے ہیں اسی طرح جب کسی ایک شخص کے نظریات ہم سے مطابقت نہیں رکھیں گے تو وہ ہمارے لیئے حجت کیسے بن سکتے ہیں ۔
اس موضوع پر میں نے ایک بات شروع سے نوٹ کی ہے کہ قران اور صحیح احادیث کو یکسر فراموش کرکے صرف اپنی بات منوانے کی ہر طرح سے کوشش کی جارہی ہے ۔ مہوش بہن کے علاوہ کسی نے بھی کوئی مضبوط دلیل نہ تو قران سے پیش کی نہ ہی حدیث سے کبھی کوئی معاشرہ کو لے کر آگیا تو کبھی صدیق صاحب(گرافکس) کی طرح کوئی تعصب سے لبریز ہوکر بے جا طنز اور بہتان کا سہارہ لیتا نظر آیا ۔ پہلے تو متعہ سے موجود قرانی آیت کا ہی انکار کیا گیا پر جب وہ نہ کرپائے اور یہ ثابت ہوگیا کہ یہ آیت متعہ کو جائز قرار دے رہی ہے تو کہا گیا کہ فلاں فلاں جگہ متعہ کی حرمت کا اعلان کیا گیا اول تو یہ ساری روایات ایک دوسرے سے مطابقت نہیں رکھتی تھیں دوسرے ایک عام اصول ہے کہ جب کوئی بھی حکم قران میں موجود ہوتا ہے تو وہ ساری احادیث پر نص ہوتا ہے۔ پھر کئی روایات اور صحابہ کے خود متعہ کرنے سے بھی یہ صاف صاف ظاہر ہورہا ہے کہ متعہ کو منع نہیں کیا گیا۔ اور سب سے بڑی دلیل یہ کہ خود حضرت عمر کا یہ قول بھی 2 متعہ آنحضرت کے زمانے میں حلال تھے پر میں انسے منع کرتا ہوں اور اگر اب کوئی یہ کرے گا تو حد جاری کرونگا یہ قول چیخ چیخ کر کہ رہا ہے کہ اس سے حضرت عمر نے ہی روکا اور حضرت ابوبکر نے ایسی کوئی بات نہیں کی اور انکے زمانے میں متعہ ہوتا رہا اور لوگ زنا سے بچے رہے پر جیسے ہی حضرت عمر نے پابندی لگائی خود انکے صاحبزادے کو ہی شیطان نے بہکادیا اور آپ نے انکو اتنے کوڑے لگوائے کہ انکی وفات ہوگئی۔ حضرت عمر میرے لیئے بہت قابل احترام ہیں ہوسکتا ہے انہوں نے اس دور کو مدِ نظر رکھتے ہوئے یہ فیصلہ ذاتی طور پر کیا ہو یا جسطرح ہمارے بھائی اب تک متعہ کو نہیں سمجھ پارہے ہیں انکو بھی اسکے بارے میں غلط فہمی ہوگئی ہو ۔
میں نے جو 2 واقعات آپ کو سنائے تھے آپ کو کیا لگتا ہے کہ اس سے کوئی کیا حرام میں پڑا یا حرام سے محفوظ رہا۔ متعہ کا مطلب صرف جسمانی تعلق ہی نہیں ہوتا یہ تو 99 فیصد کیا ہی جب جاتا ہے جب انسان کو یقین ہو کہ وہ حرام میں مبتلہ ہوجائے گا ایک لڑکی چاہے آپ کو یقین ہی کیوں نہ ہو کہ اس سے ایک یا دو مہینہ یا سال دو سال بعد آپ کی شادی ہوجائے گی آپ کے لیئے نا محرم ہے اسکا ہاتھ پکڑنا اسکے چہرے اور بالوں کو دیکھنا یہاں تک کہ بالکل اکیلے اسکے ساتھ ایک کمرہ میں بیٹھنا بھی حرام ہے اور آپ یہاں جتنا بھی اس بات سے انکار کریں پر دل سے ضرور مانیں گے کہ یہ ہمارے گھرانوں میں 100 فیصد نہیں تو 90 فیصد تو ضرور ہوتا ہے جنکی شادی طے ہوچکی ہو گائوں دیہات کا مجھکو نہیں پتہ پر کراچی اور لاہور کا میں جانتا ہوں۔ اگر وہ لوگ منگنی کرلیں اور پھر یہ سب کام کریں تو وہ حرام ہی کریں گے اس سے اچھا یہ نہیں کہ وہ متعہ کرلیں چاہے اس میں یہ شرط ہو کہ ہم کوئی جسمانی تعلق قائم نہیں کریں گے تو بتائے یہ عمل منگنی سے زیادہ اچھا ہے یا نہیں ۔ ہم میں سے وہ سارے ماں باپ جو جانتے بوجھتے ہوئے بھی لڑکا لڑکی کو ایک دوسرے سے ملنے دیتے ہیں وہ ذمہ دار ہیں انکی ساری بد فعلیوں کے اور انکو اسکی یقیناََ سزا بھی ملے گی ۔ پھر ہم میں سے بہت سے ایسے ہیں جو اس خام خیالی میں مبتلہ ہوتے ہیں کہ ہمارا بیٹا یا بیٹی 20 سال ہونے کہ باوجود شہوت سے دور رہیں گے وہ تو فرشتہ ہیں پر میرے بھائیو وہ میڈیکلی ان فٹ نہیں ہیں اللہ نے جو فطرت دی ہے وہ اس پر ہی چلیں گے میں یہ نہیں کہتا کہ سب زنا جیسی لعنت میں پڑ جاتے ہیں پر نت نئے قسم کے گناہ ضرور کرتے ہیں اور بّض تو جیسے میں نے پہلے بھی کہا تھا کہ ایک تو زنا جیسا گناہِ کبیرہ دوسرے اس نوزائیدہ کو قتل کرنے کا س سے بھی بڑا گناہ ان سب کا ذمہ دار کون ہے متعہ کی بحث تھوڑی دیر کے لیئے چھوڑ کر بس مجھ کو اسکا حل بتادیں۔ صرف یہ بتادیں کہ ایدھی کو جھولے کیوں رکھوانے پڑے تھے۔
دراصل جوڑے بنانے کا مقصد اللہ کے نزدیک تھا ہی یہی کہ فطری ضرورت پوری کرنے کا حق تو ہر کسی کو ہے اور اللہ نے خود تولید کا اور نسل بڑھانے کا ایک طریقہ رکھا ہے تو نسل بڑھانے کیلیئے تو جنگلی جانور بھی کوشاں رہتے ہیں پر اگر انسان بھی جانوروں کی طرح ہوتا اور اپنی بیوی نہیں بناتا تو پھر بچوں کی پرورش کیسے ہوتی جب کسی کو پتا ہی نہیں ہوتا کہ کس کا باپ کون ہے تو کوئی ایسے بچے کی زمہ داری کیسے اٹھاتا اسلئے اسلام میں اللہ نے بلکہ ہر مذہب نے اپنے مطابق شادی اور نکاح کا طریقہ رکھا ۔ تاکہ باپ اپنے بچوں کا کفیل بنے اور دنیا کو پتا ہو کہ اسکا باپ کون ہے عدت بھی اسی لئے ہوتی ہے ۔ ہاں زنا میں یہ نہیں ہوتا ایک زنا کرنے والی عورت اگر کسی بچے و جنم دیتی ہے تو اسکے باپ کی زمہ داری کوئی نہیں اٹھاتا پر متعہ میں باپ کا پتا ہوتا ہے اور وہ اولاد باپ کے ساتھ ہی منسوب ہوتی ہے نہ عورت پر کوئی الزام لگاسکتا ہے نہ ہی بچے کو کوئی یہ طعنہ دیسکتا ہے کہ تمہارے باپ کا نہیں پتہ۔
بات بہت لمبی ہوگئی وہ بھی صرف اسوجہ سے کہ میں چاہتا ہوں کہ اب اس موضوع کو ختم کیا جائے بحث برائے بحث سے کچھ حاصل نہیں جسکو میری یا مہوش کی باتیں سمجھ نہیں آرہیں تو وہ کبھی نہیں آئیں گی یقین کریں اگر ان لوگوں کے پاس کوئی مضبوط دلیل ہوتی تو میں خود مان جاتا اور مہوش کے خلاف ہوکر آپ لوگوں کے ساتھ مل جاتا پر کوئی تو آیت لائیں جس نے متعہ والی آیت کو منسوخ کیا ہو کوئی تو مضبوط دلیل احادیث سے لائیں اب نہیں لا سکتے تو پھر اسطرح تو ہر روز کوئی نا کوئی آتا جائے گا اور نئے سرے سے بحث شروع کرتا جائے گا مانے گا کوئی کسی کی نہیں ۔ آپ خود انصاف کریں کہ آپ میں سے کتنے آتے گئے اور پھر چپ ہو ہو کر بیٹھتے گئے میں تو ابنِ حسن بھائی کی دلیلوں کا انتظار کر رہا تھا کیوں کہ انہوں نے اپنی ایک پوسٹ میں کہا تھا کہ میں مہوش کے دلائل مکمل ہونے کا انتظار کر رہا ہوں پھر میں یہ کروں گا اور وہ کروں گا پر انکے دلائل بھی کوئی جاندار نہیں نکلے۔دوست آئے بازوق آئے نقوی صاحب آئے ابنِ حسن شوکت کریم کنعان اور صدیق صاحب کی تو خیر بات ہی کیا تو اب ہم اپنا یہاں وقت کیوں برباد کر رہے ہیں کیوں نہ کسی اور طرح خدمت کریں۔
 

