ثابت تو بہت کچھ ہو گیا ہے اور ہو گا۔ پہلے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ محترمہ یہ آیت اور اس کا سبب نزول اور وقت نزول اس وقت جو آپ کے گلے پڑا ہوا ہے پہلے اس کا تو حل کریں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اگر آپ میری دی ہوئی حدیثوں سے ہی وقت نزول مانتی ہیں تو پھر آپ کو ان ہی حدیثوں میں دیا ہوا سبب نزول بھی ماننا پڑے گا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جو ہے اوطاس کی قیدی عورتوں کا شادی شدہ ہونا۔ جو ان سب حدیثوںمیں اور تمام معتبر تفسیروں میں موجود ہے اور سب کے لنکس بھی دیئے ہوئے ہیں۔
اللہ کی شان بہت بلند ہے اور اللہ تعالی سب سے بہترین تدبیر کرنے والا ہے۔
یہ اللہ کا کیسا احسان ہے کہ جن صحابی ابو سعید خدری کی روایت کو اس آیت کے پہلے جز کے متعلق نقل کیا جا رہا ہے، یہی ابو سعید خدری وہ ہیں جو بذات خود عقد المتعہ کے حلال ہونے کا عقیدہ رکھتے ہیں اور صاف صاف حضرت عمر کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ انہوں نے عقد المتعہ کو عمر بن حریث کے واقعے کے بعد منع کر دیا تھا۔
ابو سعید خدری کے متعلق ابن حجر العسقلانی والا ریفرنس پہلے گذر چکا ہے۔ اور ابو سعید خدری کے متعلق بخاری کی شارح علامہ بدر الدین عینی لکھتے ہیں:
عن أبي سعيد الخدري وجابر بن عبد الله قالا: تمتعنا إلى نصف من خلافة عمر رضي الله عنه حتى نهى عمر الناس عنها في شأن عمرو بن حريث
ترجمہ:
ابو سعید خدری اور جابر بن عبداللہ انصاری سے روایت ہے: ہم نے جناب عمر رضی اللہ عنہ کی خلافت کےنصف تک متعہ کیا حتی کہ جناب عمر نے عمرو بن حریث کے واقعے کے بعد اسکی ممانعت کر دی۔
حوالہ: عمدۃ القاری از علامہ بدر الدین عینی، جلد 17، صفحہ 246
اور اللہ کی شان دیکھئے کہ وہ غلط چالوں کو کیسے ناکام بناتا ہے کہ یہ قتادہ ہیں جو کہ حضرت ابو سعید خدری سے حنین کے اوطاس کی جانب لشکر روانہ کرنے والی روایت نقل کر رہے۔ مگر یہی قتادہ وہ ہیں جو اس آیت کے دوسرے جزو کے متعلق روایت نقل کرتے ہیں کہ یہ عقد المتعہ کے حکم کو بیان کر رہا ہے۔
حَدَّثَنَا اِبْن بَشَّار ,
قَالَ :
ثنا عَبْد الْأَعْلَى ,
قَالَ :
ثنا سَعِيد ,
عَنْ قَتَادَة ,
قَالَ :
فِي قِرَاءَة أُبَيّ بْن كَعْب : "
فَمَا اِسْتَمْتَعْتُمْ بِهِ مِنْهُنَّ إِلَى أَجَل مُسَمًّى [
تفسیر الطبری آنلائن لنک ]
اور پھر عبداللہ ابن عباس، جنہیں خود آپ لوگوں نے "ترجمان القران" کا لقب دیا ہوا ہے، وہ آپکی یا ہماری طرح جاہل نہیں ہیں، بلکہ بہت اچھی طرح بذات خود جانتے ہیں کہ اس آیت کا پہلا جزو قیدی عورتوں کے متعلق ہے. مثلا امام طبرانی لکھتے ہیں:
وأخرج الطبراني عن ابن عبا س قال نزلت يوم حنين لما فتح الله حنينا أصاب المسلمين نساء من نساء أهل الكتاب لهن أزواج وكان الرجل إذا أراد أن يأتي المرأة قالت إن لي زوجا فسئل صلى الله علية وسلم عن ذلك فأنزل الله والمحصنات من النساء الآية
