احبابِ کرام ! دوسال پرانی یہ غزل پیشِ خدمت ہے ۔ امید ہے کہ کچھ اشعار تسکینِ ذوق کا باعث ہوں گے ۔ گر قبول افتد زہے عز و شرف!
***
نہ رہے کوئی بھی دل میں تو بسا کرتا ہے
وہ اکیلا ہے اکیلا ہی رہا کرتا ہے
دل جو بجھتا ہے تو ہوتی ہے فروزاں کوئی یاد
اک دیا مجھ میں بہرحال جلا کرتا ہے
غم رسیدہ ہوں ، اسیرِ غم و آلام نہیں
کوئی وعدہ مجھے دلشاد رکھا کرتا ہے
جب کوئی قافلہ منزل کے نشاں کھو بیٹھے
رہنما پھر اسے رہزن سا ملا کرتا ہے
اے خدا معجزہ یونس کا دکھا دے پھر سے
اک خطا کار اندھیروں میں دعا کرتا ہے
دل تو ناحق ہی زمانے سے ڈرا کرتا ہے
فیصلے ساری خدائی کے خدا کرتا ہے
ایک تو ہوتا ہے دستورِ زمانہ مرے دوست!
اک شعار اہلِ محبت کا ہوا کرتا ہے
مجھے خود میں نظر آتا ہے کوئی دوسرا شخص
آئنہ آنکھ میں آشوب بپا کرتا ہے
یاد آتا ہے وہی شخص ہمیں کیوں اکثر
وہ جو کچھ دیر کو رستے میں ملا کرتا ہے
کیا بتاؤں تمہیں اُس حرفِ شکایت کی مٹھاس
جب گلے ملتے ہوئے کوئی گلہ کرتا ہے
اجڑی تہذیب کی گلیوں سے نکلتا ہی نہیں
دل دوانہ ہے خرابوں میں رہا کرتا ہے
٭٭٭
ظہیرؔاحمد۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۲۰۲۱