دوست
محفلین
ہم سوچا کرتے تھے کہ لوگ بچپن کو یاد کرکے ایویں اداس ہوتے ہیں بھلا بچپن میں کیا رکھا ہے۔ لیکن برا ہو اس بڑے ہونے کا جس نے ہمیں بھی اسی چکر میں ڈال دیا۔ اب دیکھیے نا جیسے جیسے بندہ بڑا ہوتا جاتا ہے اس کے اندر احساس ذمہ داری بڑھتا چلا جاتا ہے اور اس کے نتیجہ میں ہر شے کو مکمل ترین دیکھنے کا خبط سر پر سوا ہوجاتا ہے۔
اسی خبط کے صلے میں ہر بار ہمیں منہ کی کھانی پڑی ہے۔ لیکن ق کے معاملے میں ہمیں منہ کے ساتھ ساتھ حلق کی بھی کھانی پڑی۔ ارے ٹھہریے یہ بابے مشرف والی ق نہیں جس کے ساتھ لیگ لگ جائے تو وہ وزیر اعظم کی اماں بن جاتی ہے بلکہ یہ اردو کی ق ہے جس کو قینچی والی ق کہتے ہیں۔
اردو میں دو “کافز” ہیں۔ ایک کاف کتے والی اور دوسری قینچی والی۔ ویسے ناظرین ہمیں کتے والی ک کے ساتھ ہمیشہ ہمدردی ہی محسوس ہوئی ہے ایک تو بے چاری کے اوپر اتنا بڑا سا ڈنڈا دوسرے اس کو کتے کے ساتھ منسلک کردیا گیا ہے کتنا غیر شاعرانہ جوڑ ہے۔ کتا آخر قتا بھی تو ہوسکتا تھا آخر اردو کے بابوں کا کیا جاتا۔ لیکن کیا کہیں ان سیانوں کو جن کے سیانے پن کی سزا ہم بھگت رہے ہیں۔
ق اصل میں قاف نہیں “کوہ قاف” ہے۔ اس کوہ کو سر کرنا عام بندے و ہرکس و ناقص کے بس کا روگ نہیں۔ اس ق کے اتنے قصے مشہور ہیں کہ بڑے بڑے اس سے پنگا لیتے ہوئے گھبراتے ہیں۔سنا کرتے ہیں ایک صاحب لکھنوء (اجی وہی لکھنوء جس کو اردو والے بڑی حسرت سے یاد کرتے اور آہیں بھرتے ہیں) میں گزر رہے تھے کیا دیکھتے ہیں کہ ایک دھان پان سا بندہ مرگی کے دورے کی سی حالت پر سڑک پر لوٹیں لگا رہا ہے۔ ان صاحب نے ارد گرد سے حال دریافت کیا حضور کیا معاملہ و ماجرا ہے بے چارے کی مدد کیوں نہیں کرتا کوئی تو جواب آیا حلق سے قاف نکال رہے ہیں۔
صاحبو موصوف جن پر یہ قصہ “فلمایا” گیا ہے ضرور سر نیچا کیے نکل لیے ہونگے لیکن ہماری بدقسمتی کے ہمارے سر میں یہ قاف جنرل صاحب کی طرح پھسکڑا مار کر بیٹھ گیا۔ اور مزید بدقسمتی ہم نے اس کو حلق سے ہی نکالنے کی ٹھان لی۔
بس پھر نہ پوچھیں فدوی پر کیا گزری۔ اس لیے ہم نے تمہید میں عرض کیا تھا کہ بچپن کے دن کتنے اچھے تھے۔ قمیض کو کمیض اور قینچی کو کینچی کہہ لیا کرتے تھے لیکن اب۔۔۔
اب یہ حال ہونے لگا ہے کہ کتا بھی کتا نہیں قُتا لگتا ہے عجب “قُتا” سا لفظ بن جاتا ہے۔
صاحبو جب ہم نے ٹھان لی کہ اب بس بہت ہوگئی اردو کو اہل زبان کی طرح سیکھنا ہے اور ق کو حلق کی گہرائیوں سے برآمد کرنا ہے تو ہم نے سب سے پہلے اپنے گلے کی صفائی کروانا شروع کردی۔ روزانہ اٹھ کر آدھا جگ نمکین پانی کے غرارے وقتًا فوقتًا ہوسٹ اور گلا صاف کرنے والی گولیاں، فریش اپ ببل قسم کی چیزیں جیب میں رکھنا شروع کردیں۔
