نکاح المتعہ کا تعارف (حصہ دوم)

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

dxbgraphics

محفلین
صدیق صاحب للہ اپنی روش تبدیل کریں دیکھئے آپ نے جو رویہ اختیار کیا ہے ویسے رویہ والے بہت سے امت میں اختلاف پیدا کرکے چلے گئے بہت سے لشکر بنے بہت سی سپاہ بنیں مگر وہ سب اپنی موت آپ مر گئیں پر حق کو باقی رہنا ہے اور وہ رہے گا ۔
آج سے کئی سال پہلے آپ ہی کے ایک بہت بڑے عالم تھے نام تو انکا شیعوں جیسا تھا پر وہ بہت ہی جید عالم تھے اہل۔سنت کے مولانا مظہر الحسن اسیرِ مالٹا انکو برطانوی سرکار نے اسیر بنا کر مالٹا بھیج دیا تھا 3 سال تک وہاں رہے اور صرف یہ سوچتے رہے کہ مسلمانوں کی پستی کے اخر کیا اسباب ہیں کہ جو مسلمان اتنے عرصے سے یہاں حکومت کر رہے تھے آج اتنے پست کیوں ہوگئے تو انکی تحریر میں نے خود پڑھی ہے آپ کہیں تو میں آپ کیلیئے دوبارہ اسکے حاصل کرکے بھیج دوں آپ فرماتے ہیں میں نے 3 سال تک سوچا اور دو ہی اسباب مجھ کو نظر آئے ایک قران پاک سے دوری اور دوسرے ایک دوسرے سے اختلاف ایک دوسرے کی بے عزتی اور آنکھوں میں نہ کھٹکنا اور اسکا فائدہ دشمن اٹھا گیا۔

انیس بھائی ہر عمل کا رد عمل ہوتا ہے۔ گر آپ شروع سے تمام مراسلے پڑھیں تو آپ کو بخوبی اندازہ ہوجائے گا کہ اگر میں نے ایسا رویہ اختیار کر رکھا ہے تو اس کی کوئی وجہ بھی ہوگی۔
تحریریں تو میں نے بھی اصول کافی ، حق الیقین، نجع البلاغہ، کشف الاسرار کی خود مطبوعہ لاہور اور مطبوعہ ایران پڑھی ہیں۔ امید ہے آپ سمجھ گئے ہونگے۔
قرآن پاک کی حفاظت کا ذمہ تو اللہ نے اپنے ذمے لے رکھا ہے لیکن اس کے باوجود اس میں کم و بیشی سے متعلق دو ہزار سے زیادہ روایتیں ہیں بعض کتابوں میں ۔

باقی حرام کو حلال کرنے والے اس ضمن میں بہت ہی خوش نصیب واقع ہوئے ہیں اور ان کو اردو محفل کے منتظمین کا شکر گذار ہونا چاہیئے کہ موضوع سے متعلق ہی ان سے پوچھے گئے سوالات حذف ہوجاتے ہیں۔اور منتظمین کی جانب سے اس کا مقصد محفل کے خوشگوار ماحول کو برقرار رکھنا ہے
 

گرائیں

محفلین
گرائیں صاحب میں آپ سے ہاتھ جوڑ کر عرض کرتا ہوں کہ میں نے حضرت عمر کے بارے میں ایسی کوئی بات نہیں کی جیسی آپ نے خود ہی تصور کرلی میرے بھائی اگر میں نے وہ روایت اگر اپنے پاس سے گڑھی ہوتی تو آپ مجھ کو کچھ بھی کہتے آپ کا حق تھا باقی رہی بات حجرت عمر کی تو وہ تو ایک بہت ہی دور کی بات ہے میں تو سارے اہلِ سنت کے علما کو اور اپنے ان تمام اہلِ سنت کے بھائیوں کو جو فساد پسند نہیں کرتے ہیں گلے سے لگاتا ہوں وہ تو بس ایک مخصوص گروہ ہے جو فساد پھیلاتا ہے اور لوگوں کو قتل کرتا ہے نا حق ان سے ہماری دشمنی ہے ۔

مجھے یقین ہے آپ کا مطلب ہر گز ایسا نہ ہوگا ، اور اب جب کہ آپ نے خود ایسا کہہ دیا ہے کہ آپ کی مراد ہر گز ایسی نہ تھی جیسے کہ میں‌سمجھ بیٹھا تھا تو مجھے آپ کی بات تسلیم کرنے میں‌کوئی عار نہیں۔ مگر کیا کریں‌ان الفاظ کا؟ اُن الفاظ کا مطلب آخر کیا نکالا جائے جو جوش خطابت میں‌ آپ کہہ گئے؟

میرے بھائی اسکا صاف مطلب ہے کہ جسطرح سلمان رشدی اور تسنیمہ نسرین باوجود مسلمان مصنف ہونے کیلیئے ہم پر حجت نہیں ہیں کیونکہ انہوں نے جن نظریات کا اظہار کیا وہ نظریات اسلام کے بنیادی نظریات کی نفی کرتے ہیں اسی طرح جب کسی ایک شخص کے نظریات ہم سے مطابقت نہیں رکھیں گے تو وہ ہمارے لیئے حجت کیسے بن سکتے ہیں ۔
اس موضوع پر میں نے ایک بات شروع سے نوٹ کی ہے کہ قران اور صحیح احادیث کو یکسر فراموش کرکے صرف اپنی بات منوانے کی ہر طرح سے کوشش کی جارہی ہے ۔ مہوش بہن کے علاوہ کسی نے بھی کوئی مضبوط دلیل نہ تو قران سے پیش کی نہ ہی حدیث سے کبھی کوئی معاشرہ کو لے کر آگیا تو کبھی صدیق صاحب(گرافکس) کی طرح کوئی تعصب سے لبریز ہوکر بے جا طنز اور بہتان کا سہارہ لیتا نظر آیا ۔ پہلے تو متعہ سے موجود قرانی آیت کا ہی انکار کیا گیا پر جب وہ نہ کرپائے اور یہ ثابت ہوگیا کہ یہ آیت متعہ کو جائز قرار دے رہی ہے تو کہا گیا کہ فلاں فلاں جگہ متعہ کی حرمت کا اعلان کیا گیا اول تو یہ ساری روایات ایک دوسرے سے مطابقت نہیں رکھتی تھیں دوسرے ایک عام اصول ہے کہ جب کوئی بھی حکم قران میں موجود ہوتا ہے تو وہ ساری احادیث پر نص ہوتا ہے۔ پھر کئی روایات اور صحابہ کے خود متعہ کرنے سے بھی یہ صاف صاف ظاہر ہورہا ہے کہ متعہ کو منع نہیں کیا گیا۔ اور سب سے بڑی دلیل یہ کہ خود حضرت عمر کا یہ قول بھی 2 متعہ آنحضرت کے زمانے میں حلال تھے پر میں انسے منع کرتا ہوں اور اگر اب کوئی یہ کرے گا تو حد جاری کرونگا یہ قول چیخ چیخ کر کہ رہا ہے کہ اس سے حضرت عمر نے ہی روکا اور حضرت ابوبکر نے ایسی کوئی بات نہیں کی اور انکے زمانے میں متعہ ہوتا رہا اور لوگ زنا سے بچے رہے پر جیسے ہی حضرت عمر نے پابندی لگائی خود انکے صاحبزادے کو ہی شیطان نے بہکادیا اور آپ نے انکو اتنے کوڑے لگوائے کہ انکی وفات ہوگئی۔ حضرت عمر میرے لیئے بہت قابل احترام ہیں ہوسکتا ہے انہوں نے اس دور کو مدِ نظر رکھتے ہوئے یہ فیصلہ ذاتی طور پر کیا ہو یا جسطرح ہمارے بھائی اب تک متعہ کو نہیں سمجھ پارہے ہیں انکو بھی اسکے بارے میں غلط فہمی ہوگئی ہو ۔
میں نے جو 2 واقعات آپ کو سنائے تھے آپ کو کیا لگتا ہے کہ اس سے کوئی کیا حرام میں پڑا یا حرام سے محفوظ رہا۔ متعہ کا مطلب صرف جسمانی تعلق ہی نہیں ہوتا یہ تو 99 فیصد کیا ہی جب جاتا ہے جب انسان کو یقین ہو کہ وہ حرام میں مبتلہ ہوجائے گا ایک لڑکی چاہے آپ کو یقین ہی کیوں نہ ہو کہ اس سے ایک یا دو مہینہ یا سال دو سال بعد آپ کی شادی ہوجائے گی آپ کے لیئے نا محرم ہے اسکا ہاتھ پکڑنا اسکے چہرے اور بالوں کو دیکھنا یہاں تک کہ بالکل اکیلے اسکے ساتھ ایک کمرہ میں بیٹھنا بھی حرام ہے اور آپ یہاں جتنا بھی اس بات سے انکار کریں پر دل سے ضرور مانیں گے کہ یہ ہمارے گھرانوں میں 100 فیصد نہیں تو 90 فیصد تو ضرور ہوتا ہے جنکی شادی طے ہوچکی ہو گائوں دیہات کا مجھکو نہیں پتہ پر کراچی اور لاہور کا میں جانتا ہوں۔ اگر وہ لوگ منگنی کرلیں اور پھر یہ سب کام کریں تو وہ حرام ہی کریں گے اس سے اچھا یہ نہیں کہ وہ متعہ کرلیں چاہے اس میں یہ شرط ہو کہ ہم کوئی جسمانی تعلق قائم نہیں کریں گے تو بتائے یہ عمل منگنی سے زیادہ اچھا ہے یا نہیں ۔ ہم میں سے وہ سارے ماں باپ جو جانتے بوجھتے ہوئے بھی لڑکا لڑکی کو ایک دوسرے سے ملنے دیتے ہیں وہ ذمہ دار ہیں انکی ساری بد فعلیوں کے اور انکو اسکی یقیناََ سزا بھی ملے گی ۔ پھر ہم میں سے بہت سے ایسے ہیں جو اس خام خیالی میں مبتلہ ہوتے ہیں کہ ہمارا بیٹا یا بیٹی 20 سال ہونے کہ باوجود شہوت سے دور رہیں گے وہ تو فرشتہ ہیں پر میرے بھائیو وہ میڈیکلی ان فٹ نہیں ہیں اللہ نے جو فطرت دی ہے وہ اس پر ہی چلیں گے میں یہ نہیں کہتا کہ سب زنا جیسی لعنت میں پڑ جاتے ہیں پر نت نئے قسم کے گناہ ضرور کرتے ہیں اور بّض تو جیسے میں نے پہلے بھی کہا تھا کہ ایک تو زنا جیسا گناہِ کبیرہ دوسرے اس نوزائیدہ کو قتل کرنے کا س سے بھی بڑا گناہ ان سب کا ذمہ دار کون ہے متعہ کی بحث تھوڑی دیر کے لیئے چھوڑ کر بس مجھ کو اسکا حل بتادیں۔ صرف یہ بتادیں کہ ایدھی کو جھولے کیوں رکھوانے پڑے تھے۔
دراصل جوڑے بنانے کا مقصد اللہ کے نزدیک تھا ہی یہی کہ فطری ضرورت پوری کرنے کا حق تو ہر کسی کو ہے اور اللہ نے خود تولید کا اور نسل بڑھانے کا ایک طریقہ رکھا ہے تو نسل بڑھانے کیلیئے تو جنگلی جانور بھی کوشاں رہتے ہیں پر اگر انسان بھی جانوروں کی طرح ہوتا اور اپنی بیوی نہیں بناتا تو پھر بچوں کی پرورش کیسے ہوتی جب کسی کو پتا ہی نہیں ہوتا کہ کس کا باپ کون ہے تو کوئی ایسے بچے کی زمہ داری کیسے اٹھاتا اسلئے اسلام میں اللہ نے بلکہ ہر مذہب نے اپنے مطابق شادی اور نکاح کا طریقہ رکھا ۔ تاکہ باپ اپنے بچوں کا کفیل بنے اور دنیا کو پتا ہو کہ اسکا باپ کون ہے عدت بھی اسی لئے ہوتی ہے ۔ ہاں زنا میں یہ نہیں ہوتا ایک زنا کرنے والی عورت اگر کسی بچے و جنم دیتی ہے تو اسکے باپ کی زمہ داری کوئی نہیں اٹھاتا پر متعہ میں باپ کا پتا ہوتا ہے اور وہ اولاد باپ کے ساتھ ہی منسوب ہوتی ہے نہ عورت پر کوئی الزام لگاسکتا ہے نہ ہی بچے کو کوئی یہ طعنہ دیسکتا ہے کہ تمہارے باپ کا نہیں پتہ۔
بات بہت لمبی ہوگئی وہ بھی صرف اسوجہ سے کہ میں چاہتا ہوں کہ اب اس موضوع کو ختم کیا جائے بحث برائے بحث سے کچھ حاصل نہیں جسکو میری یا مہوش کی باتیں سمجھ نہیں آرہیں تو وہ کبھی نہیں آئیں گی یقین کریں اگر ان لوگوں کے پاس کوئی مضبوط دلیل ہوتی تو میں خود مان جاتا اور مہوش کے خلاف ہوکر آپ لوگوں کے ساتھ مل جاتا پر کوئی تو آیت لائیں جس نے متعہ والی آیت کو منسوخ کیا ہو کوئی تو مضبوط دلیل احادیث سے لائیں اب نہیں لا سکتے تو پھر اسطرح تو ہر روز کوئی نا کوئی آتا جائے گا اور نئے سرے سے بحث شروع کرتا جائے گا مانے گا کوئی کسی کی نہیں ۔ آپ خود انصاف کریں کہ آپ میں سے کتنے آتے گئے اور پھر چپ ہو ہو کر بیٹھتے گئے میں تو ابنِ حسن بھائی کی دلیلوں کا انتظار کر رہا تھا کیوں کہ انہوں نے اپنی ایک پوسٹ میں کہا تھا کہ میں مہوش کے دلائل مکمل ہونے کا انتظار کر رہا ہوں پھر میں یہ کروں گا اور وہ کروں گا پر انکے دلائل بھی کوئی جاندار نہیں نکلے۔دوست آئے بازوق آئے نقوی صاحب آئے ابنِ حسن شوکت کریم کنعان اور صدیق صاحب کی تو خیر بات ہی کیا تو اب ہم اپنا یہاں وقت کیوں برباد کر رہے ہیں کیوں نہ کسی اور طرح خدمت کریں۔