نبیل

تکنیکی معاون
نبیل آپ سے میری مودبانہ گذارش ہے کہ آپ جانبداری کا مظاہرہ نہ کریں اس سے پہلے کیا کیا نا کہا گیا جب سے میں فورم پر آیا ہوں بہت سی غیر اخلاقی باتی میں نے دیکھی ہیں پر آپکی طرف سے کبھی کوئی تنبیہ نہیں آئی جس بات کا کی وجہ سے آپ نے تنبیہ کی وہ حضرت نوح کی بیوی اور بیٹے سے متعلق ہے اور جب اللہ خود قران میں نبی کی بیوی کی مزمت کر رہا ہے تو اگر ہم اسی قران پر چلنے والے ایسا کریں تو کیا گناہ ہوگا ۔ بے شک قران ہی تو سرچشمہ ہدایت ہے۔

خود بھی شرمسار ہو مجھ کو بھی شرمسار کر ۔۔۔
 

گرائیں

محفلین
پر جیسے ہی حضرت عمر نے پابندی لگائی خود انکے صاحبزادے کو ہی شیطان نے بہکادیا اور آپ نے انکو اتنے کوڑے لگوائے کہ انکی وفات ہوگئی۔ حضرت عمر میرے لیئے بہت قابل احترام ہیں ہوسکتا ہے انہوں نے اس دور کو مدِ نظر رکھتے ہوئے یہ فیصلہ ذاتی طور پر کیا ہو یا جسطرح ہمارے بھائی اب تک متعہ کو نہیں سمجھ پارہے ہیں انکو بھی اسکے بارے میں غلط فہمی ہوگئی ہو ۔

دراصل جوڑے بنانے کا مقصد اللہ کے نزدیک تھا ہی یہی کہ فطری ضرورت پوری کرنے کا حق تو ہر کسی کو ہے اور اللہ نے خود تولید کا اور نسل بڑھانے کا ایک طریقہ رکھا ہے تو نسل بڑھانے کیلیئے تو جنگلی جانور بھی کوشاں رہتے ہیں پر اگر انسان بھی جانوروں کی طرح ہوتا اور اپنی بیوی نہیں بناتا تو پھر بچوں کی پرورش کیسے ہوتی جب کسی کو پتا ہی نہیں ہوتا کہ کس کا باپ کون ہے تو کوئی ایسے بچے کی زمہ داری کیسے اٹھاتا اسلئے اسلام میں اللہ نے بلکہ ہر مذہب نے اپنے مطابق شادی اور نکاح کا طریقہ رکھا ۔ تاکہ باپ اپنے بچوں کا کفیل بنے اور دنیا کو پتا ہو کہ اسکا باپ کون ہے عدت بھی اسی لئے ہوتی ہے ۔ ہاں زنا میں یہ نہیں ہوتا ایک زنا کرنے والی عورت اگر کسی بچے و جنم دیتی ہے تو اسکے باپ کی زمہ داری کوئی نہیں اٹھاتا پر متعہ میں باپ کا پتا ہوتا ہے اور وہ اولاد باپ کے ساتھ ہی منسوب ہوتی ہے نہ عورت پر کوئی الزام لگاسکتا ہے نہ ہی بچے کو کوئی یہ طعنہ دیسکتا ہے کہ تمہارے باپ کا نہیں پتہ۔

گویا متعہ پر پابندی لگانے کی پاداش میں اللہ نے نعوذباللہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو دنیا ہی میں سزا دے ڈالی اور وہ بھی ایسی سزا کہ انھں نے خؤد اپنے بیٹے کو کوڑے لگوائے۔

