فریق مخالف پر حجت قائم کر لینے سے پہلے کیا خود اپنا موقف اپنا نکتہ نظر اپنے ماخذات و کتب کی روشنی میں بیان کر دینا ضروری نہیں ہوتا؟؟؟
اپنی کتب کے حوالوں سے بیان کیجئے
1۔ کیا کنواری سے متعہ کے لیے ولی کی شرط ہے یا نہیں( اور بغیر ولی کی اجازت کے کنوری سے نکاح مکروہ ہے، یا بالکل ہی حرام ہے یا ہو جاتا ہے)
2۔ایک شخص بیک وقت کتنی عورتوں سے متعہ کر سکتا ہے ۔ 1،2،3،4،5،6، 1000 یا اس کی کوئی حد نہیں ہے۔
3۔کیا متعہ کے لیے اعلان ضروری ہے کیا اس کے لیے گواہوں کی ضرورت ہوتی ہے؟
4۔ جس عورت سے متعہ کیا جارہا ہے اس کا پاک دامن ہونا شرط ہے یا نہیں؟
5۔ کیا کسی قسم کی توثیق ضروری ہے؟
6۔جس عورت سے متعہ کیا جائے اس کو مہر دیا جاتا ہے یا اجرت۔اور یہ اجرت یا مہر کم از کم کتنا ہو سکتا ہے؟
7۔ کیا رہائش ، نان و نفقہ ضروری ہوتا ہے؟
8۔کیا استحقاق مہر یا اجرت کے لیے کوئی خاص مدت/شرط ہے؟؟
9۔ کیا کسی زانیہ کے ساتھ متعہ منعقد ہو جاتا ہے؟
10۔ کیا کسی زانیہ مشہورہ کے ساتھ متعہ منعقد ہوجاتا ہے؟
11۔کیا متعہ میں عدت وفات ہے؟؟
12۔ اگر متعہ نکاح ہی ہے تو کیا اگر ایک شخص اپنی بیوی کو تین طلاق دے دے اور پھر وہ کسی کے ساتھ بقول آپ کے نکاح متعہ کرے تو کیا وہ اپنے پہلے شوہر کے لیے جائز ہوجائے گی؟؟
13۔متعہ میں میراث جاری نہیں ہوتی یہ ایک اور فرق نکاح اور متعہ میں ( کیونکہ یہ آپ قبول چکی ہیں)
14۔ کیا متعہ غیر مسلم اورغیر اہل کتاب مثلا مجوسی عورت کے ساتھ کیا جاسکتا ہے؟
15۔ متعہ سے پہلے کیا اس امر کی تحقیق کی ضرورت ہے کہ وہ عورت پہلے سے شادی شدہ ہے یا نہیں؟
16۔ جس عورت سے متعہ کیا جائے وہ کیا زوجہ یا بیوی کہلاتی ہے یا کچھ اور؟؟
17۔کیا متعہ ایک ہاشمی، سید زادی کے ساتھ جائز ہے اگر ہاں تو کیا آپ کے بارہ اماموں میں سے کسی نے بھی متعہ کیا ہے اگر کیا ہے تو اس کی تفصیل اور اس متعہ سے پیدا ہونے والی اولاد کی تفصیل؟؟
18۔ متعہ کیا اہل تشیع کے نزدیک ضروریات دین میں سے ہے؟؟
19۔ اگر کوئی شخص متعہ کو نا مانے تو اس کا حکم کیا ہے وہ مسلم ہے یا دین سے خارج ہے؟؟
20۔ اگر متعہ سے انکاری مسلم ہے تو کیا اس کا ایمان کامل ہے یاناقص؟؟
21۔ جو شخص پہلے ہی سے ایک وقت میں چار بیویاں رکھتا ہو وہ متعہ کر سکتا ہے یا نہیں ؟
22۔ متعہ دوریہ کیا ہے اور بطور خاص قاضی نور اللہ شوستری کا اس بارے میں کیا بیان ہے؟
23۔ ملا فتح اللہ کاشانی ساحب تفسیر منہج الصادقین نے متعہ کے کیا فضائل بیان کیے ہیں؟
24۔ ملا باقر مجلسی نے متعہ کے کیا فضائل بیان کیے ہیں۔
فی الحال میں ان ہی سوالات پر اکتفا کرتا ہوں۔ ایک بار متعہ کے باب میں آپ کی طرف سے یہ وضاحتیں مل جائیں تو امید ہے کہ اس مسئلہ کو سمجھنے میں آسانی رہے گئی۔
