نکاح المتعہ کا تعارف (حصہ دوم)

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

مہوش علی

لائبریرین
(شمشاد بھائی، اس پوسٹ کو میری پچھلی پوسٹ کے ساتھ ملا دیجئیے گا۔ شکریہ)

قبل اسکے کہ ہم نکاح المتعہ پر بحث شروع کریں، بہت لازمی ہے کہ اس بحث سے متعلق کچھ دو اہم باتوں پر ایک نظر ضرور سے ڈال لیں کہ اس سیاق کے بغیر ہمارے ذہن قابل نہ ہو پائیں گے کہ ہم صحیح فیصلہ کر پائیں۔
1۔ اسلام میں کنیز عورت سے وقتی تعلقات

"آج" متعہ کو زنا کہا جاتا ہے کیونکہ اس میں ایک وقت مقررہ طے ہوتا ہے جسکے بعد خود بخود طلاق ہو جاتی ہے۔ مگر گذارش ہے کہ اسلام میں کنیز عورت کے مسئلے کو سامنے رکھیں جس کے تحت علماء کا اجماع ہے کہ کنیز عورت کے ساتھ وقتی تعلقات کے بعد اس کو اسکا آقا آگے کسی اور شخص کو فروخت کر سکتا ہے. یہ نیا آقا اس کنیز عورت سے دوبارہ ہمبستری کر سکتا ہے، اور اسکے بعد اسے تیسرے آقا کو فروخت کر سکتا ہے۔۔۔۔
صحیح مسلم [عربی ورژن ، آنلائن لنک]
صحیح مسلم [آنلائن لنک انگلش ورژن حدیث 3371]
صحابی ابو سعید خدری کہتے ہیں کہ جنگ کے بعد چند خوبصورت عرب عورتیں انکے قبضے میں آئیں اور صحابہ کو انکی طلب ہوئی کیونکہ وہ اپنی بیویوں سے دور تھے۔ مگر ساتھ ہی ساتھ میں صحابہ چاہتے تھے کہ وہ ان کنیز عورتوں کو بیچ کر فدیہ بھی حاصل کریں۔ چنانچہ صحابہ نے عزل سے کام لیا [یعنی سفاح کرتے وقت اپنے عضو تناسل باہر نکال کر پانی گرایا تاکہ وہ عورتیں حاملہ نہ ہو سکتیں اور انکی اچھی قیمت مل سکے]۔ پھر انہوں نے اللہ کے رسول ص سے اسکے متعلق پوچھا تو رسول اللہ ص نے فرمایا کہ تم چاہو یا نہ چاہو مگر اگر کسی روح کو پیدا ہونا ہے تو وہ پیدا ہو کر رہے گی۔
عزل والی یہ روایت صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں کئی طریقے سے روایت ہوئی ہے۔
اسی طرح فقہائے کا اجماع ہے کہ اگر مالک کی اجازت سے اگر اس کی کنیز سے کوئی دوسرا شخص عقد کرتا ہے، تو یہ عقد بھی دائمی نہیں ہوتا، اور جب مالک چاہے، اپنی کنیز کو اس تیسرے شخص کے عقد سے نکال کر خود اس سے ہمبستری کر سکتا ہے یا پھر کسی چوتھے سے اسکی شادی کر سکتا ہے، اس طرح یہ چیز بھی عقد دائمی نہیں، بلکہ شروع وقت سے ہی عارضی و وقتی ہے اور ایسی طلاق کو اسلام میں ہرگز مکروہ یا غیر پسندیدہ بھی نہیں قرار دیا ہے جیسا کہ نکاح دائمی والی آزاد عورت کے معاملے میں طلاق ناپسندیدہ ترین فعل ہے۔
1۔ امام ابن ابی شیبہ، عبد بن حمید، ابن جریر اور ابن منذر نے صحابی ابن مسعود سے روایت نقل کی ہے خاوند والی عورت تجھ پر حرام ہے مگر جسے تو اپنے مال سے خریدے۔ وہ کہا کرتے تھے کہ لونڈی کو بیچنا اسکی طلاق ہے۔
2۔ نیز امام ابن جریر نے صحابی عبداللہ ابن مسعود سے روایت نقل کی ہے کہ جب لونڈی کو بیچ دیا جائے جبکہ اسکا خاوند بھی ہو تو اسکا آقا اس کے بضعہ (وطی کا محل) کا زیادہ حقدار ہے۔ [تفسیر طبری، روایت 7139 آنلائن لنک ]
3۔ امام ابن جریر طبری نے حضرت ابن عباس سے روایت نقل کی ہے لونڈی کی طلاق کی چھ صورتیں ہیں(مالک کا) اسکو بیچنا اسکی طلاق ہے، اسکو آزاد کرنا اسکی طلاق ہے، (مالک کا) اسکو (اپنے باپ یا بھائی کو) ہبہ کرنا اسکی طلاق ہے، اسکی برات اسکی طلاق ہے، اسکے خاوند کی طلاق اسکو طلاق ہے۔[تفسیر طبری روایت 7135 ]


"نکاح المتعہ" پر اختلاف آج شیعہ و سنی برادران کے مابین نہیں، بلکہ یہ صحابہ کے مابین اٹھنے والا اختلاف تھا
ایک اور بہت ہی اہم بات یہ ہے کہ ہمیں "نکاح المتعہ" کی "تاریخ" کا مکمل طور پر علم ہونا چاہیے، ورنہ اسکی غیر موجودگی میں یہ بات "فرقہ وارانہ" رنگ لے سکتی ہے (جیسا کہ آجکل تاریخ نے ناواقفیت کی بنیاد پر یہ چیز واقعی میں فرقہ وارانہ رنگ میں سامنے آتی ہے)۔

علامہ ابن حجر العسقلانی نکاح المتعہ کے متعلق لکھتے ہیں:
التَّلْخِيص الْحَبِير فِي تَخْرِيج أَحَادِيث الرَّافِعِيّ الْكَبِير < الصفحة

قَالَ : وَقَدْ ثَبَتَ عَلَى تَحْلِيلِهَا بَعْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَمَاعَةٌ مِنْ السَّلَفِ , مِنْهُمْ مِنْ الصَّحَابَةِ أَسْمَاءُ بِنْتُ أَبِي بَكْرٍ , وَجَابِرُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ , وَابْنُ مَسْعُودٍ , وَابْنُ عَبَّاسٍ , وَمُعَاوِيَةُ , وَعَمْرُو بْنُ حُرَيْثٍ , وَأَبُو سَعِيدٍ , وَسَلَمَةُ , وَمَعْبَدُ بْنُ أُمَيَّةَ بْنِ خَلَفٍ , قَالَ وَرَوَاهُ جَابِرٌ عَنْ الصَّحَابَةِ مُدَّةَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , وَمُدَّةَ أَبِي بَكْرٍ وَمُدَّةَ عُمَرَ إلَى قُرْبِ آخِرِ خِلَافَتِهِ , قَالَ : وَرُوِيَ عَنْ عُمَرَ أَنَّهُ إنَّمَا أَنْكَرَهَا إذَا لَمْ يَشْهَدْ عَلَيْهَا عَدْلَانِ فَقَطْ , وَقَالَ بِهِ مِنْ التَّابِعِينَ طَاوُسٌ وَعَطَاءٌ , وَسَعِيدُ بْنُ جُبَيْرٍ , وَسَائِرُ فُقَهَاءِ مَكَّةَ قَالَ : وَقَدْ تَقَصَّيْنَا الْآثَارَ بِذَلِكَ فِي كِتَابِ الْإِيصَالِ , انْتَهَى كَلَامُهُ . فَأَمَّا مَا ذَكَرَهُ عَنْ أَسْمَاءَ فَأَخْرَجَهُ النَّسَائِيُّ مِنْ طَرِيقِ مُسْلِمٍ الْقَرِّيِّ قَالَ : { دَخَلْت عَلَى أَسْمَاءَ بِنْتِ أَبِي بَكْرٍ فَسَأَلْنَاهَا عَنْ مُتْعَةِ النِّسَاءِ , فَقَالَتْ : فَعَلْنَاهَا عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ }

امام ابن حجر العسقلان علامہ ابن حزم کے حوالے سے ان صحابہ اور تابعین کے ناموں کی لسٹ مہیا کر رہے ہیں جو کہ نکاح المتعہ کو حلال جانتے تھے۔ آپ لکھتے ہیں:
"رسول اللہ صل اللہ علیہ و آلہ وسلم کی وفات کے بعد بھی سلف کی ایک جماعت عقد متعہ کو حلال جانتی تھی۔ اور صحابہ میں سے یہ اسماء بنت ابی بکر، جابر بن عبداللہ انصاری، ابن مسعود، ابن عباس، معاویہ، عمروہ بن حریث، ابو سعید، سلمۃ اور معبد بن امیہ بن خلف وغیرہ ہیں۔ اوربیان ہے کہ صحابی جابر بن عبداللہ انصاری نے دیگر صحابہ سے روایت کی ہے کہ عقد متعہ حلال و جاری رہا رسول اللہ ص کے زمانے میں، اور پھر حضرت ابو بکر کے زمانے میں، اور پھر حضرت عمر کے دور خلافت کے تقریبا آخر تک۔ اور پھر وہ آگے روایت کرتے ہیں کہ پھر حضرت عمر نے اس سے منع کر دیا اگر دو عادل گواہ نہ ہوں۔ تابعین میں سے جو عقد متعہ کو حلال جانتے تھے ان میں طاؤس، عطاء، سعید بن جبیرشامل ہیں، اور پھر اہل مکہ کے فقہاء کی اکثریت عقد متعہ کو حلال جانتی تھی۔۔۔ اور پھر جو حضرت اسماء بنت ابی بکر کے متعلق روایت ہے، جسے نسائی نے مسلم القری سے روایت کیا ہے کہ وہ کہتے ہیں: "ہم حضرت اسماء بنت ابی بکر کے پاس گئے اور ہم نے اُن سے عقد المتعہ کے متعلق سوال کیا۔ اس پر انہوں نے جواب دیا کہ: "ہم رسول اللہ صل اللہ علیہ و آلہ وسلم کے زمانے میں نکاح المتعہ کیا کرتے تھے۔"

اس لیے گذارش یہ ہے کہ اختلافات پر بات کرنے سے قبل ہمیں "اختلاف رائے قبول کرنے" پر بات کرنی چاہیے۔ عقد متعہ کی مختصر تاریخ یہ ہی ہے کہ یہ مسئلہ "آج" کا پیداکردہ نہیں ہے، بلکہ یہ صحابہ کرام کے مابین شروع ہوا، اور ان تمام ترصدیوں کا سفر طے کرتا ہوا آج ہم تک پہنچا ہے۔
اگر یہ دو ضمنی مسائل (کنیز عورت اور متعہ النساء کی تاریخ) واضح ہو چکے ہوں، تو آئیے اب متعہ النساء کے اوپر براہ راست گفتگو شروع کرتے ہیں۔
متعہ اور زنا میں کیا فرق ہے؟

عقد متعہ میں وہ تمام تر قوانین اور شرائط موجود ہیں جو کہ عقد نکاح میں موجود ہوتے ہیں، سوائے اسکے کہ مقررہ وقت کے بعد طلاق ہو جاتی ہے۔

  • محرم عورتوں سے عقد متعہ حرام ہونا (نکاح کی طرح):
    عقد متعہ صرف اُن خواتین کے ساتھ کیا جا سکتا ہے جو کہ خونی رشتے یا رضاعی رشتوں کی وجہ سے حرام نہ ہوں۔ [بالکل ایسے ہی جیسا کہ عقد نکاح میں یہ شرائط موجود ہیں] ۔ کنیز عورت کی صورت میں بھی صرف اُسی کنیز عورت سے ہمبستری کی جا سکتی ہے جو کہ محرمات میں سے نہ ہو۔
    مگر زنا میں ایسی کوئی شرط نہیں ہوتی اور حتی کہ محرمات کے ساتھ تک کھلا زنا کیا جاتا ہے۔
    [نوٹ: اسی طرح عقد متعہ فقط مسلمان یا اہل کتاب عورت سے کیا جا سکتا ہے جبکہ زنا میں کسی مذہب کی کوئی شرط نہیں]
  • عدت گذار کر عورت کا پاک صاف ہونا:
    عقد متعہ صرف ایسی عورت کے ساتھ کیا جا سکتا ہے جو کہ عدت کا عرصہ گذار کر اپنے پچھلے شوہر سے پاک صاف ہو چکی ہو۔ [اسی طرح کنیز عورت سے صرف اس صورت میں ہمبستری کی جا سکتی ہے جب وہ عدت گذار کر پاک صاف ہو چکی ہو]۔ اسی طرح عقد متعہ میں جب مقررہ وقت کے بعد عورت و مرد میں جدائی ہوتی ہے تو عورت پر پھر عدت کا زمانہ گذارنا واجب ہو جاتا ہے۔
    جبکہ زنا میں عدت اور پاک صاف ہونے کا کوئی تصور نہیں۔ بلکہ زنا میں ایک عورت ایک ہی دن میں کئی کئی مردوں کے ساتھ سوتی ہے۔ بلکہ اس سے بڑھ کر زنا میں گروپ سیکس کیا جاتا ہے۔
  • عدت کا عرصہ:
    نیز یہ کہ متعہ میں عدت کا زمانہ عام تقریبا دو مہینے ہے [جبکہ عقد نکاح میں یہ زمانہ تقریبا تین مہینے ہوتا ہے] ۔ بعض لوگ اس کم وقت پر اعتراض کرتے ہیں، مگر ان حضرات کو دیکھنا چاہیے کہ اہلسنت برادران کی فقہ میں کنیز عورت کا استبرائے رحم اس سے بھی کہیں کم یعنی ایک ماہواری ہے اور اسکے بعد اسکا نیا مالک اس سے ہمبستری کر سکتا ہے۔
    ۔ امام رضا علیہ السلام کی روایت ہے امام محمد باقر علیہ السلام نے ارشاد فرمایا: متعہ کا عدہ ۴۵ دن ہے۔ [فروع کافی]
    ۔ زرارہ کی روایت ہے کہ متعہ کا عدہ ۴۵ دن ہوتا ہے گویا اس وقت میری نظروں میں پھر رہا ہے کہ امام محمد باقر اپنی انگلیوں پر ۴۵ دن شمار کرکے بتلا رہے ہیں۔ پس جب مدت مقررہ گذر جائے تو یہ ان دونوں کی جدائی ہوگی۔ بغیر طلاق کے۔

    نیز اہلحدیث فقہ میں آزاد عورت اگر خلع حاصل کرے تو اسکی عدت فقط ایک حیض ہے

    ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں ثابت بن قیس رضی اللہ تعالی عنہ کی بیوی نے اپنے خاوند سے خلع کیا تونبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے ایک حیض عدت گزارنے کا حکم دیا ۔
    سنن ترمذی حدیث نمبر ( 1185 ) سنن ابوداود حدیث نمبر ( 2229 ) اورامام نسائي رحمہ اللہ تعالی نے ربیع بنت عفراء سے حدیث بیان کی ہے سنن نسائي حدیث نمبر ( 3497 ) دونوں حدیثوں کو حافظ ابن قیم رحمہ اللہ تعالی نے صحیح قرار دیا ہے جس کا ذکر آگے آئے گا ۔
    حوالہ: islam-qa.com
  • اولاد کے باپ کا تعین:
    اور عقد متعہ اور کنیز عورت کی مسئلے کی صورت میں اسی عدت کی وجہ سے یہ ممکن ہوتا ہے کہ یہ یقین کی حد تک پتا ہو کہ بچے کا باپ کون ہے (جیسے نکاح میں یقین ہوتا ہے]۔ اور عقد متعہ یا ام الولد کنیز سے پیدا ہونے والے اس بچے کی تمام تر ذمہ داری اور نان و نفقہ باپ پر عائد ہوتی ہے اور اس بچے کو بعینہ وہی تمام حقوق حاصل ہیں جو کہ عقد نکاح کی صورت میں پیدا ہونے والے بچے کو حاصل ہوتے ہیں (مثلا وراثت کا مسئلہ ، اسکی تعلیم و تربیت کی تمام ذمہ داری باپ پر ہے وغیرہ وغیرہ]۔ ان حقوق میں ذرا برابر بھی فرق نہیں چاہے یہ بچہ عقد نکاح سے پیدا ہوا ہو یا پھر عقد متعہ یا ام ولد والی کنیز عورت سے۔
    اسکے مقابلے میں زنا کاری کے نتیجے میں پیدا ہونے والے بچے کا تعلق باپ سے سرے سے ہی نہیں ہے اور نہ وہ اسکا وارث ہے اور نہ باپ اسے اپنا نام دے سکتا ہے۔
چنانچہ عقد متعہ اور عقد نکاح میں کچھ فرق نہیں سوائے مقررہ وقت کے بعد طلاق ہو جانے کے، جبکہ زنا کاری بالکل ہی الگ چیز ہے۔
حضرت عمر کے اپنے بیٹے کی گواہی کہ متعہ زنا نہیں

جو حضرات ابتک نکاح متعہ کو زنا قرار دینے پر مصر ہیں، انکے لیے خود حضرت عمر کے اپنے فرزند عبداللہ ابن عمر کی گواہی کافی ہے۔ مسند احمد بن حنبل میں ابن عمر کے متعلق یہ روایت درج ہے:
حدثنا ‏ ‏عفان ‏ ‏حدثنا ‏ ‏عبيد الله بن إياد ‏ ‏قال حدثنا ‏ ‏إياد يعني ابن لقيط ‏ ‏عن ‏ ‏عبد الرحمن بن نعيم الأعرجي ‏ ‏قال ‏
‏سأل رجل ‏ ‏ابن عمر ‏ ‏وأنا عنده عن ‏ ‏المتعة ‏ ‏متعة ‏ ‏النساء ‏ ‏فغضب وقال والله ما كنا على ‏ ‏عهد ‏ ‏رسول الله ‏ ‏صلى الله عليه وسلم ‏ ‏زنائين ولا ‏ ‏مسافحين ‏ ‏ثم قال والله لقد سمعت رسول الله ‏ ‏صلى الله عليه وسلم ‏ ‏يقول ‏ ‏ليكونن قبل ‏ ‏المسيح الدجال ‏ ‏كذابون ثلاثون أو أكثر ‏
‏قال ‏ ‏أبي ‏ ‏و قال ‏ ‏أبو الوليد الطيالسي ‏ ‏قبل يوم القيامة ‏
ترجمہ: عفان نے عبید اللہ سے، انہوں نے ایاد سے، انہوں نے عبدالرحمن ابن نعیم سے روایت کی ہے: ایک شخص نے صحابی عبداللہ ابن عمر سے متعہ، متعہ النساء کے متعلق پوچھا۔ اس پر ابن عمر غصے ہو گئے اور قسم کہا کر کہنے لگے کہ ہم رسول اللہ (ص) کے زمانے میں زناکار و سفاح کار نہیں تھے۔ پھر آگے کہنے لگے کہ میں اللہ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میں نے رسول (ص) کو فرماتے سنا ہے کہ دجال کے آنے سے قبل 30 کذاب آئیں گے۔
حوالہ: مسند احمد بن حنبل، جلد 2، حدیث 5546
یہی روایت مسند احمد بن حنبل میں ابو ولید سے بھی مروی ہے۔ [حوالہ: مسند احمد بن حنبل، جلد 2، حدیث 5436]

