نیب نے جنگ و جیو گروپ کے مالک میر شکیل الرحمان کو گرفتار کرلیا

جاسم محمد

محفلین
میر شکیل الرحمن…. پریوں کی تلاش میں گئے ہیں
13/03/2020 وجاہت مسعود

مرے دل مرے مسافر، ہوا پھر سے حکم صادر…. ہر اک اجنبی سے پوچھیں، جو پتا تھا اپنے گھر کا۔ میر شکیل الرحمن گرفتار کر لئے گئے۔ لفظ کو ہتھکڑی پہنائی گئی ہے۔ انسانوں کی تاریخ بہت پرانی ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ لفظ کو گرفتار نہیں کیا جا سکتا۔ لات، منات اور عزیٰ کی دھوپ ڈھل جاتی ہے۔ اِن الباطل کان زھوقا۔ (بے شک باطل مٹنے ہی والا تھا)۔ کوندے کی طرح خیال تو لپکا ہو گا کہ سیکولر صحافی ایک ہی جھٹکے میں الہامی آیات کے حوالوں پر اتر آیا۔ لبرل ہونے کے دعوے ہوا ہو گئے۔ سیٹھ کی مدافعت میں نمک حلالی کے جوہر دکھا رہا ہے۔ عرض ہے کہ ناانصافی کی سنگی دیوار پر حرف حق سے دستک کی روایت بہت پرانی ہے۔ ہمارے لشکر میں نام اور مقام کا امتیاز نہیں۔ لفظ کی شناخت پریڈ وقت کے کٹہرے میں ہوتی ہے اور کالم کی زنبیل میں محض ایک ہزار لفظوں کی رسد پائی جاتی ہے۔ تفصیل کا یارا نہیں۔ 1998 کے موسم خزاں پر بائیس برس گزر چکے۔ نواز شریف وزیر اعظم تھے، احتساب کا تماشا جاری تھا۔ یادش بخیر! سیف الرحمن کا طوطی بول رہا تھا۔ اہل حکم نے 14 راندہ درگاہ صحافیوں کی فہرست روز نامہ جنگ کو ارسال کی کہ انہیں خارج البلد کیا جائے۔ اخبار ڈٹ گیا۔ وقت کے کٹہرے سے ملنے والی شہادت کی تفصیل ملاحظہ کیجئے۔ میاں نواز شریف اور ان کے رفقا کسی اور کے احتساب کی زد میں ہیں۔ چودہ گردن زدنی صحافیوں کا سرخیل آپ کے ہاتھ میں موجود ادارتی صفحے کا مدیر ہے۔ اخبار کا مدیر اعلیٰ بارہ روزہ جسمانی ریمانڈ پر نیب کی حراست میں ہے۔ سیف الرحمن کی کوئی خبر نہیں، کسی نامعلوم سیارے کی رصد گاہوں میں کھو گئے۔ اس شناخت پریڈ میں پیادہ سپاہی کی گواہی مگر ابھی باقی ہے۔ درویش 1993 میں روز نامہ دی نیوز سے رخصت ہو کر انسانی حقوق کی تعلیم پھیلانے نکل گیا تھا۔ اگر آپ کسی اور کو نہیں بتائیں تو راز کھول دیتا ہوں۔ انسانی حقوق کی اوٹ میں اس خوش رنگ پرندے کے لئے دام بچھایا تھا جسے جمہوری حکمرانی اور دستور کی بالادستی کہتے ہیں۔ کیا تھا شعر کو پردہ سخن کا…. اس سفر کا ایک پڑاؤ ماہنامہ ’نوائے انسان‘ بھی تھا۔ نوائے انسان کی فائلیں اب مٹیالی ہو چلی ہیں۔ نومبر 1998 کے آزادی صحافت نمبر کا اداریہ اس عاجز نے لکھا تھا۔ اقتباس ملاحظہ فرمائیے۔

’انسانی ترقی، انصاف اور امن کی برکھا ان بنجر ٹیلوں پر نہیں برستی جہاں نئے خیالات اور پرامن اختلاف رائے کے بیج نہ بوئے جائیں…. آزادی اظہار وہ لکیر ہے جو چراگاہوں میں قائم مویشی باڑوں کو مہذب انسانی سماج سے جدا کرتی ہے…. حکمران طبقہ نئے خیال سے خوفزدہ ہوتا ہے۔ سر جھکا کر زمیں پر گھاس ڈھونڈتی بھیڑوں پر حکمرانی کرنا آسان ہوتا ہے۔ مگر ایسی حکمرانی میں قبرستان کا سناٹا اور مرگھٹ کا خوف ہوتا ہے۔ خوف، لاعلمی اور خاموشی کے اندھیرے میں بدعنوان، نااہل اور ظالم حکومت کا درندہ پلتا ہے۔ آزادی اظہار کا معیار یہ ہے کہ اپنے ضمیر کی روشنی میں، صحیح وقت پر اور صحیح مقام پر اپنی حقیقی رائے کا اعلان بلا خوف و خطر کیا جائے۔ ایسی آواز بھلے صحرا میں اذان ہو مگر بہار کی آمد کا اعلان تو خزاں زدہ ٹہنی پر پھوٹنے والی کونپل ہی کرتی ہے۔ سرسبز پیڑوں پر پھیلتی آکاس بیل نہیں۔‘

اس قضیے میں ایک لفظ ’کرپشن‘ نے دہشت پھیلا رکھی ہے۔ سوال کیا جاتا ہے کہ صحافت سے وابستہ کسی شخص کی کرپشن کو قانون سے ماورا قرار کیوں دیا جائے۔ کرپشن پر گرفت کو آزادی صحافت پر حملہ کیونکر سمجھا جائے؟ کیا صحافت کرپشن کی کھلی چھٹی کا نام ہے؟ ان سوالات کا قانونی جواب تو بیرسٹر اعتزاز احسن عدالت میں دیں گے۔ یہ الگ بات کہ پہلے روز کی سماعت کے بعد دلیل سربزانو دکھائی دیتی ہے۔ اتمام حجت کے لئے صحافی کا جواب حاضر ہے۔ اگر اپریل 2014 سے ایک صحافتی ادارہ مسلسل حملوں کی زد میں ہے، اس ادارے کے جید صحافیوں پر حملے کئے گئے ہیں، اس ادارے کے اخبارات کی ترسیل میں رکاوٹیں کھڑی کی گئی ہیں، نشریاتی رابطوں میں خلل ڈالا گیا ہے، مرغان دست آموز کو اتہام اور دشنام کی مہم سونپی گئی ہے۔ برسراقتدار سیاسی جماعت کے سربراہ نے نام لے کر اخبار کے مدیر اعلیٰ کو دھمکیاں دی ہیں، ایک ہفتہ پہلے وفاق اور حکمران جماعت کے زیر نگیں دو صوبوں میں اس اخبار کے سرکاری اشتہارات پر مکمل پابندی کو عدالت میں چیلنج کیا گیا ہے اور حکومت اس فیصلے کا دفاع کر رہی ہے۔ احتسابی ادارے کی کارکردگی اور اس کے سربراہ کا رویہ غبار آلود ہیں۔ حزب اختلاف کھلے لفظوں میں ایک مفرور غاصب کے تراشیدہ احتسابی بندوبست کو سیاسی صنم تراشی کا کارخانہ قرار دیتی ہے۔ اور اب ایک مصدقہ پرچہ نویس کی بظاہر مجہول شکایت پر غیرمطبوعہ بیانیے کے حامل صحافتی ادارے کا قانون پسند مالک پراسرار حالات میں گرفتار کیا جاتا ہے تو واقعاتی تناظر سے آگاہ حلقے اسے آزادی صحافت پر حملہ کیوں نہ قرار دیں؟

کرپشن ایک گمراہ کن اصطلاح ہے جسے اس ملک میں دہائیوں سے جمہوری اور تمدنی قوتوں کو بے دست و پا کرنے کے لئے استعمال کیا جا رہا ہے۔ جاننا چاہیے کہ عوام کے حق حکمرانی میں غیر آئینی مداخلت کرپشن کی بدترین صورت ہے اور معاشرے کے حقیقی بدعنوان عناصر ایسی کرپشن کے بہترین اتحادی ہیں۔ ریاستی بندوبست میں کرپشن ایک منجدھار ہے جو کردار سے عاری عناصر کو پوری قوت سے اپنے مرکزے کی طرف کھینچتی ہے۔ اس کرپشن کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ قوم کا اجتماعی تشخص داغ دار ہو جاتا ہے اور اس ذلت کے دھبوں سے کوئی شہری محفوظ نہیں رہتا۔ جو مزاحمت کرتے ہیں، ان کی آزادیاں سلب ہوتی ہیں، ان کا معاش مجروح ہوتا ہے، انہیں یک طرفہ تفتیش کے کٹہرے میں کھڑا کیا جاتا ہے۔ اور جو ایسی کرپشن میں شرکت پر آمادہ ہوتے ہیں وہ ملکی افلاس کو بڑھاوا دیتے ہیں۔ ہر دو صورتوں میں قوم خسارے میں رہتی ہے۔ حقیقی اور مفروضہ کرپٹ عناصر میں فرق کرنا ہماری قوم جانتی ہے۔ میر شکیل الرحمن کے لئے احمد مشتاق نے بہت پہلے کہہ رکھا ہے

پریوں کی تلاش میں گیا تھا

لوٹا نہیں آدمی ہمارا
 

جاسم محمد

محفلین
2 دن سے جیو نیوز کی 20 منٹس کے ہیڈلائنز میں کرونا وائرس کے بجائے 10منٹ میر شکیل کے غم میں رونا وائرس چل رہا ہے. شکریہ عمران خان
 