سبحان اللہ۔ میر انیس صاحب، بہت شکریہ یہ معلومات مجھ تک پہنچانے کا۔

دوسری بات : آپ کی اپنی ریفرنس کتب کے حوالے دئے جا چکے ہیں‌جن میں اس عورت کو مستا جرہ، یعنی اجرت پر حآصل کی گئی عورت کہا گیا ہے جس سے متعہ کیا گیا ہو۔ تو کیا اجرت پر حاصل کی جانے والی شے سے ہمیشہ کا رشتہ کوئی بنانا پسند کرے گا؟

جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے۔
 
ش

شوکت کریم

مہمان
دراصل جوڑے بنانے کا مقصد اللہ کے نزدیک تھا ہی یہی کہ فطری ضرورت پوری کرنے کا حق تو ہر کسی کو ہے اور اللہ نے خود تولید کا اور نسل بڑھانے کا ایک طریقہ رکھا ہے تو نسل بڑھانے کیلیئے تو جنگلی جانور بھی کوشاں رہتے ہیں پر اگر انسان بھی جانوروں کی طرح ہوتا اور اپنی بیوی نہیں بناتا تو پھر بچوں کی پرورش کیسے ہوتی جب کسی کو پتا ہی نہیں ہوتا کہ کس کا باپ کون ہے تو کوئی ایسے بچے کی زمہ داری کیسے اٹھاتا اسلئے اسلام میں اللہ نے بلکہ ہر مذہب نے اپنے مطابق شادی اور نکاح کا طریقہ رکھا ۔ تاکہ باپ اپنے بچوں کا کفیل بنے اور دنیا کو پتا ہو کہ اسکا باپ کون ہے عدت بھی اسی لئے ہوتی ہے ۔

برادر میر انیس میں فکری و مذہبی اختلاف رکھنے کے باوجود آپکی ااس پوسٹ کے زبان و بیان سے متاثر ہوا ورنہ مہوش صاحبہ تو اب سخت مایوس کر رہی تھیں۔ اختلاف اپنی جگہ ۔ زبان و بیان انسان کی فکری و علمی گہرائی کا پتہ دیتے ہیں۔

ہاں زنا میں یہ نہیں ہوتا ایک زنا کرنے والی عورت اگر کسی بچے و جنم دیتی ہے تو اسکے باپ کی زمہ داری کوئی نہیں اٹھاتا پر متعہ میں باپ کا پتا ہوتا ہے اور وہ اولاد باپ کے ساتھ ہی منسوب ہوتی ہے نہ عورت پر کوئی الزام لگاسکتا ہے نہ ہی بچے کو کوئی یہ طعنہ دیسکتا ہے کہ تمہارے باپ کا نہیں پتہ۔

بالکل آپ نے صحیح فرق کیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مگر مسئلہ تو یہی ہے کہ یہ کہنے کی بات ہے روایات اور عمل ثابت کرتا ہے کہ لیبل خوشنما ہے مگر مشروب کڑوا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اور میرا نہیں خیال کہ کوئی نفیس طبع شخص یا خاتون اس کو پسند کرے۔ ہمارے معاشرے میں ایک جائز مطلقہ عورت یا بیوہ عورت کی حیثیت کو آسانی سے تسلیم نہیں کیا جاتا ، چہ جائیکہ ممتوعہ عورت !!!

کم از کم میں نے آج تک نہیں‌ سنا کہ فلاں زن ممتوعہ ہے اور اس کی اولاد کا کوئی دعوے دار ہے ؟؟؟

بہت شروع کی پوسٹ میں اسی حوالے سے میں نے درخواست کی تھی کہ چند تو ایسے لوگوں کے حوالے دیئے جائیں کہ جن کو معاشرے نے قبول کیا ہو اور عزت بخشی ہو۔۔

نہیں ہیں نا ایسے اصحاب ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تو کیا ثابت ہوا ؟؟؟؟؟
 
ش

شوکت کریم

مہمان
پر جیسے ہی حضرت عمر نے پابندی لگائی خود انکے صاحبزادے کو ہی شیطان نے بہکادیا اور آپ نے انکو اتنے کوڑے لگوائے کہ انکی وفات ہوگئی۔

سبحان اللہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اسی لیے تو کہتے اشد فی امر اللہ عمر رضی اللہ عنہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جو شخص اللہ کے احکام نافذ کرنے میں اس حد تک جا سکتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس سے یہ توقع رکھنا کہ وہ اللہ کے حلال کئے ہوئے کو حرام کرے گا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کیسے ممکن ہے ؟؟؟؟
 

S. H. Naqvi

محفلین
=میر انیس;622924]میرے بھائی اسکا صاف مطلب ہے کہ جسطرح سلمان رشدی اور تسنیمہ نسرین باوجود مسلمان مصنف ہونے کیلیئے ہم پر حجت نہیں ہیں کیونکہ انہوں نے جن نظریات کا اظہار کیا وہ نظریات اسلام کے بنیادی نظریات کی نفی کرتے ہیں اسی طرح جب کسی ایک شخص کے نظریات ہم سے مطابقت نہیں رکھیں گے تو وہ ہمارے لیئے حجت کیسے بن سکتے ہیں ۔
بڑی دیر کی مہرباں آتے آتے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!
میر صاحب ذرا دھیرج ، حقایٔق کو سمجھے اور جانے بغیر نتایٔج پر چھلانگ لگانے میں اتنی جلدی نا کریں اور اگر نتایٔج پر چھلانگ لگانا ہی حقایق کو سامنے رکھتے ہوئے لگایٔں میرے فاضل دوست ورنہ کہیں اوندھے منہ نہ گر جایٔں سب کچھ جانتے بوجھتے ہوئے بھی اپنی مرضی کی روایات اور حکایات کا حوالہ دیتے ہوئے، اپنی مرضی کے نتایٔج بیان کرنا اور ان کو خلوص اور سادہ بیانی کا لبادہ اڑا دینا واقعی آپ کا طرۂ امتیاز لگ رہا ہے مگر ضروری نہیں کہ ہر کویٔ اتنا بھولا ہو کہ آپ کی تقریر کی ضنحامت دیکھ کر آپ کو پاس کرتا جائے۔ اب شروع کرتے ہیں آپ کی پہلی کوٹیشن سے۔۔۔۔۔۔۔۔!
محترم سلمان رشدی اور تسلیمہ نسرین کو تو مسلمانوں کا ہر طبقہ مرتد اور کافر سمجھتا ہے اور کویٔ بھی ان کو اپنا رہبر اور فقیہ نہیں مانتا، مسلمان سمجھنا تو دور کی بات۔۔۔۔۔۔۔۔۔، اور ہم نے تو آپ کے علماء، فقہاء، زعماء اور رہبروں کی کتب کے حوالے دیئے ہیں۔ کیا یہ علما آپ کے نزدیک ایسے ہی ہیں‌جیسے ہمارے لیے تسلیمہ نسرین اور رشدی ہیں؟؟ اگر یہ بھی آپ پر حجت نہیں تو پھر بتایٔں آپ کس کی تقلید میں ہیں اور کون‌ آپ کا " امام" ہے کہ جس کے قول و عمل کا حوالہ آپ کے لیے حجت ہو؟؟؟ اس کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ مہوش صاحبہ کا خود ہی اپنا کویٔ الگ فقہ ہے اور وہ خود ہی اس کی امام ہیں اور اب تو یہ لگتا ہے کہ آپ انہی کی تقلید میں ہیں؟؟؟؟