شاید درج ذیل سے بھی کچھ جواباب مل جائيں۔
كتب شیعہ كے آئینہ میں تعارف متعہ
كتب شیعہ كے آئینہ میں تعارف متعہ
تحفۃ العوام میں ہے۔'عورت كہے۔۔متعتك نفسی فی المدۃ والمعلومۃ بالمبلغ المعلوم ۔
مرد كہے۔۔قبلت المتعہ لنفسی فی المدۃ بالمبلغ المعلوم ۔
تحفۃ العوام مصنفہ سید ابو الحسن الموسوی الاصفہانی شیعی حصہ دوم صفحہ نمبر ٣٠٣ مطبوعہ لكھنو
ترجمہ:عورت مرد كو یوں كہے كہ میں نے اپنے آپ كو مدت معلوم كے لیے چند معین ٹكوں كے عوض تیرے متعہ میں دیا اور مرد اس كے جواب میں كہے كہ میں نے اس متعہ كو اپنی ذات كے لیے چند ٹكوں كے عوض معین وقت كے لیے قبول كیا ۔
الاستبصار میں ہے
عن زرارہ قال سالت ابا عبد اللہ علیہ السلام عن رجل تزوج متعۃ بغیر شھود قال لا باس بالتزویج البتۃ بغیر شھود فیما بینہ وبین اللہ عزوجل وانما جعل الشھود فی تزویج البتۃ من اجل الولد ولولا ذلك لم یكن بہ باس ۔
الاستبصار جلد سوم ص ١٤٨ فی جواز العقد علی المراۃ متعہ بغیر شہود مطبوعہ تہران طبع جدید
ترجمہ:زرارہ نے كہا كہ میں نے حضرت امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ سے ایسے شخص كا حكم پوچھا جس نے بغیر گواہوں كے عقد متعہ كیا تو آپ نے ارشاد فرمایا كہ اس آدمی اور اللہ تعالی كے مابین انعقاد كے لیے گواہوں كی كوئی ضرورت نہیں ۔ ہاں ایسے نكاح میں گواہوں كی ضرورت لازمی ہوتی ہے جس میں اولاد كی تمنا ہو اور اگر خواہش اولاد نہ ہو ۔( محض شہوت كو ٹھنڈا كرنا ہو ) تو پھر گواہوں كے بغیر بھی نكاح درست ہے (متعہ میں چونكہ صرف خواہشات اور شہوت نفس كو پورا كرنا مقصود ہوتا ہے اولاد مقصود نہیں ہوتی اور اگر بھولے سے صورت متعہ میں عورت حاملہ ہوجائے تو اس سے پیدا شدہ بچہ كا نسب متعہ كرنے والے سے نہیں ہوتا لہذا اس میں گواہوں كی كوئی ضرورت نہیں ۔)
فروع كافی میں ہے
عن ابی جعفر علیہ السلام فی المتعہ قال لیست من الاربع لانھا لا تطلق ولا ترث وانما ھی مستاجرۃ
فروع كافی جلد پنجم س ٤٥١ كتاب النكاح باب انھن بمنزلۃ الامائ ولیست من الاربع مطبوعہ تہران طبع جدید
ترجمہ:امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ سے متعہ كے متعلق روایت ہے كہ آپ نے فرمایا كہ جس عورت سے متعہ كیا جاتا ہے وہ ان چار عورتوں میں شامل نہیں جن كی شریعت نے بیك وقت نكاح میں ركھنے كی اجازت دی ۔(اگر چار بیویاں كسی كے ہاں پہلے سے موجود ہوں ۔ تو بطریق متعہ پانچویں چھٹی سے وطی جائز ہے اور قرآن كے احكام كے خلاف نہ ہوگا ) كیونكہ بطور متعہ نكاح میں آئی ہوئی عورت كو نہ طلاق كی ضرورت ہوتی ہے نہ ہی متعہ كرنے والے خاوند كی وارث بن سكتی ہے وہ تو صرف ایك كرایہ پر لی گئی عورت ہے ۔
