نکاح المتعہ کا تعارف (حصہ دوم)

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

S. H. Naqvi

محفلین
جی بجا فرمایا نبیل بھائی نے:)
لیکن ایک بات ہے کہ اس بحث کو شروع کرنے والے ہی دلائل ہی نہیں دے سکتے، جیسا کہ نبیل بھائی نے کہا بلکہ نئے آنے والے بھی مگر یہ کہ شکریہ کرنے کے لیے اقتباس لینے کے بجائے اگر کوئی دلیل، کوئی نئی روایت اور مزید کوئی مفید چیز ، اس کے حق میں یا رد میں لائیں تو امید ہے کہ انھیں بھی خوش آمدید کہا جائے گا۔ اور اگر صرف شروع سے حصہ لینے والوں کی قید رکھی گئی تو ایسا نہ ہو کہ انیس صاحب، مہوش صاحبہ کے اکیلے ہونے کا رونا پھر نہ شروع کردیں۔ سو جو مرضی آئے مگر موضوع کے اندر رہتے ہوئے، ذاتیات سے بچ کر، دلیل دے اور حصہ بقدر جثہ ڈال کر ثواب دارین حاصل کرے:grin:
 
ش

شوکت کریم

مہمان
مندرجہ ذیل اقتباسات کو پڑھیے اور دی گئی تاریخوں اور دعووں پر غور کیجے۔

کیونکہ تمام مسلمانوں کا اس پر اجماع ہے کہ کم از کم 7 ہجری تک(یعنی رسول ص کی وفات کے تین سال قبل تک) صحابہ اور صحابیات نے رسول اللہ ص کی اجازت بلکہ حکم سے عقد متعہ کیے۔ چنانچہ جب یہ لوگ متعہ کو زناکاری کا الزام دیں گے تو یہ چیز ان صحابہ اور صحابیات کے لیے سب سے پہلے گالی بن جائے گا جو رسول اللہ ص کی اجازت بلکہ حکم پر عقد متعہ کرتے رہے۔ کاش کہ یہ لوگ اس بات کو سمجھ سکیں۔

1۔ آپ قرآن کو کھولیں۔2۔ اور پھر ان دونوں سورتوں (سورۃ المومنون اور سورۃ المعارج) کے زمانے نزول کو دیکھیں۔
3۔ ان دونوں سورتوں سے قبل بالاتفاق آپ کو لکھا نظر آئے گا "المکیۃ" یعنی مکی دور میں نازل ہونے والی سورتیں۔
4۔ اب بتلائیں کہ آپ اس عقدے کو کیسے حل کریں گے کہ عقد متعہ جو باالاجماع کم از کم مدینے کے پہلے 7 سالوں (یعنی فتح خیبر یا 8 سالوں یعنی فتح مکہ) تک جاری و ساری رہا ہے اور صحابہ و صحابیات رسول ص کی اجازت بلکہ حکم سے عقد متعہ کرتے رہے۔

سورۃ النساء مدنی دور کے ابتدائی سالوں میں نازل ہوئی جبکہ عقد متعہ بالاتفاق خود آپکی اپنی زبانی 8 ہجری تک جاری و ساری رہا۔میں اللہ تعالی کا لاکھ لاکھ شکر ادا کرتی ہوں کہ اللہ تعالی بلاشبہ بہترین تدبیر کرنے والا ہے۔ اہل عقل و انصاف کے لیے الحمدللہ دلیل کافی ہے کہ وہ حق کو باطل سے جدا کر سکیں۔

پوری امت مسلمہ (سوائے بعد میں پیدا ہونے والے منکریں حدیث کے گروہ کے) کا اس بات پر اجماع ہے کہ عقد متعہ کم از کم سن 7 ہجری (فتح خیبر) یا پھر سن 8 ہجری (فتح مکہ) تک رسول اللہ ص کے حکم سے جاری و ساری رہا۔اختلاف اسکے بعد کے وقت کا ہے کہ آیا رسول نے اسے اپنی وفات سے تین یا دو سال قبل حرام قرار دیا یا نہیں

اہل تشیع کے نزدیک عقد متعہ کے متعلق قرآن کی سورۃ النساء کی آیت 24 نازل ہوئی۔

سورۃ النساء کی آیت 24 پر تفصیلی بحث
عقد المتعہ کے جواز کا حکم سورۃ النساء کی آیت 24 میں اللہ نےخود نازل فرمایا:
[القرآن 4:24] والمحصنات من النساء الا ما ملكت ايمانكم كتاب الله عليكم واحل لكم ما وراء ذلكم ان تبتغوا باموالكم محصنين غير مسافحين فما استمتعتم به منهن فاتوهن اجورهن فريضة ولا جناح عليكم فيما تراضيتم به من بعد الفريضة ان الله كان عليما حكيما

ٹھیک ہے سورہ نساء مدنی سورت ہے مگر اس سے یہ کہاں ثابت ہوتا ہے کہ آیت 24 متعہ کی حلت کے لیے نازل ہوئی اور اس حلت کی وجہ سے بقول مہوش صاحبہ ۸ ہجری تک متعہ ہوتا رہا۔ جبکہ ہمارا کہنا ہے کہ متعہ کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں اور جو ہوتا رہا وہ مخصوص مواقع پر ہوا اجازت طلب کر کے نو مسلم لوگوں نے کیا اور اس کی قرآن نے حلت دی اور نہ یہ عام چلن تھا۔

آیے ذرا دیکھیں کہ سورۃ النساء آیت 24 کا نزول کب اور کیوں ہوا !! اس لنک پہ آپ الإمام أبو الحسن علي الواحدي النيسابوري کی اسباب نزول پڑھ سکتے ہیںِ

حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ بْنِ مَيْسَرَةَ الْقَوَارِيرِيُّ حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ أَبِي عَرُوبَةَ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ صَالِحٍ أَبِي الْخَلِيلِ عَنْ أَبِي عَلْقَمَةَ الْهَاشِمِيِّ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ حُنَيْنٍ بَعَثَ جَيْشًا إِلَی أَوْطَاسَ فَلَقُوا عَدُوًّا فَقَاتَلُوهُمْ فَظَهَرُوا عَلَيْهِمْ وَأَصَابُوا لَهُمْ سَبَايَا فَکَأَنَّ نَاسًا مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَحَرَّجُوا مِنْ غِشْيَانِهِنَّ مِنْ أَجْلِ أَزْوَاجِهِنَّ مِنْ الْمُشْرِکِينَ فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ فِي ذَلِکَ وَالْمُحْصَنَاتُ مِنْ النِّسَائِ إِلَّا مَا مَلَکَتْ أَيْمَانُکُمْ أَيْ فَهُنَّ لَکُمْ حَلَالٌ إِذَا انْقَضَتْ عِدَّتُهُنَّ

عبید اللہ بن عمر بن میسرہ قواریری، یزید بن زریع، سعید بن ابی عروبہ، قتادہ، صالح، ابی الخلیل، علقمہ ہاشمی، حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حنین کے دن ایک لشکر کو اوطاس کی طرف بھیجا ان کی دشمن سے مڈبھیڑ ہوئی اور ان کو قتل کیا اور ان پر صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے غلبہ حاصل کیا اور انہوں نے کافروں کو قیدی بنایا اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں سے بعض لوگوں نے ان سے صحبت کرنے کو اچھا نہ سمجھا اس لئے کہ ان کے مشرک شوہر موجود تھے تو اللہ نے اس بارے میں یہ آیت نازل فرمائی (وَالْمُحْصَنَاتُ مِنْ النِّسَائِ إِلَّا مَا مَلَکَتْ أَيْمَانُکُمْ) اور شوہر والی عورتیں بھی تم پر حرام ہیں مگر وہ جو قید ہو کر لونڈیوں کی طرح تمہارے قبضے میں آئیں۔ یعنی وہ تمہارے لئے حلال ہیں جب ان کی عدت پوری ہو جائے۔

صحیح مسلم 2643

و حَدَّثَنِيهِ يَحْيَی بْنُ حَبِيبٍ الْحَارِثِيُّ حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ الْحَارِثِ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ أَبِي الْخَلِيلِ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ قَالَ أَصَابُوا سَبْيًا يَوْمَ أَوْطَاسَ لَهُنَّ أَزْوَاجٌ فَتَخَوَّفُوا فَأُنْزِلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ وَالْمُحْصَنَاتُ مِنْ النِّسَائِ إِلَّا مَا مَلَکَتْ أَيْمَانُکُمْ

یحیی بن حبیب حارثی، خالد بن حارث، شعبہ، قتادہ، ابی الخلیل، حضرت ابوسعید رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اوطاس کی قیدی عورتیں ملیں جن کے خاوند تھے یعنی شادی شدہ تھیں صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے خوف کیا تو یہ آیت مبارکہ نازل کی گئی (وَالْمُحْصَنَاتُ مِنْ النِّسَائِ إِلَّا مَا مَلَکَتْ أَيْمَانُکُمْ)

صیحیح مسلم۔2644

حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ بْنِ مَيْسَرَةَ حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ حَدَّثَنَا سَعِيدٌ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ صَالِحٍ أَبِي الْخَلِيلِ عَنْ أَبِي عَلْقَمَةَ الْهَاشِمِيِّ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعَثَ يَوْمَ حُنَيْنٍ بَعْثًا إِلَی أَوْطَاسَ فَلَقُوا عَدُوَّهُمْ فَقَاتَلُوهُمْ فَظَهَرُوا عَلَيْهِمْ وَأَصَابُوا لَهُمْ سَبَايَا فَکَأَنَّ أُنَاسًا مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَحَرَّجُوا مِنْ غِشْيَانِهِنَّ مِنْ أَجْلِ أَزْوَاجِهِنَّ مِنْ الْمُشْرِکِينَ فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَی فِي ذَلِکَ وَالْمُحْصَنَاتُ مِنْ النِّسَائِ إِلَّا مَا مَلَکَتْ أَيْمَانُکُمْ أَيْ فَهُنَّ لَهُمْ حَلَالٌ إِذَا انْقَضَتْ عِدَّتُهُنَّ

عبید اللہ بن عمر بن میسرہ، یزید بن زریع، سعید، قتادہ، صالح، ابوخلیل، ابوعلقمہ، حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ تعالی عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جنگ حنین میں ایک لشکر اوطاس کی طرف روانہ کیا۔ (اوطاس ایک جگہ کا نام ہے) پس وہ اپنے دشمنوں پر جا پہنچے ان سے قتال کیا اور ان کو مغلوب کر لیا اور ان کی عورتیں گرفتار کر لیں۔ پس بعض اصحاب نے ان سے ان سے صحبت کرنا جائز نہ سمجھا کیونکہ ان کے کافر شو ہر موجود تھے تب اللہ تعالی نے یہ آیت نازل فرما ئی۔ (ترجمہ) تم پر شوہر والی عورتیں حرام ہیں لیکن جن کے تم مالک بن جاؤ یعنی وہ تمھارے لیے حلال ہیں

سنن ابو داؤد 1841

أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَی قَالَ حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ قَالَ حَدَّثَنَا سَعِيدٌ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ أَبِي الْخَلِيلِ عَنْ أَبِي عَلْقَمَةَ الْهَاشِمِيِّ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ أَنَّ نَبِيَّ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعَثَ جَيْشًا إِلَی أَوْطَاسٍ فَلَقُوا عَدُوًّا فَقَاتَلُوهُمْ وَظَهَرُوا عَلَيْهِمْ فَأَصَابُوا لَهُمْ سَبَايَا لَهُنَّ أَزْوَاجٌ فِي الْمُشْرِکِينَ فَکَانَ الْمُسْلِمُونَ تَحَرَّجُوا مِنْ غِشْيَانِهِنَّ فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ وَالْمُحْصَنَاتُ مِنْ النِّسَائِ إِلَّا مَا مَلَکَتْ أَيْمَانُکُمْ أَيْ هَذَا لَکُمْ حَلَالٌ إِذَا انْقَضَتْ عِدَّتُهُنَّ

محمد بن عبدالاعلی، یزید بن زریع، سعید، قتادہ، ابوالخلیل، ابوعلقمہ ہاشمی، حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اوطاس کی جانب لشکر روانہ فرمایا جو کہ طائف میں ایک جگہ کا نام ہے پھر دشمن سے مقابلہ ہوا اور انہوں نے ان کو مار ڈالا اور ہم لوگ مشرکین پر غالب آگئے اور ہم کو باندیاں ہاتھ لگ گئیں اور ان کے شوہر مشرکین میں رہ گئے تھے (یعنی ان کی عورتیں ہاتھ لگ گئیں) اور مسلمانوں نے ان کے ساتھ ہمبستری کرنے سے پرہیز اختیار کیا پھر خداوند قدوس نے آیت کریمہ آخر تک نازل فرمائی یعنی وہ عورتیں تم پر حرام ہیں جو کہ دوسروں کے نکاح میں ہیں لیکن اس وقت حرام نہیں جس وقت تم مالک ہو تم ان کے پاس جاؤ اور اس حدیث میں جو تفسیر مذکور ہے اس سے بھی یہی مطلب نکلتا ہے اور وہ تفسیر یہ ہے یعنی یہ عورتیں تم کو حلال نہیں عدت گزرنے کے بعد اس لیے کہ جس وقت یہ خواتین جہاد میں گرفتار ہوئیں تو وہ باندیاں بن گئیں اگرچہ ان کے شوہر کافر زندہ ہوں لیکن عدت کے بعد مسلمان ان سے ہم بستری کر سکتے ہیں۔

سنن نسائی 3281

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ حَدَّثَنَا عُثْمَانُ الْبَتِّيُّ عَنْ أَبِي الْخَلِيلِ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ قَالَ أَصَبْنَا سَبَايَا يَوْمَ أَوْطَاسٍ وَلَهُنَّ أَزْوَاجٌ فِي قَوْمِهِنَّ فَذَکَرُوا ذَلِکَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَنَزَلَتْ وَالْمُحْصَنَاتُ مِنْ النِّسَائِ إِلَّا مَا مَلَکَتْ أَيْمَانُکُمْ قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ وَهَکَذَا رَوَاهُ الثَّوْرِيُّ عَنْ عُثْمَانَ الْبَتِّيِّ عَنْ أَبِي الْخَلِيلِ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ وَأَبُو الْخَلِيلِ اسْمُهُ صَالِحُ بْنُ أَبِي مَرْيَمَ

احمد بن منیع، ھشیم، عثمان، ابی خلیل، حضرت ابوسعید خدری سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں کہ ہم نے جنگ اوطاس کے موقع پر کچھ ایسی عورتیں قید کیں جو شادی شدہ تھیں اور ان کے شوہر بھی اپنی اپنی قوم میں موجود تھے پس نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اس کا تذکرہ کیا گیا تو یہ آیت نازل ہو (وَالْمُحْصَنَاتُ مِنْ النِّسَائِ إِلَّا مَا مَلَکَتْ أَيْمَانُکُمْ) یہ حدیث حسن ہے۔ ثوری، عثمان بتی بھی ابوخلیل سے اور وہ ابوسعید سے اسی حدیث کی مثل بیان کرتے ہیں ابوخلیل کا نام صالح بن مریم ہے۔

جامع ترمذی 1051 ابواب تفسیر القرآن

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ أَخْبَرَنَا عُثْمَانُ الْبَتِّيُّ عَنْ أَبِي الْخَلِيلِ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ قَالَ أَصَبْنَا سَبَايَا يَوْمَ أَوْطَاسٍ لَهُنَّ أَزْوَاجٌ فِي قَوْمِهِنَّ فَذَکَرُوا ذَلِکَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَنَزَلَتْ وَالْمُحْصَنَاتُ مِنْ النِّسَائِ إِلَّا مَا مَلَکَتْ أَيْمَانُکُمْ قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ وَهَکَذَا رَوَی الثَّوْرِيُّ عَنْ عُثْمَانَ الْبَتِّيِّ عَنْ أَبِي الْخَلِيلِ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَحْوَهُ وَلَيْسَ فِي هَذَا الْحَدِيثِ عَنْ أَبِي عَلْقَمَةَ وَلَا أَعْلَمُ أَنَّ أَحَدًا ذَکَرَ أَبَا عَلْقَمَةَ فِي هَذَا الْحَدِيثِ إِلَّا مَا ذَکَرَ هَمَّامٌ عَنْ قَتَادَةَ وَأَبُو الْخَلِيلِ اسْمُهُ صَالِحُ بْنُ أَبِي مَرْيَمَ

عبد بن حمید، حبان بن ہلال، ہمام بن یحیی، قتادة، ابوالخلیل، ابوعلقمة ہاشمی، حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ جنگ اوطاس کے موقع پر ہم لوگوں نے مال غنیمت کے طور پر ایسی عورتیں پائیں جن کے شوہر مشرکین میں موجود تھے۔ چنانچہ بعض لوگوں نے ان سے صحبت (جماع) کرنا مکروہ سمجھا تو اللہ تعالی نے یہ آیت نازل کی وَالْمُحْصَنَاتُ مِنْ النِّسَاءِ إِلَّا مَا مَلَکَتْ أَيْمَانُکُمْ۔ (ترجمہ۔ اور حرام ہیں خاوند والی عورتیں مگر یہ کہ وہ تمہاری ملکیت میں آ جائیں۔ اللہ تعالی نے ان احکام کو تم پر فرض کر دیا ہے) یہ حدیث حسن ہے۔