اس موضوع پر میں نے ایک بات شروع سے نوٹ کی ہے کہ قران اور صحیح احادیث کو یکسر فراموش کرکے صرف اپنی بات منوانے کی ہر طرح سے کوشش کی جارہی ہے ۔
اس کے لیے تو میرا آپ کو مشورہ ہے کہ براہ مہربانی آپ پرانے صفحات پر جایٔں اور شروع سے تفصیلاً اس بحث کا مطالعہ کر کے آیٔں تا کہ آپ کو پتا چل جائے کہ کب، کہاں اور کس قرر حوالہ جات دیئے جا چکے ہیں۔
مہوش بہن کے علاوہ کسی نے بھی کوئی مضبوط دلیل نہ تو قران سے پیش کی نہ ہی حدیث سے کبھی کوئی معاشرہ کو لے کر آگیا تو کبھی صدیق صاحب(گرافکس) کی طرح کوئی تعصب سے لبریز ہوکر بے جا طنز اور بہتان کا سہارہ لیتا نظر آیا ۔ پہلے تو متعہ سے موجود قرانی آیت کا ہی انکار کیا گیا پر جب وہ نہ کرپائے اور یہ ثابت ہوگیا کہ یہ آیت متعہ کو جائز قرار دے رہی ہے تو کہا گیا کہ فلاں فلاں جگہ متعہ کی حرمت کا اعلان کیا گیا اول تو یہ ساری روایات ایک دوسرے سے مطابقت نہیں رکھتی تھیں دوسرے ایک عام اصول ہے کہ جب کوئی بھی حکم قران میں موجود ہوتا ہے تو وہ ساری احادیث پر نص ہوتا ہے۔ پھر کئی روایات اور صحابہ کے خود متعہ کرنے سے بھی یہ صاف صاف ظاہر ہورہا ہے کہ متعہ کو منع نہیں کیا گیا۔
جی ہآں بجا فرمایا آپ نے کہ مہوش کے علاوہ باقی سب تو گزشتہ ایک ماہ سے نان چھولے بیچنے کی صدا لگا رہے ہیں نا۔۔۔۔۔۔۔۔! ذرا ظاہری آنکھوں کے ساتھ دل کی آنکھیں کھول کر بھی دیکھیں‌تو آپ کو آسانی سے پتا چل جائے گا کہ جس آیت کو آپ قرآنی نص اور متعہ کی حلت بتا رہے ہو اسی کی مکمل تشریح کی گیٔ ہے اور متعہ کی حرمت ثابت کی گیٔ ہے یہ الگ بات ہے کہ آپ کے معیا ر پر پوری نہیں اتر پا رہی مگر عقل و بصیرت والوں کے لیے روشن ہدایت ہے۔
ا
ور سب سے بڑی دلیل یہ کہ خود حضرت عمر کا یہ قول بھی 2 متعہ آنحضرت کے زمانے میں حلال تھے پر میں انسے منع کرتا ہوں اور اگر اب کوئی یہ کرے گا تو حد جاری کرونگا یہ قول چیخ چیخ کر کہ رہا ہے کہ اس سے حضرت عمر نے ہی روکا اور حضرت ابوبکر نے ایسی کوئی بات نہیں کی اور انکے زمانے میں متعہ ہوتا رہا اور لوگ زنا سے بچے رہے پر جیسے ہی حضرت عمر نے پابندی لگائی خود انکے صاحبزادے کو ہی شیطان نے بہکادیا اور آپ نے انکو اتنے کوڑے لگوائے کہ انکی وفات ہوگئی۔ حضرت عمر میرے لیئے بہت قابل احترام ہیں ہوسکتا ہے انہوں نے اس دور کو مدِ نظر رکھتے ہوئے یہ فیصلہ ذاتی طور پر کیا ہو یا جسطرح ہمارے بھائی اب تک متعہ کو نہیں سمجھ پارہے ہیں انکو بھی اسکے بارے میں غلط فہمی ہوگئی ہو ۔
واہ کیا بھولا پن ہے آپ کا کہ صفحے کے صفحے کالے ہو گئے اور آپ کس قدر سادگی کے ساتھ نئے سرے سے پوچھنے لگے، جناب من اس بات کو ثابت کیا جاچکا ہے کہ حضرت عمر سلام اللہ علیہ نے اس کے شارع نہ تھے انہوں‌نے فقط اس حکم نبوی پر سختی سے عمل کروایا تھا اور یہ بھی ثابت کیا جا چکا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے کب اور کن حا لات میں اس کی رخصت دی اور کب اسے منع کیا اور جناب صدیق اکبر سلام اللہ علیہ نے کیوں اس پر سختی سے عمل نہ کروایا۔۔۔۔۔۔۔!اور آپ کی دی ہویٔ دلیل ہی بڑا ثبوت ہے کہ اگر حلال ہوتا یا کویٔ رخصت ہوتی تو جناب عمر، اللہ کی ہزار ہزار رحمتیں‌اور برکتیں‌ نازل ہوں‌آپ پر، اپنے لخت جگر کو بے دردی سے نہ کوڑے مرواتے۔۔۔۔۔۔۔! اب اگر عقل شریف ہو کسی کے پاس تو صرف یہ دلیل ہی اس کے لیے بہت بڑی نشانی ہے۔۔۔۔۔۔!
متعہ کا مطلب صرف جسمانی تعلق ہی نہیں ہوتا یہ تو 99 فیصد کیا ہی جب جاتا ہے جب انسان کو یقین ہو کہ وہ حرام میں مبتلہ ہوجائے گا
ماشاءاللہ کیا کہنے ہیں جناب کے سر دھننے کو دل کرتا ہے، محترم یا تو آپ واقعی سادے ہیں یا پھر "ص" سے سادھے ہیں۔کیا ہم نے آپ کی کتب سے ہی ضروریات سے ہٹ کر متعہ کو دین و ایمان اور ذریعہ نجات ثابت نہیں کیا؟؟؟؟ مزید میں کچھ نہیں‌کہوں گا۔۔۔۔۔۔۔!
ایک لڑکی چاہے آپ کو یقین ہی کیوں نہ ہو کہ اس سے ایک یا دو مہینہ یا سال دو سال بعد آپ کی شادی ہوجائے گی آپ کے لیئے نا محرم ہے اسکا ہاتھ پکڑنا اسکے چہرے اور بالوں کو دیکھنا یہاں تک کہ بالکل اکیلے اسکے ساتھ ایک کمرہ میں بیٹھنا بھی حرام ہے اور آپ یہاں جتنا بھی اس بات سے انکار کریں پر دل سے ضرور مانیں گے کہ یہ ہمارے گھرانوں میں 100 فیصد نہیں تو 90 فیصد تو ضرور ہوتا ہے جنکی شادی طے ہوچکی ہو گائوں دیہات کا مجھکو نہیں پتہ پر کراچی اور لاہور کا میں جانتا ہوں۔ اگر وہ لوگ منگنی کرلیں اور پھر یہ سب کام کریں تو وہ حرام ہی کریں گے اس سے اچھا یہ نہیں کہ وہ متعہ کرلیں چاہے اس میں یہ شرط ہو کہ ہم کوئی جسمانی تعلق قائم نہیں کریں گے تو بتائے یہ عمل منگنی سے زیادہ اچھا ہے یا نہیں ۔ ہم میں سے وہ سارے ماں باپ جو جانتے بوجھتے ہوئے بھی لڑکا لڑکی کو ایک دوسرے سے ملنے دیتے ہیں وہ ذمہ دار ہیں انکی ساری بد فعلیوں کے اور انکو اسکی یقیناََ سزا بھی ملے گی ۔ پھر ہم میں سے بہت سے ایسے ہیں جو اس خام خیالی میں مبتلہ ہوتے ہیں کہ ہمارا بیٹا یا بیٹی 20 سال ہونے کہ باوجود شہوت سے دور رہیں گے وہ تو فرشتہ ہیں پر میرے بھائیو وہ میڈیکلی ان فٹ نہیں ہیں اللہ نے جو فطرت دی ہے وہ اس پر ہی چلیں گے
آپ کی اس بات کی میں جتنی داد دوں کم ہے کیا کہنے ہیں آپ کے تو یعنی ہیرویٔن بیچنا قانوناً جایٔز قرار دینا چاہیٔے کیوں کہ اگر اس نے ہیرویٔن بیچنا بند کردی تو وہ بے روزگار ہو جائے گا اور اس کے بچے بھوکے مر جایٔں گے، واہ کیا استدلال ہے آپ کا۔۔۔۔۔۔! محترم نہایت ادب سے گزارش ہے کہ اس کا یہ حل نہیں ، اصل حل تو یہ ہے کہ اگر معاشرے میں منگنی کرنا ایک برایٔ کا باعث بن رہا ہے تو پھر اس رسم کو ختم کرنا چاہیے نا اور اگر کسی جگہ بہت نا گزیر ہو تو پھر مان باپ کا فرض ہے کے انتہایٔ نگرانی اورسختی کریں نہ کہ متعہ کر کے ان کے دل میں ملاقات کے وقت جو تھوڑا بہت ڈر ہے وہ بھی نکال دیا جائے اور پھر بقول آپ کے شیطان تو ہر جگہ ہوتا ہے اور وہ جوڑے میڈیکلی ان فٹ بھی نہیں‌ہوتے تو اگر وہ جذبات میں آ گئے تو جوانی کی آگ کس چیز سے ڈرے گی، کیوں‌کے شریعتی اور اخلاقی طور پر تو وہ بے فکر ہوں‌گے اور ایسا ہوگیا تو پھر دوبارہ شادی چہ معنی دارد؟؟؟؟
دراصل جوڑے بنانے کا مقصد اللہ کے نزدیک تھا ہی یہی کہ فطری ضرورت پوری کرنے کا حق تو ہر کسی کو ہے اور اللہ نے خود تولید کا اور نسل بڑھانے کا ایک طریقہ رکھا ہے تو نسل بڑھانے کیلیئے تو جنگلی جانور بھی کوشاں رہتے ہیں پر اگر انسان بھی جانوروں کی طرح ہوتا اور اپنی بیوی نہیں بناتا تو پھر بچوں کی پرورش کیسے ہوتی جب کسی کو پتا ہی نہیں ہوتا کہ کس کا باپ کون ہے تو کوئی ایسے بچے کی زمہ داری کیسے اٹھاتا اسلئے اسلام میں اللہ نے بلکہ ہر مذہب نے اپنے مطابق شادی اور نکاح کا طریقہ رکھا ۔ تاکہ باپ اپنے بچوں کا کفیل بنے اور دنیا کو پتا ہو کہ اسکا باپ کون ہے عدت بھی اسی لئے ہوتی ہے ۔
اپنی ساری پوسٹ میں آپ نے یہ ایک کام کی بات کی ہے مگر افسوس یہ آپ کے ہی خلاف جاتی ہے، آپ نے با لکل صیح فرمایا میرے محترم دوست، اب ایک آدمی ایک عورت کے پاس جاتا ہے اور چند روبے دے کر اپنا نطفہ ڈال کے چلا جاتا ہے اور جاتے جاتے زن متعہ کو عدت بھی معاف کر جاتا ہے،(یہ آپ کے فقہ سے ثابت شدہ ہی ( تو گھنٹے بعد ایک اور ذات پلید آتا ہے اور اپنا نطفہ ڈا ل کر چلا جاتا ہے اس سے آگے کے حالات اور صورت حال میں‌ایک سوالیہ نشان کے ساتھ چھو ڑتا ہوں‌ اور آپ کو دعوت فکر دیتا ہوں کہ خود غور کریں اور نتایٔج کو اپنے اوپر والے اقتباس کے ساتھ ملایٔں؟؟؟؟؟؟؟

