نیوزی لینڈ کے شہر کرائسٹ چرچ میں دو مساجد پر حملہ، متعدد افراد ہلاک

جاسم محمد

محفلین
اب کس کو الزام دیں ؟
سفید فام نسل پرستی کسی نہ کسی شکل میں ہمیشہ موجود رہی ہے۔ ۱۸۹۹ میں معروف انگریز ناولسٹ رڈیارڈ کپلنگ نے ایک نظم لکھی جس کا عنوان تھا: The White Man's Burden
اس نظم میں غیر سفید فام اقوام کو تضحیک کا نشانہ بنایا گیا اور گوری سامراج قوتوں کا انتہائی بھونڈے انداز میں دفاع کیا۔ خود امریکہ بہادر کے اندر سیاہ فام اور مقامی ریڈ انڈینز کے ساتھ جو بہیمانہ سلوک کیا گیا۔ تاریخ اس کی گواہ ہے۔
مگر یہ سلسلہ یہاں ختم نہیں ہوتا۔ ۶۰، ۷۰ کی دہائی میں جب مغربی لبرلز کا غلبہ ہوا اور انہوں نے امیگریشن پالیسیاں نرم کرنا شروع کیں تو بڑی تعداد میں دنیا بھر کی اقوام نے مغرب کا رخ کیا۔ شروع شروع میں ان کی تعداد کم تھی اس لیے عوام الناس نے برداشت کر لیا۔ مگر جوں جوں وقت کے ساتھ غیر سفید فام افراد کی تعداد بڑھنے لگی ویسے ویسے نت نئے شدت پسند گروپس جیسے کوکلکس کلین نے جنم لیا۔
انہی سفید فام انتہا پسندوں کا ایک گروپ ناروے میں قائم ہوا جس نے ۲۰۱۱ میں ۷۷ نہتے شہریوں کو شہید کر دیا۔ دہشت گردی سے قبل اس نے ایک طویل تحریر میں بیان کیا کہ وہ یہ سب کیوں کر رہے ہیں۔
آج کے دردناک سانحہ میں ہو بہو وہی الفاظ اور حملے کا طریقہ استعمال کیا گیا ہے جو نارویجن دہشت گرد نے ۲۰۱۱ میں کیا تھا۔
اب آپ پوچھتے ہیں یہ کس کا قصور ہے؟ ظاہر ہے قصور وار انتہا پسند دہشت گرد ہیں۔
 

الف نظامی

لائبریرین
سفید فام نسل پرستی کسی نہ کسی شکل میں ہمیشہ موجود رہی ہے۔ ۱۸۹۹ میں معروف انگریز ناولسٹ رڈیارڈ کپلنگ نے ایک نظم لکھی جس کا عنوان تھا: The White Man's Burden
اس نظم میں غیر سفید فام اقوام کو تضحیک کا نشانہ بنایا گیا اور گوری سامراج قوتوں کا انتہائی بھونڈے انداز میں دفاع کیا۔ خود امریکہ بہادر کے اندر سیاہ فام اور مقامی ریڈ انڈینز کے ساتھ جو بہیمانہ سلوک کیا گیا۔ تاریخ اس کی گواہ ہے۔
مگر یہ سلسلہ یہاں ختم نہیں ہوتا۔ ۶۰، ۷۰ کی دہائی میں جب مغربی لبرلز کا غلبہ ہوا اور انہوں نے امیگریشن پالیسیاں نرم کرنا شروع کیں تو بڑی تعداد میں دنیا بھر کی اقوام نے مغرب کا رخ کیا۔ شروع شروع میں ان کی تعداد کم تھی اس لیے عوام الناس نے برداشت کر لیا۔ مگر جوں جوں وقت کے ساتھ غیر سفید فام افراد کی تعداد بڑھنے لگی ویسے ویسے نت نئے شدت پسند گروپس جیسے کوکلکس کلین نے جنم لیا۔
انہی سفید فام انتہا پسندوں کا ایک گروپ ناروے میں قائم ہوا جس نے ۲۰۱۱ میں ۷۷ نہتے شہریوں کو شہید کر دیا۔ دہشت گردی سے قبل اس نے ایک طویل تحریر میں بیان کیا کہ وہ یہ سب کیوں کر رہے ہیں۔
آج کے دردناک سانحہ میں ہو بہو وہی الفاظ اور حملے کا طریقہ استعمال کیا گیا ہے جو نارویجن دہشت گرد نے ۲۰۱۱ میں کیا تھا۔
اب آپ پوچھتے ہیں یہ کس کا قصور ہے؟ ظاہر ہے قصور وار انتہا پسند دہشت گرد ہیں۔
یہ کو کلکس کلین کا وکی پیڈیا پیج موجود ہے؟
 