اب یہی "ترجمان القران" اور "حبر الامہ" حضرت ابن عباس ہیں جو کہ صاف صاف گواہی دے رہے ہیں کہ اس آیت کا پہلا جزو اوطاس میں قیدی عورتوں کے متلق حکم بیان کر رہے جبکہ دوسرا جزو عقد المتعہ کے متعلق حکم کو بیان کر رہا ہے۔
اور یہ فقط اور فقط آپ کی ضد بازی اور ڈبل سٹینڈرڈز ہیں کہ انہی صحابہ و تابعی کی ایک بات کو قبول کر رہے ہیں، مگر جب یہی صحابہ و تابعی آپکے مرضی کے خلاف بات کہہ رہے ہیں تو انکی گواہی کو ردی کی ٹوکری کی نذر کر دیا جاتا ہے۔ آپ کا اپنا رویہ اتنا شرمناک ہے اور اس پر پھر آپ جارحانہ انداز اختیار کرتے ہوئے ہم پر پتا نہیں پچھلے مراسلوں میں کیسے کیسے الزامات لگا رہے ہیں۔
اسی لیے شکر ہے مولا کا کہ انسان چالیں چلتا ہے مگر میرا مولا میرا پالنے والا رب سب سے بہترین تدبیر کرنے والا ہے۔
اے اہل انصاف،
دیکھو کہ ایک ابو سعید خدری کی اکیلی گواہی پر ایمان لانے والوں نے کیسے اپنی کتابوں میں عقد المتعہ کے متعلق اس آیت کے دوسرے جزو کے متعلق صحابہ و تابعین کی اپنی کتابوں میں موجود صحیح حدیث اور گواہیوں کو کیسے ٹھکرایا ہوا ہے:
صحابہ و تابعین کی گواہیاں کہ یہ آیت عقد المتعہ کے حق میں نازل ہوئی
صحابہ کرام میں سے کوئی ایک ایسا صحابی نہیں جس نے اس بات کا انکار کیا ہو کہ یہ آیت متعہ کے جواز میں نہیں۔ اسی وجہ سے آج کے دور کے برخلاف (
جہاں انکار حدیث کا دور دورہ ہے)
، جمہور سلف علماء اور مفسرین قرآن اس بات پر متفق نظر آتے ہیں کہ یہ آیت عقد متعہ کے جواز میں نازل ہوئی۔
پہلی روایت:
امام عبدالرزاق اور ابن منذر نے حضرت عطاء کے واسطہ سے حضرت ابن عباس رضہ اللہ عنہما سے روایت نقل کی ہے کہ اللہ تعالی حضرت عمر رضی اللہ عنہ پر رحم فرمائے نکاح متعہ اللہ تعالی کی رحمت تھی جو اس نے امت محمد پر کی۔ اگر حضرت عمر رضی اللہ عنہ اس سے منع نہ کرتے تو بدبخت ہی زنا کرتا۔ کہا یہ سورۃ النساء میں مذکور ہے "
فما استمتعتم بہ منھن"
اتنی مدت کے لئے اور یہ معاوضہ ہو گا جب کہ انکے درمیان وراثت نہ ہو گی۔ اگر مدت مقررہ کے بعد بھی راضی ہوں تو بھی ٹھیک ہے۔ اگر جدا ہونے پر راضی ہوں تو بھی ٹھیک ہے جب کہ ان دونوں کے درمیان کوئی نکاح نہیں ہو گا۔ انہوں نے یہ خبر بھی دی کہ انہوں نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کو کہتے ہوئے سنا کہ وہ اب بھی اس کو حلال سمجھتے ہیں [
مصنف عبدالرزاق، جلد 7
، صفحہ 497
، روایت 14021
، گجرات ہند]
دوسری روایت:
حدثنا مسدد حدثنا يحيى عن عمران أبي بكر حدثنا أبو رجاء عن عمران بن حصين رضي الله عنهما قال
أنزلت آية المتعة في كتاب الله ففعلناها مع رسول الله صلى الله عليه وسلم ولم ينزل قرآن يحرمه ولم ينه عنها حتى مات قال رجل برأيه ما شاء [
صحیح بخاری لنک ]
ترجمہ:
صحابی عمران بن حصین کہتے ہیں:"
آیت متعہ قرآن میں نازل ہوئی اور ہم رسول اللہ ص کے عہد میں متعہ کرتے تھے اور قرآن میں اسکے بعد کچھ اور نازل نہیں ہوا جو اس کی ممانعت کرتا اور نہ ہی رسول اللہ ص نے اسکی ممانعت کی حتی کہ آپ ص کا انتقال ہو گیا۔ مگر اسکے بعد ایک شخص (
عمر ابن الخطاب)
نے اپنی مرضی سے جو چاہا وہ کہا۔ [
حوالہ:
تفسیر کبیر از امام ثعلبی، تفسیر کبیر از امام فخر الدین رازی، تفسیر ابن حیان، تفسیر نیشاپوری، یہ سب اس روایت کو سورۃ نساء کی اسی آیت متعہ کے تحت نقل کرتے ہیں]
امام بخاری نے آیا یہاں غلطی کی یا پھر جان بوجھ کر بددیانتی سے کام لیا اور اس روایت کو "
متعہ الحج"
کےباب کے ذیل میں نقل کر دیا۔ ایسی بددیانتی ایسے گروہ کے سامنے تو چل جاتی ہے جو آنکھیں بند کر کے شخصیت پرستش میں مبتلا ہو۔
مگر ہمارا مخاطب یہاں پر یہ صحابہ پرستی میں مبتلا گروہ ہے ہی نہیں، بلکہ وہ لوگ مخاطب ہیں جو اللہ کو گواہ بناتے ہوئے انصاف کرنے اٹھے ہیں اور کسی قسم کی شخصیت پرستی میں مبتلا نہیں، اور اپنی "
عقل"
کی تضحیک اور اسکو گالی نہیں دینا چاہتے اُن کے لیے بات بہت صاف ہے کہ تاریخ میں کبھی حج کے متعہ کی آیت کے منسوخ ہونے کی سرے سے کوئی بحث ہی نہیں چلی بلکہ پوری تاریخ گواہ ہے کہ یہ بحث متعہ النساء کی آیت پر چلی ہے اور لوگوں نے اسے ہر ہر طریقے سے منسوخ ثابت کرنا چاہا ہے اور اسی کی طرف صحابی عمران بن حصین کا اشارہ ہے۔
اور اسی لیے بذات خود اہلسنت کے یہ کبیر علماء امام ثعلبی، امام فخر الدین کبیر رازی، ابن حیان، امام نیشاپوری، تفسیر حقانی وغیرہ امام بخاری سے زمانے کے لحاظ سے بعد میں آنے کے باوجود امام بخاری کی اس غلطی/
بددیانتی کو ماننے کے لیے تیار نہیں اور خود عقد متعہ کے خلاف ہونے کے باوجود گواہی دے رہے ہیں کہ یہ روایت عقد متعہ کے جواز میں ہے۔ اسی طرح ابن حزم اور دیگر بہت سے علماء نے عقد متعہ پر لمبی بحث کی اور اُن صحابہ کے نام نقل کیے جو متعہ النساء کے جواز کے قائل تھے اور انہوں نے عمران بن حصین کا نام اس لسٹ میں شامل کیا۔
امام قرطبی اپنی تفسیر میں نقل کرتے ہیں:
وقال أبو بكر الطرطوسي:
ولم يرخص في نكاح المتعة إلا عمران بن حصين وابن عباس وبعض الصحابة وطائفة من أهل البيت.[
آنلائن لنک]
یعنی:
۔۔۔او ابوبکر الطرطوسی سے منقول ہے کہ عمران بن حصین اور ابن عباس عقد متعہ کی اجازت دیتے تھے اور اسی طرح اہلبیت علیہم السلام اور انکے اصحاب بھی۔
تیسری روایت:
حَدَّثَنَا مُحَمَّد بْن الْمُثَنَّى ,
قَالَ :
ثنا مُحَمَّد بْن جَعْفَر ,
قَالَ :
ثنا شُعْبَة ,
عَنْ الْحَكَم ,
قَالَ :
سَأَلْته عَنْ هَذِهِ الْآيَة : {
وَالْمُحْصَنَات مِنْ النِّسَاء إِلَّا مَا مَلَكَتْ أَيْمَانكُمْ }
إِلَى هَذَا الْمَوْضِع : {
فَمَا اِسْتَمْتَعْتُمْ بِهِ مِنْهُنَّ }
أَمَنْسُوخَة هِيَ ؟ قَالَ :
لَا .