رسول ص کی گواہی کہ متعہ زنا نہیں بلکہ پاکیزہ و طیبات میں سے ہے

جو لوگ ابن عمر کی گواہی کے باوجود نکاح متعہ کو زنا قرار دیتے ہیں، وہ یقینا رسول اللہ ص کی اس گواہی کو بھی کسی نہ کسی بہانے جھٹلا دیں گے کہ جہاں اللہ کا رسول ص خود گواہی دے رہا ہے کہ عقد متعہ پاکیزہ طیبات میں سے ہے۔​
صحیح بخاری [آنلائن لنک]
حدثنا ‏ ‏عمرو بن عون ‏ ‏حدثنا ‏ ‏خالد ‏ ‏عن ‏ ‏إسماعيل ‏ ‏عن ‏ ‏قيس ‏ ‏عن ‏ ‏عبد الله ‏ ‏رضي الله عنه ‏ ‏قال ‏
‏كنا نغزو مع النبي ‏ ‏صلى الله عليه وسلم ‏ ‏وليس معنا نساء فقلنا ألا نختصي فنهانا عن ذلك فرخص لنا بعد ذلك أن نتزوج المرأة بالثوب ثم قرأ ‏
‏يا أيها الذين آمنوا لا تحرموا طيبات ما أحل الله لكم
ترجمہ:
عبداللہ ابن مسود فرماتے ہیں کہ وہ رسول اللہ ص کے ساتھ غزوات میں مصروف تھے اور اُنکی بیویاں انکے ہمراہ نہیں تھیں۔ چنانچہ انہوں نے رسول اللہ ص سے پوچھا کہ آیا گناہ کے خوف سے نجات پانے کے لیے وہ خود کو خصی (اعضائے شہوانی کا کانٹا) کر لیں۔ اس پر رسول اللہ ص نے انہیں منع فرمایا اور انہیں رخصت دی کہ وہ عورتوں کے ساتھ کسی کپڑے کے عوض مقررہ مدت تک نکاح کریں اور پھر رسول اللہ ص نے یہ آیت تلاوت فرمائی:
[القرآن 5:87] يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ لاَ تُحَرِّمُواْ طَيِّبَاتِ مَا أَحَلَّ اللّهُ لَكُمْ وَلاَ تَعْتَدُواْ إِنَّ اللّهَ لاَ يُحِبُّ الْمُعْتَدِينَ
اے ایمان والو! جو پاکیزہ چیزیں اللہ نے تمہارے لئے حلال کی ہیں انہیں (اپنے اوپر) حرام مت ٹھہراؤ اور نہ (ہی) حد سے بڑھو، بیشک اللہ حد سے تجاوز کرنے والوں کو پسند نہیں فرماتا
کیا لسان نبوت کی اس گواہی کے بعد بھی کوئی شقی القلب عقد متعہ کو زنا کہنے کی جرات کر سکتا ہے؟
چند انتہا پسند حضرات اپنی فرقہ وارانہ عصبیت میں مبتلا ہو کر عقد متعہ کو زنا کہنےسے پھر بھی بعض نہیں آتے۔ یہ ایک بہت خطرناک چیز ہے، کیونکہ تمام مسلمانوں کا اس پر اجماع ہے کہ کم از کم 7 ہجری تک (یعنی رسول ص کی وفات کے تین سال قبل تک) صحابہ اور صحابیات نے رسول اللہ ص کی اجازت بلکہ حکم سے عقد متعہ کیے۔ چنانچہ جب یہ لوگ متعہ کو زناکاری کا الزام دیں گے تو یہ چیز ان صحابہ اور صحابیات کے لیے سب سے پہلے گالی بن جائے گا جو رسول اللہ ص کی اجازت بلکہ حکم پر عقد متعہ کرتے رہے۔ کاش کہ یہ لوگ اس بات کو سمجھ سکیں۔
پھر بھی احتمال کہ طوائفیں متعہ کو اپنے دھندے کے لیے استعمال کر سکتی ہیں

بلاشبہ عقد متعہ پاکیزہ و طیبات میں سے ہے اور اسکا زناکاری سے کوئی لینا دینا نہیں۔ مگر پھر بھی کچھ برادران کے اذہان میں یہ سوال اٹھتا ہے کہ بے شک متعہ پاکیزہ و طیب ہو، مگر خطرہ ہے کہ طوائفیں عقد متعہ کو اپنے دھندے کے لیے استعمال کر سکتی ہیں۔ تو نوٹ کیجئے کہ:

  • اسلام اکثر حالات کے تحت کچھ سہولیات فراہم کرتا ہے۔ اور اگر لوگ اس سہولت کو Misuse کرتے ہیں تو یہ اُن لوگوں کا جرم و گناہ ہے نہ کہ اسلام کا۔
  • اور یہ یقین رکھیں کہ اگر دھندہ کروانا ہی ہے تو کنیز عورتوں کی مدد سے یہ دھندا کہیں زیادہ اچھے طریقے سے کروایا جا سکتا ہے کیونکہ اسلام مالک کو اجازت دیتا ہے کہ وہ اپنی کنیز کو ایک شخص کے نکاح میں عارضی طور پر دے اور پھر واپس لے کر دوسرے شخص سے نکاح کر دے، اور پھر دوسرے سے واپس لے کر تیسرے سے نکاح کر دے۔۔۔
  • اور تاریخ میں ایسے واقعات ملتے ہیں کہ لوگوں نے اس چیز کا ناجائز فائدہ اٹھانا چاہا، اور اللہ نے قرآن میں ایسے لوگوں کو تنبیہ کی۔
    تو یہ قصور اسلام کا نہیں تھا، بلکہ مجرم وہ لوگ ہیں جنہوں نے اس چیز کا غلط استعمال کیا۔
    اسلام نے ضرورت کے تحت کنیز باندیوں کا سلسلہ جاری رکھا تھا اور انکی تعداد پر پابندی نہ لگائی، مگر پھر آپ نے سنا کہ حرم میں ان کنیز عورتوں کی تعداد کئی کئی سو سے بھی تجاوز کر گئی۔ مگر یہ اسلام کا قصور نہیں بلکہ ان لوگوں کا اپنا قصور تھا۔
  • اور عقد متعہ کر کے کے کوئی طوائف اپنا بزنس جاری نہیں رکھ سکتی، کیونکہ اُسے اگر ہر گاہک کے جانے کے بعد دو مہینے کی عدت رکھنی پڑی تو اُسکے ایک سال میں گاہکوں کی تعداد 6 تک پہنچتی ہے۔ نتیجہ یہ ہو گا کہ ایسی طوائف کا بزنس بہت جلد ٹھپ ہو جائے گا۔
    [اور یہ بھی یاد رکھئیے کہ عقد متعہ میں عدت کی معیاد دو مہینے تک بنتی ہے جبکہ اہلسنت فقہ کے مطابق کنیز عورت باندی کا ایک ماہواری آ جانے کے بعد ہی استبرائے رحم ہو جاتا ہے اور اسکے بعد اگلا مالک اس سے ہمبستری کر سکتا ہے۔ اس لحاظ سے بھی اگر کوئی بزنس کا ارادہ بھی رکھتا ہے تو وہ کنیز عورت کے استعمال کی طرف جائے گا بجائے عقد متعہ کے]
آخر میں سنن ابو داؤد کی یہ ایک روایت [سنن ابو داؤد، کتاب 12، روایت 2304]:
جابر بن عبداللہ انصاری سے روایت ہے:
کسی انصاری کی ایک کنیز رسول ص کے پاس آئی اور کہا: میرا مالک مجھے بدکاری پر مجبور کرتا ہے۔ اس پر اللہ نے قرآن میں یہ آیت نازل فرمائی: اور اپنی کنیزوں کو بدکاری پر مجبور نہ کرو جبکہ وہ عفت و پاکدامنی چاہتی ہیں۔(القرآن 24:33)

نان و نفقہ [نکاح بالمقابل متعہ]

نکاح میں دو طرح کی شرائط ہوتی ہیں:
1۔ وہ شرائط جو بنیادی ہیں۔ مثلا محرم عورت سےنکاح کی ممانعت کی شرط، عدت کی شرط، بچے کی ذمہ داری کی شرط وغیرہ۔ یہ شرائط کبھی تبدیل نہیں ہو سکتیں۔
2 ۔ وہ شرائط جو ثانوی ہیں اور معاہدے کے تحت ان میں رد و بدل کیا جا سکتا ہے۔ مثلا عورت اپنے نان و نفقے اور گھر کی شرط، یا وقت اور باری کی شرط سے دستبردار ہو سکتی ہے (جیسا آجکل مسیار شادی میں عرب ممالک میں ہوتا ہے جہاں عورت اپنے یہ حقوق چھوڑتی ہے)
یہی چیز عقد متعہ کے لیے بھی درست ہے۔ بنیادی طور پر عقد متعہ میں عورت نان نفقہ نہیں رکھتی، مگر اگر وہ عقد متعہ کے لیے یہ شرائط رکھ دے، اور شوہر اسے قبول کرے تو پھر اس عورت کو بھی نان نفقہ دینا پڑے گا۔
میراث [نکاح بالمقابل متعہ]

عقد متعہ میں مرد اور عورت ایک دوسرے سے میراث نہیں پاتے۔
کیوں؟
جواب بہت سادہ ہے کہ عقد متعہ میں ایک مقررہ وقت کے بعد ان میں طلاق ہو جاتی ہے۔ اور اہلسنت کے تمام فقہ اس بات پر متفق ہیں کہ نکاح کے بعد طلاق یافتہ ہونے والی عورت کو بھی میراث میں سے حصہ نہیں ملتا۔
مگر اگر عقد متعہ کرتے وقت میراث کی شرط رکھ دی جائے، تو اس صورت میں میراث بھی جاری ہو گی۔ امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں: "اگر عقد کرتے وقت میراث کی شرط کر لی جائے تو پھر اس شرط کی ادائیگی واجب ہے [وسائل الشیعہ، جلد 4، صفحہ 486]
ابو بصیر سے روایت ہے کی: "شرائط متعہ میں ضروری ہے کہ مرد عورت سے کہے میں تجھ سے شادی کرتا ہوں بطور متعہ اتنے دن کے لئے اتنے مہر پر شرعی طریقہ سے بغیر عنوان نا مشروع کے کتاب خدا و سنت نبی ﷺ کے مطابق اس طرح کہ تجھے میری میراث نہیں ملے گی اور نہ میں تیرا وارث ہوں گا اور تجھ کو (افتراق کے بعد) ۴۵ دن عدہ رکھنا ضروری ہوگا۔ "
اہل تشیع کے علاوہ اہلسنت کا بھی یہ مانتے ہیں کہ عقد متعہ میں میراث نہیں ہوتی تھی۔مثلا امام اہلسنت ابن جریر طبری مشہور تابعی امام التفسیر سدی سےآیت 4:24 کی ذیل میں روایت کرتے ہیں:{(استمتاع) اس سے مراد عقد متعہ ہے۔ ایک مرد عورت سے معین مدت کے لیے شرط کے ساتھ نکاح کرتا تھا۔ جب مدت ختم ہو جاتی تھی تو مرد کا عورت پر کوئی اختیار نہ ہوتا۔ وہ عورت اس سے آزاد ہوتی۔ عورت پر لازم ہوتا کہ وہ اپنا رحم خالی کرتی۔ اسکے درمیان وراثت جاری نہ ہوتی کوئی ایک دوسرے کا وارث نہ ہوتا۔[لنک تفسیر طبری، آیت 4:24 ]}۔ چنانچہ اہل تشیع نے عقد متعہ کو جوں کا توں ہی جاری رکھا ہے جیسا رسول اللہ ص کے زمانے میں صحابہ و صحابیات کے مابین رائج تھا اور اس میں اپنی طرف سے میراث کی ممانعت نہیں کی ہے۔مزید یہ دیکھئیے کہ اہلسنت علماء کے نزدیک ذیل کی عورتوں کو میراث نہیں ملتی (چاہے وہ نکاح سے ہی کیوں نہ بیوی بنی ہوں)
1۔ اگر عورت کو طلاق ہو جائے۔
2۔ اگر عورت اہل کتاب سے ہو (اور یہ بات برادران اہلسنت کی فقہ میں حدیث سے ثابت ہے اور اس پر وہ میراث والی قرآنی آیت کا اطلاق نہیں کرتے۔ مگر کچھ انتہا پسند حضرات میراث کی قرآنی آیت کی بنیاد پر عقد متعہ کو حرام ٹہراتے ہیں حالانکہ عقد متعہ کی صورت میں بھی حدیث موجود ہے کہ اس میں میراث نہیں ہوتی)
3۔ ایسی عورت جس نے اپنے مرد کو قتل کر دیا ہو۔ (اور یہ بات بھی حدیث سے ثابت ہے اور اس بنیاد پر اس پر میراث والی قرآنی آیت کا اطلاق نہیں کیا جاتا)
4۔ کنیز باندی کو میراث میں سے حصہ نہیں ملے گا۔ اسی طرح کنیز باندی کو اگر کسی دوسرے شخص کے نکاح میں دیا ہے تو اُس شخص سے بھی کنیز عورت کو میراث نہیں ملے گی۔ اور یہ بات بھی اہلسنت فقہ میں حدیث سے ثابت ہے۔
ان سب معاملات میں حدیث سے ہونے والی اس تخصیص کو مانا جاتا ہے، مگر جب عقد متعہ کی بات آتی ہے تو پھر کچھ لوگ منکر حدیث قرآنسٹ بن جاتے ہیں اور پھر اس قرآنی آیت کی وجہ سے باقی سب چیزوں کو چھوڑ کر فقط عقد متعہ کو حرام قرار دینے لگتے ہیں۔
زن ممتوعہ بھی زوجہ ہی ہے

پہلے دعوی کیا جاتا ہے کہ زن ممتوعہ زوجہ نہیں ہے کیونکہ یہ 4 آزاد نکاح والی عورتوں کی قید میں شامل نہیں، اور پھر سورہ مومنون سے ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ متعہ حرام ہے:
[سورۃ المومنون آیت 5 اور 6] اور جو اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرتے رہتے ہیں. سوائے اپنی ازواج کے یا ان باندیوں کے جو ان کے ہاتھوں کی مملوک ہیں۔
اہل تشیع صدیوں سے چیخ چیخ کر کہہ رہے ہیں کہ:
1۔ ہمارے فقہ کے مطابق زن ممتوعہ بھی زوجہ ہی مانی جاتی ہے۔
2۔ اور رسول اللہ ص کے زمانے میں چار آزاد عورتوں سے نکاح دائمی کی قید کے باوجود رسول اللہ ص نے خود زن ممتوعہ کو زوجہ ہی قرار دیا اور اس پر اس چار والی قید نہیں لگائی۔

یہ دیکھئیے رسول اللہ ص کی اپنی گواہی کہ زن ممتوعہ بھی زوجہ ہے۔
صحیح بخاری [آنلائن لنک]
حدثنا ‏ ‏عمرو بن عون ‏ ‏حدثنا ‏ ‏خالد ‏ ‏عن ‏ ‏إسماعيل ‏ ‏عن ‏ ‏قيس ‏ ‏عن ‏ ‏عبد الله ‏ ‏رضي الله عنه ‏ ‏قال ‏
‏كنا نغزو مع النبي ‏ ‏صلى الله عليه وسلم ‏ ‏وليس معنا نساء فقلنا ألا نختصي فنهانا عن ذلك فرخص لنا بعد ذلك أن نتزوج المرأة بالثوب ثم قرأ ‏
‏يا أيها الذين آمنوا لا تحرموا طيبات ما أحل الله لكم ‏
ترجمہ:
عبداللہ ابن مسود فرماتے ہیں کہ وہ رسول اللہ ص کے ساتھ غزوات میں مصروف تھے اور اُنکی بیویاں انکے ہمراہ نہیں تھیں۔ چنانچہ انہوں نے رسول اللہ ص سے پوچھا کہ آیا گناہ کے خوف سے نجات پانے کے لیے وہ خود کو خصی (اعضائے شہوانی کا کانٹا) کر لیں۔ اس پر رسول اللہ ص نے انہیں منع فرمایا اور انہیں رخصت دی کہ وہ عورتوں کے ساتھ کسی کپڑے کے عوض مقررہ مدت تک تزویج کریں اور پھر رسول اللہ ص نے یہ آیت تلاوت فرمائی:
[القرآن 5:87] يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ لاَ تُحَرِّمُواْ طَيِّبَاتِ مَا أَحَلَّ اللّهُ لَكُمْ وَلاَ تَعْتَدُواْ إِنَّ اللّهَ لاَ يُحِبُّ الْمُعْتَدِينَ
اے ایمان والو! جو پاکیزہ چیزیں اللہ نے تمہارے لئے حلال کی ہیں انہیں (اپنے اوپر) حرام مت ٹھہراؤ اور نہ (ہی) حد سے بڑھو، بیشک اللہ حد سے تجاوز کرنے والوں کو پسند نہیں فرماتا
اب لسان نبوت جب خود گواہی دی رہی ہے کہ عقد متعہ میں عورت کے ساتھ تزویج ہے اور وہ اس بنا پر زوجہ کے حکم میں ہے تو پھر کون ہمت کر سکتا ہے کہ پھر بھی اپنے قیاسی گھوڑے دوڑا کر دعوی کرے کہ زن ممتوعہ زوجہ میں شمار نہیں؟
زن ممتوعہ کا سوگ میں بیٹھنا:

زن ممتوعہ کی عدت طلاق کی صورت میں دو حیض ہیں۔ مگر اگر اس دوران شوہر کا انتقال ہو جائے تو پھر عدت کے ساتھ اُسے سوگ بھی رکھنا ہو گا۔ زرارہ کی روایت ہے کہ: " میں نے امام محمد باقر سے پوچھا کہ کیا ہے عدہ متعہ کا جبکہ اس شخص کا انتقال ہو جائے جس سے متعہ کیا تھا؟ حضرت نے فرمایا۔ چار مہینہ دس دن پھر فرمایا کہ ہر قسم کے نکاح میں جب شوہر مرجائے تو زوجہ کو خواہ آزاد ہو کنیز اور نکاح جس طرح کا ہو متعہ ہو یا دائمی یا ملک یمین بہر حال عدہ وہی چار مہینہ دس دن ہوگا۔"