بات بہت لمبی ہوگئی وہ بھی صرف اسوجہ سے کہ میں چاہتا ہوں کہ اب اس موضوع کو ختم کیا جائے بحث برائے بحث سے کچھ حاصل نہیں جسکو میری یا مہوش کی باتیں سمجھ نہیں آرہیں تو وہ کبھی نہیں آئیں گی یقین کریں اگر ان لوگوں کے پاس کوئی مضبوط دلیل ہوتی تو میں خود مان جاتا اور مہوش کے خلاف ہوکر آپ لوگوں کے ساتھ مل جاتا پر کوئی تو آیت لائیں جس نے متعہ والی آیت کو منسوخ کیا ہو کوئی تو مضبوط دلیل احادیث سے لائیں اب نہیں لا سکتے
اس کے لیے تو میں‌ وہ ایک ہی مشہور عالم فقرہ استعمال کروں گا جو اکثر ہوٹلوں اور دکانوں پر آویزاں ہوتا ہے کہ، " یہاں سیاست اور فضول۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سے پرہیز کریں۔۔۔۔۔۔!
ت
و پھر اسطرح تو ہر روز کوئی نا کوئی آتا جائے گا اور نئے سرے سے بحث شروع کرتا جائے گا مانے گا کوئی کسی کی نہیں ۔
جی بالکل آپ کی طرع، ساری رات ہیر رانجھا سناتے رہے اور صبح اٹھ کر پوچھتے ہیں کہ کیا ہیر رانجھا بہن بھایٔ تھے۔۔۔۔۔۔!