غالبا حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے صاحبزادے کو شراب پینے پر کوڑے لگوائے تھے، زنا کرنے پر نہیں۔ مگر مجھے یقین نہیں۔ کیا کو ئی کرم فرما میری تصحیح کر دے گا؟
 
ش

شوکت کریم

مہمان
پر میرے بھائی جب بات کسی بھی چیز کو حرام یا حلال قرار دینے کی ہوتی ہے تو فریقِ مخالف کی کتابوں سے دلائل دیے جاتے ہیں انکی حرمت یا حلت کیلئے مہوش نے آپ ہی کی کتابوں سے اور قران سے متعہ کو حلال ثابت کیا تھا تو آپ کو چاہیئے تا یہ تھا کہ اصولِ اربعہ سے ایسی احادیث یا روایات لاتے جو متعہ کو حرام قرار دے رہی ہوں نہ کہ اسکی فضیلت ثابت کر رہی ہوں۔

ایسی روایت وقتٓا فوقتٓا دی گئی ہیں مگر قبولیت کا شرف نہ حاصل کر سکیں۔ محترمہ مہوش صاحب نے انہیں ضعیف قرار دے دیا۔ خیر بعد از تلاش بسیار خاکسار کے علم میں یہ بات آئی جو کہ محفلین کے ساتھ شیئر کر رہا ہوں کہ اس معاملے میں بھی مہوش صاحبہ جانبداری دکھا گئیں۔ کبھی کبھی تو مجھے شک ہونے لگتا ہے کہ محترمہ مہوش صاحبہ کی یہ بحث کسی نئے فرقے کو جنم نہ دے دے۔ کہ نہ تو مہوش صاحبہ اہل سنت کے دلائل کےمطابق متعہ کو حرام قرار دیتی ہیں۔ اور نہ ہی اہل تشیع کی روایات کے مطبق اسے حلال قرار دیتی ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ حلال تو قرار دیتی ہیں‌ مگر اپنے ہی حساب سے اپنی ہی من پسند روایت سے چاہے وہ ادھر سے ہو چاہے اُدھو سے۔ بہرحال یہ چند روایات پوسٹ کر رہا ہوں۔

وروى محمد بن الفضيل،عن شريس الوابشي، عن جابر عن أبي جعفر عليه السلام قال: قال لي: (إن الله تبارك وتعالى لم يجعل الغيرة للنساء وإنما جعل الغيرة للرجال لان الله عزوجل قد أحل للرجل أربع حرائر وما ملكت يمينه ولم يجعل للمرأة إلا زوجها وحده، فإن بغت مع زوجها غيره كانت عندالله عزوجل زانية، وإنما تغار المنكرات منهن فأما المؤمنات فلا)

من لا یحضرۃ الفقیہ جلد سوم ۔ 4543۔ محمد بن فضیل نے شریس وابشی سے انہوں نے جابر سے انہوں نے حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے روایت کہ ہے ان کا بیان ہے کہ آنجناب نے مجھے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے غیرت عورتوں کے لئے قرار نہیں دی ہے بلکہ غیرت مردوں کے لیے قرار دی ہے۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے مرد کے لیے چار آزاد عورتیں حلال کر دی ہیں اور ان کے علاوہ جو اس کی ملکیت میں کنیزیں ہیں (وہ بھی حلال ہیں) مگر عورت کےلیے تنہا اس کا ایک شوہر حلال ہے۔ پس اگر وہ اپنے شوہر کے ساتھ کسی غیر کو بھی چاہے تو وہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک زانیہ ہو گی۔

صریحٓا چار عورتوں آزاد عورتوں کا ذکر ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور پھر لونڈیوں کا‌!!1 اور اس کتاب اور شیخ صدوق رحمہ کی ثقاہت کے بارے میں‌‌اوپر بہت کچھ لکھا جا چکا ہے جو کہ کسی بھی اعتراض کو رد کرنے کےلیے کافی ہے۔

(26387) 32 ۔ محمد بن الحسن بإسناده عن محمد بن أحمد بن يحيى، عن أبي جعفر، عن أبي الجوزاء، عن الحسين بن علوان، عن عمرو بن خالد، عن زيد بن علي، عن آبائه عن علي (عليهم السلام) قال: حرم رسول الله (صلى الله عليه وآله) يوم خيبر لحوم الحمر الاهلية ونكاح المتعة.

محمد بن الحسن اسناد بالا کے ساتھ بیان کرتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ نے فرمیا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر کے روز گدھے کے گوشت اور متعہ سے منع فرما دیا۔

أقول: حمله الشيخ وغيره على التقية ۔ يعني في الرواية ۔ لان إباحة المتعة من ضروريات مذهب الامامية، وتقدم ما يدل على ذلك ، ويأتي ما يدل عليه والاخير يحتمل النسخ والكراهة مع المفسدة.

وسائل الشيعة ,الجزء الحادي والعشرين ,تأليف ,الفقيه المُحْدّثِ الشيخُ مُحمّدْ بن الحسن الحُر العامليكح ,كتاب النككالاحكتاب النكاح ،أبواب المتعة

یہی حدیث استبصار اور تہذیب الاحکام میں بھی مروی ہے۔

(511) 5 فأما ما رواه محمد بن أحمد بن يحيى عن أبي الجوزا عن الحسين بن علوان عن عمرو بن خالد عن زيد بن علي عن آبائه عن علي (عل) قال: حرم رسول الله (صلى الله عليه وآله)لحوم الحمر الاهلية ونكاح المتعة.

فالوجه في هذه الرواية أن نحملها على التقية لانها موافقة لمذاهب العامة والاخبار الاولة موافقة لظاهر الكتاب وإجماع الفرقة المحقة على موجبها فيجب أن يكون العمل بها دون هذه الرواية الشاذة.
الاستبصار تأليف شيخ الطائفة ابى جعفر محمد بن الحسن الطوسى قده
الجزء الثالث أبواب المتعة۔ 92 باب تحليل المتع

قال الشيخ الطوسي قدس سره في تهذيب الأحكام: فإن هذه الرواية وردت مورد التقية وعلى ما يذهب إليه مخالفو الشيعة، والعلم حاصل لكل من سمع الأخبار أن من دين أئمتنا عليهم السلام إباحة المتعة، فلا يحتاج إلى الإطناب

اور اس حدیث کے بارے میں انہی کتابوں میں‌ لکھا ہے کہ یقینا یہ روایت تقیہ کے طور پر وارد ہوئی ہے، مطلب روایت سے مکمل انکار نہیں۔ جبکہ مہوش صاحبہ کے نزدیک یہ روایت قابل اعتبار ہی نہیں۔ اب سلف کے نظریات اور محترمہ کے نظریات میں‌ فرق خود ملاحظہ کر لیں۔ اس سے پہلے میں جناب شیخ قدوس رحمہ کی روایات کے بارے میں محترمہ کےخیالات اور لسف کے خیالات میں مکمل تضاد واضح کر چکا ہوں۔

اور مزے کی بات ہے کہ یہاں بھی گدھے اور متعہ کا ذکر اکٹھا ہے ؟؟؟ اور اس معاملے میں سلف کا نظریہ محترمہ سے زیادہ حقیقت پسندانہ اور منصفانہ اور عین انصاف ہے۔

أحمد بن محمد بن عيسى في ( نوادره ) : عن ابن أبي عمير ، عن هشام بن الحكم ، عن أبي عبدالله ( عليه السلام ) في المتعة قال : ما يفعلها عندنا إلا الفواجر .

احمد بن محمد بن عیسی با اسناد بالا بیان کرتے ہیں کہ ابو عبداللہ رحمہ سے متعہ کے بارے میں‌پوچھا گیا، کہا اس کے نزدیک نہ جاؤ یہ زنا ہے۔

نوادر أحمد بن محمد بن عيسى : 87 | 200 .
وسائل الشيعة ج21 9 ۔ باب عدم تحريم التمتع بالزانية وان أصرت
ص25 ص44

عن عبد الله بن سنان قال سألت أبا عبد الله عليه السلام عن المتعة فقال: (لا تدنس نفسك ب۔ها)

عبداللہ بن سنان روایت کرتے ہیں ابو عبداللہ سے متعلہ کے بارے میں‌ پوچھا گیا کہا۔ اپنے نفس کو اس سے گندہ مت کرو۔

بحار الأنوار 100/318

اور یقین رکھیے میں کچھ ثابت نہیں کرنا چاہتا نہ کسی سے کچھ منوانے کا شوق ہے اور یہ اچھی بات ہے کہ اس دھاگے میں اس موضوع سےمتعلق روایات اور دلائل اور خیالات اردو میں بمعہ حوالہ جات ایک جگہ اکھٹے ہو رہے ہیں۔

اوپر برادر نبیل نے ایک خواہش کا اظہار کیا تھا وہ اسی طرح‌ پوری ہو سکتی ہے کہ ہم لوگ ایک دوسرے کو سننے کے لیے تو تیار ہوں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اپنے اپنے خول سے تو باہر آئیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور جب یہ ہوگا تو ان شا اللہ خیالات پر جمی برف بھی پگھلے گی اور ایک راہ بھی مل جائے گی۔
 
ش

شوکت کریم

مہمان
آج سے کئی سال پہلے آپ ہی کے ایک بہت بڑے عالم تھے نام تو انکا شیعوں جیسا تھا پر وہ بہت ہی جید عالم تھے اہل۔سنت کے مولانا مظہر الحسن اسیرِ مالٹا انکو برطانوی سرکار نے اسیر بنا کر مالٹا بھیج دیا تھا

اللہ آپ کا بھلا کرے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آپ نے بالکل ٹھیک کہا صرف تھوڑی سی تصیح کرلیجئے کہ اسیر مالٹا حضرت مولانا محمود الحسن رحمہ تھے۔

اور یہ کیا یہ نام تو بہت رکھا جاتا ہے اہل سنت کے ہاں۔ حسن رضی اللہ عنہ، حسین رضی اللہ عنہ، علی رضی اللہ عنہ، اور لڑکیوں میں جو سب سے پیارا اور بابرکت نام سمجھا جاتا ہے وہ ہے فاطہ رضی اللہ عنہ۔

اور ہر خطبے میں پکارا جاتا ہے علی کرم اللہ وجہ اور۔ حسن و حسین جنت میں‌ نوجوانوں‌ کے سردار ہوں گے۔ میرے ماں‌ باپ اولاد قربان حرمت رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور اہل بیت صلی اللہ علیہ وسلم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ نام تو ہم سب کے پیارے نام ہیں۔
 
ش

شوکت کریم

مہمان
غالبا حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے صاحبزادے کو شراب پینے پر کوڑے لگوائے تھے، زنا کرنے پر نہیں۔ مگر مجھے یقین نہیں۔ کیا کو ئی کرم فرما میری تصحیح کر دے گا؟

جی برادر آپ درست کہہ رہے ہیں۔

شمس العلما علامہ شبلی نعمانی رحمہ اپنی مشہور کتاب الفاروق کے صفحہ 310 پر لکھتے ہیں بے لاگ عدل و انصاف

سب سے بڑی چیز جس نے ان کی حکومت کو مقبول بنایا اور جس کی وجہ سے اہل عرب ان کے سخت احکام کو بھی گوارا کر لیتے تھے۔ یہ تھی کہ ان کا عدل و انصاف ہمیشہ بے لاگ رہا۔ جس میں دوست دشمن کی کچھ تمیز نہ تھی۔ ممکن تھا کہ لوگ اس بات سے ناراض ہوتے کہ جرائم کی پاداش میں کسی کی عظمت و شان کا مطلق پاس نہیں کرتے لیکن جب وہ دیکھتے تھے کہ خاص اپنی آل اولاد اور عزیز و اقارب کے ساتھ بھی ان کا یہی برتاؤ ہے تو لوگوں کو صبر آجاتا تھا۔

ان کے بیٹے ابو شمحہ نے جب شراب پی تو خود اپنے ہاتھ سے 80 کوڑے مارے اور اسی صدمے سے وہ بیچارے قضا کر گئے۔ قدامۃ بن مظعون جو ان کے سالے اور بڑے رتبہ کے صحابی تھے۔ جب اسی جرم میں‌ماخوذ ہوئے تو علانیہ ان کو 80 درے لگوائے۔

اور نیچے حواشی میں لکھتے ہیں‌ابو شمحہ کے قصے میں واعظوں‌نے بری رنگ آمیزیاں‌کیں ہیں۔ لیکن اس قدر صحیح ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ نے ان کو شرعی سزا دی۔ اور اسی صدمے سے انہوں‌نے انتقال کیا۔

اشد ہم فی امر اللہ​
 
ش

شوکت کریم

مہمان
اور جو آپ رسول ص کے متعلق پھر بھی بحث کرنا چاہ رہے ہیں تو اس سلسلے میں آپ یہاں یہ پڑھ سکتے ہیں کہ یہ بات ثابت نہیں ہے، اور نہ ہی اسکی زیادہ اہمیت ہے

لیں جی میں رائے دے رہا ہوں ۔۔۔۔۔۔ سلف کی اور امام صاحب کی شیخ صدوق رحمہ اور انکی ثقاہت کی گواہی میں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور آپ لنک دے رہی ہیں ایک فورم کا اور وہاں کیا ہے کچھ بھی نہیں‌ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!!
 

