محترمہ مجھے صرف اتنی دلیل ہی کافی ہے کہ اس فعل کا جب مجھے پہلی بار پتا چلا تو انتہائی کریہہ محسوس ہوا۔ جب میں نے یہ محسوس کیا کہ میں اپنی ماں بہن کے لیے یہ برداشت نہیں کرسکتا کہ انھیں چار دن کے نکاح پر کسی کے حوالے کردوں تو مجھے یہ بھی احساس ہوگیا کہ میں خود بھی کسی کی ماں بہن کے ساتھ ایسا کبھی نہیں کرسکوں گا۔
دوست سچ مچ دوست لگے ہو۔
یہ آیت ابھی تک ادھار ہے۔
اور جنکو بیاہ کا مقدور نہ ہو وہ پاکدامنی کو اختیار کئے رہیں یہاں تک کہ اللہ انکو اپنے فضل سے غنی کر دے۔ سورۃ النور ۳۳
اور جیسا کہ آپ نے دین میں عقل کے استعمال کو اب جائز قرار دے دیا ہے۔ سوال اٹھتا ہے کہ جب ایک راستہ موجود ہے تو پھر پاکدامنی اختیار کرنے کا حکم کیوںدیا جا رہا ہے ؟؟؟ یہ کیوں نہیں کہا گیا کہ
جنکو نکاح دإمی کا مقدور نہ ہو وہ متعہ کریں۔ جبکہ متعہ ایک رومال کے عوض بھی کیا جا سکتا ہے۔ ؟؟
یہاں تک کہ بحث سے دوستوں نے محسوس کیا ہو گا کہ محترمہ مہوش سلف پر تو اعتراض کر رہی ہیںکہ انہوں نے بے دریغ قلابازیاں کھائیں مگر اپنا پتہ نہیں کے اس مختصر سے فورم میں کتنی قلابازیاں کھا چکی ہیں۔ اپنی بات ثابت کرنے کے لئے ہر کلیہ جائز اور دوسروں کے لئے منکر حدیث، قرآنسٹ اور نہ جانے کیا کیا ؟؟؟ حتی کہ دوسروں کی دلیل کے مقابلے میں بھی وہی اپنی ہی راگنی۔ کوئی عقل کی کسوٹی پر کسی معاملے کو پرکھے تو منکر حدیث۔ جبکہ ایک بات طے شدہ ہے جس حدیث سے کسی آیت یا حکم کی مخالفت ہو رہی ہو وہ قابل قبول نہیں ہو سکتی۔ تو اس میں منکرین حدیثکی بات کہاںسے آ گئی۔ حدیث تو قرآن کریم کی تشریح ہے ، وضاحت ہے۔ کم از کم میں تو منکرین حدیث نہیں ؟؟؟
اسی آڑ میں آپ استمتعتم کے بارے میں میری پوری پوسٹ کھا گئیں۔
والمحصنات من النساء الا ما ملكت ايمانكم كتاب الله عليكم واحل لكم ما وراء ذلكم ان تبتغوا باموالكم محصنين غير مسافحين فما استمتعتم به منهن فاتوهن اجورهن فريضة ولا جناح عليكم فيما تراضيتم به من بعد الفريضة ان الله كان عليما حكيما
ترجمہ فتحمحمد جالندھری
اور شوہر والی عورتیں بھی (تم پر حرام ہیں) مگر وہ جو (اسیر ہو کر لونڈیوں کے طور پر) تمہارے قبضے میں آجائیں (یہ حکم) خدا نے تم کو لکھ دیا ہے اور ان (محرمات) کے سوا اور عورتیں تم کو حلال ہیں اس طرح سے کہ مال خرچ کر کے ان سے نکاح کرلو بشرطیکہ (نکاح سے) مقصود عفت قائم رکھنا ہو نہ شہوت رانی تو جن عورتوں سے تم فائدہ حاصل کرو ان کا مہر جو مقرر کیا ہو ادا کردو اور اگر مقرر کرنے کے بعد آپس کی رضامندی سے مہر میں کمی بیشی کرلو تو تم پر کچھ گناہ نہیں بےشک خدا سب کچھ جاننے والا (اور) حکمت والا ہے،