جاسم محمد

محفلین
میر شکیل الرحمن کے خلاف اراضی کیس میں نواز شریف کی طلبی
اسٹاف رپورٹر 3 گھنٹے پہلے
نواز شریف نے میر شکیل کو جوہر ٹاؤن میں 54 کنال اراضی پر مشتمل پلاٹس میرٹ کے برعکس الاٹ کرنے کی منظوری دی، نیب (فوٹو : فائل)

لاہور: نبیب نے 54 کنال اراضی پر مشتمل پلاٹ میرٹ کے برعکس میر شکیل الرحمن کو دینے کے کیس میں سابق وزیراعظم نواز شریف کو بھی شامل تفتیش کرلیا

ایکسپریس کے مطابق سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف ایک بار پھر نیب کے ریڈار پر آگئے اور نیب نے انہیں میر شکیل الرحمن کے خلاف کیس میں شامل تفیش کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

اس سلسلے میں سابق وزیر اعظم نواز شریف کو ابتدائی بیان ریکارڈ کرانے کے لیے 20 مارچ کو دن 11 بجے نیب کی جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم کے روبرو پیش ہونے کی ہدایت کی ہے۔

نیب ذرائع کے مطابق سابق وزیر اعظم نواز شریف پر الزم ہے کہ انہوں نے 1986ء میں بطور وزیر اعلی پنجاب جنگ اور جیو کے سربراہ میر شکیل الرحمن کو جوہر ٹاؤن میں 54 کنال اراضی پر مشتمل پلاٹس میرٹ کے برعکس الاٹ کرنے کی منظوری دی۔

واضح رہے کہ جنگ اور جیو کے سربراہ میر شکیل الرحمن اسی کیس میں جسمانی ریمانڈ پر نیب لاہور کی گرفت میں ہیں۔
 

جاسم محمد

محفلین
شکیل الرحمان نے جوہر ٹاؤن کی جائیدادیں گروی رکھ کر جیو کے ملازمین کی تنخواہیں ادا کی، حامد میر لفافی
شکیل الرحمان کی گرفتاری سے ملک کے سب سے بڑے میڈیا مافیا کی دُم پر پاؤں رکھ دیا گیا۔ ہر طرف چیخیں ہی چیخیں سنائی دے رہی ہیں
 

جاسم محمد

محفلین
فرضی مقدمات ہیں، جھوٹی شہادتیں
حامد میر
16 مارچ ، 2020

12مارچ جمعرات کا دن تھا۔ صبح ہی صبح ایک بہت باخبر دوست نے وٹس ایپ پر بتایا کہ آج لاہور میں جنگ گروپ کے ایڈیٹر انچیف میر شکیل الرحمٰن کو گرفتار کر لیا جائے گا۔ میں نے اپنے دوست کو بتایا کہ شکیل صاحب کو ایک 34 سال پرانے معاملے میں کسی شکایت کی تصدیق کیلئے بلایا گیا ہے، ابھی تک اس شکایت کی انکوائری شروع نہیں ہوئی تو اُنہیں گرفتار کیسے کیا جا سکتا ہے؟ دوست نے کہا کہ تمہیں پتا ہے بعض طاقتور لوگ شکیل صاحب سے بہت ناراض ہیں، قومی احتساب بیورو (نیب) کے سربراہ تو شدید غصے میں ہیں اور نیب والے تو ویسے بھی کسی آئین اور قانون کے مطابق نہیں چلتے لہٰذا آج شکیل صاحب کو گرفتار کر لیا جائے گا۔ میں نے پوچھا کہ کیا شکیل صاحب کو ضمانت قبل از گرفتاری کروا کر نیب کے دفتر جانا چاہئے؟ اُس نے جواباً کہا کہ شکیل صاحب کو یہ مشورہ دیا جا چکا ہے کہ ضمانت قبل از گرفتاری کے بغیر نیب والوں کے پاس نہ جائیں لیکن انہوں نے اس مشورے پر توجہ نہیں دی۔ میں نے کہا، ہو سکتا ہے وہ یہ سمجھتے ہوں کہ کچھ دن پہلے اسلام آباد ہائیکورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ اگر کوئی ملزم نیب کے ساتھ تعاون کر رہا ہے تو اُسے گرفتار کرنے کی ضرورت نہیں، اس لیے وہ مطمئن ہیں اور ضمانت قبل از گرفتاری کے بغیر جا رہے ہیں۔ دوست کا خیال تھا کہ شکیل صاحب گرفتاری کیلئے ذہنی طور پر تیار ہیں۔ اس سے پہلے اُنہیں 5مارچ کو بھی نیب لاہور نے بلایا تھا اور اُنہوں نے نیب کے ہر سوال کا سامنا کیا۔ مجھے اندازہ تھا کہ اصل معاملہ 34سال قبل جوہر ٹائون لاہور میں ایک پرائیویٹ پارٹی سے پلاٹوں کی خریداری نہیں بلکہ شاہ زیب خانزادہ شو میں چیئرمین نیب کے متعلق اٹھائے جانے والے سوالات ہیں جس پر 29فروری کو پیمرا کی طرف سے جیو نیوز کے سی ای او کو ایک شوکاز نوٹس بھی جاری ہوا تھا۔ کچھ دیر کے بعد کیپٹل ٹاک کے پروڈیوسر تفسیر حسین سے بات ہوئی تو میں نے گزارش کی کہ آج ہمیں کورونا وائرس پر توجہ کی ضرورت ہے کیونکہ یہ عالمی مسئلہ بن چکا ہے۔ ہمیں پاکستان میں ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے کسی نمائندے کو اپنے شو میں بلا کر پوچھنا چاہئے کہ وہ کورونا وائرس کے مقابلے کیلئے حکومت پاکستان کے اقدامات سے مطمئن ہیں یا نہیں؟ اس کے بعد ہم نے کورونا وائرس پر ٹی وی پروگرام کیلئے تیاری شروع کر دی لیکن دوپہر کو خبر آئی کہ میر شکیل الرحمٰن لاہور میں گرفتار کر لیے گئے ہیں۔ ہم تو کورونا وائرس سے لڑنے کی تیاریوں میں تھے لیکن طاقتوروں نے جنگ گروپ اور جیو سے لڑنے کا فیصلہ کر لیا۔

پاکستان کے سب سے بڑے میڈیا گروپ کے سربراہ کی گرفتاری کوئی معمولی واقعہ نہیں تھا۔ اس گرفتاری نے عالمی سطح پر پاکستان کو توجہ کا مرکز بنا دیا۔ انسانی حقوق اور صحافیوں کی عالمی تنظیموں نے اس گرفتاری کی مذمت شروع کر دی۔ اگلے دن جمعہ تھا۔ صدرِ مملکت عارف علوی کے ساتھ پہلے سے ایک ملاقات تھی۔ اس ملاقات میں کورونا وائرس کیساتھ ساتھ میڈیا کی آزادی بھی زیر بحث آئی۔ ملاقات کے بعد میں دفتر پہنچا تو وزیراعظم کی معاونِ خصوصی فردوس عاشق اعوان کی ایک دھمکی آمیز پریس کانفرنس نشر ہو رہی تھی۔ موصوفہ فرما رہی تھیں کہ میر شکیل الرحمٰن کو ان کے ایک ذاتی معاملے میں گرفتار کیا گیا ہے لیکن ایک سیٹھ کی گرفتاری کو آزادیٔ صحافت کا مسئلہ کیوں بنایا جا رہا ہے؟ یہ سیٹھ کی اصطلاح جنرل پرویز مشرف کے دور میں سامنے لائی گئی تھی جب وکلا تحریک میں میڈیا نے ایک بھرپور کردار ادا کیا تو مشرف حکومت کے وزیروں اور مشیروں نے ٹی وی چینلز اور اخبارات کے مالکان کو سیٹھ صاحبان قرار دے کر کہا کہ اسٹیٹ کا مقابلہ سیٹھ سے ہے اور یہ سیٹھ ایک مافیا بن چکے ہیں۔ فردوس عاشق اعوان صاحبہ یہ انکار نہیں کر سکتیں کہ وہ دراصل مشرف دور کی سیاسی پیداوار ہیں لہٰذا اُن کی زبان سے مشرف دور کی سیاسی اصطلاحات سُن کر کچھ عجیب نہیں لگتا۔ ابھی اُن کی پریس کانفرنس کو ختم ہوئے پندرہ منٹ بھی نہ گزرے تھے کہ کیبل آپریٹرز کو پیمرا کی طرف سے کالیں کی جانے لگیں کہ جیو نیوز کو بند کر دو یا آخری نمبروں پر ڈال دو۔ ان فون کالوں نے فردوس عاشق اعوان کے اس دعوے کی نفی کر دی کہ میر شکیل الرحمٰن کی گرفتاری دراصل ایک سیٹھ کی گرفتاری ہے، اگر یہ سیٹھ کا ذاتی معاملہ تھا تو پھر جیو نیوز کو بند کروانے کے لئے حکم کیوں جاری ہوا؟