S. H. Naqvi

محفلین
میں نے نوٹ کیا ہے کہ علمی طور پر ہونے والی ہر بحث کا یہی حشر ہوتا ہے کہ لوگ بات کرتے ہوئے سطح عمومی سے بھی نہایت حد تک نیچے گر جاتے ہیں میری پہلی والی پوسٹ کا بھی یہی حشر ہوا تھا کہ اس کو بعض حضرات نے بہت غلط رنگ دیدیا
آپ کی یہی روش ہے کہ مجھے ایک خاص سطح سے نیچے آ کر بات کرنی پڑتی ہے محترم انکل:) وہ کیا کہتے ہیں‌کہ ساون کا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور ہرا ہرا، آپ ہمیشہ جانب داری کی عینک لگا کر گہرا ئ میں‌جاے بغیر اور حقایٔق کو سامنے رکھے بغیر پورے تیقن کے ساتھ کے ساتھ نتایٔج اخذ کر لیتے ہیں اور وہ بھی اپنی مرضی کے۔۔۔۔۔۔۔! آگے شوکت کریم صاحب سے مخاطب ہوتے ہوئے آپ نے ایسا ہی کیا ہے کہ اپنی ہی ایک روایت کو ، بات کو ، لیے کر آپ نے متعہ کے حلال ہونے کا فتویٰ دے دیا ہے اور وہ بے چارے جو کتنے عرصے سے دلایٔل کے انبار لگا رہے ہیں، ان سب کو صرف نظر کر دیا ہے، حالانکہ آپ نے جس نیت کا دعویٰ کیا ہے تو اس کے بر موجب آپ کو نیوٹرل ہو کر بحث کو پڑھنا اور پرکھنا چاہیے تھا اور اس کے بعد کسی فیصلہ کن رائے کا اظہار طرفین کی دلیلوں‌کی روشنی میں کرنا چاہیے تھا کیوں‌کہ حقیقت بھی یہی ہے کہ جو کوئ اگر تو دعویٰ‌ کرے کہ میں‌ تلاش حق میں ہوں تو اسے حقائق جاننے کے لیے پہلے اپنے نظریات کی عینک اتار کر نیوٹرل ہونا پڑتا ہے تبھی جا کر کچھ حاصل وصول ہوتا ہے یہ نہیں کہ انسان کہے تو یہ کہ مجھے گوہر کی تلاش ہے اور ڈول اپنے ہی گھر کے کنویں سے بھرتا رہے اور اپنے پانی کی مٹھاس کی تعریف ہی کرتا رہے۔ باقی آپ نے شوکت کریم صاحب اور جناب گرائیں صاحب سے جو استفسارات و سوالات کیے ہیں‌ یہ میں انھی کے لیے چھوڑتا ہوں‌ اور اس جگہ چلتا ہوں جہاں آپ کا تخاطب میں‌ نا چیز ہوں۔
نقوی بھائی آپ تو اولادِ رسول کی نسل سے ہیں
آپ کے یاد دلانے کا شکریہ، ویسے اگر میں حق پر نہ رہوں تو یہ فخرو مباہات میرے کس کام کا۔۔۔۔۔۔! اللہ سے دعا ہے کہ حق پر رکھ کر پہلے سچا امتی ہونے کی توفیق دے آل ہونا تو ایک انعام موروثیت ہے نہ کہ مہر حقانیت۔۔۔۔۔!

آ
پ تو ہمارے لیئے اس لئے بھی نہایت قابلِ احترام ہیں کے ہمارے دسویں امام حضرت علی نقی(ع) کی اولاد میں سے ہیں
اسی چیز کا تو افسوس ہے کہ امام آج آپ کے ہو گئے ہیں یہ ہائی جیک نہ ہوتا تو راوی آج امن ہی امن لکھ رہا ہوتا:(

بھائی جب کوئی علمی بحث کی جاتی ہے تو لب و لہجہ بھی وہی رکھا جاتا ہے جو اسکی مناسبت سے ہو۔ آپ ذرا خود سوچئے کہ جہاں قران اور احادیث کے حوالے دیئے جارہے ہوں وہاں آپ کی آلو چھولے بیچنے والے الفاظ اور اسی کی طرح کی دوسری باتیں کیا مطابقت رکھتی ہیں؟ میرے بھائی آپ ایک علم رکھنے والے فرد ہیں اور جہاں علم ہوتا ہے وہاں شائیستگی ہوتی ہے ایک دوسرے کا احترام ہوتا ہے پر جہاں جہالت ہوتی ہے وہیں بد تمیزی ہوتی ہے ایک دوسرے کو کسی نا کسی طرح سے نیچا دکھانے کی ہوس ہوتی ہے جہاں جہالت ہوتی ہے وہاں شر انگیزی ہوتی ہے
واہ اسے کہتےہیں دوسروں کو نصیحت خود میان فضیحت، پھر بھی بہر حال اگر میرے الفاظ سے آپ کو کچھ رنج ہوا ہو تو معافی کا خواستگار ہوں کہ میں نے آپ کا دل دکھایا کیوں‌کہ میں فورم کے اصل مقصد سے ہٹ کر ذاتیات پرآنا میرا مطمئہ نظر نہیں ہے۔ لیکن اگر آپ اپنی پچھلی پوسٹ پڑھیں اور پھر اس پر میرا تبصرہ پڑھیں‌ اور اپنا دل وسیع کرتے ہوئے میرے الفاظ پر غور کریں تو آپ اندازہ ہو جائے گا کہ میں نے کس رنج اور کرب کے عالم میں یہ الفاظ لکھے ہیں‌ اور میرا مقصد اہانت بلکل نہیں‌تھا اصل وجہ تو وہی ہوئی ہے کہ آپ نے مہوش صاحبہ کے یک طرفہ موقف کو بیان کرتے ہوے آرام سے نتیجہ اخذ کر کے محفل کے سامنے رکھ دیا اور اس بات پہ میرا موقف بجا ہے اگر الفاظ کے نشتر آپ کو گھائل کر رہے ہیں تو آئندہ آپ بھی سوچ کر تبصرہ کیا کریں کہ کہیں آپ کے الفاظ شر انگیزی تو نہیں پھیلا رہے اور کسی کا حق تو تلف نہیں ہو رہا اور اگر آپ نے اپنےروش برقرار رکھی تو پھر میری بھی مجبوری ہے
آپ تو محترم مثال چاند ہیں کہ جب دن کی روشنی میں دلیلیں‌دی جا رہی ہوتی ہیں تو آپ خاموش رہتے ہیں‌ اور رات کو آ کر "مستعار دلیلوں" سے فیصلہ سنا دیتے ہیں، اگر آپ کو شامل بحث ہونے کا، حق کی تلاش کا، اور اپنے نظریہ کی صداقت کا شو ق ہے تو آپ براہ مہربانی براہ راست محفل میں آ کر اپنی دلیل دیں اور کسی کی ادھوری دلیلوں کو اٹھا کر نتائج اخذ کرنا چھوڑ دیں۔:cool: بہرحال میں‌نے نہ تو آپ کو ٹارگٹ بنایا ہے اور نہ ہی میرا مقصد آپ کی دل شکنی کرنا تھا اگر حقائق کو سا منے لانا آپ کی دل شکنی ہے تو معذرت میں‌ اس سے باز نہیں‌ رہ سکتا اور اسی حق کوسامنےلاتے ہوئے اگر کہیں‌زبان میں خم آیا بھی ہے تو میں‌نے تہذیب کے دائرے میں‌ رہ کر ہی کوئی طنز یا طعن کیا ہے اور فریق ثانی سے اس معاملے میں چند قدم پیجھے ہی ہوں‌۔;) اور محفل کے ریگولر پڑھنے والے اس حقیقت سے باخوبی باخبر ہیں، باقی نصیحت، ہمدردی و مظلومیت کرتے ہوئے آپ نے کافی سے زیادہ نہیں کچھ کہہ دیا کیا؟؟؟؟ لیکن میں حرف بہ حرف جواب سے بچتے ہوئے اپنی توجہ فورم کے اصل مقصد کی طرف رکھنا چاہتا ہوں‌ مبادا کہ آپ بھردل شکنی کا رونا نہ شروع کر دیں۔ باقی جب علمی بحث ہو ریی ہو تو مامے، چاچے کے بجائے دو فریق سامنے ہوتے ہیں تب بزرگی نہیں دیکھی جاتی بلکہ دلائل اور حقائق کو ترازو کیا جاتا ہے اگر آرزو دیدارِ چہرہِ
حق​
ہو۔ ورنہ آج دین ابو جہل چار سو بھیلا ہوتا۔۔۔۔۔۔۔۔!
 

S. H. Naqvi

محفلین
ان کے بیٹے ابو شمحہ نے جب شراب پی تو خود اپنے ہاتھ سے 80 کوڑے مارے اور اسی صدمے سے وہ بیچارے قضا کر گئے۔ قدامۃ بن مظعون جو ان کے سالے اور بڑے رتبہ کے صحابی تھے۔ جب اسی جرم میں‌ماخوذ ہوئے تو علانیہ ان کو 80 درے لگوائے۔

اور نیچے حواشی میں لکھتے ہیں‌ابو شمحہ کے قصے میں واعظوں‌نے بری رنگ آمیزیاں‌کیں ہیں۔ لیکن اس قدر صحیح ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ نے ان کو شرعی سزا دی۔ اور اسی صدمے سے انہوں‌نے انتقال کیا۔

"اشد ہم فی امر اللہ عمرعلیہ سلام"

بہت شکریہ شوکت بھائی آپ نے ایک تاریخی مغالطے کی تصیح کر دی، اب محترم انیس صاحب سے گزارش ھیکہ کھلے دل سے مان لیں اور اپنی یاداشت بہتر کر لیں :)
 

میر انیس

لائبریرین
انیس بھائی ہر عمل کا رد عمل ہوتا ہے۔ گر آپ شروع سے تمام مراسلے پڑھیں تو آپ کو بخوبی اندازہ ہوجائے گا کہ اگر میں نے ایسا رویہ اختیار کر رکھا ہے تو اس کی کوئی وجہ بھی ہوگی۔
تحریریں تو میں نے بھی اصول کافی ، حق الیقین، نجع البلاغہ، کشف الاسرار کی خود مطبوعہ لاہور اور مطبوعہ ایران پڑھی ہیں۔ امید ہے آپ سمجھ گئے ہونگے۔
قرآن پاک کی حفاظت کا ذمہ تو اللہ نے اپنے ذمے لے رکھا ہے لیکن اس کے باوجود اس میں کم و بیشی سے متعلق دو ہزار سے زیادہ روایتیں ہیں بعض کتابوں میں ۔

باقی حرام کو حلال کرنے والے اس ضمن میں بہت ہی خوش نصیب واقع ہوئے ہیں اور ان کو اردو محفل کے منتظمین کا شکر گذار ہونا چاہیئے کہ موضوع سے متعلق ہی ان سے پوچھے گئے سوالات حذف ہوجاتے ہیں۔اور منتظمین کی جانب سے اس کا مقصد محفل کے خوشگوار ماحول کو برقرار رکھنا ہے