قَالَ الْحَكَم :
قَالَ عَلِيّ رَضِيَ اللَّه عَنْهُ :
لَوْلَا أَنَّ عُمَر رَضِيَ اللَّه عَنْهُ نَهَى عَنْ الْمُتْعَة مَا زَنَى إِلَّا شَقِيّ [
تفسیر الطبری آنلائن لنک ]
عبد الرزاق اور ابو داؤد سے کتاب ناسخ میں درج ہے اور ابن جریر نے الحکم سے روایت کی ہے کہ ان سے پوچھا گیا کہ کیا یہ آیت متعہ منسوخ ہو چکی ہے، جس پر آپ نے کہا کہ نہیں (
یہ منسوخ نہیں ہوئی)
اور پھر کہا کہ علی ابن ابنی طالب نے فرمایا ہے اگر عمرعقد متعہ کی ممانعت نہ کر دیتے تو کوئی شقی القلب ہی ہوتا جو زنا کرتا۔
یہ صحیح روایت ہے:
مُحَمَّد بْن الْمُثَنَّى (
امام ذہبی کہتے ہیں کہ یہ ثقہ ہیں)
، مُحَمَّد بْن جَعْفَر الهذلى (
امام ذہبی کہتے ہیں کہ یہ بہترین راوی ہیں)
شعبة بن الحجاج بن الورد العتكى الأزدى (
امام ذہبی کہتے ہیں یہ حدیث میں امیر المومنین ہیں)
،الحكم بن عتيبة الكندىہ (
امام ذہبی کہتے ہیں یہ ثقہ اور صاحب سنت ہیں)
چوتھی روایت:
حَدَّثَنِي مُحَمَّد بْن عَمْرو ,
قَالَ :
ثنا أَبُو عَاصِم ,
عَنْ عِيسَى ,
عَنْ اِبْن أَبِي نَجِيح ,
عَنْ مُجَاهِد : {
فَمَا اِسْتَمْتَعْتُمْ بِهِ مِنْهُنَّ }
قَالَ :
يَعْنِي نِكَاح الْمُتْعَة. [
تفسیر الطبری آنلائن لنک ]
امام عبد بن حمید اور ابن جریر نے حضرت مجاہد سے "
فما استمتعتم"
کی یہ تفسیر نقل کی ہے یعنی نکاح متعہ
پانچویں روایت:
حَدَّثَنَا مُحَمَّد بْن الْحُسَيْن ,
قَالَ :
ثنا أَحْمَد بْن مُفَضَّل ,
قَالَ :
ثنا أَسْبَاط ,
عَنْ السُّدِّيّ : "
فَمَا اِسْتَمْتَعْتُمْ بِهِ مِنْهُنَّ إِلَى أَجَل مُسَمًّى فَآتُوهُنَّ أُجُورهنَّ فَرِيضَة وَلَا جُنَاح عَلَيْكُمْ فِيمَا تَرَاضَيْتُمْ بِهِ مِنْ بَعْد الْفَرِيضَة " .
فَهَذِهِ الْمُتْعَة الرَّجُل يَنْكِح الْمَرْأَة بِشَرْطٍ إِلَى أَجَل مُسَمًّى ,
وَيُشْهِد شَاهِدَيْنِ ,
وَيَنْكِح بِإِذْنِ وَلِيّهَا ,
وَإِذَا اِنْقَضَتْ الْمُدَّة فَلَيْسَ لَهُ عَلَيْهَا سَبِيل وَهِيَ مِنْهُ بَرِيَّة ,
وَعَلَيْهَا أَنْ تَسْتَبْرِئ مَا فِي رَحِمهَا ,
وَلَيْسَ بَيْنهمَا مِيرَاث ,
لَيْسَ يَرِث وَاحِد مِنْهُمَا صَاحِبه .[
تفسیر الطبری آنلائن لنک ]
یعنی:
۔۔۔ سدی سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا فما استمتعبتم بہ منھن الہ اجل مسمی فاتو ھن اجودھن الخ (
آیت کی تلاوت میں الی اجل مسمی کا فقرہ درمیان میں اضافہ کر دیا)
اور کہا کہ اس سے مراد متعہ ہے جس کی صورت یہ ہے کہ مرد عورت سے نکاح کرے صورت یہ ہے کہ مرد عورت سے نکاح کرے اور اس میں دو آدمیوں کو گواہ کرے اور ولی کی اجازت سے ہو اور جب مدت گذر جائے تو پھر اس کو عورت پر کوئی اختیار نہ رہے اور وہ عورت اس سے آزاد ہوجائے اور اس عورت پر اتنا عدہ رکھنا ضروری ہو کہ حمل کا انکشاف ہوسکے۔ اور ان میں آپس میں میراث ثابت نہ ہو۔ یعنی کوئی ایک دوسرے کا وارث نہ ہو۔
