آج سے تقریباً چھ ماہ قبل ہمارے پڑوس میں ایک خاتون کی جاننے والی آئی ہوئی تھیں، انہوں نے ایک لیکچر کا اہتمام کی ہوا تھا، خواتین گھر بیٹھے کیسے کما سکتی ہیں۔
میری مسز بھی چلی گئیں۔ واپس آئیں تو بہت خوش تھیں کہ بہت زبردست لیکچر تھا اور ساتھ ہی ایک فارم بھی تھا۔ تفصیل پوچھی تو پتہ چلا کہ ان خاتون کی کمپنی کاسمیٹکس کا کاروبار کرتی ہے۔
پانچ سو روپے کی جو نئی ممبر بنتی ہے، اس کو مزید ممبر بنانے کا کہا جاتا ہے کہ آپ کو اس میں سے کمیشن ملے گا، اور ہم آپ کو اپنی پراڈکٹس بھی بھیجیں گے، جو آپ اپنے گھر کے آس پاس ہی مارکیٹ کریں گی، اس کی فروخت پر بھی کمیشن ملے گا۔
میں سمجھ گیا کہ بزناس کے پیٹرن پر کام ہے۔
میں نے مزید کریدا تو بتایا کہ وہ خاتون کہہ رہی تھی کہ میں نے شروع میں ممبر بننے کے بعد اگنور کر دیا تھا، مگر پھر ایک ماہ بعد پہلی پیمنٹ پندرہ ہزار روپے آئی، پھر مزید ایک ماہ بعد بیس ہزار کی پیمنٹ آئی، تو میں نے باقاعدہ کام شروع کر دیا۔
یہاں بات واضح ہو چکی تھی۔ پھر مسز کو سمجھانا شروع کیا۔ ان سے پوچھا کہ انہیں کس کام کے پندرہ ہزار ملے؟ کتنے ممبر بنانے پر یا پراڈکٹس بیچنے پر؟
اور اضافہ کس بنیاد پر ہوا؟
ایک ممبر بنانے پر ایگزیکٹ کتنا کمیشن ہے؟ کیا تمام تفصیلات کلیئر ہیں۔
اگر ان سوالات کے جوابات نہیں ہیں یا مبہم ہیں تو پھر اس سے فوری طور پر دور ہو جاؤ، یہ جائز نہیں۔
اس نے یہ سوالات ان کو فون کر کے ان کے سامنے رکھے تو جواب ملا آپ شروع کریں، خود معلوم ہو جائے گا۔ یعنی جواب وہی تھا جو مجھے معلوم ہو چکا تھا۔
انہوں نے اپنی ویب سائٹ کا ایڈریس دیا، مگر اس قسم کی کوئی تفصیل وہاں بھی موجود نہ تھی۔ جبکہ باقی پوری تفصیل موجود تھی۔
ایک بات جو انہوں نے خواتین کے ذہن میں ڈالی وہ بظاہر بڑی خوشنما مگر دراصل مادیت پرستی کی جانب دھکیلنے والی تھی۔
کہتی ہیں کہ آپ سے کوئی پوچھتا ہے کہ اچھا کیک کہاں سے ملے گا، آپ اسے بتاتی ہیں کہ فلاں بیکری سے۔ اس بیکری کی کمائی میں آپ کی وجہ سے اضافہ ہوتا ہے، مگر آپ کو کیا فائدہ حاصل ہوتا ہے؟
ہم آپ کو یہ فائدہ دیں گے۔
اب اس بات سے لوگ بڑے متاثر ہوتے ہیں اور واہ واہ کرتے ہیں۔
مگر یہ مادیت پرستی ہے۔ اپنے ہر سیکنڈ کو پیسوں میں تولنا۔ پیسے کے لیے سوچنا، پیسے کے لیے بولنا۔
حالانکہ آپ نے جو فائدہ حاصل کر لیا تھا اسی کی بنیاد پر اس بیکری کی تشہیر کی۔ آپ کو اس بیکری سے اچھے ذائقے کا کیک ملا، جس کے جواب میں آپ نے اس کی تشہیر کی۔
اس سے یہ بات بھی معلوم ہوئی کہ کیسے انجانے میں ہماری غلط تربیت ہو سکتی ہے۔ اگر بنیادی دینی تعلیمات نہ ہوں تو انسان با آسانی اس چنگل میں پھنس جاتا ہے۔