مغربی ہیومن رائیٹ کے علمبرداروں کا عقد متعہ کو Prostitution قرار دینا


عقد متعہ کے حوالے سے ایک مسئلہ یہ بھی پیش آتا ہے جب مغربی ہیومن رائیٹ کے علمبردار عقد متعہ کو لیگل طوائفی Legal Prostitution قرار دیتے ہیں۔
ان حضرات کی خدمت میں عرض ہے کہ:
پہلا: یہ مغربی ہیومن رائیٹ ایکٹیوسٹ تو مغرب میں لڑکی اور لڑکے کے مابین بغیر شادی کے تعلق کو بھی جائز جانتے ہیں۔ تو پھر یہ کیسے عقد متعہ کو Prostitution قرار دے سکتے ہیں؟
دوسرا: ان حضرات کا دوسرا اور آخری آرگومنٹ یہ ہوتا ہے کہ مغرب کے بوائے فرینڈ/گرل فرینڈ تعلقات اور عقد متعہ میں فرق یہ ہے کہ عقد متعہ میں عورت کو حق مہر کے نام پر رقم دی جاتی ہے جو کہ طوائفوں کو رقم دینے کے برابر ہے اور عورت کی تذلیل ہے۔
ان مغربی حضرات کو بڑی غلط فہمی ہے کیونکہ عقد متعہ میں حق مہر کی رقم کا تعلق ہے تو یہ دونوں فریقین کے درمیان معاہدے کی بنیاد پر ہے اور اگر عورت رقم لینے کو اپنی تذلیل محسوس کرتی ہے تو وہ اس سے بے شک انکار کر سکتی ہے۔ چنانچہ صرف عورت کو حق مہر کے نام پر رقم دینے کو اسکی تذلیل قرار دینا کیونکر صحیح ہو سکتا ہے؟
آج مغرب میں بوائے فرینڈ/گرل فرینڈ کے تعلقات میں بھی بہت جگہ آپکو نظر آئے گا کہ گرل فرینڈ کام پر نہیں جاتی بلکہ گھر میں رہتی ہے اور بوائے فرینڈ گھر کے اور اپنی گرل فرینڈ کے تمام اخراجات برداشت کرتا ہے۔ تو کیا اس چیز کو بھی آپ Prostitution کا نام دیں گے؟دیکھئے مرد کی طرف سے عورت کیلئے پیسہ خرچ کرنا دونوں کیسز میں شامل ہے، مگر ایک کیس کو آپ طوائفی قرار دیں اور دوسرے کو نہیں تو یہ آپکے ڈبل سٹینڈرڈز ہوئے کہ نہیں؟
نوٹ: حق مہر کی یہ رقم صرف عقد متعہ تک محدود نہیں بلکہ اسلام میں یہ حق مہر کی رقم عقد نکاح میں بھی بعینہ ایسے ہی نافذ ہے کہ ایک دفعہ جماع کرنے کے بعد ہر صورت یہ رقم واجب کرنا مرد پر واجب ہو جاتا ہے، اور اسکا مقصد سوسائٹی میں عورت کو سپورٹ کرنا ہے اسکی تذلیل کرنا نہیں۔ پچھلے زمانے کو چھوڑیں، آجکے زمانے میں بھی حتی کہ مغرب میں بھی عورت کا زیادہ تر انحصار پیسے کے لیے مرد پر ہی ہے۔
عقد متعہ مغرب کے اس بوائے فرینڈ/گرل فرینڈ تعلقات سے ہر حال میں بہتر ہے کیونکہ:
1۔ اس میں پیدا ہونے والے بچوں کے باپ کا تعین یقینی ہے جبکہ مغرب کے بوائے فرینڈ/گرل فرینڈ میں اکثر پتا ہی نہیں چلتا کہ بچے کا باپ کون ہے کیونکہ لڑکی عدت گذارے بغیر لڑکے کے ساتھ ہمبستری کر رہی ہوتی ہے۔ یا پھر اکثر ایک بوائے فرینڈ کی ساتھ ساتھ مزید کئی لڑکوں کے ساتھ سو رہی ہوتی ہے۔ اسی وجہ سے آج مغرب میں لاکھوں کی تعداد میں ایسے بچے پروان چڑھ رہے ہیں جنہیں اپنے باپ کا سرے سے پتا ہی نہیں ہے کہ انکا باپ کون ہے۔
2۔ اور پھر بچہ پیدا ہو جائے اور لڑکی چاہے کہ وہ بچے پر پورا حق جما لے تو بوائے فرینڈ کے پاس کوئی اختیار ہی نہیں ہے کہ وہ اپنے بچے پر اپنا کوئی حق ثابت کر سکے۔
اور بھی بہت سے مسائل ہیں جو آج مغرب کو بوائے فرینڈ/گرل فرینڈ کے نام پر برداشت کرنے پڑ رہے ہیں مگر اس آرٹیکل میں گنجائش نہیں کہ اس پر تفصیلی بات کی جائے۔

*****************
 

dxbgraphics

محفلین
اس موضوع پر بحث بیکار ہے۔
کیوں کہ جس طرح آپ نے بخاری وغیرہ کے حوالہ جات دیئے ہیں۔ اگر کچھ حوالے اصول کافی ، فرقۃ الشیعہ اور حق الیقین وغیرہ سے دے دوں تو شاید میرے مراسلے حذف کر دیئے جائیں گے۔
 

دوست

محفلین
لو جی مجھے تو اتنا پتا ہے کہ ایران میں‌ ایسے ہی "نکاح" (اللہ کریم مجھے معاف کرے) کے مضمرات کے بارے میں ایک خبر پڑھی تھی کبھی بی بی سی اردو پر۔ ربط ابھی مل نہیں رہا۔ اس میں سے اتنا یاد رہ گیا کہ اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے بچوں کے ساتھ ایرانی معاشرے میں وہی سلوک ہوتا ہے جو ناجائز بچوں کے ساتھ ہوتا ہے۔ اللہ سائیں ایسے کسی بھی وقت سے بچائے ان معصوموں کا تو کوئی قصور نہیں جو دو لوگوں کے حصول لذت کے نتیجے میں وجود میں آئے اور پھر ان کا کوئی والی وارث نہیں۔
 

میر انیس

لائبریرین
اس موضوع پر بحث بیکار ہے۔
کیوں کہ جس طرح آپ نے بخاری وغیرہ کے حوالہ جات دیئے ہیں۔ اگر کچھ حوالے اصول کافی ، فرقۃ الشیعہ اور حق الیقین وغیرہ سے دے دوں تو شاید میرے مراسلے حذف کر دیئے جائیں گے۔
یا تو یی صاف صاف کہدیں کے آپ کے پاس جواب ہی نہیں ہے یا پھر ایسی بے سر و پا باتیں جانے دیں کیونکہ سب کو پتہ ہے کہ ایڈمن کی طرف سے صرف وہ پیغامات حذف کیئے جاتے ہیں ۔بخاری یا مسلم کے حوالے اسلیئے دیئے جاتے ہیں کہ اکثر مسلمانوں کا یہ عقیدہ کہ قران کے بعد یہی کتابیں سب سے زیادہ معتبر ہیں اور جب دین کی اکثر باتیں یہاں سے ہی لی گئیں ہیں تو وہ احکامات جو اہلِ تشیع کے نظریات پر دلالت کرتے ہیں وہ تسلیم کیوں نہیں کئے جاتے۔
 

ظفری

لائبریرین
متعہ اسلام میں ممنوع ہے ۔ اور اسلام نے بہت واضع انداز میں یہ بات بیان کردی ہے کہ صرف بیویوں سے ہی جنسی تعلقات رکھے جاسکتے ہیں ۔ یہ بات سورہ المومنون میں بھی واضع ہے اور سورہ البروج میں بھی اس کا ذکر ہے ۔ یہ مہیز افسانہ ہے کہ اس کی اجازت رہی ہے ۔ لوگ شاید اس بات کو نہیں سمجھتے کہ کسی وقت جب کسی چیز کے بارے میں کوئی رائے دی جاتی ہے تو اس زمانے کے حساب سے اس کے ابلاغ میں وقت لگتا ہے ۔ یعنی اس ممنوعیت کا اعلان آج کے ذرائع و ابلاغ کی طرح ٹی وی پر آکر نہیں کیا جاسکتا تھا ۔ لہذا لوگوں تک یہ بات پہنچانے میں وقت لگا ۔ کچھ لوگوں تک یہ بات رسول اللہ صلی علیہ وسلم کے زمانے میں ہی یہ بات پہنچ گئی اور بہت سے ایسے لوگ بھی تھے جن تک یہ بات مختلف مراحل طے کرتی ہوئی حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے زمانے میں پہنچی ۔جس سے لوگ یہ استدلال کرتے ہیں کہ متعہ جائز ہے یا جائز رہا ہے ۔ اس سلسلے میں قرآن بلکل واضع ہے ۔ کہ صرف بیویوں کیساتھ یہ تعلق رکھا جاسکتا ہے ۔ اور کسی کے ساتھ اس تعلق کی گنجائش نہیں ہے ۔ ہاں البتہ اس زمانے میں لونڈیاں موجود تھیں اور وہ ایک لعنت تھی جو کہ غلامی کی شکل میں موجود تھی ۔ چنانچہ جیسے جیسے اس حکم کا دائرہ وسیع ہوا غلامی کیساتھ وہ بھی ختم ہوگئیں اب اس کو دوبارہ زندہ نہیں کیا جاسکتا ۔
 

مہوش علی

لائبریرین
میں زیادہ اختلافی مسائل میں الجھنا نہیں چاہتی (اور بنیادی اختلاف ہے کہ آیا "نکاح المتعہ" کو رسول اللہ ص نے اپنی زندگی میں حلال قرار دینے کے بعد حرام کر دیا تھا یا نہیں)۔ یا پھر اگر ان اختلافی امور پر بات ہوئی بھی تو میں ان پر آخر میں بات کروں گی۔

فی الحال میری بنیادی کوشش یہ ہے کہ عقد المتعہ کے متعلق جو غلط فہمیاں معاشرے میں مخالفین کے پروپیگنڈا کی وجہ سے پیدا ہو چکی ہیں، وہ دور ہوں، اور اس کا اصل تعارف پیش کیا جائے۔ (اور اسکی مثال گرافک بھیا کا وہ غلط الزام تھا جو انہوں نے دھڑلے سے لگایا تھا کہ عقد المتعہ میں عدت نہیں ہوتی۔ یہ چیز صرف ان تک محدود نہیں، بلکہ پورے معاشرے میں یہی غلط پروپیگنڈا پھیلا جا چکا ہے جو کہ افسوسناک ہے)

چنانچہ، ابتک کی میری گفتگو کے اہم نکات یہ ہیں:

1۔ یہ مسئلہ آج کے اہلسنت اور اہل تشیع کے مابین نہیں، بلکہ صحابہ کرام میں اس مسئلے پر اختلاف ہوا اور وہاں سے چلتا ہوا آج ہم تک پہنچا ہے۔

2۔ اور نکاح المتعہ ہرگز ہرگز "زنا" نہیں ہے۔ ان میں جو فرق ہیں وہ اوپر بیان کیے جا چکے ہیں۔ زنا کے مقابلے میں عقد متعہ ہر لحاظ سے نکاح ہے سوائے اس بات کہ اگر مرد و عورت حالات کے مطابق اس بات پر راضی ہوں کہ وہ ہمیشہ کے لیے ساتھ نہیں رہ سکتے، تو ایک مقررہ وقت کے بعد ان میں طلاق ہو جاتی ہے (جبکہ اگر حالات سازگار ہوں اور دونوں فریقین چاہیں تو اسی عقد متعہ کو نکاح دائمی میں تبدیل کر سکتے ہیں)

3۔ اور میری گفتگو کا اصل محور یہ نہیں ہے کہ کسی کو مطلقا صحیح ثابت کیا جائے اور کسی کو مطلقا غلط۔ بلکہ ہمیں اس بات پر اتفاق کرنا چاہیے کہ "اختلاف رائے" کی گنجائش موجود ہے۔ اگر آپ عقد متعہ کو نہیں مانتے تو ٹھیک ہے، مگر اگر "اجتہادی غلطی" نامی کوئی چیز واقعی موجود ہے، تو آپکو اسے عقد متعہ پر نافذ کرنا چاہیے اور اسے زناکاری کا الزام دینے کی بجائے اُن صحابہ کرام کو "سنگل اجر" کا مستحق سمجھنا چاہیے جن کے نزدیک رسول اللہ ص نے اپنی وفات تک اسے جائز و حلال رکھا ہے۔

*******************
لو جی مجھے تو اتنا پتا ہے کہ ایران میں‌ ایسے ہی "نکاح" (اللہ کریم مجھے معاف کرے) کے مضمرات کے بارے میں ایک خبر پڑھی تھی کبھی بی بی سی اردو پر۔ ربط ابھی مل نہیں رہا۔ اس میں سے اتنا یاد رہ گیا کہ اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے بچوں کے ساتھ ایرانی معاشرے میں وہی سلوک ہوتا ہے جو ناجائز بچوں کے ساتھ ہوتا ہے۔ اللہ سائیں ایسے کسی بھی وقت سے بچائے ان معصوموں کا تو کوئی قصور نہیں جو دو لوگوں کے حصول لذت کے نتیجے میں وجود میں آئے اور پھر ان کا کوئی والی وارث نہیں۔
میں آپ کو یقین دلاتی ہوں کہ عقد المتعہ وہی شخص کرے گا جس کے دل میں خوف خدا ہو گا۔ اور جس دل میں خوف خدا نہ ہو گا، وہ سیدھا سادھا جا کر زنا کاری کر لے گا۔
اور جس دل میں خوف ہو گا وہ پھر عقد المتعہ کی دیگر شرائط پر بھی مکمل عمل کرے گا جن میں اولاد کے حقوق کی ادائیگی بھی شامل ہے۔

نیز میں نے اوپر آپ کو مثال دی تھی کہ اللہ کے بنائے ہوئے قوانین کو اگر مسلمان misuse کرتے ہیں، تو وہ خود اس گناہ کے ذمہ دار ہیں نہ کہ اللہ اور اُس کی بنائی ہوئی شریعت۔ اگر یہ اصول سمجھ لیا جائے تو بہت آسانیاں پیدا ہو سکتی ہیں۔ مجھے کچھ منازل طے کرنی ہیں اور اسکے بعد میں آپکے اس الزام کی طرف دوبارہ آؤں گی اور کنیز عورتوں کے حوالے سے پیدا ہونے والے مسائل کا سوال کروں گی کہ جنہیں انکے مالکان نے اس حالت میں آگے نئے مالک کے پاس بیچ دیا جبکہ وہ اُن سے حاملہ ہو چکی تھیں۔

متعہ اسلام میں ممنوع ہے ۔ اور اسلام نے بہت واضع انداز میں یہ بات بیان کردی ہے کہ صرف بیویوں سے ہی جنسی تعلقات رکھے جاسکتے ہیں ۔ یہ بات سورہ المومنون میں بھی واضع ہے اور سورہ البروج میں بھی اس کا ذکر ہے ۔ یہ مہیز افسانہ ہے کہ اس کی اجازت رہی ہے ۔ لوگ شاید اس بات کو نہیں سمجھتے کہ کسی وقت جب کسی چیز کے بارے میں کوئی رائے دی جاتی ہے تو اس زمانے کے حساب سے اس کے ابلاغ میں وقت لگتا ہے ۔ یعنی اس ممنوعیت کا اعلان آج کے ذرائع و ابلاغ کی طرح ٹی وی پر آکر نہیں کیا جاسکتا تھا ۔ لہذا لوگوں تک یہ بات پہنچانے میں وقت لگا ۔ کچھ لوگوں تک یہ بات رسول اللہ صلی علیہ وسلم کے زمانے میں ہی یہ بات پہنچ گئی اور بہت سے ایسے لوگ بھی تھے جن تک یہ بات مختلف مراحل طے کرتی ہوئی حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے زمانے میں پہنچی ۔

شکریہ ظفری برادر۔
آپکی رائے کا احترام لازمی، مگر یقینا آپ ہمیں حق دیں گے کہ ہم بھی اپنا درد دل پیش کریں اور دلیل کے ساتھ پیش کریں تاکہ شاید آپ کو اپنی غلطی کا احساس ہو سکے (ایسی غلطی جو کہ 14 سو سال کا طویل سفر طے کر آئی ہے مگر ہماری پوری کوششوں کے باوجود دور ہونے کا نام نہیں لے رہی)۔
اللہ سب سے بہتر تدبیر کرنے والا ہے۔ اس بات کی بہت بڑی بڑی مثالیں مجھے عقد متعہ کی بحث کے دوران دیکھنے کو ملیں۔ اللہ تعالی نے ان الزامات کے جوابات کی تدبیر خود بہت پہلے سے کر کے رکھی ہوئی ہے۔
ظفری بھائی، آپ سے گذارش ہے کہ:

1۔ آپ قرآن کو کھولیں۔
2۔ اور پھر ان دونوں سورتوں (سورۃ المومنون اور سورۃ المعارج) کے زمانے نزول کو دیکھیں۔
3۔ ان دونوں سورتوں سے قبل بالاتفاق آپ کو لکھا نظر آئے گا "المکیۃ" یعنی مکی دور میں نازل ہونے والی سورتیں۔
4۔ اب بتلائیں کہ آپ اس عقدے کو کیسے حل کریں گے کہ عقد متعہ جو باالاجماع کم از کم مدینے کے پہلے 7 سالوں (یعنی فتح خیبر یا 8 سالوں یعنی فتح مکہ) تک جاری و ساری رہا ہے اور صحابہ و صحابیات رسول ص کی اجازت بلکہ حکم سے عقد متعہ کرتے رہے، تو یہ کیسے ممکن ہوا کہ جب آپکے زعم کے مطابق سورۃ المومنون اور سورۃ المعارج مکی دور میں عقد متعہ کو حرام قرار دے رہی ہیں؟

میرے بھائی،
کیا آپ نے وہ محاورہ سنا ہے کہ "نقل کے لیے بھی عقل کی ضرورت ہوتی ہے۔"
یہ محاورہ پورے طور پر اُس شخص کے اوپر فٹ آتا ہے جس نے عقد متعہ کو حرام ٹہرانے کے لیے اپنی طرف سے یہ جھوٹی روایت گھڑی تھی کہ سورۃ المومنون یا معارج کے فلاں فلاں آیت نے عقد متعہ کو حرام قرار دیا تھا۔

ظفری برادر،
میری کوشش تھی کہ ان اختلافی مسائل کو ابتدائی طور پر نظر انداز کرتے ہوئے عقد متعہ کے اُن پہلوؤں پر پہلے بات کروں کہ جن پر لوگوں کی نظر عموما جاتی ہی نہیں ہے کیونکہ وہ پہلے ہی ان اختلافی مسائل میں الجھ کر رہ جاتے ہیں۔