میرے بھائی آپ یقین کریں دونوں طرف سے ایسا ہی ہے میرے پاس تو بھائی پوری لائبریری بھری پڑی ہے کتابوں کی بھی اور آڈیو کیسیٹ کی بھی آپ نے شاید علامہ شاہ بلیغ الدین کی تقاریر ملاحضہ نہیں فرمائیں میں خیر کسی کو برا نہیں کہ رہا اگر ان ہوں نے کوئی نظریہ رکھا تو اسکا بھی کوئی سبب ہوگا پر جب آپ کہ رہے ہیں کہ ہر عمل کا ردِ عمل ہوتا ہے تو پھر آپ یہ بات کہاں یقین سے کہ سکتے ہیں کہ عمل کہاں سے شروع ہوا تھا اور اسکا ردِ عمل کب آیا اور کس کی طرف سے آیا بات آپ کی پھر وہی فرقہ واریت کی طرف ہی جارہی ہے۔ یقین کریں میرے پاس ابھی ٹائم نہیں ہے ۔ میں اپنی بہن کی بیماری کی وجہ سے بہت مصروف ہوں ورنہ میں آپ پر ثابت کرتا کہ قران کی تحریف کا عقیدہ بھی ہم پر الزام ہی ہے ورنہ دوسرے فرقوں کی طرف سے بھی ایسے عالم گزرے ہیں اور انہوں نے باقائدہ کتابیں لکھی ہیں اس پر یہ الگ بات ہے کہ نا ہی اہلِ تشیع کی اکثریت نے اپنے ان عالموں کی بات پر کان دھرے نہ ہی اہلِ سنت ۔آپ خمینی صاحب اور ایران کی بات ہمیشہ کرتے ہیں تو بھائی میرا یہ دعوٰی ہے کہ آپ اگر ایران جائیں اور بے شک کوئی بھی دروازا کھٹکھٹا کر اس سے قران منگوا کر دیکھ لیں کہ وہ کونسا قران ہے آپ کو اس میں سورۃ الحمد(بسمہ اللہ کے بعد) کے ا سے سورۃ الناس کی س تک اگر کوئی کمی یا بیشی نظر آجائے تو میرا گریبان پکڑئے گا پر یہ دھاگہ اس بات کے لیئے نہیں ہے اور نہ ہی میں اپنے آپ کو کسی بحث میں الجھانا چاہتا ہوں آپ کو اپنی ایک بات کہنی تھی وہ میں نے کہ دی تھی آپ کو صاحب کا کیا وہ مشہور و معروف قول یاد نہیں کہ شیعہ سنی میں پھوٹ ڈالنے والا نہ ہی شیعہ ہے نہ سنی بلکہ وہ تو استعمار کا ایجینٹ ہے۔
 

میر انیس

لائبریرین
جی حجت صرف وہ احادیث ہیں جن میں متعہ حلال ہے ورنہ ان کی کتب سے دلائل پیش کیے جائیں۔ :)
میرے پیارے بھائی اور دوست میں نے یہ کب کہا کہ حجت صرف وہ احادیث ہیں جن میں متعہ حلال ہے میں نے صرف اپنی کتابوں سے دلائل مانگیں ہیں اور یہ ایک اصول کی بات ہے کہ اگر میں اپنی ہی کتابوں کو لے کر بیٹھ جائوں اور تو آپ بھی یہی کہیں گے کہ یہ تو آپ کی کتابوں میں لکھا ہے نا ہماری کسی کتاب سے ثابت کریں ۔ ہاں اگر آپ کی کسی کتاب میں کوئی ایسی بات ملے گی جو میرے بیان کہ حق میں جارہی ہوگی تو وہ میں آپ کو حجت کے طور پر پیش کروں گا کہ یہ دیکھیں ہماری کتاب کو نہ مانیں اپنی کو تو مانتے ہیں نہ اس میں ہی یہ سب لکھا ہے۔ اور اگر اب بھی آپ کی سمجھ میں میری بات نہیں آئی تو شوکت صاحب سے آپ پوچھ سکتے ہیں وہ آپ کو اصول بتادیں گے۔
 

میر انیس

لائبریرین
مجھے یقین ہے آپ کا مطلب ہر گز ایسا نہ ہوگا ، اور اب جب کہ آپ نے خود ایسا کہہ دیا ہے کہ آپ کی مراد ہر گز ایسی نہ تھی جیسے کہ میں‌سمجھ بیٹھا تھا تو مجھے آپ کی بات تسلیم کرنے میں‌کوئی عار نہیں۔ مگر کیا کریں‌ان الفاظ کا؟ اُن الفاظ کا مطلب آخر کیا نکالا جائے جو جوش خطابت میں‌ آپ کہہ گئے؟
میں اب بھی یہی کہوں گا کہ آپ نے میری بات کا مطلب غلط ہی نکالا ہے اور بھائی میں کوئی خطیب نہیں ہوں ۔ میں تو بار بار آپ سے یہ کہ رہا ہوں کہ حضرت عمر(ر) نے متعہ پر پابندی لگوائی اور حضرت ابوبکر کے زمانے میں متعہ ہوتا رہا ۔ اور اگر آپ یہ کہتے کہ ہمارا یہ عقیدہ ہے کہ حضرت عمر(ر) معصوم عن الخطا ہیں تو میں آپ کے عقیدے کا احترام کرتا اور بحث وہیں ختم ہوجاتی کہ چونکہ حضرت عمر معصوم ہیں اسلئے ان سے کوئی بھی غلطی کا ہونا محال ہے اور اگر انہوں نے متعہ پر پابندی لگوائی تو وہ عین شریعت کے مطابق ہے ۔ میں نے پہلے بھی حضرت عمر کے لئے پابندی لگوانے یا متعہ سے منع کرنے کے الفاظ استعمال کیئے تھے اور اب بھی کر رہا ہوں کیوں کہ گناہ تو ہوتا ہے کسی حلال کام کو حرام کرنا پر کسی خاص مقصد کے لیئے کسی حلال کام کو عارضی طور پر روک دینا کہاں سے گناہ ہوگیا ایسے بہت سے فتوے آپ کو مل جائیں گے جس میں حلال کام کو روکا گیا ہو جسطرح انڈیا کہ ایک عالم نے ہندوستان میں قربانی کے خلاف فتوٰی دیا تھا

غالبا حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے صاحبزادے کو شراب پینے پر کوڑے لگوائے تھے، زنا کرنے پر نہیں۔ مگر مجھے یقین نہیں۔ کیا کو ئی کرم فرما میری تصحیح کر دے گا؟[/quote نے کہا:
دیکھئے یہاں روایت میں اختلاف ہے اور یہ واقعہ دونوں طرح سے پیش ہوا ہے یہ روایت جس کتاب میں معہ حوالوں سے پیش ہوئی ہے وہ میری لائیبریری میں کہیں موجود ہے کیونکہ میں نے خود اپنی آنکھون سے اسکو دیکھا ہے آپ مجھ کو تھوڑی مہلت دیں آج کل میرے پاس کتابیں دیکھنے کا بالکل وقت نہیں ہے پر میرا وعدہ ہے اس روایت کا حوالہ ضرور دونگا۔
 

میر انیس

لائبریرین
ایسی روایت وقتٓا فوقتٓا دی گئی ہیں مگر قبولیت کا شرف نہ حاصل کر سکیں۔ محترمہ مہوش صاحب نے انہیں ضعیف قرار دے دیا۔ خیر بعد از تلاش بسیار خاکسار کے علم میں یہ بات آئی جو کہ محفلین کے ساتھ شیئر کر رہا ہوں کہ اس معاملے میں بھی مہوش صاحبہ جانبداری دکھا گئیں۔ کبھی کبھی تو مجھے شک ہونے لگتا ہے کہ محترمہ مہوش صاحبہ کی یہ بحث کسی نئے فرقے کو جنم نہ دے دے۔ کہ نہ تو مہوش صاحبہ اہل سنت کے دلائل کےمطابق متعہ کو حرام قرار دیتی ہیں۔ اور نہ ہی اہل تشیع کی روایات کے مطبق اسے حلال قرار دیتی ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ حلال تو قرار دیتی ہیں‌ مگر اپنے ہی حساب سے اپنی ہی من پسند روایت سے چاہے وہ ادھر سے ہو چاہے اُدھو سے۔ بہرحال یہ چند روایات پوسٹ کر رہا ہوں۔

وروى محمد بن الفضيل،عن شريس الوابشي، عن جابر عن أبي جعفر عليه السلام قال: قال لي: (إن الله تبارك وتعالى لم يجعل الغيرة للنساء وإنما جعل الغيرة للرجال لان الله عزوجل قد أحل للرجل أربع حرائر وما ملكت يمينه ولم يجعل للمرأة إلا زوجها وحده، فإن بغت مع زوجها غيره كانت عندالله عزوجل زانية، وإنما تغار المنكرات منهن فأما المؤمنات فلا)

من لا یحضرۃ الفقیہ جلد سوم ۔ 4543۔ محمد بن فضیل نے شریس وابشی سے انہوں نے جابر سے انہوں نے حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے روایت کہ ہے ان کا بیان ہے کہ آنجناب نے مجھے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے غیرت عورتوں کے لئے قرار نہیں دی ہے بلکہ غیرت مردوں کے لیے قرار دی ہے۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے مرد کے لیے چار آزاد عورتیں حلال کر دی ہیں اور ان کے علاوہ جو اس کی ملکیت میں کنیزیں ہیں (وہ بھی حلال ہیں) مگر عورت کےلیے تنہا اس کا ایک شوہر حلال ہے۔ پس اگر وہ اپنے شوہر کے ساتھ کسی غیر کو بھی چاہے تو وہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک زانیہ ہو گی۔

صریحٓا چار عورتوں آزاد عورتوں کا ذکر ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور پھر لونڈیوں کا‌!!1 اور اس کتاب اور شیخ صدوق رحمہ کی ثقاہت کے بارے میں‌‌اوپر بہت کچھ لکھا جا چکا ہے جو کہ کسی بھی اعتراض کو رد کرنے کےلیے کافی ہے۔

(26387) 32 ۔ محمد بن الحسن بإسناده عن محمد بن أحمد بن يحيى، عن أبي جعفر، عن أبي الجوزاء، عن الحسين بن علوان، عن عمرو بن خالد، عن زيد بن علي، عن آبائه عن علي (عليهم السلام) قال: حرم رسول الله (صلى الله عليه وآله) يوم خيبر لحوم الحمر الاهلية ونكاح المتعة.

محمد بن الحسن اسناد بالا کے ساتھ بیان کرتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ نے فرمیا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر کے روز گدھے کے گوشت اور متعہ سے منع فرما دیا۔

أقول: حمله الشيخ وغيره على التقية ۔ يعني في الرواية ۔ لان إباحة المتعة من ضروريات مذهب الامامية، وتقدم ما يدل على ذلك ، ويأتي ما يدل عليه والاخير يحتمل النسخ والكراهة مع المفسدة.

وسائل الشيعة ,الجزء الحادي والعشرين ,تأليف ,الفقيه المُحْدّثِ الشيخُ مُحمّدْ بن الحسن الحُر العامليكح ,كتاب النككالاحكتاب النكاح ،أبواب المتعة

یہی حدیث استبصار اور تہذیب الاحکام میں بھی مروی ہے۔

(511) 5 فأما ما رواه محمد بن أحمد بن يحيى عن أبي الجوزا عن الحسين بن علوان عن عمرو بن خالد عن زيد بن علي عن آبائه عن علي (عل) قال: حرم رسول الله (صلى الله عليه وآله)لحوم الحمر الاهلية ونكاح المتعة.

فالوجه في هذه الرواية أن نحملها على التقية لانها موافقة لمذاهب العامة والاخبار الاولة موافقة لظاهر الكتاب وإجماع الفرقة المحقة على موجبها فيجب أن يكون العمل بها دون هذه الرواية الشاذة.
الاستبصار تأليف شيخ الطائفة ابى جعفر محمد بن الحسن الطوسى قده
الجزء الثالث أبواب المتعة۔ 92 باب تحليل المتع

قال الشيخ الطوسي قدس سره في تهذيب الأحكام: فإن هذه الرواية وردت مورد التقية وعلى ما يذهب إليه مخالفو الشيعة، والعلم حاصل لكل من سمع الأخبار أن من دين أئمتنا عليهم السلام إباحة المتعة، فلا يحتاج إلى الإطناب

اور اس حدیث کے بارے میں انہی کتابوں میں‌ لکھا ہے کہ یقینا یہ روایت تقیہ کے طور پر وارد ہوئی ہے، مطلب روایت سے مکمل انکار نہیں۔ جبکہ مہوش صاحبہ کے نزدیک یہ روایت قابل اعتبار ہی نہیں۔ اب سلف کے نظریات اور محترمہ کے نظریات میں‌ فرق خود ملاحظہ کر لیں۔ اس سے پہلے میں جناب شیخ قدوس رحمہ کی روایات کے بارے میں محترمہ کےخیالات اور لسف کے خیالات میں مکمل تضاد واضح کر چکا ہوں۔

اور مزے کی بات ہے کہ یہاں بھی گدھے اور متعہ کا ذکر اکٹھا ہے ؟؟؟ اور اس معاملے میں سلف کا نظریہ محترمہ سے زیادہ حقیقت پسندانہ اور منصفانہ اور عین انصاف ہے۔

أحمد بن محمد بن عيسى في ( نوادره ) : عن ابن أبي عمير ، عن هشام بن الحكم ، عن أبي عبدالله ( عليه السلام ) في المتعة قال : ما يفعلها عندنا إلا الفواجر .

