نہ تلملائے ہوئے ہیں نہ سٹپٹائے ہوئے

شاہد شاہنواز

لائبریرین
نہ تلملائے ہوئے ہیں نہ سٹپٹائے ہوئے
بڑے سکون سے پھرتے ہیں چوٹ کھائے ہوئے

یہاں تو پینے سے مت روک ہم کو اے ساقی
کہ ہم سے رند زمانے کے ہیں ستائے ہوئے

چلا ہے جانبِ مغرب کشاں کشاں سورج
قدوں سے بڑھ کے عجیب و غریب سائے ہوئے

کبھی جو آنکھ سے جھانکیں تو ان کو حیرت ہو
ہیں دل میں ہم نے قرینے سے غم سجائے ہوئے

کبھی جو ایک ہی لمحہ گزر گیا تو لگا
گزر گئیں ہمیں صدیاں انہیں بھلائے ہوئے

اندھیرا دیکھ پڑوسی کے گھر کے آنگن کا
چراغ اپنے ہی گھر میں نہ رکھ جلائے ہوئے

پلٹ کے وار کیا ہے صدائیں دیں جب بھی
بہت سے یار ہمارے ہیں آزمائے ہوئے

کبھی کسی کو نہ بھاتی تھیں عادتیں جن کی
وہ لوگ آج ہیں سارے جہاں پہ چھائے ہوئے

مچا ہے شور کیوں محفل سے ان کے جانے کا؟
ابھی ہوا ہی کتنا وقت ہم کو آئے ہوئے؟

ہم ان کو دیکھ کے شاہد حساب کر لیں گے
گزر گیا ہے کتنا وقت مسکرائے ہوئے

بخدمت،،
محترم جناب الف عین صاحب
اور محترم جناب محمد یعقوب آسی صاحب۔۔۔
 

الف عین

لائبریرین
اچھی غزل ہے، کچھ شعر بحر سے خارج ہیں۔ باقی پر میری رائے۔
سٹپٹائے۔۔ یہاں اس لفظ کا محل نہیں۔ کچھ اور لفظ استعمال کرو۔

قدوں سے بڑھ کے عجیب و غریب سائے ہوئے
÷÷عجیب و غریب کچھ عجیب و غریب ہے۔ مثلاً یوں کہو
خود اپنے قد سے زیادہ ہی اپنے سائے ہوئے
ان اشعار کی ضرورت نہیں۔
پلٹ کے وار کیا ہے صدائیں دیں جب بھی
بہت سے یار ہمارے ہیں آزمائے ہوئے

کبھی کسی کو نہ بھاتی تھیں عادتیں جن کی
وہ لوگ آج ہیں سارے جہاں پہ چھائے ہوئے
آخری دونوں شعر بحر سے خارج ہیں۔
 
ماشاءاللہ بہت عمدہ غزل ہے۔
بہت سی داد۔۔۔۔

آخری دونوں شعروں کے دوسرے مصرعے صرف ایک غلط فہمی کی وجہ سے وزن سے خارج ہوگئے ہیں کہ آپ نے لفظ ”کتنا“ کو فعو باندھ لیا ہے جو کہ غلط ہے۔
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین

نہ تلملائے ہوئے ہیں نہ سٹپٹائے ہوئے
بڑے سکون سے پھرتے ہیں چوٹ کھائے ہوئے
۔۔۔ سوائے "جھنجھلائے" کے اور کوئی بھی متبادل نہیں آرہا۔ سارے الفاظ کی فہرست دیکھ لی ہے۔ کیا کوئی اور بہتر لفظ ہے، یا مطلع دوبارہ کہنے کی کوشش کی جائے؟

مچا ہے شور کیوں محفل سے ان کے جانے کا؟
ابھی ہوا ہی کہاں وقت ہم کو آئے ہوئے؟

مقطع دوبارہ لکھ دیا ہے:
چمن کے پھول بھی شاہد اداس رہتے ہیں
گزر گیا ہے بہت وقت مسکرائے ہوئے
 
آخری تدوین:
غزل کی فنیات پر جناب اعجاز عبید نے اختصار کے سات بہت مناسب بات کر دی۔

