نہیں ممکن حقیقت کا بیاں ہے ۔۔۔۔۔۔ برائے اصلاح

کاشف اختر

لائبریرین
محترم احباب ! اساتذہ کرام جناب الف عین صاحب ظہیراحمدظہیر صاحب بھائی راحیل فاروق ! ایک زمانے سے ا صلاح کا سلسلہ منقطع ہوگیا تھا ۔ سیکھنے کا شوق محنت کا جذبہ اب بھی موجود ہے ۔ آپ حضرات کی خصوصی توجہات درکار ہیں ۔ سابقہ تک بندیوں کی طرح ایک اور تک بندی برائے اصلاح حاضر کررہا ہوں ۔


نہیں ممکن حقیقت کا بیاں ہے
جو لکھا ہے وہ زیب داستاں ہے
جنوں نے سب سلاسل توڑ ڈالے
خرد سرگشتہ سود و زیاں ہے
نہ چھوڑا خار نے گلشن کسی دم
بہار گلستاں ہے یا خزاں ہے
گل و لالہ سے کہدو! ٹھر جائیں
خزاں پیچھے بہار گلستاں ہے
مرے ہمراہ میخانے کو آیا
ہیں دن اچھے کہ زاہد مہرباں ہے
اسیر رسم ہجو مے ہے واعظ
ولے منجملہ بادہ کشاں ہے
شرر کو ہے عبث الزام دینا
مرا دشمن تو کاشف آشیاں ہے
 

الف عین

لائبریرین
حسب معمول استادانہ غزل ہے۔ مجھے بس دو مصارع میں خامی محسوس ہوئی۔
بہار گلستاں ہے یا خزاں ہے
۔۔یہاں گلستاں کا لفظ غیر ضروری ہے۔ کچھ اور کہو۔

خزاں پیچھے بہار گلستاں ہے
۔۔۔یہاں بات مکمل نہیں لگتی، شاید خزاں کے بعد مراد ہے۔
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
واہ واہ کاشف بھائی ، بہت خوب! کیا اچھے اشعار ہیں !!!
گل و لالہ سے کہدو! ٹھر جائیں
اعجاز بھائی نے کچھ باتوں کی نشاندہی تو کردی ہے ۔ اس مصرع کو اور دیکھ لیجئے ۔ اس میں ٹھہر کا وزن درست نہین باندھا گیا ۔
 

کاشف اختر

لائبریرین
بہت شکریہ حضرات گرامی ! آپ جیسے مخلص اساتذہ کی تربیت و ہم نشینی کا فیض ہے ۔ ورنہ کہاں میں اور کہاں یہ شاعری؟
ذرہ نوازی و حوصلہ افزائی کے لئے بے حد ممنون ہوں ۔
 