احمد بن محمد بن عیسی با اسناد بالا بیان کرتے ہیں کہ ابو عبداللہ رحمہ سے متعہ کے بارے میں‌پوچھا گیا، کہا اس کے نزدیک نہ جاؤ یہ زنا ہے۔

نوادر أحمد بن محمد بن عيسى : 87 | 200 .
وسائل الشيعة ج21 9 ۔ باب عدم تحريم التمتع بالزانية وان أصرت
ص25 ص44

عن عبد الله بن سنان قال سألت أبا عبد الله عليه السلام عن المتعة فقال: (لا تدنس نفسك ب۔ها)

عبداللہ بن سنان روایت کرتے ہیں ابو عبداللہ سے متعلہ کے بارے میں‌ پوچھا گیا کہا۔ اپنے نفس کو اس سے گندہ مت کرو۔

بحار الأنوار 100/318

اور یقین رکھیے میں کچھ ثابت نہیں کرنا چاہتا نہ کسی سے کچھ منوانے کا شوق ہے اور یہ اچھی بات ہے کہ اس دھاگے میں اس موضوع سےمتعلق روایات اور دلائل اور خیالات اردو میں بمعہ حوالہ جات ایک جگہ اکھٹے ہو رہے ہیں۔

اوپر برادر نبیل نے ایک خواہش کا اظہار کیا تھا وہ اسی طرح‌ پوری ہو سکتی ہے کہ ہم لوگ ایک دوسرے کو سننے کے لیے تو تیار ہوں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اپنے اپنے خول سے تو باہر آئیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور جب یہ ہوگا تو ان شا اللہ خیالات پر جمی برف بھی پگھلے گی اور ایک راہ بھی مل جائے گی۔
بے شک آپ نے جو یہ دلائل دیئے وہ پہلے میری نظر سے نہیں گذرے تھے اور یہ اصول اربعہ سے ہی ہیں اور جیسا میں نے پہلے بھی کہا باوجود فقہی اختلاف کے میں آپ کے علم اور مطالعہ کا قائل ہوں اور اب تک یقین مانئے کہ آپ ہی ایک ایسے فریق یہاں نظر آئے جن کی بحث ایک اصولی بحث نظر آرہی ہے فرقہ وارانہ نہیں پر میرے بھائی جب آپ اتنے اصول کی باتیں کر رہے ہیں تو میری ایک بات تو سمجھیں جو میں نے مہوش بہن کیلیئے کہی تھی اور آپ میں سے کسی نے اسکو نہیں سمجھا اور وہ یہ ہے کہ متعہ کے حق میں صرف وہی دلائل دے رہی ہیں اور ابھی وہ ایک تحریر لکھتی ہیں یا کسی کا جواب دیتی ہیں تو انکے خلاف کوئی 5 تحاریر آجاتی ہیں آپ کو پتہ ہے بعض جگہ فی البدیہ جواب دیئے جاتے ہیں اور بعض جگہ مطالعہ بھی کرنا ہوتا ہے اور غور و فکر بھی میرا مطلب ہے کہ وہ ابھی ایک کا جواب ڈھوڈنتی ہیں تو 5 سوال اور آجاتے ہیں اور آپ کو پتا ہے سب آپ جیسے بھی نہیں ہیں اسلیئے میرا مطلب تھا کہ بحث سب کے درمیان نہیں بس چند ایک کے درمیان ہی رہنی چاہیئے ہاں جب ایک فریق کمزور پڑ جائے تو دوسرے سے مدد لے لے اور مہوش کے جواب نہ آنے تک انتظار کیا جائے اسطرح سب کی سمجھ میں بات آئے گی ورنہ صرف اور صرف یا تو بد تہذیبی ہوگی جیسی کہ ہوئی بھی یا عناد ہوگا۔
باقی رہی میری بات تو بھائی آپ کو کیا پتا میں اتنا سارا جو لکھتا ہوں اس میں آدھا دن نکل جاتا ہے میری اردو ٹائپنگ کی رفتار بہت ہی سست ہے ۔ دوسرے آج کل بہن بہت سخت بیمار ہیں تو انکو بہت وقت دینا پڑتا ہے اور سچی بات ہے میں زیادہ تر محفل میں ایسے دھاگے پڑھتا ہوں جس سے ذہن تھوڑا تازہ ہوجائے تھوڑی ڈپریشن کم کی جاسکے ۔ ہاں جیسے جیسے وقت ملا میں حاضر ہوتا رہوں گا
 

میر انیس

لائبریرین
اللہ آپ کا بھلا کرے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آپ نے بالکل ٹھیک کہا صرف تھوڑی سی تصیح کرلیجئے کہ اسیر مالٹا حضرت مولانا محمود الحسن رحمہ تھے۔

اور یہ کیا یہ نام تو بہت رکھا جاتا ہے اہل سنت کے ہاں۔ حسن رضی اللہ عنہ، حسین رضی اللہ عنہ، علی رضی اللہ عنہ، اور لڑکیوں میں جو سب سے پیارا اور بابرکت نام سمجھا جاتا ہے وہ ہے فاطہ رضی اللہ عنہ۔

اور ہر خطبے میں پکارا جاتا ہے علی کرم اللہ وجہ اور۔ حسن و حسین جنت میں‌ نوجوانوں‌ کے سردار ہوں گے۔ میرے ماں‌ باپ اولاد قربان حرمت رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور اہل بیت صلی اللہ علیہ وسلم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ نام تو ہم سب کے پیارے نام ہیں۔

ارے بھائی کس نے کہا کہ اہلِ سنت پنجتن پاک سے محبت نہیں کرتے ۔ وہ مشہورِ زمانہ منقبت جس نے سب کے دلوں پر راج کیا "میں تو پنجتن کا غلام ہوں" کس نے لکھی کس نے پڑھی سب ہمارے برادران اہل سنت ہی تو ہیں ارے بھائی ہم ایسے لوگوں کو مانتے ہی نہیں ہیں جن سے لوگ محبت نہ کریں وہ تو میں نے کہا تھا نہ کے صرف چند ایسے لوگ ہیں جو جہالت میں اندھے ہوکر ایسی باتیں کرتے ہیں ۔ کیونکہ جو عالم ہوگا وہ آپ کے پاس آئے گا تو علم باٹے گا اگر کوئی جاہل آئے گا تو جھگڑا اور فساد بانٹے گا ۔ بھئی جس کے پاس جو ہے وہ آپ کو وہی دے گا نا جو اس کے پاس ہے ہی نہیں تو وہ کہاں سے آپ کو دینے کیلیئے لائے گا۔ اب ایک اور عالم کی بات سنیئے اور جسطرح آپ محترم اسیر مالٹا کو پنہچانے تھے انکو بھی پنہچاننا ہوگا میں نام نہیں بتائونگا بہت بڑے عالم ہیں ان سے کسی نے سوال کیا کہ حضرت امام حسن (ع) اور حضرت امام حسین(ع) کی عظمت صحابہ کے درمیان کس مقام پر ہے تو آپ نے کہا صحابہ کی تو عظمت کی انتہا یہ ہے کہ سارے صحابہ آنحضرت کے شانہ بشانہ رہے اور حضرات حسنین کی عظمت شروع یہاں سے ہوتی ہے کہ آپ آنحضرت(ص) کے شانوں کے اوپر رہے۔ اب آپ سوچ رہیں ہونگے کہ یا تو انکے پاس وقت نہیں تھا اب جا ہی نہیں رہے پر جب میرے ایک بھائی نے ایک بات پر افسوس کیا ہے تو انکی غلط فہمی دور کرنا میرا فرض ہے اسلئے ایک واقعہ اور سنائوں گا کہ مولا علی کے بارے میں اہلِ سنت کا کیا عقیدہ ہے۔ دیکھیں پوری ذمہ داری کے ساتھ کہ رہا ہوں کہ بعض دفعہ ہمارے سنی بھائی مولا علی کی فضیلت بیان کرنے میں شیعوں سے بھی بہت آگے نکل جاتے ہیں ۔ میرے پاس وڈیو موجود ہے انڈیا کے ایک جشنِ مولود کعبہ کی اور اس میں ہو یہ رہا تھا کہ کہ ایک سنے عالم آتے وہ حضرت علی(ع) کے فضائل بیان کرتے اور آخر میں یہ کہ کر اتر جاتے کہ یہ روایت صحیح نہیں کہ آپ(ع) خانہ کعبہ میں پیدا ہوئے تھے پھر کوئی شیعہ عالم آتے اور وہ فضائل کے ساتھ یہ زوردیتے کہ آپ(ع) عین خانہ کعبہ میں پیدا ہوئے تھے اور یہ سلسلہ آخر تک چلتا رہا ان میں ایک دو سنی عالم بھی خانہ کعبہ والی روایت کے حق میں بول کر چلے گئے ۔ آخر میں جو ایک عالم آئے اہلِ سنت کے انہوں نے یہ کہ کر قصہ ہی پاک کردیا اب دیکھئے انکی بات کو غلط رنگ دیجئے گا اور یہ ایک شیعہ عالم کی بات نہیں سنی عالم کی بات ہے انڈیا کہ بہت بڑے عالم ہیں فرماتے ہیں کہ چلیں میں یہ مانتا ہوں کہ یہ بات ثابت نہیں ہوسکی کہ مولا علی (ع) کعبہ میں پیدا ہوئے تھے پر آپ یہ تو مانتے ہیں کہ وہ پیدا ہوئے تھے یا یہ بھی نہیں مانتے اگر وہ پیدا ہوئے تھے تو بھائی ہم کو وہ جگہ بتادیں کہ وہ کہاں پیدا ہوئے تھے تاکہ ہم وہیں کعبہ بنالیں اور اسکے گرد طواف شروع کردیں۔
 

گرائیں

محفلین
میں اب بھی یہی کہوں گا کہ آپ نے میری بات کا مطلب غلط ہی نکالا ہے اور بھائی میں کوئی خطیب نہیں ہوں ۔ میں تو بار بار آپ سے یہ کہ رہا ہوں کہ حضرت عمر(ر) نے متعہ پر پابندی لگوائی اور حضرت ابوبکر کے زمانے میں متعہ ہوتا رہا ۔ اور اگر آپ یہ کہتے کہ ہمارا یہ عقیدہ ہے کہ حضرت عمر(ر) معصوم عن الخطا ہیں تو میں آپ کے عقیدے کا احترام کرتا اور بحث وہیں ختم ہوجاتی کہ چونکہ حضرت عمر معصوم ہیں اسلئے ان سے کوئی بھی غلطی کا ہونا محال ہے اور اگر انہوں نے متعہ پر پابندی لگوائی تو وہ عین شریعت کے مطابق ہے ۔ میں نے پہلے بھی حضرت عمر کے لئے پابندی لگوانے یا متعہ سے منع کرنے کے الفاظ استعمال کیئے تھے اور اب بھی کر رہا ہوں کیوں کہ گناہ تو ہوتا ہے کسی حلال کام کو حرام کرنا پر کسی خاص مقصد کے لیئے کسی حلال کام کو عارضی طور پر روک دینا کہاں سے گناہ ہوگیا ایسے بہت سے فتوے آپ کو مل جائیں گے جس میں حلال کام کو روکا گیا ہو جسطرح انڈیا کہ ایک عالم نے ہندوستان میں قربانی کے خلاف فتوٰی دیا تھا


دیکھئے یہاں روایت میں اختلاف ہے اور یہ واقعہ دونوں طرح سے پیش ہوا ہے یہ روایت جس کتاب میں معہ حوالوں سے پیش ہوئی ہے وہ میری لائیبریری میں کہیں موجود ہے کیونکہ میں نے خود اپنی آنکھون سے اسکو دیکھا ہے آپ مجھ کو تھوڑی مہلت دیں آج کل میرے پاس کتابیں دیکھنے کا بالکل وقت نہیں ہے پر میرا وعدہ ہے اس روایت کا حوالہ ضرور دونگا۔

سوال گندم جواب چنا۔ :rollingonthefloor::rollingonthefloor::rollingonthefloor:

بہر حال اب جب کہ کچھ ہی دن میں شائد اس دھاگے کو بھی مقفل کر دیا جائے، میں کسی اور قسم کی غیر ضروری بحث کا آغاز نہیں‌کرنا چاہتا۔ مجھے جو جاننا تھا میں‌جان چکا ہوں۔
 

dxbgraphics

محفلین
میرے بھائی آپ یقین کریں دونوں طرف سے ایسا ہی ہے
۔
تقیہ
قران کی تحریف کا عقیدہ بھی ہم پر الزام ہی ہے ورنہ دوسرے فرقوں کی طرف سے بھی ایسے عالم گزرے ہیں
اہل تشیع کے چار متقدمین علماء کے علاوہ تمام اس بات پر پکا عقیدہ رکھتے ہیں۔ نیز باقی علماء کے مطابق ان چاروں نے بھی تقیہ کی بنیاد پر اس کو غیر تحریف شدہ مانا ہے۔
آپ اگر ایران جائیں اور بے شک کوئی بھی دروازا کھٹکھٹا کر اس سے قران منگوا کر دیکھ لیں کہ وہ کونسا قران ہے
ایران جانے کی کیا ضرورت ہے جنب کسی بھی نیوز ایجنسی سے 12 دسمبر 1987 کا روزنامہ جنگ راولپنڈی نکلوا لیں جس کی سپر لیڈ یہی ہے کہ خانہ فرہنگ ایران سے تحریف شدہ قران کے نسخے حکومت پنجاب نے ضبط کر لئے جس کے متن میں تحریف پائی گئی۔ اور لعباد علی، علی ابن طالب وغیرہ کے الفاظ اضافی تھے۔ میرے پاس سکین شدہ پڑا ہوا ہے لیکن وقت کی کمی کے باعث تلاش نہیں کر پایا۔

یہ دھاگہ اس بات کے لیئے نہیں ہے اور نہ ہی میں اپنے آپ کو کسی بحث میں الجھانا چاہتا ہوں
واقعی میں بھی اعتراف کرتا ہوں کہ یہ دھاگہ اس بات کے لئے نہیں۔ لیکن جیسا کہ آپ نے شکوہ کیا ۔تو میرے پاس جو الفاظ تھے وضاحت کے لئے میں نے پیش کر دیئے ۔

شیعہ سنی میں پھوٹ ڈالنے والا نہ ہی شیعہ ہے نہ سنی بلکہ وہ تو استعمار کا ایجینٹ ہے
امام خمینی کی تصنیف کشف الاسرار کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے

شکریہ
مع السلام
 

S. H. Naqvi

محفلین
انیس صاحب آپ خواہ مخواہ بحث کو غلط رخ پر لے کر جا رہے ہیں‌ براہ مہربانی اپنی توجہ موجودہ موضوع پرہی رکھیں جہاں تک مہوش صاحبہ کے اکیلا ہونے کی بات کی تو ہم نے کوئی پابندی تو نہیں لگائی کہ کوئی دوسرا ان کے ساتھ نہ آئے؟؟ جو بھی آنا چاہے بلا روک ٹوک آئے مگر ایک گزارش کہ صرف مو ضوع پر ہی بحث کی جائے اور اسی حوالے سے دلیلیں دی جائیں۔ باقی آپ مہوش صاحبہ کی غیر موجودگی کے خلاء کو اس طریقے سے پر کرنا چھوڑ دیں کہ تھریڈ بند کرنے کی نوبت آ جائے، دوسرا آپ نے شاید اپنے مذہب کے بارے میں ہی زیادہ غور نہیں کیا جو اس طرح دلیلیں مانگ رہے ہیں اس کے لیے آپ کسی اور فورم کو چنیں (عنقریب ہم ایک اپنا لمیٹڈ فورم بنا رہے ہیں اس پر بھی سب سے پہلے آپ کو دعوت ہو گی( کہ کہیں‌ایسا نہ ہو کہ بات نکلے تو پھر دور تلک چلی جائے اس لیے "محفل" کے ماحول کو خوشگوار رکھتے ہوئے ایسی دلیل مانگنے سے گریز کریں جو ازاں بعد آپ ہی کے گلے پڑ جائے۔ :) 
 

مہوش علی

لائبریرین
معذرت کہ اس گفتگو کے لیے وقت بالکل نہیں نکل سکا اور ایک دفعہ جو ربط ٹوٹا تو پھر کئی دن تک جڑ نہیں پایا۔
اللہ نے توفیقات میں اضافہ فرمایا تو اس ہفتے آہستہ آہستہ باقی بچے کھچے اعتراضات کے جوابات دینا شروع کروں گی۔ انشاء اللہ۔
 

مہوش علی

لائبریرین
از شوکت کریم:
من لا یحضرۃ الفقیہ جلد سوم ۔ 4543۔ محمد بن فضیل نے شریس وابشی سے انہوں نے جابر سے انہوں نے حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے روایت کہ ہے ان کا بیان ہے کہ آنجناب نے مجھے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے غیرت عورتوں کے لئے قرار نہیں دی ہے بلکہ غیرت مردوں کے لیے قرار دی ہے۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے مرد کے لیے چار آزاد عورتیں حلال کر دی ہیں اور ان کے علاوہ جو اس کی ملکیت میں کنیزیں ہیں (وہ بھی حلال ہیں) مگر عورت کےلیے تنہا اس کا ایک شوہر حلال ہے۔ پس اگر وہ اپنے شوہر کے ساتھ کسی غیر کو بھی چاہے تو وہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک زانیہ ہو گی۔
صریحٓا چار عورتوں آزاد عورتوں کا ذکر ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور پھر لونڈیوں کا‌!!1 اور اس کتاب اور شیخ صدوق رحمہ کی ثقاہت کے بارے میں‌‌اوپر بہت کچھ لکھا جا چکا ہے جو کہ کسی بھی اعتراض کو رد کرنے کےلیے کافی ہے۔

قرآن اور حدیث کا مکمل طریقہ یہ ہے کہ ایک بات کے مختلف جُز کئی کئی جگہ بیان ہوتے ہیں اور ان سب کو اکھٹا کر کے مکمل بات کو سمجھا جاتا ہے۔
مگر ادھر شوکت بھائی صاحب الٹی گنگا بہا رہے ہیں اور اسکی وجہ ہمیں معلوم ہے۔
آئیے اس روایت مکمل جائزہ لیتے ہیں اور جو طریقہ شوکت بھائی صاحب نے آزمایا ہے، اس سے تو ایک کیا بیسیوں حلال اللہ کو حرام بنایا جا سکتا ہے۔

1۔ اس روایت میں کہیں پر بھی عقد المتعہ کو حرام نہیں بتلایا جا رہا ہے۔
2۔ بلکہ صرف ایسی عورتوں کا ذکر ہے جو کہ عام طور پر معاشرے میں موجود ہیں اور اس روایت کا موضوع تعلقات کی مختلف اقسام نہیں بلکہ عورت اور مرد کی "غیرت" کا فرق ہے۔
3۔ اگر شوکت بھائی صاحب کے یہ Tactics استعمال کیے جائیں تو ذیل کے حلال اللہ کو بھی حرام قرار دے دیں۔
پہلا یہ کہا جا رہا ہے کہ اللہ نے مرد کے لیے صرف چار عورتیں حلال کر دیں۔ تو اس کو بنیاد بناتے ہوئے فتوی دے دیں کہ طلاق حرام ہے۔۔۔ یا پھر طلاق یافتہ عورت بھی ان چار عورتوں میں شامل ہے اور مرد مجموعی طور پر صرف اور صرف 4 آزاد عورتوں سے نکاح کر سکتا ہے، چاہے اب ان میں سے کسی کو طلاق دے یا نہ دے، مگر یہ طلاق یافتہ عورتیں پھر بھی ان 4 آزاد عورتوں میں شمار ہوتی رہیں گی۔
دوسرا پھر ان لونڈیوں کا ذکر ہے جو ملکیت میں ہیں۔ ۔۔۔۔ مگر پھر اُن لونڈیوں کا کیا جو کہ ملکیت میں تھیں، اُن سے جماع کیا گیا اور پھر آگے بیچ دیا گیا؟
اور تیسرا یہ کہا گیا کہ عورت کے لیے صرف ایک مرد ہے اور باقی زانیہ عورتیں ہیں۔۔۔۔ تو پھر اس بنیاد پر لگا دیجیے طلاق یافتہ عورت پر زانیہ کا فتوی جو دوسرے مرد سے شادی کر کے اُسے اپنے اوپر حلال کرے۔ یا پھر بیوہ عورت پر بھی جو دوسرے مرد سے نکاح کرنا چاہے، ۔۔۔ اور اُن تمام کنیز عورتوں پر بھی جو ایک مالک سے فروخت ہو کر دوسرے مالک کی ملکیت میں گئی ہوں۔

خیبر والی روایت کی تکرار

از شوکت کریم:
(26387) 32 ۔ محمد بن الحسن بإسناده عن محمد بن أحمد بن يحيى، عن أبي جعفر، عن أبي الجوزاء، عن الحسين بن علوان، عن عمرو بن خالد، عن زيد بن علي، عن آبائه عن علي (عليهم السلام) قال: حرم رسول الله (صلى الله عليه وآله) يوم خيبر لحوم الحمر الاهلية ونكاح المتعة.

مجھ پر تو فورا توپ کے گولے شروع ہو جاتے ہیں کہ میں دلائل کی تکرار کر رہی ہوں، مگر خود آپ اپنے رویے پر نظر نہیں کرتے۔
خیبر والی روایات پر لمبی چوڑی جرح میں پیش کر چکی ہوں بمع بذات خود اہلسنت علماء کے لسٹ کے اور انکے اس روایت پر اعتراضات کے، مگر آپ کو فقط دوسروں پر اعتراضات نظر آتے ہیں اور اپنی آنکھ کا شہتیر نظر نہیں آ رہا۔

شیعہ کتاب میں خیبر کے متعلق اس ایک روایت پر آپ نے اتنا اُدھم مچایا ہوا ہے۔۔۔۔ مگر جب قرآنی آیت پر آپکی کتابوں سے روایات کا پورا دفتر دکھایا گیا تو وہ آپ نے مکمل طور پر ہضم کر لیا۔۔۔۔ پھر آپ کو آپکی اپنی کتابوں کی بے تحاشہ روایات دکھائی گئیں کہ رسول اللہ ص کے زمانے میں عقد المتعہ کے لیے "استمتاع" کی اصطلاح استعمال ہوتی تھی، مگر وہ بھی مکمل ہضم اور جنہیں برا بھلا کہتے تھے، وہی منکر حدیث اب استمتاع کے معاملے میں تقلید کے امام ٹہرے۔۔۔۔ ایک خیبر والی روایت ہماری کتاب میں موجود تو اُس پر اتنا شور، مگر ابن عباس اور جابر بن عبداللہ انصآری اور ابو نضرہ، قتادہ، عطاء، عروۃ بن زبیر وغیرہ کی گواہیوں کی کوئی اہمیت ہی نہیں جو آپکی اپنی کتابوں میں درج کہ انہیں نصف صدی گذر جانے کے باوجود کسی ایسے واقعے کا علم نہیں کہ جہاں رسول اللہ ص نے عقد المتعہ کو حرام ٹہرایا ہو۔

اسی لیے تو میں کہتی ہوں کہ آپ کے یہ دہرے رویے وہ ہیں کہ جس کے بعد انسان کو دوسرے کی آنکھ کا تنکا تو نظر آتا ہے، مگر اپنی آنکھ کا شہتیر نہیں۔ آپ بے شک اپنے پر ہزار خون معاف کر لیں، مگر اس سے حقیقت بدلنے والی تو نہیں۔

خیبر والی روایت پر مزید جرح:

1۔ اس خیبر والی روایت کا ایک روای ہے "حسین بن علوان"، جس کے متعلق رجال کشی میں صاف لکھا ہے "یہ عامۃ " سے تعلق رکھتا ہے (یعنی غیر شیعہ ہے)۔

2۔ اور دوسرا شخص ہے "عمرو بن خالد" جو کہ پھر غیر شیعہ ہے۔ اور اس شخص پر جو آپ لوگوں نے اتنا تکیہ کر کے یہ شور مچایا ہوا ہے، تو اس کی حقیقت آپ پہلے اپنی کتابوں میں تو دیکھ لیں۔ اس شخص کے متعلق آپکے اپنے عظیم عالم حافظ حدیث، علامہ ابن حجر العسقلانی لکھتے ہیں کہ عمرو بن خالد "متروک" ہے۔ اور آپ ہی کے دوسرے فن رجال کے بڑے عالم دین یحیی بن معین اسکے متعلق لکھتے ہیں کہ یہ شخص "کذاب" ہے۔ اور ابو زرعۃ اسکے متعلق لکھتے ہیں کہ عمرو بن خالد احادیث کو "گھڑا" کرتا تھا۔

اور غیر اہل تشیع کی روایات ہماری کتب میں موجود ہیں۔ رجال کشی میں موجود ہے:

Rijal Kashi, Volume 2 page 855:
Ibn Shaza said: 'My father [ra] asked Muhammad bin Abi Umair: 'You met many A'ama (i.e. Non Shia) scholars, how come you didn't hear (hadith) from them?' He replied: 'I heard (hadith) from them, but I saw many of our (Shia) companions heard from the A'ama (i.e. Non-Shia) narrations and Khasa (Shia) narrations, then they mixed up until they attributed the narrations of A'ama (non-Shias) with the Khasa (Shia) and the narrations of Khasa (Shia) with the A'ama (non-Shias), therefore I disliked to mix up the traditions, so I left that and remained on that (narrating only from Shia).'