غزل کا مطلع بہت کھردرا ہے اور یوں لگتا ہے کہ تکلفاً ’’بنایا گیا‘‘ ہے۔ مطلع کو آپ عام الفاظ میں غزل کا دروازہ کہہ سکتے۔ اور یہ ایک لحاظ سے انگریزی والے ’’فرسٹ امپریشن‘‘ کا کام کرتا ہے۔ سو، میرے نزدیک تصنع والے مطلعے کی بجائے اس کا نہ ہونا بہتر ہے۔ الفاط، متبادل، فہرست ۔۔۔۔ دیکھئے! شعر الفاظ اور ان کے متبادلات کو یک جا کرنے کا نام نہیں ہے۔ اس میں اس خیال، تصور، جذبے، احساس، مضمون کو اولیت دی جانی چاہئے جو قاری یا سامع تک پہنچانا مقصود ہے، وہ اپنے الفاظ خود لے کر آئے گا۔ لفظ کو مفہوم کے تابع رکھئے نہ کہ مفہوم کو لفظ کے۔ اگر کہیں ایک مضمون ادا نہیں ہو پاتا تو اس کو ملتوی کر دیجئے، کسی آئندہ شعر میں سہی۔ یا مطلع بعد میں کہہ لیجئے۔
 
دوسری اہم بات ہے شعر اور بیانِ محض میں فرق۔ میں اگر اپنے شعر میں قاری یا سامع کے ساتھ کوئی سانجھ نہیں بنا رہا۔ یعنی محسوساتی، نظریاتی، جذباتی، فکری کسی سطح پر قاری کو شریک نہیں کر رہا تو میرا کہا ہوا ’’شعر‘‘ یا تو محض ایک بیان ہے یا پھر محض ایک خبر۔ شعر کا منصب یہ نہیں ہے۔ فنی، عروضی، لسانی، سب حوالوں سے درست ہونے کا باجود ایسے دو مصرعے شعر کا مقام نہیں پا سکتے جو قاری کو چھیڑتے نہیں۔ اور غزل میں تو کچھ اس طرح کا ہونا چاہئے جیسے : ’’سانس وہ جس کو آہ کہتے ہیں؛ دل کی گہرائی سے نکلتی ہے؛ دل کی گہرائی میں اتری ہے‘‘ ۔
 
لفظی بازی گری کوئی بری بات نہیں اگر اس سے قاری یا سامع کی توجہ اور محسوسات کو شعر کی طرف مائل اور متوجہ کیا جائے۔ مفہوم، مضمون، تخیل، جذبہ، احساس جو بھی ہے اصل وہ ہے۔ وہ نہ ہو، نا! تو لفظی بازی گری بے اثر رہ جاتی ہے بلکہ ممکن ہے ’’ناگوار‘‘ کی سطح تک گر جائے، اور ۔۔ وہ یعنی اصل (مفہوم، مضمون، تخیل، جذبہ، احساس جو بھی ہے) وہ ہو تو لفظی بازی گری شعر کا لطف دوبالا کر جاتی ہے۔
 
اور میری یہ گزارش جناب شاہد شاہنواز سے ہے (بالخصوص):
اپنے کہے ہوئے الفاظ بہت عزیز ہوتے ہیں۔ تاہم ان کو ان کی ’’تمام تر اچھائیوں اور برائیوں کے ساتھ عزیز‘‘ نہ رکھئے۔ بلکہ یوں عزیز رکھئے کہ آپ کی وساطت سے وہ آپ کے قاری کو بھی عزیز ہو جائیں۔
 

ابن رضا

لائبریرین
اور میری یہ گزارش جناب شاہد شاہنواز سے ہے (بالخصوص):
اپنے کہے ہوئے الفاظ بہت عزیز ہوتے ہیں۔ تاہم ان کو ان کی ’’تمام تر اچھائیوں اور برائیوں کے ساتھ عزیز‘‘ نہ رکھئے۔ بلکہ یوں عزیز رکھئے کہ آپ کی وساطت سے وہ آپ کے قاری کو بھی عزیز ہو جائیں۔