میری اگلی پوسٹ اب اسی حوالے سے ہے۔ انشاء اللہ۔
 

مہوش علی

لائبریرین
نکاح دائمی کی افضلیت و فوقیت عقد المتعہ پر

ایک اور اہم بات یہ ہے کہ اہل تشیع فقہ کے مطابق پہلی فوقیت نکاح دائمی ہے، جبکہ عقد المتعہ خاص حالات کے لیے ہے اور عام حالات میں فوقیت نکاح دائمی کرنے کو دی گئی ہے۔ یہ ایسا ہی ہے جیسا 4 شادیوں کی اجازت کا معاملہ ہے کہ اجازت تو ہے، مگر افضلیت یہی ہے کہ ایک ہی عورت سے نکاح کیا جائے۔
چنانچہ وہ خاص حالات یہ ہیں کہ اگر نکاح دائمی کرنے کی استطاعت نہیں [جسکی مختلف وجوہات ہو سکتی ہیں جیسا غریب ہونا، یا پھر سفر میں ہونا، پڑھائی کی غرض سے غیر ممالک میں کچھ عرصے کے لیے ہونا وغیرہ] تو اس صورت میں عقد متعہ کیا جا سکتا ہے۔

1۔ فروع کافی میں ہے کہ علی بن یقطین (جو امام موسی کاظم کے قریبی ساتھیوں میں تھے) انہوں نے امام موسی کاظم علیہ السلام سے متعہ کے متعلق سوال کیا۔ حضرت نے فرمایا:" تمہیں اس کی کیا ضرورت ہے؟ تمہارے تو خدا کے فضل سے [نکاح دائمی والی] بیوی موجود ہے۔"
2۔ اور فتح بن یزید کی روایت ہے: فتح بن یزید کی روایت ہے۔
قال سالت ابالحسن علیہ السلام عن المتعتہ فقال ھی حلال مباح مطلق لمن یغنہ للہ بالترویج فلیستعفف بالمتعتہ فان استغنی عنھا بالتزوبح فھی مباح لہ اذا غاب عنھا
ترجمہ:
سوال کیا گیا متعہ کے متعلق حضرت نے فرمایا وہ حلال و مباح اور جائز ہے اس شخص کے لئے جسے خداوند عالم نے شادی نہ ہو چکنے کے باعث مستغنی نہ کر دیا ہو۔ وہ بے شک متعہ کے ذریعہ فعل حرام سے اپنی حفاظت کرے۔ لیکن وہ شخص کہ جس کی شادی ہو چکی ہے اور متعہ کی اسے ضرورت باقی نہیں رہی ہے تو اس کے لئے متعہ اس وقت جائز ہوگا جب وہ کہیں سفر میں جائے اور زوجہ ساتھ موجود نہ ہو۔
3۔ کتب ابوالحسن الی بعض موالیہ لا تلحوا علی المتعتہ فانما علیکم اقامتہ السنتہ فلا تشغلوبھا عن فرشکم و ھدائرکم۔
ترجمہ:
حضرت امام رضا علیہ السلام نے اپنے بعض اصحاب کو خط میں تحریر فرمایا کہ متعہ میں افراط سے کام نہ لو۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ متعہ کی بدولت اپنے گھروں اور گھر والی بیویوں کو چھوڑ بیٹھو۔

ایک سوال یہ کیا جاتا ہے کہ رسول اللہ ص نے پھر خود عقد متعہ کیوں نہیں کیا۔ پہلی بات یہ کہ رسول اللہ ص کا صرف فعل ہی حدیث کے زمرے میں نہیں آتا، بلکہ آپ ص کا قول بھی حدیث اور اللہ کی وحی ہے اور رسول ص نے خود حکم دے کر اصحاب کا عقد متعہ کروایا۔
اور پھر اسلام میں خلع اور طلاق کی بھی اجازت ہے مگر رسول ص کی خاندگی زندگی کی صورت میں یہ دونوں چیزیں نہ ہوئیں تو کیا اسکا مطلب ہے کہ ان دونوں چیزوں کو بھی حرام قرار دے دیا جائے؟ اور پھر رسول اللہ ص نے کسی اہل کتاب عورت سے نکاح دائمی بھی نہیں کیا تو اسکی بنیاد پر کیا اسے بھی حرام قرار دے دیا جائے؟
اور رسول ص نے جو عقد متعہ نہیں کیا تو اسکی وجہ یہ ہے کہ رسول اللہ ص کی خود کئی ازواج موجود تھیں اور انہیں ضرورت نہ تھی کہ وہ انکی موجودگی میں عقد متعہ کرتے (دیکھئیے اوپر پہلی روایت جہاں نکاح دائمی والی بیوی کی موجودگی میں عقد متعہ کرنے کو امام علیہ السلام نے پسند نہ فرمایا)۔
 

مہوش علی

لائبریرین
علی ابن ابی طالب فرماتے ہیں:
"متعہ اللہ کی طرف سے اس کے بندوں پر رحمت ہے۔ اور اگر ایک شخص اپنی رائے سے اس سے منع نہ کر دیتے تو کوئی شخص بھی زنا نہ کرتا سوائے ایسے شخص کے جو بہت ہی شقی القلب ہوتا۔"
امام ابن حجر العسقلانی، فتح الباری، جلد 9، صفحہ 141

عقد المتعہ کا تعارف ختم ہوا۔ اب وہ اہم اگلی منزل کی طرف میں آپ کو لے جانا چاہتی ہوں کہ جس پر شاذ و نادر ہی سوچ و بچار کی جاتی ہے، حالانکہ یہ وہ چیز ہے جس سے کسی صورت فرار ممکن نہیں۔ آپ لوگ بہت ٹھنڈے دل و دماغ کے ساتھ ان گذارشات پر غور کریں۔

فطرت کے جنسی تقاضے اور قرآن کی گواہی

کہیں اور نہ جائیے، کسی کی اوٹ پٹانگ بات نہ سنیئے، بلکہ سیدھا سادھا قرآن کی گواہی دیکھیں کہ اللہ نے انسان کی فطرت میں جنسی خواہشات پورا کرنے کے جو تقاضے رکھے ہیں، انکی Intensity کیا ہے۔ ہم آج اپنے نوجوانوں سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ تیس سالوں تک (شادی ہونے تک) فرشتوں کی زندگی گذاریں۔ مگر یہ فطرت کے تقاضوں کے خلاف ہے۔ قرآن شاہد ہے کہ صحابہ کرام سے رمضان کے تیس دن بیویوں سے جدا رہنا ناممکن ہو گیا اور وہ رات کو چوری چھپے اپنی بیویوں سے ہمبستری کرنے لگے۔ اس پر اللہ تعالی نے انکے بشری فطری تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے آیت نازل فرمائی:


[البقرہ 2: 187] تمہارے لئے روزوں کی راتوں میں اپنی بیویوں کے پاس جانا حلال کر دیا گیا ہے، وہ تمہاری پوشاک ہیں اور تم ان کی پوشاک ہو، اﷲ کو معلوم ہے کہ تم اپنے حق میں خیانت کرتے تھے سو اس نے تمہارے حال پر رحم کیا اور تمہیں معاف فرما دیا، پس اب (روزوں کی راتوں میں بیشک) ان سے مباشرت کیا کرو


ذہین نشین رہے کہ یہ صحابہ کنوارے نہیں تھے بلکہ شادی شدہ تھے، مگر پھر بھی ان سے تیس راتوں تک خود کو برائی سے بچائے رکھنا ممکن نہ ہو سکا۔

کیا خالی روزے رکھ کر پاکستانی معاشرے کو فطرت کی جنسی خواہشات پورا کرنے سے روکا جا سکتا ہے؟

کچھ حضرات کا خیال ہے کہ اپنی نفس کی حفاظت کے لیے پاکستانی معاشرے میں روزے رکھوا کر لوگوں کو برائیوں سے رکوایا جائے۔
بلاشبہ روزے رکھنے سے نفس کی اصلاح ہوتی ہے، مگر افسوس کہ Mass Level پر کبھی بھی عوام کو آپ روزے رکھنے پر آمادہ نہیں کر سکیں گے۔ اور اگر زبردستی روزے رکھوا بھی دیے تب بھی گارنٹی نہیں کہ انسان اپنی فطرت کے ان جنسی تقاضوں پر پورا کنٹرول حاصل کر سکے۔ ایسی صورت میں جب روزے رکھنے کے باوجود ڈر ہو کہ گناہ سرزد ہو جائے گا، تو پھر اہل تشیع کے فقہ کے مطابق لازمی ہو جاتا ہے کہ نکاح کیا جائے یا عقد متعہ کیا جائے۔


جو حضرات پورا زور بس روزے رکھنے پر صرف کرتے ہیں اور جائز و حلال طریقےسے مرد و عورت کے ملاپ کروانے پر زور نہیں دیتے، ان حضرات کو غور کرنا چاہیے کہ یہ صحابہ کرام رمضان کے مہینے میں روزے کی حالت میں ہی تھے، مگر پھر بھی خیانت کے مرتکب ہوئے، اور اللہ تعالی کو انکا حال معلوم تھا اور اس پر اللہ نے ان پر رحم فرمایا اور رمضان کی راتوں میں ہمبستری کی چھوٹ دی۔
پس جب اسلامی جمہوریہ پاکستان کے جوانوں کی حالت کی بات آئے کہ جنہیں ہمارا معاشرہ شادی ہونے تک پچیس تیس سال کی عمر تک یونہی کنوارہ رکھتا ہے، اور انکے لیے جائز و حلال طریقےسے عورتوں سے ملاپ ممکن نہیں کرواتے اور انہیں روزے کی تھپکی دے کر 30 سال تک سلانے کی کوشش کرتے رہتے ہیں تو پھر وہ ان گناہوں میں مبتلا نہ ہوں تو اور کیا کریں۔

ہمارے موجودہ معاشرے کی "آج" کی حالت

پچھلے ادوار میں مسائل کم تھے لہذا بچوں کے جوان ہوتے ہی انکی شادیاں کر دی جاتی تھیں۔
مگر آج کے پاکستان میں ماڈرن زمانے کے مسائل ایسے ہیں کہ ایک لڑکے کی شادی کی اوسط عمر 30 سال ہے۔ جبکہ ہماری بچیوں کی شادی کی اوسط عمر 24 تا 25 سال تک پہنچنی والی ہے۔ اسوجہ سے آج کے "اسلامی جمہوریہ پاکستان" میں برائی کی حالت یہ ہے کہ:

  1. آج پاکستان میں کہا جاتا ہے کہ 95 فیصد لڑکے Masturbation کرتے ہیں جو کہ گناہ ہے۔ اور بقیہ 5 فیصد جو کہتے ہیں کہ وہ مشت زنی نہیں کرتے، اس میں سے اکثر جھوٹ بول رہے ہوتے ہیں۔ یہ ان سینکڑوں ہزاروں انت گنت لڑکوں کا بیان ہے جو معاشرے کی کہانی اپنی زبانی سنا رہے ہوتے ہیں۔[یہ اعداد و شمار www.Answering-ansar.org کے ویب سائیٹ سے لیے گئے ہیں۔ اگر یہ آپکی نظر میں غلط ہیں تو آپ اسے چیلنج کر سکتے ہیں اور صحیح اعداد و شمار پیش کر سکتے ہیں] ۔یاد رکھئیے، Masturbation اسلام میں حرام ہے اور جب اندیشہ ہو کہ ایسے گناہ میں انسان مبتلا ہو سکتا ہے تو اہل تشیع کی فقہ کے مطابق نکاح یا متعہ کر کے خود کو برائی سے بچانا واجب ہو جاتا ہے۔
  2. آج "اسلامی جمہوریہ پاکستان" کی ہر سڑک پر ویڈیو سنٹرز کھلے ہوئے ہیں جو کہ کھل کرفحش فلمیں کرائے پر دیتے ہیں۔
    پھر ہر شہر میں ایسے سینما موجود ہیں جو کہ کھل کر فحش ننگی فلمیں بڑی سکرین پر دکھاتے ہیں اور اس اجتماعی نظر بینی میں مصروف ہوتے ہیں "اسلامی جمہوریہ پاکستان کے ہزاروں فرزند جو کہ باجماعت بیٹھ کر یہ فحش فلمیں دیکھ رہے ہوتے ہیں۔
  3. بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق اسلامی جمہوریہ پاکستان سے انٹرنیت پر جانے والی پینتالیس 45 فیصد ٹریفک کا براہ راست رخ انٹرنیٹ پر موجود فحش سائٹوں کی طرف ہوتا ہے۔براہ مہربانی پوری خبر بی بی سی کی ویب سائیٹ پر پڑھیے
  4. 20060116130019net_usage_graphic.jpg
  5. اور آج اسلامی جمہوریہ پاکستان کی ہر سڑک پر آپ کو انٹرنیٹ کیفے بھی نظر آئیں گے۔ اور ان انٹرنیت کیفوں میں کیا ہوتا ہے، بس یہ نہ پوچھئیے اور اللہ کی پناہ طلب کریں۔
  6. یہ لعنت صرف اسلامی جمہوریہ پاکستان تک محدود نہیں، بلکہ پڑھئیے عرب ممالک میں بدکاری کیسے پھیلی ہوئی ہے۔
  7. اور پاکستان کے وہ علاقے کہ جہاں پر عورتوں کو بہت زیادہ پابندی ہے اور تو وہاں پر بھی یہ لعنت رک نہیں گئی، بلکہ پاکستان کے ان علاقوں میں اس سے بڑی لعنت ہم جنس پرستی کی صورت میں بڑے پیمانے پر ظاہر ہوئی ہے۔ قوم لوط کا یہ فعل تو عورتوں کے ساتھ زناکار سے بھی کہیں زیادہ قبیح ہے۔
  8. اسی طرح کی حالت اسلامی جمہوریہ پاکستان کے دینی مدارس کی ہے کہ جہاں پر حلال طریقے سے اس انسانی طلب کو پورا کرنے کی بجائے دوسری قسم کی پابندیاں لگائی جاتی ہیں، مگر نتیجے میں قوم لوط کا یہ فعل اور تیزی سے پھیلتا ہے۔ اور جب اس چیز کا رونا ایک وزیر نے میڈیا پر رویا تو مولانا فضل الرحمان صاحب الٹا اس وزیر پر غصے ہو گئے کہ میڈیا میں اس ایشو کو بیان کرنے کی کیا ضرورت ہے، بس خاموشی سے چپ رہو۔
    پڑھئے پہلی خبر:
    بچوں کے ساتھ جنسی تشدد پر ملزم مولویوں کے خلاف 500 مقدمات
    پڑھئیے دوسری خبر:
    مدارس میں جنسی تشدد کے مقدمات میڈیا کے سامنے پیش کرنے پر مولوی حضرات کا احتجاج
  9. اور قوم لوط کے اس فعل پر ہی اکتفا نہیں، اور یہ لعنت بڑھتے ہوئے چھوٹے چھوٹے بچے اور بچیوں تک کا شکار کرنے لگی۔یہ دیکھئیے ڈان اخبار کی ایک اور رپورٹ جہاں ایسے دینی مدرسے کا ذکر ہے جہاں چھوٹے بچوں تک کو اس معاملے میں بخشا نہیں گیا۔
جابر رضي اللہ تعالي عنہ بيان كرتےہيں كہ رسول كريم صلي اللہ عليہ وسلم نےفرمايا:
( مجھےاپني قوم سے جس چيز كاسب سے بڑا ڈر اورخدشہ ہے وہ قوم لوط كا عمل ہے ) جامع ترمذي حديث نمبر ( 1457 ) سنن ابن ماجہ ( 2563 ) علامہ الباني نےاس حديث كو صحيح الجامع ( 1552 ) ميں صحيح قرار ديا ہے.
اور آجکے حالات دیکھیں تو رسول اللہ ص کے یہ خدشات درست ثابت ہوتے نظر آتے ہیں۔

آجکے دور میں عقد متعہ
جیسا پہلے عرض کیا گیا تھا کہ پہلی افضلیت نکاح دائمی کو حاصل ہے۔ چنانچہ ہمارے مسلمان معاشرے میں ہر صورت نکاح دائمی کو آسان بنانے کی ضرورت ہے تاکہ اوپر بیان کردہ چیلنجز سے نپٹا جا سکے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ عقد متعہ کا کردار کہاں شروع ہوتا ہے؟

۔ آج کے اسلامی معاشروں میں عقد متعہ کی زیادہ ضرورت نہیں، مگر پھر بھی بہت سے لوگ معاشرے میں ایسے رہ جائیں گے جن کی استطاعت پھر بھی نہ ہو گی کہ وہ نکاح دائمی کر سکیں۔ پچھلے ادوار میں اہل تشیع فقہ کے مطابق پہلا افضلیت نکاح دائمی کی تھی، اور جو اس کی استطاعت نہ رکھے، وہ عقد متعہ کرے، اور جو اسکی استطاعت نہ رکھے وہ کسی دوسرے شخص کی کنیز عورت سے نکاح کرے (جو کہ بذات خود عارضی رشتہ ہے)، اور جو اسکی بھی استطاعت نہ رکھے تو کوئی چارہ نہیں کہ وہ روزے رکھ کر خود کر گناہ سے محفوظ رکھے، اور بہرحال کسی صورت کسی گناہ کرنے کی اجازت موجود نہیں ہے۔

۔ اور اسلام فقط آج کی صدی کے لیے نازل نہیں ہوا تھا۔ ذرا پرانے زمانے کا تصور کریں کہ جہاں ایک سوداگر جب تجارت کی غرض سے گھر چھوڑتا تھا تو ڈیڑھ ڈیڑھ دو دو برس کے بعد پھر گھر لوٹ پاتا تھا۔ کیا آپکا خیال ہے کہ وہ ان ڈیڑھ دو سالوں تک اپنے نفس کی حفاظت کر سکتا ہے اور اسکا ایمان کبار صحابہ سے بھی زیادہ ہے جو کہ رمضان کی تیس راتوں اور جہاد کے کچھ دنوں تک اپنی بیویوں سے جدائی برداشت نہ کرپائے اور انہیں ڈر ہوا کہ وہ گناہ کر بیٹھیں گے؟ (اوپر ایک کبیر صحابی عبداللہ ابن مسعود کی بخاری والی روایت نقل کی گئی تھی جہاں انہوں نے اورچند دیگر صحابہ نےجہاد کی دنوں میں اپنے عضو تناسل کاٹنے چاہے کیونکہ انہیں گناہ میں مبتلا ہونے کا ڈر تھا)۔
اب ان سوداگروں کے لیے یہ بھی ممکن نہیں کہ ہر شہر اور بستی جہاں وہ جا کر چار پانچ ہفتوں کے لیے ٹہریں وہاں پر ایک عدد نکاح دائمی کریں، اور پھر ان تمام تر بیویوں کو ساتھ لے کر آگے روانہ ہوتے رہیں۔ ذرا فطرت کے انسانی جنسی تقاضوں کی روشنی میں آپ اس مسئلے کا حل تجویز کریں۔