فروع كافی میں ہے
زرارۃ عن ابیہ عن ابی عبد اللہ علیہ السلام قال ذكرت لہ المتعۃ اھی من الاربع ؟ فقال تزوج منھن الفا فانھن مستا جرات
فروع كافی جلد پنجم ص ٤٥٢ كتاب النكاح باب انھن بمنزلۃ الا مائ ولیست من الاربع مطبوعہ تہران طبع جدید
ترجمہ:زرارہ كا باپ حضرت امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ سے روایت كرتا ہے كہ میں نے امام موصوف سے متعہ كے متعلق دریافت كیا ۔كہ متعہ سے نكاح میں آنے والی عورت چار عورتوں میں سے ہے ؟ (جن كی شریعت نے بیك وقت نكاح میں لانے كی اجازت دی ) تو آپ نے فرمایا تو ایسی ہزار عورتوں سے نكاح كرلے ( تو بھی وہ كسی شمار میں نہیں كیونكہ ) وہ تو كرایہ پر لی گئی عورتیں ہیں ۔
فروع كافی میں ہے
عن ابراہیم بن الفضل عن ابان بن تغلب قال قلت لابی عبد اللہ علیہ السلام انی اكون فی بعض الطرقات فاری المراۃ الحسنائ والا امن ان تكون ذات بعل اومن العوا ھر قال لیس ھذا علیك انما علیك ان تصدقھا فی نفسھا
فروع كافی جلد پنجم كتاب النكاح ص ٤٦٢ باب انھا مصدقہ علی نفسھا مبطوعہ تہران طبع جدید
ترجمہ:ابان ابن تغلب نے كہا كہ میں نے حضرت امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ سے دریافت كیا كہ میں ایك مرتبہ حالت سفر میں تھا تو میں نے ایك خوبصورت عورت دیكھی لیكن مجھے اس بارے میں كوئی یقین نہ تھا كہ وہ شادی شدہ ہے یا بدكار ہے (لیكن میں اس سے جنسی تعلقات كا خواہش مند تھا تو كیا اس عورت كے بیان پر مجھے یقین كرلینا چاہیے اور اس سے متعہ كرلینا چاہیے اگر وہ كنواری یا بے خاوند ہونا ظاہر كرے تو امام جعفر نے فرمایا تجھے اس بارے میں چھان بین كرنے كی كیا پڑی ہے بس اتنا كافی ہے كہ تو اس كے كہنے پر اس كی تصدیق كرلے (اور اس سے متعہ كرلے )
تہذیب الاحكام میں ہے
محمد عن بعض اصحابنا عن ابی عبد اللہ علیہ السلام قال قیل لہ ان فلانا تزوج امراۃ متعۃ فقیل لہ ان لھا زوجا فسالھا فقال ابو عبد اللہ علیہ السلام ولم سالھا ۔
تہذیب الاحكام جلد ٧٨ ص ٢٥٣ فی تفصیل احكام النكاح مطبوعہ تہران طبع جدید )
ترجمہ:راوی بیان كرتا ہے كہ امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ سے دریافت كیا گیا كہ فلاں آدمی نے ایك عورت سے نكاح متعہ كیا تو اس آدمی كو بتایاگیاكہ اس عورت كاتو خاوند موجود ہے (اور یہ اس كے نكاح میں ہے )تو متعہ كے طور پر عقد كرنے والے نے اس عورت سے اس بارے میں پوچھا ْ یہ سن كر امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ نے اس سوال كے جواب میں فرمایا اس آدمی نے اس عورت سے كیوں پوچھا ؟ ( یعنی عقد كے لیے جب یہ كوئی شرط نہیں كہ عورت كنواری ہو ۔ یا خاوند كے بغیر ہو یا خاوند والی ہو تو پھر اس كی تحقیق كی كیا ضرورت تھی ۔)