آداب، کاشف بھائی۔ ممنون ہوں کہ آپ نے اس لائق سمجھا۔
مجھے اپنی تنقیدی بصیرت پر کچھ ایسا اعتبار نہیں ہے۔ میرے خیالات میرے لیے تو بےشک نہایت اہم ہیں مگر ضروری نہیں کہ جناب کے کلام پر بھی ان کا انطباق سودمند ہو۔ بہرکیف، تعمیلِ ارشاد میں کچھ باتیں عرض کرنی چاہتا ہوں۔
نہیں ممکن حقیقت کا بیاں ہے
جو لکھا ہے وہ زیب داستاں ہے
مصرعِ اولیٰ خلافِ محاورہ ہے۔ نہی کے فقروں میں ہے، ہیں، ہو وغیرہ محذوف ہوتے ہیں۔یعنی حقیقت کا بیاں ممکن نہیں فصیح ہے جبکہ حقیقت کا بیاں ممکن نہیں ہے عموماً غیر فصیح گردانا جائے گا۔
جنوں نے سب سلاسل توڑ ڈالے
خرد سرگشتہ سود و زیاں ہے
سلاسل توڑ ڈالنے کے مقابل پابندی یا اس سے متعلق کوئی ترکیب ہونی چاہیے تھی۔ سرگشتگی سے مفہوم واضح نہیں ہوتا۔ سرگشتہ کا مطلب ہے جس کا سر پھر گیا ہو۔ یہ دیوانگی کی کیفیت ہے جسے زنجیرشکنی کے مقابل رکھنا بےسود ہے خاص طور پر جب جنوں اور خرد کا باہم دگر موازنہ مقصود ہو۔
نہ چھوڑا خار نے گلشن کسی دم
بہار گلستاں ہے یا خزاں ہے
بہت عمدہ خیال ہے۔ مجھے ذاتی طور پر خیال اور طرزِ ادا دونوں پسند آئے۔
۔۔یہاں گلستاں کا لفظ غیر ضروری ہے۔ کچھ اور کہو۔
استادِ محترم کی بات بھی فائدے سے خالی نہیں۔ ہو سکے تو اس حشو سے جان چھڑا ہی لیں۔
گل و لالہ سے کہدو! ٹھر جائیں
خزاں پیچھے بہار گلستاں ہے
اس میں ٹھہر کا وزن درست نہین باندھا گیا ۔
ہمارا خیال ہے کہ کاشف بھائی سے املا کی غلطی ہوئی ہے۔ وہ شاید ٹھیر جائیں لکھنا چاہ رہے تھے۔ یہ جائز بھی ہے اور وزن بھی اس طرح درست ہو جاتا ہے۔ گو قابلِ ترجیح وہی وزن ہے جو ظہیرؔ بھائی کہنا چاہ رہے ہیں۔ یعنی ٹھہر کو ہائے ہوز کے ساتھ وتد مجموع کے وزن پر باندھا جائے۔
دوسرے مصرعے کا محاورہ متروک ہے۔ اردو کا یہ چلن شاید میرؔ کے زمانے تک رہا ہو۔ اب یہ طرزِ کلام اختیار کرنا ہماری رائے میں مستحسن نہیں۔
خیال البتہ نہایت پسند آیا۔ اس پر خصوصی داد بنتی ہے آپ کے لیے۔ کم از کم میں نے اب سے پہلے ایسا اچھوتا خیال اس مضمون میں نہیں دیکھا۔
مرے ہمراہ میخانے کو آیا
ہیں دن اچھے کہ زاہد مہرباں ہے
صفی حیدر بھائی کی ایک غزل پر گفتگو کے دوران میں نے ذیل کا نکتہ اٹھایا تھا:
مجھے بعض لوگوں سے ایک نکتہ معلوم ہوا تھا جو عموماً عروض کی کتب میں مندرج نہیں۔ مگر اساتذہ کے کلام کے جائزے سے اس کے التزام کا ثبوت ملتا ہے۔ وہ نکتہ یہ ہے کہ مصرع کے شروع میں "ہے" کو حرفِ واحد کے وزن پر باندھنے سے احتراز کیا جانا چاہیے۔ یعنی اگر کسی بحر میں مصرع "ہے" سے شروع کرنے کے لیے اس کی یائے لین ساقط کرنی پڑے تو ایسا نہیں کرنا چاہیے۔
یہی معاملہ ہیں اور ہو کے ساتھ بھی سمجھنا چاہیے۔
مصرعِ ثانی میں معمولی سی تبدیلی سے یہ کمی اگر آپ چاہیں تو دور ہو سکتی ہے۔
خیال میں کوئی ایسی ندرت مجھے معلوم نہیں ہوئی۔ یا میں سمجھ نہیں سکا۔
اسیر رسم ہجو مے ہے واعظ
ولے منجملہ بادہ کشاں ہے
اچھا ہے۔ کیا ہی اچھا ہو کہ آپ ریختہ کے اساتذہ سے متاثر ہو چکنے کے بعد حضرتِ داغؔ کو بھی پڑھا کریں۔ آپ کی زبان پر کلاسیک کا جو اثر غیرضروری طور پر پیدا ہو گیا ہے اس کی اس سے میٹھی دوا کوئی نہیں۔
شرر کو ہے عبث الزام دینا
مرا دشمن تو کاشف آشیاں ہے
میری دانست میں شعر مکمل نہیں ہے۔ فرماتے ہیں کہ شرر کو الزام دینا عبث ہے کیونکہ میرا دشمن خود آشیاں ہے۔ مصرعِ اولیٰ میں شرر کا ذکر آگ لگنے کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ مگر آپ الزام شرر کو نہیں دینا چاہتے۔ تو پھر آشیاں کا قصور تو کم از کم واضح ہونا چاہیے۔ پورے شعر میں کوئی قرینہ ایسا نہیں ہے جو آشیاں کی کوتاہی پر دلالت کرتا ہو۔ یعنی الزام ہی الزام ہے بیچارے پر۔ :):):)
 