ترجمہ ڈاکٹر طاہر القادری جنکی حب اہل بیت شک و شبیہ سے بالا تر ہے ۔
اور شوہر والی عورتیں (بھی تم پرحرام ہیں) سوائے ان (کافروں کی قیدی عورتوں) کے جو تمہاری مِلک میں آجائیں، (ان احکامِ حرمت کو) اللہ نے تم پر فرض کر دیا ہے، اور ان کے سوا (سب عورتیں) تمہارے لئے حلال کر دی گئی ہیں تاکہ تم اپنے اموال کے ذریعے طلبِ نکاح کرو پاک دامن رہتے ہوئے نہ کہ شہوت رانی کرتے ہوئے، پھر ان میں سے جن سے تم نے اس (مال) کے عوض فائدہ اٹھایا ہے انہیں ان کا مقرر شدہ مَہر ادا کر دو، اور تم پر اس مال کے بارے میں کوئی گناہ نہیں جس پر تم مَہر مقرر کرنے کے بعد باہم رضا مند ہو جاؤ، بیشک اللہ خوب جاننے والا بڑی حکمت والا ہے،
كَالَّذِينَ مِن قَبْلِكُمْ كَانُوا أَشَدَّ مِنكُمْ قُوَّةً وَأَكْثَرَ أَمْوَالًا وَأَوْلَادًا فَاسْتَمْتَعُوا بِخَلَاقِهِمْ فَاسْتَمْتَعْتُم بِخَلَاقِكُمْ كَمَا اسْتَمْتَعَ الَّذِينَ مِن قَبْلِكُم بِخَلَاقِهِمْ وَخُضْتُمْ كَالَّذِي خَاضُوا ۚ أُولَ۔ٰئِكَ حَبِطَتْ أَعْمَالُهُمْ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ ۖ وَأُولَ۔ٰئِكَ هُمُ الْخَاسِرُونَ
ترجمہ فتح محمد جالندھری
(تم منافق لوگ) ان لوگوں کی طرح ہو، جو تم سے پہلے ہوچکے ہیں۔ وہ تم سے بہت زیادہ طاقتور اور مال و اولاد میں کہیں زیادہ تھے تو وہ اپنے حصے سے بہرہ یاب ہوچکے۔ سو جس طرح تم سے پہلے لوگ اپنے حصے سے فائدہ اٹھا چکے ہیں۔ اسی طرح تم نے اپنے حصے سے فائدہ اٹھا لیا۔ اور جس طرح وہ باطل میں ڈوبے رہے اسی طرح تم باطل میں ڈوبے رہے یہ وہ لوگ ہیں جن کے اعمال دنیا اور آخرت میں ضائع ہوگئے۔ اور یہی نقصان اٹھانے والے ہیں
ترجمہ ڈاکٹر طاہر القادری
(اے منافقو! تم) ان لوگوں کی مثل ہو جو تم سے پہلے تھے۔ وہ تم سے بہت زیادہ طاقتور اور مال و اولاد میں کہیں زیادہ بڑھے ہوئے تھے۔ پس وہ اپنے (دنیوی) حصے سے فائدہ اٹھا چکے سو تم (بھی) اپنے حصے سے (اسی طرح) فائدہ اٹھا رہے ہو جیسے تم سے پہلے لوگوں نے (لذّتِ دنیا کے) اپنے مقررہ حصے سے فائدہ اٹھایا تھا نیز تم (بھی اسی طرح) باطل میں داخل اور غلطاں ہو جیسے وہ باطل میں داخل اور غلطاں تھے۔ ان لوگوں کے اعمال دنیا اور آخرت میں برباد ہو گئے اور وہی لوگ خسارے میں ہیں،
وَجَعَلُوا لِلَّهِ أَندَادًا لِّيُضِلُّوا عَن سَبِيلِهِ ۗ قُلْ تَمَتَّعُوا فَإِنَّ مَصِيرَكُمْ إِلَى النَّارِ
ترجمہ جالندھری