جاسم محمد

محفلین

الف نظامی

لائبریرین
ایک بات یہ سمجھ نہیں آئی کہ دہشت گرد "انسان" کو آسٹریلیا سے نیوزی لینڈ آ کر یہ "تماشا" کیوں لگانا پڑا؟
 

الف نظامی

لائبریرین
آسٹریلیا انسانی حقوق کے معاملہ میں کافی کمزور ہے
UN slams Australia’s human rights record
تو پھر ہم ہنٹگٹن کی تہذیبوں کی کلاسی فیکیشن کو دیکھتے ہوئے یہ نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں کہ دہشت گرد "انسان" آسٹریلیا جیسا ماحول نیوزی لینڈ میں پیدا کرنے کا خواہاں تھا ۔
 

جاسم محمد

محفلین
تو پھر ہم ہنٹگٹن کی تہذیبوں کی کلاسی فیکیشن کو دیکھتے ہوئے یہ نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں کہ دہشت گرد "انسان" آسٹریلیا جیسا ماحول نیوزی لینڈ میں پیدا کرنے کا خواہاں تھا ۔
متفق۔ دہشتگردی کا بنیادی مقصد ہی سیاسی اہداف حاصل کرنا ہوتا ہے۔ جب 2011 میں نارویجن دہشت گرد نے حملہ کیا تھا تو اس سے قبل سفید فام انتہا پسندوں کا کہیں اقتدار میں آنے کا سوچا بھی نہیں جا سکتا تھا۔ مگر اس سانحہ کے بعد دیکھتے دیکھتے کئی مغربی ممالک میں دائیں بازو کی انتہا پسند سیاسی جماعتیں وجود میں آگئیں۔ اور امریکہ میں سفید فام انتہا پسند ٹرمپ صدر تک بن گیا۔ یہ سب اس ایک حملے کا نتیجہ ہے۔ اور آج کے سانحہ کے بعد دیکھتے ہیں کہ آگے کیا ہوتا ہے۔
 

الف نظامی

لائبریرین
قاتل جھلے سمجھ رہے ہوں گے کہ پشاور چرچ میں مسلمانوں نے کرسچیئن کمیونٹی کو مارا لیکن انہیں یہ علم نہیں کہ ہمارے آرمی پبلک اسکول میں اور دیگر جگہوں پر ان گنت مارے گئے لوگوں کے قاتل مسلمان نہیں بھارتی کلبھوشن تھے۔
وزیر اعظم عمران خان نے اپنے بیان میں حملے کی شدید مذمت کی ہے اور ان کا کہنا درست ہے کہ میں ایک عرصے سے کہتا آ رہا ہوں کہ کوئی بھی مذہب دہشت گردی کی تعلیم نہیں دیتا اور اسلام تو مذہب ہی سلامتی کا ہے۔ ترک صدر طیب اردگان نے کہا ہے کہ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف ایک عرصے سے جو بیانیہ اپنایا گیا ہے یہ اس کا نتیجہ ہے۔ انہوں نے کہا اسلام فوبیا اس واقعے کا باعث بنا ہے۔


لوگوں کا کہنا ہے کہ دنیا اب بتائے کہ دہشت گردی کا تعلق اسلام سے ہے یا مسیحیت سے۔ لوگ چیخ چیخ کر کہہ رہے ہیں کہ ایک عرصے سے مسلمانوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ پچھلے دنون ایک پوسٹ میں بتایا گیا کہ نائم الیون کے بعد تین امریکی صدور کے دور میں گیارہ ملین لوگ لقمہ ءاجل بنائے گئے لیکن ستم ظریفی دیکھئے کہ انہیں امن کے ایوارڈ بھی دئے گئے گویا انہوں نے کروڑ سے زیادہ دہشت گرد مارے ہوں۔
پوری دنیا میں نائن الیون کے بعد سب سے زیادہ مسلمان افغانستان اور پاکستان میں مارے گئے ہیں عراق شام اور لیبیا عددی تعداد ہو سکتا ہے زیادہ ہو لیکن گنتی میں ٓگے پیچھے یہ سارے ہی مسلمان ممالک ہیں۔