جامع ترمذی 2942

تفسیر ابن کثیر میں حافظ ابن کثیر رحمہ النساء آیت ۲۴ کی تفسیر میں لکھتے ہیں۔

یعنی خاوندوں والی عورتیں بھی حرام ہیں ہاں کفار کی عورتیں جو میدان جنگ میں قید ہو کر تمہارےقبضے میں آئیں تو ایک حیض گزارنے کے بعد وہ تم پر حلال ہیں، مسند احمد میں حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہےکہ جنگ اوطاس میں قید ہو کر ایسی عورتیں آئیں جو خاوندوں والیاں تھی تو ہم نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ان کی بابت سوال کیا تب یہ آیت اتری۔ ہم پر ان سے ملنا حلال کیا گیا۔

ترمذی، ابن ماجہ اور صحیح مسلم وغیرہ میں بھی یہ حدیث ہے ، طبرانی کی روایت میں ہے کہ یہ واقعہ جنگ خیبر کا ہے۔

بعض نے اس آیت سے نکاح متعہ پر استدلال کیا ہے۔ بے شک متعہ ابتدائے اسلام میں مشروع تھا لیکن پھر منسوخ ہو گیا۔

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ اور چند دیگر صحابہ سے ضرورت کے وقت اس کی اباحت مروی ہے، حضرت امام احمد حنبل سے بھی ایک روایت ایسی ہی مروی ہے۔

مجاھد رحمہ فرماتے ہیں یہ آیت نکاح متعہ کی بابت نازل ہوئی ہے لیکن جمہور اس کے برخلاف ہیں اور اس کا بہترین فیصلہ بخاری و مسلم کی حضرت علی والی روایت کر دیتی ہے جس میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر والے دن نکاح متعہ سے اور گھریلو گدھوں کے گوشت سے منع فرما دیا۔


شیخ الالسلام علامہ شبیر احمد عثمانی رحمہ تفسیر عثمانی میں لکھتے ہیں۔

:محرمات کا ذکر فرما کر اخیر میں اب ان عورتوں کی حرمت بیان فرمائی جو کسی کے نکاح میں ہوں یعنی جو عورت کسی کے نکاح میں ہے اس کا نکاح اور کسی سے نہیں ہو سکتا تاوقتیکہ وہ بذریعہ طلاق یا وفات زوج نکاح سے جدا نہ ہو جائے اور عدت طلاق یا عدت وفات پوری نہ کر لے اس وقت تک کوئی اس سے نکاح نہیں کر سکتا۔ لیکن اگر کوئی عورت خاوند والی تمہاری مِلک میں آ جائے تو وہ اس حکم حرمت سے مستثنٰی ہے اور وہ تم پر حلال ہے گو اس کا خاوند زندہ ہے اور اس نے طلاق بھی اس کو نہیں دی اور اس کی صورت یہ ہے کہ کافر مرد اور کافر عورت میں باہم نکاح ہو اور مسلمان دارالحرب پر چڑھائی کر کے اس عورت کو قید کر کے دارالاسلام میں لے آئیں تو وہ عورت جس مسلمان کو ملے گی اس کو حلال ہے گو اس کا زوج دارالحرب میں میں زندہ موجود ہے اور اس نے طلاق بھی نہیں دی اب سب محرمات کو بیان فرما کر اٰخیر میں تاکید فرما دی کہ یہ اللہ کا حکم اس کی پابندی تم پر لازم ہے۔ {فائدہ} جو عورت کافرہ دارالحرب سے پکڑی ہوئی آئے اس کے حلال ہونے کے لئے یہ ضروری ہے کہ ایک حیض گذر جائے اور وہ عورت مشرک بت پرست نہ ہو بلکہ اہل کتاب میں سے ہو۔

یعنی جن عورتوں کی حرمت بیان ہو چکی ان کے سوا سب حلال ہیں چار شرطوں کے ساتھ اول یہ کہ طلب کرو یعنی زبان سے ایجاب و قبول دونوں طرف سے ہوجائے۔ دوسری یہ کہ مال یعنی مہر دینا قبول کرو۔ تیسری یہ کہ ان عورتوں کو قید میں لانا اور اپنے قبضہ میں رکھنا مقصود ہو صرف مستی نکالنا اور شہوت رانی مقصود نہ ہو جیسا کہ زنا میں ہوتا ہے یعنی ہمیشہ کے لئے وہ اس کی زوجہ ہو جائے چھوڑے بغیر کبھی نہ چھوٹے مطلب یہ کہ کوئی مدت مقرر نہ ہو اس سے متعہ کا حرام ہونا معلوم ہو گیا جس پر اہل حق کا اجماع ہے چوتھی شرط جو دوسری آیتوں میں مذکور ہے یہ ہے کہ مخفی طور پر دوستی نہ ہو یعنی کم سے کم دو مرد یا ایک مرد اور دو عورت اس معاملہ کی گواہ ہوں اگر بدون دو گواہوں کے ایجاب و قبول ہو گا تو وہ نکاح درست نہ ہوگا زنا سمجھا جائے گا۔

مفتی اعظم مولانا شفیع عثمانی رحمہ معارف القرآن میں لکھتے ہیں۔

لفظ استمتاع کا مادہ م۔ت۔ع ہے جس کے معنی کسی فائدہ کے حاصل ہونے کے ہیں۔ کسی شخص سے یا مال سے کوئی فائدہ حاصل کیا تو اس کو استمتاع کہتے ہیں، عربی قواعد کی رو سے کسی کلمہ کے مادہ میں س اور ت کا اضافہ کر دینے سے طلب و حصول کے معنی پیدا ہو جاتے ہیں، اس لغوی تحقیق کی بنیاد پر فمااستمتعتم کا سیدھا مطلب پوری امت کے نزدیک خلفا عن سلف وہی ہے جو ہم نے ابھی اوپر بیان کیا ہے۔ لیکن ایک فرقہ کا کہنا ہےکہ اس سے اصطلاحی متعہ مراد ہے، اور ان لوگوں کے نزدیک یہ آیت متعہ حلال ہونے کی دلیل ہے، حالانکہ متعہ جس کو کہتے ہیں اس کی صاف تردید قرآن کریم کی آیت بالا میں لفظ محصنین غیر مسافحین سے ہو رہی ہے، جس کی تشریح آگے آ رہی ہے۔

قرآن مجید نے محرمات کا ذکر فرما کر یوں فرمایا ہےکہ ان کے علاوہ اپنے اصول کے ذریعہ حلال عوتیں تلاش کرو اس حال میں کہ پانی بہانے والے نہ ہوں یعنی محض شہوت رانی مقصود نہ ہو اور ساتھ ہی محصنین کی قید لگائی ہے یعنی یہ کہ عفت کا دھیان رکھنے والے ہوں۔ متعہ چونکہ مخصوص وقت کے لیے کیا جاتا ہے اور اس لیے جس عورت سے متعہ کیا جاتا ہے اس کو فریق مخالف زوجہ وارثہ بھی قرار نہیں دیتا، اور اس کو ازواج کی معروفہ گنتی میں بھی شمار نہیں کرتا اور چونکہ مقصد محض قضاء شہوت ہے اس لیے مرد و عورت عارضی طور پر نئے نئے جوڑے تلاش کرتے رہتے ہیں، جب یہ صورت ہے تو متعہ عفت و عصمت کا ضامن نہیں بلکہ دشمن ہے۔

مندرجہ بالا حدیثوں اور حوالہ جات سے یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہو رہی ہے کہ سورۃالنساء کی آیت 24 اوطاس کے موقع پر نازل ہوئی۔ اور وجہ نزول اوطاس میں قید ہونے والی مشرکین کی عورتوں کے بارےمیں ہے نہ کہ متعہ کے بارے میں؟؟؟

اور جب فریق مخالف کی قرآنی دلیل نازل ہی 8 ہجری فتح مکہ کے بعد ہو رہی ہے تو پھر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 8 ہجری تک کوئی اس آیت سے متعہ کی حلت پر استدلال کیسے کر سکتا ہے ؟؟؟

جبکہ محترمہ کا سارا زور ہی اس بات پر ہے کہ اس آیت کی روشنی میں متعہ 8 ہجری تک جاری رہا۔ اور نزول آیت ہو رہا ہے اوطاس کے موقع پر فتح مکہ کے بعد 8 ہجری میں ؟؟؟؟

جو چپ رہے گی زبان خنجر لھو پکارے گا آستین کا

اور مندرجہ بالا مراسلے کی روشنی میں حدیث عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ کو پڑھیے۔

جو حضرات ابتک نکاح متعہ کو زنا قرار دینے پر مصر ہیں، انکے لیے خود حضرت عمر کے اپنے فرزند عبداللہ ابن عمر کی گواہی کافی ہے۔ مسند احمد بن حنبل میں ابن عمر کے متعلق یہ روایت درج ہے:
حدثنا ‏ ‏عفان ‏ ‏حدثنا ‏ ‏عبيد الله بن إياد ‏ ‏قال حدثنا ‏ ‏إياد يعني ابن لقيط ‏ ‏عن ‏ ‏عبد الرحمن بن نعيم الأعرجي ‏ ‏قال ‏
‏سأل رجل ‏ ‏ابن عمر ‏ ‏وأنا عنده عن ‏ ‏المتعة ‏ ‏متعة ‏ ‏النساء ‏ ‏فغضب وقال والله ما كنا على ‏ ‏عهد ‏ ‏رسول الله ‏ ‏صلى الله عليه وسلم ‏ ‏زنائين ولا ‏ ‏مسافحين ‏ ‏ثم قال والله لقد سمعت رسول الله ‏ ‏صلى الله عليه وسلم ‏ ‏يقول ‏ ‏ليكونن قبل ‏ ‏المسيح الدجال ‏ ‏كذابون ثلاثون أو أكثر ‏
‏قال ‏ ‏أبي ‏ ‏و قال ‏ ‏أبو الوليد الطيالسي ‏ ‏قبل يوم القيامة ‏
ترجمہ: عفان نے عبید اللہ سے، انہوں نے ایاد سے، انہوں نے عبدالرحمن ابن نعیم سے روایت کی ہے: ایک شخص نے صحابی عبداللہ ابن عمر سے متعہ، متعہ النساء کے متعلق پوچھا۔ اس پر ابن عمر غصے ہو گئے اور قسم کہا کر کہنے لگے کہ ہم رسول اللہ (ص) کے زمانے میں زناکار و سفاح کار نہیں تھے۔ پھر آگے کہنے لگے کہ میں اللہ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میں نے رسول (ص) کو فرماتے سنا ہے کہ دجال کے آنے سے قبل 30 کذاب آئیں گے۔

کسی نے بھوکے سے پوچھا دو جمع دو کتنے ہوتے ہیں جواب ملا چار روٹیاں۔ ۔۔۔۔۔۔ تو اس سے یہ کہاں ثابت ہو رہا ہے کہ عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ متعہ کو جائز قرار دے رہے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور غور کریں کہ وہ غصہ ہوئے اور ممانعت متعہ کر رہے ہیں اور اس فعل سے برات کا اظہار کر رہے ہیں۔ کہ وہ متعہ کو زنا کاری اور سفاح کاری سمجھتے ہین۔ اور اس چیز کا ان سے کوئی تعلق نہیں۔

اور دوسرا یہ کہ متعہ سفاح و زناکاری و بدکاری ہرگز نہیں بلکہ عقد متعہ پاکیزہ و طیبات میں سےہے۔تو اب بتلائیں کہ آپ اس منکر حدیث شخص کی بات قبول کریں گے یا پھر لسان نبوی ص پر یقین لائیں گے؟

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ الْهَمْدَانِيُّ حَدَّثَنَا أَبِي وَوَکِيعٌ وَابْنُ بِشْرٍ عَنْ إِسْمَعِيلَ عَنْ قَيْسٍ قَالَ سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ يَقُولُا کُنَّا نَغْزُو مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيْسَ لَنَا نِسَائٌ فَقُلْنَا أَلَا نَسْتَخْصِي فَنَهَانَا عَنْ ذَلِکَ ثُمَّ رَخَّصَ لَنَا أَنْ نَنْکِحَ الْمَرْأَةَ بِالثَّوْبِ إِلَی أَجَلٍ ثُمَّ قَرَأَ عَبْدُ اللَّهِ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تُحَرِّمُوا طَيِّبَاتِ مَا أَحَلَّ اللَّهُ لَکُمْ وَلَا تَعْتَدُوا إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ الْمُعْتَدِينَ

محمد بن عبد اللہ بن نمیر ہمدانی، وکیع، ابن بشر، اسماعیل، قیس، حضرت عبد اللہ سے روایت ہے کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ غزوات میں شرکت کرتے تھے اور ہمارے ساتھ عورتیں نہ ہوتی تھیں ہم نے عرض کیا کیا ہم خصی نہ ہو جائیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں اس سے روک دیا پھر ہمیں اجازت دی کہ ہم کسی عورت سے کپڑے کے بدلے مقررہ مدت تک کے لئے نکاح کرلیں پھر حضرت عبد اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ آیت تلاوت کی اے ایمان والو! پاکیزہ چیزوں کو حرام نہ کرو جنہیں اللہ نے تمہارے لئے حلال کیا ہے اور نہ حد سے تجاوز کرو بے شک اللہ تجاوز کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔

صحیح مسلم 2493

صیحیح مسلم کی یہ حدیث دیکھیں کہ جس میں حضرت عبداللہ رضی اللہ مذکورہ آیت تلاوت کر رہے ہیں لسان نبوی کا تذکرہ نہیں۔ اور یہ عین ممکن ہے کہ بخاری والی روایت میں راوی سے بھول چوک ہوئی ہو۔
 

S. H. Naqvi

محفلین
سورۃالنساء کی آیت 24 اوطاس کے موقع پر نازل ہوئی۔
شوکت بھائی یہ تو آپ نے ہلا دینے والی معلومات دی ہیں، آپ نے اتنی اہم بات پہلے کیوں نہیں کی؟؟:zabardast1: میں تو پڑھ کر چونک اٹھا کیونکہ متعہ کی عمارت کا ایک مضبوط ستون اس آیت کا وقت نزول ہی تھا کہ جس سے مخالف فائدہ اٹھاتے تھے اور یہ واقعی ایک مضبوط پوائنٹ تھا کہ اس آیت سے ممانعت کیسے ثابت کی جا سکتی ہے جو ممانعت/بندش سے پہلے نازل ہوئی ہو اور یہ نقطہ میرے لیے بھی ذہنی خلش کا سبب تھا اور میں اسی پوائنٹ پر آج کل مطالعہ کر رہا تھا کہ اس آیت کا اصل وقت نزول پتا چل جائے مگر آپ نے میری مشکل آسان کر دی، اللہ آپ کو جزائے خیر عطا کرے اور اس کا قرار واقعی اجر دے اور آپ کی اس تحقیق کی جتنی تعریف کی جائے کم ہے،:great: میرے بھائی آپ نے تو عمارت متعہ کی بنیاد میں نہ صرف ڈائنامائیٹ لگایا بلکہ اسے بلا سٹ بھی کردیا اور پڑھنے والے اس عمارت کےانہدام کا گردوغبار باآسانی محسوس کرلیں‌ گے اور گردوغبار کے بادل چھٹتے چھٹتے شکوک و شبہات کے بادل بھی چھٹ جائیں گے اور حقیقت روزروشن کی طرع عیاں ہو جائے گی۔
اللہ آپ کے علم میں اضافہ فرمائے اور آپ کو لمبی عمر عطا کرے۔:a6:
تے اک ہور گل جی کہ ہنڑ لگدا "انھاں" دا ویک اینڈ زیادہ لمبا نا ہو جاوئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔! ہوم ورک جے زیادہ دے دتا اے نا۔۔۔۔۔۔۔۔۔!:laughing:haha:
 

مہوش علی

لائبریرین
انشاء اللہ تفصیلات اگلے ہفتے۔ فی الحال اس الزام پر کہ میں نے معاذ اللہ معاذ اللہ امام علی علیہ الصلوۃ السلام کی شان میں گستاخی کی ہے۔
تو یہ گستاخی میں نے تو ہرگز نہیں کی ہے، بلکہ صرف وہی بات بمع سوال کے دہرائی ہے جو کہ آپ لوگ علی ابن ابی طالب کے متعلق کہتے آ رہے ہیں (یعنی آگ میں جلا دینے والا واقعہ)۔ چنانچہ خاہ مخواہ مجھ پر الزام کیوں؟ روایت آپ نے پیش کی کہ آگ میں جلوایا علی ابن ابی طالب نے، اور پھر خاموش رہے اس پر ہزاروں کی تعداد میں مدینے میں موجود صحابہ۔۔۔۔ تو پھر اس بدعت پر سوال کیوں نہیں کیا جا سکتا جبکہ ایسی ہی ایک اور بدعت پر خلیفہ چہارم حضرت علی خود خلیفہ سوم حضرت عثمان سے الجھ پڑے تھے؟

ذرا غور سے پڑھئیے گا ان دو روایتوں کو (اگرچہ کہ تعداد تو بہت زیادہ ہے مگر فی الحال صرف ان دو روایتوں پر اکتفا کر رہی ہوں)

Sa'id b. al-Musayyab reported that 'Ali and 'Uthman (Allah be pleased with them) met at 'Usfan; and Uthman used to forbid (people) from performing Tamattu' and 'Umra (during the period of Hajj), whereupon 'Ali said: What is your opinion about a matter, which the Messenger of Allah (may peace be upon him) did but you forbid it? Thereupon Uthman said: You leave us alone, whereupon he ('Ali) said: I cannot leave you alone. When 'Ali saw this, he put on Ihram for both of them together (both for Hajj and 'Umra).
Sahih Muslim, Book 007, Number 2816:

Narrated Said bin Al-Musaiyab:
'Ali and 'Uthman differed regarding Hajj-at-Tamattu' while they were at 'Usfan (a familiar place near Makka). 'Ali said, "I see you want to forbid people to do a thing that the Prophet did?" When 'Ali saw that, he assumed Ihram for both Hajj and 'Umra.

