سلیمان اشرف
محفلین
جنوری2012 کے نوائے وقت میں ڈاکٹر محمد سلیم صاحب کا کالم بعنوان ”قائد اعظم اور پنڈت جواہر لال نہرو“ شائع ہوا ہے جس میں محترم ڈاکٹر صاحب نے برصغیر کی دو اہم سیاسی شخصیات کی سوچ اور عمل کا تضاد دلچسپ اور چشم کشا انداز میں پیش کیا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ دونوں شخصیات بیسویں صدی کی اہم ترین شخصیات تھیں جنہوں نے تاریخ کا رخ بدل دیا لیکن دونوں ایک دوسرے کی ضد تھے۔ قائد نے کبھی اصول پرستی اور شرافت کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑا جبکہ پنڈت صاحب کے نزدیک اصول پرستی اور شرافت کا معیار بالکل ہی الگ تھا بلکہ یہ دونوں اقدار اسکے نزدیک کوئی معنی نہیں رکھتی تھیں۔ وہ ایک مجسم طور پر شاطر ۔ فریب کار اور سازشی انسان تھا جو ہر قیمت پر اپنا مطلب حاصل کرنے کا ماہر تھا۔ مطلب براری کےلئے سازش۔ فریب ۔منافقت۔ دھوکہ دہی حتیٰ کہ قتل تک سب کچھ جائز سمجھتاتھا۔ مسلمانوں کوعموماًاور پاکستان کوخصوصاً شاطرانہ اور گمراہ کن چالوں سے اس ایک شخص اور اسکے خاندان نے جتنا نقصان پہنچایا اتنا اور کسی بھارتی سیاستدان نے نہیں پہنچایا۔یہ شخص شروع سے آخر تک پاکستان مسلم لیگ اورر قائد اعظم کا مخالف رہا۔ پاکستان کے خلاف پہلی بین الاقوامی سازش بھی اسی شخص نے تیار کی اور پاکستان کی سرحدوں کو بدلوا کر فیروز پور ہیڈ ورکس۔ مادھو پور ہیڈ ورکس اور گورداسپور سے محروم کر دیا ۔ ایک مرحلے پر کلکتہ بھی پاکستان کو ملنے والا تھا لیکن وہاں بھی یہ شخص اپنی چال چل گیا۔ یہ شخص کون تھا۔اسکا اور اسکے خاندان کا کردار کیسا تھا اسکے متعلق حال ہی میں ایک دلچسپ تحقیق سامنے آئی ہے جو میں قارئین سے شیئر کرنا چاہتا ہوں۔
تفصیل کچھ اس طرح سے ہے کہ پنڈت جواہر لعل نہرواور اسکی بیٹی اندرا گاندھی کی تاریخ نا قابل یقین حد تک دلچسپ بلکہ سنسنی خیز ہے۔ اس خاندان کا شجرہ نسب ایک مغل شہزادے غیاث الدین غازی سے شروع ہوتا ہے جو1857کی جنگ آزادی (انگریزوں کی نظر میں بغاوت)کے وقت دلی شہر کا کوتوال تھا اور بہادر شاہ ظفر ہندوستان کا حکمران تھا۔ اس دور میں مغل حکمران کوئی بھی اہم عہدہ کسی ہندو کو نہیں دیتے تھے۔ ا س دور میں شہر کا کوتوال خصوصاً دلی شہر کا کوتوال اہم ترین عہدہ تھا لہٰذاوہ کسی مغل خاندان کے فرد کو ہی دیا جا سکتا تھا جس پر اسوقت غیاث الدین غازی متمکن تھا۔ یاد رہے کہ اس دور میں شہر کا پولیس کوتوال موجودہ دور کے پولیس کمشنر کے برابر تھا۔1857کی جنگ آزادی میں مغلوں کو شکست ہوگئی اور انگریز مسلمانوں کے عموماً اور مغلوں کے خصوصاً دشمن بن گئے۔ انہوں نے ہر اس شخص کوموت کے گھاٹ اتار دیا جس کا ذرہ برابر بھی مغل خاندان سے تعلق تھا بلکہ بہت سے لوگ تو محض شک کی وجہ سے بھی موت کی بھینٹ چڑھ گئے۔ انگریزوں کو وہم ہو گیا کہ اگر خاندان مغلیہ کا ایک بھی فرد زندہ بچ گیا تو انکی حکومت کیلئے خطرہ بن سکتا تھا۔ جہاں مسلمانوں کا یہ حشر ہوا وہاں ہندو اور سکھ مکمل طور پر محفوظ رہے کیونکہ ان سے کسی قسم کا خطرہ نہ تھا۔ ان حالات میں بہت سے مسلمان اپنی جانیں بچانے کےلئے ہندو بن گئے یا ہندوﺅں کا لبادہ اوڑھ لیا۔ انہی لوگوں میں دلی شہر کا کوتوال غیاث الدین غازی بھی تھا۔