مجھے پتا ہے کہ آپ کو پھر یہ جرح نظر آنی والی نہیں کیونکہ سالہا سال سے میں یہ ہی دیکھتی آ رہی ہوں کہ مخالفین اس روایت کے حوالے سے فقط "تقیہ" کا ذکر کرتے ہیں، مگر آگے اس روایت پر کی گئی مزید جرح کو مسلسل نظر انداز کر جاتے ہیں۔

اور تقیہ کے حوالے سے بھی نام حضرت علی کا لگاتے ہیں، حالانکہ تقیہ کا شبہ ان راوی حضرات میں سے کسی کے متعلق کیا جا رہا ہے کہ ہو سکتا ہے کہ ان میں سے کسی کو جان کے خوف سے ایسا کرنا پڑا ہو کیونکہ حضرت عبداللہ ابن زبیر ہو یا بنی امیہ یا بنی عباس کے خلفاء، یہ سب کے سب عقد المتعہ پر ائمہ اہلبیت کے مؤقف سے واقف تھے اور اس لیے کوفہ وغیرہ کو چھوڑ کر بقیہ جگہوں پر انتہائی سختی رکھتے تھے اور کئی روایات موجود ہیں جہاں ائمہ اہلبیت نے اسی لیے مدینہ وغیرہ میں اپنے شیعوں کو سختی سے عقد المتعہ کے لیے منع کیا ہوا تھا۔

اور شیخ طوسی کہ جنہوں نے اس روایت کو خود اپنی کتاب "تہذیب الاسلام" میں نقل کیا ہے، وہ اسکو نقل کرنے کے بعد خود کہہ رہے ہیں کہ:
"یہ روایت بر مبنی تقیہ ہے کیونکہ یہ (خیبر میں ممانعت کا) عقیدہ ہمارے مخالفین کا ہے۔ اور جو علم رکھتے ہیں وہ اس سے ہوشیار رہیں کیونکہ ائمہ اہلبیت کے نزدیک بلاشبہ عقد المتعہ بالکل مباح ہے۔"
حوالہ: تہذیب الاحکام، جلد 7، صفحہ 251، حدیث (1085)10


خیبر کے دن عقد المتعہ کب حرام کیا گیا؟


اللہ تعالی نے شریعت کو ایک دن میں نازل نہیں کر دیا۔
نہیں، بلکہ اللہ تعالی نے آہستہ آہستہ، بہت حکمت کے ساتھ، مسلمانوں کی زندگی میں رونما ہونے والے واقعات کے ساتھ ساتھ آیات کا نزول فرمایا۔ اسی حکمت کی وجہ سے جب کوئی آیت یا حکم نازل ہوتا تو لوگوں کو اس سے منسلک واقعہ کا بھی علم ہوتا اور یوں یہ احکامات ان کے ذہنوں میں اچھی طرح محفوظ ہو جاتے۔

آئیے ذرا اب "یوم خیبر" پر پیش آنے والے واقعات پر ایک نظر ڈالتے ہیں:

1۔ خیبر کے دن اللہ کا رسول ﷺ صبح سے ہی یہودیوں کے ساتھ مصروف ہیں۔ مسلمان فوج بھی تیار کھڑی ہے۔
2۔ پھر یہودی اپنی شکست تسلیم کرتے ہیں
3۔ پھر صلح کی شرائط پیش ہوتی ہیں۔
4۔ پھر صلح کے بعد مسلمان مال غنیمت اکھٹا کرنا شروع کرتے ہیں۔
5۔ پھر اسی دوران صحیح مسلم کی روایت کے مطابق صحابہ کچھ پالتو گدھوں کو وہاں پر پکڑ کر بغیر مال غنیمت نکالے ذبح کر کے پکانا شروع کر دیتے ہیں۔
6۔ پھر اللہ کے رسول ص کی طرف سے پالتو گدھے کے گوشت کھانے کی ممانعت آ جاتی ہے اور سارا کھانا پھینک دیا جاتا ہے، اور پھر دوبارہ سے کھانا بنانا شروع کیا جاتا ہے۔

تو ذرا سوچئیے کہ خیبر کے اس پورے مصروف ترین دن میں وہ کونسا وقت تھا جب کہ عقد المتعہ کا کوئی واقعہ پیش آیا ہو اور رسول اللہ ص نے اسکی ممانعت کی ہو؟

******************

پرانے اعتراضات کی تکرار پر تکرار
از شوکت کریم:
عن عبد الله بن سنان قال سألت أبا عبد الله عليه السلام عن المتعة فقال: (لا تدنس نفسك ب۔ها) (بحار الأنوار 100/31.
عبداللہ بن سنان بیان کرتے ہیں کہ میں نے ابو عبداللہ سے متعہ کے بارے میں پوشھا تو انہوں نے کہا مت گندہ کرو اپنے نفس کو اس سے۔

مجھ پر یکطرفہ توپ کے گولے چلانے والے حضرات ذرا اپنی انہی پرانے اعتراضات کی تکرار کی طرف کیوں نہیں دیکھ لیتے؟

اس روایت کے متعلق تفصیل سے بیان کیا جا چکا ہے۔
از مہوش علی:
علامہ مجلسی نے یہ روایت ایک النوادر نامی کتاب سے نقل کی جس کے مصنف ہیں احمد بن محمد بن عیسیٰ الاشعری جنھوں نے متعہ کے حلال ہونے کے بارے میں بہت سی روایات درج کی ھیں۔ امام جعفر صادق علیہ السلام کا بیان خاص پس منظر میں عبداللہ بن سنان کے لیئے تھا جو کہ ایک شادی شدہ تھے اور محض جنسی تسکین کے لیئے متعہ کرنا چاھتے تھے۔ اسی لیئے امام (ع) نے اسے اس کے خلاف مشورہ دیا کیونکہ یہ اُن کے لیئے غیر ضروری تھا، بالکل اسی طرح امام رضا علیہ السلام نے اپنے ساتھی ابن یقطین کو بھی، جو ابن سنان کی طرح شادی شدہ تھے، متعہ کے سوال پوچھنے پر کہا تھا کہ:
"تیرا اس سے کیا کام کیونکہ تجھے اللہ نے اس کی ضرورت سے بے نیاز کر دیا ہے (نکاح دائمی والی بیویوں کی موجودگی کی وجہ سے)"
لہٰذا امام (ع) کے قول کی روشنی میں بیوی موجود ہونے کی صورت میں متعہ سے پرھیز کیا جائے۔ کہ کہیں ایسا کرنے سے وہ شخص عورتوں کے حقوق نہ پورے کر سکے اور مشکلات سے دوچار ہو جائے۔
اسی بارے میں امام رضا (ع) کی ایک اور حدیث ملاحظہ ہو:امام ابو حسن (ع) کا ارشاد ہے:
"متعہ حلال مباح مطلق ہے، اس مرد کے لیئے جسے اللہ نے نکاح کے ذریعے اس سے بے نیاز نہ کر دیا ہو۔ اس لیئے متعہ کے ذریعے پاکیزگی کے طالب رہو۔ اگر اللہ نے تمہارے لیئے اسے غیر ضروری بنا دیا ہے، تو اس کی صرف اس صورت میں اجازت ہے کہ تمہاری بیوی تک تمہیں رسائی حاصل نہ ہو۔"
حوالے:

1۔ الکافی، ج 5 ص 453 حدیث 22۔ 2۔ وسائل الشیعہ ، ج 21 ص 22 حدیث 26421

اور پھر سب سے اہم بات جو تمام شکوک کو رفع کر دیتی ہے، وہ یہ کہ اہل تشیع کی مستند کتاب مستدرک الوسائل جلد 14 صفحہ 455 پر عبداللہ ابن سنان کی یہ روایت جس باب کے ذیل میں مروی ہے اس باب کا نام ہے "متعہ کی غیر پسندیدگی جب اس کی ضرورت نہ ہو اور جب اس سے کراہت پیدا ہو اور عورتوں سے نا انصافی ہوتی ہو" چنانچہ شعوری طور پر یہ بات عین قرآن کے مطابق ہے کہ جہاں اللہ تعالی فرماتا ہے:
"اور اگر تم کو اندیشہ ہو کہ تم یتیم لڑکیوں میں انصاف نہ کر سکو گے تو عورتوں سے اپنی مرضی کے موافق دو دو اور تین تین اور چار چار نکاح کرو پھر اگر تمہیں اس کا اندیشہ ہو کہ تم انصاف نہ کر سکو گے تو ایک ہی پر اکتفا کرو یا جو تمہاری زرخیز ہو یہ تدبیر بے انصافی نہ کرنے کی بہت قرین قیاس ہے اور عورتوں کو ان کے مہر خوشی خوشی دے ڈالو پھر اگر وہ خوشی خوشی تمہیں کچھ چھوڑ دیں تو شوق سے نوش جاں کھاؤ پیؤ۔ (سورۃ النساء) (4:3)"
اوپر جو علی بن یقطین والی روایت کا مختصر ذکر ہوا ہے، اسکا مکمل متن یہ ہے:
علی بن یقطین سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا کہ انہوں نے امام اباالحسن (ع) سے عقد المتعہ کے متعلق سوال کیا تو آپ (ع) نے فرمایا: 'تیرا اس سے کیا کام ہے جب اللہ نے اسے تیرے لیئے غیر ضروری بنا دیا ہے (کیونکہ علی بن یقطین کی دائمی نکاح والی بیویاں موجود تھیں)؟' میں نے کہا کہ میں تو صرف اس کے متعلق جاننا چاہتا تھا۔ انہوں نے جواب دیا: 'اس کی اجازت کے متعلق علی (ع) کی کتاب میں درج ہے'
1۔ الکافی، ج 5 ص 442
2۔ وسائل الشیعہ ، ج 21 ص 22 حدیث 26420

اور جو لوگ آج مسلسل پھر ہم پر الزام لگا رہے ہیں کہ عقد المتعہ سے خاندانی زندگی ٹوٹ پھوٹ جائے گی اور چینی اور دنیا کے دیگر معاشروں کے تمام تر گناہوں کا بوجھ آج عقد المتعہ کی جھولی میں ڈال رہے ہیں، کاش کہ وہ ایسے غلط الزامات لگانے کی بجائے انصاف سے ہماری دلائل کو بھی دیکھ سکیں۔ اور انکی سب سے بڑی غلطی یہ ہے کہ مخالفت میں آ کر یہ مستقل طور پر رسول اللہ ص کی نص کو نظر انداز کر رہے ہیں جہاں عقد المتعہ میں موجود محصنین و غیر مسافحین اور دیگر محارم عورتوں اور عدت وغیرہ کی حدود و قیود کی وجہ سے خود رسول اللہ ص گواہی دے رہے ہیں کہ عقد المتعہ اسلامی شریعت پاکیزہ طیبات و حلال چیزوں کی طرح ہے۔ حیرت ہے کہ ہم پر الزام لگایا جا رہا ہے کہ ہم پچھلی نصوص کو "دہرا" رہے ہیں، مگر کاش آپ لوگوں نے دیکھا ہوتا کہ آپ لوگ "مسلسل" اپنی اس "غلطی" کو "دہرا" رہے ہیں جہاں آپ مسلسل رسول اللہ ص کی اس نص کو نظر انداز کر کے اور پھر اپنے قیاسی گھوڑے دوڑا کر دنیا میں ہونے والے ہر گناہ کی ذمہ داری عقد المتعہ کی جھولی میں ڈال رہے ہیں۔
ترجمے میں بددیانتی


از شوکت کریم:
أحمد بن محمد بن عيسى في ( نوادره ) : عن ابن أبي عمير ، عن هشام بن الحكم ، عن أبي عبدالله ( عليه السلام ) في المتعة قال : ما يفعلها عندنا إلا الفواجر .
احمد بن محمد بن عیسی با اسناد بالا بیان کرتے ہیں کہ ابو عبداللہ رحمہ سے متعہ کے بارے میں‌پوچھا گیا، کہا اس کے نزدیک نہ جاؤ یہ زنا ہے۔
نوادر أحمد بن محمد بن عيسى : 87 | 200 .
وسائل الشيعة ج21 9 ۔ باب عدم تحريم التمتع بالزانية وان أصرت
ص25 ص44

"الفواجر" اور "زنا" میں فرق

محترم شوکت بھائی صاحب،
افسوس ہوا آپکی طرف سے یہ غلط ترجمہ دیکھ کر۔ اگر غلطی سے کیا تب اپنی تصحیح فرمائیے، اور اگر جان بوجھ کر تھا تو اللہ آپ کے اعمال پر بہترین گواہ ہے۔

اور روایت کا صحیح ترجمہ یہ ہے:
امام جعفر الصادق نے متعہ کے متعلق ہشام سے کہا: "یہاں (عربی لفظ "عندنا") پر صرف فاجرہ (فاجرہ عورتیں یعنی دھندہ کرنے والی گندی عورتیں) ہی یہ کرتی ہیں۔"
حوالہ: بحار الانوار، جلد 100، صفحہ 318