Sahih Bukhari, Volume 2, Book 26, Number 640


اور ایک اور روایت زکوۃ کے متعلق:

Narrated Ibn Al-Hanafiya:
If Ali had spoken anything bad about 'Uthman then he would have mentioned the day when some persons came to him and complained about the Zakat officials of 'Uthman. 'Ali then said to me, "Go to 'Uthman and say to him, 'This document contains the regulations of spending the Sadaqa of Allah's Apostle so order your Zakat officials to act accordingly." I took the document to 'Uthman. 'Uthman said, "Take it away, for we are not in need of it." I returned to 'Ali with it and informed him of that. He said, "Put it whence you took it."
Sahih Bukhari, Volume 4, Book 53, Number 343


*********************

تو اب بتلائیے کہ اس آگ میں جلوانے والی بدعت پر پھر سوال کرنے پر کیوں جواب دینے کی بجائے ہم پر الزام بازی شروع ہو گئی؟

اور یہ بتلائیے کہ صحابہ کے ناموں سے پہلے یا بعد جس "ڈیکوریشن" کی شوکت کریم بھائی صاحب بات کر رہے ہیں، اُس کا حکم کب اللہ یا اُس کے رسول ﷺ نے نازل فرمایا ہے؟ ہر عربی کی اصل کتاب اٹھا کر دیکھ لیں وہاں آپ کو یہ سابقے و لاحقے ڈیکوریشن والے نظر آنے والے نہیں، بلکہ یہ بعد میں آنے والے مسلمانوں نے اپنی طرف سے بطور "بدعت حسنہ" جاری کیے ہیں۔ ہمیں ان سابقوں و لاحقوں پر بالکل کوئی اعتراض نہیں بلکہ نیک نیت سے کیے گئے ہیں تو ثواب ہی ہو گا، مگر جب آپ انہیں اپنے علاوہ دوسروں کے لیے "لازمی" کر دیں گے تو یہ چیز شریعت سازی ہو جائے گی اور بدعت سئیہ کا روپ اختیار کر لے گی۔ چنانچہ ان سابقوں یا لاحقوں کے علاوہ اگر کہیں کسی کی توہین کی گئی ہو تو دکھلائیے، اور اگر نہ دکھلا سکیں تو براہ مہربانی غلط افتراء بازی سے پرہیز فرمائیے۔
********************

از شوکت کریم:
میر صاحب راجہ پورس کے ہاتھیوں کے بارے میں پڑھا تھا کہ انہوں نے اپنی ہی فوج کو روند ڈالاتھا۔ اور لگتا ہے اب محترمہ نےبھی اپنے ہی دلائل کو خود روندنا شروع کر دیا ہے۔ اوپر والی تازہ ترین پوسٹ پڑھیے قطع نظر اس سے کہ جلانے والا عمل ہوا یا نہیں ہوا مگر کیا محترمہ کو ایک خلیفہ راشد، اور وہ بھی کہ جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نیابت کر رہے ہیں انکے بارے میں یہ کہنا کہ انہوں نے بدعت کی زیب دیتا ہے۔ اور کیا وہ نہیں جانتیں کہ خلیفہ وقت کے کیا اور کتنے اختیارات ہوتے ہیں۔

کاش کہ آپ دیکھ سکیں کہ آپ کیسے ڈبل سٹینڈرڈز سے کام لے رہے ہیں۔

جب پیچھے بات ہوئی تھی کہ حضرت عمر نے بطور خلیفہ وقت متعہ الحج اور متعہ النساء پر پابندی عائد کی تھی تو اُس وقت آپ کو یہ "خلیفہ وقت کے اختیارات" کیوں یاد نہیں آئے، اور کیوں اُس وقت مستقل یہ عذر پیش کیا جاتا رہا کہ صحابہ نے پھر اس نئی پابندی (بدعت) کو قبول کیوں کر لیا؟

ماشاء اللہ آپ تو چت بھی اپنا رکھتے ہیں اور پٹ بھی۔

اس مسئلے پر پلٹ کر اُس وقت آئیں گے جب حضرت عمر کے متعلق روایات پیش ہوں گی کہ کس طرح انہوں نے مختلف مراحل سے ہوتے ہوتے (مختلف واقعات کے پیش آنے پر) عقد المتعہ پر پابندی عائد کی تھی۔ انشاء اللہ۔
 
ش

شوکت کریم

مہمان
تو یہ گستاخی میں نے تو ہرگز نہیں کی ہے، بلکہ صرف وہی بات بمع سوال کے دہرائی ہے جو کہ آپ لوگ علی ابن ابی طالب کے متعلق کہتے آ رہے ہیں (یعنی آگ میں جلا دینے والا واقعہ)۔ چنانچہ خاہ مخواہ مجھ پر الزام کیوں؟ روایت آپ نے پیش کی کہ آگ میں جلوایا علی ابن ابی طالب نے، اور پھر خاموش رہے اس پر ہزاروں کی تعداد میں مدینے میں موجود صحابہ۔۔۔۔ تو پھر اس بدعت پر سوال کیوں نہیں کیا جا سکتا جبکہ ایسی ہی ایک اور بدعت پر خلیفہ چہارم حضرت علی خود خلیفہ سوم حضرت عثمان سے الجھ پڑے تھے؟

اور یہ بتلائیے کہ صحابہ کے ناموں سے پہلے یا بعد جس "ڈیکوریشن" کی شوکت کریم بھائی صاحب بات کر رہے ہیں، اُس کا حکم کب اللہ یا اُس کے رسول ﷺ نے نازل فرمایا ہے؟ ہر عربی کی اصل کتاب اٹھا کر دیکھ لیں وہاں آپ کو یہ سابقے و لاحقے ڈیکوریشن والے نظر آنے والے نہیں، بلکہ یہ بعد میں آنے والے مسلمانوں نے اپنی طرف سے بطور "بدعت حسنہ" جاری کیے ہیں۔ ہمیں ان سابقوں و لاحقوں پر بالکل کوئی اعتراض نہیں بلکہ نیک نیت سے کیے گئے ہیں تو ثواب ہی ہو گا، مگر جب آپ انہیں اپنے علاوہ دوسروں کے لیے "لازمی" کر دیں گے

میں نہیں جانتا کہ درحقیقت آپ کس فقہہ کو فالو کرتی ہیں یا نہیں کرتیں۔ مگر جس طرح اوپر آپ نے پھر اسی طرح حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا نام بغیر کسی لقب، ڈیکوریشن کے لکھا ہے یہ اگر مکمل خارجی سٹائل نہیں تو اس کے قریب ضرور ہے۔

اور ہم صحابہ کے ساتھ رضی اللہ عنہ لگاتے ہیں کہ اللہ نے خود سورہ بینہ کی آیہ ۸ میں فرمایا ہے ۔ رضی اللہ عنھم و رضو عنہ۔

اور خوارج کے رد میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ بالخصوص "کرم اللہ وجہہ" لکھا جاتا ہے۔

اور ہم صحابہ کرام رضی اللہ عنہم جیسی بلند و بالا ہستیوں کی پاؤں کی خاک بھی نہیں اور یہ ہمارا فرض بنتا ہے کہ ہم ان ہستیوں کے نام مبارک لیتے ہوئے عزت و احترام اور آداب کا خیال رکھیں۔ بالکل اسی طرح جیسے ہم والدین کو عزت و احترام کے ساتھ پکارتے ہیں، بہرحال ۔۔۔۔۔۔۔ کلام نرم و نازک مرد ناداں پہ بے اثر

کاش کہ آپ دیکھ سکیں کہ آپ کیسے ڈبل سٹینڈرڈز سے کام لے رہے ہیں۔

جب پیچھے بات ہوئی تھی کہ حضرت عمر نے بطور خلیفہ وقت متعہ الحج اور متعہ النساء پر پابندی عائد کی تھی تو اُس وقت آپ کو یہ "خلیفہ وقت کے اختیارات" کیوں یاد نہیں آئے، اور کیوں اُس وقت مستقل یہ عذر پیش کیا جاتا رہا کہ صحابہ نے پھر اس نئی پابندی (بدعت) کو قبول کیوں کر لیا؟

کاش آپ ہی مراسلوں کو گہرائی میں جا کر پڑھنا شروع کر دیں تو مجھے ایک اور وضاحتی مراسلہ لکھنے سے نجات مل جائے۔۔۔۔۔۔۔ ڈبل سٹینڈرڈ کی نشاندہی ہی تو میں نے مراسلے میں کی تھی کہ ایک طرف تو آپ خود پہلے مراسلے میں خلیفہ وقت کے اختیارات سے محفلین کو آگاہ کر رہی ہیں اور دوسری طرف خود ہی ایک خلیفہ راشد کے فیصلے کو بدعت کہہ رہی ہیں۔
 

S. H. Naqvi

محفلین
روایت آپ نے پیش کی کہ آگ میں جلوایا علی ابن ابی طالب نے، اور پھر خاموش رہے اس پر ہزاروں کی تعداد میں مدینے میں موجود صحابہ۔۔۔۔ تو پھر اس بدعت پر سوال کیوں نہیں کیا جا سکتا
لیجیئے صاحب اب آگ میں‌جلوانے اور ابن سبا کے متعلق بحث شروع ہو جائے گی اور جو اتنے سوالات ادھار ہیں ان کو تو سرد خانے میں ڈال دیا جائے گا۔ ایڈمن کیا اس سلسلے میں‌ ہم اپنی پرانی پوسٹ کو دوبارہ پوسٹ کر سکتے ہیں تا کہ محترمہ کی یاداشت میں رہے اور کل کلاں وہ کسی ایک سوال کا جواب دے کربری ہونے کا نہ سوچ سکیں؟؟؟؟ کیوں‌کہ اگر وہ اپنے موقف کی صداقت کی قائل ہیں‌تو ان پر لازم ہے کہ ہر سوال اور اعتراض کا جواب دیں، اور اس سلسلے میں براہ مہربانی ٹالا نہ جائے۔
 

مہوش علی

لائبریرین
ویسے تو میں نے اپنے ایک پچھلے مراسلے میں لکھا تھا کہ :

لیکن اس سے پہلے یہاں ۔۔۔۔ مہوش علی کے کچھ تناقضات کا ذکر کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔
اِس تھریڈ کی سب سے پہلی پوسٹ میں مہوش علی نے لکھا :
براہ مہربانی اقتباس کو ذرا غور سے پڑھئے ۔۔۔۔۔

اہل تشیع صدیوں سے چیخ چیخ کر جو بھی کہہ رہے ہوں وہ بہرحال یہ دو نکات ہرگز نہیں ہیں جن کا دعویٰ مہوش علی نے کیا ہے کہ :
1۔ ہمارے فقہ کے مطابق زن ممتوعہ بھی زوجہ ہی مانی جاتی ہے۔
اور رسول اللہ ص کے زمانے میں چار آزاد عورتوں سے نکاح دائمی کی قید کے باوجود رسول اللہ ص نے خود زن ممتوعہ کو زوجہ ہی قرار دیا اور اس پر اس چار والی قید نہیں لگائی۔

چیلنج: ثابت کریں رسول اللہ ص کے زمانے میں عقد المتعہ والی بیوی اُن 4 ازواج میں شامل ہوتی تھی

ہم نے عقد المتعہ کے قوانین اپنے طرف سے نہیں بنائے، بلکہ یہ رسول اللہ ص کے زمانے میں اسی طرح جاری تھے۔ اور نکاح المتعہ والی بیوی ان 4 نکاح دائمی والی بیویوں میں شامل نہیں ہوتی تھی۔
ہم پر اعتراضات کیے جاتے ہیں مگر خود کوئی ثبوت پیش نہیں کر سکتے۔

از باذوق:
اس دعویٰ کے بالکل برخلاف آج اس پوسٹ میں خود مہوش علی اعتراف کر رہی ہیں :
یہاں امام صاحب کہہ رہے ہیں کہ : عقد المتعہ کرنے والے شخص کو شادی شدہ نہیں کہہ سکتے !
آدمی ظاہر ہے "شادی شدہ" اسی وقت کہلائے گا جب "زوجہ" رکھتا ہو یعنی ۔۔۔۔
عقد المتعہ جس کسی عورت سے کیا جاتا ہے وہ عورت "زوجہ" نہیں بنتی !
اور یہی بات آنسرنگ انصار ویب سائیٹ (جہاں سے محترمہ مہوش علی اپنا "تحقیقی مواد" حاصل کر رہی ہیں) کی اس روایت میں بھی صاف صاف درج ہے :
بڑی عجیب بات ہے کہ اہل تشیع کے اکابرین تو صاف صاف کہیں کہ ممتوعۃ عورت "زوجہ" نہیں بلکہ "hired woman" ہے اور ممتوعۃ "چار آزاد عورتوں" والی کٹیگری میں بھی شامل نہیں !

اور اس کے مقابلے میں مہوش علی کی یہ بلاحوالہ چیخ و پکار :

اب اس کو صریح تناقض نہیں تو اور کیا کہا جائے۔

مزید ۔۔۔۔۔۔
ترجمہ کے الٹ پھیر کے ذریعے بھی یوں دھوکہ دیا گیا ہے :

ذرا فرمائیے کہ کس اللہ کے بندے نے اردو ترجمہ کے سہارے [arabic]نتزوج المرأة[/arabic] کا مطلب ۔۔۔
عورت کو اپنی "زوجہ" بنانا
لیا ہے ؟؟
وحید الزماں کا ترجمہ اٹھا کر دیکھ لیں یا کسی اور مترجم کا ۔۔۔۔
سب جگہ [arabic]نتزوج المرأة[/arabic] کا مطلب "عورت سے نکاح (یا شادی)" ہی لکھا ہے۔
میرے علم میں نہیں ہے کہ حدیث کے کسی ایک بھی اہل سنت شارح نے نتزوج المرأة کا مطلب یہ لیا ہو کہ ممتوعۃ عورت شادی کے بعد "زوجہ" کا درجہ حاصل کر لیتی ہے۔ اگر اہل سنت شارحینِ حدیث کے متعلق مہوش علی کا ایسا کوئی دعویٰ ہے تو براہ مہربانی مکمل حوالہ پیش کریں۔
حدیث کے عربی لفظ [[arabic]نتزوج[/arabic]] سے کھلواڑ ۔۔۔۔ یہ صرف اور صرف مہوش علی کا ذاتی انفرادی سیاہ کارنامہ ہے۔ ورنہ تو جب اہل تشیع کے اکابرین نے بھی ممتوعۃ عورت کو "زوجہ" کا درجہ نہیں دیا (جیسا کہ اوپر ثبوت پیش کئے گئے ہیں)

اوپر آپ نے کونسا ثبوت پیش کیا ہے کہ اہل تشیع کے نزدیک زن ممتوعہ زوجہ نہیں ہے؟
اب تک سنا تھا "لکھے مو سا پڑھے خود آ"۔ اب جو ثبوت پیش کیا ہے جہاں ائمہ اہلبیت نے زن ممتوعہ کا زوجہ ہونے کا انکار کیا ہے، تو وہ آ کر خود ہی بتا دیجئے کیونکہ ہمیں تو کہیں یہ بات نہیں ملی اور یہ کھلا ہوا جھوٹا الزام ہے ائمہ اہلبیت پر۔
اور شادی شدہ نہ ہونے کا مطلب صاف صاف بیان ہو گیا تھا کہ شادی شدہ وہ شخص کہلاتا ہے جس کی بیوی ہوتی ہے۔ اور عقد الدائمی میں بھی جس شخص کی بیوی عقد المتعہ کی طرح طلاق کی وجہ سے الگ ہو گئی ہو اُسے کوئی پھر بھی شادی شدہ کہے تو ایسی بے وقوفانہ بات کا کون کیا جواب دے؟

ائمہ اہلبیت پر جو کھلا جھوٹ کہ انہوں نے زن ممتوعہ کو زوجہ نہیں مانا، تو اسکی رد میں کچھ احادیث پیش خدمت ہیں تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے۔

مستاجرہ (کرائے کی) عورت والی روایت

[ARABIC]عن أبي جعفر (عليه السلام) قال: قلت له: جعلت فداك الرجل يتزوج المتعة وينقضي شرطها ثم يتزوجها رجل آخر حتى بانت منه ثم يتزوجها الاول حتى بانت منه ثلاثا وتزوجت ثلاثة أزواج يحل للاول أن يتزوجها؟ قال: نعم كم شاء ليس هذه مثل الحرة هذه مستأجرة وهي بمنزلة الاماء. [/ARABIC]
لنک الکافی

اوپر والا چیلنج برقرار ہے کہ ثابت کریں رسول اللہ ﷺ نے عقدالمتعہ والی بیوی کو کبھی نکاح دائمی والی 4 بیویوں میں شمار کیا ہو۔ عقد المتعہ کی یہ شرائط رسول اللہ ص کے زمانے سے ہیں اور ان میں ہم نے اپنی طرف سے کوئی تبدیلی نہیں کی ہے۔ امام علیہ السلام بھی وہی فرما رہے ہیں کہ عقد المتعہ میں تزویج ہے، مگر یہ نکاح دائمی والی 4 بیویوں میں شامل نہیں بلکہ انکی "مثل" کرائے کی حاصل کی گئی بیویوں کی طرح ہے اور ان کی تعداد کے متعلق وہی قوانین ہیں جو کہ کنیز عورت کی تعداد کے متعلق ہیں کہ اُس پر کوئی پابندی نہیں۔

اور ایک یہ روایت ہی کیا، الکافی میں عقد المتعہ (لنک) کے اس باب میں کئی روایات موجود ہیں جہاں عقد المتعہ کے لیے ائمہ علیھم السلام تزویج کا لفظ استعمال کر ہے ہیں۔ مثلا، یہ دو روایات:
محمد بن يحيى، عن محمد بن الحسين، وعدة من أصحابنا، عن أحمد بن محمد، عن عثمان بن عيسى، عن سماعة، عن أبي بصير قال: لابد من أن تقول في هذه الشروط: أتزوجك متعة كذا وكذا يوما بكذا وكذا درهما نكاحا غير سفاح على كتاب الله عز وجل وسنة نبيه (صلى الله عليه وآله) وعلى أن لا ترثيني ولا أرثك وعلى أن تعتدي خمسة وأربعين يوما وقال: بعضهم حيضة. 3 - علي بن إبراهيم، عن أبيه، عن عمرو بن عثمان، عن إبراهيم بن الفضل، عن أبان بن تغلب، وعلي بن محمد، عن سهل بن زياد، عن إسماعيل بن مهران، ومحمد بن أسلم عن إبراهيم بن الفضل، عن أبان بن تغلب قال: قلت لابي عبد الله (عليه السلام): كيف أقول لها إذا خلوت بها؟ قال: تقول أتزوجك متعة على كتاب الله وسنة نبيه (صلى الله عليه وآله) لا وارثة ولا موروثة كذا وكذا يوما وإن شئت كذا وكذا سنة بكذا وكذا درهما وتسمى

باقی روایات الکافی کے اس لنک پر دیکھی جا سکتی ہیں۔

ونیز ۔۔۔۔
[arabic]نتزوج المرأة[/arabic] کا مطلب "عورت سے نکاح (یا شادی)" اسی حدیث کے ایک دوسرے متن سے بھی ثابت ہے جسے خود مہوش علی نے یوں پیش کیا تھا :
اور ۔۔۔۔۔
اگر بخاری کی اس حدیث میں [arabic]نتزوج المرأة[/arabic] کے الفاظ ہیں تو صحیح بخاری کی اسی سند [عن اسماعيل، عن قيس، عن عبد الله] اور اسی مفہوم والی ایک دوسری حدیث میں [arabic]ننكح المرأة[/arabic] کے الفاظ کی موجودگی چیخ چیخ کر بتاتی ہے کہ اس سے مراد :
عورت سے شادی (متعہ) کرنا ہے ناکہ ممتوعۃ کو اپنا زوجہ بنانا !!

