مہوش علی
لائبریرین
(شمشاد بھائی، اس پوسٹ کو میری پچھلی پوسٹ کے ساتھ ملا دیجئیے گا۔ شکریہ)
قبل اسکے کہ ہم نکاح المتعہ پر بحث شروع کریں، بہت لازمی ہے کہ اس بحث سے متعلق کچھ دو اہم باتوں پر ایک نظر ضرور سے ڈال لیں کہ اس سیاق کے بغیر ہمارے ذہن قابل نہ ہو پائیں گے کہ ہم صحیح فیصلہ کر پائیں۔
1۔ اسلام میں کنیز عورت سے وقتی تعلقات
"آج" متعہ کو زنا کہا جاتا ہے کیونکہ اس میں ایک وقت مقررہ طے ہوتا ہے جسکے بعد خود بخود طلاق ہو جاتی ہے۔ مگر گذارش ہے کہ اسلام میں کنیز عورت کے مسئلے کو سامنے رکھیں جس کے تحت علماء کا اجماع ہے کہ کنیز عورت کے ساتھ وقتی تعلقات کے بعد اس کو اسکا آقا آگے کسی اور شخص کو فروخت کر سکتا ہے. یہ نیا آقا اس کنیز عورت سے دوبارہ ہمبستری کر سکتا ہے، اور اسکے بعد اسے تیسرے آقا کو فروخت کر سکتا ہے۔۔۔۔
1۔ امام ابن ابی شیبہ، عبد بن حمید، ابن جریر اور ابن منذر نے صحابی ابن مسعود سے روایت نقل کی ہے خاوند والی عورت تجھ پر حرام ہے مگر جسے تو اپنے مال سے خریدے۔ وہ کہا کرتے تھے کہ لونڈی کو بیچنا اسکی طلاق ہے۔
2۔ نیز امام ابن جریر نے صحابی عبداللہ ابن مسعود سے روایت نقل کی ہے کہ جب لونڈی کو بیچ دیا جائے جبکہ اسکا خاوند بھی ہو تو اسکا آقا اس کے بضعہ (وطی کا محل) کا زیادہ حقدار ہے۔ [تفسیر طبری، روایت 7139 آنلائن لنک ]
3۔ امام ابن جریر طبری نے حضرت ابن عباس سے روایت نقل کی ہے لونڈی کی طلاق کی چھ صورتیں ہیں(مالک کا) اسکو بیچنا اسکی طلاق ہے، اسکو آزاد کرنا اسکی طلاق ہے، (مالک کا) اسکو (اپنے باپ یا بھائی کو) ہبہ کرنا اسکی طلاق ہے، اسکی برات اسکی طلاق ہے، اسکے خاوند کی طلاق اسکو طلاق ہے۔[تفسیر طبری روایت 7135 ]
"نکاح المتعہ" پر اختلاف آج شیعہ و سنی برادران کے مابین نہیں، بلکہ یہ صحابہ کے مابین اٹھنے والا اختلاف تھا
ایک اور بہت ہی اہم بات یہ ہے کہ ہمیں "نکاح المتعہ" کی "تاریخ" کا مکمل طور پر علم ہونا چاہیے، ورنہ اسکی غیر موجودگی میں یہ بات "فرقہ وارانہ" رنگ لے سکتی ہے (جیسا کہ آجکل تاریخ نے ناواقفیت کی بنیاد پر یہ چیز واقعی میں فرقہ وارانہ رنگ میں سامنے آتی ہے)۔
علامہ ابن حجر العسقلانی نکاح المتعہ کے متعلق لکھتے ہیں:
اس لیے گذارش یہ ہے کہ اختلافات پر بات کرنے سے قبل ہمیں "اختلاف رائے قبول کرنے" پر بات کرنی چاہیے۔ عقد متعہ کی مختصر تاریخ یہ ہی ہے کہ یہ مسئلہ "آج" کا پیداکردہ نہیں ہے، بلکہ یہ صحابہ کرام کے مابین شروع ہوا، اور ان تمام ترصدیوں کا سفر طے کرتا ہوا آج ہم تک پہنچا ہے۔
اگر یہ دو ضمنی مسائل (کنیز عورت اور متعہ النساء کی تاریخ) واضح ہو چکے ہوں، تو آئیے اب متعہ النساء کے اوپر براہ راست گفتگو شروع کرتے ہیں۔
متعہ اور زنا میں کیا فرق ہے؟
عقد متعہ میں وہ تمام تر قوانین اور شرائط موجود ہیں جو کہ عقد نکاح میں موجود ہوتے ہیں، سوائے اسکے کہ مقررہ وقت کے بعد طلاق ہو جاتی ہے۔
حضرت عمر کے اپنے بیٹے کی گواہی کہ متعہ زنا نہیں
جو حضرات ابتک نکاح متعہ کو زنا قرار دینے پر مصر ہیں، انکے لیے خود حضرت عمر کے اپنے فرزند عبداللہ ابن عمر کی گواہی کافی ہے۔ مسند احمد بن حنبل میں ابن عمر کے متعلق یہ روایت درج ہے:
حدثنا عفان حدثنا عبيد الله بن إياد قال حدثنا إياد يعني ابن لقيط عن عبد الرحمن بن نعيم الأعرجي قال
سأل رجل ابن عمر وأنا عنده عن المتعة متعة النساء فغضب وقال والله ما كنا على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم زنائين ولا مسافحين ثم قال والله لقد سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول ليكونن قبل المسيح الدجال كذابون ثلاثون أو أكثر
قال أبي و قال أبو الوليد الطيالسي قبل يوم القيامة
ترجمہ: عفان نے عبید اللہ سے، انہوں نے ایاد سے، انہوں نے عبدالرحمن ابن نعیم سے روایت کی ہے: ایک شخص نے صحابی عبداللہ ابن عمر سے متعہ، متعہ النساء کے متعلق پوچھا۔ اس پر ابن عمر غصے ہو گئے اور قسم کہا کر کہنے لگے کہ ہم رسول اللہ (ص) کے زمانے میں زناکار و سفاح کار نہیں تھے۔ پھر آگے کہنے لگے کہ میں اللہ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میں نے رسول (ص) کو فرماتے سنا ہے کہ دجال کے آنے سے قبل 30 کذاب آئیں گے۔
حوالہ: مسند احمد بن حنبل، جلد 2، حدیث 5546
یہی روایت مسند احمد بن حنبل میں ابو ولید سے بھی مروی ہے۔ [حوالہ: مسند احمد بن حنبل، جلد 2، حدیث 5436]
رسول ص کی گواہی کہ متعہ زنا نہیں بلکہ پاکیزہ و طیبات میں سے ہے
حدثنا عمرو بن عون حدثنا خالد عن إسماعيل عن قيس عن عبد الله رضي الله عنه قال
كنا نغزو مع النبي صلى الله عليه وسلم وليس معنا نساء فقلنا ألا نختصي فنهانا عن ذلك فرخص لنا بعد ذلك أن نتزوج المرأة بالثوب ثم قرأ
يا أيها الذين آمنوا لا تحرموا طيبات ما أحل الله لكم
ترجمہ:
عبداللہ ابن مسود فرماتے ہیں کہ وہ رسول اللہ ص کے ساتھ غزوات میں مصروف تھے اور اُنکی بیویاں انکے ہمراہ نہیں تھیں۔ چنانچہ انہوں نے رسول اللہ ص سے پوچھا کہ آیا گناہ کے خوف سے نجات پانے کے لیے وہ خود کو خصی (اعضائے شہوانی کا کانٹا) کر لیں۔ اس پر رسول اللہ ص نے انہیں منع فرمایا اور انہیں رخصت دی کہ وہ عورتوں کے ساتھ کسی کپڑے کے عوض مقررہ مدت تک نکاح کریں اور پھر رسول اللہ ص نے یہ آیت تلاوت فرمائی:
[القرآن 5:87] يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ لاَ تُحَرِّمُواْ طَيِّبَاتِ مَا أَحَلَّ اللّهُ لَكُمْ وَلاَ تَعْتَدُواْ إِنَّ اللّهَ لاَ يُحِبُّ الْمُعْتَدِينَ