اور ان لوگوں نے خدا کے شریک مقرر کئے کہ (لوگوں کو) اس کے رستے سے گمراہ کریں۔ کہہ دو کہ (چند روز) فائدے اٹھا لو آخرکار تم کو دوزخ کی طرف لوٹ کر جانا ہے
ترجمہ ڈاکٹر طاہر القادری
اور انہوں نے اللہ کے لئے شریک بنا ڈالے تاکہ وہ (لوگوں کو) اس کی راہ سے بہکائیں۔ فرما دیجئے: تم (چند روزہ) فائدہ اٹھا لو بیشک تمہارا انجام آگ ہی کی طرف (جانا) ہے،
سیدھی سادھی سی بات ہے اب اس میں شرعی مطالب اور باطنی مطالب ؟؟؟ کیا آپ کا فرض نہیں کہ جیسے سورہ نسائ والی آیت کا ترجمہ کیا اسی طرح ان باقی آیات کا ترجمہ بھی کریں اوربتائیں کہ ایک ہی لفظ کو مختلف جگہوں پہ مختلف مطلب کیسے ہوا ؟؟؟
ایک پوسٹ کے جواب میں آپ کہہ رہی ہیں۔
آپکے استدلال کی تو بنیاد ہی بالکل غلط ہے کیونکہ سب سے پہلے یہ بتلائیے کہ اسلامی قوانین کو قبول کرنے یا نا کرنے میں معاشرہ اور اس معاشرے کی فطرت سلیم کی شرط کونسی شریعت میں ہے؟ اپنی اصلاح فرمائیے اور اپنے استدلال کی بنیاد آپ کو اللہ اور اُسکے رسول ص کی طرف سے لائی جانی والی شریعت کے اصولوں کی بنیاد پر رکھنی چاہیے۔
یاد رکھئیے اللہ کے احکامات کے حلال یا حرام ہونے کی شرط کسی معاشرے کی قبولیت عام نہیں ہے بلکہ یہ شرط بدعت و ضلالت ہے۔ معاشرے کے سٹینڈرڈز بدلتے رہتے ہیں اور اسی لیے ہر معاشرے میں چیزوں کی قبولیت عام ان کے عقیدے یا تعلیمات کے مطابق تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔
اور تازہ ترین پوسٹ ملاحظہ کریں
عقل" اللہ تعالی کی طرف سے انسان کو بہت بڑا تحفہ ہے۔ کتاب "الکافی" کا پہلا باب کا نام ہے "کتاب العقل و جہل"۔ اصل جاہل وہ نہیں جو علم نہیں رکھتا، بلکہ اصل جاہل وہ شخص ہے جو اپنی عقل استعمال نہیں کر سکتا۔ شیطان ابلیس آپکے اور ہمارے مقابلے میں بہت عالم و فاضل تھا، مگر پھر بھی گمراہ و ذلیل ہوا کہ اس کو عقل نہ آئی کہ وہ اللہ کی نازل کردہ نص کے خلاف اپنی تاویلات لانے کی کوشش کر رہا ہے۔
چنانچہ اگرچہ کہ آگ سے پیدا ہونی والی تاویل بظاہر بہت خوشنما تھی، مگر انسان ٹھنڈے دماغ سے اپنی عقل استعمال کرے تو وہ یقینا اس تاویل کا فتنہ دیکھ سکتا ہے۔
اسی طرح خارجی تاویل "لاحکم الاللہ" اگرچہ بظاہرا بہت خوشنما تھی، مگر عقل استعمال کرنے والے پھر بھی اس تاویل کا فتنہ دیکھنے پر قادر تھے۔
یہ تمام کتب فریق مخالف کی ہیں اور اُن پر بطور حجت ان کے حوالے یہاں پیش کیے جا رہے ہیں۔ اب یہ اُنکی ذمہ داری ہے کہ ان حوالوں کا جواب دیں
۔
بے شک مگر یہ تو آپ کی ذمہ داری ہے کہ حوالے کا ثبوت حسب منشا مہیا کریں۔
