قوانین انسانوں کے لئے ہی بنائے جاتے ہیں اور انسانوں کے باہمی فائدے کے لئے بنائے جاتے ہیں جن قوانین سے کوئی شخص یا معاشرے کا کوئی طبقہ متاثر ہو رہا ہو وہ ایک لادین معاشرے میں بھی قابل قبول نہیں ہوتے اور نہ بنائے جاتےہیں چہ جائیکہ دین فطرت دین اسلام میں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اب دیکھیں ایک کنواری دوشیزہ متعہ کرتی ہے چند دن کیلئے
1۔ آہ، میری غلطی کہ میں یہ ایک بنیادی مسئلہ بیان کرنا بھول گئی کہ "کنواری دوشیزہ" سے عقد متعہ کرنا "مکروہ" ہے اور صرف انتہائی حالات کے تحت ہی ولی کی اجازت سے ایسا عقد ہو سکتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس متعہ سے اس کی معاشرتی حیثیت میں نقصان ہوا کہ فائدہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نکاح دائمی کے لئے اس کی حیثیت کمزور ہو گئی ۔۔۔۔ تو یہ ایک ایسا قانون ہوا جو کہ معاشرے کے ایک طبقے کو متاثر کررہا ہے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور پھر فرض کریں کہ ہر مردو و زن ذمہ داریوں سے پیچھا چھڑانے کی خاطر صرف متعہ پر ہی انحصار کرتا ہے ، اور کرے گا بھی جب کم مشکل سے زیادہ فائدہ مل رہا ہے تو زیادہ مشکل کون اٹھائے گا تو محترم بہن ذرا سوچئے معاشرے کا کیا حشر ہو گا۔۔۔۔۔۔۔۔
2۔ دوسری چیز جسے آپ پھر نظر انداز کر گئے وہ یہ ہے کہ پچھلی پوسٹ میں واضح کیا گیا تھا کہ "نکاح دائمی" کو ہر حالت میں عقد المتعہ پر فوقیت ہے اور یہ سفر یا ایسے ملتے جلتے انتہائی حالات میں ہی کیا جاتا ہے۔
3۔ اور محترم بھائی صاحب،
آپ جو اوپر "ڈر" بیان کر رہے ہیں کہ متعہ ہوتے ہوئے کوئی نکاح دائمی نہ کرے گا کہ یہ آسان طریقہ ہے، تو پھر غور فرمائیے کہ عقد المتعہ سے کہیں زیادہ اور کہیں بڑھ کر طریقہ تھا کنیز عورتوں سے فائدہ اٹھانا اور اسلامی تاریخ میں مسلسل کنیز عورتوں سے لوگ ہمبستری کرتے رہے اور انکے بڑی تعداد انکے حرموں میں موجود رہی،۔۔۔۔ مگر اسکے باوجود آزاد عورتوں سے نکاح بھی ہوتے رہے۔ چنانچہ آپکا یہ "ظن" یا "قیاس" پر مشتمل آرگومنٹ کا اطلاق عقد متعہ سے کہیں پہلے کنیز باندیوں پر ہو جاتا ہے اور حیرت کہ لوگ 14 سو سالوں سے یہاں کبھی "معاشرے کی رضامندی" جیسا آرگومنٹ لے کر نہیں آئے۔
4۔ اور پھر محترم بھائی صاحب،
آپ یہ بھی دیکھئے کہ صحابہ کرام مسلسل رسول اللہ، حضرت ابو بکر اور حضرت عمر کے دور کے آخر تک ضرورت کے تحت عقد متعہ کرتے رہے اور کبھی بھی وہ پرابلمز پیدا نہیں ہوئیں جن کا دھڑکا آپکو اوپر لگا ہوا ہے۔
از شوکت بھائی:
پچھلے زمانے میں زیادہ شادیوں کا چلن تھا جس کی بہت سی وجوہات تھیں۔ جن میں صحت کا اعلٰی معیار، امارت، جنگ و جدل وغیرہ شامل ہیں۔ اور آج کل شادیاں کم ہونے میں مغربی سٹینڈرڈ کا کوئی عمل دخل نہیں بلکہ انہی چیزوں کی کمیابی ہے جو کہ پہلے زمانے میں عام تھیں۔۔۔۔۔۔۔۔ مثلا صحتوں کا گرتا ہوا معیار ہمارے ہاں تو اوسط عمر ہی 50 سال ہے، دوسرے غربت اور تیسرے ہندو معاشرے کا اثر
میں آپ کی غربت اور صحت والے آرگومنٹ کو Partially قبول کرتی ہوں، جبکہ تیسرا ہندو کے زیر اثر آنے والے آرگومینٹ تو بذات خود میرے حق جاتا ہے جب میں نے کہا تھا کہ ہمارے معاشرے میں انگریزوں کے زیر اثر آنے کے بعد ایک سے زیادہ شادیوں کو اتنی بری نظر سے دیکھا جانے لگا کہ شاید ہی ہزاروں میں ایک شخص آج دو بیویاں رکھتا ہو۔
اور غربت معاشرے کے صرف ایک حصے تک ہے، جبکہ معاشرے میں امراء کا ایک بہت بڑا ایسا طبقہ موجود ہے جس کے پاس بے انتہا دولت ہے، مگر وہ بھی معاشرے کے دباؤ کے تحت ایک وقت میں آفیشیلی ایک سے زیادہ بیویاں نہیں رکھتا، بلکہ اکثر اپنی ہوس مٹانے کے لیے گندے بازاروں کا رخ کر لیتا ہے۔ چنانچہ یہ غربت والا آرگومنٹ بھی مکمل نہیں ہے اور نہ ہی صحت والا آرگومنٹ مکمل طور پر لاگو ہوتا ہے کہ ہمارا نوجوان طبقہ آج مسلسل انٹرنیٹ پر اور ٹی وی پر اور معاشرے میں غلط حرکتیں کرتا ہے اور یہاں اسکی صحت اسے منع نہیں کرتی کہ وہ ایسا نہ کرے۔
از شوکت بھائی:
اور جہاں تک رہی بات خواتیں کے ختنہ کی تو وہ ایک مخصوص معاشرے کی حد تک ہے ۔۔۔ اور جہاں تک رہی بات ہمارے معاشرے کی تو اس میں ایسا ممکن ہی نہیں۔۔۔۔
یہ چیز پھر میرے ہی حق میں جا رہی ہے جہاں میں نے کہا تھا کہ معاشرے کا سٹینڈرڈ کوئی چیز نہیں ہے اور اسی لیے "اسلامی معاشرہ" بھی اپنے رسوم و رواج کی بنیادوں پر ایسا Divide ہوا ہے کہ اسلامی معاشرے کا ایک حصہ اس لڑکیوں کے ختنے کو دل و جان سے قبول کرے، اسے مکرم سمجھے۔۔۔۔ جبکہ اسی اسلامی معاشرے کے دوسرے حصے میں کسی سے پوچھ کر دیکھ لیں وہ اسے انسانی فطرت سلیم پر گالی قرار دے گا کہ بچیوں کی ختنہ کے نام پر یوں کانٹ پیٹ کی جائے۔
*****************
اور انسانی عقل سلیم کی گفتگو بالکل الگ ہے اور اسے چھیڑنے کا کوئی فائدہ نہیں۔
بات بہت سادہ اور آسان سی تھی کہ خاص حالات میں (جیسے آجکل ہمارے نوجوان طلباء اور دیگر لوگ مغربی ممالک جاتے ہیں) تو وہ حالات کے تحت اپنے آپ کو گناہ سے بچانے کے لیے نکاح دائمی کر لیں۔ لیکن اگر انہیں واپس ملک پلٹنا ہے یا پھر کوئی اور وجوہات ہیں جن کی بنا پر مستقل دائمی تعلق قائم نہیں رہ سکتا، تو پھر وہ عقد متعہ کر کے خود کو گناہ سے بچائیں۔