اے ایمان والو! جو پاکیزہ چیزیں اللہ نے تمہارے لئے حلال کی ہیں انہیں (اپنے اوپر) حرام مت ٹھہراؤ اور نہ (ہی) حد سے بڑھو، بیشک اللہ حد سے تجاوز کرنے والوں کو پسند نہیں فرماتا
کیا لسان نبوت کی اس گواہی کے بعد بھی کوئی شقی القلب عقد متعہ کو زنا کہنے کی جرات کر سکتا ہے؟
چند انتہا پسند حضرات اپنی فرقہ وارانہ عصبیت میں مبتلا ہو کر عقد متعہ کو زنا کہنےسے پھر بھی بعض نہیں آتے۔ یہ ایک بہت خطرناک چیز ہے، کیونکہ تمام مسلمانوں کا اس پر اجماع ہے کہ کم از کم 7 ہجری تک (یعنی رسول ص کی وفات کے تین سال قبل تک) صحابہ اور صحابیات نے رسول اللہ ص کی اجازت بلکہ حکم سے عقد متعہ کیے۔ چنانچہ جب یہ لوگ متعہ کو زناکاری کا الزام دیں گے تو یہ چیز ان صحابہ اور صحابیات کے لیے سب سے پہلے گالی بن جائے گا جو رسول اللہ ص کی اجازت بلکہ حکم پر عقد متعہ کرتے رہے۔ کاش کہ یہ لوگ اس بات کو سمجھ سکیں۔
پھر بھی احتمال کہ طوائفیں متعہ کو اپنے دھندے کے لیے استعمال کر سکتی ہیں
بلاشبہ عقد متعہ پاکیزہ و طیبات میں سے ہے اور اسکا زناکاری سے کوئی لینا دینا نہیں۔ مگر پھر بھی کچھ برادران کے اذہان میں یہ سوال اٹھتا ہے کہ بے شک متعہ پاکیزہ و طیب ہو، مگر خطرہ ہے کہ طوائفیں عقد متعہ کو اپنے دھندے کے لیے استعمال کر سکتی ہیں۔ تو نوٹ کیجئے کہ:
جابر بن عبداللہ انصاری سے روایت ہے:
کسی انصاری کی ایک کنیز رسول ص کے پاس آئی اور کہا: میرا مالک مجھے بدکاری پر مجبور کرتا ہے۔ اس پر اللہ نے قرآن میں یہ آیت نازل فرمائی: اور اپنی کنیزوں کو بدکاری پر مجبور نہ کرو جبکہ وہ عفت و پاکدامنی چاہتی ہیں۔(القرآن 24:33)
نان و نفقہ [نکاح بالمقابل متعہ]
نکاح میں دو طرح کی شرائط ہوتی ہیں:
1۔ وہ شرائط جو بنیادی ہیں۔ مثلا محرم عورت سےنکاح کی ممانعت کی شرط، عدت کی شرط، بچے کی ذمہ داری کی شرط وغیرہ۔ یہ شرائط کبھی تبدیل نہیں ہو سکتیں۔
2 ۔ وہ شرائط جو ثانوی ہیں اور معاہدے کے تحت ان میں رد و بدل کیا جا سکتا ہے۔ مثلا عورت اپنے نان و نفقے اور گھر کی شرط، یا وقت اور باری کی شرط سے دستبردار ہو سکتی ہے (جیسا آجکل مسیار شادی میں عرب ممالک میں ہوتا ہے جہاں عورت اپنے یہ حقوق چھوڑتی ہے)
یہی چیز عقد متعہ کے لیے بھی درست ہے۔ بنیادی طور پر عقد متعہ میں عورت نان نفقہ نہیں رکھتی، مگر اگر وہ عقد متعہ کے لیے یہ شرائط رکھ دے، اور شوہر اسے قبول کرے تو پھر اس عورت کو بھی نان نفقہ دینا پڑے گا۔
میراث [نکاح بالمقابل متعہ]
عقد متعہ میں مرد اور عورت ایک دوسرے سے میراث نہیں پاتے۔
کیوں؟
جواب بہت سادہ ہے کہ عقد متعہ میں ایک مقررہ وقت کے بعد ان میں طلاق ہو جاتی ہے۔ اور اہلسنت کے تمام فقہ اس بات پر متفق ہیں کہ نکاح کے بعد طلاق یافتہ ہونے والی عورت کو بھی میراث میں سے حصہ نہیں ملتا۔
مگر اگر عقد متعہ کرتے وقت میراث کی شرط رکھ دی جائے، تو اس صورت میں میراث بھی جاری ہو گی۔ امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں: "اگر عقد کرتے وقت میراث کی شرط کر لی جائے تو پھر اس شرط کی ادائیگی واجب ہے [وسائل الشیعہ، جلد 4، صفحہ 486]
ابو بصیر سے روایت ہے کی: "شرائط متعہ میں ضروری ہے کہ مرد عورت سے کہے میں تجھ سے شادی کرتا ہوں بطور متعہ اتنے دن کے لئے اتنے مہر پر شرعی طریقہ سے بغیر عنوان نا مشروع کے کتاب خدا و سنت نبی ﷺ کے مطابق اس طرح کہ تجھے میری میراث نہیں ملے گی اور نہ میں تیرا وارث ہوں گا اور تجھ کو (افتراق کے بعد) ۴۵ دن عدہ رکھنا ضروری ہوگا۔ "
اہل تشیع کے علاوہ اہلسنت کا بھی یہ مانتے ہیں کہ عقد متعہ میں میراث نہیں ہوتی تھی۔مثلا امام اہلسنت ابن جریر طبری مشہور تابعی امام التفسیر سدی سےآیت 4:24 کی ذیل میں روایت کرتے ہیں:{(استمتاع) اس سے مراد عقد متعہ ہے۔ ایک مرد عورت سے معین مدت کے لیے شرط کے ساتھ نکاح کرتا تھا۔ جب مدت ختم ہو جاتی تھی تو مرد کا عورت پر کوئی اختیار نہ ہوتا۔ وہ عورت اس سے آزاد ہوتی۔ عورت پر لازم ہوتا کہ وہ اپنا رحم خالی کرتی۔ اسکے درمیان وراثت جاری نہ ہوتی کوئی ایک دوسرے کا وارث نہ ہوتا۔[لنک تفسیر طبری، آیت 4:24 ]}۔ چنانچہ اہل تشیع نے عقد متعہ کو جوں کا توں ہی جاری رکھا ہے جیسا رسول اللہ ص کے زمانے میں صحابہ و صحابیات کے مابین رائج تھا اور اس میں اپنی طرف سے میراث کی ممانعت نہیں کی ہے۔مزید یہ دیکھئیے کہ اہلسنت علماء کے نزدیک ذیل کی عورتوں کو میراث نہیں ملتی (چاہے وہ نکاح سے ہی کیوں نہ بیوی بنی ہوں)
1۔ اگر عورت کو طلاق ہو جائے۔
2۔ اگر عورت اہل کتاب سے ہو (اور یہ بات برادران اہلسنت کی فقہ میں حدیث سے ثابت ہے اور اس پر وہ میراث والی قرآنی آیت کا اطلاق نہیں کرتے۔ مگر کچھ انتہا پسند حضرات میراث کی قرآنی آیت کی بنیاد پر عقد متعہ کو حرام ٹہراتے ہیں حالانکہ عقد متعہ کی صورت میں بھی حدیث موجود ہے کہ اس میں میراث نہیں ہوتی)
3۔ ایسی عورت جس نے اپنے مرد کو قتل کر دیا ہو۔ (اور یہ بات بھی حدیث سے ثابت ہے اور اس بنیاد پر اس پر میراث والی قرآنی آیت کا اطلاق نہیں کیا جاتا)
4۔ کنیز باندی کو میراث میں سے حصہ نہیں ملے گا۔ اسی طرح کنیز باندی کو اگر کسی دوسرے شخص کے نکاح میں دیا ہے تو اُس شخص سے بھی کنیز عورت کو میراث نہیں ملے گی۔ اور یہ بات بھی اہلسنت فقہ میں حدیث سے ثابت ہے۔
ان سب معاملات میں حدیث سے ہونے والی اس تخصیص کو مانا جاتا ہے، مگر جب عقد متعہ کی بات آتی ہے تو پھر کچھ لوگ منکر حدیث قرآنسٹ بن جاتے ہیں اور پھر اس قرآنی آیت کی وجہ سے باقی سب چیزوں کو چھوڑ کر فقط عقد متعہ کو حرام قرار دینے لگتے ہیں۔
زن ممتوعہ بھی زوجہ ہی ہے