۔ اور اب آتے ہیں آج کے دور کی طرف۔ اسلامی معاشرہ ایک طرف، مگر آئیے دیکھتے ہیں کہ ان پاکستانی۔۔۔ بلکہ ان مسلمان طالبعلموں کی طرف جنہیں ہم نے یورپ پڑھائی کی غرض سے 4 یا 5 سال کے لیے آتے دیکھا۔ اسی میں آپ شامل کر لیں اُن نوجوانوں کو بھی جو پڑھے لکھے نہیں اور غیر قانونی طور پر وہ یورپ میں داخل ہوئے تاکہ یہاں پر روزگار کما سکیں۔
میں بات کو انتہائی مختصر کرتے ہوئے صرف یہ کہوں گی کہ انکی حرکتیں بیان کرنے کے قابل نہیں۔
اور میں سوچتی ہوں کہ قصور وار کون ہے؟ کیا والدین واقعی بے قصور ہیں جو سمجھنے ہیں کہ انہوں نے فرشتوں کو جنم دیا ہوا ہے جو یورپ جا کر 4 یا 5 یا 6 سال تک فرشتوں جیسی پاکیزہ زندگی بسر کرتے رہیں گے؟ کچھ Individual کیسز تو ہو سکتے ہیں جو ان برائیوں سے خود کو بچا کر رکھیں، مگر جب بات Mass Level کی آئے گی تو انہیں ان برائیوں سے روکا نہیں جا سکتا۔
اور وہ نوجوان جو غیر قانونی طور پر یورپ پیسہ کمانے آئے، انکی تو بات اور نہ کیجئے کہ انکی حالت تو طالبعلموں سے بھی کہیں خراب ہے۔ کبھی آپ کو انکے کارنامے سننے یا دیکھنے کو ملیں تو آپ بھی میری طرح انکی حال پر بہت مغموم ہوں گے۔
سعودی مفتی حضرات کو مسیار شادی کی حوصلہ افزائی کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟

سعودی مفتی حضرات کا اہل تشیع سے کوئی تعلق نہیں، بلکہ وہ اہل تشیع کے اچھے خاصے دشمن ہیں۔ تو کبھی آپ نے سوچا کہ سعودی مفتی حضرات کو پھر مسیار شادی کے حق میں فتوی دے کر اسکی حوصلہ افزائی کرنی کی ضرورت کیوں پیش آئی؟
بالکل صاف اور لگی لپٹی بغیر بات یہ ہے کہ یا تو آپ ان یورپ آنے والے نوجوانوں کو اس زناکاریوں میں مبتلا ہوتا دیکھتے رہیں اور پھر کبوتر کی طرح اپنی آنکھیں بند کیے بیٹھے رہیں۔ یا پھر سعودی مفتی حضرات کی طرح اسکا کوئی شرعی حل نکالنے کی کوشش کریں۔ (اور نکاح المتعہ کو تو سعودی مفتی حضرات حرام ٹہرا چکے، مگر انصاف کی بات کیجئے تو ناک کو آپ سیدھا پکڑ لیں یا پھر گردن کے پیچھے سے ہاتھ گھما کر پکڑیں، بات تو ایک ہی ہے)۔

بہرحال عقد المتعہ اور سعودی مفتی حضرات کی جانب سے رائج کردہ مسیار شادی میں پھر بھی بہت فرق ہے۔ آئیے ایک نظر اس سعودی مسیار شادی پر ڈالتے ہیں تاکہ آپ پر یہ فرق واضح ہو، نیز آپ کو اندازہ ہو کہ کس چیز نے ان سعودی مفتی حضرات کو مجبور کیا کہ وہ اس مسیار شادی کی حوصلہ افزائی کریں۔
مسیار: دھوکے کی شادی

اور آجکل جو عرب ممالک میں مسیار شادی کو فروغ دیا جا رہا ہے تو یہ ہرگز ہرگز عقد متعہ نہیں، بلکہ یہ دھوکے کی شادی ہے، جس میں لڑکی سے نکاح کرتے وقت اسے بتلایا جاتا ہے کہ مکمل دائمی نکاح کیا جا رہا ہے، مگر دل میں نیت کچھ عرصے بعد طلاق دینے کی ہوتی ہے۔ [فتوی از سعودی شیخ ابن باز کہ طلاق کی نیت دل میں رکھتے ہوئے نکاح کر نا جائز ہے]
سعودی شیخ ابن باز عقد مسیار کے متعلق لکھتے ہیں [فتوی کا لنک]:
[شیخ ابن باز صاحب سے سوال]: آپ نے ایک فتوی جاری کیا ہے کہ اس بات کی اجازت ہے کہ ویسٹرن [مغربی] ممالک میں اس نیت سے شادی کر لی جائے کہ کچھ عرصے کے بعد عورت کو طلاق دے دی جائے۔۔۔۔۔ تو پھر آپکے اس فتوے اور عقد متعہ میں کیا فرق ہوا؟
[شیخ ابن باز کا جواب]:
جی ہاں، یہ فتوی سعودیہ کی مفتی حضرات کی مستقل کونسل کی جانب سے جاری ہوا ہے اور میں اس کونسل کا سربراہ ہوں اور یہ ہمارا مشترکہ فتوی ہے کہ اس بات کی اجازت ہے کہ شادی کی جائے اور دل میں نیت ہو کہ کچھ عرصے کے بعد طلاق دینی ہے [ یعنی لڑکی کو دھوکے میں رکھنا جائز ہے اور اسے بتانے کی ضرورت نہیں کہ دل میں نیت تو کچھ عرصے بعد طلاق کی کر رکھی ہے]۔ اور یہ (طلاق کی نیت) معاملہ ہے اللہ اور اسکے بندے کے درمیان۔
اگر کوئی شخص (سٹوڈنٹ) مغربی ملک میں اس نیت سے شادی کرتا ہے کہ اپنی تعلیم مکمل ہونے کے بعد یا نوکری ملنے کے بعد لڑکی کو طلاق دے دے گا تو اس میں تمام علماء کے رائے کے مطابق ہرگز کوئی حرج نہیں ہے۔ نیت کا یہ معاملہ اللہ اور اسکے بندے کے درمیان ہے اور یہ نیت نکاح کی شرائط میں سے نہیں ہے۔
عقد متعہ اور مسیار میں فرق یہ ہے کہ عقد متعہ میں باقاعدہ ایک مقررہ وقت کے بعد طلاق کی شرط موجود ہے جیسے مہینے ، دو مہینے یا سال یا دو سال وغیرہ۔ عقد متعہ میں جب یہ مدت ختم ہو جاتی ہے تو خود بخود طلاق ہو جاتی ہے اور نکاح منسوخ ہو جاتا ہے، چنانچہ یہ شرط عقد متعہ کو حرام بناتی ہے۔ مگر اگر کوئی شخص اللہ اور اسکے رسول ص کی سنت کے مطابق نکاح کرتا ہے، چاہے وہ دل میں طلاق کی نیت ہی کیوں نہ رکھتا ہو کہ جب وہ مغربی ملک کو تعلیم کے بعد چھوڑے گا تو لڑکی کو طلاق دے دے گا، تو اس چیز میں کوئی مضائقہ نہیں، اور یہ ایک طریقہ ہے جس سے انسان اپنے آپ کو برائیوں سے محفوظ رکھ سکتا ہے اور زناکاری سے بچ سکتا ہے، اور یہ اہل علم کی رائے ہے۔


یہ تھا سعودی مفتی حضرات کا فتوی، اور دیکھا آپ نے کہ کس طرح مغربی ممالک میں زناکاری اور دیگر برائیوں سے بچنے کے لیے وہ مسیار شادی کی حوصلہ افزائی کرنے پر مجبور ہو رہے ہیں۔ افسوس کہ انہوں نے اگر سیدھا سادھا مولا علی علیہ السلام کے قول کو سمجھا ہوتا کہ عقد المتعہ اللہ کی طرف سے ہم پر وہ رحمت ہے کہ اگر اس سے منع نہ کر دیا جاتا تو صرف شقی القلب شخص ہی زناکاری کرتے۔


ہمارے پاکستان کے اہلسنت برادران سعودی مفتی حضرات کے اس فتوے کا انکار کرتے ہیں، مگر ہمارے اہلسنت برداران کو علم ہونا چاہیے کہ شیخ ابن باز اور سعودی مفتی حضرات کی اس مستقل کونسل کے اس فتوے سے قبل ہی یہ مسئلہ اہلسنت میں رائج ہے کہ طلاق کی نیت سے کیا گیا نکاح بالکل حلال ہے۔ فتاوی عالمگیری ہمارے اہلسنت بردارن کی فقہ کی مستند ترین کتب میں سے ہے اور ہر مدرسے میں پڑھائی جاتی ہے۔ اسکو کئی سو اہلسنت علماء نے مل کر بادشاہ اورنگزیب عالمگیر کے حکم پر لکھی تھی۔ اس میں درج ہے:


اور اگر نکاح مطلقا بلا قید مدت کیا لیکن اپنے دل میں کچھ نیت کر لی کہ اتنی مدت تک اسکو اپنے ساتھ رکھونگا تو نکاح صحیح ہو گا۔ یہ تبیین میں ہے۔ اور اگر اس سے نکاح کیا برینکہ بعد ایک ماہ کے اُسکو طلاق دے دونگا تو یہ جائز ہے۔
فتاوی عالمگیری جلد دوم، صفحہ 155، اس فتوے کا عکسی امیج دیکھیے
بلاشبہ یہ مسیار شادی سوائے غریب لڑکی کو دھوکے دینے کے علاوہ کچھ نہیں اور اسکا عقد متعہ سے کوئی تعلق نہیں، جہاں عورت اور مرد کو پہلے سے ہی ہر چیز کھل کر معلوم ہوتی ہے کہ حالات ایسے ہیں کہ وہ تاعمر ساتھ نہیں رہ سکتے اور اس لیے مقررہ مدت کی بعد طلاق خود بخود ہو جانی ہے اور دونوں اس بات پر جب متفق ہو جاتے ہیں تب ہی یہ عقد متعہ عمل میں آ سکتا ہے۔ اور اکثر یہ بھی ہوتا ہے کہ مغربی لڑکی اس دوران اسلام قبول کر لیتی ہے، تو اسی عقد متعہ کو نکاح دائمی میں تبدیل کر لیا جاتا ہے۔



اہم لنک: انڈونیشیا میں سعودی مردوں کا مسیار شادی کے رواج میں اضافہ اور سعودی مردوں کی مسیار دھوکہ دہی کی وجہ سے پریشانیاں

اب آخر میں آپ لوگوں سے گذارش ہے کہ آپ لوگ ذرا ٹھنڈے دل و دماغ سے اوپر پیش کی گئی گذارشات پر غور فرمائیے۔ یاد رکھئیے ان مسائل سے کوئی فرار نہیں۔ میرے پاس کہنے کو ابھی بہت کچھ باقی ہے اور یقینا آپ کے دلوں میں عقد المتعہ کے حوالے سے سوالات کا بھی کثیر ذخیرہ موجود ہو گا۔
تھوڑا سا بریک لیجئے۔ محرم الحرام کی بقیہ تاریخوں میں شاید مجھے وقت نہ مل سکے کہ اس موضوع یا اس محفل میں شرکت کر سکوں۔ اس لیے شاید عاشورہ محرم کے بعد ملاقات ہو گی۔ انشاء اللہ۔
 

مہوش علی

لائبریرین
لو جی مجھے تو اتنا پتا ہے کہ ایران میں‌ ایسے ہی "نکاح" (اللہ کریم مجھے معاف کرے) کے مضمرات کے بارے میں ایک خبر پڑھی تھی ۔۔۔۔۔

مجھے محسوس ہو رہا ہے کہ میں یہاں تھوڑی وضاحت کر دوں تاکہ یہ غلط فہمی دور ہو۔

1۔ عقد متعہ میں نکاح والی تمام تر شرائط موجود ہیں، سوائے مقررہ وقت پر طلاق ہو جانے کے، جیسا کہ اوپر تمام دلائل پیش کیے گئے ہیں۔

2۔ عقد متعہ کو اوائل اسلام میں "نکاح المتعہ" کے نام سے جانا جاتا تھا۔ بذات خود صحابہ و صحابیات اسے "نکاح المتعہ" کے نام سے جانتے تھے۔

3۔ امام مسلم نے متعہ پر جو باب باندھا ہے، اسکا عنوان میں ہی اسے "نکاح المتعہ" کے نام سے متعارف کروایا ہے۔

4۔ تفاسیر القرآن (قرطبی، طبری، ابن کثیر) کسی کو آپ کھول کر پڑھ لیں، ہر جگہ آپ کو یہ مفسرین "نکاح المتعہ" استعمال کرتے نظر آئیں گے (بنا اللہ سے کسی توبہ طلب کرتے ہوئے)
مثلا تفسیر طبری:
7180 - حدثني محمد بن عمرو , قال : ثنا أبو عاصم , عن عيسى , عن ابن أبي نجيح , عن مجاهد : { فما استمتعتم به منهن } قال : يعني نكاح المتعة.

اور یہ روایت:
امام عبدالرزاق اور ابن منذر نے حضرت عطاء کے واسطہ سے حضرت ابن عباس رضہ اللہ عنہما سے روایت نقل کی ہے کہ اللہ تعالی فلاں فلاں رضی اللہ عنہ پر رحم فرمائے نکاح متعہ اللہ تعالی کی رحمت تھی جو اس نے امت محمد پر کی۔ اگر فلاں فلاں اس سے منع نہ کرتے تو بدبخت (شقی القلب) ہی زنا کرتا۔ کہا یہ سورۃ النساء میں مذکور ہے "فما استمتعتم بہ منھن" اتنی مدت کے لئے اور یہ معاوضہ ہو گا جب کہ انکے درمیان وراثت نہ ہو گی۔ اگر مدت مقررہ کے بعد بھی راضی ہوں تو بھی ٹھیک ہے۔ اگر جدا ہونے پر راضی ہوں تو بھی ٹھیک ہے جب کہ ان دونوں کے درمیان کوئی نکاح نہیں ہو گا۔ انہوں نے یہ خبر بھی دی کہ انہوں نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کو کہتے ہوئے سنا کہ وہ اب بھی اس کو حلال سمجھتے ہیں [مصنف عبدالرزاق، جلد 7، صفحہ 497، روایت 14021، گجرات ہند]

اور امام مسلم نے یہ روایت نقل کی ہے:
صحیح مسلم [آنلائن لنک]
حدثنا ‏ ‏محمد بن عبد الله بن نمير الهمداني ‏ ‏حدثنا ‏ ‏أبي ‏ ‏ووكيع ‏ ‏وابن بشر ‏ ‏عن ‏ ‏إسمعيل ‏ ‏عن ‏ ‏قيس ‏ ‏قال سمعت ‏ ‏عبد الله ‏ ‏يقولا ‏
‏كنا ‏ ‏نغزو مع رسول الله ‏ ‏صلى الله عليه وسلم ‏ ‏ليس لنا نساء فقلنا ألا ‏ ‏نستخصي ‏ ‏فنهانا عن ذلك ثم رخص لنا أن ننكح المرأة ‏ ‏بالثوب ‏ ‏إلى أجل ثم قرأ ‏ ‏عبد الله ‏

5۔ اور اہم بات یہ کہ خیبر والی جو روایت متعہ کو حرام قرار دے رہی ہے، وہ اتفاقا بذات خود اسکے لیے "نکاح المتعہ" کے الفاظ استعمال کر رہی ہے۔
صحیح مسلم آنلائن لنک:
أن النبي ‏ ‏صلى الله عليه وسلم ‏ ‏نهى عن ‏ ‏نكاح المتعة ‏ ‏يوم ‏ ‏خيبر ‏ ‏وعن لحوم الحمر الأهلية ‏


اختلاف رائے اپنی جگہ، مگر امید ہے کہ آپ ان گذارشات پر غور فرمائیں گے اور اگر ہم اسے نکاح کی شکل مانتے ہیں تو آپ ہمیں اسکا حق دیں گے۔ والسلام۔
 

میر انیس

لائبریرین
مہوش بہن آپ نے تفصیل سے ایک ایک بات واضع کردی ہے اور جیسا آپ نے کہا کہ ابھی آپ اور اس بارے میں لکھیں گی تو موضوع تشنہ نہیں رہے گا ۔ آپ نے آج کل کے معاشرے کا جو منظر کھیچا ہے اس میں میں ایک چیز کا اضافہ اور کرنا چاہتا ہوں جو برائی اتنی تیزی سے پھیل گئی ہے کہ لوگ اب اسکو برائی ہی نہیں سمجھتے اور وہ ہے منگنی کہ بعد لڑکا اور لڑکی کا آپس میں ملنا۔ آج سے بیس سے تیس سال پہلے تک لڑکی اپنے منگیتر سے ملتے ہوئے بہت ڈرتی تھی اور ماں باپ سے چھپ کر پروگرام رکھا جاتا تھا مگر آج جکل کے دور میں تو جیسے منگنی نہیں ہوئی بلکہ نکاح ہوگیا۔ خود ماں باپ لڑکی کو اپنے منگیتر کے ساتھ گھومنے پھرنے کی اجازت دیتے ہیں جبکہ منگنی کہ بعد شرعی طور پر کوئی پابندی ہٹتی نہیں ہے یہاں تک کے ایک ساتھ گھر سے باہر نکلنا چہرے کو دیکھنا بالوں اور ہاتھ پر نظر پڑنا تک حرام ہی رہتا ہے چہ جائیکہ بوس و کنار کرنا۔ محفل کا میرا کونسا دوست اس بات سے اختلاف کرےگا کہ منگنی کہ بعد آج کل کے معاشرے میں لڑکا اور لڑکی کو بالکل اکیلے بیٹھنے کی اور بات کرنے کی اجازت نہیں دی جاتی ۔ جبکہ مولا علی (ع) کا قول ہے کہ جب ایک نا محرم لڑکا اور لڑکی بالکل اکیلے ہوتے ہیں تو انکے درمیان شیطان موجود ہوتا ہے۔ ہمارے اہلِ سنت بھائی بہت حقارت سے متعہ کو حرام قرار دے دیتے ہیں پر اگر ٹھنڈے دل سے سوچیں کہ اگر یہ دونوں افراد جنکی منگنی ہوچکی ہو انکے ماں باپ انکا شادی ہونے تک اگر متعہ کرادیں تو وہ گناہ جو نظر کرنے اور ایک ساتھ بیٹھنے سے بھی ہوسکتے ہیں ان سے تو بچا جاسکتا ہے نا۔ میں بھی محرم کے ابتدائی ایام میں بہت مصروف ہونگا اسلئے اب بات عاشورہ کے بعد ہی ہوگی انشاللہ
 
ش

شوکت کریم

مہمان
میرے خیال میں‌ جس چیز کو معاشرے میں قبول عام حاصل نہ ہو اور نہ ہی جسے فطرت سلیم تسلیم کرتی ہو وہ دین فطرت کا حصہ نہیں ہو سکی۔
کوئی باپ ایسا ہے جو اپنی بیٹی کو وقتی نکاح میں‌ دے گا ؟
کوٕی بھائی ایسا ہے جو اپنی بہن کو وقتی نکاح میں‌دے گا ؟