تہذیب الاحكام میں ہے
عن زرارۃ قال سال عمار وانا عندہ عن الرجل الزی یتزوج الفاجرۃ متعۃ قال لا باس ۔
تہذیب الاحكام جلد ٧ ص ٢٥٣ فی تفصیل احكام النكاح مطبوعہ تہران طبع جدید
ترجمہ:زرارہ كہتا ہے كہ میری موجودگی میں عمار نے امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ سے اس شخص كے بارے میں دریافت كیا كہ جس نے عقد نكاح كے طور پر ایك اوباش (كنجری)عورت سے نكاح كر ركھا ہے ۔(اس كا كیا حكم ہے ؟) فرمایا اس میں قطعا كوئی حرج نہیں ہے ۔
من لا یحضرہ الفقیہہ میں ہے
وری عن یونس بن عبد الرحمن قال سالت الرضا علیہ السلام عن رجل تزوج امراۃ متعۃ فعلم بھا اھلا فزوجوھا من رجل فی العلانیۃ وھی امراۃ صدق قال لا تمكن زوجھا من نفسھا حتی تنقضی عد تھا وشرطہا قلت ان كان شرطہا سنۃ ولا یصبر لھا زوجھا قال فلیتق اللہ زوجھا ولیتصدق علیھا بما بقی لہ ۔
من لا یحضرہ الفقیہہ جلد سوم ص ٢٩٤ باب المتعہ مطبوعہ تہران جدید
ترجمہ:یونس بن عبد الرحمان كہتا ہے كہ میں نے امام رضا رضی اللہ عنہ سے ایك ایسے آدمی كے بارے میں دریافت كیا كہ جس نے ایك عورت سے عقد متعہ كرلیا تھا پھر جب اس عورت كے خاوند یا گھروالوں كو اس عقد كا علم ہوا تو انہوں نے اس عورت كا نكاح صحیح كسی اور آدمی سے كردیا اور علی الاعلان یہ نكاح كیا لیكن ابھی اس عورت كو عقد متعہ كا حق مہر لینا تھا ۔( اس سوال كے جواب میں امام موصوف نے فرمایا ) وہ عورت اپنے صحیح اور نئے خاوند كو اپنے ساتھ اس وقت تك ہم بستری نہ كرنے دے جب تك عقد متعہ كی عدت اور شرط پوری نہ ہوجائے راوی كہتا ہے میں نے عرض كیا اگر اس عقد متعہ كی شرط ایك سال كی ہو ؟ (تو پھر بھی یہ شرط پوری كرنی چاہیے ) اور ادھر خاوند كی یہ حالت ہو كہ وہ اتنی مدت تك صبر نہ كرسكتا ہو ؟ تو اس پر امام موصوف نے فرمایا كہ اس كے خاوند كو خوف خدا كرنا چاہیے اور بقیہ مدت متعہ كا اس پر صدقہ كردے (یعنی متعہ ہی میں گزارنے دے )
فروع كافی میں ہے
عن زرارۃ عن ابی جعفر علیہ السلام قال قلت لہ جعلت فداك الرجل یتزوج المتعۃ وینقضی شرطہا ثم یتزوجھا رجل اخر حتی بانت منہ ثم یتزوجھا الاول حتی بانت منہ ثلاثا وتزوجت ثلاثہ ازوج یحل للاول ان یتزوجھا قال نعم كم یشائ لیس ھذہ مثل الحرۃ ھذہ مستاجرۃ وھی بمنزلۃ الاماء ۔
فروع كافی جلد پنجم ص ٤٦ كتاب النكاح باب الرجل یتمتع بالمراۃ مرارا كثیرۃ مطبوعہ تہران طبع جدید