پہلے دعوی کیا جاتا ہے کہ زن ممتوعہ زوجہ نہیں ہے کیونکہ یہ 4 آزاد نکاح والی عورتوں کی قید میں شامل نہیں، اور پھر سورہ مومنون سے ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ متعہ حرام ہے:
[سورۃ المومنون آیت 5 اور 6] اور جو اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرتے رہتے ہیں. سوائے اپنی ازواج کے یا ان باندیوں کے جو ان کے ہاتھوں کی مملوک ہیں۔
اہل تشیع صدیوں سے چیخ چیخ کر کہہ رہے ہیں کہ:
1۔ ہمارے فقہ کے مطابق زن ممتوعہ بھی زوجہ ہی مانی جاتی ہے۔
2۔ اور رسول اللہ ص کے زمانے میں چار آزاد عورتوں سے نکاح دائمی کی قید کے باوجود رسول اللہ ص نے خود زن ممتوعہ کو زوجہ ہی قرار دیا اور اس پر اس چار والی قید نہیں لگائی۔
یہ دیکھئیے رسول اللہ ص کی اپنی گواہی کہ زن ممتوعہ بھی زوجہ ہے۔
صحیح بخاری [آنلائن لنک]
حدثنا عمرو بن عون حدثنا خالد عن إسماعيل عن قيس عن عبد الله رضي الله عنه قال
كنا نغزو مع النبي صلى الله عليه وسلم وليس معنا نساء فقلنا ألا نختصي فنهانا عن ذلك فرخص لنا بعد ذلك أن نتزوج المرأة بالثوب ثم قرأ
يا أيها الذين آمنوا لا تحرموا طيبات ما أحل الله لكم
ترجمہ:
عبداللہ ابن مسود فرماتے ہیں کہ وہ رسول اللہ ص کے ساتھ غزوات میں مصروف تھے اور اُنکی بیویاں انکے ہمراہ نہیں تھیں۔ چنانچہ انہوں نے رسول اللہ ص سے پوچھا کہ آیا گناہ کے خوف سے نجات پانے کے لیے وہ خود کو خصی (اعضائے شہوانی کا کانٹا) کر لیں۔ اس پر رسول اللہ ص نے انہیں منع فرمایا اور انہیں رخصت دی کہ وہ عورتوں کے ساتھ کسی کپڑے کے عوض مقررہ مدت تک تزویج کریں اور پھر رسول اللہ ص نے یہ آیت تلاوت فرمائی:
[القرآن 5:87] يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ لاَ تُحَرِّمُواْ طَيِّبَاتِ مَا أَحَلَّ اللّهُ لَكُمْ وَلاَ تَعْتَدُواْ إِنَّ اللّهَ لاَ يُحِبُّ الْمُعْتَدِينَ
اے ایمان والو! جو پاکیزہ چیزیں اللہ نے تمہارے لئے حلال کی ہیں انہیں (اپنے اوپر) حرام مت ٹھہراؤ اور نہ (ہی) حد سے بڑھو، بیشک اللہ حد سے تجاوز کرنے والوں کو پسند نہیں فرماتا
اب لسان نبوت جب خود گواہی دی رہی ہے کہ عقد متعہ میں عورت کے ساتھ تزویج ہے اور وہ اس بنا پر زوجہ کے حکم میں ہے تو پھر کون ہمت کر سکتا ہے کہ پھر بھی اپنے قیاسی گھوڑے دوڑا کر دعوی کرے کہ زن ممتوعہ زوجہ میں شمار نہیں؟
زن ممتوعہ کا سوگ میں بیٹھنا:
زن ممتوعہ کی عدت طلاق کی صورت میں دو حیض ہیں۔ مگر اگر اس دوران شوہر کا انتقال ہو جائے تو پھر عدت کے ساتھ اُسے سوگ بھی رکھنا ہو گا۔ زرارہ کی روایت ہے کہ: " میں نے امام محمد باقر سے پوچھا کہ کیا ہے عدہ متعہ کا جبکہ اس شخص کا انتقال ہو جائے جس سے متعہ کیا تھا؟ حضرت نے فرمایا۔ چار مہینہ دس دن پھر فرمایا کہ ہر قسم کے نکاح میں جب شوہر مرجائے تو زوجہ کو خواہ آزاد ہو کنیز اور نکاح جس طرح کا ہو متعہ ہو یا دائمی یا ملک یمین بہر حال عدہ وہی چار مہینہ دس دن ہوگا۔"
مغربی ہیومن رائیٹ کے علمبرداروں کا عقد متعہ کو Prostitution قرار دینا
عقد متعہ کے حوالے سے ایک مسئلہ یہ بھی پیش آتا ہے جب مغربی ہیومن رائیٹ کے علمبردار عقد متعہ کو لیگل طوائفی Legal Prostitution قرار دیتے ہیں۔
ان حضرات کی خدمت میں عرض ہے کہ:
پہلا: یہ مغربی ہیومن رائیٹ ایکٹیوسٹ تو مغرب میں لڑکی اور لڑکے کے مابین بغیر شادی کے تعلق کو بھی جائز جانتے ہیں۔ تو پھر یہ کیسے عقد متعہ کو Prostitution قرار دے سکتے ہیں؟
دوسرا: ان حضرات کا دوسرا اور آخری آرگومنٹ یہ ہوتا ہے کہ مغرب کے بوائے فرینڈ/گرل فرینڈ تعلقات اور عقد متعہ میں فرق یہ ہے کہ عقد متعہ میں عورت کو حق مہر کے نام پر رقم دی جاتی ہے جو کہ طوائفوں کو رقم دینے کے برابر ہے اور عورت کی تذلیل ہے۔
ان مغربی حضرات کو بڑی غلط فہمی ہے کیونکہ عقد متعہ میں حق مہر کی رقم کا تعلق ہے تو یہ دونوں فریقین کے درمیان معاہدے کی بنیاد پر ہے اور اگر عورت رقم لینے کو اپنی تذلیل محسوس کرتی ہے تو وہ اس سے بے شک انکار کر سکتی ہے۔ چنانچہ صرف عورت کو حق مہر کے نام پر رقم دینے کو اسکی تذلیل قرار دینا کیونکر صحیح ہو سکتا ہے؟
آج مغرب میں بوائے فرینڈ/گرل فرینڈ کے تعلقات میں بھی بہت جگہ آپکو نظر آئے گا کہ گرل فرینڈ کام پر نہیں جاتی بلکہ گھر میں رہتی ہے اور بوائے فرینڈ گھر کے اور اپنی گرل فرینڈ کے تمام اخراجات برداشت کرتا ہے۔ تو کیا اس چیز کو بھی آپ Prostitution کا نام دیں گے؟دیکھئے مرد کی طرف سے عورت کیلئے پیسہ خرچ کرنا دونوں کیسز میں شامل ہے، مگر ایک کیس کو آپ طوائفی قرار دیں اور دوسرے کو نہیں تو یہ آپکے ڈبل سٹینڈرڈز ہوئے کہ نہیں؟
نوٹ: حق مہر کی یہ رقم صرف عقد متعہ تک محدود نہیں بلکہ اسلام میں یہ حق مہر کی رقم عقد نکاح میں بھی بعینہ ایسے ہی نافذ ہے کہ ایک دفعہ جماع کرنے کے بعد ہر صورت یہ رقم واجب کرنا مرد پر واجب ہو جاتا ہے، اور اسکا مقصد سوسائٹی میں عورت کو سپورٹ کرنا ہے اسکی تذلیل کرنا نہیں۔ پچھلے زمانے کو چھوڑیں، آجکے زمانے میں بھی حتی کہ مغرب میں بھی عورت کا زیادہ تر انحصار پیسے کے لیے مرد پر ہی ہے۔
عقد متعہ مغرب کے اس بوائے فرینڈ/گرل فرینڈ تعلقات سے ہر حال میں بہتر ہے کیونکہ:
1۔ اس میں پیدا ہونے والے بچوں کے باپ کا تعین یقینی ہے جبکہ مغرب کے بوائے فرینڈ/گرل فرینڈ میں اکثر پتا ہی نہیں چلتا کہ بچے کا باپ کون ہے کیونکہ لڑکی عدت گذارے بغیر لڑکے کے ساتھ ہمبستری کر رہی ہوتی ہے۔ یا پھر اکثر ایک بوائے فرینڈ کی ساتھ ساتھ مزید کئی لڑکوں کے ساتھ سو رہی ہوتی ہے۔ اسی وجہ سے آج مغرب میں لاکھوں کی تعداد میں ایسے بچے پروان چڑھ رہے ہیں جنہیں اپنے باپ کا سرے سے پتا ہی نہیں ہے کہ انکا باپ کون ہے۔