کاشف اختر

لائبریرین
بہت شکریہ محترم راحیل فاروق صاحب! بہت خوب تبصرے ہیں آپ کے ۔ اکثر باتیں وہ ہیں جن کا مجھے خود بھی شک تھا ۔ اب پوری غزل اصلاح و ترمیم کے بعد دوبارہ حاضر کرنے سے قبل دو شعر اور ملاحظہ فرمائیں! آپ کے تبصرے کا انتظار رہے گا ۔



وہ کیا سمجھے گا لطف سجدہ شوق
جو زاہد کہ گرفتار مکاں ہے
رفو کیا کیجئیے دامان دل کا
قتیل غمزہ چشم بتاں ہے

پہلے بھی کسی مصرعے میں حضرت زاہد کا تذکرہ ہوچکا ہے اس لئے اس مصرع کو یوں تبدیل کررہا ہوں تاکہ تکرار سے بچا جائے ۔

مرے ہمراہ میخانے کو آیا
خوشا کہ شیخ کعبہ مہرباں ہے
 

الف عین

لائبریرین
بہت شکریہ محترم راحیل فاروق صاحب! بہت خوب تبصرے ہیں آپ کے ۔ اکثر باتیں وہ ہیں جن کا مجھے خود بھی شک تھا ۔ اب پوری غزل اصلاح و ترمیم کے بعد دوبارہ حاضر کرنے سے قبل دو شعر اور ملاحظہ فرمائیں! آپ کے تبصرے کا انتظار رہے گا ۔



وہ کیا سمجھے گا لطف سجدہ شوق
جو زاہد کہ گرفتار مکاں ہے
رفو کیا کیجئیے دامان دل کا
قتیل غمزہ چشم بتاں ہے

پہلے بھی کسی مصرعے میں حضرت زاہد کا تذکرہ ہوچکا ہے اس لئے اس مصرع کو یوں تبدیل کررہا ہوں تاکہ تکرار سے بچا جائے ۔

مرے ہمراہ میخانے کو آیا
خوشا کہ شیخ کعبہ مہرباں ہے
نئے اشعار ۔۔
گرفتار مکاں کا سجدہء شوق سے ربط کا قرینہ سمجھ نہیں سکا۔
دامن دل قتیل ہے؟ یہ عجیب بات محسوس ہوئی۔ ایک بات اور، ’دامان دل کا‘ اجنبی لگ رہا ہے۔ دامان عام طور پر اضافت کے ساتھ مستعمل ہے۔ اسے ’دامانَ دل کو‘ کیا جا سکتا ہے
 

کاشف اختر

لائبریرین
بہت مشکل حقیقت کا بیاں ہے
جو لکھا ہے وہ زیب داستاں ہے
جنوں نے سب سلاسل توڑ ڈالے
خرد در پردہ سود و زیاں ہے
نہ چھوڑا خار نے گلشن کسی دم
بہاروں کا سماں ہے یا خزاں ہے
گل و لالہ سے کہدو! ٹھیر جائیں
خزاں ہے پھر بہاروں کا سماں ہے
بھلا کیا کیجیے درمان دل کا
قتیل غمزہ چشم بتاں ہے
اسیر رسم ہجو مے ہے واعظ
ولے منجملہ بادہ کشاں ہے
میں تنہا گامزن ہوں سوئے منزل
نہ رہبر ہے نہ کوئی کارواں ہے
ملا نہ آستانہ حیف ! کاشف
جبیں بے داغ سنگ آستاں ہے
 