میں نے تو "نکاح" یا نتزوج کی بحث شروع ہی نہیں کی بلکہ یہ بات بالکل صاف ہے کہ جس آزاد عورت کے ساتھ بھی اسلام کی بیان کردہ شرائط کے ساتھ عقد ہو گا، وہ زوجہ میں شامل ہو گی۔
اور اگر واقعی میں نکاح اور نتزوج میں زمین آسمان کا فرق ہے تو صحیح بخاری کا یہ راوی کیا اتنا فرق بھی نہ سمجھتا تھا؟

اور کیا کریں کہ اللہ کے رسول کی نص کے مقابلے میں جب جب آپ قیاسی گھوڑے دوڑائیں گے وہیں وہیں آپ کو منہ کی کھانی پڑے گی۔

یہ "زوجہ" کی پوری بحث شروع ہوئی جب یہ قیاس کیے گئے کہ چونکہ اللہ تعالی نے سورۃ المومنون کی آیت 6 میں زوجہ اور ملک یمین کی بات کی ہے تو اس بنیاد پر عقد المتعہ حرام ہو گیا۔ مگر جھوٹ کے لیے بھی عقل کی ضرورت ہوتی ہے۔ سورۃ المومنون کے متعلق تمام کے تمام لوگ متفق ہیں کہ یہ مکہ میں نازل ہوئی، مگر اللہ کا رسول ﷺ اس آیت کے نزول کے سالوں بعد تک خود صحابہ کو متعہ کی اجازت اور حکم دیتے رہے۔۔۔
تو ان حضرات کو فقط اپنے قیاسی گھوڑوں کی بنیاد پر عقد المتعہ کو حرام قرار دینا ہے چاہے اس سے رسول اللہ ﷺ پر حرف آئے کہ انہیں قرآن کے معنی کا پتا نہیں تھا (معاذ اللہ)، اور اللہ نے تو مکہ میں عقد المتعہ کو اس "زوجہ" والی آیت میں حرام قرار دے دیا مگر رسول اللہ ﷺ پھر بھی عقد المتعہ کی اجازت اور حکم دیتے رہے۔

اور پھر اسکے بعد عبداللہ ابن مسعود، ابن عباس، ابو سعید خدری، ابی ابن کعب اور دیگر صحابہ و تابعین رسول اللہ ﷺ کی وفات تک مستقل عقد المتعہ کرتے رہے اور انہیں پورے قرآن میں یہ "زوجہ" والی آیت نظر نہیں آئی۔
بلکہ اس سے بھی برا، رسول اللہ ﷺ کی وفات کے بعد حضرت ابو بکر اور حضرت عمر کی خلافت کے آخر یا کم از کم نصف تک مستقل عقد المتعہ کرتے رہے اور انہیں پھر بھی قرآن کی یہ آیت نظر نہیں آئی (معاذ اللہ)۔

اور پھر سونے پر سہاگہ کہ حضرت عمر کو جب عقد المتعہ کو حرام کرنا ہوتا ہے تو وہ قڑان کی یہ آیت بیان کرنے کی بجائے کھل کر کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں دو متعے جاری تھے اور میں ان کی ممانعت کرتا ہوں اور انکے کرنے والوں کو سزا دوں گا۔

اور پر مزید سونے پر سہاگہ یہ کہ جب ابن عباس اور ابن زبیر کا جھگڑا ہو رہا تھا اور صحابہ و تابعین کا پورا جم غفیر وہاں موجود تھا، تو اُس وقت بھی ابن زبیر یا اُس کے حامیوں کو اس مکہ میں نازل ہونی والی قرآنی آیت کا علم نہیں بلکہ واحد آرگومینٹ وہاں ابن عباس کی طرف سے پیش ہوتا ہے کہ ابن زبیر جاؤ اور جا کر اپنی والدہ سے عقد المتعہ کے متعلق پوچھ لو۔ اور اس پر تمام لوگ بجائے اس قرآنی آیت کو پیش کرنے کے (یا رسول اللہ ﷺ سے کسی اور متعہ کے حرام کرنے کے واقعے کو بیان کرنے کے) جاتے ہیں ابن زبیر کی والدہ کے پاس اور ان سے جا کر عقد المتعہ کے متعلق پوچھتے ہیں۔ اور وہ جواب میں ابن عباس کی تائید کرتی ہیں۔

شکر الحمد للہ۔ اللہ تعالی ہر ہر جگہ ان قیاسی گھوڑوں کے بتوں کو پاش پاش کرنے کا انتظام خود کر چکا ہے۔

اور سورۃ النساء کی آیت 24 کا حنین پر نزول ہونا تو بذات خود آپکے گلے پڑنے والا ہے اور اسکے بعد جو حنین سے پہلے متعہ حرام ہونے کی جھوٹی روایات گھڑی گئی ہیں، وہ سب روشنی میں آنے والی ہیں۔ تفصیل انشاء اللہ دو تین روز میں فارغ ہونے کے بعد۔
 

مہوش علی

لائبریرین
آپ بھی کیسی بےتکی باتیں کر رہی ہیں ؟؟
صحیحین کو چھوڑ کر وہ کون سی ایسی کتابِ روایت ہے جس کی تمام روایات کو اہل سنت نے حجت مانا ہو؟ محض کسی روایت کے نقل ہو جانے سے کیا یہ لازم آتا ہے کہ وہ صحیح اور قابل حجت بھی ہوگی؟ دوسری بات ایک یہ بھی کہ قرآنسٹ حضرات کو تو بخاری و مسلم میں بھی ایسی کئی روایات نظر آتی ہیں جن سے ان کی عقل کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی توہین ہوتی ہے ۔۔۔۔ کیا ان کے اس فہم کو قبول کر لیا جانا چاہئے؟؟
ونیز ۔۔۔ ضعیف و موضوع روایات پر متقدمین اور متاخرین ائمہ و علماء نے جو کتابیں لکھی ہیں وہ سب کس لئے ہیں؟؟ کیا ان کتب کے ذریعے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اصحاب کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین کی دانستہ توہین کی گئی ہے یا ان کا مذاق اڑایا گیا ہے؟؟
یہ عجیب و غریب منطق تو منکرینِ حدیث کی ہے کہ ان کا فرمان ہوتا ہے کہ :
جس روایت کے ذریعے نبی کی توہین کا مفہوم ہماری عقل میں آئے وہ کتبِ فضائل میں قطعاَ بیان نہیں ہونی چاہئے۔

جی ہاں، آپ اپنی باری تو فضائل کے باب میں وارد ضعیف روایات کے حجت ہونے کا انکار کر رہے ہیں (حالانکہ وہ آپکی سنن اور دیگر کئی علماء کے حوالے سے میں دکھا چکی ہوں)، مگر یہی بات جب ہم عقد المتعہ کے فضائل کے حوالے سے کہتے ہیں کہ فضائل والی روایات ہم پر حجت نہیں، وہ بھی اس حالت میں کہ اُن کی سند تک معلوم نہیں، تو پھر ہماری باری یہ بات قبول نہیں ہوتی۔ یہ ہے وہ دو رخ کا رویہ جسکی طرف میں شروع سے اشارہ کرتی آئی ہوں کہ خود پر ہزار خون معاف، مگر دوسرے کی آنکھ کا تنکا بھی ناقابل معافی جرم۔

یہی وجہ ہے کہ پہلے دن سے شوکت بھائی کو چیلنج کیا ہوا تھا کہ وہ فضائل والی ان روایات کو صحیح سند سے پیش کر کے بتا دیں کہ کون سے علماء نے انکو حجت مانا ہے۔ مگر مجال ہے جو آج تک اس چیلنج کا جواب دیا ہو، بلکہ روش وہی پرانی جاری رہی اور آج تک ایک روایت بھی بمع صحیح سند کے پیش نہ کی گئی کہ جس کو اہل تشیع علماء حجت مانتے ہوں۔
اور من لا یحضرہ الفقہیہ پر شیعہ علماء کی شرحیں موجود ہیں جہاں انہوں نے اسکی روایات کی صحیح و ضعیف وغیرہ میں درجہ بندی کی ہوئی ہے مثلا علامہ بہبہودی کی کتاب صحیح من لا یحضرہ الفقہیہ وغیرہ۔ مگر چونکہ ان بھائی صاحب کو صرف ہم پر الزامات لگانے کا شوق ہے، لہذا اتنا سمجھانے کے بعد بھی ان کی روش تبدیل ہونے والی نہیں اور انہیں اپنی کتابوں میں، کئی کئی علماء کا حضرت عمر کا سب سے پہلے جنت میں داخل ہونا نظر نہیں آتا۔


جی ! ہم کو تو خیر سے پتا ہے کہ ہم اپنی آنکھوں کو کتنا کھول کر دوسروں کی "محنت" دیکھ رہے ہیں لیکن اب تو یہ بھی علم ہو رہا ہے کہ کتربیونت والے حوالے دیتے ہوئے کس طرح دوسروں کی کھلی آنکھوں میں دھول جھونکی جا رہی ہے؟

ویسے لاکھوں صحابہ میں سے "جم غفیر" کے حوالے سے آپ کے پاس کیا ابن حزم (رحمۃ اللہ علیہ) کی بتائی ہوئی صرف یہی 9 صحابہ والی لسٹ ہے ؟؟
کتربیونت کی ایک مثال تو یہیں پر آپ نے قائم کر دی۔

میں نے صرف صحابہ کے جم غفیر کی بات نہیں کی تھی، بلکہ تابعین کا ذکر ساتھ کیا تھا کہ جب ابن زبیر اور عبداللہ ابن عباس کا خطبے کے دوران جھگڑا ہوا اور صحابہ و تابعین کا جم غفیر وہاں موجود تھا، مگر کسی کو بھی سورۃ المومنون کی مکی آیت والی "زوجہ" یاد آتی ہے، نہ ہی قرآن کی کوئی اور آیت یاد آتی ہے (معاذ اللہ۔ اگر عقل رکھیں تو آپ کو سمجھ آنا چاہیے کہ آپ نے اپنے قیاسی گھوڑے دوڑا کرصحابہ و تابعین کی بہت بے عزتی کی ہے)

میرے الفاظ یہ تھے:

اصل پيغام ارسال کردہ از: مہوش علی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور مسلسل ایک ہی بات ثابت ہو رہی ہے کہ صحابہ اور تابعین کا ایک جم غفیر ہے جسے رسول اللہ ص کی زندگی میں پیش آنے والے کسی ایسے واقعے کا سرے سے علم ہی نہیں ہے کہ جہاں رسول ص نے عقد المتعہ کو حرام قرار دیا ہو۔ چاہے یہ خیبر ہو، یا فتح مکہ، یا اوطاس، یا عمرۃ القضا یا حنین، یا تبوک یا حجۃ الوداع۔۔۔۔ ان کو سرے سے کسی ایسے واقعے کا علم ہی نہیں۔ اور یہ صورت نصف صدی گذر جانے کے بعد ہے۔ مگر بہانے بنانے والے دھڑلے سے بہانہ بناتے ہیں کہ نصف صدی تک ان صحابہ و تابعین تک حرمت کی روایات نہیں پہنچ سکیں۔
ذرا اپنا حساب بھی تو دے!!!

باذوق صاحب فرماتے ہیں:
ویسے لاکھوں صحابہ میں سے "جم غفیر" کے حوالے سے آپ کے پاس کیا ابن حزم (رحمۃ اللہ علیہ) کی بتائی ہوئی صرف یہی 9 صحابہ والی لسٹ ہے ؟؟
1۔ پہلا دعوی:سورۃ المومنون کی آیت 6 نے متعہ کو حرام قرار دیا
سوال:
ویسے لاکھوں صحابہ میں سے "جم غفیر" کے حوالے سے آپکے پاس کتنے نام ہیں جنہوں نے دعوی کیا کہ سورۃ المومنون کی "زوجہ" والی آیت سے عقد المتعہ حرام ہو گیا۔
لے دے کر ایک حضرت عائشہ کا نام ملتا ہے۔ پہلا ثابت کیجیے کہ یہ روایت صحیح ہے۔ پھر یہ بتلائیے کہ یہ حضرت عائشہ کا خیال تھا یا پھر انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے یہ سنا تھا (روایت کو غور سے پڑھیے گا تو پتا چل جائے گا)۔
تو رسول اللہ ص کی وفات کے بعد کتنے صحابہ کا "جم غفیر" ہے جسے قرآن کی اس آیت کا علم ہے کہ مکہ میں نازل ہونے والی یہ روایت عقد المتعہ کو حرام قرار دیتی ہے؟؟؟


2۔ دوسرا دعوی: سورۃ النساء کی آیت 24 نے متعہ کو حرام کیا
سوال:
ویسے صحابہ کے جم غفیر میں سے کتنے صحابہ کو علم تھا کہ سورۃ النساء کی آیت 24 نے متعہ کو حرام کیا ہے؟

یہ بہت دلچسپ مرحلہ ہے اور اس پر مخالفین پہلے ہی کھل کر جھوٹی باتیں لکھ چکے ہیں حالانکہ انکے سامنے مکمل دلائل پیش کیے جا چکے تھے کہ جس کے بعد بھاگنے کی کوئی گنجائش نہ تھی۔

تو باذوق صاحب، آپ صحابہ کے اس جم غفیر کی لسٹ پیش کیجئے۔ مجھے تو ابھی بہت سے مقامات کے متعلق اس جم غفیر کی لسٹ مزید طلب کرنی ہے (مثلا طلاق والی آیت کا جم غفیر، میراث والی آیت کا جم غفیر، فتح خیبر کا جم غفیر، فتح مکہ کا جم غفیر، اور تبوک کا جم غفیر۔۔۔۔۔۔ وغیرہ وغیرہ) ، مگر ابھی میں بات کو یہاں ملتوی کرتی ہوں کیونکہ سورۃ النساء کی آیت 24 پر تھوڑی بات ہو جائے اور جو جھوٹی بات پھر دہرائی گئی ہے، وہ صاف ہو جائے۔

سورۃ النساء کی آیت 24 کا اوطاس کے موقع پر نزول

اور سورۃ النساء کی آیت 24 کا غزوہ اوطاس کے موقع پر عقد المتعہ کے حلال ہونےکے متعلق نزول تو خود ہمارے اس مؤقف کی سب سے بڑی دلیل ہے کہ اوطاس سے قبل جو عقد المتعہ کے حرام ہونے کی روایات ہیں وہ سب کی سب جھوٹی اور گھڑی ہوئی ہیں۔ چاہے یہ اوطاس سے پہلے خیبر ہو، یا فتح مکہ یا سورۃ المومنون کی مکی آیت، یا آیت میراث یا طلاق وغیرہ وغیرہ۔

غلط دعوی اور بیان بازی

یاد رہے سورۃ النساء کی آیت 24 عقد المتعہ کے جواز میں نازل ہوئی اور اسکے متعلق تمام تر ثبوت تفصیل کے ساتھ پہلے پیش کیے جا چکے ہیں۔
ذیل میں ایک بار پھر غلط دعوی کیا جا رہا ہے۔
از شوکت کریم:
از ابن کثیر:
مجاھد رحمہ فرماتے ہیں یہ آیت نکاح متعہ کی بابت نازل ہوئی ہے لیکن جمہور اس کے برخلاف ہیں ۔۔۔۔
چیلنج:
1۔ جمہور کی بات تو چھوڑیں ، صحابہ کے اس جم غفیر میں سے فقط کسی ایک صحابی یا تابعی کا قول دکھا دیں جس نے دعوی کیا ہو کہ سورۃ النساء کی یہ آیت عقد المتعہ کو حرام ٹہرانے کے لیے نازل ہوئی ہے۔