1857کی شکست کے بعد انگریزوں نے دلی میں مغلوں کا قتل عام شروع کیا تو غیاث الدین غازی نے ہندوانہ لباس زیب تن کیا۔ اپنا نام گنگا دھر رکھا۔ اسکا گھر لال قلعہ دلی کے نزدیک ایک نہر کے کنارے تھا۔ اسی مناسبت سے اس نے نام کےساتھ لفظ ”نہرو“ کا اضافہ کیا اور یوں یہ ” گنگا دھر نہرو“ بن کر اپنی فیملی کے ساتھ آگرہ کی طرف بھاگ کھڑا ہوا۔ اپنے خدوخال کی وجہ سے راستے میں یہ شخص پکڑا گیا لیکن اپنے آپ کو کشمیری پنڈت ظاہر کرکے بچ نکلا۔یہ نام اس لئے بھی سچ معلوم ہوتا ہے کہ پوری بھارتی تاریخ میں کوئی بھی شخصیت فیملی نام ”نہرو“ کے ساتھ وجود نہیں رکھتی۔
صرف ”گنگا دھر نہرو“ واحد شخص ہے جو 1857 کی شکست کے بعد تاریخ میں اس لقب کے ساتھ ہی ظاہرہوا۔ اس پس منظر کی تفصیل ایم۔کے۔سنگھ نے اپنی مشہور ریسرچEncyclopaedia of Indian War of Independence (SBN:81-261-3745-9) کی جلد نمبر13 میں دی ہے۔ یہ حقیقت حکومت ہند نے چھپا رکھی ہے۔
اسکے علاوہ اور بھی کئی شواہد ہیں جو اسی نتیجہ کی نشاندہی کرتے ہیں مثلاً جواہر لعل نہرو کی دوسری بہن کرشنا ہوتھیسنگKrishna Hutheasing نے اپنی یادداشتوںمیں لکھا ہے کہ ”میرا پردادا1857 سے پہلے جب بہادر شاہ ظفر سلطان ہند تھا تو وہ دلی شہر کاکوتوال تھا“ جواہر لعل نہرو نے بھی اپنی سوانح عمری میں اعتراف کیاہے کہ اس کے پردادا کے ایک پرانے فوٹو میں اس نے مسلمانوں والی گھنی اور لمبی داڑھی رکھی تھی ۔سرپر مغلوں والی ٹوپی تھی او ر ہاتھوں میں دو تلواریں تھیں۔ وہ بالکل مغل ”نوبل مین“ Noblemanکا شاہکار لگتاتھا۔
نہرو نے اپنی بائیوگرافی میں یہ انکشاف بھی کیا ہے کہ اسکے پردادا جب دلی سے آگرہ جا رہے تھے تو راستے میں انگریزوں نے انہیں پکڑ لیا تھا جسکی وجہ انکے مغلوں والے خدوخال تھے لیکن اس نے اپنے آپ اور اپنی فیملی کو کشمیری پنڈت کے طور پر پیش کرکے جان بچائی۔ یہاں یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ انیسویں صدی کے اردو لٹریچر اور خصوصاً خواجہ حسن نظامی کی تحریروں میں بہت تفصیل سے لکھا گیا ہے کہ کس طرح انگریزوں نے مسلمانوں اور مغلوں پر ظلم ڈھائے۔سرکردہ مسلمان اور مغل اپنی جانیں بچانے کے لئے ہندوﺅں کا روپ بدل کر چھپ چھپاکر مختلف شہروں کی طرف بھاگ گئے اور پناہ کے لئے انہیں کیسے کیسے پاپڑ بیلنے پڑے۔یقین لگتا ہے کہ نہرو کے آباﺅ اجداد جان بچانے کےلئے بھاگنے والوں میں شامل تھے۔اس خاندان نے بعد میں الہ آباد کے ایک بدنام علاقے میں جا کر پناہ لی تاکہ کسی کو شک نہ گزرے۔
جواہر لعل نہرو وہ شخص تھا جسکی بھارتی عوام پوجا کرتے ہیں لیکن حیران کن بات یہ ہے کہ اسکی جنم بھومی پرحکومت ہند نے کسی قسم کی یادگار تعمیر نہیں کی۔اسکی ایک خاص وجہ یہ ہے کہ اسکی پیدائش االہٰ آباد میں میر گنج کے محلے کے 77نمبر مکان میں ہوئی اور یہ علاقہ الہ آباد کا مشہور ”ریڈلائٹ ایریا (بازار حسن) ہے۔ اس دور میں بھی یہ محلہ پورے بھارت میں مشہور تھا اور یہ جواہر لعل نہرو کی پیدائش سے پہلے بھی اسی طرح مشہور تھا۔ اس آبائی گھر کا ایک حصہ جواہر لعل نہرو کے باپ موتی لعل نے ایک مشہور طوائف لالی جان کے ہاتھ بیچ دیا۔ اس حقیقت کی مزید بااعتماد ذرائع سے بھی تصدیق کی جاسکتی ہے مثلاً :encyclopedia.com and Wikipedia.comسے ۔