احمد وصال

محفلین
بہت شکریہ محترم راحیل فاروق صاحب! بہت خوب تبصرے ہیں آپ کے ۔ اکثر باتیں وہ ہیں جن کا مجھے خود بھی شک تھا ۔ اب پوری غزل اصلاح و ترمیم کے بعد دوبارہ حاضر کرنے سے قبل دو شعر اور ملاحظہ فرمائیں! آپ کے تبصرے کا انتظار رہے گا ۔



وہ کیا سمجھے گا لطف سجدہ شوق
جو زاہد کہ گرفتار مکاں ہے
رفو کیا کیجئیے دامان دل کا
قتیل غمزہ چشم بتاں ہے

پہلے بھی کسی مصرعے میں حضرت زاہد کا تذکرہ ہوچکا ہے اس لئے اس مصرع کو یوں تبدیل کررہا ہوں تاکہ تکرار سے بچا جائے ۔

مرے ہمراہ میخانے کو آیا
خوشا کہ شیخ کعبہ مہرباں ہے
 
تاخیر کے لیے معذرت، کاشف بھائی۔
پہلے ابتدائی اشعار کو دیکھ لیتے ہیں۔ :):):)
وہ کیا سمجھے گا لطف سجدہ شوق
جو زاہد کہ گرفتار مکاں ہے
کاشف بھائی، ایک عروضی غلطی کے باعث شعر کی حیثیت بہت متاثر ہوئی ہے۔ مصرعِ ثانی میں کہ کو سبب یعنی دو حروف کے وزن پر باندھا گیا ہے۔ روایت، اور بڑی مستند روایت، یہ رہی ہے کہ اسے یک حرفی باندھا جائے۔ اس معاملے کو دوبارہ دیکھیے۔
خیال عالی معلوم ہوتا ہے مگر بیان پر قدرت نہ ہونے کے باعث پورے طور پر بیان نہیں ہو سکا۔
رفو کیا کیجئیے دامان دل کا
قتیل غمزہ چشم بتاں ہے
استادِ محترم کی بات قابلِ غور ہے۔
دامن دل قتیل ہے؟ یہ عجیب بات محسوس ہوئی۔ ایک بات اور، ’دامان دل کا‘ اجنبی لگ رہا ہے۔ دامان عام طور پر اضافت کے ساتھ مستعمل ہے۔ اسے ’دامانَ دل کو‘ کیا جا سکتا ہے
مرے ہمراہ میخانے کو آیا
خوشا کہ شیخ کعبہ مہرباں ہے
اس میں بھی مصرعِ ثانی میں کہ کو سبب کے وزن پر باندھا گیا ہے۔ نیز معانی کے اعتبار سے مجھے تو کچھ خاص معلوم نہیں ہوا۔
---
اور اب نئی غزل: :):):)
بہت مشکل حقیقت کا بیاں ہے
جو لکھا ہے وہ زیب داستاں ہے
زیبِ داستان کا مطلب ہے کہانی کی زینت۔ یعنی وہ باتیں جو اصل قصے کے ساتھ محض جذباتی اثر پیدا کرنے کے لیے جوڑ دی جائیں۔ جبکہ مصرعِ اولی کا ادعا ہے کہ قصہ بیان ہی نہیں ہو سکتا۔
جہاں تک میں سمجھ پایا ہوں آپ یہ کہنا چاہ رہے ہیں کہ حقیقت کا بیان تو بشر کی طاقت سے باہر ہے۔ جو کچھ البتہ وہ کہتا ہے وہ اضافی طور پر درست ہے۔ یہ بات کسی حد تک مطلع میں بیان ہو گئی ہے مگر ابلاغ اس درجے کا نہیں کہ شعر کو عمدہ قرار دیا جا سکے۔ گیا گزرا بھی بہرحال نہیں۔ خیال البتہ بہت اچھا ہے۔
جنوں نے سب سلاسل توڑ ڈالے
خرد در پردہ سود و زیاں ہے
یہاں تو ہم سیدھی سیدھی اصلاح کریں گے، کاشف بھائی! ;););)
مصرعِ ثانی یوں ہو تو کیسا ہو؟
خرد زندانئِ سود و زیاں ہے​
نہ چھوڑا خار نے گلشن کسی دم
بہاروں کا سماں ہے یا خزاں ہے
بہت بہتر ہو گیا ہے۔
گل و لالہ سے کہدو! ٹھیر جائیں
خزاں ہے پھر بہاروں کا سماں ہے
مزا نہیں آیا۔ جتنا پیارا خیال تھا اس کا حق نہیں ادا ہو پا رہا۔
میں فی الحال دماغ سوزی تو نہیں کر سکتا مگر مثال کے طور پر ایک متبادل دکھانا چاہوں گا۔
خزاں کے پیچھے فصلِ گل رواں ہے​
بھلا کیا کیجیے درمان دل کا
قتیل غمزہ چشم بتاں ہے
معنیٰ صاف ہے۔ انداز بھی اچھا ہے۔ گو خیال پرانا ہے۔
اسیر رسم ہجو مے ہے واعظ
ولے منجملہ بادہ کشاں ہے
ٹھیک۔
میں تنہا گامزن ہوں سوئے منزل
نہ رہبر ہے نہ کوئی کارواں ہے
اچھا۔
ملا نہ آستانہ حیف ! کاشف
جبیں بے داغ سنگ آستاں ہے
بہت خوب صورت شعر۔ بیت الغزل ہوتا اگر ایک عیب نہ ہوتا۔ کہ کی طرح نہ بھی سببِ خفیف کے وزن پر نہیں باندھا جا سکتا۔ مصرعِ اولیٰ کو بدلنے کی کوشش کیجیے۔
---
کوئی خطا کھائی ہو تو معذرت خواہ ہوں۔ :):):)
 