پیچھے سارے ثبوت پیش ہو چکے ہیں، مگر بگلے کی پھر وہی ایک ٹانگ کے مصادق تکرار جاری ہے۔

غور فرمائیں، آج فاروق صاحب آپ اور حضرات جیسے لاکھوں کڑوڑوں حضرات ہیں جنہیں لمحہ نہیں لگتا اور وہ قرآن سے دسیوں آیات نکال کر عقد المتعہ کو حرام قرار دے دیتے ہیں۔

1۔ مگر کیا وجہ ہے کہ لاکھوں صحابہ کے جم غفیر میں سے ایک، فقط کوئی ایک صحابی بھی ایسا نہیں جس نے آج تک دعوی کیا ہو کہ سورۃ النساء کی آیت 24 عقد المتعہ کو حرام ٹہرانے کے لیے نازل ہوئی تھی۔

2۔ اور پھر لاکھوں صحابہ کے جم غفیر کے بعد باری آتی ہے لاکھوں تابعین کے جم غفیر کی، اور ان میں بھی ایک ، فقط ایک تابعی بھی ایسا نہیں جسے قرآن کا یہ فہم ہو کہ سورۃ النساء کی یہ آیت عقد المتعہ کو حرام ٹہرانے کے لیے نازل ہوئی۔

3۔ اور پھر علی سے خیبر کی جھوٹی روایت گھڑی جاتی ہے کہ وہ ابن عباس کو تنبیہ کر رہے ہیں کہ متعہ خیبر میں حرام ہوا۔ تو پھر کیوں نہیں علی نے سیدھا سیدھا قرآن کی اس آیت کا حوالہ ابن عباس کو دے دیا کہ یہ آیت عقد المتعہ کو حرام قرار دیتی ہے؟

4۔ پھر حضرت عمر خلیفہ بن گئے اور پھر بھی جب ممانعت کرتے ہیں تو اس قرآنی آیت کا حوالہ نہیں دیتے، بلکہ صاف صاف کہتے ہیں کہ رسول اللہ ص کے دور میں دو متعے رائج تھے جن کی میں ممانعت کرتا ہوں اور انکے کرنے پر سزا دوں گا۔

5۔ نصف صدی بعد ابن عباس اور ابن زبیر اور صحابہ و تابعین کے مجمع میں جھگڑا ہوتا ہے اور کسی کو یہ آیت یاد نہیں آتی۔

6۔ پھر جابر بن عبداللہ انصاری کے پاس یہ جم غفیر آتا ہے تو اُس وقت بھی کسی کو یہ آیت نظر نہیں آتی


ادھر لاکھوں صحابہ و تابعین کے جم غفیر کی یہ حالت ہے کہ نصف صدی بعد تک انہیں علم نہیں کہ سورۃ النساء کی آیت 24 عقد المتعہ کو حرام کرتی ہے، مگر ادھر ہمارے بھائی لوگوں کی حالت یہ ہے کہ صبح اٹھ کر کلی کیے بغیر منٹوں میں قرآن سے دسیوں آیات نکال کر سامنے رکھ دیتے ہیں کہ ان سے عقد المتعہ حرام ہوا۔ اللہ کی پناہ۔

***************

جمہور صحابہ و تابعین (اور سلف) کا دعوی کہ یہ آیت عقد المتعہ کے جواز میں نازل ہوئی

آئیے اب ابن کثیر کے جمہور کے قول کے مقابلے میں اس آیت کی شرح میں موجود وہ دلائل دیکھتے ہیں کہ جن سے پہلے دن سے بھائی لوگ فرار ہیں۔
از مہوش علی:
”سلف” کے جمہور مفسرین و علماء کی گواہی کہ یہ آیت عقد المتعہ کے جواز میں نازل ہوئی۔ مثلا:

1۔ تفسیر قرطبی [وقال الجمهور : المراد نكاح المتعة الذي كان في صدر الإسلام][آنلائن لنک]

2۔ فتح القدیر [وقال الجمهور: إن المراد بهذه الآية: نكاح المتعة الذي كان في صدر الإسلام][آنلائن لنک]

3۔ اہل حدیث عالم نواب صدیق حسن خان اپنی کتاب نیل المرام میں[ و قال الجمھور ان المراد بھذا الایتہ نکاح المتعتہ ]

4۔ سر سید احمد خان کا اعتراف (تفصیل آگے آ رہی ہے)۔
از مہوش علی:

صحابہ و تابعین کی گواہیاں کہ یہ آیت متعہ کے جواز میں نازل ہوئی

اس مقام پر ہم پھر منکر حدیث حضرات کو انکے حال پر چھوڑتے ہوئے آگے بڑھتے ہیں اور اب مخاطب فقط اہلحدیث/اہلسنت برادران ہیں۔
صحابہ کرام میں سے کوئی ایک ایسا صحابی نہیں جس نے اس بات کا انکار کیا ہو کہ یہ آیت متعہ کے جواز میں نہیں۔ اسی وجہ سے آج کے دور کے برخلاف (جہاں انکار حدیث کا دور دورہ ہے)، جمہور سلف علماء اور مفسرین قرآن اس بات پر متفق نظر آتے ہیں کہ یہ آیت عقد متعہ کے جواز میں نازل ہوئی۔
پہلی روایت:
امام عبدالرزاق اور ابن منذر نے حضرت عطاء کے واسطہ سے حضرت ابن عباس رضہ اللہ عنہما سے روایت نقل کی ہے کہ اللہ تعالی حضرت عمر رضی اللہ عنہ پر رحم فرمائے نکاح متعہ اللہ تعالی کی رحمت تھی جو اس نے امت محمد پر کی۔ اگر حضرت عمر رضی اللہ عنہ اس سے منع نہ کرتے تو بدبخت ہی زنا کرتا۔ کہا یہ سورۃ النساء میں مذکور ہے "فما استمتعتم بہ منھن" اتنی مدت کے لئے اور یہ معاوضہ ہو گا جب کہ انکے درمیان وراثت نہ ہو گی۔ اگر مدت مقررہ کے بعد بھی راضی ہوں تو بھی ٹھیک ہے۔ اگر جدا ہونے پر راضی ہوں تو بھی ٹھیک ہے جب کہ ان دونوں کے درمیان کوئی نکاح نہیں ہو گا۔ انہوں نے یہ خبر بھی دی کہ انہوں نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کو کہتے ہوئے سنا کہ وہ اب بھی اس کو حلال سمجھتے ہیں [مصنف عبدالرزاق، جلد 7، صفحہ 497، روایت 14021، گجرات ہند]
دوسری روایت:
حدثنا ‏ ‏مسدد ‏ ‏حدثنا ‏ ‏يحيى ‏ ‏عن ‏ ‏عمران أبي بكر ‏ ‏حدثنا ‏ ‏أبو رجاء ‏ ‏عن ‏ ‏عمران بن حصين ‏ ‏رضي الله عنهما ‏ ‏قال ‏
أنزلت ‏ ‏آية المتعة ‏ ‏في كتاب الله ففعلناها مع رسول الله ‏ ‏صلى الله عليه وسلم ‏ ‏ولم ينزل قرآن يحرمه ولم ينه عنها حتى مات قال ‏ ‏رجل ‏ ‏برأيه ما شاء ‏‏[صحیح بخاری لنک ]
ترجمہ: صحابی عمران بن حصین کہتے ہیں:"آیت متعہ قرآن میں نازل ہوئی اور ہم رسول اللہ ص کے عہد میں متعہ کرتے تھے اور قرآن میں اسکے بعد کچھ اور نازل نہیں ہوا جو اس کی ممانعت کرتا اور نہ ہی رسول اللہ ص نے اسکی ممانعت کی حتی کہ آپ ص کا انتقال ہو گیا۔ مگر اسکے بعد ایک شخص (عمر ابن الخطاب) نے اپنی مرضی سے جو چاہا وہ کہا۔ [حوالہ: تفسیر کبیر از امام ثعلبی، تفسیر کبیر از امام فخر الدین رازی، تفسیر ابن حیان، تفسیر نیشاپوری، یہ سب اس روایت کو سورۃ نساء کی اسی آیت متعہ کے تحت نقل کرتے ہیں]
امام بخاری نے آیا یہاں غلطی کی یا پھر جان بوجھ کر بددیانتی سے کام لیا اور اس روایت کو "متعہ الحج" کےباب کے ذیل میں نقل کر دیا۔ ایسی بددیانتی ایسے گروہ کے سامنے تو چل جاتی ہے جو آنکھیں بند کر کے شخصیت پرستش میں مبتلا ہو۔
مگر ہمارا مخاطب یہاں پر یہ صحابہ پرستی میں مبتلا گروہ ہے ہی نہیں، بلکہ وہ لوگ مخاطب ہیں جو اللہ کو گواہ بناتے ہوئے انصاف کرنے اٹھے ہیں اور کسی قسم کی شخصیت پرستی میں مبتلا نہیں، اور اپنی "عقل" کی تضحیک اور اسکو گالی نہیں دینا چاہتے اُن کے لیے بات بہت صاف ہے کہ تاریخ میں کبھی حج کے متعہ کی آیت کے منسوخ ہونے کی سرے سے کوئی بحث ہی نہیں چلی بلکہ پوری تاریخ گواہ ہے کہ یہ بحث متعہ النساء کی آیت پر چلی ہے اور لوگوں نے اسے ہر ہر طریقے سے منسوخ ثابت کرنا چاہا ہے اور اسی کی طرف صحابی عمران بن حصین کا اشارہ ہے۔
اور اسی لیے بذات خود اہلسنت کے یہ کبیر علماء امام ثعلبی، امام فخر الدین کبیر رازی، ابن حیان، امام نیشاپوری، تفسیر حقانی وغیرہ امام بخاری سے زمانے کے لحاظ سے بعد میں آنے کے باوجود امام بخاری کی اس غلطی/بددیانتی کو ماننے کے لیے تیار نہیں اور خود عقد متعہ کے خلاف ہونے کے باوجود گواہی دے رہے ہیں کہ یہ روایت عقد متعہ کے جواز میں ہے۔ اسی طرح ابن حزم اور دیگر بہت سے علماء نے عقد متعہ پر لمبی بحث کی اور اُن صحابہ کے نام نقل کیے جو متعہ النساء کے جواز کے قائل تھے اور انہوں نے عمران بن حصین کا نام اس لسٹ میں شامل کیا۔
امام قرطبی اپنی تفسیر میں نقل کرتے ہیں:
وقال أبو بكر الطرطوسي‏:‏ ولم يرخص في نكاح المتعة إلا عمران بن حصين وابن عباس وبعض الصحابة وطائفة من أهل البيت‏.‏[آنلائن لنک]
یعنی:۔۔۔او ابوبکر الطرطوسی سے منقول ہے کہ عمران بن حصین اور ابن عباس عقد متعہ کی اجازت دیتے تھے اور اسی طرح اہلبیت علیہم السلام اور انکے اصحاب بھی۔
تیسری روایت:
حَدَّثَنَا مُحَمَّد بْن الْمُثَنَّى , قَالَ : ثنا مُحَمَّد بْن جَعْفَر , قَالَ : ثنا شُعْبَة , عَنْ الْحَكَم , قَالَ : سَأَلْته عَنْ هَذِهِ الْآيَة : { وَالْمُحْصَنَات مِنْ النِّسَاء إِلَّا مَا مَلَكَتْ أَيْمَانكُمْ } إِلَى هَذَا الْمَوْضِع : { فَمَا اِسْتَمْتَعْتُمْ بِهِ مِنْهُنَّ } أَمَنْسُوخَة هِيَ ؟ قَالَ : لَا . قَالَ الْحَكَم : قَالَ عَلِيّ رَضِيَ اللَّه عَنْهُ : لَوْلَا أَنَّ عُمَر رَضِيَ اللَّه عَنْهُ نَهَى عَنْ الْمُتْعَة مَا زَنَى إِلَّا شَقِيّ [تفسیر الطبری آنلائن لنک ]
عبد الرزاق اور ابو داؤد سے کتاب ناسخ میں درج ہے اور ابن جریر نے الحکم سے روایت کی ہے کہ ان سے پوچھا گیا کہ کیا یہ آیت متعہ منسوخ ہو چکی ہے، جس پر آپ نے کہا کہ نہیں (یہ منسوخ نہیں ہوئی) اور پھر کہا کہ علی ابن ابنی طالب نے فرمایا ہے اگر عمرعقد متعہ کی ممانعت نہ کر دیتے تو کوئی شقی القلب ہی ہوتا جو زنا کرتا۔
یہ صحیح روایت ہے: مُحَمَّد بْن الْمُثَنَّى (امام ذہبی کہتے ہیں کہ یہ ثقہ ہیں)، مُحَمَّد بْن جَعْفَر الهذلى (امام ذہبی کہتے ہیں کہ یہ بہترین راوی ہیں) شعبة بن الحجاج بن الورد العتكى الأزدى (امام ذہبی کہتے ہیں یہ حدیث میں امیر المومنین ہیں)،الحكم بن عتيبة الكندىہ (امام ذہبی کہتے ہیں یہ ثقہ اور صاحب سنت ہیں)
چوتھی روایت:
حَدَّثَنِي مُحَمَّد بْن عَمْرو , قَالَ : ثنا أَبُو عَاصِم , عَنْ عِيسَى , عَنْ اِبْن أَبِي نَجِيح , عَنْ مُجَاهِد : { فَمَا اِسْتَمْتَعْتُمْ بِهِ مِنْهُنَّ } قَالَ : يَعْنِي نِكَاح الْمُتْعَة. [تفسیر الطبری آنلائن لنک ]
امام عبد بن حمید اور ابن جریر نے حضرت مجاہد سے "فما استمتعتم" کی یہ تفسیر نقل کی ہے یعنی نکاح متعہ
پانچویں روایت:
حَدَّثَنَا مُحَمَّد بْن الْحُسَيْن , قَالَ : ثنا أَحْمَد بْن مُفَضَّل , قَالَ : ثنا أَسْبَاط , عَنْ السُّدِّيّ : " فَمَا اِسْتَمْتَعْتُمْ بِهِ مِنْهُنَّ إِلَى أَجَل مُسَمًّى فَآتُوهُنَّ أُجُورهنَّ فَرِيضَة وَلَا جُنَاح عَلَيْكُمْ فِيمَا تَرَاضَيْتُمْ بِهِ مِنْ بَعْد الْفَرِيضَة " . فَهَذِهِ الْمُتْعَة الرَّجُل يَنْكِح الْمَرْأَة بِشَرْطٍ إِلَى أَجَل مُسَمًّى , وَيُشْهِد شَاهِدَيْنِ , وَيَنْكِح بِإِذْنِ وَلِيّهَا , وَإِذَا اِنْقَضَتْ الْمُدَّة فَلَيْسَ لَهُ عَلَيْهَا سَبِيل وَهِيَ مِنْهُ بَرِيَّة , وَعَلَيْهَا أَنْ تَسْتَبْرِئ مَا فِي رَحِمهَا , وَلَيْسَ بَيْنهمَا مِيرَاث , لَيْسَ يَرِث وَاحِد مِنْهُمَا صَاحِبه .[تفسیر الطبری آنلائن لنک ]
یعنی:۔۔۔ سدی سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا فما استمتعبتم بہ منھن الہ اجل مسمی فاتو ھن اجودھن الخ (آیت کی تلاوت میں الی اجل مسمی کا فقرہ درمیان میں اضافہ کر دیا) اور کہا کہ اس سے مراد متعہ ہے جس کی صورت یہ ہے کہ مرد عورت سے نکاح کرے صورت یہ ہے کہ مرد عورت سے نکاح کرے اور اس میں دو آدمیوں کو گواہ کرے اور ولی کی اجازت سے ہو اور جب مدت گذر جائے تو پھر اس کو عورت پر کوئی اختیار نہ رہے اور وہ عورت اس سے آزاد ہوجائے اور اس عورت پر اتنا عدہ رکھنا ضروری ہو کہ حمل کا انکشاف ہوسکے۔ اور ان میں آپس میں میراث ثابت نہ ہو۔ یعنی کوئی ایک دوسرے کا وارث نہ ہو۔

“الی اجل مسمی” کی قرآت والی روایات

نوٹ:
"الی اجل مسمی" کے معنی ہیں "ایک مقررہ مدت تک"۔ چنانچہ ابن عباس، ابن ابی کعب، عبداللہ ابن مسعود، سعید بن جبیراور دیگر بہت سے اصحاب کی قرآت تھی"۔۔۔ اور جن عورتوں سے تم تمتع کرو ایک مقررہ مدت تک، تو انہیں انکی اجرت بطور فریضہ ادا کرو۔۔۔"۔ چنانچہ یہ قرآت بالکل واضح کرتی ہے کہ یہ آیت عقد المتعہ کے جواز میں نازل ہوئی تھی۔
چھٹی روایت:
7182 - حَدَّثَنَا حُمَيْد بْن مَسْعَدَة , قَالَ : ثنا بِشْر بْن الْمُفَضَّل , قَالَ : ثنا دَاوُد , عَنْ أَبِي نَضْرَة , قَالَ : سَأَلْت اِبْن عَبَّاس عَنْ مُتْعَة النِّسَاء , قَالَ : أَمَا تَقْرَأ سُورَة النِّسَاء ؟ قَالَ : قُلْت بَلَى . قَالَ : فَمَا تَقْرَأ فِيهَا : " فَمَا اِسْتَمْتَعْتُمْ بِهِ مِنْهُنَّ إِلَى أَجَل مُسَمًّى " ؟ قُلْت : لَا , لَوْ قَرَأْتهَا هَكَذَا مَا سَأَلْتُك ! قَالَ : فَإِنَّهَا كَذَا. [تفسیر الطبری آنلائن لنک ]
امام عبد بن حمید، ابن جریر اور ابن الانباری نے مصاحف میں اور حضرت حاکم رحمہ اللہ نے مختلف طرق سے نضرہ سے روایت کی ہے کہ میں نے ابن عباس سے متعہ النساء کے متعلق دریافت کیا انہوں نے کہا کیا تم سورۃ نساء کی تلاوت نہیں کرتے ہو؟ کہ فما استمتعتم بہ منھن الی اجل مسمی میں نے کہا نہیں تو۔ اگر اسی طرح پڑھتا ہوتا تو آپ سے دریافت کیوں کرتا۔ انہوں نے کہا کہ اچھا تو معلوم ہونا چاہیے کہا آیت یہ یونہی ہے۔
عبدالاعلی کی روایت میں بھی ابونضرہ سے اسی طرح کا واقعہ منقول ہے۔ تیسری روایت میں بھی ابو نضرہ سے نقل ہے کہ میں نے ابن عباس کے سامنے یہ آیت پڑھی۔ فما استمتعتم بہ منھن ابن عباس نے کہا۔ الی اجل مسمی۔ میں نے کہا میں تو اس طرح نہیں پڑھتا ہوں انہوں نے تین مرتبہ کہا خدا کی قسم خدا نے اس کو اسی طرح نازل کیا ہے۔
امام حاکم اور امام ذہبی کی گواہی کہ یہ روایت صحیح ہے