2۔ اور پھر بچہ پیدا ہو جائے اور لڑکی چاہے کہ وہ بچے پر پورا حق جما لے تو بوائے فرینڈ کے پاس کوئی اختیار ہی نہیں ہے کہ وہ اپنے بچے پر اپنا کوئی حق ثابت کر سکے۔
اور بھی بہت سے مسائل ہیں جو آج مغرب کو بوائے فرینڈ/گرل فرینڈ کے نام پر برداشت کرنے پڑ رہے ہیں مگر اس آرٹیکل میں گنجائش نہیں کہ اس پر تفصیلی بات کی جائے۔
قبل اسکے کہ ہم نکاح المتعہ پر بحث شروع کریں، بہت لازمی ہے کہ اس بحث سے متعلق کچھ دو اہم باتوں پر ایک نظر ضرور سے ڈال لیں کہ اس سیاق کے بغیر ہمارے ذہن قابل نہ ہو پائیں گے کہ ہم صحیح فیصلہ کر پائیں۔
1۔ اسلام میں کنیز عورت سے وقتی تعلقات
"آج" متعہ کو زنا کہا جاتا ہے کیونکہ اس میں ایک وقت مقررہ طے ہوتا ہے جسکے بعد خود بخود طلاق ہو جاتی ہے۔ مگر گذارش ہے کہ اسلام میں کنیز عورت کے مسئلے کو سامنے رکھیں جس کے تحت علماء کا اجماع ہے کہ کنیز عورت کے ساتھ وقتی تعلقات کے بعد اس کو اسکا آقا آگے کسی اور شخص کو فروخت کر سکتا ہے. یہ نیا آقا اس کنیز عورت سے دوبارہ ہمبستری کر سکتا ہے، اور اسکے بعد اسے تیسرے آقا کو فروخت کر سکتا ہے۔۔۔۔
اسی طرح فقہائے کا اجماع ہے کہ اگر مالک کی اجازت سے اگر اس کی کنیز سے کوئی دوسرا شخص عقد کرتا ہے، تو یہ عقد بھی دائمی نہیں ہوتا، اور جب مالک چاہے، اپنی کنیز کو اس تیسرے شخص کے عقد سے نکال کر خود اس سے ہمبستری کر سکتا ہے یا پھر کسی چوتھے سے اسکی شادی کر سکتا ہے، اس طرح یہ چیز بھی عقد دائمی نہیں، بلکہ شروع وقت سے ہی عارضی و وقتی ہے اور ایسی طلاق کو اسلام میں ہرگز مکروہ یا غیر پسندیدہ بھی نہیں قرار دیا ہے جیسا کہ نکاح دائمی والی آزاد عورت کے معاملے میں طلاق ناپسندیدہ ترین فعل ہے۔صحیح مسلم [عربی ورژن ، آنلائن لنک]
صحیح مسلم [آنلائن لنک انگلش ورژن حدیث 3371]
صحابی ابو سعید خدری کہتے ہیں کہ جنگ کے بعد چند خوبصورت عرب عورتیں انکے قبضے میں آئیں اور صحابہ کو انکی طلب ہوئی کیونکہ وہ اپنی بیویوں سے دور تھے۔ مگر ساتھ ہی ساتھ میں صحابہ چاہتے تھے کہ وہ ان کنیز عورتوں کو بیچ کر فدیہ بھی حاصل کریں۔ چنانچہ صحابہ نے عزل سے کام لیا [یعنی سفاح کرتے وقت اپنے عضو تناسل باہر نکال کر پانی گرایا تاکہ وہ عورتیں حاملہ نہ ہو سکتیں اور انکی اچھی قیمت مل سکے]۔ پھر انہوں نے اللہ کے رسول ص سے اسکے متعلق پوچھا تو رسول اللہ ص نے فرمایا کہ تم چاہو یا نہ چاہو مگر اگر کسی روح کو پیدا ہونا ہے تو وہ پیدا ہو کر رہے گی۔
عزل والی یہ روایت صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں کئی طریقے سے روایت ہوئی ہے۔
1۔ امام ابن ابی شیبہ، عبد بن حمید، ابن جریر اور ابن منذر نے صحابی ابن مسعود سے روایت نقل کی ہے خاوند والی عورت تجھ پر حرام ہے مگر جسے تو اپنے مال سے خریدے۔ وہ کہا کرتے تھے کہ لونڈی کو بیچنا اسکی طلاق ہے۔
2۔ نیز امام ابن جریر نے صحابی عبداللہ ابن مسعود سے روایت نقل کی ہے کہ جب لونڈی کو بیچ دیا جائے جبکہ اسکا خاوند بھی ہو تو اسکا آقا اس کے بضعہ (وطی کا محل) کا زیادہ حقدار ہے۔ [تفسیر طبری، روایت 7139 آنلائن لنک ]
3۔ امام ابن جریر طبری نے حضرت ابن عباس سے روایت نقل کی ہے لونڈی کی طلاق کی چھ صورتیں ہیں(مالک کا) اسکو بیچنا اسکی طلاق ہے، اسکو آزاد کرنا اسکی طلاق ہے، (مالک کا) اسکو (اپنے باپ یا بھائی کو) ہبہ کرنا اسکی طلاق ہے، اسکی برات اسکی طلاق ہے، اسکے خاوند کی طلاق اسکو طلاق ہے۔[تفسیر طبری روایت 7135 ]
"نکاح المتعہ" پر اختلاف آج شیعہ و سنی برادران کے مابین نہیں، بلکہ یہ صحابہ کے مابین اٹھنے والا اختلاف تھا
ایک اور بہت ہی اہم بات یہ ہے کہ ہمیں "نکاح المتعہ" کی "تاریخ" کا مکمل طور پر علم ہونا چاہیے، ورنہ اسکی غیر موجودگی میں یہ بات "فرقہ وارانہ" رنگ لے سکتی ہے (جیسا کہ آجکل تاریخ نے ناواقفیت کی بنیاد پر یہ چیز واقعی میں فرقہ وارانہ رنگ میں سامنے آتی ہے)۔
علامہ ابن حجر العسقلانی نکاح المتعہ کے متعلق لکھتے ہیں:
التَّلْخِيص الْحَبِير فِي تَخْرِيج أَحَادِيث الرَّافِعِيّ الْكَبِير < الصفحة
قَالَ : وَقَدْ ثَبَتَ عَلَى تَحْلِيلِهَا بَعْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَمَاعَةٌ مِنْ السَّلَفِ , مِنْهُمْ مِنْ الصَّحَابَةِ أَسْمَاءُ بِنْتُ أَبِي بَكْرٍ , وَجَابِرُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ , وَابْنُ مَسْعُودٍ , وَابْنُ عَبَّاسٍ , وَمُعَاوِيَةُ , وَعَمْرُو بْنُ حُرَيْثٍ , وَأَبُو سَعِيدٍ , وَسَلَمَةُ , وَمَعْبَدُ بْنُ أُمَيَّةَ بْنِ خَلَفٍ , قَالَ وَرَوَاهُ جَابِرٌ عَنْ الصَّحَابَةِ مُدَّةَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , وَمُدَّةَ أَبِي بَكْرٍ وَمُدَّةَ عُمَرَ إلَى قُرْبِ آخِرِ خِلَافَتِهِ , قَالَ : وَرُوِيَ عَنْ عُمَرَ أَنَّهُ إنَّمَا أَنْكَرَهَا إذَا لَمْ يَشْهَدْ عَلَيْهَا عَدْلَانِ فَقَطْ , وَقَالَ بِهِ مِنْ التَّابِعِينَ طَاوُسٌ وَعَطَاءٌ , وَسَعِيدُ بْنُ جُبَيْرٍ , وَسَائِرُ فُقَهَاءِ مَكَّةَ قَالَ : وَقَدْ تَقَصَّيْنَا الْآثَارَ بِذَلِكَ فِي كِتَابِ الْإِيصَالِ , انْتَهَى كَلَامُهُ . فَأَمَّا مَا ذَكَرَهُ عَنْ أَسْمَاءَ فَأَخْرَجَهُ النَّسَائِيُّ مِنْ طَرِيقِ مُسْلِمٍ الْقَرِّيِّ قَالَ : { دَخَلْت عَلَى أَسْمَاءَ بِنْتِ أَبِي بَكْرٍ فَسَأَلْنَاهَا عَنْ مُتْعَةِ النِّسَاءِ , فَقَالَتْ : فَعَلْنَاهَا عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ }
امام ابن حجر العسقلان علامہ ابن حزم کے حوالے سے ان صحابہ اور تابعین کے ناموں کی لسٹ مہیا کر رہے ہیں جو کہ نکاح المتعہ کو حلال جانتے تھے۔ آپ لکھتے ہیں:
"رسول اللہ صل اللہ علیہ و آلہ وسلم کی وفات کے بعد بھی سلف کی ایک جماعت عقد متعہ کو حلال جانتی تھی۔ اور صحابہ میں سے یہ اسماء بنت ابی بکر، جابر بن عبداللہ انصاری، ابن مسعود، ابن عباس، معاویہ، عمروہ بن حریث، ابو سعید، سلمۃ اور معبد بن امیہ بن خلف وغیرہ ہیں۔ اوربیان ہے کہ صحابی جابر بن عبداللہ انصاری نے دیگر صحابہ سے روایت کی ہے کہ عقد متعہ حلال و جاری رہا رسول اللہ ص کے زمانے میں، اور پھر حضرت ابو بکر کے زمانے میں، اور پھر حضرت عمر کے دور خلافت کے تقریبا آخر تک۔ اور پھر وہ آگے روایت کرتے ہیں کہ پھر حضرت عمر نے اس سے منع کر دیا اگر دو عادل گواہ نہ ہوں۔ تابعین میں سے جو عقد متعہ کو حلال جانتے تھے ان میں طاؤس، عطاء، سعید بن جبیرشامل ہیں، اور پھر اہل مکہ کے فقہاء کی اکثریت عقد متعہ کو حلال جانتی تھی۔۔۔ اور پھر جو حضرت اسماء بنت ابی بکر کے متعلق روایت ہے، جسے نسائی نے مسلم القری سے روایت کیا ہے کہ وہ کہتے ہیں: "ہم حضرت اسماء بنت ابی بکر کے پاس گئے اور ہم نے اُن سے عقد المتعہ کے متعلق سوال کیا۔ اس پر انہوں نے جواب دیا کہ: "ہم رسول اللہ صل اللہ علیہ و آلہ وسلم کے زمانے میں نکاح المتعہ کیا کرتے تھے۔"
اس لیے گذارش یہ ہے کہ اختلافات پر بات کرنے سے قبل ہمیں "اختلاف رائے قبول کرنے" پر بات کرنی چاہیے۔ عقد متعہ کی مختصر تاریخ یہ ہی ہے کہ یہ مسئلہ "آج" کا پیداکردہ نہیں ہے، بلکہ یہ صحابہ کرام کے مابین شروع ہوا، اور ان تمام ترصدیوں کا سفر طے کرتا ہوا آج ہم تک پہنچا ہے۔
اگر یہ دو ضمنی مسائل (کنیز عورت اور متعہ النساء کی تاریخ) واضح ہو چکے ہوں، تو آئیے اب متعہ النساء کے اوپر براہ راست گفتگو شروع کرتے ہیں۔
متعہ اور زنا میں کیا فرق ہے؟
عقد متعہ میں وہ تمام تر قوانین اور شرائط موجود ہیں جو کہ عقد نکاح میں موجود ہوتے ہیں، سوائے اسکے کہ مقررہ وقت کے بعد طلاق ہو جاتی ہے۔
- محرم عورتوں سے عقد متعہ حرام ہونا (نکاح کی طرح):
عقد متعہ صرف اُن خواتین کے ساتھ کیا جا سکتا ہے جو کہ خونی رشتے یا رضاعی رشتوں کی وجہ سے حرام نہ ہوں۔ [بالکل ایسے ہی جیسا کہ عقد نکاح میں یہ شرائط موجود ہیں] ۔ کنیز عورت کی صورت میں بھی صرف اُسی کنیز عورت سے ہمبستری کی جا سکتی ہے جو کہ محرمات میں سے نہ ہو۔
مگر زنا میں ایسی کوئی شرط نہیں ہوتی اور حتی کہ محرمات کے ساتھ تک کھلا زنا کیا جاتا ہے۔
[نوٹ: اسی طرح عقد متعہ فقط مسلمان یا اہل کتاب عورت سے کیا جا سکتا ہے جبکہ زنا میں کسی مذہب کی کوئی شرط نہیں] - عدت گذار کر عورت کا پاک صاف ہونا:
عقد متعہ صرف ایسی عورت کے ساتھ کیا جا سکتا ہے جو کہ عدت کا عرصہ گذار کر اپنے پچھلے شوہر سے پاک صاف ہو چکی ہو۔ [اسی طرح کنیز عورت سے صرف اس صورت میں ہمبستری کی جا سکتی ہے جب وہ عدت گذار کر پاک صاف ہو چکی ہو]۔ اسی طرح عقد متعہ میں جب مقررہ وقت کے بعد عورت و مرد میں جدائی ہوتی ہے تو عورت پر پھر عدت کا زمانہ گذارنا واجب ہو جاتا ہے۔
جبکہ زنا میں عدت اور پاک صاف ہونے کا کوئی تصور نہیں۔ بلکہ زنا میں ایک عورت ایک ہی دن میں کئی کئی مردوں کے ساتھ سوتی ہے۔ بلکہ اس سے بڑھ کر زنا میں گروپ سیکس کیا جاتا ہے۔
- عدت کا عرصہ:
نیز یہ کہ متعہ میں عدت کا زمانہ عام تقریبا دو مہینے ہے [جبکہ عقد نکاح میں یہ زمانہ تقریبا تین مہینے ہوتا ہے] ۔ بعض لوگ اس کم وقت پر اعتراض کرتے ہیں، مگر ان حضرات کو دیکھنا چاہیے کہ اہلسنت برادران کی فقہ میں کنیز عورت کا استبرائے رحم اس سے بھی کہیں کم یعنی ایک ماہواری ہے اور اسکے بعد اسکا نیا مالک اس سے ہمبستری کر سکتا ہے۔
۔ امام رضا علیہ السلام کی روایت ہے امام محمد باقر علیہ السلام نے ارشاد فرمایا: متعہ کا عدہ ۴۵ دن ہے۔ [فروع کافی]
۔ زرارہ کی روایت ہے کہ متعہ کا عدہ ۴۵ دن ہوتا ہے گویا اس وقت میری نظروں میں پھر رہا ہے کہ امام محمد باقر اپنی انگلیوں پر ۴۵ دن شمار کرکے بتلا رہے ہیں۔ پس جب مدت مقررہ گذر جائے تو یہ ان دونوں کی جدائی ہوگی۔ بغیر طلاق کے۔
نیز اہلحدیث فقہ میں آزاد عورت اگر خلع حاصل کرے تو اسکی عدت فقط ایک حیض ہے
ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں ثابت بن قیس رضی اللہ تعالی عنہ کی بیوی نے اپنے خاوند سے خلع کیا تونبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے ایک حیض عدت گزارنے کا حکم دیا ۔
سنن ترمذی حدیث نمبر ( 1185 ) سنن ابوداود حدیث نمبر ( 2229 ) اورامام نسائي رحمہ اللہ تعالی نے ربیع بنت عفراء سے حدیث بیان کی ہے سنن نسائي حدیث نمبر ( 3497 ) دونوں حدیثوں کو حافظ ابن قیم رحمہ اللہ تعالی نے صحیح قرار دیا ہے جس کا ذکر آگے آئے گا ۔
حوالہ: islam-qa.com - اولاد کے باپ کا تعین:
اور عقد متعہ اور کنیز عورت کی مسئلے کی صورت میں اسی عدت کی وجہ سے یہ ممکن ہوتا ہے کہ یہ یقین کی حد تک پتا ہو کہ بچے کا باپ کون ہے (جیسے نکاح میں یقین ہوتا ہے]۔ اور عقد متعہ یا ام الولد کنیز سے پیدا ہونے والے اس بچے کی تمام تر ذمہ داری اور نان و نفقہ باپ پر عائد ہوتی ہے اور اس بچے کو بعینہ وہی تمام حقوق حاصل ہیں جو کہ عقد نکاح کی صورت میں پیدا ہونے والے بچے کو حاصل ہوتے ہیں (مثلا وراثت کا مسئلہ ، اسکی تعلیم و تربیت کی تمام ذمہ داری باپ پر ہے وغیرہ وغیرہ]۔ ان حقوق میں ذرا برابر بھی فرق نہیں چاہے یہ بچہ عقد نکاح سے پیدا ہوا ہو یا پھر عقد متعہ یا ام ولد والی کنیز عورت سے۔
