فرحان دانش
محفلین
ہمارے حکمرانوں کا سابقہ ریکارڈ بتاتا ہے کہ تمام امداد چند لوگوں کی جیبوں میں چلی جاتی ہے اور خمیازہ ہم عوام کو بھگتنا پڑتا ہے بالکل اسی طرح جس طرح عوام میاں نواز شریف کی اپیل پر قرض اتارو ملک سنوارو میں دل کھول کر پیسہ دیا لیکن آج تک اس رقم کا معلوم نہیں ہوا کہ کہاں گئی۔
دوسری مرتبہ وزیر اعظم کا عہدہ سنبھالنے کے بعد میاں نواز شریف نے صنعتکار کے ساتھ ساتھ وڈیرہ بننے کے لئے غریب لوگوں کی زمینیں زبردستی ہتھیانے کا فیصلہ کیا ۔ اس مقصد کیلئے رائیونڈ کے 6 دیہات کی 2000 ایکڑ اراضی حاصل کی ۔ اس میں سے 1700 ایکڑ پر پھیلا ہوا رائیونڈ پیلس بنایا جس پر قومی خزانے سے فوری طور پر 25 کروڑ روپے خرچ کردیئے ۔
اس محل کو وزیر اعظم کیمپ آفس کا درجہ دے دیا گیا اور pwd کو رہائش گاہ کے ترقیاتی کاموں کے اخراجات ادا کرنے کا پابند بنادیا ۔ کیمپ آفس کی تزئین و آرائش کے لئے 80 ملین روپے 24 گھنٹے میں وزیر اعظم سیکرٹریٹ سے منظور ہوئے اور کام شروع کردیا گیا ۔ ریاستی قانون کے مطابق کسی کیمپ آفس پر مستقل نوعیت کی کوئی تعمیرات نہیں کی جا سکتیں لیکن تمام قوانین کو روند دیا گیا ۔ اس کے علاوہ محل تک گیس پہنچانے کیلئے 70 ملین روپے، سڑکوں پر 320 ملین روپے، نہر کو پختہ کرنے پر85 ملین روپے، بجلی کا نیا نظام بنانے کیلئے 50 ملین روپے اور ٹیلی فون ایکسچینج پر 20 ملین روپے خرچ کئے گئے ۔ حکومتی اختیارات کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے میاں نواز شریف اورشہباز شریف نے صر ف انکم ٹیکس او رویلتھ ٹیکس کی مد میں 1 ارب 79 کروڑ 3 لاکھ 82 ہزار 293 روپے کا نقصان پہنچایا۔
قرض اتار و ملک سنوارو سکیم میں اکٹھی ہونے والی اربوں روپے کی رقم کہاں گئی یہ سوال آج بھی جواب مانگتا ہے ۔ اس رقم کا گم ہو جانا ایک سوالیہ نشان ہے ۔ نواز شریف نے 28 مئی 1998ء کو ملک میں ایمرجنسی نافذکر کے عام پاکستانیوں کو 11 ارب ڈالر سے محروم کردیا ۔ یہ رقم کہاں گئی آج تک ایک معمہ ہے ؟
سابقہ وزیر اعظم میاں صاحب کی شخصیت بد عنوانی ، بد انتظامی اور آمرانہ رویوں سے بھرپور ہے ۔ کرپشن سے اربوں روپے لوٹ کر بیرون ممالک جائیدادیں بنا کر ملکی معیشت کو تباہ کر کے خزانہ خالی کر دیا ۔ اختیارات کے با جا استعمال سے اداروں کو کھوکھلا کر کے رکھ دیا، قرض اتارو ، ملک سنوارو مہم اور فارن کرنسی اکاؤنٹ منجمد کرنا ان کے سیاہ کارنامے ہیں ۔
اور جب کشتی منجھدار میں تھی خود نکل گئے"انڈرٹیکنگ" دے کر
دوسری مرتبہ وزیر اعظم کا عہدہ سنبھالنے کے بعد میاں نواز شریف نے صنعتکار کے ساتھ ساتھ وڈیرہ بننے کے لئے غریب لوگوں کی زمینیں زبردستی ہتھیانے کا فیصلہ کیا ۔ اس مقصد کیلئے رائیونڈ کے 6 دیہات کی 2000 ایکڑ اراضی حاصل کی ۔ اس میں سے 1700 ایکڑ پر پھیلا ہوا رائیونڈ پیلس بنایا جس پر قومی خزانے سے فوری طور پر 25 کروڑ روپے خرچ کردیئے ۔
اس محل کو وزیر اعظم کیمپ آفس کا درجہ دے دیا گیا اور pwd کو رہائش گاہ کے ترقیاتی کاموں کے اخراجات ادا کرنے کا پابند بنادیا ۔ کیمپ آفس کی تزئین و آرائش کے لئے 80 ملین روپے 24 گھنٹے میں وزیر اعظم سیکرٹریٹ سے منظور ہوئے اور کام شروع کردیا گیا ۔ ریاستی قانون کے مطابق کسی کیمپ آفس پر مستقل نوعیت کی کوئی تعمیرات نہیں کی جا سکتیں لیکن تمام قوانین کو روند دیا گیا ۔ اس کے علاوہ محل تک گیس پہنچانے کیلئے 70 ملین روپے، سڑکوں پر 320 ملین روپے، نہر کو پختہ کرنے پر85 ملین روپے، بجلی کا نیا نظام بنانے کیلئے 50 ملین روپے اور ٹیلی فون ایکسچینج پر 20 ملین روپے خرچ کئے گئے ۔ حکومتی اختیارات کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے میاں نواز شریف اورشہباز شریف نے صر ف انکم ٹیکس او رویلتھ ٹیکس کی مد میں 1 ارب 79 کروڑ 3 لاکھ 82 ہزار 293 روپے کا نقصان پہنچایا۔
قرض اتار و ملک سنوارو سکیم میں اکٹھی ہونے والی اربوں روپے کی رقم کہاں گئی یہ سوال آج بھی جواب مانگتا ہے ۔ اس رقم کا گم ہو جانا ایک سوالیہ نشان ہے ۔ نواز شریف نے 28 مئی 1998ء کو ملک میں ایمرجنسی نافذکر کے عام پاکستانیوں کو 11 ارب ڈالر سے محروم کردیا ۔ یہ رقم کہاں گئی آج تک ایک معمہ ہے ؟
سابقہ وزیر اعظم میاں صاحب کی شخصیت بد عنوانی ، بد انتظامی اور آمرانہ رویوں سے بھرپور ہے ۔ کرپشن سے اربوں روپے لوٹ کر بیرون ممالک جائیدادیں بنا کر ملکی معیشت کو تباہ کر کے خزانہ خالی کر دیا ۔ اختیارات کے با جا استعمال سے اداروں کو کھوکھلا کر کے رکھ دیا، قرض اتارو ، ملک سنوارو مہم اور فارن کرنسی اکاؤنٹ منجمد کرنا ان کے سیاہ کارنامے ہیں ۔
اور جب کشتی منجھدار میں تھی خود نکل گئے"انڈرٹیکنگ" دے کر