“الی اجل مسمی” کی قرآت والی روایات
نوٹ:
"
الی اجل مسمی"
کے معنی ہیں "
ایک مقررہ مدت تک"
۔ چنانچہ ابن عباس، ابن ابی کعب، عبداللہ ابن مسعود، سعید بن جبیراور دیگر بہت سے اصحاب کی قرآت تھی"
۔۔۔ اور جن عورتوں سے تم تمتع کرو ایک مقررہ مدت تک، تو انہیں انکی اجرت بطور فریضہ ادا کرو۔۔۔"
۔ چنانچہ یہ قرآت بالکل واضح کرتی ہے کہ یہ آیت عقد المتعہ کے جواز میں نازل ہوئی تھی۔
چھٹی روایت:
7182 -
حَدَّثَنَا حُمَيْد بْن مَسْعَدَة ,
قَالَ :
ثنا بِشْر بْن الْمُفَضَّل ,
قَالَ :
ثنا دَاوُد ,
عَنْ أَبِي نَضْرَة ,
قَالَ :
سَأَلْت اِبْن عَبَّاس عَنْ مُتْعَة النِّسَاء ,
قَالَ :
أَمَا تَقْرَأ سُورَة النِّسَاء ؟ قَالَ :
قُلْت بَلَى .
قَالَ :
فَمَا تَقْرَأ فِيهَا : "
فَمَا اِسْتَمْتَعْتُمْ بِهِ مِنْهُنَّ إِلَى أَجَل مُسَمًّى "
؟ قُلْت :
لَا ,
لَوْ قَرَأْتهَا هَكَذَا مَا سَأَلْتُك !
قَالَ :
فَإِنَّهَا كَذَا. [
تفسیر الطبری آنلائن لنک ]
امام عبد بن حمید، ابن جریر اور ابن الانباری نے مصاحف میں اور حضرت حاکم رحمہ اللہ نے مختلف طرق سے نضرہ سے روایت کی ہے کہ میں نے ابن عباس سے متعہ النساء کے متعلق دریافت کیا انہوں نے کہا کیا تم سورۃ نساء کی تلاوت نہیں کرتے ہو؟ کہ فما استمتعتم بہ منھن الی اجل مسمی میں نے کہا نہیں تو۔ اگر اسی طرح پڑھتا ہوتا تو آپ سے دریافت کیوں کرتا۔ انہوں نے کہا کہ اچھا تو معلوم ہونا چاہیے کہا آیت یہ یونہی ہے۔
عبدالاعلی کی روایت میں بھی ابونضرہ سے اسی طرح کا واقعہ منقول ہے۔ تیسری روایت میں بھی ابو نضرہ سے نقل ہے کہ میں نے ابن عباس کے سامنے یہ آیت پڑھی۔ فما استمتعتم بہ منھن ابن عباس نے کہا۔ الی اجل مسمی۔ میں نے کہا میں تو اس طرح نہیں پڑھتا ہوں انہوں نے تین مرتبہ کہا خدا کی قسم خدا نے اس کو اسی طرح نازل کیا ہے۔
امام حاکم اور امام ذہبی کی گواہی کہ یہ روایت صحیح ہے
اس روایت کو امام حاکم نے اپنی مستدرک کی جلد دوم صفحہ 334
پر نقل کیا تھا اور اسے بخاری و مسلم کی شرائط پر صحیح قرار دیا تھا۔ جبکہ امام الذہبی نے مستدرک کے حاشیے پر اسے امام مسلم کی شرائط پر صحیح روایت قرار دیا ہے۔ اس روایت کا آنلائن عکس دیکھئیے
ساتویں روایت:
7181 -
حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْب ,
قَالَ :
ثنا يَحْيَى بْن عِيسَى ,
قَالَ :
ثنا نُصَيْر بْن أَبِي الْأَشْعَث ,
قَالَ :
ثني حَبِيب بْن أَبِي ثَابِت ,
عَنْ أَبِيهِ ,
قَالَ :
أَعْطَانِي اِبْن عَبَّاس مُصْحَفًا ,
فَقَالَ :
هَذَا عَلَى قِرَاءَة أُبَيّ .