اسکے مقابلے میں زنا کاری کے نتیجے میں پیدا ہونے والے بچے کا تعلق باپ سے سرے سے ہی نہیں ہے اور نہ وہ اسکا وارث ہے اور نہ باپ اسے اپنا نام دے سکتا ہے۔
حضرت عمر کے اپنے بیٹے کی گواہی کہ متعہ زنا نہیں
جو حضرات ابتک نکاح متعہ کو زنا قرار دینے پر مصر ہیں، انکے لیے خود حضرت عمر کے اپنے فرزند عبداللہ ابن عمر کی گواہی کافی ہے۔ مسند احمد بن حنبل میں ابن عمر کے متعلق یہ روایت درج ہے:
حدثنا عفان حدثنا عبيد الله بن إياد قال حدثنا إياد يعني ابن لقيط عن عبد الرحمن بن نعيم الأعرجي قال
سأل رجل ابن عمر وأنا عنده عن المتعة متعة النساء فغضب وقال والله ما كنا على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم زنائين ولا مسافحين ثم قال والله لقد سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول ليكونن قبل المسيح الدجال كذابون ثلاثون أو أكثر
قال أبي و قال أبو الوليد الطيالسي قبل يوم القيامة
ترجمہ: عفان نے عبید اللہ سے، انہوں نے ایاد سے، انہوں نے عبدالرحمن ابن نعیم سے روایت کی ہے: ایک شخص نے صحابی عبداللہ ابن عمر سے متعہ، متعہ النساء کے متعلق پوچھا۔ اس پر ابن عمر غصے ہو گئے اور قسم کہا کر کہنے لگے کہ ہم رسول اللہ (ص) کے زمانے میں زناکار و سفاح کار نہیں تھے۔ پھر آگے کہنے لگے کہ میں اللہ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میں نے رسول (ص) کو فرماتے سنا ہے کہ دجال کے آنے سے قبل 30 کذاب آئیں گے۔
حوالہ: مسند احمد بن حنبل، جلد 2، حدیث 5546
یہی روایت مسند احمد بن حنبل میں ابو ولید سے بھی مروی ہے۔ [حوالہ: مسند احمد بن حنبل، جلد 2، حدیث 5436]
رسول ص کی گواہی کہ متعہ زنا نہیں بلکہ پاکیزہ و طیبات میں سے ہے
جو لوگ ابن عمر کی گواہی کے باوجود نکاح متعہ کو زنا قرار دیتے ہیں، وہ یقینا رسول اللہ ص کی اس گواہی کو بھی کسی نہ کسی بہانے جھٹلا دیں گے کہ جہاں اللہ کا رسول ص خود گواہی دے رہا ہے کہ عقد متعہ پاکیزہ طیبات میں سے ہے۔
صحیح بخاری [آنلائن لنک]حدثنا عمرو بن عون حدثنا خالد عن إسماعيل عن قيس عن عبد الله رضي الله عنه قال
كنا نغزو مع النبي صلى الله عليه وسلم وليس معنا نساء فقلنا ألا نختصي فنهانا عن ذلك فرخص لنا بعد ذلك أن نتزوج المرأة بالثوب ثم قرأ
يا أيها الذين آمنوا لا تحرموا طيبات ما أحل الله لكم
ترجمہ:
عبداللہ ابن مسود فرماتے ہیں کہ وہ رسول اللہ ص کے ساتھ غزوات میں مصروف تھے اور اُنکی بیویاں انکے ہمراہ نہیں تھیں۔ چنانچہ انہوں نے رسول اللہ ص سے پوچھا کہ آیا گناہ کے خوف سے نجات پانے کے لیے وہ خود کو خصی (اعضائے شہوانی کا کانٹا) کر لیں۔ اس پر رسول اللہ ص نے انہیں منع فرمایا اور انہیں رخصت دی کہ وہ عورتوں کے ساتھ کسی کپڑے کے عوض مقررہ مدت تک نکاح کریں اور پھر رسول اللہ ص نے یہ آیت تلاوت فرمائی:
[القرآن 5:87] يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ لاَ تُحَرِّمُواْ طَيِّبَاتِ مَا أَحَلَّ اللّهُ لَكُمْ وَلاَ تَعْتَدُواْ إِنَّ اللّهَ لاَ يُحِبُّ الْمُعْتَدِينَ
اے ایمان والو! جو پاکیزہ چیزیں اللہ نے تمہارے لئے حلال کی ہیں انہیں (اپنے اوپر) حرام مت ٹھہراؤ اور نہ (ہی) حد سے بڑھو، بیشک اللہ حد سے تجاوز کرنے والوں کو پسند نہیں فرماتا
کیا لسان نبوت کی اس گواہی کے بعد بھی کوئی شقی القلب عقد متعہ کو زنا کہنے کی جرات کر سکتا ہے؟
چند انتہا پسند حضرات اپنی فرقہ وارانہ عصبیت میں مبتلا ہو کر عقد متعہ کو زنا کہنےسے پھر بھی بعض نہیں آتے۔ یہ ایک بہت خطرناک چیز ہے، کیونکہ تمام مسلمانوں کا اس پر اجماع ہے کہ کم از کم 7 ہجری تک (یعنی رسول ص کی وفات کے تین سال قبل تک) صحابہ اور صحابیات نے رسول اللہ ص کی اجازت بلکہ حکم سے عقد متعہ کیے۔ چنانچہ جب یہ لوگ متعہ کو زناکاری کا الزام دیں گے تو یہ چیز ان صحابہ اور صحابیات کے لیے سب سے پہلے گالی بن جائے گا جو رسول اللہ ص کی اجازت بلکہ حکم پر عقد متعہ کرتے رہے۔ کاش کہ یہ لوگ اس بات کو سمجھ سکیں۔
پھر بھی احتمال کہ طوائفیں متعہ کو اپنے دھندے کے لیے استعمال کر سکتی ہیں
بلاشبہ عقد متعہ پاکیزہ و طیبات میں سے ہے اور اسکا زناکاری سے کوئی لینا دینا نہیں۔ مگر پھر بھی کچھ برادران کے اذہان میں یہ سوال اٹھتا ہے کہ بے شک متعہ پاکیزہ و طیب ہو، مگر خطرہ ہے کہ طوائفیں عقد متعہ کو اپنے دھندے کے لیے استعمال کر سکتی ہیں۔ تو نوٹ کیجئے کہ:
- اسلام اکثر حالات کے تحت کچھ سہولیات فراہم کرتا ہے۔ اور اگر لوگ اس سہولت کو Misuse کرتے ہیں تو یہ اُن لوگوں کا جرم و گناہ ہے نہ کہ اسلام کا۔
- اور یہ یقین رکھیں کہ اگر دھندہ کروانا ہی ہے تو کنیز عورتوں کی مدد سے یہ دھندا کہیں زیادہ اچھے طریقے سے کروایا جا سکتا ہے کیونکہ اسلام مالک کو اجازت دیتا ہے کہ وہ اپنی کنیز کو ایک شخص کے نکاح میں عارضی طور پر دے اور پھر واپس لے کر دوسرے شخص سے نکاح کر دے، اور پھر دوسرے سے واپس لے کر تیسرے سے نکاح کر دے۔۔۔
- اور تاریخ میں ایسے واقعات ملتے ہیں کہ لوگوں نے اس چیز کا ناجائز فائدہ اٹھانا چاہا، اور اللہ نے قرآن میں ایسے لوگوں کو تنبیہ کی۔
تو یہ قصور اسلام کا نہیں تھا، بلکہ مجرم وہ لوگ ہیں جنہوں نے اس چیز کا غلط استعمال کیا۔