اور پھر اس کے نتیجے میں‌پیدا ہونے والے بچے کہاں ہیں ؟

چودہ سو سال ہوئے متعہ ہو رہا ہے ذرا معاشرہ قدیم اور معاشرہ جدید سے چند ایسے مشہور یا عام نام تو دیجئے کہ جو اس 'نکاح' کے نتیجے میں‌پیدا ہوئے اور معاشرے نے انہیں‌نہ صرف تسلیم کیا ہو بلکہ با عزت مقام بھی دیا ہو ؟؟؟
 
ہر علمی گفتگو کے کچھ تقاضے ہوتے ہیں اور یہ تقاضے ان مباحث میں اور بھی زیادہ بڑھ جاتے ہیں جو علمی ہونے کے ساتھ ساتھ بنیادی طور پر تحقیقی بھی ہوں اور ان ہی تقاضوں میں ایک اہم تقاضہ یہ بھی ہے کہ جب کوئی تعریف بیان کی جائے، کوئی بات نقل کی جائے، یا کوئی چیز بطور ثبوت پیش کی جائے تو اس کا مکمل حوالہ درج کیا جائے۔
مہوش نے متعہ کے بارے میں اہل تشیع کے نکتہ نظر سے اوپر جو مواد پیش کیا ہے وہ حوالوں سے خالی ہے۔ یا تو حوالے نامکمل ہیں یعنی خالی کتاب کا نام لکھ دیا گیا ہے یا اس شخص کا جو راوی ہے یا سرے سے حوالہ ہی ندارد ہے جیسا کہ انہوں نے متعہ کے بارے میں جو شرائط یا متعہ کی جو تفصیلات پیش کی ہیں تو اہل تشیع کی کتب کے مکمل حوالے مجھے کہیں نظر نہیں آئے۔
متعہ کی تعریف ، فضائل ،عرصہ عدت و دیگر شرائط کیا مہوش اپنی کتب سے باحوالہ پیش کرنا پسند کریں گئی؟؟؟؟
 
اور اسلام فقط آج کی صدی کے لیے نازل نہیں ہوا تھا۔ ذرا پرانے زمانے کا تصور کریں کہ جہاں ایک سوداگر جب تجارت کی غرض سے گھر چھوڑتا تھا تو ڈیڑھ ڈیڑھ دو دو برس کے بعد پھر گھر لوٹ پاتا تھا۔ کیا آپکا خیال ہے کہ وہ ان ڈیڑھ دو سالوں تک اپنے نفس کی حفاظت کر سکتا ہے اور اسکا ایمان کبار صحابہ سے بھی زیادہ ہے جو کہ رمضان کی تیس راتوں اور جہاد کے کچھ دنوں تک اپنی بیویوں سے جدائی برداشت نہ کرپائے اور انہیں ڈر ہوا کہ وہ گناہ کر بیٹھیں گے؟ اب ان سوداگروں کے لیے یہ بھی ممکن نہیں کہ ہر شہر اور بستی جہاں وہ جا کر چار پانچ ہفتوں کے لیے ٹہریں وہاں پر ایک عدد نکاح دائمی کریں، اور پھر ان تمام تر بیویوں کو ساتھ لے کر آگے روانہ ہوتے رہیں۔ ذرا فطرت کے انسانی جنسی تقاضوں کی روشنی میں آپ اس مسئلے کا حل تجویز کریں۔
نہایت ادب سے گذارش ہے کہ اس مسئلے کا اگر یہی حل ہے جو آپ بیان کر رہی ہیں تو براہِ کرم اس بات کا بھی جواب دیجئے کہ اس سوداگر کی بیوی جو جو اپنے گھر میں رہ رہی ہے، سوداگر کی اس غیر موجودگی میں اسکو کیا کرنا چائیے؟؟؟ متعہ ؟؟؟؟؟؟؟؟اسکے مسئلے کا بھی کوئی حل ہے کہ نہیں؟؟؟؟؟
 
سلام علیکم،

عورتوں کے بارے میں ملا کا کس بات پر اجماع ہے اور قرآن حکیم کیا اصول بیان کرتا ہے یہ دونوں بہت ہی مختلف چیزیں ہے۔ میں ملا کی کتب کی وجہ سے ملا گروہ پر یہ الزام رکھتا ہوں کہ عورتوں کے معاملے میں انہائی بے ایمان ، فتنہ پرور اور اپنی اور اپنے بادشاہ کی خواہشات کی پیروی کرنے والا گروہ ہے۔

رسول اکرم کی زبان سے ادا ہوئے، اللہ تعالی کے فرمان، قرآن حکیم میں منکوحہ بیوی کے علاوہ کسی بھی عورت سے جسمانی تعلقات رکھنے کی اجازت نہیں دی ۔ کنیزوں سے بھی ایسا وقتی فائیدہ اٹھانے کی اجازت نہیں دی۔ مزید یہ کہ ساتھ ساتھ ایسے حکیمانہ احکام بھی فراہم کیے کہ ان ارزل رسموں کا خاتمہ ہوجائے جو اس وقت کے معاشرے میں عام تھیں۔ لونڈی کے ساتھ کسی قسم کا جسمانی عارضی فائیدہ یعنی "متع " اٹھانے کا حکم اللہ تعالی کی کتاب میں مذکور نہیں ہے۔ ملا کی اس مصلحت آمیز برائی کا خاتمہ لازم تھا، جو یقیناً ہو چکا ہے۔ اس کو دوبارہ حلال کرنے کی ہر کوشش بے کار ہے۔

مسلم معاشرہ تیزی سے اس طرف گامزن ہے جہاں نکاح‌ یعنی شادی کے ذریعے بیوی بنانے اور ضرورت کے تحت طلاق دے دینے پر کوئی پابندی نہیں ہے۔ کوئی کسی کو نہیں‌روکتا اگر وہ طلاق دینا چاہے تو پھر پہلے سے طے شدہ وقت پر طلاق کا جواز کیا رہ جاتا ہے؟

ایسے سابقہ ملاؤں کے اجماع کو امت کا اجماع قرار دینے سے بہتر ہے کہ قرآن حکیم کا بہترین مطالعہ کرکے قرآن حکیم کے مطابق نکاح اور اس کے ہی مطابق طلاق کو مشیت الہی مانئے ، اور اللہ تعالی کا شکر ادا کیجئے۔ کسی قسم کا متع یعنی ایک عورت سے بناء اپنی ذمہ داریوں‌کو پورا کئے وقتی جسمانی فائیدہ اٹھانا ایک گناہ عظیم ہے اور ایک محترم خاتون کی تذلیل ہے۔ اپنے نمائندوں کو لکھئے کہ متع کو زنا کا درجہ دیا جائے اور اس پر تعزیرات پاکستان کی رو سے سزا دی جائے۔

