آداب، کاشف بھائی۔ ممنون ہوں کہ آپ نے اس لائق سمجھا۔
مجھے اپنی تنقیدی بصیرت پر کچھ ایسا اعتبار نہیں ہے۔ میرے خیالات میرے لیے تو بےشک نہایت اہم ہیں مگر ضروری نہیں کہ جناب کے کلام پر بھی ان کا انطباق سودمند ہو۔ بہرکیف، تعمیلِ ارشاد میں کچھ باتیں عرض کرنی چاہتا ہوں۔
نہیں ممکن حقیقت کا بیاں ہے
جو لکھا ہے وہ زیب داستاں ہے
مصرعِ اولیٰ خلافِ محاورہ ہے۔ نہی کے فقروں میں
ہے،
ہیں،
ہو وغیرہ محذوف ہوتے ہیں۔یعنی
حقیقت کا بیاں ممکن نہیں فصیح ہے جبکہ
حقیقت کا بیاں ممکن نہیں ہے عموماً غیر فصیح گردانا جائے گا۔
جنوں نے سب سلاسل توڑ ڈالے
خرد سرگشتہ سود و زیاں ہے
سلاسل توڑ ڈالنے کے مقابل پابندی یا اس سے متعلق کوئی ترکیب ہونی چاہیے تھی۔ سرگشتگی سے مفہوم واضح نہیں ہوتا۔ سرگشتہ کا مطلب ہے جس کا سر پھر گیا ہو۔ یہ دیوانگی کی کیفیت ہے جسے زنجیرشکنی کے مقابل رکھنا بےسود ہے خاص طور پر جب جنوں اور خرد کا باہم دگر موازنہ مقصود ہو۔
نہ چھوڑا خار نے گلشن کسی دم
بہار گلستاں ہے یا خزاں ہے
بہت عمدہ خیال ہے۔ مجھے ذاتی طور پر خیال اور طرزِ ادا دونوں پسند آئے۔
۔۔یہاں گلستاں کا لفظ غیر ضروری ہے۔ کچھ اور کہو۔
استادِ محترم کی بات بھی فائدے سے خالی نہیں۔ ہو سکے تو اس حشو سے جان چھڑا ہی لیں۔
گل و لالہ سے کہدو! ٹھر جائیں
خزاں پیچھے بہار گلستاں ہے
اس میں ٹھہر کا وزن درست نہین باندھا گیا ۔
ہمارا خیال ہے کہ کاشف بھائی سے املا کی غلطی ہوئی ہے۔ وہ شاید
ٹھیر جائیں لکھنا چاہ رہے تھے۔ یہ جائز بھی ہے اور وزن بھی اس طرح درست ہو جاتا ہے۔ گو قابلِ ترجیح وہی وزن ہے جو ظہیرؔ بھائی کہنا چاہ رہے ہیں۔ یعنی
ٹھہر کو ہائے ہوز کے ساتھ وتد مجموع کے وزن پر باندھا جائے۔
دوسرے مصرعے کا محاورہ متروک ہے۔ اردو کا یہ چلن شاید میرؔ کے زمانے تک رہا ہو۔ اب یہ طرزِ کلام اختیار کرنا ہماری رائے میں مستحسن نہیں۔
خیال البتہ نہایت پسند آیا۔ اس پر خصوصی داد بنتی ہے آپ کے لیے۔ کم از کم میں نے اب سے پہلے ایسا اچھوتا خیال اس مضمون میں نہیں دیکھا۔
مرے ہمراہ میخانے کو آیا
ہیں دن اچھے کہ زاہد مہرباں ہے
صفی حیدر بھائی کی ایک غزل پر گفتگو کے دوران میں نے ذیل کا نکتہ اٹھایا تھا:
مجھے بعض لوگوں سے ایک نکتہ معلوم ہوا تھا جو عموماً عروض کی کتب میں مندرج نہیں۔ مگر اساتذہ کے کلام کے جائزے سے اس کے التزام کا ثبوت ملتا ہے۔ وہ نکتہ یہ ہے کہ مصرع کے شروع میں "ہے" کو حرفِ واحد کے وزن پر باندھنے سے احتراز کیا جانا چاہیے۔ یعنی اگر کسی بحر میں مصرع "ہے" سے شروع کرنے کے لیے اس کی یائے لین ساقط کرنی پڑے تو ایسا نہیں کرنا چاہیے۔
یہی معاملہ
ہیں اور
ہو کے ساتھ بھی سمجھنا چاہیے۔
مصرعِ ثانی میں معمولی سی تبدیلی سے یہ کمی اگر آپ چاہیں تو دور ہو سکتی ہے۔
خیال میں کوئی ایسی ندرت مجھے معلوم نہیں ہوئی۔ یا میں سمجھ نہیں سکا۔
اسیر رسم ہجو مے ہے واعظ
ولے منجملہ بادہ کشاں ہے
اچھا ہے۔ کیا ہی اچھا ہو کہ آپ ریختہ کے اساتذہ سے متاثر ہو چکنے کے بعد حضرتِ داغؔ کو بھی پڑھا کریں۔ آپ کی زبان پر کلاسیک کا جو اثر غیرضروری طور پر پیدا ہو گیا ہے اس کی اس سے میٹھی دوا کوئی نہیں۔
شرر کو ہے عبث الزام دینا
مرا دشمن تو کاشف آشیاں ہے
میری دانست میں شعر مکمل نہیں ہے۔ فرماتے ہیں کہ شرر کو الزام دینا عبث ہے کیونکہ میرا دشمن خود آشیاں ہے۔ مصرعِ اولیٰ میں شرر کا ذکر آگ لگنے کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ مگر آپ الزام شرر کو نہیں دینا چاہتے۔ تو پھر آشیاں کا قصور تو کم از کم واضح ہونا چاہیے۔ پورے شعر میں کوئی قرینہ ایسا نہیں ہے جو آشیاں کی کوتاہی پر دلالت کرتا ہو۔ یعنی الزام ہی الزام ہے بیچارے پر۔