بعد میں موتی لعل میرگنج کا علاقہ چھوڑ کر آنندبھون منتقل ہو گیا جہاں نہرو کی پرورش ہوئی۔ یہاں یہ واضح کرنا ضروری ہے کہ آنندبھون جواہرلعل نہرو کے اباﺅاجداد کی خاندانی رہائش گاہ ضرور تھی لیکن اس عظیم سیاستدان کی جنم بھومی ہرگز نہ تھی۔
***************************
جواہر لعل نہرو اور اسکا خاندان کردار کے لحاظ سے بھی کوئی قابل رشک خاندان نہ تھا۔ جواہر لعل نہرو جب بھارت کا وزیراعظم بنا تو انڈین سول سروس کا مشہور بیوروکریٹ مسٹرM.O Mathai اس کا پرائیویٹ سیکرٹری مقررہوا جس نے کافی عرصہ وزیراعظم کے ساتھ گزارا۔ بعد میں اس نے نہرو کے ساتھ گزارے گئے ایام پر \\\"Reminisences of the Nehru Age\\\" کے نام سے کتاب لکھی۔ اس کتاب میں متھائی نے انکشاف کیا ہے کہ نہرو اور لارڈ ماﺅنٹ بیٹن (آخری وائسرائے ہند)کی بیوی ایڈوینا ماﺅنٹ بیٹن کے درمیان پاگل پن کی حد تک معاشقہ تھا جو اکثر اندرا گاندھی کےلئے پریشانی اور ندامت کا باعث ثابت ہوتا۔
اندرا گاندھی جب بہت زیادہ پریشان ہوتیں تو مولانا ابو الکلام آزاد کی خدمات حاصل کرتیں کہ وہ نہرو کو سمجھائے تاکہ وہ اپنے معاشقے میں اعتدال سے کام لے اور یوں پورے خاندان کو تضحیک وشرمندگی سے بچائے۔ مولانا ابو الکلام آزاد اور نہرو میں کافی انڈرسٹینڈنگ اور خاندانی تعلقات تھے۔ بعض مغربی مورخین نے نہرو ایڈوینا تعلقات چسکے لے لےکر بیان کئے ہیں۔ لارڈ ماﺅنٹ بیٹن جب وائسرائے ہند تھا تو اس عشق کا پتہ تو بہت سے لوگوں کو تھا لیکن وائسرائے کی وجہ سے لوگ زبان نہیں کھولتے تھے۔ بعد میں جب ہندوستان آزاد ہو گیا اور نہرو وزیر اعظم بنا تو یہ تعلقات اور بھی مضبوط ہوئے۔ نہرو کی بیوی مر چکی تھی ۔ایڈوینا اکثر ہندوستان آتی اور وزیر اعظم کے ذاتی مہمان کے طور پر وزیراعظم گیسٹ ہاﺅس میں ٹھہرتی۔ سرکاری اور نجی تقریبا ت میں دونوں ایک ہی صوفے پر ساتھ ساتھ بیٹھتے اور اس انداز میں ایک دوسرے کے کان میں سرگوشیاں کرتے کہ بوس و کنار کا شک گزرتا۔ نہرو بھی اکثر نجی دوروں پر انگلینڈ جاتے تو ایڈوینا ائیرپورٹ پر انتظار کرتی۔ جونہی نہرو جہاز سے اترتا وہ اسے ذاتی گاڑی میں لیکر فرانس چلی جاتی وہاں وہ اپنی خاندانی رہائش گاہ میں ٹھہرتے اور یہ سارا عرصہ دونوں باہر کہیں گھومنے پھرنے نہ جاتے۔ دونوں کی وفات کے بعد دونوں کے عشقیہ خطوط سیکس سکینڈل کی شکل میں سامنے آئے لیکن پیشتر اسکے کہ یہ سکینڈل بہت زیادہ رنگ پکڑتا دونوں طرف سے وضاحتی بیانات کے ساتھ معاملہ دبا دیا گیا۔
نہرو کا معاشقہ صرف لیڈی ماﺅنٹ بیٹن تک ہی محدودنہیں تھا بلکہ بیک وقت کئی ایک اور خواتین بھی اسکی منظور نظر تھیں۔اسے سروجنی نائیڈو کی بیٹی پدماجی نائیڈو سے بھی شدید عشق تھا اور اس عشق کی وجہ سے اسے بنگال کا گورنر بنوادیا۔ یہ عشق بھی اتنا شدید تھا کہ نہرو ہر وقت پدماجی کی تصویر اپنے بیڈروم میں رکھتا تھا جسے اندرا اکثر وہاں سے ہٹا دیتی اور وہ دوبارہ رکھوا دیتا۔ اس معاملے پر کئی دفعہ باپ بیٹی میں تکرار بھی ہوئی۔ ان دو خواتین کے علاوہ نہرو کو بنارس کی ایک سنیاسن شرادھاماتا بھی بہت پسند تھی۔ اسکے ساتھ بھی نہرو کے خصوصی تعلقات تھے۔ یہ خاتون بہت خوبصورت اور سنسکرت کی مسلمہ سکالر تھی۔ اسے پرانی ہندو دیومالائی تاریخ پر عبور حاصل تھا۔ نہرو اور شرادھاماتا کے گہرے تعلقات بالآخر رنگ لائے اور یہ خاتون حاملہ ہوگئی۔ اس نے نہرو کو شادی کےلئے بہت مجبور کیا لیکن نہرو اپنے سیاسی کیرئیر تباہ ہونے کے ڈر سے ایسا قدم نہ اٹھا سکا۔ بالآخر اس خاتون نے بنگلور کے ایک کانونٹ میں ایک ناجائز بچے کو جنم دیا۔ اسے کرسچین مشن سکول میں تعلیم دی گئی۔
اندازاً اسکی تاریخ پیدائش30مئی 1949ہے۔ ہوسکتا ہے وہ اب تک زندہ ہو لیکن چونکہ کانونٹ ایسے معاملات مکمل طور پر خفیہ رکھتا ہے تاکہ کسی کی تضحیک نہ ہو اس لئے اس ناجائز بچے کا کسی کو پتہ نہ چل سکا۔ شاید اسے خود بھی پتہ نہ ہو۔ ایم۔او۔متھائی نے بھی اپنی کتاب میں اس بچے کی پیدائش اور موجودگی کا ذکر کیا ہے لیکن کسی نے اسکی تلاش کی کوشش نہ کی۔ کانونٹ میں پیدائش اور تربیت کی وجہ سے یہ شخص یقینا کیتھولک عیسائی ہوگا اور اسے بھی اپنے باپ کا علم نہیں ہوگا۔
نہرو بچپن سے آزاد خیال اور رنگین مزاج شخص تھا۔ نہرو کی مشہور بائیوگرافیA Tryst with History میں Stanley A Wollpertنے لکھا ہے کہ ابتدائی تعلیم کےلئے جب وہ انگلینڈ میں مقیم تھا تو چھٹیوں میںکچھ خاص قسم کے رنگین مزاج لڑکوں کےساتھ یورپین ممالک کی سیر کو جاتا۔یہ لڑکے برہنہ ہو کر دریا میں تیرتے جو ایک بہت ہی معیوب بات تھی۔ اس سے نہروکے کردار پر بھی انگلیاں ا
´ٹھیں۔اسکی شادی بھی کمالہ نہرو کےساتھ اسکی پسند کے خلاف کی گئی۔کمالہ ایک با عزت اور خوددار خاتون تھی۔ اسکا خاوند سیاست اور دوسری عورتوں میں اتنا مصروف ہو اکہ اسکے پاس اپنی بیوی کیلئے وقت ہی نہ بچا۔ اسی غم میں اسے ٹی بی ہوگئی اور ایڑیاں رگڑرگڑ کر مرگئی لیکن نہرو اسکے لیے نہ وقت نکال سکا نہ دل میں جگہ بنا سکا۔نہرو کا ذاتی کردار اور بھی کئی صورتوں میںسامنے آیا مثلاً نیتا جی سبھاش چندرابوس اور ڈاکٹر شیام پرساد مکھرجی آزادی کے بعد وزیر اعظم کے عہدے کے مضبوط دعویدار اور نہرو کے حریف تھے۔ حیران کن بات ہے کہ دونوں کی موت بہت ہی پراسرار انداز میں ہوئی جسکا آج تک پتہ نہیں چلا۔تفصیل کچھ اس طرح سے ہے کہ پنڈت جواہر لعل نہرواور اسکی بیٹی اندرا گاندھی کی تاریخ نا قابل یقین حد تک دلچسپ بلکہ سنسنی خیز ہے۔ اس خاندان کا شجرہ نسب ایک مغل شہزادے غیاث الدین غازی سے شروع ہوتا ہے جو1857کی جنگ آزادی (انگریزوں کی نظر میں بغاوت)کے وقت دلی شہر کا کوتوال تھا اور بہادر شاہ ظفر ہندوستان کا حکمران تھا۔ اس دور میں مغل حکمران کوئی بھی اہم عہدہ کسی ہندو کو نہیں دیتے تھے۔ ا س دور میں شہر کا کوتوال خصوصاً دلی شہر کا کوتوال اہم ترین عہدہ تھا لہٰذاوہ کسی مغل خاندان کے فرد کو ہی دیا جا سکتا تھا جس پر اسوقت غیاث الدین غازی متمکن تھا۔ یاد رہے کہ اس دور میں شہر کا پولیس کوتوال موجودہ دور کے پولیس کمشنر کے برابر تھا۔1857کی جنگ آزادی میں مغلوں کو شکست ہوگئی اور انگریز مسلمانوں کے عموماً اور مغلوں کے خصوصاً دشمن بن گئے۔ انہوں نے ہر اس شخص کوموت کے گھاٹ اتار دیا جس کا ذرہ برابر بھی مغل خاندان سے تعلق تھا بلکہ بہت سے لوگ تو محض شک کی وجہ سے بھی موت کی بھینٹ چڑھ گئے۔ انگریزوں کو وہم ہو گیا کہ اگر خاندان مغلیہ کا ایک بھی فرد زندہ بچ گیا تو انکی حکومت کیلئے خطرہ بن سکتا تھا۔ جہاں مسلمانوں کا یہ حشر ہوا وہاں ہندو اور سکھ مکمل طور پر محفوظ رہے کیونکہ ان سے کسی قسم کا خطرہ نہ تھا۔ ان حالات میں بہت سے مسلمان اپنی جانیں بچانے کےلئے ہندو بن گئے یا ہندوﺅں کا لبادہ اوڑھ لیا۔ انہی لوگوں میں دلی شہر کا کوتوال غیاث الدین غازی بھی تھا۔
1857کی شکست کے بعد انگریزوں نے دلی میں مغلوں کا قتل عام شروع کیا تو غیاث الدین غازی نے ہندوانہ لباس زیب تن کیا۔ اپنا نام گنگا دھر رکھا۔ اسکا گھر لال قلعہ دلی کے نزدیک ایک نہر کے کنارے تھا۔ اسی مناسبت سے اس نے نام کےساتھ لفظ ”نہرو“ کا اضافہ کیا اور یوں یہ ” گنگا دھر نہرو“ بن کر اپنی فیملی کے ساتھ آگرہ کی طرف بھاگ کھڑا ہوا۔ اپنے خدوخال کی وجہ سے راستے میں یہ شخص پکڑا گیا لیکن اپنے آپ کو کشمیری پنڈت ظاہر کرکے بچ نکلا۔یہ نام اس لئے بھی سچ معلوم ہوتا ہے کہ پوری بھارتی تاریخ میں کوئی بھی شخصیت فیملی نام ”نہرو“ کے ساتھ وجود نہیں رکھتی۔
صرف ”گنگا دھر نہرو“ واحد شخص ہے جو 1857 کی شکست کے بعد تاریخ میں اس لقب کے ساتھ ہی ظاہرہوا۔ اس پس منظر کی تفصیل ایم۔کے۔سنگھ نے اپنی مشہور ریسرچEncyclopaedia of Indian War of Independence (SBN:81-261-3745-9) کی جلد نمبر13 میں دی ہے۔ یہ حقیقت حکومت ہند نے چھپا رکھی ہے۔
اسکے علاوہ اور بھی کئی شواہد ہیں جو اسی نتیجہ کی نشاندہی کرتے ہیں مثلاً جواہر لعل نہرو کی دوسری بہن کرشنا ہوتھیسنگKrishna Hutheasing نے اپنی یادداشتوںمیں لکھا ہے کہ ”میرا پردادا1857 سے پہلے جب بہادر شاہ ظفر سلطان ہند تھا تو وہ دلی شہر کاکوتوال تھا“ جواہر لعل نہرو نے بھی اپنی سوانح عمری میں اعتراف کیاہے کہ اس کے پردادا کے ایک پرانے فوٹو میں اس نے مسلمانوں والی گھنی اور لمبی داڑھی رکھی تھی ۔سرپر مغلوں والی ٹوپی تھی او ر ہاتھوں میں دو تلواریں تھیں۔ وہ بالکل مغل ”نوبل مین“ Noblemanکا شاہکار لگتاتھا۔
نہرو نے اپنی بائیوگرافی میں یہ انکشاف بھی کیا ہے کہ اسکے پردادا جب دلی سے آگرہ جا رہے تھے تو راستے میں انگریزوں نے انہیں پکڑ لیا تھا جسکی وجہ انکے مغلوں والے خدوخال تھے لیکن اس نے اپنے آپ اور اپنی فیملی کو کشمیری پنڈت کے طور پر پیش کرکے جان بچائی۔ یہاں یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ انیسویں صدی کے اردو لٹریچر اور خصوصاً خواجہ حسن نظامی کی تحریروں میں بہت تفصیل سے لکھا گیا ہے کہ کس طرح انگریزوں نے مسلمانوں اور مغلوں پر ظلم ڈھائے۔سرکردہ مسلمان اور مغل اپنی جانیں بچانے کے لئے ہندوﺅں کا روپ بدل کر چھپ چھپاکر مختلف شہروں کی طرف بھاگ گئے اور پناہ کے لئے انہیں کیسے کیسے پاپڑ بیلنے پڑے۔یقین لگتا ہے کہ نہرو کے آباﺅ اجداد جان بچانے کےلئے بھاگنے والوں میں شامل تھے۔اس خاندان نے بعد میں الہ آباد کے ایک بدنام علاقے میں جا کر پناہ لی تاکہ کسی کو شک نہ گزرے۔