اور بالعموم ہم جیسے مبتدی بھی آپ کی بالواسطہ سفارشات و نوازشات سے مستفید ہوتے رہتے ہیں۔ آپ کا عمیق مشاہدہ فنِ سخن میں آپ کی طویل و رشیق عرق ریزی کا آئینہ دار ہے۔ یونہی روشنیاں بانٹتے رہیے ۔ جزاک اللہ۔
 
اور بالعموم ہم جیسے مبتدی بھی آپ کی بالواسطہ سفارشات و نوازشات سے مستفید ہوتے رہتے ہیں۔ آپ کا عمیق مشاہدہ فنِ سخن میں آپ کی طویل و رشیق عرق ریزی کا آئینہ دار ہے۔ یونہی روشنیاں بانٹتے رہیے ۔ جزاک اللہ۔
یہ آپ کی اپنی محبت اور وسیع المشربی کی علامت ہے۔ اللہ خوش رکھے۔ یہ فقیر اپنے (عمر سے قطع نظر) علمی بزرگوں سے جو کچھ پاتا ہے بیچ چوراہے کے بانٹ دیتا ہے۔
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
میں نے یہ مطلع حذف ہی کردیا تھا،۔ کیونکہ تلملائے اور جھنجھلائے کا اشتراک ویسے بھی مجھے کھٹک رہا تھا۔ فی الحال یہ بغیر مطلع ہے۔۔شاید پھر کسی موقعے پر کچھ اور سمجھ میں آجائے۔۔۔ آپ کی نصیحتیں ہمیشہ مشعل راہ رہی ہیں اور آئندہ بھی رہیں گی ان شاء اللہ ۔۔۔
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
میری تخلیقات انٹرنیٹ پر ادھر ادھر بکھری پڑی ہیں، ان کو یکجا کر کے اپنی کتاب ”اعترافِ جرم ‘‘ مکمل کرنے والا ہوں، ان شاء اللہ ایک کاپی آپ اساتذہ کو بھیجوں گا تاکہ ناگوار غلطیاں دور ہوجائیں۔ یہی کتاب ایک بار پہلے محترم اعجاز عبید صاحب کو روانہ کی تھی اور انہوں نے میرا بہت سا بوجھ دور کردیا تھا۔ ۔اسی کتاب سے جو غزلیات سمجھ میں نہیں آتیں وہ یہا ں پوسٹ کرتا رہتا ہوں تاکہ میری مدد ہوجائے۔۔۔جو سمجھ میں آتا ہے کہ ٹھیک ہے، اسے رہنے دیتا ہوں۔۔۔
 
میری تخلیقات انٹرنیٹ پر ادھر ادھر بکھری پڑی ہیں، ان کو یکجا کر کے اپنی کتاب ”اعترافِ جرم ‘‘ مکمل کرنے والا ہوں، ان شاء اللہ ایک کاپی آپ اساتذہ کو بھیجوں گا تاکہ ناگوار غلطیاں دور ہوجائیں۔ یہی کتاب ایک بار پہلے محترم اعجاز عبید صاحب کو روانہ کی تھی اور انہوں نے میرا بہت سا بوجھ دور کردیا تھا۔ ۔اسی کتاب سے جو غزلیات سمجھ میں نہیں آتیں وہ یہا ں پوسٹ کرتا رہتا ہوں تاکہ میری مدد ہوجائے۔۔۔ جو سمجھ میں آتا ہے کہ ٹھیک ہے، اسے رہنے دیتا ہوں۔۔۔

وکیل کوئی تگڑا کیجئے گا، بلکہ اعتراف سے پہلے ہی وکالت نامہ مکمل کر لیجئے۔
 
وکیل کوئی تگڑا کیجئے گا، بلکہ اعتراف سے پہلے ہی وکالت نامہ مکمل کر لیجئے۔
اصل میں شاہد شہنواز بھائی جرم کے شاہد بھی خود ہی ہیں اور پھر شاہ کے نوازے ہوئے ہیں، اس لیے اعتراف جرم آسانی سے کرکے مزید داد ہی وصول کریں گے۔ :)
 