بھارت جس میں دنیا کا پہلا خودکش حملہ ہوا، تامل ٹائیگرز کی ایک خاتون نے راجیو گاندھی کے گلے میں ہار ڈالا اور وہ پھٹ گئی۔امریکی ریاست اوکلو ہاما میں ایک اسلحے سے بھرے ٹرک جس کو ٹموتھی نامی ایک شخص چلا رہا تھا اس نے بھی سینکڑوں لوگوں کو ہلاک کر دیا۔دو قومی نظرئے کو خلیج بنگال میں غرق کرنے والی کو سکھ باڈی گارڈوں نے اپنی مذہبی عبادت گاہ کی توہین کرنے پر موت کے گھاٹ اتار دیا،اور ثابت کیا کہ سکھ ہندو نہیں ہیں اور مذہبی طور پر تقسیم جو ۱۹۴۷ میں ہوئی تھی وہ درست تھی۔ہندو بنیاد پرستی جو بی جے پی کے دور میں سر اٹھا رہی ہے اس سے آزادی کی کئی تحریکیں توانا ہو گئی ہیں۔بھارت میں انتہا پسند ہندو تنظیمیں جنہوں نے امن کے نعرہ زن مہاتما گاندھی کو موت کے گھاٹ اتارا آج اقتتدار پر بیٹھی ہیں۔کسی بھی ملک میں سارے ہی لوگ خراب نہیں ہوتے اور نہ سب کو یہ مرض لاحق ہوتا ہے کہ وہ دوسرے مذہب کے ماننے والوں کو صفحہ ء ہستی سے مٹا ڈالیں۔ بھارت کے سابق چیف جسٹس بھی تو ہندو ہیں، انہوں نے جس انداز سے اپنے لوگوں کو سنبھالنے کی کوشش کی ہے اور جس طرح سے انہوں نے امن کا پیغام دیا ہے وہ قابل ستائش ہے۔

سوال یہ پیدا ہوتا کہ اقوام عالم اس وحشیانہ حملے پر اسی قسم کا رد عمل ظاہر کریں گی جس طرح نائین الیون یا دوسرے واقعات پر کیا گیا۔
مسلمان اس ایک فرضی حادثے کے بعد جس کی تحقیقات ہوئیں اور ثابت ہوا کہ یہ سب فرضی تھا لیکن دو بے کار عمارتوں کو گرا کر جو مقاصد حاصل کئے وہ آپ کے سامنے ہیں شام لیبیا عراق کے خزانوں پر قبضہ اور سعودی عرب سے غنڈہ ٹیکس وصول کرنے کے بعد افغانستان میں دنیا کے مہلک بموں کا استعمال کر کے کون فائدے میں رہا اور کس کو نقصان ہوا۔

پوری دنیا میں مسلمان نشانے پر رکھ لئے گئے اور نفرت اتنی پھیلائی گئی کہ مسلمانوں اور دیگر مذاہب کے لوگوں میں دوریان بڑھ گئیں۔میں ایک بار سری لنکا گیا ہنڈائی کمپنی جو ٹی ٹونٹی کی میزبان تھی میں ان کی طرف سے وہاں گیا تھا رات کو ایک ڈنر میں اسرائیلی جوڑے کو پتہ چلا کہ میں پاکستانی ہوں تو وہ اٹھ کر چلا گیا۔سیئول کوریا میں بھی یہی کچھ ہوا۔یہاں ایک سوال اٹھتا ہے کہ کیا اب دنیا اسلام بمقابل دوسرے ادیان اکٹھی ہو رہی ہے۔اس کی تازہ مثال اسرائیل اور بھارت اتحاد ہے۔میں حیران ہوں کہ ایک ایسا ملک جو پہلے ہی بھارت کی دہشت گردی کا شکار ہو کر دو لخت ہو گیا ہے اسے مزید کیوں نشانے میں رکھا جا رہا ہے۔

آسٹریلیا میں نسل پرستی عروج پر ہے قاتل کا تعلق اسی ملک سے بتایا جاتا ہے۔حکومت پاکستان کو آسٹریلیا اورنیوزی لینڈ میں مقیم پاکستانیوں کو ہدایات جاری کرنی چاہئے کہ وہ محتاظ رہیں۔اس معاملے پر وہاں کے لوگوں سے نہ الجھیں۔اس مسئلے پر فسادات بھی ہو سکتے ہیں۔پچھلے چند برسوں میں ایسے واقعات رونما ہو چکے ہیں۔