جواہر لعل نہرو وہ شخص تھا جسکی بھارتی عوام پوجا کرتے ہیں لیکن حیران کن بات یہ ہے کہ اسکی جنم بھومی پرحکومت ہند نے کسی قسم کی یادگار تعمیر نہیں کی۔اسکی ایک خاص وجہ یہ ہے کہ اسکی پیدائش االہٰ آباد میں میر گنج کے محلے کے 77نمبر مکان میں ہوئی اور یہ علاقہ الہ آباد کا مشہور ”ریڈلائٹ ایریا (بازار حسن) ہے۔ اس دور میں بھی یہ محلہ پورے بھارت میں مشہور تھا اور یہ جواہر لعل نہرو کی پیدائش سے پہلے بھی اسی طرح مشہور تھا۔ اس آبائی گھر کا ایک حصہ جواہر لعل نہرو کے باپ موتی لعل نے ایک مشہور طوائف لالی جان کے ہاتھ بیچ دیا۔ اس حقیقت کی مزید بااعتماد ذرائع سے بھی تصدیق کی جاسکتی ہے مثلاً :encyclopedia.com and Wikipedia.comسے ۔
بعد میں موتی لعل میرگنج کا علاقہ چھوڑ کر آنندبھون منتقل ہو گیا جہاں نہرو کی پرورش ہوئی۔ یہاں یہ واضح کرنا ضروری ہے کہ آنندبھون جواہرلعل نہرو کے اباﺅاجداد کی خاندانی رہائش گاہ ضرور تھی لیکن اس عظیم سیاستدان کی جنم بھومی ہرگز نہ تھی۔
***************************
جواہر لعل نہرو اور اسکا خاندان کردار کے لحاظ سے بھی کوئی قابل رشک خاندان نہ تھا۔ جواہر لعل نہرو جب بھارت کا وزیراعظم بنا تو انڈین سول سروس کا مشہور بیوروکریٹ مسٹرM.O Mathai اس کا پرائیویٹ سیکرٹری مقررہوا جس نے کافی عرصہ وزیراعظم کے ساتھ گزارا۔ بعد میں اس نے نہرو کے ساتھ گزارے گئے ایام پر \\\"Reminisences of the Nehru Age\\\" کے نام سے کتاب لکھی۔ اس کتاب میں متھائی نے انکشاف کیا ہے کہ نہرو اور لارڈ ماﺅنٹ بیٹن (آخری وائسرائے ہند)کی بیوی ایڈوینا ماﺅنٹ بیٹن کے درمیان پاگل پن کی حد تک معاشقہ تھا جو اکثر اندرا گاندھی کےلئے پریشانی اور ندامت کا باعث ثابت ہوتا۔
اندرا گاندھی جب بہت زیادہ پریشان ہوتیں تو مولانا ابو الکلام آزاد کی خدمات حاصل کرتیں کہ وہ نہرو کو سمجھائے تاکہ وہ اپنے معاشقے میں اعتدال سے کام لے اور یوں پورے خاندان کو تضحیک وشرمندگی سے بچائے۔ مولانا ابو الکلام آزاد اور نہرو میں کافی انڈرسٹینڈنگ اور خاندانی تعلقات تھے۔ بعض مغربی مورخین نے نہرو ایڈوینا تعلقات چسکے لے لےکر بیان کئے ہیں۔ لارڈ ماﺅنٹ بیٹن جب وائسرائے ہند تھا تو اس عشق کا پتہ تو بہت سے لوگوں کو تھا لیکن وائسرائے کی وجہ سے لوگ زبان نہیں کھولتے تھے۔ بعد میں جب ہندوستان آزاد ہو گیا اور نہرو وزیر اعظم بنا تو یہ تعلقات اور بھی مضبوط ہوئے۔ نہرو کی بیوی مر چکی تھی ۔ایڈوینا اکثر ہندوستان آتی اور وزیر اعظم کے ذاتی مہمان کے طور پر وزیراعظم گیسٹ ہاﺅس میں ٹھہرتی۔ سرکاری اور نجی تقریبا ت میں دونوں ایک ہی صوفے پر ساتھ ساتھ بیٹھتے اور اس انداز میں ایک دوسرے کے کان میں سرگوشیاں کرتے کہ بوس و کنار کا شک گزرتا۔ نہرو بھی اکثر نجی دوروں پر انگلینڈ جاتے تو ایڈوینا ائیرپورٹ پر انتظار کرتی۔ جونہی نہرو جہاز سے اترتا وہ اسے ذاتی گاڑی میں لیکر فرانس چلی جاتی وہاں وہ اپنی خاندانی رہائش گاہ میں ٹھہرتے اور یہ سارا عرصہ دونوں باہر کہیں گھومنے پھرنے نہ جاتے۔ دونوں کی وفات کے بعد دونوں کے عشقیہ خطوط سیکس سکینڈل کی شکل میں سامنے آئے لیکن پیشتر اسکے کہ یہ سکینڈل بہت زیادہ رنگ پکڑتا دونوں طرف سے وضاحتی بیانات کے ساتھ معاملہ دبا دیا گیا۔
