زیک
مسافر
شراب چیز ہی ایسی ہے۔۔۔یہ تو گھوڑی کے دودھ کی ہے، اور ہے بھی شراب ٹائپ۔
کوئی برفوں والے یاک کی ڈھونڈیں
شراب چیز ہی ایسی ہے۔۔۔یہ تو گھوڑی کے دودھ کی ہے، اور ہے بھی شراب ٹائپ۔
کوئی برفوں والے یاک کی ڈھونڈیں
قسمے، یار جیسی کوئی شے نہیں ہےشراب چیز ہی ایسی ہے۔۔۔
شراب چیز ہی ایسی ہے۔۔۔
اور مجھ بیچارے کو ان دونوں چیزوں ہی کا کچھ علم نہیں ہےقسمے، یار جیسی کوئی شے نہیں ہے
اور مجھ بیچارے کو ان دونوں چیزوں ہی کا کچھ علم نہیں ہے
یہ بھی کچھ ویسے ہی ہیں جیسے آپ نے نوٹوں کا درخت عنایت کیا تھا۔ ویسے کیا حاتم طائی بھی چوہدری تھا
اوہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اچھا چلیں، علم میں اضافہ فرما لیجیے
میاں جی، خیالی دنیا میں سب کچھ خیالی ہی ملتا ہے نا۔یہ بھی کچھ ویسے ہی ہیں جیسے آپ نے نوٹوں کا درخت عنایت کیا تھا۔
وہ تو شاید عرب تھا، یہ چوہدری وغیرہ تو برصغیر کی صنف ہیں۔ویسے کیا حاتم طائی بھی چوہدری تھا
طیئوں کا چوہدری تھاویسے کیا حاتم طائی بھی چوہدری تھا
اور اچھا اب سمجھا، آپ کی عنایات سے مجھے اسی کی یاد آئی تھی چوہدری صاحبمیاں جی، خیالی دنیا میں سب کچھ خیالی ہی ملتا ہے نا۔
وہ تو شاید عرب تھا، یہ چوہدری وغیرہ تو برصغیر کی صنف ہیں۔
مہربانی جناب۔ اور کجھ ساڈے لائق ہویا تے دسیواور اچھا اب سمجھا، آپ کی عنایات سے مجھے اسی کی یاد آئی تھی چوہدری صاحب
بہت ممکن ہےطیئوں کا چوہدری تھا
سفارتی تعلقات رکھنا ریاست اور جدید دنیا کی مجبوری ہے، کہ آپ مگر مچھ ہیں، اور دریا میں رہتے ہوئے ریاست پاکستان فی الحال یہ بیر نہیں رکھ سکتی اور ہم اپنے حکمرانوں کی مجبوریاں سمجھتے ہیں۔ اس لیے سفارتی تعلقات کی تو بات ہی نا کریں۔
اج دی دیہاڑ حلال ہو گئی جے۔ بڑی مہربانیفواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
کسی بھی قوم يا ملک کو "غلام" تصور کرنا اور وہ بھی آج کے دور ميں نا صرف يہ کہ ناقابل عمل ہے بلکہ اقوام کے درميان سفارتی روابط کی کمزور تشريح ہے۔ اس ميں کوئ شک نہيں کہ ممالک کے مابين تعلقات مستقل نہيں رہتے بلکہ تغير کے عمل سے گزرتے رہتے ہيں اور تبديل ہوتے ہوئے سياسی منظرنامے اورارضی سياسيات کے حقائق کے سبب مسلسل نشيب وفراز کا شکار رہتے ہيں۔
گزشتہ دس برسوں کے دوران واقعات کے تسلسل کا سرسری جائزہ بشمول اہم ترين موقعوں کے، پاک امريکہ مضبوط تعلقات کو واضح کرتا ہے باوجود اس کے کہ اس دوران کئ مشکل گھڑياں بھی آئيں اور ايسے معاملات بھی تھے جو شديد اختلافات اور مختلف نقطہ نظر کی وجہ بنے۔
جو رائے دہندگان اس بات پر بضد ہيں کہ امريکہ "پاکستانيوں" کو غلام تصور کرتا ہے اور پاکستان ميں مبينہ قيادت امريکی حکومت کے اشاروں پر انحصار کرتی ہے، انھيں چاہیے کہ واقعات کے اس تسلسل کا بغور جائزہ ليں جو کيری لوگر بل کے وقت پيش آئے تھے جب کئ ہفتوں تک دونوں ممالک کے مابين سفارتی تعلقات جمود کا شکار رہے تھے تاوقتيکہ پاکستان ميں تمام فريقين کے خدشات اور تحفظات دور نہيں کر ديے گئے۔
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
www.state.gov
DOTUSStateDept (@USDOSDOT_Urdu) | Twitter