کاشف اختر

لائبریرین
بہت شکریہ سر! معذرت کی کوئی بات نہیں ۔ جن نکات پر آپ نے توجہ دلائی ہے ان کے احاطے کے ساتھ ایک بار پھر مکمل پیش کرتا ہوں ۔
 

کاشف اختر

لائبریرین
خرد زندانئِ سود و زیاں ہے

اب تک تو میں آپ کے فکر و خیال ہی متاثر تھا ، پر اب آپ کی قادرالکلامی سے بھی متاثر ہونا پڑا !

مجھے اپنی تنقیدی بصیرت پر کچھ ایسا اعتبار نہیں ہے

اچھا جی ! مجھے تو آپ کی تنقیدی بصیرت پر اعتبار ہے !

۔ میرے خیالات میرے لیے تو بےشک نہایت اہم ہیں مگر ضروری نہیں کہ جناب کے کلام پر بھی ان کا انطباق سودمند ہو۔

آپ کے خیالات میرے لیے بھی نہایت اہم ہیں ! اور فقیر کے کلام پر ان کا انطباق سود مند بھی ہے !
 

کاشف اختر

لائبریرین
ملا نہ آستانہ حیف ! کاشف
جبیں بے داغ سنگ آستاں ہے


بہت خوب صورت شعر۔ بیت الغزل ہوتا اگر ایک عیب نہ ہوتا۔ کہ کی طرح نہ بھی سببِ خفیف کے وزن پر نہیں باندھا جا سکتا۔ مصرعِ اولیٰ کو بدلنے کی کوشش کیجیے۔

نہ پایا تونے کاشف آستاں حیف!

یہ وزن میں آسکتا ہے؟ جناب محترم الف عین ....بھائی راحیل فاروق !​
 
Top