نہرو کا معاشقہ صرف لیڈی ماﺅنٹ بیٹن تک ہی محدودنہیں تھا بلکہ بیک وقت کئی ایک اور خواتین بھی اسکی منظور نظر تھیں۔اسے سروجنی نائیڈو کی بیٹی پدماجی نائیڈو سے بھی شدید عشق تھا اور اس عشق کی وجہ سے اسے بنگال کا گورنر بنوادیا۔ یہ عشق بھی اتنا شدید تھا کہ نہرو ہر وقت پدماجی کی تصویر اپنے بیڈروم میں رکھتا تھا جسے اندرا اکثر وہاں سے ہٹا دیتی اور وہ دوبارہ رکھوا دیتا۔ اس معاملے پر کئی دفعہ باپ بیٹی میں تکرار بھی ہوئی۔ ان دو خواتین کے علاوہ نہرو کو بنارس کی ایک سنیاسن شرادھاماتا بھی بہت پسند تھی۔ اسکے ساتھ بھی نہرو کے خصوصی تعلقات تھے۔ یہ خاتون بہت خوبصورت اور سنسکرت کی مسلمہ سکالر تھی۔ اسے پرانی ہندو دیومالائی تاریخ پر عبور حاصل تھا۔ نہرو اور شرادھاماتا کے گہرے تعلقات بالآخر رنگ لائے اور یہ خاتون حاملہ ہوگئی۔ اس نے نہرو کو شادی کےلئے بہت مجبور کیا لیکن نہرو اپنے سیاسی کیرئیر تباہ ہونے کے ڈر سے ایسا قدم نہ اٹھا سکا۔ بالآخر اس خاتون نے بنگلور کے ایک کانونٹ میں ایک ناجائز بچے کو جنم دیا۔ اسے کرسچین مشن سکول میں تعلیم دی گئی۔
اندازاً اسکی تاریخ پیدائش30مئی 1949ہے۔ ہوسکتا ہے وہ اب تک زندہ ہو لیکن چونکہ کانونٹ ایسے معاملات مکمل طور پر خفیہ رکھتا ہے تاکہ کسی کی تضحیک نہ ہو اس لئے اس ناجائز بچے کا کسی کو پتہ نہ چل سکا۔ شاید اسے خود بھی پتہ نہ ہو۔ ایم۔او۔متھائی نے بھی اپنی کتاب میں اس بچے کی پیدائش اور موجودگی کا ذکر کیا ہے لیکن کسی نے اسکی تلاش کی کوشش نہ کی۔ کانونٹ میں پیدائش اور تربیت کی وجہ سے یہ شخص یقینا کیتھولک عیسائی ہوگا اور اسے بھی اپنے باپ کا علم نہیں ہوگا۔
نہرو بچپن سے آزاد خیال اور رنگین مزاج شخص تھا۔ نہرو کی مشہور بائیوگرافیA Tryst with History میں Stanley A Wollpertنے لکھا ہے کہ ابتدائی تعلیم کےلئے جب وہ انگلینڈ میں مقیم تھا تو چھٹیوں میںکچھ خاص قسم کے رنگین مزاج لڑکوں کےساتھ یورپین ممالک کی سیر کو جاتا۔یہ لڑکے برہنہ ہو کر دریا میں تیرتے جو ایک بہت ہی معیوب بات تھی۔ اس سے نہروکے کردار پر بھی انگلیاں ا
مسٹر ایس۔سی بھٹ نے اپنی کتاب:
The Great Divide: Muslim Separation and Partition
میں نہرو خاندان پر مزید روشنی ڈالی ہے۔ مسٹر بھٹ کے مطابق نہرو کی بہن وجے لکشمی پنڈت کے اپنے والد کے ایک مسلمان ملازم سید حسین کے ساتھ تعلقات تھے۔ یہ تعلقات اس حد تک چلے گئے کہ وہ سید حسین کے ساتھ گھر سے بھاگ گئی ۔ موتی لعل نہرو زبردستی اسے واپس لائے اور پھر رنجیت پنڈت نامی شخص کے ساتھ زبردستی شادی کر دی۔
نہرو خاندان کے ذاتی کردار بڑے رومانوی قسم کے ہیں۔ نہرو کی بیٹی اندرا پریادرشنی (بعد میں اندرا گاندھی) نے بھی خاندان کی اس اخلاقی بے راہروی کی روایت جاری رکھی۔ ذہین و فطین اندرا گاندھی کو تعلیم کےلئے آکسفورڈ یونیورسٹی میں داخل کرایا گیا لیکن وہاں اپنی غیر تعلیمی مصروفیات کی وجہ سے اچھی کارکردگی نہ دکھا سکی جس وجہ سے اسے وہاں سے نکال دیا گیا۔ بعد میں اس نے Shantiniketon یونیورسٹی میں داخلہ لیا لیکن یہاں سے بھی اسے گرودیورا بندراناتھ ٹیگور نے اپنے غیراخلاقی رویہ پر بھگادیا۔ یونیورسٹی سے تو بدنام ہو کر نکل چکی تھی۔ والد سیاست میں مشغول تھا جس کے پاس اندرا کےلئے وقت ہی نہ تھا۔ والدہ ٹی بی کی مریضہ تھی اور سوئیزرلینڈ میں زیر علاج تھی تو اب اندرا تنہائی اور ڈپریشن کا شکار ہوگئی۔ اس موقعہ پر فیروز خان اسکی زندگی میں داخل ہوا اور وہ اسکے پاس کھچی چلی آئی۔ فیروز خان ایک کریانہ مرچنٹ نواب خان نامی شخص کا بیٹا تھا۔