قَالَ أَبُو كُرَيْب ,
قَالَ يَحْيَى :
فَرَأَيْت الْمُصْحَف عِنْد نُصَيْر فِيهِ : "
فَمَا اِسْتَمْتَعْتُمْ بِهِ مِنْهُنَّ إِلَى أَجَل مُسَمًّى " [
تفسیر الطبری آنلائن لنک ]
یعنی:
۔۔۔ابو ثابت کا بیان ہے کہ ابن عباس ؓ نے مجھ کو ایک مصحف دیا اور کہاکہ یہ ابی ابن کعب کی قرآت کے مطابق ہے یحیی بن عیسی جو اس روایت کے ناقل ہیں نصیر بن ابی الاشعت سے ان کا بیان ہے کہ میں نے اس مصحف کو نصیر کے پاس دیکھا اس میں لکھا تھا کہ فما استمتعم بہ منھن الی اجل مسمی۔
آٹھویں روایت:
حَدَّثَنَا اِبْن الْمُثَنَّى ,
قَالَ :
ثنا أَبُو دَاوُد ,
قَالَ :
ثنا شُعْبَة ,
عَنْ أَبِي إِسْحَاق ,
عَنْ عُمَيْر :
أَنَّ اِبْن عَبَّاس قَرَأَ : "
فَمَا اِسْتَمْتَعْتُمْ بِهِ مِنْهُنَّ إِلَى أَجَل مُسَمًّى " .[
تفسیر الطبری آنلائن لنک ]
یعنی:
۔۔۔ابو اسحاق کی روایت ہے کہ ابن عباس نے پڑھا۔ فما استمتعتم بہ منھن الی اجل مسمی
نویں روایت:
حَدَّثَنَا اِبْن بَشَّار ,
قَالَ :
ثنا عَبْد الْأَعْلَى ,
قَالَ :
ثنا سَعِيد ,
عَنْ قَتَادَة ,
قَالَ :
فِي قِرَاءَة أُبَيّ بْن كَعْب : "
فَمَا اِسْتَمْتَعْتُمْ بِهِ مِنْهُنَّ إِلَى أَجَل مُسَمًّى [
تفسیر الطبری آنلائن لنک ]
یعنی۔۔۔ قتادہ کہتے ہیں کہ صحابی ابی ابن کعب کی قرآت فما استمتعتم بہ منھن الی اجل مسمی کی تھی۔
دسویں روایت:
حَدَّثَنِي الْمُثَنَّى ,
قَالَ :
ثنا أَبُو نُعَيْم ,
قَالَ :
ثنا عِيسَى بْن عُمَر الْقَارِئ الْأَسَدِيّ ,
عَنْ عَمْرو بْن مُرَّة أَنَّهُ سَمِعَ سَعِيد بْن جُبَيْر يَقْرَأ : "
فَمَا اِسْتَمْتَعْتُمْ بِهِ مِنْهُنَّ إِلَى أَجَل مُسَمًّى فَآتُوهُنَّ أُجُورهنَّ "[
تفسیر الطبری آنلائن لنک ]
یعنی۔۔۔عمرہ کہتے ہیں انہوں نے سعید بن جبیر کو قرآت کرتے سنا کہ:
فما استمتعتم بہ منھن الی اجل مسمی
گیارھویں روایت:
امام ابن ابی داؤد نے مصاحف میں صحابی حضرت سعید بن جبیر رضی اللہ عنہ سے روایت نقل کی ہے کہ حضرت ابی بن کعب کی قرات میں الی اجل مسمی کے الفاظ ہیں [
حوالہ:
تفسیر در منثور، حافظ جلال الدین سیوطی]
بارہویں روایت:
عبداللہ ابن مسعود بھی اس آیت کی قرآت کے ساتھ الی اجل مسمی کا اضافہ کرتے تھے۔
حوالے:
1
۔ امام نووی کی شرح صحیح مسلم، جلد 9
، صفحہ 179
2
۔ عمدۃ القاری، شرح صحیح بخاری از امام بدر الدین عینی، جلد 18
، صفحہ 208
3
۔ تفسیر روح المعانی، جلد 5
، صفحہ 5 [
آنلائن لنک]
اور شیخ الاسلام علامہ شوکانی نے بھی "
نیل الاوطار"
جلد ۶ ص ۴۴ میں ابن حزم کی یہ عبارت نقل کی ہے۔
اما قراۃ ابن عباس و ابن مسعود و ابی بن کعب و سعید بن خیبر فما استمتعتم بہ منھن الی اجل مسمی فلیست بقرآن عند مشترطی