تادمِ تحریر اسلام آباد میں جیو نیوز اُن نمبروں پر نظر نہیں آ رہا جن پر جمعہ کی دوپہر تک نظر آ رہا تھا اور اس ’’نمبر گیم‘‘ نے نیب اور فردوس عاشق اعوان کی گیم کو بےنقاب کر دیا ہے۔ میر شکیل الرحمٰن کو سیٹھ قرار دے کر آپ کارکن صحافیوں کو اُن کے حق میں آواز اٹھانے سے نہیں روک سکتے۔ ایک میڈیا گروپ کے مالک کی حیثیت سے وہ نہ سب کو خوش رکھ سکتے ہیں نہ سب کو ناراض کر سکتے ہیں۔ میں تین دہائیوں سے اُن کے ساتھ کام کر رہا ہوں۔ کئی دفعہ اُن کے ساتھ اختلاف کیا اور اپنی مرضی بلکہ بعض اوقات من مانی بھی کی لیکن انہوں نے ایک دانا بزرگ کی طرح ضدی اور غصیلے بچے کی گستاخی برداشت کی۔ 2018ء میں مختلف اخباری اداروں اور ٹی وی چینلز میں تنخواہوں کی ادائیگی میں کئی کئی ماہ کی تاخیر شروع ہوئی تو معاملہ سپریم کورٹ پہنچ گیا۔ ایک دن چیف جسٹس ثاقب نثار نے اپنی عدالت میں بلا کر مجھے پوچھا کہ کیا آپ کو تنخواہ تاخیر سے ملتی ہے؟ میں نے ہاں میں جواب دیا اور عدالت نے میر شکیل الرحمٰن کو طلب کر لیا۔ پھر عدالت نے میری سربراہی میں ایک کمیٹی بنائی اور اس کمیٹی میں شکیل صاحب کے ساتھ بہت سخت باتیں بھی ہوئیں۔ انہوں نے کچھ وعدے کیے جو پورے نہ ہوئے تو میں نے ادارہ چھوڑ دیا۔ لیکن وہ مجھے واپس لے آئے۔ میں واپس کیوں آیا؟ مجھے پتا تھا کہ تنخواہ کی ادائیگی میں دیر سویر ہو سکتی ہے لیکن شکیل صاحب آزادیٔ صحافت پر وہ سودا نہیں کریں گے جو باقی سیٹھ کر لیتے ہیں۔ اس حقیقت میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان کافی عرصے سے غیر علانیہ سنسر شپ کی زد میں ہے اور بعض اوقات ہمیں ادارے کی بقا کیلئے چھوٹے چھوٹے سمجھوتے بھی کرنا پڑتے ہیں لیکن 12مارچ کو میر شکیل الرحمٰن کی گرفتاری اس لیے ہوئی کہ اُنہوں نے چیئرمین نیب کے ساتھ سمجھوتا کرنے سے انکار کیا۔ 9مارچ کو میں نے کیپٹل ٹاک میں شاہد خاقان عباسی سے پوچھا کہ کیا آپ کو جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال کو چیئرمین نیب مقرر کرنے کے الزام میں سزا نہیں ملنی چاہئے؟ اگلے ہی دن 10مارچ کو میر شکیل الرحمٰن کو نوٹس دے کر 12مارچ کو بلا لیا گیا۔ میر شکیل الرحمٰن کو جوہر ٹائون لاہور میں 34 سال قبل پلاٹ خریدنے کے الزام میں گرفتار نہیں کیا گیا اُنہیں میری، شاہزیب خانزادہ اور جنگ و دی نیوز کے کچھ دیگر ساتھیوں کی گستاخیوں کی وجہ سے گرفتار کیا گیا ہے۔ گرفتار کرنے والوں کا خیال تھا کہ کارکن صحافیوں کو تنخواہیں تاخیر سے مل رہی ہیں اور دنیا میں کورونا وائرس کا خوف چھایا ہوا ہے لہٰذا میر شکیل الرحمٰن کی گرفتاری پر کوئی آواز نہیں اُٹھے گی لیکن 14مارچ کو پاکستان بھر میں کارکن صحافیوں نے میر شکیل الرحمٰن کی گرفتاری کے خلاف احتجاج کیا اور 16مارچ سے یہ احتجاج تحریک کی شکل اختیار کر سکتا ہے جس میں ہم گرفتاریاں دینے کیلئے بھی تیار ہیں اور سب سے پہلے میں گرفتاری دوں گا۔ اب یہ جنگ میر شکیل الرحمٰن کیلئے نہیں ہے، یہ آزادیٔ صحافت کی جنگ ہے جس میں کارکن صحافی ہمیشہ آگے آگے رہے ہیں؎

فرضی مقدمات ہیں، جھوٹی شہادتیں
ہم پھر بھی لکھ رہے ہیں جنوں کی حکایتیں
 

جاسم محمد

محفلین
میر شکیل الرحمٰن کو جوہر ٹائون لاہور میں 34 سال قبل پلاٹ خریدنے کے الزام میں گرفتار نہیں کیا گیا اُنہیں میری، شاہزیب خانزادہ اور جنگ و دی نیوز کے کچھ دیگر ساتھیوں کی گستاخیوں کی وجہ سے گرفتار کیا گیا ہے۔
لفافت کے بعد وکالت کی ڈگری بھی مبارک ہو حامد میر!
 

آورکزئی

محفلین
ETOPbPIXsAEfgxI
 

جاسم محمد

محفلین
عمران خان کو وہ پلاٹ بھارت سے ٹیسٹ کرکٹ جیتنے پر حکومت پنجاب نے الاٹ کئے تھے۔ جو اس نے بعد میں شوکت خانم کیسر ہسپتال کو عطیہ بھی کر دئے تھے۔
یہ میر شکیل الرحمان نے کونسا قومی کارنامہ سر انجام دیاتھا جو اسے نواز شریف نے سرکاری پلاٹوں سے نوازا؟
 
اسد علی رانا نے کہا:
عمران نواز زرداری سب ہی نااہل کرپٹ ہیں۔
لے دے کر پھر جنرل باجوہ ہی اہل بچتے ہیں

جاسم محمد صاحب
جنرل باجوہ کو آزما کر دیکھ سکتے ہیں
 

جاسم محمد

محفلین
بلاگ
17 مارچ ، 2020
436_051048_reporter.JPG
ارشاد بھٹی
پچھلے دو دن سے یہی سوچ رہا ہوں!
216404_4764740_updates.jpg

ملک بھر میں میر شکیل الرحمان کی گرفتاری کے خلاف احتجاجی مظاہرے کیے جارہے ہیں—

12مارچ، سہ پہر ساڑھے چار بجے، جیو ٹی وی پروگرام ’رپورٹ کارڈ‘ کی ریکارڈنگ جاری، اچانک میرے ساتھ بیٹھے سلیم صافی نے اپنا موبائل فون میری طرف کھسکایا، چہرہ کیمرے سے ہٹائے بنا میں نے آنکھیں گھما کر دیکھا، ایک ٹی وی چینل کے بریکنگ نیوز والا اسکرین شاٹ، جیو، جنگ، نیوز کے مالک میر شکیل الرحمٰن کو نیب نے گرفتار کر لیا!

میں نے سامنے کیمرے کی طرف دیکھتے ہوئے لمبی سانس لی، سوچا، انکوائری نہ ریفرنس دوسری پیشی پر ہی گرفتاری، اگلے دو چار منٹوں میں ’رپورٹ کارڈ‘ کے سب شرکا کو اس خبر کا پتا چل گیا، ریکارڈنگ رکی، بھانت بھانت کے تبصرے، یہ گرفتاری آج ’رپورٹ کارڈ‘ کا حصہ ہونی چاہئے یا نہیں، 10پندرہ منٹ اسی بحث میں گزر گئے، آخرکار فیصلہ ہوا، گرفتاری پروگرام کا موضوع نہیں ہو گی، ریکارڈنگ دوبارہ شروع ہوئی، ریکارڈنگ ختم ہوئی، ہم نیچے دفتر میں آکر بیٹھے، یہیں بیٹھے بیٹھے پتا چلا، کل لاہور میں میر شکیل الرحمٰن کو احتساب عدالت میں پیش کرکے نیب ریمانڈ لے گا، یہیں بیٹھے بیٹھے میں نے فیصلہ کیا، مجھے کل لاہور جانا چاہئے۔

اگلی صبح 6 بجے بذریعہ موٹروے لاہور کیلئے نکلا، بھیرہ کے قریب پہنچ کر حامد میر سے بات ہوئی، پتا چلا وہ اسلام آباد مظاہرے میں شرکت کیلئے لاہور جاتے آدھے رستے سے واپس مڑ چکے، 10بجے موٹروے سے اتر کر لاہور میں داخل ہوا، نیب دفتر کے باہر صحافی کیمروں سمیت کھڑے نظر آئے، ابر آلود موسم، برس چکی بارش، لاہور کی سڑکوں پر حیرت کی حد تک کم رش، نہر کے ساتویں انڈر پاس سے مال روڈ پر چڑھا، مال روڈ سے احتساب عدالت کی طرف مڑا، کنٹینرز، خار دار تاریں، پولیس ہی پولیس، گاڑی سے اترا، جگہ جگہ سڑک پر کھڈے، کھڈوں میں بارش کا پانی، بچتا بچاتا چار ناکوں سے گزر کر احتساب عدالت کے احاطے میں داخل ہوا، پولیس، وکیل، صحافی ٹولیوں میں کھڑے، لمبا برآمدہ گزار، سیڑھیاں چڑھ کر اوپر والی منزل پر احتساب عدالت 4 میں داخل ہوا۔

پتا چلا میر شکیل الرحمٰن کو لایا جا چکا، اس وقت وہ احتساب عدالت کے ملحقہ کمرے میں اپنے وکیل اعتزاز احسن کے ساتھ، عبدالقیوم صدیقی، ارشد انصاری، رئیس انصاری، بلال غوری، انجم رشید سے ملتے ملاتے کھچا کھچ بھری احتساب عدالت کے ملحقہ کمرے میں داخل ہوا، آگے سہیل وڑائچ، انصار عباسی بیٹھے ملے، یہاں پہنچ کر پتا چلا اس کمرے سے جڑا ایک اور کمرہ، جس میں میر شکیل الرحمٰن اور اعتزاز احسن، چند منٹوں بعد پتا چلا احتساب عدالت چار کے جج امیر محمد خان آگئے، پہلے اعتزاز احسن اپنی وکلا ٹیم کے ساتھ نکلے پھر میر شکیل الرحمٰن باہر آئے، مجھ سے ملتے ہوئے وہ حسبِ عادت مسکرائے مگر مجھے پتا چل گیا کہ آج مسکرانے کیلئے انہیں کتنی محنت اور کتنی کوشش کرنا پڑی۔