والسلام
 

ابوعثمان

محفلین
اَلْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ العٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃ ُوَالسَّلَامُ عَلٰی سَیِّدِالْمُرْسَلِیْنَo​
اَمَّابَعْدُفَاَعُوْذُبِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْم ِ ط بِسْم ِاللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ ط​
فاروق اعظم رضی اللہ عنہ اور تحریمِ متعہ
علامہ مولانا غلام رسول سعیدی
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی عبقری شخصیت اسلام کی تاریخ میں ایک زریں باب کی حیثیت رکھتی ہے۔ آپ کا دور خلافت،حکومت کی وسعت،عدل و انصاف کی فراوانی،عوام کی خوشحالی اور اسلامی فنون کی ترویج و ترقی کا دور تھا۔کفار اور مشرکین کے ایوانوں پر حضرت عمر کی ہیبت اور دشت و جبل پر ان کی حکومت تھی،ان کے رعب سے حکام لرزہ براندام تھے اور صحرا اوردریا کو بھی حکم عدولی کی جرات نہ تھی
-------------------------------------------------------------​
فاروقِ اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے محاسن و کمالات جتنے زیادہ ہیں،اسی قدر حاسدین کی بھی کثرت ہے۔حضرات امامیہ یوں تو تمام صحابہ سے عداوت رکھتے ہیں لیکن جناب فاروق اعظم سے ان کو جس قدر بغض و حسد ہے اس کا بیان اندازہ سے باہر ہے۔ حضرت عمر کی وہ تمام خدمات جن سے عمارت اسلام کو استحکام ملا انہیں مجموعہ عیوب نظر آتی ہیں۔
حضرت عمر کی ذات گرامی پر ایک اعتراض یہ بھی کیا جاتا ہے کہ انہوں نے اسلامی احکام کے علی الرغم محض اپنے رائے سے متعہ کو حرام کردیا اور ان کی ڈکٹیٹر شپ کے سامنے کسی کو دَم مارنے کی جرأت نہ ہوئی۔حتٰی کہ حضرت علی بھی تقیہ کا سہارا لے کر خاموش ہوگئے۔ عقل و خرد دم بخود رہ جاتی ہے کہ حضرت علی کو جان اتنی پیاری تھی کہ ان کے سامنے بروایت شیعہ حضرت سیدہ کی بے عزتی کی گئی اور وہ خاموش دیکھتے رہے۔کلام اللہ میں تحریف کردی گئی اور ان کے لب نہ ہلے۔شریعتِ مصطفوی میں عمر کی رائے سے ترمیم ہوتی رہی اور علی ساکت و جامد رہے،عزت و آبرو کے تحفظ اور ناموس ملت کے لئے اگر جان نہ دی جاسکے تو پھر اس جان کا اور کیا مصرف ہے؟
تقیہ کے موضوع پر اظہار ِ خیال سردست ہمارا موضوع نہیں ہے۔ عنوان گفتگو اس وقت یہ ہے کہ حضرت عمر کے دامنِ کو تنفیذِ حرمت متعہ کے سبب ترمیم دین اور تحریف شریعت کے غلط الزام سے پاک و صاف کیا جائے،بلکہ ان آنکھوں کے لئے دلائل کی بصیرت مہیا کی جائے جنہیں اس دامن کی پاکیزگی نظر نہیں آتی۔
متعہ کی تعریف اور اس کے احکام
متعہ اس عقد کو کہتے ہیں جس میں مقررہ معاوضہ سے معینہ مدت کے لئے کسی عورت کو قضاء شہوت کے لیے حاصل کیا جاتا ہے۔ اس عقد کے لیے نہ گواہوں کی ضرورت ہے نہ ممنوعہ عورتوں کے لیے تعداد کی کوئی قید ہے۔ نہ نفقہ،نہ سکنٰی،نہ نسب، نہ میراث۔ ایلاء،ظہار، طلاق اور عدت،متعہ اس سب سے آزاد ہے۔ جہاں فریقین راضی ہوئے،مدت اور اجرت طے ہوئی وہیں جنسی تسکین کا عمل شروع ہوگیا
رواجِ متعہ اور حضرت عمر
متعہ زمانہ جہالت کی قبیح رسموں میں سے ایک رسم تھی۔ اسلام نے جس طرح تدریجی عمل کے ذریعہ دوسری برائیوں کو رفتہ رفتہ ختم کیا،اسی طرح متعہ کو بھی فتح مکہ کے بعد حرام کر دیا اور کتاب و سنت میں اس کی حرمت کے دلائل پوری وضاحت سے ساتھ موجود ہیں۔
حضرت عمر نے جس طرح شریعت کے دوسرے قوانین پر سختی سے عمل کرایا،شراب و زنا پر حدود جاری کیں،چوروں کے ہاتھ کاٹے،جھوٹے گواہوں کو سزائیں دیں،اسی طرح آپ نے پوری شدت و تندہی سے حرمت متعہ کی بھی تبلیغ اور تنفیذ کی۔ جو لوگ بے علمی اور غفلت کی بناء پر متعہ کرتے رہتے تھے انہیں سخت الفاظ سے تنبیہ اور تہدید کی۔جس طرح حضرت ابوبکر نے زکوٰۃ نہ دینے والوں کو للکارا اور سختی سے ان کا محاسبہ کیا تو اس کا یہ مطلب ہرگز نہ تھا کہ وہ زکوٰۃ کے شارع ہیں،اسی طرح حضرت عمر نے متعہ کرنے والوں کو بروقت ٹوکا اور اپنے دور ِ خلافت میں حدودِ الٰہی کی حرمت کو پامال نہیں ہونے دیا۔پس حضرت عمر بھی حضرت ابوبکر کی طرح شارع نہیں مبلغ تھے۔
شریعت اسلامیہ نے متعہ کو قطعی طور پر قیامت تک کے لیے حرام کردیا ہے۔ ہم اس کے ثبوت میں قرآن کی آیات اور احادیث صحیحہ رقم کریں گے اور امامیہ کی طمانیت کی خاطر ان کی صحاح سے بھی شواہد لائیں گے اور اخیر میں امامیہ کے معرکۃ الآراء دلائل و براہین پر نقد و نظر کریں گے ۔ فنقل و باللہ التوفیق۔
حرمتِ متعہ کتاب اللہ سے
اللہ عزوجل فرماتا ہے:
فَانكِحُواْ مَا طَابَ لَكُم مِّنَ النِّسَاءِ مَثْنَى وَثُلاَثَ وَرُبَاعَ فَإِنْ خِفْتُمْ أَلاَّ تَعْدِلُواْ فَوَاحِدَةً أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ
"جو عورتیں تم کو پسند ہیں ان سے نکاح کرو،دو دو سے، تین تین سے اور چار چار سے اور اگر تمہیں ان کے درمیان نا انصافی کا خدشہ ہو تو صرف ایک سے نکاح کرو یا اپنی کنیزوں پر اکتفا کرو۔" (النساء :3)
یہ آیت سورہ نساء سے لی گئی ہے جو مدنی ہے اور ہجرت کے بعد نازل ہوئی ہے، اس آیت میں اللہ تعالی نے اہلِ استطاعت سے خطاب فرمایا اور ان کے لیے قضاء شہوت کی جائز صورتیں بیان فرمادیں کہ وہ ایک سے چار تک نکاح کرسکتے ہیں اور اگر ان میں عدل قائم نہ رکھ سکیں تو پھر اپنی کنیزوں اور باندیوں سے نفع اندوزی کرسکتے ہیں اور بس۔ اگر متعہ بھی قضاء شہوت کی جائز صورت ہوتا تو اللہ تعالی اس کا بھی ان صورتوں کے ساتھ ذکر فرمادیتا اور اس جگہ متعہ کا بیان نہ کرنا ہی اس بات کا بیان ہے کہ وہ جائز نہیں ہے اور اس طرح اوائل اسلام سے لے کر فتح مکہ تک متعہ کی جو شکل معمول اور مباح تھی،اس آیت کے ذریعہ اس کو حرام کردیا گیا۔
امامیہ حضرات کو اگر شبہ لاحق ہو کہ اس آیت میں لفظ نکاح متعہ کو بھی شامل ہے۔ لٰہذا نکاح کے ساتھ متعہ کا جواز بھی ثابت ہوگیا تو اس کے ازالہ کے لیے گزارش ہے کہ اس آیت میں بتا دیا گیا ہے کہ نکاح کی حد صرف عورتوں تک ہے اور متعہ میں عورتوں کی تعداد کے لیے کوئی قید نہیں ہے۔پس جب یہ متضاد حقیقتیں ہیں تو ظاہر ہے کہ ایک لفظ سے ان دونوں کا ارادہ نہیں کیا جاسکتا۔ورنہ اجتماعِ ضدین لازم آئے گا اور اللہ تعالی کا کلام اس قسم کی خرافات کا محل بننے سے بلند و برتر ہے۔
اس کی مزید تفصیل یہ ہے کہ نکاح اور متعہ دو الگ الگ حقیقتیں ہیں۔ نکاح میں متعہ دائمی ہوتا ہے متعہ عارضی،نکاح میں منکوحات کی تعداد محدود ہے اور متعہ میں ممنوعات کی تعداد کی کوئی حد نہیں،نکاح میں نفقہ،سکنٰی،نسب اور میراث لازم ہوتے ہیں اور ایلاء،ظہار ،لعان،طلاق اور عدت عارض ہوتے ہیں اور متعہ میں نہ ان میں سے کوئی لازم ہوتا ہے اور نہ عارض۔پس نکاح اور متعہ سے عام ہوتا تو اس کا متعہ شامل ہونا معقول ہوتا۔ لیکن جب نکاح اور متعہ دو متضاد حقیقتیں ہیں تو ایک ضد کا دوسری ضد کو شامل ہونا قطعاً غیر ،متصور اور سراسر غیر معقول ہے۔
بعض امامیہ حضرات کہہ دیتے ہیں کہ نکاح کی دو قسمیں ہیں۔دائمی اور عارضی۔ دائمی نکاح معروف ہے اور عارضی نکاح متعہ ہے اور مطلق نکاح دونوں کو شامل ہے،جواباً عرض ہے کہ نکاح کی یہ تقسیم امامیہ حضرات کی محض طبع زاد اور خانہ ساز ہے۔ قرآن کریم نے سے عقد کو نکاح قرار دیا ہے اس میں تعداد منکوحات کی ایک حد ہے اور اسے نفقہ،سکنٰی،نسب اور میراث لازم ہے۔ اس کے علاوہ کسی اور عقد پر قرآن نے نکاح کا اطلاق نہیں کیا۔ اس لیے نکاح عارضی محض ایجاد بندہ اور اختراع ہے۔ ایک بے دلیل دعویٰ اور سراسر مخالف قرآن تصور ہے۔
سورہ نساء کی ایک اور آیت ملاحظہ فرمائیے۔
وَمَن لَّمْ يَسْتَطِعْ مِنكُمْ طَوْلاً أَن يَنكِحَ الْمُحْصَنَاتِ الْمُؤْمِنَاتِ فَمِن مِّا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُم مِّن فَتَيَاتِكُمُ الْمُؤْمِنَات (الی ان قال) ذَلِكَ لِمَنْ خَشِيَ الْعَنَتَ مِنْكُمْ وَأَن تَصْبِرُواْ خَيْرٌ لَّكُمْ (النساء :25)
"اور جو شخص تم میں سے آزاد مسلمان عورتوں سے نکاح کی استطاعت نہ رکھتا ہو تو مسلمان کنیزوںسے نکاح کر لے اور یہ حکم اس شخص کے لیے ہے جو (غلبہ شہوت سے) اپنے نفس پر زنا کا خوف رکھتا ہو اور صبر کرنا تمھارے لیے بہتر ہے۔"
غور فرمائیے! اس آیت میں غلبہ شہوت رکھنے والے نادار شخص کے لیے صرف دو طریقے تجویز کیے گئے ہیں۔ ایک یہ کہ وہ باندیوں سے نکاح کرے،دوسرا یہ کہ وہ ضبط نفس کرے اور تجرد کی زندگی گزارے۔ اگر متعہ بھی مشروع ہوتا تو کنیزوں سے نکاح کی طاقت نہ رکھنے کی شکل میں اسے متعہ کی ہدایت دی جاتی،لیکن ایسا نہیں کیا گیا۔پس معلوم ہو کہ کوئی شخص متعہ نہیں کرسکتا،اسے نکاح ہی کرنا پڑے گا خواہ باندیوں سے کرے اور اگر ان سے بھی نکاح کی طاقت نہیں رکھتا تو پھر اسے صبر کرنا پڑے گا۔متعہ کے لیے کوئی سبیل جواز نہیں ہے۔
سورہ نور مدنی سورت ہے،اس کی ایک آیت ملاحظہ فرمائیے۔
وَلْيَسْتَعْفِفِ الَّذِينَ لَا يَجِدُونَ نِكَاحًا حَتَّى يُغْنِيَهُمُ اللَّهُ مِن فَضْلِهِ
"اور جو لوگ نکاح کی طاقت نہیں رکھتے ان پر لازم ہے کہ وہ ضبط نفس کریں یہاں تک کہ اللہ تعالی انہیں اپنے فضل سے غنی کردے۔" (النور :33)
اس آیت کریمہ میں اللہ تعالی نے غیر مبہم الفاظ میں دو ٹوک فیصلہ فرمادیا ہے کہ اگر نکاح نہیں کرسکتے تو ضبط نفس کرو۔ اب جواز متعہ کی کوئی وجہ نہیں رہی،ورنہ استطاعت نکاح نہ ہونے کی صورت میں متعہ کی اجازت دے دی جاتی اور جبکہ اجازت نکاح کی جگہ جبط نفس کا حکم دیا تو ظاہر ہوگیا کہ اسلام میں جواز متعہ کا کوئی تصور نہیں ہے۔
قرآن کریم کی ان تین آیتوں کی روشنی میں حرمت متعہ کی وضاحت کے بعد ایک مصنف مزاج شخص کے لیے اس حقیقت کو قبول کرنے میں کوئی عذر نہیں ہونا چاہئیے کہ حضرت فاروقِ اعظم نے حرمت متعہ کو قرآن کی ہدایت سے نافذ کیا تھا، اپنی رائے سے نہیں۔
حرمت متعہ صحاحِ اہل سنت سے
امام بخاری اپنی "صحیح" میں روایت فرماتے ہیں:
عن علی بن ابی طالب ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نھی عن متعۃ النساء یوم خیبر۔ (بخاری ج2 ص606)
حضرت علی سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح خیبر کے دن عورتوں کے ساتھ متعہ کرنے سے منع فرمادیا۔
غزوہ خیبر کے بعد فتح مکہ کے موقعہ پر تین دن کے لیے متعہ پھر مباح ہوا،اس کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے قیامت تک کے لیے متعہ کو منسوخ فرمادیا، چنانچہ امام مسلم اپنی "صحیح" میں روایت فرماتے ہیں:
عن ابی سلمۃ قال رخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عام او طاس فی المتعۃ ثلاثا ثم نھا عنھا و باسناد اخر قال یایھاالناس انی قد کنت اذنت لکم فی الاستمتاع من النساء وان اللہ قد حرم ذالک الی یوم القیامۃ (مسلم ج1 ص 451)
ابی سلمہ سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے موقعہ پر تین دن متعہ کرنے کی اجازت دی تھی،پھر اس سے منع فرمادیا اور دوسری روایت میں ہے: اے لوگو! میں نے تمھیں پہلے عورتوں سے متعہ کی اجازت دی تھی اور اب اللہ تعالی نے قیامت تک کے لیے اس کو ممنوع فرمادیا ہے۔
احادیث صحیحہ میں حرمت متعہ کی بکثرت روایات موجود ہیں، لیکن ہم نے طوالت کی وجہ سے ان دو حدیثوں پر اکتفاء کیا ہے۔ فہمِ مستقیم کے لیے ان میں ہدایت ہے کہ متعہ کے حرام کرنے والے حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اور عمر تو صرف اس حرمت کو نافذ کرنے والے ہیں۔
حرمتِ متعہ صحاح امامیہ سے
عن زید بن علی عن آبائہ علیھم السلام قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لحوم الحمر الاھلیۃ و نکاح المتعۃ۔ (الا ستبصار ج2 ص 77)
حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے پالتو گدھوں کو اور متعہ کو حرام فرمادیا ہے۔
"استبصار" کے علاوہ امامیہ کی دوسری کتب صحاح میں بھی حرمت متعہ کی روایات موجود ہیں۔ شیعہ حضرات ان کے جواب میں بے دھڑک کہہ دیتے ہیں کہ حضرت علی نے ایسی روایت تقیۃً بیان فرمائی ہیں اور جان کے خوف سے تقیۃً بیان فرمائی ہیں اور جان کے خوف سے تقیۃً جھوٹ بولنا عین دین ہے۔ کیونکہ "کافی کلینی" میں ہے:"من لا تقیۃ لہ لا دین لہ" جو ضرورت کے وقت تقیہ نہ کرے وہ بے دین ہے۔سوال یہ ہے کہ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ نے جب یزید کے خلاف آوازہ حق بلند کیا اور ہزار ہا مخالفوں کے سامنے تلواروں کے جھنکار اور تیر و تفنگ کی بوچھاڑ میں بیعت یزید سے انکار کیا تو کیا اس وقت امام حسین تعک تقیہ کی وجہ سے (معاذ اللہ) بے دین ہوگئے تھے؟ اور اگر ایسے شدید ابتلاء میں بھی تقیہ نہ کرنا ہی حق و صواب تھا تو حضرت علی کا بغیر کسی ابتلاء کے بے حساب روایات تقیۃً بیان کرنا کس طرح حق و ثواب ہوگا؟ کاش! امامیہ حضرات میں سے کوئی شخص اس نکتہ کو حل کرکے لاکھوں انسانوں کی ذہنی خلش کو دور کرسکے۔
حلّتِ متعہ پر امامیہ کے استدلال کا جواب
حضرات امامیہ نے جوازِ متعہ پر قرآن کی حسب ذیل آیت سے استدلال کیا ہے۔
جن بیویوں سے تم نے عمل زوجیت کرلیا ہے انہیں ان کا پورا مہر ادا کرو۔
امامیہ حضرات کہتے ہیں: اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ جن عورتوں سے تم نے متعہ کر لیا ہے ان کو اس کی اجرت ادا کرو اور یہ استدلال متعدد وجوہ سے باطل ہے۔ اوّلاً اس لیے کہ متعہ کی حقیقت یہ ہے کہ اس میں مدت متعین ہو اور اس آیت میں تعین مدت کا اصلاً ذکر نہیں ہے۔لٰہذا"استمتعتم" کا معنٰی متعہ کرنا صحیح نہیں ہے۔اصل میں یہ لفظ"استمتاع" سے ماخوذ ہے جس کا معنٰی ہے نفع حاصل کرنا اور فائدہ اٹھانا اور آیت کا صاف اور صریح مطلب یہی ہے کہ جن بیویوں سے تم عمل زوجیت کرکے جسمانی نفع حاصل کرلیا ہے، انہیں ان کا پورا مہر ادا کرو،ثانیاً اس آیت میں سے پہلے اور بعد کی آیات میں نکاح کا بیان اور اس کے احکام ذکر کیے گئے ہیں۔ اب درمیان میں اس آیت کو متعہ پر محمول کرنے سے نظم قرآن کا اختلال اور آیات کا غیر مربوط ہونا لازم آئے گا۔ثالثاً اس آیت سے متصل پہلی آیت میں فرمایا:"وَأُحِلَّ لَكُم مَّا وَرَاءَ ذَلِكُمْ أَن تَبْتَغُواْ بِأَمْوَالِكُم مُّحْصِنِينَ غَيْرَ مُسَافِحِينَ "(النساء 24) یعنی محرمات کے سوا باقی عورتیں تمھارے نکاح کے لیے حلال کردی گئی ہیں،تم مہر دے کر اس سے فائدہ اٹھاؤ بشرطیکہ تم انہیں حصن بناؤ اور سفاح نہ کرو۔ حصن کا معنٰی ہے:قلعہ، یعنی عورت سے نفع اندوزی تب حلال ہے جب وہ تمہارے نطفہ کی حفاظت کے لیے قلعہ بن جائے اور متعہ سے عورت قلعہ نہیں بنتی، ہر ہفتہ دوسرے کے پہلو میں ہوتی ہے،اسی وجہ سے متعہ سے نسب محفوظ نہیں رہتا،اب اگر"فما استمتعتم" کا معنٰی متعہ کرلیا جائے تو قرآن کریم کی دو متصل آیتوں میں کھلا تصادم لازم آئے گا کہ پہلی آیت سے متعہ حرام ہوا اور دوسری آیت سے حلال اور قرآن کریم اس تضاد کا متحمل نہیں ہے۔ رابعاًسفاح کا معنٰی ہے: محض قضاء شہوت اور نطفہ گرادینا اور مطلب یہ ہے کہ عورت سے نفع اندوزی حلال ہے، بشرطیکہ تمہارا مقصد محض قضاء شہوت اور جنسی تسکین نہ ہو بلکہ اولاد کو طلب کرنا مقصود ہو اور ظاہر ہے کہ متعہ سوائے قضاء شہوت اور جنسی تسکین کے اور کچھ مقصود نہیں ہوتا۔ پس متعہ جائز نہ رہا اور جب اس آیت سے متعہ حرام ہوا تو اس سے اگلی آیت میں حلّت متعہ کا معنی کرنا باطل ہوگا۔
"اِلٰی اَجَلٍ مسمَّی" کی قرأت کا جواب
امامیہ حضرات کہتے ہیں کہ بعض روایات میں مذکور ہے کہ بعض قرأت میں "فما استمتعتم بہ منھن" کے بعد" الی اجل مسمی" بھی پڑھا گیا ہے، اب معنٰی یوں ہوگا: جن عورتوں سے تم نے مدت معینہ تک فائدہ اٹھایا ان کو اجرت دے دو یہ بعینہ متعہ ہے کیونکہ اب آیت میں مدت اور اجرت دونوں کاذکر آگیا اور یہی متعہ کے ارکان ہیں،یہ ٹھیک ہے کہ یہ روایت خبر واحد ہے اور اس روایت سے یہ الفاظ قرآن کا جزو نہیں بن سکتا۔ لیکن متعہ ثابت کرنے کے لیے اس قدر کافی ہے کہ بعض قرأت میں "الی اجل مسمی" کے الفاظ موجود ہیں۔
اس استدلال کے جواب میں اوّلاً معروض ہے کہ "الی اجل مسمی" سے استدلال تب ہوگا جب اسے "فما استمتعتم بہ" کے ساتھ لاحق کرکے قرآن کا جُزو مانا جائے اور شیعہ حضرات کو بھی یہ تسلیم ہے کہ بغیر تواتر کے محض خبر واحد سے کوئی لفظ قرآن کا جزو نہیں بن سکتا۔لٰہذا اس قرأت سے جوازِ متعہ پر استدلال صحیح نہ رہا۔
ثانیاً تفاسیر میں جہاں اس روایت کو ذکر کیا ہے وہیں تصریح کردی ہے کہ یہ روایت معتمد نہیں ہے اور قرآن کریم میں اس کی تلاوت کرنا اور اس سے کوئی حکم ثابت کرنا جائز نہیں ہے،چنانچہ ابوبکر رازی الجصاص المتوفی 370ھ فرماتے ہیں۔
فانہ لا یجوز اثبات الاجل فی تلاوتہ عند احد من المسلمین فالا جل اذا غیر ثابت فی القران۔(احکام القرآن ج2 ص 148)
"تلاوت میں اجل پڑھنا کسی مسلمان کے نزدیک جائز نہیں ہے اور یہ لفظ قرآن میں ثابت نہیں ہے۔"
اور ابن جریر طبری المتوفی 310ھ فرماتے ہیں:
واما ماروی عن ابی بن کعب وابن عباس من قرأتھما فما استمتعتم بہ منھن الی اجل مسمی فقرا بخلاف ما جاء ت بہ صحائف وغیر جائز لاحد ان یلحق فی کتاب اللہ تعالی شیئا لم یات بہ الخیر القاطع (تفسیر طبری جز 3 ص 13)
"ابی بن کعب اور ابن عباس کی ایک قرأت میں جز "الی اجل مسمی" کے الفاظ مروی ہیں وہ تمام مصاحف المسلمین کے خلاف ہیں اور کسی کے لیے جائز نہیں کہ وہ کتاب اللہ میں بغیر خبر متواتر کے کسی چیز کا اضافہ کرے۔"
ثالثاً صرف کسی روایت کا موجود ہونا اس کی ثقاہت کے لیے کافی نہیں۔روایات تو صحیح سے لے کر موضوع تک ہر قسم کی موجود ہیں۔ کیونکہ رافضی،قدری،جہمی ہر طرح کے بد عقیدہ لوگوں نے اپنے اپنے مذہب کے موافق روایات وضع کرکے شائع کردی تھیں۔ یہ محدثین کرام کا ملت اسلامیہ پر احسان عظیم ہے کہ انہوں نے علم اسماء رجال ایجاد کرکے ہر حدیث کی صحت اور وضع پرکھنے کا ذریعہ مہیا کردیا۔
جس روایت کے سہارے امامیہ حضراے نے"الی اجل مسمی" کی قرأت کو تسلیم کیا ہے، ہم آپ کے سامنے اس روایت کے طرق اور اسانید کا حال بیان کردیتے ہیں،جس سے روایت کی حقیقت سامنے آجائے گی۔ابن جریر طبری اس روایت کی سند بیان کرتے ہیں:
حدثنا محمد بن الحسین قال حدثنا احمد بن المفضل قال ثنا اسباط عن السدی فما استمتعتم بہ منھم الی اجل مسمی فاتو ھن اجورھن۔(تفسیر طبری ج5ص12)
اس سند کا ایک راوی احمد بن مفضل ہے،ازدی نے کہا:یہ منکرالحدیث ہے اور ابو حاتم نے بیان کیا کہ یہ رؤسا شیعہ میں سے تھا۔(تہذیب التہذیب ج6ص96) اس سند کا تیسرا آدمی اسباط ہے،امام نسائی نے کہا:یہ قوی نہ تھا۔ ابن معین نے کہا۔" لیس بشیء"یہ کچھ بھی نہیں۔ابو نعیم نے کہا:بہت ضعیف تھا۔(تہذیب التہذیب ج1ص81) اس سند کا چوتھا راوی اسماعیل بن عبدالرحمٰن السدی ہے،جو زجانی نے کہا:یہ کذاب تھا،صحابہ کرام کو سب و شتم کرتا تھا۔ حسین واقد نے کہا:میں سماع حدیث کے لیے اس کے پاس آیا،جب دیکھا کہ یہ حضرت ابو بکر و عمر کو برا بھلا کہتا ہے تو میں چلا آیا اور پھر کبھی اس کے پاس نہیں گیا۔ ان ابی سلین نے کہا کہ یہ شیخین کی شان میں بدگوئی کرتا تھا۔طبری نے کہا: اس کی روایات لائق استدلال نہیں ہیں۔(تہذیب التہذیب ج1ص317)
اس روایت کی دوسری سند ملاحظہ ہو۔حدثنا ابو کریب قال حدثنا یحیی بن عیسی قال حدثنا نصیر بن ابی الاشعث قال حدثنی حبیب بن ابی ثابت قال اعطانی ابن عباس مصحفا فقال ھذا علی قراۃ ابی قال ابو بکر قال یحیی فرایت المصحف عند نصیر فیہ فما استمتعتم بہ منھن الی اجل مسمی۔ (تفسیر طبری ج5ص263)
اس سند میں ایک راوی ہے یحییٰ بن عیسٰی،نسائی نے کہا: یہ قوی نہ تھا۔(میزان الاعتدال ج4ص401-402) سلمہ نے کہا:اس میں ضعف تھا۔ابن معین نے کہا:"لیس بشیء" یہ کچھ نہ تھا۔عجلی نے کہا:اس میں تشیع تھا۔(تہذیب التہذیب ج11ص263)
ان دونوں سندوں میں رافضی منکرالحدیث اور کذاب راوی موجود ہیں۔ پس ایسے لوگوں کی بنیاد پر کوئی روایت کس طرح قابل قبول ہوسکتی ہے، ان دونوں سندوں کے بعد ایک اور سند پیش خدمت ہے:
حدثنا ابن المثنی قال ثنی عبدالاعلی قال ثنی داؤد عن ابی نضر ۃ قال سالت ابن عباس عن المتعہ فذکر نحوہ۔ (طبری جز5ص12)
اس سند میں ایک راوی ہے عبدالاعلٰی،ابن سعد نے کہا:یہ قوی نہ تھا۔ابن حبان اور امام محمد نے کہا:یہ قدریہ عقائد کا حامل تھا۔(تہذیب التہذیب ج6ص96) اس سند کا ایک راوی ہے داؤد ابن ابی ہند،اس کے بارے میں تصریح ہے کہ اس کی روایات میں اضطراب تھا اور یہ کثیر الخلاف تھا۔( تہذیب التہذیب ج3ص205) ان حوالوں سے ظاہر ہوگیا کہ اس روایت کے طرق میں بکثرت رافضی قدری جیسے بدعقیدہ اور کذاب،منکرالحدیث،کثیرالخلا ف اور ضعیف راوی موجود ہیں۔ لٰہذا یہ روایت قطعاً باطل اور جعلی ہے۔
رابعاً ابن عباس اس آیت کو کس طرح پڑھتے تھے اور استمتاع سے ان کی مراد متعہ تھی یا نکاح، اس بارے میں ابن جریر نے جو روایت صحیح سند کے ساتھ ذکر کی ہے وہ یہ ہے:
حدثنی المثنی قال ثنا عبد اللہ بن صالح قال ثنی معاویۃ بن صالح بن ابی طلحۃ عن ابن عباس قولہ فما استمتعتم بہ منھن فاتوھن اجورھن فریضۃ یقول اذا تزوج الرجل المرأۃ ثم نکحھا مرۃ واحدۃ وجب صداقھا کلہ والا ستمتاع ھو النکاح۔( تفسیر طبری جز5ص11)
حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ انہوں نے"فما استمتعم بہ منھن فاتوھن اجورھن"پڑھا(بغیر"الی اجل مسمی"کے) اور اس کی تفسیر میں فرمایا: جب شادی کے بعد کوئی شخص ایک بار بھی عمل زوجیت کرے تو اس پر پورا مہر واجب ہوجاتا ہے اور فرمایا:اسمتاع سے مراد نکاح ہے۔
اگر "فما استمتعتم"کے بعد"الی اجل مسمی" پڑھا جائے تو استمتاع سے مراد نکاح کسی صورت میں نہیں ہوسکتا۔ متعہ ہی مراد لینا پڑے گا اور جب ابن عباس نے فرمایا: استمتاع سے مراد نکاح ہے اور بغیر "الی اجل مسمی" اس آیت کو پڑھا تو معلوم ہوا کہ "الی اجل مسمی" پڑھنے کی نسبت اس کی طرف کرنا سراسر افتراء ہے اور یہ روایت صحیح السند ہے اور مصاحف مسلمین کے مطابق ہے۔ اسے چھوڑ کر رافضیوں اور قدریوں کی روایت کو لینا جو مصاحف مسلمین کے مخالف اور نظم قرآن سے متصادم ہے، صریح ہٹ دھرمی کے سوا اور کیا ہے۔
ابن عباس کے فتویٰ کا جواب
امامیہ حضرات کہتے ہیں کہ ابن عباس جواز متعہ کا فتویٰ دیتے تھے اور چونکہ اہل سنت کے نزدیک حضرت ابن عباس کی شخصیت واجب التسلیم ہے اس لیے اس پر لازم ہے کہ ان کے فتویٰ کا احترام کریں۔ہماری گزارش یہ ہے کہ ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما نے مطلقاً جواز کا فتویٰ نہیں دیا، وہ متعہ کو مردار اور خنزیر کی طرح حرام سمجھتے تھے اور جس حالت اضطرار میں مردار اور خنزیر کھانا جائز ہے اسی طرح ان کے نزدیک حالت اضطرار میں متعہ کرنا بھی جائز تھا۔ چنانچہ علامہ نیشا پوری المتوفی 728ھ فرماتے ہیں:
ان الناس لما ذکروا الاشعار فی فتیا ابن عباس فی المتعۃ قال قاتلھم اللہ الی ما افتیت با باحتھا علی الاطلاق لکنی قلت انھا تحل للمضطر کما تحل المیتۃ والدم ولحم الخنزیر۔
"جب لوگوں نے ابن عباس کے فتویٰ کی وجہ سے ان کی ہجو میں اشعار کہے تو انہوں نے کہا: خدا ان کو ہلاک کرے،میں نے علی الاطلاق متعہ کی اباحت کا فتوی نہیں دیا، بلکہ میں نے کہا تھا کہ متعہ مضطر کے لیے حلال ہے جیسے مُردار،خنزیر اور خون کا حکم ہے۔
اس روایت کو ابو بکر رازی الجصاص نے "احکام القرآن"ج2ص147 پر اور ابن ہمام المتوفی 861ھ نے "فتح القدیر" ج2ص386 اور علامی آلوسی المتوفی 1270ھ نے "روح المعانی" جز5ص6پر ذکر کیا ہے۔
حضرت ابن عباس کا مضطر کے لیے اباحت متعہ کا فتویٰ دینا بھی ان کی اجتہادی خطاء پر مبنی تھا اور جب ان پر حق واضح ہوگیا تو انہوں نے اس فتویٰ سے رجوع کرلیا اور اللہ تعالی سے توبہ کی، چنانچہ علامہ نیشاپوری لکھتے ہیں:
انہ رجع عن ذالک عند موتہ وقال انی اتوب الیک فی الصرف والمتعۃ (غرآئب القرآن جز5ص16)
"ابن عباس نے اپنے مرنے سے پہلے اپنے فتویٰ سے رجوع کیا اور کہا:میں صرف اور متعہ سے رجوع کرتا ہوں۔
"فالصحح حکایت من حکی عنہ الرجوع عنھا" "صحیح روایت یہ ہے کہ حضرت ابن عباس نے جواز متعہ سے رجوع کرلیا تھا"۔
نیز فرماتے ہیں:
"نزل عن قولہ فی الصرف و قولہ فی المتعۃ"(احکام القرآن ج6ص147-179)"ابن عباس سے صرف اور متعہ سے رجوع کرلیا تھا""۔
علامہ بدر الدین عینی المتوفی 855ھ نے “عمدۃ القاری“ جز 17 ص 246 پر اور علامہ ابن حجر عسقلانی المتوفی 852ھ نے “فتح الباری“ ج11 ص77 پر حضرت ابن عباس کا متعہ سے رجوع بیان فرمایا ہے اور اہلسنت کے تمام محقیقین نے اسی پر اعتماد کا اظہار فرمایا ہے، پھر کس قدر حیرت اور افسوس کی بات ہے کہ جس بات سے حضرت ابن عباس رجوع فرماچکے ہیں اسے ان کا مسلک قراردے کر اس کی بنیاد پر اپنے مسلک کی دیوار استوار کی جائے۔

