نگاہِ کرم درکار۔۔۔۔۔!

راشد ماہیؔ

محفلین
شکنجے میں اپنی یہ جاں دیکھتے ہیں
عجب عشق کے امتحاں دیکھتے ہیں

زمانے میں ہم تو جہاں دیکھتے ہیں
تو ہی توہے تیرے نشاں دیکھتے ہیں

انہیں بے خبر کہنے والے نہ جانیں
یہ مجذوب کیا کیا نہاں دیکھتے ہیں

انھیں دیکھ کے دل اچھل کیوں رہا ہے
غریبوں کے گھر وہ کہاں دیکھتے ہیں

دوانے ترے کیسے کافر ہیں ماہیؔ
خدا کہہ کے نقشِ بتاں دیکھتے ہیں
 
شکنجے میں اپنی یہ جاں دیکھتے ہیں
عجب عشق کے امتحاں دیکھتے ہیں

زمانے میں ہم تو جہاں دیکھتے ہیں
تو ہی توہے تیرے نشاں دیکھتے ہیں

انہیں بے خبر کہنے والے نہ جانیں
یہ مجذوب کیا کیا نہاں دیکھتے ہیں

انھیں دیکھ کے دل اچھل کیوں رہا ہے
غریبوں کے گھر وہ کہاں دیکھتے ہیں

دوانے ترے کیسے کافر ہیں ماہیؔ
خدا کہہ کے نقشِ بتاں دیکھتے ہیں
بہت خوب۔ داد قبول فرمائیے راشد ماہیؔ بھائی
 

الف عین

لائبریرین
زمانے میں ہم تو جہاں دیکھتے ہیں
تو ہی توہے تیرے نشاں دیکھتے ہیں
۔۔۔روانی متاثر ہے ۔ پہلے مصرع میں 'تو' بھرتی کا لگتا ہے۔ دوسرے میں "تو ہی" کو "تہی" کی بجائے "توہ" باندھنا روانی کو فروغ دیتا ہے

انہیں بے خبر کہنے والے نہ جانیں
یہ مجذوب کیا کیا نہاں دیکھتے ہیں
۔۔۔ بے خبر کون ہے، مجذوب یا کہنے والے، کنفیوژن ہے

انھیں دیکھ کے دل اچھل کیوں رہا ہے
غریبوں کے گھر وہ کہاں دیکھتے ہیں
۔۔۔ دو لخت ہے۔ یا واضح نہیں ہے

دوانے ترے کیسے کافر ہیں ماہیؔ
خدا کہہ کے نقشِ بتاں دیکھتے ہیں
۔۔۔ ٹھیک ۔ مولویوں سے فتوی لے لو
 

الف عین

لائبریرین
ایک بار پھر، اردو شاعری میں ماہی تخلص گوارا نہیں۔ پنجابی میں شاید چل جاتا ہو
 
Top