آپ عقد متعہ پر عقل سلیم اور معاشرتی رضامندی جیسی شرائط عائد کرتے ہیں، مگر عقد متعہ کے بغیر جو زناکاری اور برائیاں نوجوانوں میں اور انٹرنیٹ اور ٹی وی اور میڈیا کی وجہ سے آج پیدا ہوتی ہیں، انہیں آپ کی عقل سلیم کیونکر تسلیم نہیں کر رہی اور کیوں ان سے کبوتروں کی طرح ہم آنکھیں بند کیے بیٹھے ہیں؟
آئیے سعودی معاشرے کی پھر مثال لیں۔ سعودی معاشرہ سب سے زیادہ اسلامی تصور کیے جانے والا معاشرہ ہے، یہاں پیسہ بھی بہت کہ انسان جلد از جلد شادی کر لے۔ چنانچہ اسلامی لحاظ سے اس سے زیادہ آئیڈیل معاشرتی کنڈیشن کہیں اور نہیں ملے گی۔
مگر اوپر آپ دیکھ چکے ہیں کہ پھر بھی سعودی مرد انڈونیشیا جا کر کیا کچھ کر رہے ہیں۔
اسی طرح کیا آپ کو علم ہے کہ سعودیہ، بلکہ مکہ مکرمہ جیسے مقدس شہر میں "سیکس شاپ" کھل رہی ہیں؟ ایک ڈسکشن فورم پر یہ ٹاپک کسی نے شروع کیا تھا، مجھے گوگل کرنے دیں۔۔۔۔ جی ہاں، یہاں ذیل کی خبر دیکھئے:
Ann Summers to open sex shop in Mecca
By Andrew Alderson and Rajeev Syal
Published: 12:00AM BST 27 Aug 2000
ANN Summers, the sex shop and lingerie chain, has been granted permission to open 22 shops in the Middle East,
including one in the holy city of Mecca.
The Telegraph has learned that "erotic stock" has already been shipped to Kuwait in preparation for the opening of the first shops in October.
The branch in Saudi Arabia will be at the Mecca International Mall. Permission to open the stores was obtained through the company's Kuwait-based franchise, Makae/Top Ten International
LINK
آپ سے درخواست ہے کہ آپ عقل سلیم اور معاشرتی رضامندی کی جب بات کریں تو ایک نظر آج کے اسلامی اور ہمارے اپنے معاشرے پر ڈال لیں جہاں مردوں کی شادی کی عمریں 25 تا 30 سال تک پہنچنے والی ہیں اور ہمارا معاشرہ آنکھیں بند کر کے خود کو دھوکا دے رہا ہے کہ یہ لوگ 30 سالوں تک فرشتوں کی زندگیاں گذارتے رہیں گے جبکہ صحابہ کرام بلند ایمانی درجات ہونے کے پھر بھی قرآنی گواہی کے مطابق انسانی فطرت کے شہوانی تقاضوں سے پریشان ہو کر 30 راتوں میں گناہ میں مبتلا ہونے کو تھے اور پھر اللہ نے اپنا خاص کرم فرمایا اور اس مشکل سے نجات دی۔
اور آجکل ایمان کم ہے اور بہکانے کے آلات ترقی کر کے میڈیا کی صورت بہت بہت آگے نکل چکے ہیں اور انکا ماضی سے کوئی تعلق ہی نہیں رہا۔
اور ہمارا معاشرہ دوغلا "رضامندی سٹینڈرڈ" رکھتا ہے جہاں اس نے کبوتروں کی طرح آنکھیں بند کر کے اس ہونے والی بدکار حرکتوں سے آنکھیں بند کی ہوئی ہیں۔