پورا ہفتہ یہ پریکٹس کرنے کے بعد اگلا ایک ہفتہ ہمیں قاف نکالنے کی حسرت ہی رہی چونکہ یہ الم غلم کھا کر ہمارا گلا خراب ہوگیا تھا اور اس کی گہرائیوں سے قاف کا نکلنا ممکن نہ تھا۔ ہم نے دو ایک بار نکالنے کی کوشش بھی کی لیکن شاید کافی موٹا تازہ قاف تھا ہر بار کھانسی میں ٹوٹ ٹوٹ کر ہی نکلا۔
خیر صاحبو صحت یاب ہوکر ہم نے قاف نکالنے کے نئی تراکیب سوچنا شروع کردیں۔
کسی نے ہمیں بتایا کہ پی ٹی وی کے خبرنامے میں اردو بڑی اچھی بولی جاتی ہے۔ چناچہ ہم نے آدھ گھنٹہ اس عذاب میں گزارنے کا فیصلہ کرلیا۔ نیوز کاسٹر کے ہر قاف کو ہم “حلق کی گہرائیوں” سے محسوس کرتے لیکن نکالنے کی حسرت ہی رہ جاتی اکثر اوقات قاف نکلتے نکلتے اس وجہ سے رہ گئی کہ اسے ہنسی کو راستہ دینا پڑا۔ آخر اس طرف سے بھی ناکامی کے بعد ہم پھر منہ لٹکا کر بیٹھ گئے قاف نکالنے کی بجائے ہمیں اپنا “قافیہ” تنگ ہوتا محسوس ہورہا تھا۔
آخر کار ہم نے دوسروں کے مشوروں کی بجائے اپنے عقل سلیم استعمال کرنے کا فیصلہ کیا اور اس کا نتیجہ اگلے ہی روز برآمد ہوگیا۔
اصل میں ہم اپنی دھن میں کہیں جارہے تھے کچھ بطخوں کی قیں قیں سن کر چونک گئے۔ پہلے چونکے پھر ہماری حیرت کی انتہا نہ رہی کہ ق ہم سے کتنا قریب تھا اور ہم اس کو نکالنے کے لیے کہاں کہاں “بین” تلاشتے رہے۔
بطخ کی “ق دانی” دیکھ کر ہم اس مقولے پر ایمان لے آئے کہ خدا نے کوئی شے بے مقصد پیدا نہیں کی۔ ہم نے ق کا علم حاصل کرنے کے لیے بطخوں کی شاگردی اختیار کرنے کا فیصلہ کر لیا
سائیکل وہیں چھوڑ کر بطخوں کے اس خاندان کے قریب جاکر بیٹھ گئے۔ پورے ایک گھنٹے ہم نے ان کے ساتھ بیٹھ کر قیں قیں کی گردان کی۔ اس قیں قیں کے بعد ہمارا یہ حال ہو گیا کہ ہیں کی بجائے قیں اور ہاں کی بجائے منہ سے قاں نکلنے لگا۔ لیکن حسرت ہی رہی کہ حلق سے قاف ٹھیک نکلے ۔ ملمع کے طرح جب دو گھنٹے بعد ہمارے ذہن سے بطخیں محو ہونے لگیں تو ساتھ ہی ق بھی دوبارہ سے سو گئی۔
اب آپ سے کیا چھپانا اس طرح کی کئی مشقیں ہم نے آتے جاتے اٹھتے بیٹھے کیں، کبھی مرغ کی ککڑوں کوں کے ساتھ مل کر ققڑوں قوں کی ,کبھی صراحی کی قل قل کے ساتھ قل قل کی لیکن بات نہ بنی۔
آخر کوئی تین ماہ کی مشقت کے بعد ہم نے جب صبح قرآن کی تلاوت سنی اور اس میں قاری کے منہ سے کھنکھناتا ہوا قاف نکلتا سنا تو بے اختیار سر پیٹ لیا۔ بے شک اللہ کے کلام میں بڑی طاقت ہے یہ سن کر ہمیں اپنے قاری اللہ انھیں درازی عمر اور صحت دے یاد آگئے جو کھوتوں گھوڑوں والے بید کے سوٹے سے ہمارے حلق سے قاف نکلوا لیا کرتے تھے۔ سو صاحبو اللہ کی رحت وہ دن اور آج کا دن جب بھی حلق سے قاف نکالنا ہو ہمیں قاری صاحب کا سوٹا اور اندازِ برآمدگیِ قاف یاد آجاتا ہے اور حلق سے ایک پھریری کے ساتھ کھنکھنا تا ہوا ق برآمد ہوجاتا ہے۔