اس روایت کو امام حاکم نے اپنی مستدرک کی جلد دوم صفحہ 334 پر نقل کیا تھا اور اسے بخاری و مسلم کی شرائط پر صحیح قرار دیا تھا۔ جبکہ امام الذہبی نے مستدرک کے حاشیے پر اسے امام مسلم کی شرائط پر صحیح روایت قرار دیا ہے۔ اس روایت کا آنلائن عکس دیکھئیے
ساتویں روایت:
7181 - حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْب , قَالَ : ثنا يَحْيَى بْن عِيسَى , قَالَ : ثنا نُصَيْر بْن أَبِي الْأَشْعَث , قَالَ : ثني حَبِيب بْن أَبِي ثَابِت , عَنْ أَبِيهِ , قَالَ : أَعْطَانِي اِبْن عَبَّاس مُصْحَفًا , فَقَالَ : هَذَا عَلَى قِرَاءَة أُبَيّ . قَالَ أَبُو كُرَيْب , قَالَ يَحْيَى : فَرَأَيْت الْمُصْحَف عِنْد نُصَيْر فِيهِ : " فَمَا اِسْتَمْتَعْتُمْ بِهِ مِنْهُنَّ إِلَى أَجَل مُسَمًّى " [تفسیر الطبری آنلائن لنک ]
یعنی:۔۔۔ابو ثابت کا بیان ہے کہ ابن عباس ؓ نے مجھ کو ایک مصحف دیا اور کہاکہ یہ ابی ابن کعب کی قرآت کے مطابق ہے یحیی بن عیسی جو اس روایت کے ناقل ہیں نصیر بن ابی الاشعت سے ان کا بیان ہے کہ میں نے اس مصحف کو نصیر کے پاس دیکھا اس میں لکھا تھا کہ فما استمتعم بہ منھن الی اجل مسمی۔
آٹھویں روایت:
حَدَّثَنَا اِبْن الْمُثَنَّى , قَالَ : ثنا أَبُو دَاوُد , قَالَ : ثنا شُعْبَة , عَنْ أَبِي إِسْحَاق , عَنْ عُمَيْر : أَنَّ اِبْن عَبَّاس قَرَأَ : " فَمَا اِسْتَمْتَعْتُمْ بِهِ مِنْهُنَّ إِلَى أَجَل مُسَمًّى " .[تفسیر الطبری آنلائن لنک ]
یعنی:۔۔۔ابو اسحاق کی روایت ہے کہ ابن عباس نے پڑھا۔ فما استمتعتم بہ منھن الی اجل مسمی
نویں روایت:
حَدَّثَنَا اِبْن بَشَّار , قَالَ : ثنا عَبْد الْأَعْلَى , قَالَ : ثنا سَعِيد , عَنْ قَتَادَة , قَالَ : فِي قِرَاءَة أُبَيّ بْن كَعْب : " فَمَا اِسْتَمْتَعْتُمْ بِهِ مِنْهُنَّ إِلَى أَجَل مُسَمًّى [تفسیر الطبری آنلائن لنک ]
یعنی۔۔۔ قتادہ کہتے ہیں کہ صحابی ابی ابن کعب کی قرآت فما استمتعتم بہ منھن الی اجل مسمی کی تھی۔
دسویں روایت:
حَدَّثَنِي الْمُثَنَّى , قَالَ : ثنا أَبُو نُعَيْم , قَالَ : ثنا عِيسَى بْن عُمَر الْقَارِئ الْأَسَدِيّ , عَنْ عَمْرو بْن مُرَّة أَنَّهُ سَمِعَ سَعِيد بْن جُبَيْر يَقْرَأ : " فَمَا اِسْتَمْتَعْتُمْ بِهِ مِنْهُنَّ إِلَى أَجَل مُسَمًّى فَآتُوهُنَّ أُجُورهنَّ "[تفسیر الطبری آنلائن لنک ]
یعنی۔۔۔عمرہ کہتے ہیں انہوں نے سعید بن جبیر کو قرآت کرتے سنا کہ: فما استمتعتم بہ منھن الی اجل مسمی
گیارھویں روایت:
امام ابن ابی داؤد نے مصاحف میں صحابی حضرت سعید بن جبیر رضی اللہ عنہ سے روایت نقل کی ہے کہ حضرت ابی بن کعب کی قرات میں الی اجل مسمی کے الفاظ ہیں [حوالہ: تفسیر در منثور، حافظ جلال الدین سیوطی]
بارہویں روایت:
عبداللہ ابن مسعود بھی اس آیت کی قرآت کے ساتھ الی اجل مسمی کا اضافہ کرتے تھے۔
حوالے:
1۔ امام نووی کی شرح صحیح مسلم، جلد 9، صفحہ 179
2۔ عمدۃ القاری، شرح صحیح بخاری از امام بدر الدین عینی، جلد 18، صفحہ 208
3۔ تفسیر روح المعانی، جلد 5، صفحہ 5 [آنلائن لنک]
اور شیخ الاسلام علامہ شوکانی نے بھی "نیل الاوطار" جلد ۶ ص ۴۴ میں ابن حزم کی یہ عبارت نقل کی ہے۔
اما قراۃ ابن عباس و ابن مسعود و ابی بن کعب و سعید بن خیبر فما استمتعتم بہ منھن الی اجل مسمی فلیست بقرآن عند مشترطی
یعنی۔۔۔ ان کے بیان سے معلوم ہوا کہ ابن مسعود بھی آیت متعہ کو الی اجل مسمی کے اضافہ کے ساتھ پرھتے تھے۔
حبر الامہ، ترجمان القرآن ابن عباس کا رتبہ

کچھ لوگ ابن عباس کی کمسنی کا عذر پکڑ کر بھاگنے کی کوشش کرتے ہیں جو لاحاصل ہے۔ ابن عباس فقیہ اور بلند ترین پائے کی مفسر قرآن تھے۔ ابن کثیر نے انکی یہ روایات اپنی تفسیر میں جگہ جگہ درج کی ہیں، اور اپنی کتاب البدایہ والنہایہ جلد 8، صفحہ299 پر لکھتے ہیں:
"ابن عباس اس معاملے میں سب سے زیادہ علم رکھنے والے شخص تھے کہ اللہ تعالی نے اپنے رسول محمد صلعم پر کیا نازل فرمایا ہے۔ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کہتے تھے کہ قران کا مفسر ابن عباس ہے۔ اور وہ ابن عباس کو کہا کرتے تھے: "تم نے وہ علم حاصل کیا ہے جو ہم حاصل نہ کر پائے، تم خدا کی کتاب کے متعلق سب سے زیادہ ماہر ہو۔"
امام بخاری اور مسلم نے اپنی صحیین میں ابن عباس سے 1660 روایات نقل کی ہیں۔ [وکیپیڈیا پر ابن عباس پر مفصل مضمون]

ان اضافی الفاظ کی قرآت کے متعلق شاہ ولی اللہ کا نظریہ

اور ازالۃ الخفا [صفحہ 77، باب 7] میں شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ان اضافی الفاظ کے متعلق لکھتے ہیں:
ان اضافی الفاظ کی قرآت کے متعلق اختلاف ہے۔ قاضی ابو طیب اور بہت سے دیگر علماء اس قرآت کو جائز جانتے ہیں اور امام ابو حنیفہ کا نظریہ بھی یہی ہے۔
جبکہ دیگر کچھ علماء کہتے ہیں کہ یہ الفاظ "حدیث قدسی" تھے یعنی بطور قرآن کی تفسیر بذات خود اللہ کی طرف سے براہ راست نازل ہوئے تھے۔
بہرحال وجہ جو بھی ہو، اس پر اتفاق ہے کہ رسول اللہ ص سے قرآن کی قرآت سیکھنے والے ان صحابہ نے یہ الفاظ ہرگز ہرگز اپنی طرف سے اضافہ نہیں کیے ہیں، ان سے غلطی تو تسلیم کی جا سکتی ہے مگر جھوٹ نہیں اور اسی وجہ سے یہ زائد الفاظ حجت ہیں کہ یہ اللہ یا اُسکے رسول ص کی طرف سے نص ہیں۔ اسی وجہ سے تمام مستند اور مسلم الثبوت اہلسنت علماء و مفسرین نے ان روایات کو صحابہ سے نقل کر کے ان پر اعتماد کیا ہے۔
اب اہلحدیث/اہلسنت برادران بتلائیں کہ:
1۔ آپ عبداللہ ابن عباس کو خود حبر الامہ اور ترجمان القرآن امام المفسرین کہتے ہیں۔ تو بتلائیے کہ پھر انکی گواہی کو نظر انداز کر کے منکر حدیث سر سید احمد خان کی روش کی آج پیروی کیوں کر رہے ہیں؟
2۔عبداللہ ابن مسعود اور ابی ابن کعب کے متعلق آپ ہی کا دعوی ہے کہ اللہ کے رسول ص نے انکے متعلق فرمایا تھا: "قرآن ان چار اصحاب سے سیکھو۔ عبداللہ ابن مسعود، سلیم، معاذ اور ابی ابن کعب (صحیح بخاری)۔ مگر جب عبداللہ ابن مسعود اور ابی بن کعب گواہی دیں تو آپ اسے پھر نظرانداز کر جائیں۔
3۔ اور عمران بن حصین کے متعلق امام ابن حجر العسقلانی لکھتے ہیں کہ یہ اپنے علم و فضل کے اُس درجے پر تھے کہ انہیں کوفہ میں منصب قضاء دیا گیا۔ مگر انکی گواہی کو بھی آپ نے منکر حدیث سر سید احمد خان کی روش پر ترجیح نہ دی۔
اسی طرح صحابی سعد بن جبیر اپنے وقت کے بہترین حافظ و مفسر تھے، اور تابعی سدی فن تفسیر کے امام تھے، مگر آپ کسی کی گواہی ماننے کے لیے تیار نہیں اور آج آپکا پورا زور منکر حدیث کی طرح فقط قرآنی آیت کی اپنی من مانی تاویل پر ہے۔
 
ش

شوکت کریم

مہمان
اور سورۃ النساء کی آیت 24 کا غزوہ اوطاس کے موقع پر عقد المتعہ کے حلال ہونےکے متعلق نزول تو خود ہمارے اس مؤقف کی سب سے بڑی دلیل ہے کہ اوطاس سے قبل جو عقد المتعہ کے حرام ہونے کی روایات ہیں وہ سب کی سب جھوٹی اور گھڑی ہوئی ہیں۔ چاہے یہ اوطاس سے پہلے خیبر ہو، یا فتح مکہ یا سورۃ المومنون کی مکی آیت، یا آیت میراث یا طلاق وغیرہ وغیرہ۔

تیسری غلطی:
آپ نے خود اپنی تحریر میں لکھا ہے کہ عقد متعہ سن 8 ہجری (فتح مکہ کے بعد) حرام قرار دیا گیا۔
مگر اسکے باوجود پھر آپ تفسیر بالرائے کر رہے ہیں اور جس طرح زبردستی منکریں حدیث حضرات قرآنی آیات کو توڑ مڑوڑ کر اپنے مقاصد کے لیے استعمال کر رہے ہوتے ہیں، وہی رویہ آپ یہاں اختیار کر رہے ہیں۔
مثلا آپ نے یہ قرآنی آیت کی تفسیر بالرائے کی:

سورۃ النساء مدنی دور کے ابتدائی سالوں میں نازل ہوئی جبکہ عقد متعہ بالاتفاق خود آپکی اپنی زبانی 8 ہجری تک جاری و ساری رہا۔
میں اللہ تعالی کا لاکھ لاکھ شکر ادا کرتی ہوں کہ اللہ تعالی بلاشبہ بہترین تدبیر کرنے والا ہے۔ اہل عقل و انصاف کے لیے الحمدللہ دلیل کافی ہے کہ وہ حق کو باطل سے جدا کر سکیں۔

اب یہ سورتیں مکی سورتیں ہیں (یا پھر مدینہ کے ابتدائی سالوں کی) اور یہ ممکن ہی نہیں کہ یہ آیات عقد متعہ کو منسوخ کر سکتی ہوں۔ اللہ تعالی نے اسی لیے ہمیں قرآن میں تدبر و تفکر کرنے کا حکم دیا ہے کہ حق کو باطل سے علیحدہ کر سکیں۔ (بدقسمتی قرآن و سنت پر ایسے جھوٹ ہر گروہ کے کچھ لوگوں نے اپنے اپنے عقائد ثابت کرنے کے لیے بولے ہیں۔ اللہ ہمیں انکے فتنے سے محفوظ رکھے۔امین

ایک بار پھر مختصرا بات کہ سورۃ النساء ابتدائی دور کی سورۃ ہے اور آپ فقط تفسیر بالرائے کرتے ہوئے اسکی بنیاد پر عقد متعہ کو حرام ٹہرا رہے ہیں حالانکہ آپ کے اپنے قول کے مطابق صحابہ و صحابیات کم از کم سن 7 یا 8 ہجری تک عقد متعہ کرتے رہے۔

عقد المتعہ کے جواز کا حکم سورۃ النساء کی آیت 24 میں اللہ نےخود نازل فرمایا:
[القرآن 4:24] والمحصنات من النساء الا ما ملكت ايمانكم كتاب الله عليكم واحل لكم ما وراء ذلكم ان تبتغوا باموالكم محصنين غير مسافحين فما استمتعتم به منهن فاتوهن اجورهن فريضة ولا جناح عليكم فيما تراضيتم به من بعد الفريضة ان الله كان عليما حكيما

مکمل طور پر واضح کیا تھا کہ زمانہ نزول کے اعتبار سے لاکھ سر پٹخ لیں مگر سورۃ النساء کی اس آیت سے عقد المتعہ حرام نہیں ہو سکتا۔ اسکا جواب تو کیا لاتے الٹا پھر سے وہی منکر حدیث حضرات کی روش کی پیروی میں دلائل شروع ہو گئے۔
 

آپکی طرف سے تو اسکا جواب نہیں آیا۔ مگر ادھر غور سے سورۃ النساء کو دیکھیں:
آیت 24: ۔۔۔۔ اس میں اللہ تعالی نکاح المتعہ کا حکم دے رہا ہے۔۔۔

1۔ متعہ بھی "نکاح" کی ہی ایک قسم ہے
2۔ ان آزاد خواتین سے نکاح المتعہ کا حکم آیت نمبر 24 میں آ گیا ہے۔
3۔ اسکے بعد پھر آیت 25 میں اللہ فرما رہا ہے کہ اگر تم میں آزاد عورتوں کا خرچ برداشت کرنے کی استطاعت نہیں (یعنی نہ تم ان سے نکاح دائمی کر سکتے ہو اور نہ نکاح المتعہ) تو پھر تم کنیز عورتوں سے اپنی خواہش پوری کر سکتے ہو۔
4۔ چنانچہ یہ صبر کا حکم کنیز باندیوں کے ساتھ مباشرت اور نکاح (جو بذات خود عارضی تعلق ہے) سے مخصوص ہے نہ کہ آزاد عورت سے نکاح دائمی یا نکاح المتعہ کے ساتھ، اور یہی وہ واحد وجہ نظر آتی ہے جسکی وجہ سے رسول اللہ ص نے صحابہ کو صبر کرنے کی بجائے حکم دے کر عقد المتعہ کروایا۔
میں نے پچھلے مراسلے میں کچھ اقتباسات دیئے تھے اور کچھ اس میں ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور الحمد للہ ثابت کیا جا چکا ہے اور آپ کی تعمیر کی ہوئی متعہ کی جھوٹی عمارت گر چکی ہے جس کا واضح‌ ثبوت آپکے یہ تازہ بے ربط مراسلے ہیں۔

اوپر دیئے گئے سارے اقتباسات میں آپ نے اسی بات پر زور دیا کہ یہ النسا آیت 24 متعہ کےبارے میں نازل ہوئی اور اس کی روشنی میں‌ 8 ہجری تک متعہ ہوتا رہا۔ اور زور شور سے ہوتا رہا۔

جبکہ اوپر آن لائن حوالہ جات کےساتھ ثابت ہے کہ النسا آیت 24 اوطاس کے موقع پر نازل ہوئی لہذا یہ ممکن ہی نہیں کہ 8 ہجری تک متعہ اس آیت کی روشنی میں ہوتا رہا ہو۔

آپ کا سارا زوربیان ہی اس بات پر رہا کہ متعہ النسا کی آیت 24 سے حلال ہوا ہے اور النسا ابتدائی مدنی سورت ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اوریہی آپ کا سب سے بڑا دھوکہ اور اتنے سارے لوگوں کی آنکھوں‌میں دھول جھونکنے کی کوشش تھی۔