احتساب عدالت میں تل دھرنے کی جگہ نہ تھی، جج صاحب، سامنے اعتزاز احسن اور نیب کے وکیل، جج کی بائیں جانب کٹہرے میں میر شکیل الرحمٰن، ان کے پیچھے ان کے دونوں بیٹے، ان کے پیچھے پولیس اہلکار، پولیس اہلکاروں کی بائیں جانب سہیل وڑائچ، رئیس انصاری، ذرا آگے اعتزاز احسن کے بالکل پیچھے میں پھنس کر کھڑا ہوا، اعتزاز احسن کے دلائل شروع ہوئے، جلد ہی پتا چل گیا کہ چوہدری صاحب بڑھاپے کی زد میں، دلائل جاندار نہ پہلے والی روانی، چوہدری صاحب نے دو مرتبہ پانی پیا، پانی پیتے مسلسل کانپتے ہاتھ، چوہدری صاحب کے نیب ریمانڈ مخالف اور رہائی کے حق میں دلائل ختم ہوئے، نیب وکیل نے ریمانڈ کے حق میں دلائل دیے۔

دو گھنٹے کی سماعت کے بعد احتساب عدالت چار کے چودہویں جج امیر محمد خان نے زیرِ لب مسکراتے ہوئے میر شکیل الرحمٰن کا 12روزہ ریمانڈ دے دیا، اسی لمحے لاہور کے ایک مقامی لیگی سیاستدان نے میر شکیل الرحمٰن کو مخاطب کرتے ہوئے کہا سر مریم نواز کا پیغام، ہم آپ کے ساتھ، انہی لمحوں میں اعتزاز احسن نے جج سے میر شکیل الرحمٰن کیلئے دوائیاں، گھر کے کھانے، آکسیجن مشین کی اجازت لی، اب پولیس اہلکار آگے بڑھے، میر شکیل الرحمٰن کو گھیر ے میں لیا، انہیں لے کر احتساب عدالت سے باہر نکلے، صحافیوں کی نعرے بازی شروع ہوئی، کورٹ رپورٹروں کے سوالات کے جواب دیتے دیتے میر شکیل الرحمٰن گاڑی میں بیٹھے۔

صحافیوں کے گھیرے میں رینگتی گاڑی احتساب عدالت سے نکل گئی، میں ابھی تک احتساب عدالت میں ایک دیوار سے لگ کر کھڑا، عدالت میں رش چھٹ چکا، جج صاحب اگلا مقدمہ سن رہے، ایک ملزم، چار وکیل، دو چار لوگ، میں باہر آیا، احاطہ صحافیوں، وکیلوں سے بھرا ہوا، واپس مڑا، احتساب عدالت کے پیچھے گیٹ سے نکل کر سڑک پر آیا، ڈرائیور کو فون کیا، گاڑی میں بیٹھ کر مال روڈ پر آیا، مال روڈ، جہاں کٹہرے میں کھڑے میر شکیل، دلائل دیتے وکیل، دلائل سن کر اپنے اسٹینو گرافر کو لکھواتے جج، نعرہ زن صحافیوں سے بےنیاز ٹریفک رواں دواں۔

میرا یہ ماننا ہر شخص قابلِ احتساب، ہر شخص جوابدہ، قانون کی نظر میں سب برابر، کوئی قانون سے بڑا نہیں، میرا یہ ماننا، کسی سیاستدان کو پکڑنے سے جمہوریت خطرے میں نہیں پڑتی، کسی تاجر کو پکڑنے سے معیشت خطرے میں نہیں پڑتی، کسی صحافی کو پکڑنے سے صحافت، آزادیٔ رائے خطرے میں نہیں پڑتی، اب اسے چھوڑیں، کئی وزیر، مشیر ایسے جنہیں مضبوط کیسوں، توانا ثبوتوں کے باوجود پوچھا نہیں جا رہا، کئی چہیتے انکوائریوں، ریفرنسوں کے مرحلوں پر پہنچ کر بھی گرفتاری سے کوسوں دور۔

اسے بھی چھوڑیں، عمران خان کہہ چکے میر شکیل میں تمہیں چھوڑوں گا نہیں، اسے بھی چھوڑیں، شیخ رشید بتا چکے، جیو والو! وزیراعظم تم سے ناراض، اسے بھی چھوڑیں، سنا جا رہا تھا کہ میر شکیل کے خلاف گھیرا تنگ ہو رہا، یہ سب چھوڑیں، بات کر لیتے ہیں 180کنال 18مرلے زمین کیس کی، یہ زمین تھی محمد علی نامی شخص کی، وہ فوت ہوا تو بیٹوں ہدایت علی، حکمت علی کو ملی، 4جون 1986کو ہدایت علی، حکمت علی سے میر شکیل کی ڈیل ہوئی، پاور آف اٹارنی میر شکیل کو ملا، یہ زمین ایل ڈی اے ہاؤسنگ سوسائٹی میں آئی، میر شکیل، ایل ڈی اے میں طے ہوا یہ زمین ایل ڈی اے لے گا اور ایل ڈی اے اس زمین کے بدلے 30فیصد ڈویلپ لینڈ میر شکیل کو دے گا، 7جون 1986، ایل ڈی اے نے کام شروع کیا، 3جولائی 1986کو ڈی جی ایل ڈی اے ہمایوں فیض رسول نے سمری وزیراعلیٰ نواز شریف (جو ایل ڈی اے کے چیئرمین بھی تھے) کو بھجوائی۔

11جولائی 1986کو سمری منظور ہوئی، میر شکیل کو ہاؤسنگ ایکٹ 1973کی ایگزمیشن پالیسی کے تحت جوہر ٹاؤن فیز ٹو میں 54 کنال ڈویلپ زمین مل گئی، اب اسے چھوڑیں، اس زمین کے حوالے سے 28دسمبر 1993کو ممبر پنجاب اسمبلی رانا آفتاب پنجاب اسمبلی میں نکتہ اٹھا چکے کہ بی آر بی کینال روڈ پر نواز شریف نے زمین غیرقانونی الاٹ کی، ایل ڈی جواب دے چکا، یہ زمین قواعد و ضوابط کے عین مطابق دی گئی۔

اسے بھی چھوڑیں کہ نواز شریف نے رولز ریلیکس کرکے زمین دی یا نہیں، انہیں رولز ریلیکس کرنے کا اختیار تھا یا نہیں، اسے بھی چھوڑیں کہ میر شکیل الرحمٰن کی 3جگہوں پر زمین کے بدلے ایک جگہ زمین الاٹ ہو سکتی تھی یا نہیں، ایک ایک کنال کے کتنے پلاٹ دیے جا سکتے اور 5یا دس مرلے کے کتنے پلاٹ، یہ سب چھوڑیں، بات یہ، 34سال پرانے کیس میں میر شکیل کو 28فروری 2020کو نوٹس جاری ہوا۔

3مارچ کو نوٹس ملا، 5مارچ کو وہ پیش ہوئے، 12مارچ کو دوبارہ بلایا اور گرفتار کر لیا، اب نیب کا اپنا قانون، طریقہ کار، شکایت آئے، تصدیق ہو، انکوائری کا حکم نیب ایگزیکٹو بورڈ دے، ملزم کو نوٹس جائے، سمن، تفتیش، سوالنامہ، جوابات کی تصدیق اور ریفرنس یا گرفتاری کے بعد ریفرنس، مگر اس کیس میں شکایت ملی، میر شکیل کو بلایا اور شکایت کی تصدیق ہونے سے بھی پہلے گرفتار کر لیا، نیب نے اپنا قانون، رہنما اصول توڑ ڈالے اور 20سالہ تاریخ میں پہلی بار شکایت کے تصدیقی مرحلے پر کسی کو گرفتار کر لیا۔

یہاں یہ بات بھی بہت دلچسپ، میر شکیل پبلک آفس ہولڈر نہ اُنہوں نے خود کوئی غلط کام کیا، انہوں نے ایک پرائیویٹ پارٹی سے زمین لی، ایل ڈی اے کو دی اور زمین کے بدلے زمین لی، مسئلہ صرف الاٹمنٹ کا، اب اگر یہ الاٹمنٹ غیرقانونی تو بھی یہ غلط کام کیا وزیراعلیٰ اور ایل ڈی اے چیئرمین نواز شریف نے، ایل ڈی اے حکام نے، میر شکیل الرحمٰن تو بینی فشری مگر نیب نے میر شکیل کو گرفتار کرنے کے دو دن بعد ایل ڈی اے اور نواز شریف کو پہلی بار نوٹسز جاری کیے۔

حالانکہ ایل این جی ٹرمینل کیس میں شاہد خاقان عباسی ہو یا 56 کمپنی اسکینڈل میں شہباز شریف یا کسی سرکاری ڈیل میں کوئی بیورو کریٹ، نیب پہلے سرکاری محکمے کی طرف جائے، تحقیق، تفتیش کرے، قصور نکلنے پر پبلک آفس ہولڈر کو پکڑے، پھر ان پرائیویٹ پارٹیوں کی طرف جائے جنہوں نے فائدہ لیا ہو جب کہ یہاں نواز شریف، ایل ڈی اے کو پوچھا تک نہیں، میر شکیل کو پکڑ لیا اور وہ بھی ایک غیر قانونی الاٹمنٹ پر اور وہ بھی مبینہ غیر قانونی الاٹمنٹ کی شکایت کی تصدیق سے بھی پہلے، بات یہیں نہیں رکی۔