یہ روایت احمد بن محمد بن عیسی کی کتاب النوادر سے لی گئی ہے جس میں بے تحاشہ روایات عقد المتعہ کے جواز میں موجود ہیں۔ اب مخالفین اس روایت کو اپنے سیاق و سباق سے نکال کر اسکا غلط استعمال کر کے اس سے عقد المتعہ کو حرام ثابت کرنا چاہتے ہیں۔
اس روایت میں لفظ "عندنا" استعمال ہوا ہے جسکا واضح مطلب ہے کہ امام جعفر ایک خاص وقت یا جگہ کے حالات کے حوالے سے گفتگو کر رہے ہیں۔
اس روایت اور اس میں "عندنا" کے لفظ کی مزید وضاحت دوسری روایات میں ہو جاتی ہے جہاں فرمایا جا رہا ہے کہ اُس خاص جگہ یا وقت میں سختی یا اور وجوہات کی بنا پر عقد المتعہ کا رواج معاشرے سے ختم ہو چکا تھا اور اس وجہ سے ایسی عورتیں کا معاشرے میں اضافہ ہو گیا تھا کہ جن کا پیشہ ہی زناکاری تھا اور ان زناکار عورتوں کے لیے سب کچھ برابر تھا کہ کوئی انکے ساتھ آ کر براہ راست زنا کرے، یا نکاح کر کے ایک رات بعد طلاق دے دے یا پھر عقد المتعہ کرے، ان عورتوں کو بس پیسہ بنانا ہے اور یہ عدت کی قید کی پابندی کریں گی اور نہ محصنین کی قید کی۔ چنانچہ ایسی زناکار عورتیں جو فاجرہ ہیں (اور عدت و محصنین اور دیگر حدود و قیود کا خیال نہیں رکھتیں) ان نے نکاح ہو یا متعہ، سب حرام ہے۔

امام سے روایت ہے:
4585 - وروى الحسن بن محبوب، عن أبان، عن أبي مريم عن أبي جعفر عليه السلام قال، " إنه سئل عن المتعة، فقال: إن المتعة اليوم ليست كما كانت قبل اليوم، إنهن كن يؤمن يؤمئذ، فاليوم لا يؤمن فاسألوا عنهن

امام جعفر صادق سے عقد المتعہ کے متعلق دریافت کیا گیا جس پر آپ نے جواب دیا کہ "آجکل" (الیوم) عقد المتعہ ویسا نہیں رہ گیا ہے جیسا کہ پہلے دنوں میں ہوا کرتا تھا (یعنی پاکدامن محفوظ عورتیں عقد المتعہ کو حلال جانتے ہوئے راضی ہو جاتی تھیں)۔ چنانچہ آجکل اس پر ایسے یقین نہیں کیا جاتا چنانچہ (جن عورتوں سے تم متعہ کرو) انکے متعلق پوچھ لیا کرو۔
حوالہ:
من لایحضرہ الفقیہ، جلد 3، صفحہ 292، حدیث 4585
الکافی، جلد 5، صفحہ 453، حدیث 2
تہذیب الاحکام، جلد 7، صفحہ 251، حدیث (1048) 09
شیخ باقر نے اس روایت کو اپنی کتاب "صحیح من لا یحضرہ الفقیہ" میں صحیح قرار دیا ہے۔

پچھلے زمانے سے مراد یہ ہے کہ رسول اللہ ص کے زمانے سے لیکر حضرت عمر کے زمانے تک معاشرے میں عقد المتعہ کو مطلق حلال جانا جاتا تھا اور سفری حالات وغیرہ کے تحت بھی پاکدامن عورتیں عقد المتعہ کے لیے مل جاتی تھیں۔ حضرت عمر کی ممانعت کرنے کے باوجود مکہ و یمن وغیرہ کے علاقوں میں حضرت ابن عباس اور اُنکے بعد انکے شاگردوں کے اثر کے تحت دوسری صدی تک عقد المتعہ کو حلال اللہ سمجھا جاتا رہا۔ مگر اسکے بعد معاشرے میں ایسا پروپیگنڈہ کیا گیا کہ جسکے بعد ہر جگہ عقد المتعہ حرام سمجھا جانے لگا اور ناممکن ہو گیا کہ پاکدامن عورتیں عقد المتعہ کے لیے مل سکیں، مگر اس سے معاشرے میں زناکاری پھیلی تو پھر معاشرے میں دھندہ کرنے والی زناکار عورتیں باآسانی میسر ہو گئیں جو پیسہ کمانے کے لیے زنا ہو یا متعہ یا ایک رات کے بعد طلاق دینے والی شادی، سب کے لیے آسانی سے ہاں بھی کر دیں گی، مگر ان سے ہوشیار رہو کہ یہ فاجرہ عورتیں ہیں کہ جو عقد المتعہ کے لیے اللہ کی نازل کردہ حدود و قیود کا کبھی خیال نہیں رکھیں گی۔

اسلام کا ایک بنیادی اصول تھا کہ عورت کی اپنی گواہی اسکے اپنے چند معاملات میں کافی ہے۔ مثلا اگر عورت کہے کہ وہ غیر شادی شدہ ہے، یا وہ عدت سے پاک ہو چکی ہے، یا اسکو حمل نہیں ہے، تو عورت کی اس گواہی کا اعتبار کیا جائے گا۔ اور اس میں مسلمان یا اہل کتاب عورت کی قید نہیں کہ اگر اہل کتاب عورت بھی کہے کہ وہ استبرائے رحم کر چکی ہے تو اسکی گواہی کے بعد اس سے شادی کی جا سکتی ہے۔ چنانچہ اسلام کا عام اصول تو یہ ہی ہے کہ عورتوں کی گواہی پر اعتبار کیا جائے۔

مگر دین اسلام میں جمود نہیں، اور حالات کے تحت ایسے "معاملاتی احکامات" میں ضرورت کے تحت تبدیلیاں ہو سکتی ہیں (جیسا کہ آج ایران میں عقد المتعہ کی رجسٹریشن کا معاملہ ہے)۔ چنانچہ جب تک رسول اللہ ﷺ کے دور سے لیکر ابن عباس کے شاگردوں کے دور تک میں معاشرے میں عقد المتعہ کا رواج رہا اور زناکاری نہیں پھیلی اور عورتیں پاکدامن رہیں، اُس وقت تک عورتوں کی گواہی کو کافی اہمیت دی گئی، مگر جب فاجرہ عورتوں کی تعداد بڑھی اور خطرہ پیدا ہوا کہ وہ فاجرہ عورتیں اس گواہی کا غلط استعمال کر سکتی ہیں، تو پھر امام نے حکم دیا کہ اب عورتوں کے متعلق استفسار کرو کہ ان کا کردار کیسا ہے۔

محمد بن فیض کا بیان ہے کہ امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا:
ایاکم والکم اشف والدواعی والبغایا رزوات الازواج قلت وما الکواشف ؟قال اللواتی یکاشفن و بیوتھن و یوتین قلت فالدواعی قال اللواتی یدعون الی انفسھن و قد عدفن بالفساد قلت نالبغایا؟ قال المعر وفات بالذنا قلت فذوات الازواج قال المطلقات علی غیر السنۃ
ترجمہ:
دیکھو تمہیں متعہ میں پرہیز کرنا چاہئے کواشف سے اور دواعی سے اور بغایا سے کواشف وہ کہ جو ظاہر بظاہر فعل حرام کا ارتکاب کرتی ہیں اور ان کے مکانات عام طور پر معلوم ہیں اور وہاں لوگ جایا کرتے ہیں ۔۔۔۔۔ اور دواعی وہ کہ جو خود دعوت دیتی ہیں اور فساد و خرابی کے ساتھ مشہور و معروف ہیں ۔۔۔۔ اور بغایا وہ جو زنا کاری کے کے ساتھ مشہور ہیں نیز ذوات الازواج ہیں اور وہ وہ ہیں کہ جنہیں طلاق صحیح طریقہ پر نہیں دیا گیا ہے۔
اورامام رضا نے فرمایا: اذا کانت مشھودۃ بالزنا نلا یتمتع منھا ولا یکنحھا
ترجمہ:
اگر عورت ایسی ہو کہ زنا کاری میں مشہور ہے تو اس سے نہ نکاح کیا جائے نہ متعہ
چند روایات میں زانیہ عورت سے کراہت کے ساتھ عقد (نکاح ہو یا متعہ) کی اجازت بھی دی گئی ہے، مگر شرائط کے ساتھ کہ جب عورت اپنے گناہوں سے توبہ تائب کر کے پاک صاف زندگی گذارنے کا وعدہ کر رہی ہو اور اسلام کی حدود و قیود کی پاسدارہ کا عہد کر رہی ہو)۔ بہرحال یہ الگ موضوع ہے اور اس پر پہلے گفتگو ہو چکی ہے جہاں اہلسنت علماء کی روایات اور فتاوی کے ریفرنسز پیش کیے جا چکے ہیں۔
 

میر انیس

لائبریرین
انیس صاحب آپ خواہ مخواہ بحث کو غلط رخ پر لے کر جا رہے ہیں‌ براہ مہربانی اپنی توجہ موجودہ موضوع پرہی رکھیں جہاں تک مہوش صاحبہ کے اکیلا ہونے کی بات کی تو ہم نے کوئی پابندی تو نہیں لگائی کہ کوئی دوسرا ان کے ساتھ نہ آئے؟؟ جو بھی آنا چاہے بلا روک ٹوک آئے مگر ایک گزارش کہ صرف مو ضوع پر ہی بحث کی جائے اور اسی حوالے سے دلیلیں دی جائیں۔ باقی آپ مہوش صاحبہ کی غیر موجودگی کے خلاء کو اس طریقے سے پر کرنا چھوڑ دیں کہ تھریڈ بند کرنے کی نوبت آ جائے، دوسرا آپ نے شاید اپنے مذہب کے بارے میں ہی زیادہ غور نہیں کیا جو اس طرح دلیلیں مانگ رہے ہیں اس کے لیے آپ کسی اور فورم کو چنیں (عنقریب ہم ایک اپنا لمیٹڈ فورم بنا رہے ہیں اس پر بھی سب سے پہلے آپ کو دعوت ہو گی( کہ کہیں‌ایسا نہ ہو کہ بات نکلے تو پھر دور تلک چلی جائے اس لیے "محفل" کے ماحول کو خوشگوار رکھتے ہوئے ایسی دلیل مانگنے سے گریز کریں جو ازاں بعد آپ ہی کے گلے پڑ جائے۔ :) 

میرے بھائی شاید آپ کو مجھ پر زیادہ ہی غصہ آرہا ہے ۔ اگر آپ انصاف کریں تو اس بحث میں بہت سے ایسے لوگ شریک ہوئے ہیں جو بات ہی خلاف موضوع کرتے ہیں جیسے میرے بھائی صدیق۔ کبھی وہ امام خمینی کو بیچ میں لے آئے تو کبھی ایران میں کیا ہورہا ہے کیا نہیں پر وہ سب باتیں آپ کو ایک بار بھی نظر نہیں آئیں ۔ بات چل رہی ہے متعہ پر اور وہ لے کر آگئے تحریف قران یہ آپ کو کیوں نظر نہیں آیا۔ اسی طرح آپ بھی معاف کیجئے گا عاشور کے روزہ والے دھاگے میں ایک خلافِ موضوع بات لے کر آگئے تھے اور یہ ہی دھمکی آپ نے اسوقت مجھکو دی تھی جو آپ اب دے رہے ہیں ۔ میں آپ سے التماس کرتا ہوں کہ آپ اپنا رویہ تھورا سا تبدیل کریں اگر علمی بحث کرنی ہے ورنہ اگر تعصب ہی روا رکھنا ہے تو پھر بھائی معاف کیجئے گا میرے پاس آپ سے بحث کا وقت نہیں کیوں کہ میں صرف بحث اصلاح کیلیئے کرتا ہوں چاہے میری ہو یا دوسرے کی دونوں میں میرا ہی فائدہ ہے۔دوسرے اگر آپ مولا علی اور امام حسن اور حسین کی فضیلت بذبان علماء اہلِ سنت میں نے سنائی تو وہ تو میرے محترم بھائی شوکت کریم نے جب تذکرہ چھیڑہ تو مجھ سے نہیں رہا گیا ۔ ممکن ہے یہ تزکرہ انہوں نے صحابہ کی اس سنت کو مدِ نظر رکھ کر کیا ہے کہ جب صحابہ اکرام کو یہ دیکھنا ہوتا تھا کہ اس محفل میں کتنے مومن ہیں اور کتنے منافق تو وہ مولا علی کا تذکرہ چھیڑ دیتے تھے جس کا چہرہ کھل اٹھا اسکو مومن جان لہتے تھے اور جس کے چہرے کا رنگ اڑ گیا یا وہ بے چین نظر آنے لگا سمجھ جاتے تھے کہ وہ منافق ہے۔ ہوسکتا ہے اس محفل میں بھی شوکت کریم بھائی یہی دیکھنا چاہ رہے ہوں لہٰذا انہوں نہ یہ طریقہ آزمایا اور اب تو وہ جاب بھی گئے ہونگے:battingeyelashes:
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top