بلاشبہ النسا مدنی سورت ہے مگر آیت 24 ابتدا میں‌ نازل نہیں ہوئی نہ ا ہجری ، میں نہ 2 ہجری میں نہ 3 ہجری میں نہ 4،5،6،7، بلکہ 8 ہجری میں‌ اوطاس میں‌ نازل ہوئی اور اسباب نزول بھی بیان کر دیے گئے ہیں۔

اور اس طرح ہمارے موقف کی 100 فی صد تصدیق ہوتی ہے کہ

متعہ کبھی بھی اسلام کا حصہ نہ تھا۔

8 ہجری تک جو ایک دو دفعہ مواقع پر متعہ ہوا وہ مخصوص حالات میں بالخصوص جنگوں کے دوران نو مسلموں کی ازحد مجبوری کی وجہ سےہوا۔ جیسے مضطر کو رخصت ہے اسی طرح متعہ کی بھی رخصت عنایت کی گئی۔ اور ان تمام مواقع پر النسا کی آیت 24 موجود ہی نہ تھی۔

ہمیں جواب دیں‌ کہ جب النسا کی آیت 24 اوطاس میں‌نازل ہو رہی ہے تو آپ نے اوپر اقتباسات میں یہ گمراہ کن تاثر دینے کی کوشش کس قرآنی آیت کے حوالے سے کی۔
 
ش

شوکت کریم

مہمان
چیلنج: ثابت کریں رسول اللہ ص کے زمانے میں عقد المتعہ والی بیوی اُن 4 ازواج میں شامل ہوتی تھی

خدا کے لیے کچھ ہوش کے ناخن‌ لیں اور جواب دینے سے پہلے مراسلے کو تسلی سے پڑھ لیا کریں اتنی ہواس باختگی کس لیے۔ حالانکہ اب بحث کے لیے کچھ نہیں رہ گی۔۔۔۔۔۔۔۔النسا کی ایت 24 کے زمانہ نزول نے آپ کے سب جھوٹ نمایاں کر دیتے ہیں ۔۔۔یہ کس محفلین نے کہا کہ وہ اب ثابت بھی کرے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ آپ ہی نے کہا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور برادر باذوق نے آپ کے اس تضاد کی نشاندہی کی تھی۔

یہی وجہ ہے کہ پہلے دن سے شوکت بھائی کو چیلنج کیا ہوا تھا کہ وہ فضائل والی ان روایات کو صحیح سند سے پیش کر کے بتا دیں کہ کون سے علماء نے انکو حجت مانا ہے۔ مگر مجال ہے جو آج تک اس چیلنج کا جواب دیا ہو، بلکہ روش وہی پرانی جاری رہی اور آج تک ایک روایت بھی بمع صحیح سند کے پیش نہ کی گئی کہ جس کو اہل تشیع علماء حجت مانتے ہوں۔
اور من لا یحضرہ الفقہیہ پر شیعہ علماء کی شرحیں موجود ہیں جہاں انہوں نے اسکی روایات کی صحیح و ضعیف وغیرہ میں درجہ بندی کی ہوئی ہے مثلا علامہ بہبہودی کی کتاب صحیح من لا یحضرہ الفقہیہ وغیرہ۔ مگر چونکہ ان بھائی صاحب کو صرف ہم پر الزامات لگانے کا شوق ہے، لہذا اتنا سمجھانے کے بعد بھی ان کی روش تبدیل ہونے والی نہیں اور انہیں اپنی کتابوں میں، کئی کئی علماء کا حضرت عمر کا سب سے پہلے جنت میں داخل ہونا نظر نہیں آتا۔

شوکت بھائی نے شیخ صدوق رحمہ کی ثقاہت کے سلسلے میں جو اقوال بیان کیے ہیں ان کےبعد کون ہو سکتا ہے کہ جو شیخ‌ صدوق رحمہ کی ثقاہت کے بارے میں بات کر سکے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اگر کوئی ہے تو سامنے لائیں جیسے میں نے بمعہ حوالہ جات انکی شخصیت اور ثقاہت کے بارے میں ثابت کیا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ویسے ہی آپ کو ان کا ضعف بیان کرنا ہوگا یہ کیا کہ وغیرہ وغیرہ میں‌یہ لکھا ہوا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آپ جو متعہ کی حلت پر امت مسلمہ کو درس دے رہی تھیں یہ توقع نہ تھی کہ ایسی کمزور بات کریں گی کہ فلاں‌نے یہ لکھا ہوا ہے وغیرہ۔

بتایئے کہ فلاں نے کہاں‌اور کیا لکھا ہوا ہے ؟؟؟؟؟ ذرا ہم بھی دیکھیں کے امام وقت کی دعا سے پیدا ہونے والے فقیہ و ستون مذہب اثنا عشری شیخ صدوق رحمہ کے بارے میں کون کیا لکھ رہا ہے !!!

غلط دعوی اور بیان بازی

یاد رہے سورۃ النساء کی آیت 24 عقد المتعہ کے جواز میں نازل ہوئی اور اسکے متعلق تمام تر ثبوت تفصیل کے ساتھ پہلے پیش کیے جا چکے ہیں۔

محترمہ آنکھیں‌‌‌‌‌ کھولیں‌پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی بہہ گیا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بات یہ نہیں کہ النسا کی آیت 24 کس کے حق میں نازل ہوئی بات یہ ہے کہ کب نازل ہوئی ابتدا میں جیسا کہ آپ ایک ماہ سے شور مچا رہی ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یا آخر میں جیسا کہ اسباب نزول بیان کر رہے ہیں۔

مگر کیا وجہ ہے کہ لاکھوں صحابہ کے جم غفیر میں سے ایک، فقط کوئی ایک صحابی بھی ایسا نہیں جس نے آج تک دعوی کیا ہو کہ سورۃ النساء کی آیت 24 عقد المتعہ کو حرام ٹہرانے کے لیے نازل ہوئی تھی۔

2۔ اور پھر لاکھوں صحابہ کے جم غفیر کے بعد باری آتی ہے لاکھوں تابعین کے جم غفیر کی، اور ان میں بھی ایک ، فقط ایک تابعی بھی ایسا نہیں جسے قرآن کا یہ فہم ہو کہ سورۃ النساء کی یہ آیت عقد المتعہ کو حرام ٹہرانے کے لیے نازل ہوئی۔

3۔ اور پھر علی سے خیبر کی جھوٹی روایت گھڑی جاتی ہے کہ وہ ابن عباس کو تنبیہ کر رہے ہیں کہ متعہ خیبر میں حرام ہوا۔ تو پھر کیوں نہیں علی نے سیدھا سیدھا قرآن کی اس آیت کا حوالہ ابن عباس کو دے دیا کہ یہ آیت عقد المتعہ کو حرام قرار دیتی ہے؟

چھوڑیں یہ رونا دھونا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ بتائیں کہ جب آیت 24 اوطاس میں 8 ہجری کو نازل ہو رہی ہے تو آپ کس برتے پر کہتی رہی ہیں کہ النسا کی آیت ابتدا مدنی دور میں نازل ہوئی اور اس کی روشنی میں اللہ کے رسول نے متعہ کو سب کے لیے حلال کیا؟؟؟

یقینا اب آپ کے پاس رونے دھونے کےسوا مزید کچھ نہیں رہ گیا اور اللہ تعالیٰ‌نے سچ اور جھوٹ کو الگ الگ کر دیا۔ کم ازکم آپ جس بنیاد پر متعہ کی حلت ثابت کر رہی تھیں وہ بنیاد ہی گر چکی ہے۔

اور اب جو محفلین بھی شان نزول اور اسباب نزول کے پس منظر میں اس آیت اور متعہ کو دیکھے گا ۔۔۔۔۔۔۔۔ مجھے یقین کامل ہے کہ اللہ اسے سچ ضرور دکھائے گا۔ کہ سچ چھانے کے لیے آیا ہے اور جھوٹ‌ منہ چھپانے کیلیے۔
 

S. H. Naqvi

محفلین
چیلنج: ثابت کریں رسول اللہ ص کے زمانے میں عقد المتعہ والی بیوی اُن 4 ازواج میں شامل ہوتی تھی

ہم نے عقد المتعہ کے قوانین اپنے طرف سے نہیں بنائے، بلکہ یہ رسول اللہ ص کے زمانے میں اسی طرح جاری تھے۔ اور نکاح المتعہ والی بیوی ان 4 نکاح دائمی والی بیویوں میں شامل نہیں ہوتی تھی۔
ہم پر اعتراضات کیے جاتے ہیں مگر خود کوئی ثبوت پیش نہیں کر سکتے۔
محترمہ آپ کے حواس آپ کا ساتھ چھوڑ چکے ہیں، آپ قریب الشکست ہو کر ہاتھ پیر چھوڑ چکی ہیں اسے لیے اونگی بونگی مار رہی ہیں، ہو سکتا ہےمیرے یہ الفاظ آپ کو برے لگیں مگر کیا کروں‌ قرینہ ادب مجھے اس سے زیادہ سخت الفاظ استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔ اور اگر آپ ٹھنڈے دل سے غور کریں گی تو آپ کو میری بات واقعی صیح لگے گی اور آپ پر اپنی حواس باختگی واضح‌ ہو جائے گی۔ مجھے یہ بتائیں‌کہ ہم نے یہ دعویٰ ہی کب کیا ہے ہم تو ہر وقت اور ہر جگہ یہ کہتے پھر رہے ہیں اور آپ کی کتابوں سے بھی حوالے نکال کر دے رہے ہیں‌کہ زن ممتوعہ نہ چار میں‌ ہے، نہ ستر میں بلکہ یہ تو صرف اور صرف ایک کرائے کی عورت ہے کہ جس سے مرد اپنی شہوت پوری کر کےدودھ میں‌ سے مکھی کی طرح نکال کر پھینک دیتا ہے اور پھر اس کے ساتھ وہی ہوتا ہے جو دودھ سے نکلی مکھی کا نصیب ہے۔ اور وہ صرف ایک کرائے کی عورت ہوتی ہے جو صرف ایک رنڈی کا مقام رکھتی ہے۔ تو ہم کیوں یہ ثابت کریں‌‌ کہ زن ممتوعہ چار میں سے تھی یا ہے؟؟؟؟ آپ نے یہ چیلنج ہمیں دیا ہی کیوں ہے یہ چیلنج تو ہم نے آپ کو دیا ہوا تھا کہ آپ ثابت کر کے دکھائیں زن ممتوعہ چار میں سے کبھی بھی تھی؟؟ واللہ آپ تو پاگل پن کی حد کو چھو کر ایسے اونگے بونگے چیلنج دے کر فضول پوسٹیں کر کے صرف اور صرف وقت برباد کر رہی ہیں۔ صاف بات ہے کہ آپ میں شکست قبول کرنے کا حوصلہ نہیں ہے، ظرف نہیں ہے۔ اب جو کسی نے سمجھنا تھا وہ سمجھ گیا تو چلیں ہم آپ کی مشکل آسان کرتے ہیں اور ایڈمن سے پرزور اپیل کرتے ہیں کہ خدارا اس دھاگے کو مقفل کر دیں۔ اس طرح آپ کی عزت بھی بچ جائے گی اور بات گول مول ہو کر جان بھی چھوٹ جائے گی۔ کیونکہ جی آخر " عزت سادات" بھی ہمیں نے تو بچانی ہے نا۔۔۔۔! ایڈمن پلیز آپ ووٹنگ کر لیں اور اس وقت کے ضیا ع کو روک دیں۔
 
ش

شوکت کریم

مہمان
اور سورۃ النساء کی آیت 24 کا حنین پر نزول ہونا تو بذات خود آپکے گلے پڑنے والا ہے اور اسکے بعد جو حنین سے پہلے متعہ حرام ہونے کی جھوٹی روایات گھڑی گئی ہیں، وہ سب روشنی میں آنے والی ہیں۔ تفصیل انشاء اللہ دو تین روز میں فارغ ہونے کے بعد۔

اسے کہتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔ الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے۔

محترمہ جاگیں آپ کے گلے پڑ‌چکا ہے آپ عرصے سے لوگوں کے مذہبی جذبات سے کھیل رہی تھیں اور انہیں الو بنانے کی کوشش کر رہی تھیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کہ سورۃ النساء ابتدائی مدینہ کی سورت ہے اور آیت 24 میں اللہ نے متعہ کو حلال کیا ہوا ہے اور متعہ معاشرے میں ہوتا رہا۔

اور ہمارے نزدیک متعہ کسی دور میں بھی حلال نہ ہوا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پرانے دور کا رواج تھا اور چند مخصوص موقعوں‌ پر رخصت دی گئی یہی ہمارا موقف رہا ہے اور ہمارے مراسلے اس کے گواہ ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ تو آپ ہیں جو کہ اسے ابتدائی مدینہ سے بذریعہ سورہ النسا آیت 24 حلال کرنے کی کوشش کر رہی ہیں جبکہ اس وقت یہ آیت نازل ہی نہ ہوئی تھی۔

اور آپ نے ثابت کیا کیا دو تین مواقع پر جنگوں کے درمیان اور اس پر تفصیلی بات ہو چکی ہے۔

اب مسئلہ یہ ہے کہ آپ کا یہ جھوٹ کھل کر سامنے آ چکا ہے کہ سورہ تو مدنی ہی ہے مگر یہ آیت فتح مکہ کے بعد 8 ہجری میں اوطاس میں نازل ہوئی۔ اور اسباب نزول کے بارے میں بھی مکمل حوالہ جات کے ساتھ ثبوت دے دیے گئے ہیں۔

اب جو آپ جھوٹ آپ کے گلے پڑ چکا ہے اس کو دیکھیں اور یہ دھاگہ بھی آپ ہی کا شروع کیا ہوا ہے اس کا بھی دھیان رہے۔ اور یہ پرانے لمبے اقتباس دینے سے سچ چھپ نہیں‌ جائے گا اور اس صورت میں جبکہ ان پر خاطر خواہ بحث ہو چکی ہے۔۔۔۔ جو بات چل رہی ہے اس کا جواب دیں۔
 

S. H. Naqvi

محفلین
یہ تو آپ ہیں جو کہ اسے ابتدائی مدینہ سے بذریعہ سورہ النسا آیت 24 حلال کرنے کی کوشش کر رہی ہیں جبکہ اس وقت یہ آیت نازل ہی نہ ہوئی تھی۔
جی شوکت بھائی بجا فرمایا آپ نے مگر حیرت ہے کہ اتنی آسان سی بات محترمہ کی سمجھ میں کیوں‌ نہیں آ رہی؟؟؟؟؟ حالانکہ دعویٰ بھی انھی کا تھا اور چیلنج بھی یہی دے رہی تھیں۔ لگتا ہے انھیں ایسی تحقییق کی امید ہی نہیں تھی۔ یہ الکافی کے باب العقل کا حوالہ تو ہر جگہ دیتی رہی ہیں مگر لگتا ہےیہ عنایت ان پر کچھ کم ہی ہوئی ہے، حالانکہ کے واجبی سی عقل رکھنے والا بھی اگر غور کرے تو اس پر یہ آسانی سے وا ضح ہو جائے گا کہ اس آیت کے نزول سے پہلے کسی بھی صورت میں‌ رخصت تھی یا جو بھی تھا لیکن اس آیت نے تو متعہ کی ممانعت پر مہر تصدیق ثبت کر دی۔
محترمہ کیا آپ ایسا کوئی واضح ثبوت دیں گی کہ متعہ جیسے اس آیت کے نزول سے پہلے حلال تھا کیا اس آیت کے نزول کے بعد، واقعہ اوطاس کے بعد بھی جاری رہا ہو؟؟؟؟؟
خدارا اس لنک پر دیئے گئے ثبوتوں کو غور سے پڑھیں
ٹھنڈے دل سے غور کریں ہمارے سارے دلائل شروع سے پھر پڑھ لیں اور پھر متعہ کے معاشرے پر اور خواتین پر اثرات کو بھی ذہن میں رکھتے ہوئے تجزیہ کریں اور میں التجا کرتا ہوں کہ صرف اپنی 'میں' اور مذہبی تعصب کو بچانے کی خاطر حق کا رد نہ کریں۔ یا پھر ہمارے سارے دلائل کا آئیں بائیں شائیں کرنے کے بجائے دلائل سے رد کریں اور کوئی ٹھوس ثبوت، کوئی مکمل نص لے کر آئیں تا کہ اگر آپ کو نہیں تو ہمیں تو "حق" ملے نا اور ہم جو نفسی مجاہدہ و ریاضت کر کے خود کو کنٹرول کرتے ہیں اور اپنی خواہشات کو تھپک تھپک کر سلاتے ہیں، انھیں تو پورا کر سکیں نا:)
 

dxbgraphics

محفلین
دلائل بہت واضح ہیں کہ متعہ (زنا( حرام ہے۔ اب میرے خیال میں اگر اس کو حلال کا ڈھنڈورا پیٹنے والوں سے اگر پوچھا جائے کہ اسی عمل کا ان کی زندگی میں کوئی کردار رہا ہے تو میرے خیال میں تبھی یہ لڑی اختتام کو پہنچے گی۔ حالانکہ میں نے پچھلی پوسٹوں میں بھی بار بار اسی پر زور دیا کہ دوسروں کے لئے تو اس کا پرچار کیا جاتا ہے دیکھنا تو یہ ہے کہ اس کو اپنی ذاتی زندگی میں کیسے دیکھتے ہیں اور کیا عمل رہا ہے۔ لیکن محفل کےنظم و ضبط کا خیال رکھتے ہوئے ناظمین نے میری پوسٹوں کو حذف کر دیا۔
اور جواب آج تک نہیں ملا۔