اِدھر میر شکیل گرفتار ہوئے اور اس سے اگلے دن ملک بھر میں جیو ٹی وی بندش شروع، اب جیو ٹی وی کا اس کیس سے کیا تعلق، جیو ٹی وی سے جڑے ہزاروں ملازمین، صحافیوں کا کیا قصور، پچھلے دو دن سے میں یہی سوچ رہا ہوں۔
 

جاسم محمد

محفلین
جب تک میڈیا پیپلز پارٹی اور نواز لیگ کے دور میں ان کی دھجیاں اڑاتا تھا، اور نیازی صاحب کے گن گاتا تھا میڈیا بہت اچھا تھا۔ آج وہی کلاسرا ہیں جو ان کی تعریف کرتے نہیں تھکتے تھے، آج وہی شاہد مسعود ہیں، وہی ندیم ملک ہیں جو ان کی مایوس کن پرفارمنس پر ان کے خلاف لکھتے ہیں بولتے ہیں تو اب میڈیا لفافہ ہوگیا۔ تف ہے اس فاشسٹ حکمران پر۔
تم سے پہلے وہ جو اک شخص یہاں تخت نشیں تھا
اس کو بھی اپنے خدا ہونے پہ اتنا ہی یقیں تھا
(جالب)
جنگ، جیو، دی نیوز گروپ نے کل ایک انٹرویو میں اپنی ادارہ جاتی پالیسی واضح کر دی ہے۔ اسے پڑھئے اور سر دھنئے کہ یہ ملک میں کس قسم کی "صحافت" کے علمبردار ہیں:
بلاگ
18 مارچ ، 2020
محمد عرفان صدیقی
چارج شیٹ
216459_5283044_updates.jpg

فوٹو: فائل

اگر آپ کو حکومت سے اتنی شکایات ہیں تو آپ اپنی جماعت کو حکومتی اتحاد سے علیحدہ کر لیں، حکومت خود ہی ختم ہو جائے گی کیونکہ عددی اعتبار سے حکومت اتحادی جماعتوں کے بل بوتے پر ہی قائم ہے۔

میرے اس سادہ سے مشورے پر وہ مسکرائے اور بولے آپ اتنے بھولے نہ بنیں، آپ کو بھی سب معلوم ہے کہ حکومت گرانا اتنا آسان کام نہیں، حکومت میں آتے ہی حکمرانوں کے پاس بہت ساری طاقتیں جمع ہو جاتی ہیں اور جب تک حکمرانوں کو ان کی حمایت حاصل ہوتی ہے حکومت قائم رہتی ہے جس کی اہم مثال سینٹ کے چیئرمین کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد ہے جو اپوزیشن کی واضح اکثریت کے باوجود بری طرح ناکام ہو گئی یعنی ہاتھ اٹھا کر رائے شماری کے عمل میں چیئرمین سینیٹ فارغ ہو چکے تھے لیکن جیسے ہی پرچی کے ذریعے ووٹنگ کا آغاز ہوا چیئرمین سینیٹ باآسانی کامیاب ہو گئے اور اپوزیشن جیتی بازی ہار گئی، لہٰذا ہمیں بھی یہ ڈر ہے کہ ہم حکومت کے اتحاد سے الگ ہوتے ہیں تو حکومت اپوزیشن جماعتوں سے کوئی فارورڈ بلاک تیار کرکے حکومت برقرار رکھنے میں باآسانی کامیاب ہو جائے گی۔

اس کے بعد ہمارے خلاف نہ صرف پرانے مقدمے کھل جائیں گے بلکہ نئے مقدمات بھی قائم ہوں گے، ہمارے پہلے ہی ہزاروں کارکن پابندِ سلاسل ہیں مزید گرفتاریاں شروع کردی جائیں گی، غرض ہم ابھی نام کے اتحادی ہی صحیح لیکن عتاب سے بچے ہوئے ہیں اور نہیں چاہتے ہماری پارٹی مزید کسی مشکل کا شکار ہو، یعنی یہ طے ہے کہ جب تک موجودہ حکومت اقتدار میں ہے آپ اس کے اتحادی ہی رہیں گے؟۔

میرے اس سوال پر مسکراتے ہوئے وہ گویا ہوئے، سیاست میں کوئی بات حتمی نہیں ہوتی، ہم بھی وقت کا انتظار کررہے ہیں، میں نے موضوع تبدیل کرتے ہوئے اپنے سیاستدان دوست سے سوال کیا کہ جنگ جیو گروپ کے ایڈیٹر انچیف میر شکیل الرحمٰن کو جس طرح گرفتار کیا گیا ہے اس سے نیب اور حکومت کی عالمی سطح پر جگ ہنسائی ہوئی ہے۔

کیا حکومت کے پاس جنگ اور جیو کی آواز کو دبانے کا کوئی اور مناسب طریقہ موجود نہیں تھا؟ میرے تبصرے نما سوال پر سیاستدان دوست بولے، آپ کے ایڈیٹر انچیف کے خلاف موجودہ حکومت کے پاس ایک بڑی چارج شیٹ ہے، آپ کہیں تو میں بیان کردیتا ہوں۔

میرے اقرار سے پہلے ہی وہ چارج شیٹ بیان کرنا شروع کر چکے تھے، وہ بتارہے تھے کہ الیکشن کے بعد جیسے ہی نتائج آنا شروع ہوئے تو سندھ میں کئی نشستوں پر ایسے نتیجے آنے لگے جس کی کسی کو توقع نہ تھی پھر کراچی کی ایک پرانی جماعت کی کئی جیتی ہوئی نشستوں پر نتائج کا اعلان موخر کردیا گیا اور کئی دنوں کے بعد ان نشستوں پر حکمراں جماعت کو فاتح قرار دے دیا گیا۔

اس چھوٹے سے ایشو پر آپ کے چینل نے حکومت کے قیام سے قبل ہی واویلا مچانا شروع کردیا جس سے حکمراں جماعت کی جیت کا مزہ ہی خراب ہو گیا، پھر پنجاب میں ایک درجن سے زائد ایسی نشستیں جس پر (ن)لیگ کامیابی کا شور مچا رہی تھی ان پر حکمراں جماعت کو فاتح قرار دے دیا گیا اس پر بھی آپ اپوزیشن کی آواز بنے رہے۔

پھر آپ کا ادارہ وزیراعلیٰ پنجاب کے خلاف مہم چلا کر صوبائی حکومت کو کمزور کرتا رہا، حکومت کے یوٹرن کا مذاق اڑاتا رہا، آپ کا ادارہ چینی اور آٹے کے حوالے سے حکومت پر تنقید کرتا رہا، رانا ثناء اللّٰہ کیا گرفتار ہوئے آپ کے ادارے کی نیندیں حرام ہو گئیں جب تک رانا ثناء اللّٰہ رہا نہیں ہوئے آپ کا ادارہ ان کی بےگناہی کا راگ الاپتا رہا، نواز شریف کو گرفتار کیا گیا تو آپ کے ادارے کو تکلیف رہی پھر ان کی لندن روانی تک حکومت مخالف رویہ اپناتا رہا۔


پشاور میں بی آر ٹی منصوبے پر آپ کا ادارہ واویلا کرتا رہا، پرویز خٹک، اعظم خان اور دیگر رہنماؤں کے نیب کیسز پر آپ کے ادارے کی تکلیف ختم نہیں ہوئی، غرض آپ کے ادارے نے حکومت کو گزشتہ اٹھارہ ماہ میں یکسوئی سے کام ہی کب کرنے دیا ہے لہٰذا کچھ تو حکومت نے کرنا ہی تھا، چاہے وہ اشتہارات روک کر آپ کو دبانے کی کوشش کرے یا آپ کے ایڈیٹر انچیف کو گرفتار کرکے دباؤ میں لائے۔

میرے سیاستداں دوست جب اپنی جانب سے جنگ جیو کے خلاف لگائی جانے والی چارج شیٹ سنا چکے تو میں نے ان سے دریافت کیا یہی تو میڈیا کا کام ہے کہ حکومت کو آئینہ دکھاتا رہے اور اگر آئینے میں اپنا منہ گندا لگے تو حکومت کو اسے صاف کرنا چاہئے، نہ کے آئینہ ہی توڑ دیا جائے۔

یہی ادارہ تھا جس نے کپتان کے لیے اربوں روپے کی ٹیلی تھون ٹرانسمیشن کے ذریعے شوکت خانم اسپتال کے لیے فنڈ جمع کرکے دیا، اسی ادارے کے پروگراموں نے خان صاحب کو عوامی سطح پر مقبول بنانے میں اہم کردار ادا کیا، ماضی میں کپتان اسی ادارے کے گن گایا کرتے تھے۔


ماضی میں کپتان میڈیا کے خلاف جن اقدامات پر سابقہ حکمرانوں پر کڑی تنقید کیا کرتے تھے آج اقتدار میں آکر وہ خود ہی میڈیا خصوصاً اور جنگ جیو کے خلاف وہی اقدامات کررہے ہیں بلکہ سابقہ حکمرانوں سے بھی آگے جاکر جنگ جیو گروپ کے ایڈیٹر انچیف کو ایک بوگس اور بےجان کیس میں گرفتار کر لیا ہے۔