ترجمہ:زرارہ نے كہا كہ میں نے امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ سے پوچھا میں آپ پر قربان كوئی آدمی كسی عورت سے جس شرط پر متعہ كرے وہ پوری ہوجائے پھر اسی عورت سے كوئی دوسرا شخص متعہ كرے حتی كہ وہ عورت اس سے بھی جدا ہوجائے اور پھر وہی پہلا آدمی اس سے متعہ كرے یہاں تك كہ وہ عورت اس سے تین دفعہ جدا ہوئی اور تین مردوں نے اس سے نكاح متعہ كیا تو كیا اسی عورت كا پہلے مرد سے ایك مرتبہ پھر عقد متعہ جائز ہے ؟ آپ نے فرمایا كیوں نہیں ۔ جتنی دفعہ چاہے متعہ كرے كیونكہ یہ حرہ (آزاد) عورت كی طرح نہیں بلكہ یہ تو اجرت پر لی گئی عورت ہے اور اس كا حكم لونڈیوں جیسا ہے ۔
فروع كافی میں ہے
عن ھشام بن سالم قال قلت كیف یتزوج المتعۃ قال تقول یا امۃ اللہ اتزوجك كذا وكذا یوما بكذا وكذا درھما فاذا مضت تلك الایام كان طلاقھا من شرطھا ولا عدۃ لھا علیك ای یجوز لك تزویج الاخت فی عدتھا
فروع كافی حاشیہ و فروع كافی جلد پنجم كتاب النكاح باب شروط المتعہ ٤٥٥ تا ٤٥٦ مطبوعہ تہران طبع جدید
ترجمہ:ہشام بن سالم سے روایت ہے كہ كہ میں نےامام جعفر صادق رضی اللہ عنہ سے دریافت كیا كہ یا حضرت ! نكاح متعہ كیونكر كیا جاتا ہے ؟ تو آپ نے اس كا طریقہ بیان یوں ارشاد فرمایا كہ نكاح متعہ كرنے والا مطلوبہ عورت كو كہے اے اللہ كی بندی ! میں تجھ سے چند دنوں كے لیے چند درہموں كے عوض نكاح كرتا ہوں سو جب مذكورہ دن گزر جائیں تو طلاق خود بخود ہوجائے گی اور ایسی عورت كی كوئی عدت نہیں یعنی نكاح متعہ كرنے والے كو اسی متمتع عورت كی سگی بہن سے دوران عدت ( جوعام طور پر طلاق كے بعد یوتی ہے ) نكاح كرنا جائز ہے ۔
فروع كافی میں ہے
عن زرارۃ عن ابی عبد اللہ علیہ السلام قال لا تكون متعۃ الا بامرین اجل مسمی واجر مسمی
فروع كافی جلد پنجم س ٤٥٥ كتاب النكاح باب شروط المتعۃ مطبوعہ تہران طبع جدید
ترجمہ:امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ سے زرارہ روایت كرتا ہے كہ امام موصوف نے فرمایا : متعہ كے دو ركن ہیں مدت مقررہ اور اجرت مقررہ ۔
فروع كافی میں ہے
عن الاحوال قال قلت لابی عبد اللہ علیہ السلام ادنی مایتزوج بہ المتعۃ ؟ قال كف من بر ۔
١۔فروع كافی جلد پنجم ص ٤٥٧ كتاب النكاح باب ما یجزی من المھر فیھا مطبوعہ تہران طبع جدید
٢۔تہذیب الاحكام جلد پنجم ص ٢٦٠ فی تفصیل احكام النكاح مطبوعہ تہران طبع جدید
ترجمہ:احوال كہتا ہے میں نے امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ سے پوچھا كہ متعہ كی كم از كم اجرت كتنی ہے ؟ تو وہ فرمانے لگے مٹھی بھر گندم كافی ہے ۔
تہذیب الاحكام میں ہے
عن ابی عبد اللہ علیہ السلام قال تمتع بالھا سمیۃ ۔ (ایضا) والا باس بالتمتع بالھا شمیۃ
تہذیب الاحكام جلد ہفتم ص ٢٧١ فی تفصیل احكام النكاح مطبوعہ تہران طبع جدید