تو میں بھی یہی کہہ سکتا ہوں کہ منتظمین اس لڑی کو مقفل کر دیں تو اسی میں چند لوگوں کی عزت رہ جائے گی اور محفل کا ماحول بھی متاثر نہیں ہوگا۔:)
 

S. H. Naqvi

محفلین
تو میں بھی یہی کہہ سکتا ہوں کہ منتظمین اس لڑی کو مقفل کر دیں
جی میری بھی ایڈمین سے یہی گزارش ہے اور اس سلسلے میں تجویز ہے کہ ' پول' کرا لیا جائے۔۔۔۔۔۔۔! اگر پول نے بھی اسے جاری رکھا تو پھر تبھی اس کو مزید آگے بڑھائیں گے۔
 

مہوش علی

لائبریرین
اور یہ ہم نہیں ہیں، بلکہ آپکی مسلسل روایات بیان کر رہی ہیں کہ صحابہ اوطاس سے پہلے خیبر میں، اور پھر خیبر کے بعد عمرۃ القضاء میں، اور پھر عمرۃ القضاء کے بعد فتح مکہ میں، اور پھر فتح مکہ کے بعد حنین میں، اور پھر حنین کے بعد تبوک میں، اور پھر اوطاس میں عقد المتعہ کرتے رہے۔
اور یہ سلسلہ یہاں ہی منقطع نہیں ہوا، بلکہ پھر بعد میں رسول اللہ ص کی وفات اور پھر اسکے بعد حضرت ابو بکر اور حضرت عمر کے دور تک مسلسل عقد المتعہ کرتے رہے۔

اور اس آیت کا اوطاس پر نزول ہونے کو مان کر تو الٹا آپ نے ہمارے مؤقف کو کئی گنا مضبوط کر دیا ہے اور اس سے اس پر تو کوئی فرق نہیں پڑا کہ عقد المتعہ مکہ میں "زوجہ" والی آیت سے حرام نہیں ہوا جیسا کہ آپ لوگوں کے ہاں مسلسل یہ الزام دہرایا جاتا ہے، بلکہ الٹا یہ ثابت ہو رہا ہے کہ خیبر ہو یا فتح مکہ یہ سب کے سب اوطاس سے پہلے ہوئے اور یہ سب کی سب روایات جھوٹی گھڑی ہوئی ہیں۔
شکر ہے اللہ تعالی کہ وہ میری منازل کو خود بخود آسان کرتا چلا جاتا ہے۔ اس آیت کا اوطاس پر نزول ابھی اور بہت کچھ ثابت کرنے والا ہے اور کیوں صحابہ ابو سعید خدری، ابن عباس، ابن مسعود اور ابن ابی کعب وغیرہ جو اس آیت کو متعہ سے منسوب سمجھتے تھے، انکا مؤقف اور واضح ہو گا۔
اور میں تو خود اس آیت کے اوطاس پر نزول کی طرف آنے والی تھی اور ریفرنس جمع کرنے کا ارادہ رکھتی تھی تاکہ فریق مخالف اسکا انکار نہ کر سکے۔ مگر اب شوکت کریم بھائی صاحب کا شکریہ کہ انہوں نے مجھے اس تکلیف سے اور وقت کے ضیاع سے بچا لیا اور خود ہی یہ تمام انفارمیشن فراہم کر دی۔

اور یہ میری پچھلی پوسٹ ہے جس کو بھائی لوگ بقیہ مراسلوں کی طرح نظر انداز کرتے ہوئے نکل گئے، ورنہ اگر انہوں نے ذرا غور کیا ہوتا تو شاید وہ ذرا ہوشیار ہو جاتے۔

شکریہ ملنگ بھیا۔
بہرحال شیعہ فقہ کے مطابق نکاح دائمی یا عقد المتعہ، ان میں گواہوں کی موجودگی مستحب اور تاکیدی ہے، مگر انکے بغیر بھی نکاح ہو جاتا ہے۔ اور اسکی کچھ مثالیں میں نے اہلسنت فقہ سے اپنی پچھلی پوسٹ میں درج کی تھیں۔ باقی اللہ بہتر جاننے والا ہے۔
ایک اور چیز جو تحقیق کے دوران ابھی میرے سامنے آئی ہے وہ یہ کہ مولانا مودودی نے لکھا تھا کہ سورۃ النساء مدینے کے ابتدائی سالوں یعنی تین چار ہجری میں نازل ہوئی ہے۔ مگر انکے مقابلے میں ابن عباس اور ابو سعید خدری کی دو روایات سامنے آئی ہیں جنکے مطابق آیت المتعہ سن 8 یا 9 ہجری میں اوطاس کے موقع پر نازل ہوئی ہے (اوطاس فتح مکہ کے بعد پیش آیا)۔ چنانچہ مودودی صاحب کی رائے کی نسبت میرا رجحان یقینا ان دو اصحاب کی رائے کی طرف زیادہ ہے۔
 
ش

شوکت کریم

مہمان
جمہور صحابہ و تابعین (اور سلف) کا دعوی کہ یہ آیت عقد المتعہ کے جواز میں نازل ہوئی

آئیے اب ابن کثیر کے جمہور کے قول کے مقابلے میں اس آیت کی شرح میں موجود وہ دلائل دیکھتے ہیں کہ جن سے پہلے دن سے بھائی لوگ فرار ہیں۔

”سلف” کے جمہور مفسرین و علماء کی گواہی کہ یہ آیت عقد المتعہ کے جواز میں نازل ہوئی۔ مثلا:

1۔ تفسیر قرطبی وقال الجمهور : المراد نكاح المتعة الذي كان في صدر الإسلام آنلائن لنک

2۔ فتح القدیر وقال الجمهور: إن المراد بهذه الآية: نكاح المتعة الذي كان في صدر الإسلام آنلائن لنک

محترمہ آپ کس کس کا رد کریں گی ؟؟؟ مگر جو آپ کے گے پڑ چکا ہے اس نگل بھی نہیں‌ سکیں گی اور اگل بھی نہیں‌ سکیں گی ان شا اللہ۔

اور آپ کب تک وہی گھسی پٹی اور بحثی کی ہوئی دلیلوں کو پھر سے پیش کرتی رہیں گی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس کا جواب برادر باسم بہت پہلے دے کر آپ کو لاجواب کر چکے ہیں یہ لیجیے مراسلے کا لنک۔ مزید یہ نیچے حاضر ہے۔

کاش آپ صرف رٹے رٹائے دلائل اور لنک دینے کے بجائے ان ہی لنکس کو خود بھی پڑھنا شروع کر دیں تو ہو سکتا ہے اللہ سبحان و تعالٰی آپ کو روشنی نصیب فرما دیں۔

تفسیر قرطبی کا لنک تو آپ نے دے دیا مگر پڑھا نہیں لیجیے ۔ موضوع کے شروع ہی میں لکھتے ہیں۔

رواه مسلم في صحيحه عن أبي سعيد الخدري أن رسول الله صلى الله عليه وسلم يوم حنين بعث جيشا إلى أوطاس فلقوا العدو فقاتلوهم وظهروا عليهم وأصابوا لهم سبايا ; فكان ناس من أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم تحرجوا من غشيانهن من أجل أزواجهن من المشركين , فأنزل الله عز وجل في ذلك " والمحصنات من النساء إلا ما ملكت أيمانكم " . أي فهن لكم حلال إذا انقضت عدتهن . وهذا نص صحيح صريح في أن الآية نزلت بسبب تحرج أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم عن وطء المسبيات ذوات الأزواج ; فأنزل الله تعالى في جوابهم " إلا ما ملكت أيمانكم

مسلم شریف، حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ تعالی عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جنگ حنین میں ایک لشکر اوطاس کی طرف روانہ کیا۔ (اوطاس ایک جگہ کا نام ہے) پس وہ اپنے دشمنوں پر جا پہنچے ان سے قتال کیا اور ان کو مغلوب کر لیا اور ان کی عورتیں گرفتار کر لیں۔ پس بعض اصحاب نے ان سے ان سے صحبت کرنا جائز نہ سمجھا کیونکہ ان کے کافر شو ہر موجود تھے تب اللہ تعالی نے یہ آیت نازل فرما ئی۔ (ترجمہ) تم پر شوہر والی عورتیں حرام ہیں لیکن جن کے تم مالک بن جاؤ یعنی وہ تمھارے لیے حلال ہیں۔ اور یہ نص صحیح‌ صریح ہے کہ یہ آیت اصحاب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے قیدی عورتیں‌کہ جن کےمشرک شوہر زندہ تھے کہ پوچھنے پر نازل ہوئی۔ اللہ سبحان و تعالٰی نے ان کے پوچھنے پر یہ آیت نازل کی۔


اور اس آیت کا ترجمہ بھی مکمل اس کے اسباب نزول اور وقت نزول کی تائید کرتا ہے۔

اور جہاں سے آپ نے قول لیا ہے اس کے ساتھ ہی یہ بھی لکھا ہوا ہے۔

وروى الدارقطني عن علي بن أبي طالب قال : نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن المتعة , قال : وإنما كانت لمن لم يجد , فلما نزل النكاح والطلاق والعدة والميراث بين الزوج والمرأة نسخت . وروي عن علي رضي الله عنه أنه قال : نسخ صوم رمضان كل صوم , ونسخت الزكاة كل صدقة , ونسخ الطلاق والعدة والميراث المتعة , ونسخت الأضحية كل ذبح . وعن ابن مسعود قال : المتعة منسوخة نسخها الطلاق والعدة والميراث

دارقطنی سے حضرت علی ابن طالب رضی اللہ عنہ کا قول ہے حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتےہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے متعہ سے منع فرما دیا تھا کہ یہ ان لوگوں کے لئے تھا کہ جن کے پاس کوئی اور حل نہ تھا۔ اور اس کو منسوخ کر دیا میراث ، طلاق اور عدت کے احکامات نے۔ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں ۔ اور آگے ابن مسعود رضی اللہ عنہ بھی یہی کہتےہیں۔

اور فتح‌ القدیر کےاسی آن لائن لنک میں‌ بولڈ اور سرخ رنگ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی متعہ کی تاقیامت ممانعت کی حدیث لکھی ہوئی نظر نہیں آئی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

عن النبي صلى الله عليه وسلم: أنه قال يوم فتح مكة " يا أيها الناس إني كنت أذنت لكم في الاستمتاع من النساء، والله قد حرّم ذلك إلى يوم القيامة، فمن كان عنده منهنّ شيء، فليخلّ سبيلها، ولا تأخذوا مما آتيتموهنّ شيئاً "

میں آپ سے درخواست کرتا ہوں کہ یہ پرانے دلائل کہ جن پر اس محفل کے 40 صفحے لگ چکے ہیں ان کو باربار دھرائیں نہیں‌اور جو نئی بات آپ پر ادھار ہے وہ بیان کریں۔ آپ آیت 24 کا نزول ابتدائے مدنی دور میں ثابت کریں جیسا کہ آپ نے بے شمار دعوے کیے ہوئے ہیں۔ اور آپ اس کی آڑ میں 8 ہجری تک متعہ کو قرآن سے حلال کرتی رہی ہیں۔
 
ش

شوکت کریم

مہمان
اور اس آیت کا اوطاس پر نزول ہونے کو مان کر تو الٹا آپ نے ہمارے مؤقف کو کئی گنا مضبوط کر دیا ہے اور اس سے اس پر تو کوئی فرق نہیں پڑا کہ عقد المتعہ مکہ میں "زوجہ" والی آیت سے حرام نہیں ہوا جیسا کہ آپ لوگوں کے ہاں مسلسل یہ الزام دہرایا جاتا ہے، بلکہ الٹا یہ ثابت ہو رہا ہے کہ خیبر ہو یا فتح مکہ یہ سب کے سب اوطاس سے پہلے ہوئے اور یہ سب کی سب روایات جھوٹی گھڑی ہوئی ہیں۔
شکر ہے اللہ تعالی کہ وہ میری منازل کو خود بخود آسان کرتا چلا جاتا ہے۔ اس آیت کا اوطاس پر نزول ابھی اور بہت کچھ ثابت کرنے والا ہے اور کیوں صحابہ ابو سعید خدری، ابن عباس، ابن مسعود اور ابن ابی کعب وغیرہ جو اس آیت کو متعہ سے منسوب سمجھتے تھے، انکا مؤقف اور واضح ہو گا۔
ہا ہا ہا کیا قلابازی کھائی ہے محترمہ نے 40 صفحے فورم کے ہوگئے اور ثابت کر رہی ہیں قرآن سے حلال و‌حرام اور ابھی تک سوچ رہی تھیں کہ آیت کا نزول دیکھوں‌گی اور پھر بیان کروں‌ گی۔ واہ جی واہ آپ نے جو پہلی پوسٹ میں ضو افشانیاں کی تھیں کیا یہ اس وقت کرنے کا کام نہیں تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جھوٹ‌ بھی شرما جائے حضور کے جھوٹوں سے۔

ثابت تو بہت کچھ ہو گیا ہے اور ہو گا۔ پہلے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ محترمہ یہ آیت اور اس کا سبب نزول اور وقت نزول اس وقت جو آپ کے گلے پڑا ہوا ہے پہلے اس کا تو حل کریں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اگر آپ میری دی ہوئی حدیثوں سے ہی وقت نزول مانتی ہیں تو پھر آپ کو ان ہی حدیثوں میں دیا ہوا سبب نزول بھی ماننا پڑے گا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جو ہے اوطاس کی قیدی عورتوں‌ کا شادی شدہ ہونا۔ جو ان سب حدیثوں‌میں اور تمام معتبر تفسیروں میں موجود ہے اور سب کے لنکس بھی دیئے ہوئے ہیں۔

اور جب آپ وقت نزول مان گئی ہیں تو پھر جواب دیجئے ان درجنوں دعوں کا جن سے یہ دھاگہ بھرا ہوا ہے کہ 8 ہجری تک آپ کیسے اس آیت سے متعہ حلال کرتی رہی ہیں۔

آپکے دعوے کہ متعہ اس آیت کی روشنی میں ہوتا رہا۔

آپکے مزید دعوے کے متعہ اس آیت کی روشنی میں ہوتا رہا۔


نہیں، اب آپ کو آپکی اس گمراہی سے کوئی نہیں روک سکتا:

1۔ نہ آپ کو اس سورۃ کا زمانہ نزول اس بات سے روک سکتا ہے کہ آپ یہ دیکھنے کے قابل ہو سکیں کہ یہ سورۃ کب نازل ہوئی اور اس سورت کے نزول کے سال ہا سال بعد تک صحابہ کرام خود اللہ کے رسول ﷺ کے حکم و اجازت سے عقد المتعہ کرتے رہے (یعنی نہ صحابہ اور نہ رسول اللہ ﷺ نے اس آیت کا کبھی وہ مطلب سمجھا جو آپ آج زبردستی نکال رہے ہیں)

اور ان حدیثوں سے وقت نزول مانا ہے تو سبب نزول بھی ماننا پڑے گا۔ جو ہے اوطاس کی شادی شدہ قیدی عورتوں کا معاملہ

اور اگر یہ سبب نزول نہیں‌ مانتیں تو پھر لائیے وہ حدیث کہ جس میں‌ وقت نزول اور سبب نزول دونوں‌ ہوں‌ اور آپ کے موقف کی تائید کرتے ہوں۔ بہت ہو چکی اب آپ کو کتربیونت نہیں کرنے دی جائے گی۔ کہ آدھی حدیث‌ مانی آدھی نہیں مانی آدھی آیت مانی آدھی آیت نہیں‌مانی۔۔۔۔
 
ش

شوکت کریم

مہمان
1۔ آپ قرآن کو کھولیں۔2۔ اور پھر ان دونوں سورتوں (سورۃ المومنون اور سورۃ المعارج) کے زمانے نزول کو دیکھیں۔
3۔ ان دونوں سورتوں سے قبل بالاتفاق آپ کو لکھا نظر آئے گا "المکیۃ" یعنی مکی دور میں نازل ہونے والی سورتیں۔
4۔ اب بتلائیں کہ آپ اس عقدے کو کیسے حل کریں گے کہ عقد متعہ جو باالاجماع کم از کم مدینے کے پہلے 7 سالوں (یعنی فتح خیبر یا 8 سالوں یعنی فتح مکہ) تک جاری و ساری رہا ہے اور صحابہ و صحابیات رسول ص کی اجازت بلکہ حکم سے عقد متعہ کرتے رہے۔


اب جبکہ آپ نے وقت نزول مان لیا ہے اوطاس 8 ہجری اب یہ جو اوپر آپ نے ہرزہ رسائی کی ہوئی ہے اس کو کیا کہیں گے ؟؟؟؟

سفید جھوٹ‌!!!!!!!!

کم علمی اور ناقص مذہبی معلومات !!!!!!!!!

دھوکہ اور دوستوں کی آنکھوں میں‌ دھول جھونکنا !!!!!!!!!
 
ابن حسن،
مسئلہ یہ ہے کہ آپ کو اپنی سائیڈ والوں کے گناہ نظر نہیں آتے، مگر دوسروں کی عیوب پکڑنے کے آپ ماہر ہیں۔

:
اس مسئلہ میں کوئی کسی کی سائیڈ نھیں لے رہا بلکہ جو بات جسکی سمجھ میں آرہی ہے وہ اسکی تائید کرر ہا ہے
اس محفل میں ہم سب ایک جسم کی مانند ایک ہے
برائے مھربانی کسی کو گروپ بازی کا تانہ ،،،،نہ دیں
اللہ نہ کرے کہ یہاں بھی ہماری کرکٹ ٹیم کی طرح گروپ بنے
انشا اللہ ہم ایک ہے اور ایک ہی رہے نگے
اور اردو محفل ہماری پہچان ہے
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top