ویسے آپ کے قاف کی کیا صورت حال ہے؟
اسی خبط کے صلے میں ہر بار ہمیں منہ کی کھانی پڑی ہے۔ لیکن ق کے معاملے میں ہمیں منہ کے ساتھ ساتھ حلق کی بھی کھانی پڑی۔ ارے ٹھہریے یہ بابے مشرف والی ق نہیں جس کے ساتھ لیگ لگ جائے تو وہ وزیر اعظم کی اماں بن جاتی ہے بلکہ یہ اردو کی ق ہے جس کو قینچی والی ق کہتے ہیں۔
اردو میں دو “کافز” ہیں۔ ایک کاف کتے والی اور دوسری قینچی والی۔ ویسے ناظرین ہمیں کتے والی ک کے ساتھ ہمیشہ ہمدردی ہی محسوس ہوئی ہے ایک تو بے چاری کے اوپر اتنا بڑا سا ڈنڈا دوسرے اس کو کتے کے ساتھ منسلک کردیا گیا ہے کتنا غیر شاعرانہ جوڑ ہے۔ کتا آخر قتا بھی تو ہوسکتا تھا آخر اردو کے بابوں کا کیا جاتا۔ لیکن کیا کہیں ان سیانوں کو جن کے سیانے پن کی سزا ہم بھگت رہے ہیں۔
ق اصل میں قاف نہیں “کوہ قاف” ہے۔ اس کوہ کو سر کرنا عام بندے و ہرکس و ناقص کے بس کا روگ نہیں۔ اس ق کے اتنے قصے مشہور ہیں کہ بڑے بڑے اس سے پنگا لیتے ہوئے گھبراتے ہیں۔سنا کرتے ہیں ایک صاحب لکھنوء (اجی وہی لکھنوء جس کو اردو والے بڑی حسرت سے یاد کرتے اور آہیں بھرتے ہیں) میں گزر رہے تھے کیا دیکھتے ہیں کہ ایک دھان پان سا بندہ مرگی کے دورے کی سی حالت پر سڑک پر لوٹیں لگا رہا ہے۔ ان صاحب نے ارد گرد سے حال دریافت کیا حضور کیا معاملہ و ماجرا ہے بے چارے کی مدد کیوں نہیں کرتا کوئی تو جواب آیا حلق سے قاف نکال رہے ہیں۔
صاحبو موصوف جن پر یہ قصہ “فلمایا” گیا ہے ضرور سر نیچا کیے نکل لیے ہونگے لیکن ہماری بدقسمتی کے ہمارے سر میں یہ قاف جنرل صاحب کی طرح پھسکڑا مار کر بیٹھ گیا۔ اور مزید بدقسمتی ہم نے اس کو حلق سے ہی نکالنے کی ٹھان لی۔
بس پھر نہ پوچھیں فدوی پر کیا گزری۔ اس لیے ہم نے تمہید میں عرض کیا تھا کہ بچپن کے دن کتنے اچھے تھے۔ قمیض کو کمیض اور قینچی کو کینچی کہہ لیا کرتے تھے لیکن اب۔۔۔
اب یہ حال ہونے لگا ہے کہ کتا بھی کتا نہیں قُتا لگتا ہے عجب “قُتا” سا لفظ بن جاتا ہے۔
صاحبو جب ہم نے ٹھان لی کہ اب بس بہت ہوگئی اردو کو اہل زبان کی طرح سیکھنا ہے اور ق کو حلق کی گہرائیوں سے برآمد کرنا ہے تو ہم نے سب سے پہلے اپنے گلے کی صفائی کروانا شروع کردی۔ روزانہ اٹھ کر آدھا جگ نمکین پانی کے غرارے وقتًا فوقتًا ہوسٹ اور گلا صاف کرنے والی گولیاں، فریش اپ ببل قسم کی چیزیں جیب میں رکھنا شروع کردیں۔