آپ خود انصاف کریں کہ آپ میں سے کتنے آتے گئے اور پھر چپ ہو ہو کر بیٹھتے گئے
اکثر پوسٹیں کھایٔ جاتی رہی ہوں تو ان کا جواب آنے تک کی خاموشی کو چپ ہو کر بیٹھنا نہیں کہیتے میرے پیارے دوست، ہماری تو کیٔ پوسٹیں‌ محترمہ پر ادھار ہیں کہ جن کے جوابات کے لیے انتظار ہے مگر پھر بھی ان کی ہر نٔی پوسٹ کو جواب دیا جا رہا ہے۔
 

S. H. Naqvi

محفلین
از: مہوش علی:
اور ہاں آپ نے جو کاشانی کی متعہ والی اولاد کی بات کی ہے اسکا امیج اپلوڈ کر دیجئے۔ اسکے بعد مجھے بھی آپکی کتابوں میں زنا سے پیدا ہونے والے بچے کی فضیلت پر کچھ لکھنا ہے۔
لیجیئے بحث کو ایک نٔے رخ پرمعروضات میں الجھانے کا اعلان ملاحظہ فرمایٔں، محترمہ مہوش صاحبہ آپ پہلے سوالوں‌کے جواب مرحمت فرما دیں تو آپ کی یہی عین نوازش ہو گی:)
 

S. H. Naqvi

محفلین
از مہوش علی:
اور جو صدیوں کی سرشت ہے کہ ہم پر تقیہ کے نام پر جھوٹ کا الزام لگایا جائے، وہ زہر آپکی رگوں میں بھی مکمل دوڑ رہا ہے۔ میں نے کہاں تقیہ کیا ہے؟
جی واقعی اس کی تصدیق تو میں بھی کروں گا کہ آپ پر تقیہ کا الزام بالکل غلط ہے، صریوں سے آپ کے بڑے جس سوال کے جواب کو تقیہ کے پردے کے پیچے چھپائے پھر رہے تھے آپ نے کم از کم اس سوال کے معاملے میں تو کویٔ تقیہ نہیں‌کیا اور واضح اور دو ٹوک انداز میں فتویٰ دے دیا کہ اگر حضرت علی سلام اللہ علییہ نے اپنے دور میں متعہ جاری نہیں‌کیا تو وہ اپنے امام ہونے کی وجوہ پر بری الذمہ نہیں بلکہ گناہگار ہیں، خدارا آسمان کیوں‌نہیں گر پڑا، کیا اب ایسے لوگ بھی پیدا ہوں‌گے جو مولا علی کی پیروی کا دعوا بھی کریں‌گے اور ان کو گناہ گار و خطا کار بھی کہیں‌ گے؟علی جو تفسیر قرآن ہیں، علی جو حق ہیں، علی جو فاطمہ کے مجازی خدا، وہ فاطمہ کہ جسے نبی کہتے ہیں کہ میرے ماں باپ آپ پر قربان،اور وہ علی جو علم کے شہر ہیں اور اس کے باوجود قرآن کی اس آیت کو سمجھ نہ سکے اور متعہ کے لیے جنگ تو نہ کی بلکہ اپنے دور اقتدار میں بھی اسے جاری نہ کرایا، ہائے افسوس صد افسوس، ہائے واویلا صد واویلا اے علی تو مولا ہونے کے باوجود غلط ہو گیا اور تیرے پاؤں‌کی خاک ذرہ ناچیز ہونے کے باوجود، مفسر قرآن بن گیٔ، اس کی تفسیر صیح ہو گیٔ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ انا لللہ و انا الیہ راجعون۔
 
ش

شوکت کریم

مہمان
آج" متعہ کو زنا کہا جاتا ہے کیونکہ اس میں ایک وقت مقررہ طے ہوتا ہے جسکے بعد خود بخود طلاق ہو جاتی ہے۔ مگر گذارش ہے کہ اسلام میں کنیز عورت کے مسئلے کو سامنے رکھیں جس کے تحت علماء کا اجماع ہے کہ کنیز عورت کے ساتھ وقتی تعلقات کے بعد اس کو اسکا آقا آگے کسی اور شخص کو فروخت کر سکتا ہے. یہ نیا آقا اس کنیز عورت سے دوبارہ ہمبستری کر سکتا ہے، اور اسکے بعد اسے تیسرے آقا کو فروخت کر سکتا ہے۔۔۔۔

اسی طرح فقہائے کا اجماع ہے کہ اگر مالک کی اجازت سے اگر اس کی کنیز سے کوئی دوسرا شخص عقد کرتا ہے، تو یہ عقد بھی دائمی نہیں ہوتا، اور جب مالک چاہے، اپنی کنیز کو اس تیسرے شخص کے عقد سے نکال کر خود اس سے ہمبستری کر سکتا ہے یا پھر کسی چوتھے سے اسکی شادی کر سکتا ہے، اس طرح یہ چیز بھی عقد دائمی نہیں، بلکہ شروع وقت سے ہی عارضی و وقتی ہے اور ایسی طلاق کو اسلام میں ہرگز مکروہ یا غیر پسندیدہ بھی نہیں قرار دیا ہے جیسا کہ نکاح دائمی والی آزاد عورت کے معاملے میں طلاق ناپسندیدہ ترین فعل ہے۔

مگر من لایحضر الفقیہ سے یہ روایت دیکھئے اور جانئے کہ عورتوں سے استمتاع کا کوئی طریقہ ایسا ہے جو چھوڑا گیا ہو ؟؟؟؟ نکاح سے دل نہیں‌ بھرا تو متعہ اور متعہ سے دل نہیں‌ بھرا تو عاریۃ الفرج اور اس سے بھی نہیں دل بھرا تو جسم کے من پسند حصے کو بھی بخشا اور اس سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے !!!