جس سے اندرون ملک ہی نہیں بلکہ بیرون ملک بھی نیب، حکومت اور پاکستان کے وقار کو سخت نقصان پہنچا ہے، وزیراعظم کو چاہئے کہ اپوزیشن اور میڈیا سے لڑنے کے بجائے اپنی توانائی ملک کی ترقی پر صرف کریں تو نہ صرف آپ کی حکومت 5 برس مکمل کر سکے گی بلکہ پاکستان بھی ترقی کرے گا، فیصلہ آپ نے کرنا ہے۔
---
ماضی میں جب عمران خان نے حکومت پر دھاندلی کا الزام لگایا تو جیو اس وقت حکومت کے ساتھ تھا، عمران خان کے دھرنے کی کوریج بھی منفی انداز میں دی اور اسے اسٹیبلشمنٹ کا دھرنا کہا۔ بعد میں پاناما کرپشن کیس کے دوران پوری ڈھٹائی سے حکومتی جماعت کا دفاع کرتا رہا۔ بلکہ ان کے ایک لفافے احمد نورانی نے تو پاناما جے آئی ٹی رپورٹ پبلش ہونے سے قبل ہی ایک جعلی خبر چلا دی کہ اس میں نواز شریف کو بے قصور کہا گیا ہے۔ بعد میں سپریم کورٹ کی سرزنش پر ادارہ کو معافی مانگنا پڑی۔
The News reporter apologises for story suggesting JIT had found PM 'not guilty' - DAWN.COM

جیو، جنگ، دا نیوز کی قومی چوروں، کرپٹ حکمرانوں کی حمایت میں ایک لمبی چارج شیٹ موجود ہے۔ آپ کو اب بھی لگتاہے کہ یہ آزادی صحافت ہے تو 21 توپوں کی سلامی قبول کریں۔
 

فرقان احمد

محفلین
جنگ، جیو، دی نیوز گروپ نے کل ایک انٹرویو میں اپنی ادارہ جاتی پالیسی واضح کر دی ہے۔ اسے پڑھئے اور سر دھنئے کہ یہ ملک میں کس قسم کی "صحافت" کے علمبردار ہیں:
بلاگ
18 مارچ ، 2020
محمد عرفان صدیقی
چارج شیٹ
216459_5283044_updates.jpg

فوٹو: فائل

اگر آپ کو حکومت سے اتنی شکایات ہیں تو آپ اپنی جماعت کو حکومتی اتحاد سے علیحدہ کر لیں، حکومت خود ہی ختم ہو جائے گی کیونکہ عددی اعتبار سے حکومت اتحادی جماعتوں کے بل بوتے پر ہی قائم ہے۔

میرے اس سادہ سے مشورے پر وہ مسکرائے اور بولے آپ اتنے بھولے نہ بنیں، آپ کو بھی سب معلوم ہے کہ حکومت گرانا اتنا آسان کام نہیں، حکومت میں آتے ہی حکمرانوں کے پاس بہت ساری طاقتیں جمع ہو جاتی ہیں اور جب تک حکمرانوں کو ان کی حمایت حاصل ہوتی ہے حکومت قائم رہتی ہے جس کی اہم مثال سینٹ کے چیئرمین کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد ہے جو اپوزیشن کی واضح اکثریت کے باوجود بری طرح ناکام ہو گئی یعنی ہاتھ اٹھا کر رائے شماری کے عمل میں چیئرمین سینیٹ فارغ ہو چکے تھے لیکن جیسے ہی پرچی کے ذریعے ووٹنگ کا آغاز ہوا چیئرمین سینیٹ باآسانی کامیاب ہو گئے اور اپوزیشن جیتی بازی ہار گئی، لہٰذا ہمیں بھی یہ ڈر ہے کہ ہم حکومت کے اتحاد سے الگ ہوتے ہیں تو حکومت اپوزیشن جماعتوں سے کوئی فارورڈ بلاک تیار کرکے حکومت برقرار رکھنے میں باآسانی کامیاب ہو جائے گی۔

اس کے بعد ہمارے خلاف نہ صرف پرانے مقدمے کھل جائیں گے بلکہ نئے مقدمات بھی قائم ہوں گے، ہمارے پہلے ہی ہزاروں کارکن پابندِ سلاسل ہیں مزید گرفتاریاں شروع کردی جائیں گی، غرض ہم ابھی نام کے اتحادی ہی صحیح لیکن عتاب سے بچے ہوئے ہیں اور نہیں چاہتے ہماری پارٹی مزید کسی مشکل کا شکار ہو، یعنی یہ طے ہے کہ جب تک موجودہ حکومت اقتدار میں ہے آپ اس کے اتحادی ہی رہیں گے؟۔

میرے اس سوال پر مسکراتے ہوئے وہ گویا ہوئے، سیاست میں کوئی بات حتمی نہیں ہوتی، ہم بھی وقت کا انتظار کررہے ہیں، میں نے موضوع تبدیل کرتے ہوئے اپنے سیاستدان دوست سے سوال کیا کہ جنگ جیو گروپ کے ایڈیٹر انچیف میر شکیل الرحمٰن کو جس طرح گرفتار کیا گیا ہے اس سے نیب اور حکومت کی عالمی سطح پر جگ ہنسائی ہوئی ہے۔

کیا حکومت کے پاس جنگ اور جیو کی آواز کو دبانے کا کوئی اور مناسب طریقہ موجود نہیں تھا؟ میرے تبصرے نما سوال پر سیاستدان دوست بولے، آپ کے ایڈیٹر انچیف کے خلاف موجودہ حکومت کے پاس ایک بڑی چارج شیٹ ہے، آپ کہیں تو میں بیان کردیتا ہوں۔

میرے اقرار سے پہلے ہی وہ چارج شیٹ بیان کرنا شروع کر چکے تھے، وہ بتارہے تھے کہ الیکشن کے بعد جیسے ہی نتائج آنا شروع ہوئے تو سندھ میں کئی نشستوں پر ایسے نتیجے آنے لگے جس کی کسی کو توقع نہ تھی پھر کراچی کی ایک پرانی جماعت کی کئی جیتی ہوئی نشستوں پر نتائج کا اعلان موخر کردیا گیا اور کئی دنوں کے بعد ان نشستوں پر حکمراں جماعت کو فاتح قرار دے دیا گیا۔

اس چھوٹے سے ایشو پر آپ کے چینل نے حکومت کے قیام سے قبل ہی واویلا مچانا شروع کردیا جس سے حکمراں جماعت کی جیت کا مزہ ہی خراب ہو گیا، پھر پنجاب میں ایک درجن سے زائد ایسی نشستیں جس پر (ن)لیگ کامیابی کا شور مچا رہی تھی ان پر حکمراں جماعت کو فاتح قرار دے دیا گیا اس پر بھی آپ اپوزیشن کی آواز بنے رہے۔

پھر آپ کا ادارہ وزیراعلیٰ پنجاب کے خلاف مہم چلا کر صوبائی حکومت کو کمزور کرتا رہا، حکومت کے یوٹرن کا مذاق اڑاتا رہا، آپ کا ادارہ چینی اور آٹے کے حوالے سے حکومت پر تنقید کرتا رہا، رانا ثناء اللّٰہ کیا گرفتار ہوئے آپ کے ادارے کی نیندیں حرام ہو گئیں جب تک رانا ثناء اللّٰہ رہا نہیں ہوئے آپ کا ادارہ ان کی بےگناہی کا راگ الاپتا رہا، نواز شریف کو گرفتار کیا گیا تو آپ کے ادارے کو تکلیف رہی پھر ان کی لندن روانی تک حکومت مخالف رویہ اپناتا رہا۔


پشاور میں بی آر ٹی منصوبے پر آپ کا ادارہ واویلا کرتا رہا، پرویز خٹک، اعظم خان اور دیگر رہنماؤں کے نیب کیسز پر آپ کے ادارے کی تکلیف ختم نہیں ہوئی، غرض آپ کے ادارے نے حکومت کو گزشتہ اٹھارہ ماہ میں یکسوئی سے کام ہی کب کرنے دیا ہے لہٰذا کچھ تو حکومت نے کرنا ہی تھا، چاہے وہ اشتہارات روک کر آپ کو دبانے کی کوشش کرے یا آپ کے ایڈیٹر انچیف کو گرفتار کرکے دباؤ میں لائے۔

میرے سیاستداں دوست جب اپنی جانب سے جنگ جیو کے خلاف لگائی جانے والی چارج شیٹ سنا چکے تو میں نے ان سے دریافت کیا یہی تو میڈیا کا کام ہے کہ حکومت کو آئینہ دکھاتا رہے اور اگر آئینے میں اپنا منہ گندا لگے تو حکومت کو اسے صاف کرنا چاہئے، نہ کے آئینہ ہی توڑ دیا جائے۔

یہی ادارہ تھا جس نے کپتان کے لیے اربوں روپے کی ٹیلی تھون ٹرانسمیشن کے ذریعے شوکت خانم اسپتال کے لیے فنڈ جمع کرکے دیا، اسی ادارے کے پروگراموں نے خان صاحب کو عوامی سطح پر مقبول بنانے میں اہم کردار ادا کیا، ماضی میں کپتان اسی ادارے کے گن گایا کرتے تھے۔


ماضی میں کپتان میڈیا کے خلاف جن اقدامات پر سابقہ حکمرانوں پر کڑی تنقید کیا کرتے تھے آج اقتدار میں آکر وہ خود ہی میڈیا خصوصاً اور جنگ جیو کے خلاف وہی اقدامات کررہے ہیں بلکہ سابقہ حکمرانوں سے بھی آگے جاکر جنگ جیو گروپ کے ایڈیٹر انچیف کو ایک بوگس اور بےجان کیس میں گرفتار کر لیا ہے۔