نواب خان کی الہٰ آباد میں دوکان تھی اور موتی لعل کے گھر شراب فراہم کرتا تھا۔ اس حوالے سے فیروز خان کا آنندبھون میں آنا جانا ہوا۔ اندرا کو اپنی تنہائی اور بوریت دور کرنے کا موقعہ ملا اور فیروز خان کو زندگی کی رنگینی دوبالا کرنے کا۔ دونوں اس حد تک قریب آگئے کہ ایک دوسرے میں ضم ہوگئے۔ اسی دوان فیروز خان بھی انگلینڈ چلا گیاجہاں وہ اندرا کی والدہ کی تیمار داری بھی کرتا اور اندرا کو بھی خوش رکھتا بلکہ ماں بیٹی دونوں کیلئے مسیحا بن گیا۔ اس وقت کے مہارا شٹر کے وزیر اعلیٰ شری پرکاش نے نہرو کو اندرا کے فیروز خان کے ساتھ تعلقات کے بارے میں خبردار بھی کیالیکن نہرو شدید سیاسی مصروفیات کی وجہ سے بیٹی کےلئے وقت ہی نہ نکال سکا۔ جب اس نوجوان جوڑے کے تعلقات خطرناک حد تک بڑھ گئے تو نوجوان اندرا مسلمان ہوگئی اور لندن کی ایک مسجد میں دونوں نے شادی رچالی۔ شادی کے بعد اندرا پریادرشی نہرو نے اپنا نام تبدیل کرکے اسلامی نام میمونہ بیگم رکھا۔ اندرا کی والدہ کمالہ نہرو اس شادی کی سخت مخالف تھی لیکن اندرا نے اسکی ایک نہ سنی۔ نہرو بھی اس لئے سخت ناراض تھا کہ اندرا کے مسلمان بننے سے اسکا وزیراعظم بننے کا خواب پورا نہیں ہوسکے گا۔ یادرہے کہ یہ آزادی سے پہلے کا واقعہ ہے۔
اب نہرو نے اپنے نوجوان داماد فیروز خان کو مجبور کیا کہ وہ بے شک مذہب تبدیل نہ کرے لیکن صرف اپنے نام کے ساتھ خان ہٹا کر گاندھی Gandhy بطور لقب (Surname) لگالے۔ ایساکرنے کیلئے کسی زیادہ کاروائی کی ضرورت بھی نہ تھی بلکہ یہ تبدیلی صرف ایک بیان حلفی سے ممکن تھی۔ اس نام کا اسلام یا ہندوازم سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ تو یوں نہرو کے اصرار پر وہ فیروز خان سے فیروز گاندھی بن گیا۔
یہاں یہ باریک سا ہجوں کا فرق واضح ہونا چاہیے کہ Gandhi تو ہندو لقب ہو سکتا ہے لیکنGandhy ہندو لقب یا ہندو نام نہیں ہے۔ گو یہ ہے بڑا عجیب سا نام جیسے ”بسم اللہ سرما“ وغیرہ۔ بدقسمتی سے اردو میں Gandhi اور Gandhy کے ہجے ایک جیسے ہیں‘ اس لیے فرق کا پتہ نہیں چلتا۔ بہرحال یہ امر نہیں بھولنا چاہیے کہ فیروز خان اور اندرا دونوں نے اپنے اپنے نام بھارتی عوام کو بے وقوف بنانے کےلئے بدلے تھے۔ جب یہ واپس ہندوستان آئے تو ان دونوں کی ایک نقلی قسم کی شادی ہندوانہ رسم و رواج کے مطابق بھی رچائی گئی۔
مہاتماگاندھی نہرو کا آئیڈیل شخص اور سیاسی ر اہنما تھا۔ اسکے مجبور کرنے پر گاندھی کے ہجے مزید تبدیل کر دئیے گئے اور وہ Gandhyسے Gandhiبن گیا ۔ حیران کن بات ہے کہ \\\"Y\\\" اور\\\"I\\\" کے فرق نے ہندوستان کی تاریخ ہی تبدیل کرڈالی۔ تو یوں اندرا اور اسکے سلسلہ نسب کو دو جعلی ناموں سے تاریخ نے محفوظ کر لیا۔ دونوں فینسی نام یعنی ”نہرو اور گاندھی “ہی تاریخ بن گئے۔ ان جعلی ناموں کی اوٹ میں اس خاندان کی اصل تاریخ بھی مسخ ہوچکی ہے۔
******************************
صحافی | سکندر خان بلوچ
***********************************