کرائسٹ چرچ کے شہیدوں کا لہو خراج مانگتا ہے۔ہمیں امید ہے کہ دنیاوی خدا بنے ہوئے یہ لوگ مسلمانوں کو بھی جینے کا حق دیں۔ ایک بار اسلام آباد پریس کلب میں ایک تقریب تھی جس میں جے سالک میاں اسلم اور دیگر لوگ موجود تھے وہاں پاکستان میں رہنے والی اقلیتوں کے حقوق کی بات چل نکلی تو میں نے جے سالک سے کہا حضور ہم آپ کا خیال رکھتے ہیں بس آپ مہربانی کریں اپنے ہم مذہبوں سے عراق شام لیبیا افغانستان میں رہنے بسنے والے مسلمانوں کی حفاظت کی اپیل کریں۔ لوگ کہتے ہیں انسانیت کے نام پر زندہ رہیں ایک دوسرے کا خیال رکھیں اقوام متحدہ کا چارٹر بھی ہے باتیں بھی کی جاتی ہیں۔ دنیا کے ان بڑوں سے درخواست ہے کہ ہمیں زندہ رہنے دیا جائے
 

جاسم محمد

محفلین
لوگ کہتے ہیں انسانیت کے نام پر زندہ رہیں ایک دوسرے کا خیال رکھیں اقوام متحدہ کا چارٹر بھی ہے باتیں بھی کی جاتی ہیں۔ دنیا کے ان بڑوں سے درخواست ہے کہ ہمیں زندہ رہنے دیا جائے
زبردست۔ انسانیت ہی سب سے بڑا مذہب ہے۔ جیو اور جینے دو۔
 

جاسم محمد

محفلین
نیوزی لینڈ مساجد پر حملہ کرنے والا برینٹن ٹیرنٹ کون ہے؟
ویب ڈیسک جمعہ۔ء 15 مارچ 2019

1592305-newzeland-1552647857-784-640x480.jpg

سفاک شخص نے فائرنگ کی براہ راست ویڈیو فیس بک پر اپ لوڈ کی۔ فوٹو : فیس بک

ویلنگٹن: نیوزی لینڈ کی مساجد پر حملہ کرنے والا 28 سالہ سفید فام آسٹریلوی شہری برینٹن ٹیرنٹ نے ناروے کے قدامت مسیح اور مسلم مخالف شخص اینڈرز برِیوِک سے متاثر ہو کر مساجد پر اندھا دھند فائرنگ کر کے 49 نمازیوں کو شہید کیا۔

بین الاقوامی خبر رساں ادارے کے مطابق نیوزی لینڈ کی دو مساجد میں حملہ کرکے 49 نمازیوں کو شہید کرنے والا سفید فام آسٹریلوی شخص ایک قدامت پسند شخص تھا، جس نے اینڈرز بریوک سے متاثر ہو کر دہشت گردی کی ہولناک واردات سرانجام دی۔

برینٹن ٹیرنٹ نے 74 صفحات پر مشتمل دستاویز میں خود کو ایک عام سفید فام شہری قرار دیتے ہوئے لکھا کہ پناہ گزینوں کے شر پسند عزائم سے اپنے ملک اور شہریوں کو بچانے کے لیے میں نے کھڑے ہونے اور اسلحہ اُٹھانے کا فیصلہ کیا۔ یہ ہماری سرزمین، کلچر اور نوجوانوں کے مستقبل کے تحفظ کا معاملہ ہے۔

برینٹن ٹیرنٹ اپنے فیس بک اکاؤنٹ پر لگاتار یورپ اور دیگر ممالک میں تبدیل ہوتے کلچر اور ان تہذیبوں پر پناہ گزینوں کی آمد سے پیدا ہونے والی تبدیلیوں پر غم و غصے سے بھری پوسٹیں شیئر کیا کرتا تھا اور کچھ ہفتوں سے اس کی پوسٹوں میں پناہ گزینوں بالخصوص مسلمانوں کے خلاف نفرت واضح دیکھی جا سکتی تھی۔

برینٹن ٹیرنٹ نے مزید لکھا کہ وہ اینڈرز بریوک سے متاثر ہیں اور اسی طرز پر کارروائی کرنا چاہتے ہیں۔ وہ سیاست دانوں میں آنجہانی برطانوی فاشسٹ رہنما اُوز لوڈ موزلی کا گرویدہ ہے جب کہ موجودہ سیاست دانوں میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا مداح ہے۔

واضح رہے کہ اینڈرز بریوک دائیں بازو سے تعلق رکھنے والا قدامت پسند مسیحی اور مسلم مخالف جذبات رکھتا تھا جس نے فوجی لباس پہن کر 2011 میں ناروے کے نوجوانوں کے حکومتی تربیتی کیمپ کی سرگرمیوں سے بیزار ہو کر فائرنگ کردی تھی جس کے نتیجے میں 85 افراد جاں بحق ہوگئے تھے۔
 
Top