جس سے اندرون ملک ہی نہیں بلکہ بیرون ملک بھی نیب، حکومت اور پاکستان کے وقار کو سخت نقصان پہنچا ہے، وزیراعظم کو چاہئے کہ اپوزیشن اور میڈیا سے لڑنے کے بجائے اپنی توانائی ملک کی ترقی پر صرف کریں تو نہ صرف آپ کی حکومت 5 برس مکمل کر سکے گی بلکہ پاکستان بھی ترقی کرے گا، فیصلہ آپ نے کرنا ہے۔
---
ماضی میں جب عمران خان نے حکومت پر دھاندلی کا الزام لگایا تو جیو اس وقت حکومت کے ساتھ تھا، عمران خان کے دھرنے کی کوریج بھی منفی انداز میں دی اور اسے اسٹیبلشمنٹ کا دھرنا کہا۔ بعد میں پاناما کرپشن کیس کے دوران پوری ڈھٹائی سے حکومتی جماعت کا دفاع کرتا رہا۔ بلکہ ان کے ایک لفافے احمد نورانی نے تو پاناما جے آئی ٹی رپورٹ پبلش ہونے سے قبل ہی ایک جعلی خبر چلا دی کہ اس میں نواز شریف کو بے قصور کہا گیا ہے۔ بعد میں سپریم کورٹ کی سرزنش پر ادارہ کو معافی مانگنا پڑی۔
The News reporter apologises for story suggesting JIT had found PM 'not guilty' - DAWN.COM

جیو، جنگ، دا نیوز کی قومی چوروں، کرپٹ حکمرانوں کی حمایت میں ایک لمبی چارج شیٹ موجود ہے۔ آپ کو اب بھی لگتاہے کہ یہ آزادی صحافت ہے تو 21 توپوں کی سلامی قبول کریں۔
کافی کچھ تو ٹھیک ہی ہے ویسے اور اس حد تک میڈیا سے گھبرانا درست نہیں۔ اگر آپ نے کوئی گڑبڑ نہیں کی ہے تو حکومتی صفوں میں شریک افراد اور اتحادیوں کے خلاف مقدمات قائم ہونے دیجیے۔ نیب کے چیئرمین کو بلیک میل کرنے سے گریز کریں۔ اپنی کارکردگی بہتر بنائیے نہ کہ صحافیوں کو جملہ برائیوں کی جڑ قرار دیں۔ صحافی تو دنیا بھر میں عتاب کا شکار ہی رہتے ہیں۔ دراصل، یہ آپ کی اپنی کمزوری ہے جس کا الزام آپ میڈیا کو ٹھہراتے ہیں۔ یہی وہ میڈیا ہے جو پہروں آپ کی جماعت کو وقت دیتا رہا ہے۔ کیا آپ بھول گئے؟
 

جاسم محمد

محفلین
کافی کچھ تو ٹھیک ہی ہے ویسے اور اس حد تک میڈیا سے گھبرانا درست نہیں۔
صحافت عموما تین اقسام کی ہوتی ہے:
Investigative journalism یعنی تفتیشی صحافت میں تو کوئی گھبرانے والی بات نہیں ہے کیونکہ یہ عوامی فلاح کیلئے ہوتی ہے۔ اور حکومت و ریاست میں بیٹھے مقتدر لوگوں کے اسکینڈلز پبلک میں افشاں کرتی ہے۔ اور یوں ریاست و حکومت کو اپنی اصلاح کیلئے مجبور کرتی ہے۔
Yellow journalism یعنی زرد صحافت خبریں بیچنے والے میڈیا ہاؤسز کیلئے بہت اہمیت کی حامل ہے۔ اس کا عوام ، حکومت و ریاست کو تو کوئی خاص فائدہ نہیں ہوتا۔ البتہ اس قسم کی صحافت سے میڈیا ہاؤسز کی اپنی کافی کمائی ہو جاتی ہے۔
Chequebook journalism یا لفافہ صحافت یہ سب سے خطرناک قسم کی صحافت ہے جس سے گھبرانا ضروری ہے۔ اس میں صحافی کسی سے پیسے لے کر یا کسی کو پیسے دے کر پلانٹڈ انٹرویوز، خبریں چلاتے ہیں۔ اور یوں حکومت و ریاست کیلئے مسلسل درد سر بن جاتے ہیں۔ مزید یہ کہ اپنی جھوٹی خبروں سے عوام کو گمراہ کرتے ہیں۔
لفافہ صحافت قانونا و اخلاقا جرم ہے جس کا سد باب کرنا ریاست و حکومت کی ذمہ داری ہے۔ اسے کسی صورت آزادی اظہار و صحافت کی بنیاد پر تحفظ فراہم نہیں کیا جا سکتا۔
 

فرقان احمد

محفلین
صحافت عموما تین اقسام کی ہوتی ہے:
Investigative journalism یعنی تفتیشی صحافت میں تو کوئی گھبرانے والی بات نہیں ہے کیونکہ یہ عوامی فلاح کیلئے ہوتی ہے۔ اور حکومت و ریاست میں بیٹھے مقتدر لوگوں کے اسکینڈلز پبلک میں افشاں کرتی ہے۔ اور یوں ریاست و حکومت کو اپنی اصلاح کیلئے مجبور کرتی ہے۔
Yellow journalism یعنی زرد صحافت خبریں بیچنے والے میڈیا ہاؤسز کیلئے بہت اہمیت کی حامل ہے۔ اس کا عوام ، حکومت و ریاست کو تو کوئی خاص فائدہ نہیں ہوتا۔ البتہ اس قسم کی صحافت سے میڈیا ہاؤسز کی اپنی کافی کمائی ہو جاتی ہے۔
Chequebook journalism یا لفافہ صحافت یہ سب سے خطرناک قسم کی صحافت ہے جس سے گھبرانا ضروری ہے۔ اس میں صحافی کسی سے پیسے لے کر یا کسی کو پیسے دے کر پلانٹڈ انٹرویوز، خبریں چلاتے ہیں۔ اور یوں حکومت و ریاست کیلئے مسلسل درد سر بن جاتے ہیں۔ مزید یہ کہ اپنی جھوٹی خبروں سے عوام کو گمراہ کرتے ہیں۔
لفافہ صحافت قانونا و اخلاقا جرم ہے جس کا سد باب کرنا ریاست و حکومت کی ذمہ داری ہے۔ اسے کسی صورت آزادی اظہار و صحافت کی بنیاد پر تحفظ فراہم نہیں کیا جا سکتا۔
اس کا تعین کون کرے گا کہ کس قسم کی صحافت چل رہی ہے۔ یہ جو اسکینڈلز آپ نے گنوائے ہیں جن کو یہ صحافی سامنے لانا چاہتے ہیں، کیا یہ غلط طرز عمل ہے؟ کیا میٹرو پشاور پراجیکٹ کی تحقیقات اور مالم جبہ سکینڈل کی تحقیقات کا مطالبہ غلط تھا؟ کیا حکومتی زعماء اور ان کے اتحادیوں کے خلاف کیسز کھلوائے جانے کا مطالبہ غلط ہے؟
 

محمداحمد

لائبریرین
جنگ، جیو، دی نیوز گروپ نے کل ایک انٹرویو میں اپنی ادارہ جاتی پالیسی واضح کر دی ہے۔ اسے پڑھئے اور سر دھنئے کہ یہ ملک میں کس قسم کی "صحافت" کے علمبردار ہیں:
بلاگ
18 مارچ ، 2020
محمد عرفان صدیقی
چارج شیٹ
216459_5283044_updates.jpg

فوٹو: فائل

اگر آپ کو حکومت سے اتنی شکایات ہیں تو آپ اپنی جماعت کو حکومتی اتحاد سے علیحدہ کر لیں، حکومت خود ہی ختم ہو جائے گی کیونکہ عددی اعتبار سے حکومت اتحادی جماعتوں کے بل بوتے پر ہی قائم ہے۔

میرے اس سادہ سے مشورے پر وہ مسکرائے اور بولے آپ اتنے بھولے نہ بنیں، آپ کو بھی سب معلوم ہے کہ حکومت گرانا اتنا آسان کام نہیں، حکومت میں آتے ہی حکمرانوں کے پاس بہت ساری طاقتیں جمع ہو جاتی ہیں اور جب تک حکمرانوں کو ان کی حمایت حاصل ہوتی ہے حکومت قائم رہتی ہے جس کی اہم مثال سینٹ کے چیئرمین کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد ہے جو اپوزیشن کی واضح اکثریت کے باوجود بری طرح ناکام ہو گئی یعنی ہاتھ اٹھا کر رائے شماری کے عمل میں چیئرمین سینیٹ فارغ ہو چکے تھے لیکن جیسے ہی پرچی کے ذریعے ووٹنگ کا آغاز ہوا چیئرمین سینیٹ باآسانی کامیاب ہو گئے اور اپوزیشن جیتی بازی ہار گئی، لہٰذا ہمیں بھی یہ ڈر ہے کہ ہم حکومت کے اتحاد سے الگ ہوتے ہیں تو حکومت اپوزیشن جماعتوں سے کوئی فارورڈ بلاک تیار کرکے حکومت برقرار رکھنے میں باآسانی کامیاب ہو جائے گی۔

اس کے بعد ہمارے خلاف نہ صرف پرانے مقدمے کھل جائیں گے بلکہ نئے مقدمات بھی قائم ہوں گے، ہمارے پہلے ہی ہزاروں کارکن پابندِ سلاسل ہیں مزید گرفتاریاں شروع کردی جائیں گی، غرض ہم ابھی نام کے اتحادی ہی صحیح لیکن عتاب سے بچے ہوئے ہیں اور نہیں چاہتے ہماری پارٹی مزید کسی مشکل کا شکار ہو، یعنی یہ طے ہے کہ جب تک موجودہ حکومت اقتدار میں ہے آپ اس کے اتحادی ہی رہیں گے؟۔

میرے اس سوال پر مسکراتے ہوئے وہ گویا ہوئے، سیاست میں کوئی بات حتمی نہیں ہوتی، ہم بھی وقت کا انتظار کررہے ہیں، میں نے موضوع تبدیل کرتے ہوئے اپنے سیاستدان دوست سے سوال کیا کہ جنگ جیو گروپ کے ایڈیٹر انچیف میر شکیل الرحمٰن کو جس طرح گرفتار کیا گیا ہے اس سے نیب اور حکومت کی عالمی سطح پر جگ ہنسائی ہوئی ہے۔