اسلام نے ضرورت کے تحت کنیز باندیوں کا سلسلہ جاری رکھا تھا اور انکی تعداد پر پابندی نہ لگائی، مگر پھر آپ نے سنا کہ حرم میں ان کنیز عورتوں کی تعداد کئی کئی سو سے بھی تجاوز کر گئی۔ مگر یہ اسلام کا قصور نہیں بلکہ ان لوگوں کا اپنا قصور تھا۔ - اور عقد متعہ کر کے کے کوئی طوائف اپنا بزنس جاری نہیں رکھ سکتی، کیونکہ اُسے اگر ہر گاہک کے جانے کے بعد دو مہینے کی عدت رکھنی پڑی تو اُسکے ایک سال میں گاہکوں کی تعداد 6 تک پہنچتی ہے۔ نتیجہ یہ ہو گا کہ ایسی طوائف کا بزنس بہت جلد ٹھپ ہو جائے گا۔
[اور یہ بھی یاد رکھئیے کہ عقد متعہ میں عدت کی معیاد دو مہینے تک بنتی ہے جبکہ اہلسنت فقہ کے مطابق کنیز عورت باندی کا ایک ماہواری آ جانے کے بعد ہی استبرائے رحم ہو جاتا ہے اور اسکے بعد اگلا مالک اس سے ہمبستری کر سکتا ہے۔ اس لحاظ سے بھی اگر کوئی بزنس کا ارادہ بھی رکھتا ہے تو وہ کنیز عورت کے استعمال کی طرف جائے گا بجائے عقد متعہ کے]
جابر بن عبداللہ انصاری سے روایت ہے:
کسی انصاری کی ایک کنیز رسول ص کے پاس آئی اور کہا: میرا مالک مجھے بدکاری پر مجبور کرتا ہے۔ اس پر اللہ نے قرآن میں یہ آیت نازل فرمائی: اور اپنی کنیزوں کو بدکاری پر مجبور نہ کرو جبکہ وہ عفت و پاکدامنی چاہتی ہیں۔(القرآن 24:33)
نان و نفقہ [نکاح بالمقابل متعہ]
نکاح میں دو طرح کی شرائط ہوتی ہیں:
1۔ وہ شرائط جو بنیادی ہیں۔ مثلا محرم عورت سےنکاح کی ممانعت کی شرط، عدت کی شرط، بچے کی ذمہ داری کی شرط وغیرہ۔ یہ شرائط کبھی تبدیل نہیں ہو سکتیں۔
2 ۔ وہ شرائط جو ثانوی ہیں اور معاہدے کے تحت ان میں رد و بدل کیا جا سکتا ہے۔ مثلا عورت اپنے نان و نفقے اور گھر کی شرط، یا وقت اور باری کی شرط سے دستبردار ہو سکتی ہے (جیسا آجکل مسیار شادی میں عرب ممالک میں ہوتا ہے جہاں عورت اپنے یہ حقوق چھوڑتی ہے)
یہی چیز عقد متعہ کے لیے بھی درست ہے۔ بنیادی طور پر عقد متعہ میں عورت نان نفقہ نہیں رکھتی، مگر اگر وہ عقد متعہ کے لیے یہ شرائط رکھ دے، اور شوہر اسے قبول کرے تو پھر اس عورت کو بھی نان نفقہ دینا پڑے گا۔
میراث [نکاح بالمقابل متعہ]
عقد متعہ میں مرد اور عورت ایک دوسرے سے میراث نہیں پاتے۔
کیوں؟
جواب بہت سادہ ہے کہ عقد متعہ میں ایک مقررہ وقت کے بعد ان میں طلاق ہو جاتی ہے۔ اور اہلسنت کے تمام فقہ اس بات پر متفق ہیں کہ نکاح کے بعد طلاق یافتہ ہونے والی عورت کو بھی میراث میں سے حصہ نہیں ملتا۔
مگر اگر عقد متعہ کرتے وقت میراث کی شرط رکھ دی جائے، تو اس صورت میں میراث بھی جاری ہو گی۔ امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں: "اگر عقد کرتے وقت میراث کی شرط کر لی جائے تو پھر اس شرط کی ادائیگی واجب ہے [وسائل الشیعہ، جلد 4، صفحہ 486]
ابو بصیر سے روایت ہے کی: "شرائط متعہ میں ضروری ہے کہ مرد عورت سے کہے میں تجھ سے شادی کرتا ہوں بطور متعہ اتنے دن کے لئے اتنے مہر پر شرعی طریقہ سے بغیر عنوان نا مشروع کے کتاب خدا و سنت نبی ﷺ کے مطابق اس طرح کہ تجھے میری میراث نہیں ملے گی اور نہ میں تیرا وارث ہوں گا اور تجھ کو (افتراق کے بعد) ۴۵ دن عدہ رکھنا ضروری ہوگا۔ "
اہل تشیع کے علاوہ اہلسنت کا بھی یہ مانتے ہیں کہ عقد متعہ میں میراث نہیں ہوتی تھی۔مثلا امام اہلسنت ابن جریر طبری مشہور تابعی امام التفسیر سدی سےآیت 4:24 کی ذیل میں روایت کرتے ہیں:{(استمتاع) اس سے مراد عقد متعہ ہے۔ ایک مرد عورت سے معین مدت کے لیے شرط کے ساتھ نکاح کرتا تھا۔ جب مدت ختم ہو جاتی تھی تو مرد کا عورت پر کوئی اختیار نہ ہوتا۔ وہ عورت اس سے آزاد ہوتی۔ عورت پر لازم ہوتا کہ وہ اپنا رحم خالی کرتی۔ اسکے درمیان وراثت جاری نہ ہوتی کوئی ایک دوسرے کا وارث نہ ہوتا۔[لنک تفسیر طبری، آیت 4:24 ]}۔ چنانچہ اہل تشیع نے عقد متعہ کو جوں کا توں ہی جاری رکھا ہے جیسا رسول اللہ ص کے زمانے میں صحابہ و صحابیات کے مابین رائج تھا اور اس میں اپنی طرف سے میراث کی ممانعت نہیں کی ہے۔مزید یہ دیکھئیے کہ اہلسنت علماء کے نزدیک ذیل کی عورتوں کو میراث نہیں ملتی (چاہے وہ نکاح سے ہی کیوں نہ بیوی بنی ہوں)
1۔ اگر عورت کو طلاق ہو جائے۔
2۔ اگر عورت اہل کتاب سے ہو (اور یہ بات برادران اہلسنت کی فقہ میں حدیث سے ثابت ہے اور اس پر وہ میراث والی قرآنی آیت کا اطلاق نہیں کرتے۔ مگر کچھ انتہا پسند حضرات میراث کی قرآنی آیت کی بنیاد پر عقد متعہ کو حرام ٹہراتے ہیں حالانکہ عقد متعہ کی صورت میں بھی حدیث موجود ہے کہ اس میں میراث نہیں ہوتی)
3۔ ایسی عورت جس نے اپنے مرد کو قتل کر دیا ہو۔ (اور یہ بات بھی حدیث سے ثابت ہے اور اس بنیاد پر اس پر میراث والی قرآنی آیت کا اطلاق نہیں کیا جاتا)
4۔ کنیز باندی کو میراث میں سے حصہ نہیں ملے گا۔ اسی طرح کنیز باندی کو اگر کسی دوسرے شخص کے نکاح میں دیا ہے تو اُس شخص سے بھی کنیز عورت کو میراث نہیں ملے گی۔ اور یہ بات بھی اہلسنت فقہ میں حدیث سے ثابت ہے۔
ان سب معاملات میں حدیث سے ہونے والی اس تخصیص کو مانا جاتا ہے، مگر جب عقد متعہ کی بات آتی ہے تو پھر کچھ لوگ منکر حدیث قرآنسٹ بن جاتے ہیں اور پھر اس قرآنی آیت کی وجہ سے باقی سب چیزوں کو چھوڑ کر فقط عقد متعہ کو حرام قرار دینے لگتے ہیں۔
زن ممتوعہ بھی زوجہ ہی ہے
پہلے دعوی کیا جاتا ہے کہ زن ممتوعہ زوجہ نہیں ہے کیونکہ یہ 4 آزاد نکاح والی عورتوں کی قید میں شامل نہیں، اور پھر سورہ مومنون سے ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ متعہ حرام ہے:
[سورۃ المومنون آیت 5 اور 6] اور جو اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرتے رہتے ہیں. سوائے اپنی ازواج کے یا ان باندیوں کے جو ان کے ہاتھوں کی مملوک ہیں۔
اہل تشیع صدیوں سے چیخ چیخ کر کہہ رہے ہیں کہ:
1۔ ہمارے فقہ کے مطابق زن ممتوعہ بھی زوجہ ہی مانی جاتی ہے۔