یعنی۔۔۔ ان کے بیان سے معلوم ہوا کہ ابن مسعود بھی آیت متعہ کو الی اجل مسمی کے اضافہ کے ساتھ پرھتے تھے۔
حبر الامہ، ترجمان القرآن ابن عباس کا رتبہ
کچھ لوگ ابن عباس کی کمسنی کا عذر پکڑ کر بھاگنے کی کوشش کرتے ہیں جو لاحاصل ہے۔ ابن عباس فقیہ اور بلند ترین پائے کی مفسر قرآن تھے۔ ابن کثیر نے انکی یہ روایات اپنی تفسیر میں جگہ جگہ درج کی ہیں، اور اپنی کتاب البدایہ والنہایہ جلد 8
، صفحہ299
پر لکھتے ہیں:
"
ابن عباس اس معاملے میں سب سے زیادہ علم رکھنے والے شخص تھے کہ اللہ تعالی نے اپنے رسول محمد صلعم پر کیا نازل فرمایا ہے۔ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کہتے تھے کہ قران کا مفسر ابن عباس ہے۔ اور وہ ابن عباس کو کہا کرتے تھے: "
تم نے وہ علم حاصل کیا ہے جو ہم حاصل نہ کر پائے، تم خدا کی کتاب کے متعلق سب سے زیادہ ماہر ہو۔"
امام بخاری اور مسلم نے اپنی صحیین میں ابن عباس سے 1660
روایات نقل کی ہیں۔ [
وکیپیڈیا پر ابن عباس پر مفصل مضمون]
****************
از شوکت کریم:
اور جب آپ وقت نزول مان گئی ہیں تو پھر جواب دیجئے
ان درجنوں دعوں کا جن سے یہ دھاگہ بھرا ہوا ہے کہ 8 ہجری تک آپ کیسے اس آیت سے متعہ حلال کرتی رہی ہیں۔
آپکے دعوے کہ متعہ اس آیت کی روشنی میں ہوتا رہا۔
آپک
ے مزید دعوے کے متعہ اس آیت کی روشنی میں ہوتا رہا۔
ان بھائی صاحب نے لگتا ہے کہ قسم کھائی ہوئی ہے کہ ہمارے مراسلے پڑھنے ہیں، نہ ان میں دلائل پر غور کرنا ہے اور بس فقط الزامات پر الزامات کی بارش کرتے چلے جانا ہے۔
یہ فریق مخالف (انہی بھائی صاحب کے مکتبہ فکر) کا دعوی تھا جو یہ چیخ چیخ کر صدیوں سے کرتے چلے آئے ہیں کہ عقد المتعہ جاہلیت کے زمانے کی رسم تھی جو کہ اسلام میں داخل ہو گئی اور جس طرح آہستہ آہستہ شراب حرام قرار دی گئی اسی طرح آہستہ آہستہ عقد المتعہ حرام قرار دیا گیا اور اسکی حرمت انہیں خیبر میں نظر آئی، یا پھر فتح مکہ میں صحابہ نے رسول اللہ ص کے حکم سے متعہ کیا، اور پھر اوطاس میں رسول ﷺ کے حکم سے انکی روایت کے مطابق صحابہ نے متعہ کیا۔ اور پھر ان موقعوں میں سے ہر ایک پر متعہ "قیامت" تک کے لیے حرام ہوتا تھا ۔۔۔۔
چونکہ یہ لوگ اپنے گریبان میں نظر ڈالنے کے قائل نہیں اور خود پر ہزار خون معاف رکھتے ہیں، اس لیے آج تک انہوں نے یہ معمہ حل کرنے کی کوشش ہی نہ کی کہ جو چیز خیبر میں ہمیشہ کے لیے تاقیامت حرام ہو گئی، وہی چیز پر فتح مکہ پر کیسے دوبارہ عمل پذیر ہو رہی ہے،۔۔۔ اور پھر فتح مکہ میں دوبارہ ہمیشہ کے لیے تاقیامت تک حرام ہو جاتی ہے، مگر پھر اوطاس میں دوبارہ متعہ ہونے لگتا ہے۔ اسکے بعد پھر اوطاس میں دوبارہ حرام ہو جاتا ہے۔