ہم نے دلائل سے واضح کردیا ہے کہ اسلام میں متعہ کا کوئی تصور نہیں ہے اور اللہ اور اس کے رسول برحق نے متعہ کو حرام کردیا ہے،اللہ کا سلام ہو حضرت عمر پر جنہوں نے حرمت متعہ کو نافذ کرکے اور اس پر عمل کراکے ملت اسلامیہ کو ایک مکروہ غلاظت سے محفوظ کرایا ہے۔
یہ متعہ ہی کا تصور تھا جس نے مسلمانوں میں کسبیوب کے رواج کو جنم دیا،اسی اصطلاح نے بازارِ حسن کو تحفظ دیا اور متعہ کی آڑ میں عصمت فروشی کا چور دروازہ کھول دیا۔ آج قوم کے سارے سہارے ختم کردیئے جائیں اور ہر وہ قانون جس سے جنسی کجی کو تقویت ملتی ہو مٹا دیا جاے۔ مسئلہ متعہ کا وجود فحاشی کے فروغ کا ضامن ہے۔ فاروقِ اعظم کی ایمان افروز شخصیت پر خدا کی بے شمار رحمتیں ہوں جنہوں نے حرمت متعہ کی تبلیغ اور تنفیذ کرکے سفینہ ملت کو معصیت کے گرداب سے نکالا۔ آج اس معصیت زدہ اور پنجہ شہوت میں اسیر قوم کو پھر فاروقی بصیرت کی ضرورت ہے۔
 

ابوعثمان

محفلین
میرے خیال میں‌ جس چیز کو معاشرے میں قبول عام حاصل نہ ہو اور نہ ہی جسے فطرت سلیم تسلیم کرتی ہو وہ دین فطرت کا حصہ نہیں ہو سکی۔
کوئی باپ ایسا ہے جو اپنی بیٹی کو وقتی نکاح میں‌ دے گا ؟
کوٕی بھائی ایسا ہے جو اپنی بہن کو وقتی نکاح میں‌دے گا ؟

اور پھر اس کے نتیجے میں‌پیدا ہونے والے بچے کہاں ہیں ؟

چودہ سو سال ہوئے متعہ ہو رہا ہے ذرا معاشرہ قدیم اور معاشرہ جدید سے چند ایسے مشہور یا عام نام تو دیجئے کہ جو اس 'نکاح' کے نتیجے میں‌پیدا ہوئے اور معاشرے نے انہیں‌نہ صرف تسلیم کیا ہو بلکہ با عزت مقام بھی دیا ہو ؟؟؟
اسی اصطلاح نے بازارِ حُسن کو تحفظ دیا اور متعہ کی آڑ میں عصمت فروشی کا چور دروازہ کھول دیا۔
۔ مسئلہ متعہ کا وجود فحاشی کے فروغ کا ضامن ہے۔ فاروقِ اعظم کی ایمان افروز شخصیت پر خدا کی بے شمار رحمتیں ہوں جنہوں نے حرمت متعہ کی تبلیغ اور تنفیذ کرکے سفینہ ملت کو معصیت کے گرداب سے نکالا۔ آج اس معصیت زدہ اور پنجہ شہوت میں اسیر قوم کو پھر فاروقی بصیرت کی ضرورت ہے۔
 

دوست

محفلین
کسبیاں تو شاید کبھی ختم نہ ہوسکیں چونکہ ہم جتنے بھی مسلمان ہوجائیں، ہوتے اپنی مرضی تک مسلمان ہی ہیں۔
متعہ کو اگر حلال قرار دے دیا جائے تو البتہ اس کاروبار کو قانونی بلکہ اسلامی حیثیت حاصل ہوسکتی ہے اور اسلامی حکومت اس سے اچھی آمدن بھی حاصل کرسکتی ہے بصورت ٹیکس وغیرہ۔
ویسے ایران میں‌ تو یہ سب کچھ حکومت کے زیر انتظام ہی ہوتا ہوگا؟
 

ظفری

لائبریرین
ظفری بھائی، آپ سے گذارش ہے کہ:

1۔ آپ قرآن کو کھولیں۔
2۔ اور پھر ان دونوں سورتوں (سورۃ المومنون اور سورۃ المعارج) کے زمانے نزول کو دیکھیں۔
3۔ ان دونوں سورتوں سے قبل بالاتفاق آپ کو لکھا نظر آئے گا "المکیۃ" یعنی مکی دور میں نازل ہونے والی سورتیں۔
4۔ اب بتلائیں کہ آپ اس عقدے کو کیسے حل کریں گے کہ عقد متعہ جو باالاجماع کم از کم مدینے کے پہلے 7 سالوں (یعنی فتح خیبر یا 8 سالوں یعنی فتح مکہ) تک جاری و ساری رہا ہے اور صحابہ و صحابیات رسول ص کی اجازت بلکہ حکم سے عقد متعہ کرتے رہے، تو یہ کیسے ممکن ہوا کہ جب آپکے زعم کے مطابق سورۃ المومنون اور سورۃ المعارج مکی دور میں عقد متعہ کو حرام قرار دے رہی ہیں؟

میرے بھائی،
کیا آپ نے وہ محاورہ سنا ہے کہ "نقل کے لیے بھی عقل کی ضرورت ہوتی ہے۔"
یہ محاورہ پورے طور پر اُس شخص کے اوپر فٹ آتا ہے جس نے عقد متعہ کو حرام ٹہرانے کے لیے اپنی طرف سے یہ جھوٹی روایت گھڑی تھی کہ سورۃ المومنون یا معارج کے فلاں فلاں آیت نے عقد متعہ کو حرام قرار دیا تھا۔

ظفری برادر،
میری کوشش تھی کہ ان اختلافی مسائل کو ابتدائی طور پر نظر انداز کرتے ہوئے عقد متعہ کے اُن پہلوؤں پر پہلے بات کروں کہ جن پر لوگوں کی نظر عموما جاتی ہی نہیں ہے کیونکہ وہ پہلے ہی ان اختلافی مسائل میں الجھ کر رہ جاتے ہیں۔

میرا خیال ہے کہ میں اپنا مدعا صحیح طور پر آپ پر واضع نہیں کرسکا ۔ جبکہ میں سمجھتا تھا کہ میں نے ایک مکمل بات کردی ہے ۔ مگر چونکہ میں اپنا استدلال پیش کرچکا تھا کہ متعہ کے احکامات کو بتدریج لوگوں کے پہنچانے میں وقت لگا کہ ابلاغ کا وہ ذریعہ اس دور میں موجود نہیں تھا ۔ جوکہ آج کے دور میں میسر ہے ۔ لہذا ان مکی سورتوں کے اطلاق کا دور حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی کے دور تک رہا ۔ شاید آپ نے میرے اس استدلال پر غور نہیں کیا ۔ اور آپ نے مکی سورتوں کے حوالے سے وہی استدلال قائم کیا ۔ جس کا اظہار میں اپنی اس سلسلے میں پہلی پوسٹ میں کرچکا ہوں ۔
ایک اہم بات یہ ہے کہ اس سلسلے میں آپ جو استدلال اور ثبوت مہیا کررہیں ہیں ۔ دراصل ان کا سارا منبع اہلِ تشیع کی کتب اور عقائد سے ہے ۔ اور ہم سب یہ بات جانتے ہیں کہ کسی بھی حدیث کا جانچنے کا جو طریقہ رائج ہے ۔ اس کو " رجال " کہتے ہیں ۔ محدثین اسی طریقے پر عمل پیرا ہوکر کسی بھی حدیث کی حیثیت کا تعین کرتے ہیں ۔ مگر سنیوں اور اہلِ تشیع کے درمیان اس طریقے پر سب سے بڑا فرق کسی بھی حدیث کی سند سے متعلق ہے ۔ شاید بہت سوں کے علم میں یہ بات نہ ہو کہ سنیوں کے ہاں " رجال " اسطرح سے عمل پیرا ہوتا ہے کہ محدثین دیکھتے ہیں کہ حدیث کا ماخذ کسی صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم سے جاکر مل جائے ۔ یعنی اس بات کی تصدیق ہوجائے کہ مذکورہ روایت یا حدیث کسی صحابی نے فرمائی ہے ۔ پھر اس کے بعد مذید کسی تصدیق کی ضرورت نہیں رہتی کہ صحابہ کرام کی سچائی کی تصدیق خود قرآن میں موجود ہے ۔
جبکہ اس کے بلکل برعکس اہل تشیع کے ہاں یہ تحقیق ان کے کسی امام پر آکر ختم ہوجاتی ہے ۔ یعنی یہ بات ثابت ہوجائے کہ یہ روایت اور حدیث اہلِ تشیع کے کسی امام نے فرمائی ہے ۔ اس کے بعد اہل ِ تشیع کے ہاں مذید تحقیق کی گنجائش نہیں ہوتی ۔
چنانچہ اس بڑے فرق کی وجہ سے سنیوں اور اہلِ تشیعوں کی کتب میں حدیثوں کے درمیان بہت بڑا اختلاف موجود ہے ۔ چنانچہ اس سلسلے میں آپ جن احادیث اور روایتوں کا حوالہ دے رہیں ہیں ۔ وہ اس ضمن سے تعلق رکھتیں ہیں ۔ اس کی ایک بڑی مثال آپ کے اٹھائے ہوئے پوائنٹ 4 کی ہے ۔ اس سلسلے میں میرا ارادہ سنی محدثین کے رجال کے طریقے پر سند یافتہ احادیث کو یہاں پوسٹ کرنا تھا ۔ وہ کارِ خیر ابو عثمان پہلے ہی انجام دے چکے ہیں ۔

لہذا مہوش بہن ۔۔۔۔ آپ نے میرے پر جو اعتراضات اٹھائے ہیں ۔ اس کا بغور اگر آپ مطالعہ کریں تو آپ کو احساس ہوگا کہ جو استدلال آپ نے اختیار کیا ہے ۔ اس کا تو میں پہلے ہی ذکر چکا کہ لوگ اس مکی سورتوں کے حوالے سے اس طرح کا استدلال پیش کرتے ہیں کہ متعہ جائز ہے ۔ آپ نے کوئی نئی بات نہیں کہی ہے ۔ اگر آپ قرآن سے کوئی بات ثابت کرنا چاہتیں ہیں تو بہت اچھی بات ہے ۔ یہاں فاروق سرور صاحب موجود ہیں ۔ امید ہے ان سے اس سلسلے میں بہت سے ثبوت قرآن کے حوالوں سے مل جائیں گے ۔
 

dxbgraphics

محفلین
یا تو یی صاف صاف کہدیں کے آپ کے پاس جواب ہی نہیں ہے یا پھر ایسی بے سر و پا باتیں جانے دیں کیونکہ سب کو پتہ ہے کہ ایڈمن کی طرف سے صرف وہ پیغامات حذف کیئے جاتے ہیں ۔بخاری یا مسلم کے حوالے اسلیئے دیئے جاتے ہیں کہ اکثر مسلمانوں کا یہ عقیدہ کہ قران کے بعد یہی کتابیں سب سے زیادہ معتبر ہیں اور جب دین کی اکثر باتیں یہاں سے ہی لی گئیں ہیں تو وہ احکامات جو اہلِ تشیع کے نظریات پر دلالت کرتے ہیں وہ تسلیم کیوں نہیں کئے جاتے۔

کلینی نے لکھا ہے:
ابوبکر سے لے کرآج تک تمام سنی حکمران غاصب وظالم ہیں ،کیونکہ حکمرانی کا حق صرف شیعہ اماموں یا ان کی امامت کو ماننے والے شیعوں کو ہے اور شیعوں کا فرض ہے کہ تمام سنی حکومتوں کو تباہ کرنے میں لگے رہیں ،کیونکہ اگر انہوں نے ایسانہ کیا اور سنی حکومت میں اطمینان سے رہے تو چاہے یہ شیعہ کتنے ہی عبادت گذار کیوں نہ ہوں عذاب الٰہی کے مستحق ہوں گے (اصول کافی ص:٢٠٦)

جب خلافت ہی سے انکار کر دیا تو متعہ جو فتح مکہ کے بعد حرام قیامت تک حرام قرار دیا گیا ہو اور اس پر سختی سے حضرت عمر نے عمل درآمد کیا ہو اس کو کیوں کر مانا جائیگا۔

(٤) یہودیوں نے اپنے اقتدار وتسلط کے لئے تاریک کے ہر دور میں جنس (Sex) کا سہارالیا انہوں نے علم وادب کے نام پر دنیا میں ایسی فحاشی اور بے حیائی پھیلائی کہ مشرق ومغرب کے معاشروں کی اخلاقی قدریں تار تار ہوگئیں ،جرمنی کایہودی ''فرائڈ''یہودیوں کی اس اباحی تحریک کا علمبردار تھا،اس نے ہر چیز کو جنس کی عینک لگا کر دیکھا اباحیت کی اس تحریک کو ''فرانس کے تگڈم''سارٹر،سیمون ری بواراور ''ایسرکامی''نے جلابخشی ،فحاشی کی اس یہودی تحریک نے ''ہنری ملر ''البرٹ موراوبا جیسے فحش نگاروں کو جنم دیا اور اسی فلسفہ یہودیت نے سارٹر کو سیمون کے ساتھ چالیس سال تک ناجائز تعلقات قائم کرنے پر فخر کرنے کی ہمت دلائی ،اور اباحیت کے اسی یہودی فلسفے نے یورپ کی لیہ جنسی بے راہ روی اور اجتماعی زنا کاری کی راہ ہموار کی جس نے انسان وحیوان کے فرق کو مٹادیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔(حذف کردہ)
 

dxbgraphics

محفلین
یا تو یی صاف صاف کہدیں کے آپ کے پاس جواب ہی نہیں ہے یا پھر ایسی بے سر و پا باتیں جانے دیں کیونکہ سب کو پتہ ہے کہ ایڈمن کی طرف سے صرف وہ پیغامات حذف کیئے جاتے ہیں ۔بخاری یا مسلم کے حوالے اسلیئے دیئے جاتے ہیں کہ اکثر مسلمانوں کا یہ عقیدہ کہ قران کے بعد یہی کتابیں سب سے زیادہ معتبر ہیں اور جب دین کی اکثر باتیں یہاں سے ہی لی گئیں ہیں تو وہ احکامات جو اہلِ تشیع کے نظریات پر دلالت کرتے ہیں وہ تسلیم کیوں نہیں کئے جاتے۔

حضرت سلمہ رضی اللہ (بن اکوع( فرماتے ہیں کہ
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہ اوطاس والے سال تین دن کے لئے متعہ کی اجازت دی تھی پھر اس سے منع کر دیا تھا۔
(مسلم صفحہ 451 جز 1(

حضرت سبرۃ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ
وہ آنحضرت کے ساتھ تھے اور آپ صلعم نے فرمایا کہ اے لوگو! بے شک میں نے تمہیں عورتوں سے متعہ کرنے کی اجازت دی تھی اور اب بلاشبہ اس کو اللہ تعالیٰ نے قیامت تک حرام کر دیا ہے
(مسلم ص 451 ج 1(

حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ
بہ تحقیق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہ خیبر والے دن متع النساء سے منع کر دیا تھا۔
(بخاری ص 606 ج 2(
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top