اصل میں شاہد شہنواز بھائی جرم کے شاہد بھی خود ہی ہیں اور پھر شاہ کے نوازے ہوئے ہیں، اس لیے اعتراف جرم آسانی سے کرکے مزید داد ہی وصول کریں گے۔ :)

دل چسپ! ویسے شاہ نواز تو شاہوں کو نوازنے والا ہوا :۔ دل نواز، نظر نواز، نے نواز، غریب نواز، بندہ نواز؛ وغیرہ۔
’’رب نواز‘‘، ’’حق نواز‘‘ پر مت جائیے گا کہ وہ ’’غلوط العوام‘‘ ہیں۔
 
میں نے یہ مطلع حذف ہی کردیا تھا،۔ کیونکہ تلملائے اور جھنجھلائے کا اشتراک ویسے بھی مجھے کھٹک رہا تھا۔ فی الحال یہ بغیر مطلع ہے۔۔شاید پھر کسی موقعے پر کچھ اور سمجھ میں آجائے۔۔۔ آپ کی نصیحتیں ہمیشہ مشعل راہ رہی ہیں اور آئندہ بھی رہیں گی ان شاء اللہ ۔۔۔
دل چسپ ۔۔ :highfive: ’’تل ملانے‘‘ :handshake: کو تو عشاق ترسا کرتے ہیں صاحب! ۔۔۔ :sneaky: :laugh1:
:handshake::highfive::handshake::highfive::handshake::highfive::handshake::highfive::handshake::highfive::handshake::highfive::handshake::highfive::handshake::highfive::handshake::highfive::handshake::highfive:
 
دل چسپ! ویسے شاہ نواز تو شاہوں کو نوازنے والا ہوا :۔ دل نواز، نظر نواز، نے نواز، غریب نواز، بندہ نواز؛ وغیرہ۔
’’رب نواز‘‘، ’’حق نواز‘‘ پر مت جائیے گا کہ وہ ’’غلوط العوام‘‘ ہیں۔
متفق۔۔۔۔
مگر ”رب نواز“ اور ”حق نواز“ میں شاید فرق ہے کہ حق نواز سے مراد حق کو نوازنے والا یعنی حق کا خیال رکھنے والا ، صداقت شعار اور اس معنی کے لحاظ سے دیکھا جائے تو یہ بھی درست الفاظ کی فہرست میں آتا ہے۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین
دل چسپ! ویسے شاہ نواز تو شاہوں کو نوازنے والا ہوا :۔ دل نواز، نظر نواز، نے نواز، غریب نواز، بندہ نواز؛ وغیرہ۔
’’رب نواز‘‘، ’’حق نواز‘‘ پر مت جائیے گا کہ وہ ’’غلوط العوام‘‘ ہیں۔
آسی بھائی ۔ کہیں "غلوط العوام" ، "غلط الخاص" نہ ہو جائے ،کہ "اغلاط العوام" معرو ف و مروج ہے۔ اگرچہ میں مکسر جموع میں اگر چہ کوئی ایسی سخت گیری نہیں سمجھتا ۔
 
آسی بھائی ۔ کہیں "غلوط العوام" ، "غلط الخاص" نہ ہو جائے ،کہ "اغلاط العوام" معرو ف و مروج ہے۔ اگرچہ میں مکسر جموع میں اگر چہ کوئی ایسی سخت گیری نہیں سمجھتا ۔
استاد جی نے ”غلوط العوام“ کو واوین میں لکھا ہے جو غالبا ”آفتاب آمد دلیل آفتاب“ کی طرف اشارہ ہے۔
 
استاد جی نے ”غلوط العوام“ کو واوین میں لکھا ہے جو غالبا ”آفتاب آمد دلیل آفتاب“ کی طرف اشارہ ہے۔
ع: بڑی باریک نظر رکھتے ہیں اچھے پاگل

’’غلوط‘‘ اگر کوئی مستند لفظ ہے بھی تو میرے علم میں نہیں۔ ہم دوست از راہِ تفنن ’’بہت بڑی غلطی‘‘ کو ’’غلوط‘‘ کہا کرتے ہیں، اسی لئے لفظ ’’غلوط العوام‘‘ کو واوین میں لکھا، کہ صرف مزاح کی حد تک رہے۔
 
Top