قرآن پر غور کرنے کے بعد یہ پتا چلتا ہے کہ مرد حضرات میں گناہ میں مبتلا ہونے کا اندیشہ زیادہ ہے جو وہ رمضان کی تیس راتیں برداشت نہ کر سکے اور ایک سے زیادہ لوگ اس خیانت میں مبتلا ہوئے۔
جبکہ اسکے مقابلے میں عورتوں کے لیے اللہ تعالی نے یہ حکم رکھا ہے کہ اگر ان کے شوہر انہیں چار ماہ تک اکیلا چھوڑیں اور وہ اس عرصے کو برداشت نہ کر سکتی ہوں تو وہ ان سے علیحدگی اختیار کر سکتی ہیں۔ چنانچہ اب ان سوداگروں کو یا تو چار ماہ میں واپس آجانا چاہیے اور دو چار دن کے بعد پھر اگلے سفر پر روانہ ہو جانا چاہیے، یا پھر اپنی بیویوں سے معاملہ طے کر کے انکی اجازت لینی چاہیے کہ وہ چار ماہ سے زیادہ غیر حاضر رہنا چاہتے ہیں۔ اور اگر انکی بیویاں اس پر مان جاتی ہیں تو ان پر لازم ہے کہ اس بات کا پاس کریں اور خود کو ہر قسم کے گناہ سے محفوظ رکھیں، وگرنہ اگر انہیں بھی گناہ میں مبتلا ہونے کا خوف ہے تو یہ قاضی کے پاس جا کر علیحدگی اختیار کر سکتی ہیں۔ اسکے علاوہ اس مسئلے کا کوئی اور حل نہیں۔
اوپر جو مشورہ عقل کے استعمال کا دیا گیا ہے اس کی روشنی میں ذرا دیکھیں ۔ یہ کوئی کلیہ نہیں کہ عورت "پوتر" ہی ہے اور مرد ہی گنہگار ہے۔ اگر اور بہت سی صفات ایک جیسی ہیں کھانے کی طلب، پہننے کی طلب ، اچھا دکھنے کی طلب، تو یہ کہاں کا انصاف ہوا کہ مرد کو تو بد مست سانڈ کی طرح ہر طرح سے بھوک مٹانے کی اجازت ہو اور عورت کو بھوکا باندھ دیا جائے۔
چنانچہ آپ کی بات کا جواب یہ ہے کہ اگر یہ چار ماہ سے کم کا وقفہ ہے تو اسلام بیویوں کو حکم دیتا ہے کہ وہ اپنے آپ کو گناہ سے بچائیں رکھیں، جبکہ شوہر حضرات کو چھوٹ ہے کہ وہ اس وقت کے دوران اپنے آپ کو گناہ سے بچانے کے لیے دوسری شادی کر سکتے ہیں، یا پھر کسی کنیز عورت تک سے وقتی عارضی تعلقات قائم کر سکتے ہیں۔
یہ چھوٹ کیوں ہے کیا کوئی عورت کا کیا قصور ہے کہ وہ گناہ سے بچنے کے لئے مشقت برداشت کرے اور مرد میں کیا خصوصیت ہے کہ وہ اپنی بدمستی پوری کرنے کے لئے آزاد ہے۔ اس کے لئے بھی مشقت کیوںنہیں ؟؟؟
صحیح بخاری [آنلائن لنک]
حدثنا عمرو بن عون حدثنا خالد عن إسماعيل عن قيس عن عبد الله رضي الله عنه قال
كنا نغزو مع النبي صلى الله عليه وسلم وليس معنا نساء فقلنا ألا نختصي فنهانا عن ذلك فرخص لنا بعد ذلك أن نتزوج المرأة بالثوب ثم قرأ
يا أيها الذين آمنوا لا تحرموا طيبات ما أحل الله لكم
ترجمہ:
عبداللہ ابن مسود فرماتے ہیں کہ وہ رسول اللہ ص کے ساتھ غزوات میں مصروف تھے اور اُنکی بیویاں انکے ہمراہ نہیں تھیں۔ چنانچہ انہوں نے رسول اللہ ص سے پوچھا کہ آیا گناہ کے خوف سے نجات پانے کے لیے وہ خود کو خصی (اعضائے شہوانی کا کانٹا) کر لیں۔ اس پر رسول اللہ ص نے انہیں منع فرمایا اور انہیں رخصت دی کہ وہ عورتوں کے ساتھ کسی کپڑے کے عوض مقررہ مدت تک نکاح کریں اور پھر رسول اللہ ص نے یہ آیت تلاوت فرمائی:
[القرآن 5:87] يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ لاَ تُحَرِّمُواْ طَيِّبَاتِ مَا أَحَلَّ اللّهُ لَكُمْ وَلاَ تَعْتَدُواْ إِنَّ اللّهَ لاَ يُحِبُّ الْمُعْتَدِينَ
اے ایمان والو! جو پاکیزہ چیزیں اللہ نے تمہارے لئے حلال کی ہیں انہیں (اپنے اوپر) حرام مت ٹھہراؤ اور نہ (ہی) حد سے بڑھو، بیشک اللہ حد سے تجاوز کرنے والوں کو پسند نہیں فرماتا
مسئلہ یہ ہے کہ آپ معاشرے کے پیچھے بھاگ رہے ہیں، جبکہ میں معاشرے کو نہیں دیکھ رہی کہ اس میں پہلے کیا کچھ ہوتا تھا یا لوگوں کو عقد متعہ کا علم تھا یا نہیں، ۔۔۔۔ بلکہ میں تو سب سے پہلے صرف اور صرف رسول اللہ ص کی تعلیمات دیکھ رہی ہوں کہ وہ ان خاص حالات میں بذات خود صحابہ کو حکم دے رہے ہیں کہ وہ عقد متعہ کریں اور اس سے غرض نہیں کہ معاشرہ اسے کیا سمجھتا تھا یا پھر اُس معاشرے میں یہ پہلے ہوتا تھا یا نہیں۔۔۔ اور رسول اللہ ص نے یہ کہہ کر عقد متعہ کا حکم دیا کہ یہ حلال و پاکیزہ و طیبات میں سے ہے، اور ہماری شریعت رسول اللہ ص کے اس حکم کے بعد جاری ہوئی نہ کہ پہلے معاشرے میں جو کچھ ہوتا رہا اُس سے۔
آپ اپنی غلطی محسوس کریں کہ آپ شروع سے معاشرے کے پیچھے بھاگ رہے ہیں اور ہر ممکن طریقے سے رسول اللہ ص کی تعلیم کو نظر انداز کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کیونکہ یہ آپکے نظریات کے تابع نہیں ہے۔ بہرحال یہ غلط بات ہے اور اللہ کرے آپ کو اسکا ادراک ہو جائے۔
بات اس میں معاشرے کی نہیں تھی۔۔ بات یہ ہو رہی تھی کہ جب اللہ کا حکم سورہ نسائ میںموجود تھا اور سب کو پتہ تھا تو پھر صحابہ کرام نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے متعہ کی اجازت کیوں طلب کی ؟؟؟؟
اور پھر اللہ کا حکم معتہ کے بارے میں موجود تھا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کس چیز کی اجازت یا رخصت دی۔
اور یہ بھی دیکھیں کہ صحابہ نے متعہ کرنے کی اجازت طلب نہیں کی بلکہ ایک مسئلہ بتایا اور خصی ہونے کو کہا اس سے کیا ظاہر ہوتا ہے کہ انہیں پتہ تھا کہ فی الوقت کوئی راستہ ایسا نہیں جس سے وہ اپنی ضرورت پوری کر سکیں ؟؟؟