شوکت کریم بھائی صاحب،
آپ اپنے الزامات کو بار بار بار بار دہرانے اور بڑا بڑا کر کے لکھنے اور ہم پر جارحانہ رویہ اپنانے کی بجائے سیدھا سیدھا اپنی کتابوں کو نذر آتش کیوں نہیں کر دیتے کیونکہ جب تک یہ موجود ہیں اُس وقت تک ثابت ہوتا رہے گا کہ رسول اللہ ص کی اپنی اجازت، منادی اور حکم سے عقد المتعہ ہوتا رہا، اور صحابہ و صحابیات رسول اللہ ص کی وفات تک عقد المتعہ کرتے رہے، پھر حضرت ابو بکر کے پورے دور میں صحابہ و تابعین عقد المتعہ کرتے ہیں، اور پھر حضرت عمر کی خلافت کا کم از کم نصف آ جاتا ہے اور عقد المتعہ جاری رہتا ہے۔۔۔۔۔۔ کیسا احمقانہ و بے وقوفانہ و جاہلانہ بہانہ ہے کہ صحابہ و صحابیات اس طویل عرصے تک قرآن و سنت سے اپنی لاعلمی و جہالت کہیے کہ جس کی بنا پر متعہ کے نام پر زناکاری کرتے رہے۔
جی ہاں، سب سے بڑے عالم و قرآن کے معنی جاننے والے تو یہی منکر حدیث حضرات اور انہی لوگوں کا ٹولہ ہے جو صبح اٹھ کر کلی کرنے سے قبل قرآن سے دسیوں آیات پیش کر کے عقد المتعہ کو حرام قرار دے دیتا ہے، ورنہ صحابہ و تابعین بے چارے تو ایسے تھے کہ حضرت عمر کا دور کیا، رسول ﷺ کی وفات کے نصف صدی سے زیادہ عرصہ گذر جانے کے باوجود بھی قرآن میں ایک آیت بھی نہ نکال سکے کہ جس سے عقد المتعہ حرام ہوتا۔ نہیں اسکے بالکل برعکس وہ برابر قڑآن سے عقد المتعہ کے حق میں آیت کے نزول کا عقیدہ رکھتے آئے۔
******************
انشاء اللہ اگلے ویک اینڈ تک کچھ اہم روایات اور پیش کر کے موضوع کو آگے بڑھایا جائےگا۔ نیز میں آجکل متعہ الحج پر پڑھ رہی تھی اور مجھے لگتا ہے کہ متعہ النساء پر آگے جانے سےقبل متعہ الحج پر ایک تفصیلی مراسلہ لکھا جائے کیونکہ یہاں چند بہت اہم روایات موجود ہیں اور پتا چلے گا کہ صحابہ کیسے بیان کر رہے ہیں کہ یہ صرف عقد المتعہ ہی نہیں بلکہ حضرت عمر نے دونوں متعوں کی ممانعت کی تو صحابہ ان دونوں متعوں سے بہ یک وقت کیسے رک گئے۔
اب متعہ الحج کے لیے تو کوئی بہانہ چل نہ سکے گا کیونکہ یہاں تو صاف صاف رسول اللہ ص کی سنت اور قرآن کی واضح آیت سے حلال تھا، مگر اس سلسلے میں پھر بھی صدیوں تک عذر تراشیاں کی گئیں، پھر جھوٹی روایات کا پلندہ تیار کیا گیا، حالانکہ حضرت عمر نے صاف صاف کہا تھا کہ وہ اپنی طرف سے ہی متعہ الحج کی ممانعت کر رہے ہیں اور اسکی وجوہات بھی بتلائی کہ انہوں نے اپنی طرف سے رسول ص کی اس سنت کو کیوں تبدیل کیا ہے ۔ ایک دفعہ متعہ الحج کا یہ مسئلہ واضح ہو جائے تو پھر متعہ النساء کا مسئلہ بھی اہل انصاف کو بہت اچھی طرح سمجھ آنے لگے گا۔ انشاء اللہ۔