من لا یحضرۃ الفقیہ جلد سوم ۔4576 ۔ جمیل نے فضیل سے روایت کی ہے ان کا بیان ہے کہ میں نے ایک مرتبہ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے عرض کیا مولا میں آپ پر قربان ہمارے بعض اصحاب نے آپ سے روایت کی ہے آپ نے فرمایا کہ جب کوئی شخص اپنے برادر مومن کے لیے اپنی کنیز کی شرمگاہ کو حلال کر دے تو وہ اس برادر مومن کے لیے حلال ہے۔ آپ نے فرمایا ہاں اے فضیل۔میں نے عرض کیا کہ پھر آپ کیا فرماتے ہیں ایک شخص کے متعلق کہ جس پاس ایک عمدہ نفس پاکیزہ کنیز ہے اس نے اپنے بھائی کے لئے اس کنیز کی شرمگاہ کو چھوڑ کر اور سب کچھ اس کے لیے حلال کر دیا تو کیا اس کے لیے یہ جائز ہے کہ اس کنیز کی بکارت کو توڑ دے ۔ آپ نے فرمایا نہیں اس کے لیے اتنا ہی جائز ہے جتنا اس کے بھائی نے اس کے لیے حلال کیا ہے۔ اگر وہ کنیز کی صرف شرمگاہ کو اس کے لیے حلال کیے ہوتا تو اس کی شرمگاہ کے سوا کوئی اورچیز اس کے لیے حلال نہ ہوتی۔ میں نے عرض کیا مگر اس کے متعلق آپ کی کیا رائے ہے کہ گو اس نے شرمگاہ کو چھوڑ کر اور ہر بات اس کے لیے حلال کی ہے مگر غلبہ شہوت کی وجہ سے وہ اس کی بکارت توڑ دے ۔ آپ نے فرمایا یہ اس کے لیے جائز نہیں ہے۔ میں نے عرض کیا اگر وہ ایسا کر گزرے تو کیا وہ زانی قرار پائے گا۔ آپ نے فرمایا زانی نہیں لیکن خائن قرار پائے گا اور اس کنیز کی قیمت کا دسواں حصہ مالک کو تاوان ادا کرے گا۔

من لا یحضرۃ الفقیہ جلد سوم ۔4612 ۔ اسحاق بن عمار نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت کی ہے ان کا بیان ہے کہ ایک مرتبہ میں نے آنجناب سے عرض کیا کہ ایک شخص نے ایک نوجوان کنیز سے نکاح متعہ کیا اس شرط پر کہ وہ اس کی بکارت نہیں توڑے گا پھر اس کنیز نے اس کی اجازت دے دی۔ آپ نے فرمایا جب اس نے اس کی اجازت دے دی تو کوئی حرج نہیں۔
 
ش

شوکت کریم

مہمان
کاؤنٹر سوال نمبر 2: معاشرے نے تو "بچیوں" کا ختنہ جیسی رسم کو بھی قبولیت عام کا درجہ دیا

جواب کاؤنٹر سوال نمبر 2 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


من لا یحضر الفقیہ سے ہی آپکے اس کاؤنٹر سوال کا جواب حاضر ہے کہ بچیوں کے ختنے کو معاشرے نے قبولیت عام نہیں دیا بلکہ ۔۔۔۔۔۔۔۔ مذہبی تحفظ دیا گیا۔

من لا یحضرۃ الفقیہ جلد سوم ۔4630 ۔ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا کہ حیا کے دس حصے ہیں اس میں نو حصے عورتوں میں ہیں اور ایک حصہ مردوں میں ہے۔ جب عورت کی ختنہ ہوتی ہیں تو اس کی حیا کا ایک حصہ چلا جاتا ہے اور جب اس کی شادی ہوتی ہے تو حیا کا ایک اور حصہ چلا جاتا ہے اور جب اس کی بکارت ٹوٹتی ہے تو حیا کا ایک اور حصہ چلا جاتا ہے اور جب اس کے یہاں ولادت ہوتی ہے تو حیا کا ایک اور حصہ چلا جاتا ہے اور حیا کے صرف پانچ حصے اس کے پاس باقی رہتے ہیں اب اگر وہ بدکاری میں مبتلا ہو گئ تو ساری حیا ختم ہو جاتی ہے اور اگر پاکدامن اور با عفت رہی تو حیا کے یہ پانچ حصے اس کے پاس باقی رہتے ہیں۔

باب کانام ہی باندھا گیا ہے ۔۔۔اور ختنہ تو یہ مردوں کے لیے سنت اور عورتوں کے لئے خوبی اور بڑائی ہے۔

من لا یحضرۃ الفقیہ جلد سوم ۔4724 ۔ غیاث بن ابراہیم نے حضرت امام جعفر بن محمد علیہما السلام سے انہوں نے اپنے پدربزرگوار علیہ السلام سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا کہ حضرت علی علیہ السلام کا ارشاد ہے کہ اگر عورت کا ختنہ نہ ہو تو کوئی حرج نہیں لیکن مرد کے لیے ضروری ہے۔
 
ش

شوکت کریم

مہمان
آپ سورۃ النساء کی یہ آیت تو پیش کر رہے ہیں، مگر اسکی جو تفسیر بالرائے آپ کرتے ہیں وہ صحیح ہیں کیونکہ آپ نے رسول اللہ ص کی سنت سے سے کچھ سیکھنے کی کوشش نہ کی۔
سورۃ النساء نازل ہوئی ہے مدینہ کے ابتدائی زمانے میں، مگر رسول اللہ ص کی دو روایات میں نے بہت پہلے پوسٹ کی تھیں:
1۔ پہلی روایت بتلاتی ہے کہ یہ آیت تو موجود تھی مگر پھر بھی صحابہ کرام اپنے آپ کو غلام باندیوں سے دور نہ رکھ سکے اور صبر نہ کر سکے اور یہ رسول اللہ ص کے سامنے ہوا۔
2۔ اور دوسری روایت بتلاتی ہے کہ یہ آیت تو موجود تھی، مگر پھر بھی عبداللہ ابن مسعود جیسے کبار صحابہ کو گناہ میں مبتلا ہونے کا ڈر تھا اس لیے رسول اللہ ص نے جہاد کے دوران خود ان صحابہ کو حکم دے کر عقد متعہ کروایا اور فرمایا کہ پاکیزہ طیبات چیزوں کو خود پر حرام نہ کرو۔