کیا حکومت کے پاس جنگ اور جیو کی آواز کو دبانے کا کوئی اور مناسب طریقہ موجود نہیں تھا؟ میرے تبصرے نما سوال پر سیاستدان دوست بولے، آپ کے ایڈیٹر انچیف کے خلاف موجودہ حکومت کے پاس ایک بڑی چارج شیٹ ہے، آپ کہیں تو میں بیان کردیتا ہوں۔

میرے اقرار سے پہلے ہی وہ چارج شیٹ بیان کرنا شروع کر چکے تھے، وہ بتارہے تھے کہ الیکشن کے بعد جیسے ہی نتائج آنا شروع ہوئے تو سندھ میں کئی نشستوں پر ایسے نتیجے آنے لگے جس کی کسی کو توقع نہ تھی پھر کراچی کی ایک پرانی جماعت کی کئی جیتی ہوئی نشستوں پر نتائج کا اعلان موخر کردیا گیا اور کئی دنوں کے بعد ان نشستوں پر حکمراں جماعت کو فاتح قرار دے دیا گیا۔

اس چھوٹے سے ایشو پر آپ کے چینل نے حکومت کے قیام سے قبل ہی واویلا مچانا شروع کردیا جس سے حکمراں جماعت کی جیت کا مزہ ہی خراب ہو گیا، پھر پنجاب میں ایک درجن سے زائد ایسی نشستیں جس پر (ن)لیگ کامیابی کا شور مچا رہی تھی ان پر حکمراں جماعت کو فاتح قرار دے دیا گیا اس پر بھی آپ اپوزیشن کی آواز بنے رہے۔

پھر آپ کا ادارہ وزیراعلیٰ پنجاب کے خلاف مہم چلا کر صوبائی حکومت کو کمزور کرتا رہا، حکومت کے یوٹرن کا مذاق اڑاتا رہا، آپ کا ادارہ چینی اور آٹے کے حوالے سے حکومت پر تنقید کرتا رہا، رانا ثناء اللّٰہ کیا گرفتار ہوئے آپ کے ادارے کی نیندیں حرام ہو گئیں جب تک رانا ثناء اللّٰہ رہا نہیں ہوئے آپ کا ادارہ ان کی بےگناہی کا راگ الاپتا رہا، نواز شریف کو گرفتار کیا گیا تو آپ کے ادارے کو تکلیف رہی پھر ان کی لندن روانی تک حکومت مخالف رویہ اپناتا رہا۔


پشاور میں بی آر ٹی منصوبے پر آپ کا ادارہ واویلا کرتا رہا، پرویز خٹک، اعظم خان اور دیگر رہنماؤں کے نیب کیسز پر آپ کے ادارے کی تکلیف ختم نہیں ہوئی، غرض آپ کے ادارے نے حکومت کو گزشتہ اٹھارہ ماہ میں یکسوئی سے کام ہی کب کرنے دیا ہے لہٰذا کچھ تو حکومت نے کرنا ہی تھا، چاہے وہ اشتہارات روک کر آپ کو دبانے کی کوشش کرے یا آپ کے ایڈیٹر انچیف کو گرفتار کرکے دباؤ میں لائے۔

میرے سیاستداں دوست جب اپنی جانب سے جنگ جیو کے خلاف لگائی جانے والی چارج شیٹ سنا چکے تو میں نے ان سے دریافت کیا یہی تو میڈیا کا کام ہے کہ حکومت کو آئینہ دکھاتا رہے اور اگر آئینے میں اپنا منہ گندا لگے تو حکومت کو اسے صاف کرنا چاہئے، نہ کے آئینہ ہی توڑ دیا جائے۔

یہی ادارہ تھا جس نے کپتان کے لیے اربوں روپے کی ٹیلی تھون ٹرانسمیشن کے ذریعے شوکت خانم اسپتال کے لیے فنڈ جمع کرکے دیا، اسی ادارے کے پروگراموں نے خان صاحب کو عوامی سطح پر مقبول بنانے میں اہم کردار ادا کیا، ماضی میں کپتان اسی ادارے کے گن گایا کرتے تھے۔


ماضی میں کپتان میڈیا کے خلاف جن اقدامات پر سابقہ حکمرانوں پر کڑی تنقید کیا کرتے تھے آج اقتدار میں آکر وہ خود ہی میڈیا خصوصاً اور جنگ جیو کے خلاف وہی اقدامات کررہے ہیں بلکہ سابقہ حکمرانوں سے بھی آگے جاکر جنگ جیو گروپ کے ایڈیٹر انچیف کو ایک بوگس اور بےجان کیس میں گرفتار کر لیا ہے۔

جس سے اندرون ملک ہی نہیں بلکہ بیرون ملک بھی نیب، حکومت اور پاکستان کے وقار کو سخت نقصان پہنچا ہے، وزیراعظم کو چاہئے کہ اپوزیشن اور میڈیا سے لڑنے کے بجائے اپنی توانائی ملک کی ترقی پر صرف کریں تو نہ صرف آپ کی حکومت 5 برس مکمل کر سکے گی بلکہ پاکستان بھی ترقی کرے گا، فیصلہ آپ نے کرنا ہے۔
---
ماضی میں جب عمران خان نے حکومت پر دھاندلی کا الزام لگایا تو جیو اس وقت حکومت کے ساتھ تھا، عمران خان کے دھرنے کی کوریج بھی منفی انداز میں دی اور اسے اسٹیبلشمنٹ کا دھرنا کہا۔ بعد میں پاناما کرپشن کیس کے دوران پوری ڈھٹائی سے حکومتی جماعت کا دفاع کرتا رہا۔ بلکہ ان کے ایک لفافے احمد نورانی نے تو پاناما جے آئی ٹی رپورٹ پبلش ہونے سے قبل ہی ایک جعلی خبر چلا دی کہ اس میں نواز شریف کو بے قصور کہا گیا ہے۔ بعد میں سپریم کورٹ کی سرزنش پر ادارہ کو معافی مانگنا پڑی۔
The News reporter apologises for story suggesting JIT had found PM 'not guilty' - DAWN.COM

جیو، جنگ، دا نیوز کی قومی چوروں، کرپٹ حکمرانوں کی حمایت میں ایک لمبی چارج شیٹ موجود ہے۔ آپ کو اب بھی لگتاہے کہ یہ آزادی صحافت ہے تو 21 توپوں کی سلامی قبول کریں۔

یہ چارچ شیٹ تو تمام کی تما م میر شکیل الرحمٰن کو "فیور" کر رہی ہے۔ اور تمام کی تما م خبروں کی پالیسی پر مبنی ہے۔
 

محمداحمد

لائبریرین
کافی کچھ تو ٹھیک ہی ہے ویسے اور اس حد تک میڈیا سے گھبرانا درست نہیں۔ اگر آپ نے کوئی گڑبڑ نہیں کی ہے تو حکومتی صفوں میں شریک افراد اور اتحادیوں کے خلاف مقدمات قائم ہونے دیجیے۔ نیب کے چیئرمین کو بلیک میل کرنے سے گریز کریں۔ اپنی کارکردگی بہتر بنائیے نہ کہ صحافیوں کو جملہ برائیوں کی جڑ قرار دیں۔ صحافی تو دنیا بھر میں عتاب کا شکار ہی رہتے ہیں۔ دراصل، یہ آپ کی اپنی کمزوری ہے جس کا الزام آپ میڈیا کو ٹھہراتے ہیں۔ یہی وہ میڈیا ہے جو پہروں آپ کی جماعت کو وقت دیتا رہا ہے۔ کیا آپ بھول گئے؟

درست بات!
 

جاسم محمد

محفلین
یہ چارچ شیٹ تو تمام کی تما م میر شکیل الرحمٰن کو "فیور" کر رہی ہے۔ اور تمام کی تما م خبروں کی پالیسی پر مبنی ہے۔
آج عمران خان کو ملک کے طاقتور "ادارے" اقتدار سے فارغ کر دیں تو یہی میر شکیل الرحمٰن کے میڈیا ہاؤسز اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ جا کر کھڑے ہو جائیں گے۔
ان کرپٹ لوگوں کا کوئی دین، ایمان ، اصول نہیں ہے۔ جو کوئی بھی ان کو مالی فیور کرتا ہے یہ اس کے حق میں قصیدے اور گُن گانے لگ جاتے ہیں۔
میر شکیل الرحمان کا سپریم کورٹ کے باہر آن ریکارڈ بیان موجود ہے کہ صحافت جائے بھاڑ میں۔ میں تو بزنس مین ہوں اور اپنا نقصان کبھی نہیں ہونے دوں گا۔
 

محمداحمد

لائبریرین
آج عمران خان کو ملک کے طاقتور "ادارے" اقتدار سے فارغ کر دیں تو یہی میر شکیل الرحمٰن کے میڈیا ہاؤسز اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ جا کر کھڑے ہو جائیں گے۔
ان کرپٹ لوگوں کا کوئی دین، ایمان ، اصول نہیں ہے۔ جو کوئی بھی ان کو مالی فیور کرتا ہے یہ اس کے حق میں قصیدے اور گُن گانے لگ جاتے ہیں۔
میر شکیل الرحمان کا سپریم کورٹ کے باہر آن ریکارڈ بیان موجود ہے کہ صحافت جائے بھاڑ میں۔ میں تو بزنس مین ہوں اور اپنا نقصان کبھی نہیں ہونے دوں گا۔

یہ بات ٹھیک ہے۔

لیکن جو ادارے حکومت کے ساتھ کھڑے ہیں اُن کا حال بھی مختلف نہیں ہے۔
 
Top