نگاہ پھیر کے عذرِ وصال کرتے ہیں
مجھے وہ الٹی چھری سے حلال کرتے ہیں
زبان قطع کرو، دل کو کیوں جلاتے ہو
اِسی سے شکوہ، اسی سے سوال کرتے ہیں
نہ دیکھی نبض، نہ پوچھا مزاج بھی تم نے
مریضِ غم کو یونہی دیکھ بھال کرتے ہیں
مرے مزار کو وہ ٹھوکوں سے ٹھکرا کر
فلک سے کہتے ہیں یوں پائمال کرتے ہیں
پسِ فنا بھی مری روح کانپ جاتی ہے
وہ روتے روتے جو آنکھوں کو لال کرتے ہیں *
اُدھر تو کوئی نہیں جس سے آپ ہیں مصروف
اِدھر کو دیکھیے، ہم عرض حال کرتے ہیں
یہی ہے فکر کہ ہاتھ آئے تازہ طرزِ ستم
یہ کیا خیال ہے، وہ کیا خیال کرتے ہیں
وہاں فریب و دغا میں کمی کہاں توبہ
ہزار چال کی وہ ایک چال کرتے ہیں
نہیں ہے موت سے کم اک جہان کا چکر
جنابِ خضر یونہی انتقال کرتے ہیں
چھری نکالی ہے مجھ پر عدو کی خاطر سے
پرائے واسطے گردن حلال کرتے ہیں
یہاں یہ شوق، وہ نادان، مدعا باریک
انھیں جواب بتا کر سوال کرتے ہیں
ہزار کام مزے کے ہیں داغ الفت میں **
جو لوگ کچھ نہیں کرتے کمال کرتے ہیں
- * آفتابِ داغ میں یہ شعر اضافی ہے
- ** آفتابِ داغ میں مقطع کا مصرع اولیٰ یوں درج ہے:
ہزاروں کام محبت میں ہیں مزے کے داغ