2۔ اور رسول اللہ ص کے زمانے میں چار آزاد عورتوں سے نکاح دائمی کی قید کے باوجود رسول اللہ ص نے خود زن ممتوعہ کو زوجہ ہی قرار دیا اور اس پر اس چار والی قید نہیں لگائی۔
یہ دیکھئیے رسول اللہ ص کی اپنی گواہی کہ زن ممتوعہ بھی زوجہ ہے۔
صحیح بخاری [آنلائن لنک]
حدثنا عمرو بن عون حدثنا خالد عن إسماعيل عن قيس عن عبد الله رضي الله عنه قال
كنا نغزو مع النبي صلى الله عليه وسلم وليس معنا نساء فقلنا ألا نختصي فنهانا عن ذلك فرخص لنا بعد ذلك أن نتزوج المرأة بالثوب ثم قرأ
يا أيها الذين آمنوا لا تحرموا طيبات ما أحل الله لكم
ترجمہ:
عبداللہ ابن مسود فرماتے ہیں کہ وہ رسول اللہ ص کے ساتھ غزوات میں مصروف تھے اور اُنکی بیویاں انکے ہمراہ نہیں تھیں۔ چنانچہ انہوں نے رسول اللہ ص سے پوچھا کہ آیا گناہ کے خوف سے نجات پانے کے لیے وہ خود کو خصی (اعضائے شہوانی کا کانٹا) کر لیں۔ اس پر رسول اللہ ص نے انہیں منع فرمایا اور انہیں رخصت دی کہ وہ عورتوں کے ساتھ کسی کپڑے کے عوض مقررہ مدت تک تزویج کریں اور پھر رسول اللہ ص نے یہ آیت تلاوت فرمائی:
[القرآن 5:87] يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ لاَ تُحَرِّمُواْ طَيِّبَاتِ مَا أَحَلَّ اللّهُ لَكُمْ وَلاَ تَعْتَدُواْ إِنَّ اللّهَ لاَ يُحِبُّ الْمُعْتَدِينَ
اے ایمان والو! جو پاکیزہ چیزیں اللہ نے تمہارے لئے حلال کی ہیں انہیں (اپنے اوپر) حرام مت ٹھہراؤ اور نہ (ہی) حد سے بڑھو، بیشک اللہ حد سے تجاوز کرنے والوں کو پسند نہیں فرماتا
اب لسان نبوت جب خود گواہی دی رہی ہے کہ عقد متعہ میں عورت کے ساتھ تزویج ہے اور وہ اس بنا پر زوجہ کے حکم میں ہے تو پھر کون ہمت کر سکتا ہے کہ پھر بھی اپنے قیاسی گھوڑے دوڑا کر دعوی کرے کہ زن ممتوعہ زوجہ میں شمار نہیں؟
زن ممتوعہ کا سوگ میں بیٹھنا:
زن ممتوعہ کی عدت طلاق کی صورت میں دو حیض ہیں۔ مگر اگر اس دوران شوہر کا انتقال ہو جائے تو پھر عدت کے ساتھ اُسے سوگ بھی رکھنا ہو گا۔ زرارہ کی روایت ہے کہ: " میں نے امام محمد باقر سے پوچھا کہ کیا ہے عدہ متعہ کا جبکہ اس شخص کا انتقال ہو جائے جس سے متعہ کیا تھا؟ حضرت نے فرمایا۔ چار مہینہ دس دن پھر فرمایا کہ ہر قسم کے نکاح میں جب شوہر مرجائے تو زوجہ کو خواہ آزاد ہو کنیز اور نکاح جس طرح کا ہو متعہ ہو یا دائمی یا ملک یمین بہر حال عدہ وہی چار مہینہ دس دن ہوگا۔"
مغربی ہیومن رائیٹ کے علمبرداروں کا عقد متعہ کو Prostitution قرار دینا
عقد متعہ کے حوالے سے ایک مسئلہ یہ بھی پیش آتا ہے جب مغربی ہیومن رائیٹ کے علمبردار عقد متعہ کو لیگل طوائفی Legal Prostitution قرار دیتے ہیں۔
ان حضرات کی خدمت میں عرض ہے کہ:
پہلا: یہ مغربی ہیومن رائیٹ ایکٹیوسٹ تو مغرب میں لڑکی اور لڑکے کے مابین بغیر شادی کے تعلق کو بھی جائز جانتے ہیں۔ تو پھر یہ کیسے عقد متعہ کو Prostitution قرار دے سکتے ہیں؟
دوسرا: ان حضرات کا دوسرا اور آخری آرگومنٹ یہ ہوتا ہے کہ مغرب کے بوائے فرینڈ/گرل فرینڈ تعلقات اور عقد متعہ میں فرق یہ ہے کہ عقد متعہ میں عورت کو حق مہر کے نام پر رقم دی جاتی ہے جو کہ طوائفوں کو رقم دینے کے برابر ہے اور عورت کی تذلیل ہے۔
ان مغربی حضرات کو بڑی غلط فہمی ہے کیونکہ عقد متعہ میں حق مہر کی رقم کا تعلق ہے تو یہ دونوں فریقین کے درمیان معاہدے کی بنیاد پر ہے اور اگر عورت رقم لینے کو اپنی تذلیل محسوس کرتی ہے تو وہ اس سے بے شک انکار کر سکتی ہے۔ چنانچہ صرف عورت کو حق مہر کے نام پر رقم دینے کو اسکی تذلیل قرار دینا کیونکر صحیح ہو سکتا ہے؟
آج مغرب میں بوائے فرینڈ/گرل فرینڈ کے تعلقات میں بھی بہت جگہ آپکو نظر آئے گا کہ گرل فرینڈ کام پر نہیں جاتی بلکہ گھر میں رہتی ہے اور بوائے فرینڈ گھر کے اور اپنی گرل فرینڈ کے تمام اخراجات برداشت کرتا ہے۔ تو کیا اس چیز کو بھی آپ Prostitution کا نام دیں گے؟دیکھئے مرد کی طرف سے عورت کیلئے پیسہ خرچ کرنا دونوں کیسز میں شامل ہے، مگر ایک کیس کو آپ طوائفی قرار دیں اور دوسرے کو نہیں تو یہ آپکے ڈبل سٹینڈرڈز ہوئے کہ نہیں؟
نوٹ: حق مہر کی یہ رقم صرف عقد متعہ تک محدود نہیں بلکہ اسلام میں یہ حق مہر کی رقم عقد نکاح میں بھی بعینہ ایسے ہی نافذ ہے کہ ایک دفعہ جماع کرنے کے بعد ہر صورت یہ رقم واجب کرنا مرد پر واجب ہو جاتا ہے، اور اسکا مقصد سوسائٹی میں عورت کو سپورٹ کرنا ہے اسکی تذلیل کرنا نہیں۔ پچھلے زمانے کو چھوڑیں، آجکے زمانے میں بھی حتی کہ مغرب میں بھی عورت کا زیادہ تر انحصار پیسے کے لیے مرد پر ہی ہے۔
عقد متعہ مغرب کے اس بوائے فرینڈ/گرل فرینڈ تعلقات سے ہر حال میں بہتر ہے کیونکہ:
1۔ اس میں پیدا ہونے والے بچوں کے باپ کا تعین یقینی ہے جبکہ مغرب کے بوائے فرینڈ/گرل فرینڈ میں اکثر پتا ہی نہیں چلتا کہ بچے کا باپ کون ہے کیونکہ لڑکی عدت گذارے بغیر لڑکے کے ساتھ ہمبستری کر رہی ہوتی ہے۔ یا پھر اکثر ایک بوائے فرینڈ کی ساتھ ساتھ مزید کئی لڑکوں کے ساتھ سو رہی ہوتی ہے۔ اسی وجہ سے آج مغرب میں لاکھوں کی تعداد میں ایسے بچے پروان چڑھ رہے ہیں جنہیں اپنے باپ کا سرے سے پتا ہی نہیں ہے کہ انکا باپ کون ہے۔
2۔ اور پھر بچہ پیدا ہو جائے اور لڑکی چاہے کہ وہ بچے پر پورا حق جما لے تو بوائے فرینڈ کے پاس کوئی اختیار ہی نہیں ہے کہ وہ اپنے بچے پر اپنا کوئی حق ثابت کر سکے۔
اور بھی بہت سے مسائل ہیں جو آج مغرب کو بوائے فرینڈ/گرل فرینڈ کے نام پر برداشت کرنے پڑ رہے ہیں مگر اس آرٹیکل میں گنجائش نہیں کہ اس پر تفصیلی بات کی جائے۔
*****************