ترجمہ:امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ نے فرمایا كہ ہاشمی عورت سے متعہ كرنے میں كوئی گناھ نہیں ۔
تہذیب الاحكام میں ہے
ولیس فی المتعۃ اشھاد ولا اعلان
تہذیب الاحكام جلد ہفتم ص ٢٦١ فی تفصیل احكام النكاح مطوعہ تہران طبر جدید
ترجمہ:نكاح متعہ میں نہ گواہی كی ضرورت ہے اور نہ ہی اعلان ہے ۔(مرد عورت دونوں تنہا چپكے چپكے یہ نكاح كرلیں تو بھی درست ہے )
مذكورہ حوالہ جات سے فقہ جعفری كے مندرجہ ذیل مسائل فقہیہ ثابت ہوئے
١۔نكاح متعہ كے لیے نہ گواہی كی ضرورت ہے اور نہ ہی اعلان كی ۔
٢۔متعہ كے بعد چھوڑی گئی عورت پر نہ كسی قسم كی عدت لازم ہے اور نہ اسے جدا كرنے كے لئے طلاق كی ضرورت ۔
٣۔اس عقد میں نہ اولاد كی جستجو ہوتی ہے اور نہ ہی میراث مقصود ۔بلكہ یہ مرد و زن كا مخصوص رقم كے عوض مخصوص وقت تك خواہشات نفسانی كی تكمیل كا ایك باہمی ذریعہ ہے ۔(جو شہوت رانی كا آسان طریقہ ہے )
٤۔اس عقد میں عورتوں كی تعداد كی پابندی نہیں ۔ چنانچہ اگر كوئی مرد بیك وقت ستر عورتوں سے عقد متعہ كرے ۔ اور باری باری ان سے لطف اندوز ہو تو كوئی مضائقہ نہیں ۔ كوئی عجیب نہیں ۔ اور كوئی بے حیائی نہیں ۔
٥۔ایك عورت سے بیسیوں مرتبہ متعہ ہوسكتا ہے اور ہزار مردوں سے ایك عورت متعہ كرسكتی ہے اور سینكڑوں مرتبہ متعہ كرنے والے سے جدا ہونے كے بعد پھر بھی اجرت مقررہ پر جب چاہے وہ مرد اسے نكاح متعہ میں لاسكتا ہے اس میں حرمت غلیظہ كا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔
٦۔قرآن مجید میں جن محرمات سے عقد كرنا ناجائز اور حرام قرار دیا گیا ہے اور والمحصنات من النسائ میں جن كی صراحت كی گئی ہے ان سے متعہ كرنے كی كھلی چھٹی ہے ۔
٧۔جس عورت سے كسی نے متعہ كیا ۔ اگر اس كی سگی بہن سے فورا (عدت گزارے بغیر) نكاح (عقد متعہ) كرلے تو كوئی حرج نہیں ۔(كیونكہ نہ طلاق كی ضرورت نہ عدت كا انتظار )
٨۔مٹھی بھر گندم دے كر كسی عورت كی بكنگ جائز ہے ۔(اتنا سستا شاید ہی كوئی سودا ہو )
٩۔شیعی نفس پرستوں اور شہوت نفسانی كے بندوں میں متعہ اس قدر كثیر الوقوع ہے كہ اس میں كسی قسم كی عورت كی استثناء نہیں ۔ خاندان نبوت (بنو ہاشم) سے ہو یا كوئی طائفہ اور بازارہ عورت ۔ سب سے بلا امتیاز جائز اور درست ہے ۔(العیاذ باللہ)
اللہ تعالی ایسے ناعاقبت اندیشوں اور ایمان سے عاری اور عقل كے اندھوں سے بچائے ۔جنہوں نے تكمیل خواہشات نفسانیہ كے نشہ میں احترام خاندان نبوت كا بھی لحاظ نہ كیا ۔
ضیائ القرآن میں پیرکرم شاہ الازہری نے بھی یہی لکھا ہے۔کہ امامیہ حضرات کے نزدیک خاندانِ نبوت کی عورتوں سے متعہ جائز ہے۔
چوں خدا خواہد كہ پردہ كس ورد
میلش اند طعنہ پاكاں ركند !!
اولئك كالانعام بل ھم اضل