پورا ہفتہ یہ پریکٹس کرنے کے بعد اگلا ایک ہفتہ ہمیں قاف نکالنے کی حسرت ہی رہی چونکہ یہ الم غلم کھا کر ہمارا گلا خراب ہوگیا تھا اور اس کی گہرائیوں سے قاف کا نکلنا ممکن نہ تھا۔ ہم نے دو ایک بار نکالنے کی کوشش بھی کی لیکن شاید کافی موٹا تازہ قاف تھا ہر بار کھانسی میں ٹوٹ ٹوٹ کر ہی نکلا۔
خیر صاحبو صحت یاب ہوکر ہم نے قاف نکالنے کے نئی تراکیب سوچنا شروع کردیں۔
کسی نے ہمیں بتایا کہ پی ٹی وی کے خبرنامے میں اردو بڑی اچھی بولی جاتی ہے۔ چناچہ ہم نے آدھ گھنٹہ اس عذاب میں گزارنے کا فیصلہ کرلیا۔ نیوز کاسٹر کے ہر قاف کو ہم “حلق کی گہرائیوں” سے محسوس کرتے لیکن نکالنے کی حسرت ہی رہ جاتی اکثر اوقات قاف نکلتے نکلتے اس وجہ سے رہ گئی کہ اسے ہنسی کو راستہ دینا پڑا۔ آخر اس طرف سے بھی ناکامی کے بعد ہم پھر منہ لٹکا کر بیٹھ گئے قاف نکالنے کی بجائے ہمیں اپنا “قافیہ” تنگ ہوتا محسوس ہورہا تھا۔
آخر کار ہم نے دوسروں کے مشوروں کی بجائے اپنے عقل سلیم استعمال کرنے کا فیصلہ کیا اور اس کا نتیجہ اگلے ہی روز برآمد ہوگیا۔
اصل میں ہم اپنی دھن میں کہیں جارہے تھے کچھ بطخوں کی قیں قیں سن کر چونک گئے۔ پہلے چونکے پھر ہماری حیرت کی انتہا نہ رہی کہ ق ہم سے کتنا قریب تھا اور ہم اس کو نکالنے کے لیے کہاں کہاں “بین” تلاشتے رہے۔
بطخ کی “ق دانی” دیکھ کر ہم اس مقولے پر ایمان لے آئے کہ خدا نے کوئی شے بے مقصد پیدا نہیں کی۔ ہم نے ق کا علم حاصل کرنے کے لیے بطخوں کی شاگردی اختیار کرنے کا فیصلہ کر لیا
سائیکل وہیں چھوڑ کر بطخوں کے اس خاندان کے قریب جاکر بیٹھ گئے۔ پورے ایک گھنٹے ہم نے ان کے ساتھ بیٹھ کر قیں قیں کی گردان کی۔ اس قیں قیں کے بعد ہمارا یہ حال ہو گیا کہ ہیں کی بجائے قیں اور ہاں کی بجائے منہ سے قاں نکلنے لگا۔ لیکن حسرت ہی رہی کہ حلق سے قاف ٹھیک نکلے ۔ ملمع کے طرح جب دو گھنٹے بعد ہمارے ذہن سے بطخیں محو ہونے لگیں تو ساتھ ہی ق بھی دوبارہ سے سو گئی۔
اب آپ سے کیا چھپانا اس طرح کی کئی مشقیں ہم نے آتے جاتے اٹھتے بیٹھے کیں، کبھی مرغ کی ککڑوں کوں کے ساتھ مل کر ققڑوں قوں کی ,کبھی صراحی کی قل قل کے ساتھ قل قل کی لیکن بات نہ بنی۔
آخر کوئی تین ماہ کی مشقت کے بعد ہم نے جب صبح قرآن کی تلاوت سنی اور اس میں قاری کے منہ سے کھنکھناتا ہوا قاف نکلتا سنا تو بے اختیار سر پیٹ لیا۔ بے شک اللہ کے کلام میں بڑی طاقت ہے یہ سن کر ہمیں اپنے قاری اللہ انھیں درازی عمر اور صحت دے یاد آگئے جو کھوتوں گھوڑوں والے بید کے سوٹے سے ہمارے حلق سے قاف نکلوا لیا کرتے تھے۔ سو صاحبو اللہ کی رحت وہ دن اور آج کا دن جب بھی حلق سے قاف نکالنا ہو ہمیں قاری صاحب کا سوٹا اور اندازِ برآمدگیِ قاف یاد آجاتا ہے اور حلق سے ایک پھریری کے ساتھ کھنکھنا تا ہوا ق برآمد ہوجاتا ہے۔
ویسے آپ کے قاف کی کیا صورت حال ہے؟