جو چپ رہے گی زبان خنجر لھو پکارے گا آستین کا​

ذرا اس حدیث کو بھی دیکھئے جو کہ بیان گئی ہے من لا یحضر الفقیہ جلد سوم میں جو قرآنی احکامات کی صحیح‌ تشریح‌ کرتی ہے کہ مرد کے لیے ازواج صرف چار ہیں اور جو اس سے زیادہ چاہے تو پھر لونڈیاں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور اس سے زیادہ کچھ نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

من لا یحضرۃ الفقیہ جلد سوم ۔ 4543۔ محمد بن فضیل نے شریس وابشی سے انہوں نے جابر سے انہوں نے حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے روایت کہ ہے ان کا بیان ہے کہ آنجناب نے مجھے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے غیرت عورتوں کے لئے قرار نہیں دی ہے بلکہ غیرت مردوں کے لیے قرار دی ہے۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے مرد کے لیے چار آزاد عورتیں حلال کر دی ہیں اور ان کے علاوہ جو اس کی ملکیت میں کنیزیں ہیں (وہ بھی حلال ہیں) مگر عورت کےلیے تنہا اس کا ایک شوہر حلال ہے۔ پس اگر وہ اپنے شوہر کے ساتھ کسی غیر کو بھی چاہے تو وہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک زانیہ ہو گی۔
 
ش

شوکت کریم

مہمان
اسلام مکمل نظریہ حیات ہے اور ہر صدی ہر زمانے کے لیے ہے۔
اس صدی میں انگریزوں کے آنے سے قبل تک نکاح پڑھاتے وقت ساتھ میں کسی نکاح فارم کے کاغذات پر نہیں کیے جاتے تھے، بلکہ سب کچھ زبانی کلامی ہوتا تھا۔ اب ذرا تصور کیجئے:
۔ اگر میاں وبیوی مارکیٹ جاتےہیں تو کیا وہ اپنے ساتھ اپنے اُن دو بیرونی گواہوں کو اپنے ساتھ ڈھو کر لے جاتے ہیں؟
نہیں، وہ سادگی سے گواہی دیتے تھے ہیں کہ وہ میاں اور بیوی ہیں اور انکی یہ گواہی بطور مسلمان مرد اور مسلمان عورت کی گواہی کے قبول کی جاتی ہے اور کافی سمجھی جاتی ہے۔

دامن کو ذرا دیکھ ذرا بند قبا دیکھ

واقعی اس میں‌ تو کوئی شک نہیں مگر عورت کی اس میں کیا حیثیت ہے صرف ایک ہوس کی آگ بھجانے والا آلہ۔ کہ من لا یحضر الفقیۃ جلد سوم میں تعلیم دی گئی ہے کہ عورتوں کو لکھنا پڑھنا نہ سکھاؤ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ حتیٰ کہ سورۃ یوسف پڑھانا بھی ممنوع ہے ؟؟؟؟ مطلب ایک عورت کو گونگا اور بہرہ بنا کراس کو من مانے طریقے سے استعمال کرو۔

من لا یحضرۃ الفقیہ جلد سوم ۔ 4535۔اسماعیل بن ابی زیاد نے حضرت امام جعفر بن محمد علیہما السلام سے انہوں نے اپنے پدربزرگوار علیہ السلام اور انہوں نے اپنے آبائے کرام علیہم السلام سے روایت کی ہے ۔ آپ نے بیان فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ تم لوگ اپنی عورتوں کو بالاخانوں میں نہ رکھو۔ انہیں لکھنا نہ سکھاؤ انہیں سورۃ یوسف نہ پڑھاؤ انہیں چرخے اور تکلے کی اور سورۃ نور کی تعلیم دو۔
 

نبیل

تکنیکی معاون
السلام علیکم،
میری تمام دوستوں سے درخواست ہے کہ کسی ناخوشگوار صورتحال سے بچنے کے لیے کوئی ایسی بات تحریر نہ کریں جس سے دوسرے کو شدید ردعمل دکھانے کا موقع مل جائے۔
شکریہ۔
 
ش

شوکت کریم

مہمان
جی ہاں جانوروں سے ہی آپ نے اپنا مذہب سیکھنا ہے۔
اور جو جانور کرتے ہیں اس میں مجھے جانے کی ضرورت نہیں، مگر اتنا ضرور کہوں گی اگر جانوروں کے جوڑے میں رہنے کی وجہ سے (اگر وہ واقعی رہتے ہیں) عقد المتعہ زنا بن جاتا ہے تو پھر اسکا اتنا خطرناک مطلب نکل رہا ہے کہ 1300 سال تک سلف معاذ اللہ جانوروں سے بدتر زندگی گذارتے رہے جب وہ کنیز عورت کے ساتھ مباشرت کر کے اُسے آگے بیچ دیتے تھے اور معاذ اللہ معاذ اللہ اسکی تعلیم خود اللہ کا رسول ص انہیں اپنی زندگی میں عزل والی روایات میں انہیں دے رہا ہے۔ کچھ خدا کا خوف کریں اور اپنی ان عقلی گھوڑوں کو دوڑا کر اپنی اور سلف کی مٹی پلید نہ کریں کیونکہ نفرت میں عقد المتعہ پر جتنے آپ رکیک الزامات لگاتے جائیں گے، وہ اس سے کئی گنا زیادہ رکیک ہو کر 1300 سال کی تاریخ میں موجود سلف کے گلے کنیز عورت کی صورت میں جا کر پھنستے چلے جائیں گے۔
آگے بس اللہ آپ لوگوں کو ہدایت دے۔

ذرا من لا یحضر الفقیہ سے درج ذیل تو پڑھیے امید ہے آپ کے علم میں‌ اضافہ ہو گا کہ واقعی جانور بھی جوڑوں کی شکل میں‌رہتے ہیں۔ اور جوڑے سے ہٹ کر کچھ کرنے کی انہیں بھی سزا ملتی ہے !!!

من لا یحضر الفقیہ جلد چہارم۔4980۔ عبداللہ ابن میمون کی روایت میں حضرت جعفر ابن محمد علیہما السلام سے انہوں نے اپنے پدربزرگوار علیہ السلام سے روایت کہ ہے آپ علیہ السلام نے بیان فرمایا کہ حضرت یعقوب علیہ السلام نے اپنے بیٹے حضرت یوسف علیہ السلام سے کہا کہ اے فرزند ہر گز زنا نہ کرنا اس لئے کہ اگر چڑا بھی کسی دوسرے چڑے کے جوڑے سے زنا کرتا ہے تو اس کے بال و پر جھڑ جاتے ہیں۔

اللہ ہم سب لوگوں کو ہدایت دے اور ہمیں سیدھے راستے پر چلائے۔ آمین
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top