عبدالقیوم چوہدری
محفلین
زمانہء طالب علمی یعنی کالج دور کی بات ہے کہ ہمارے من میں کالج کا میگزین پبلش کرنے کا سودا سما گیا، کالج انتظامیہ سے بات کی، چونکہ کالج کی تاریخ میں اسے سے پہلے کبھی ایسی کوئی حرکت نہ ہوئی تھی لہٰذا انتظامیہ نے جھجھکتے جھجھکتے مشروط اجازت دے دی۔ شرط نہایت آسان تھی، یعنی کہ جو کرنا ہے خود کرو ہم سے کوئی توقع نہ رکھنا۔ سادہ لفظوں میں کالج انتظامیہ نے ایک ٹکا بھی لگانے سے صاف انکار کر دیا۔ بات چونکہ کالج کے باقی سینئیر و جونئیر سمسٹرز کے طالب علموں تک پھیل چکی تھی لہٰذا اب یہ ہمارے لئیے انا کا مسئلہ بن چکا تھا۔ فوراً تنظیم سازی کی، بنیادی ڈھانچہ تیار کیا، انگلش اور اردو سیکشنز کے لیے طلباو و طالبات کے الگ الگ انٹرویوز کر کے ایڈیٹوریل بورڈ تشکیل دیا اور خود بورڈ کی متفقہ رائے سے چیف ایڈیٹر منتخب ہو گئے۔ چند میٹنگز کے بعد مجوزہ میگزین کے سٹرکچر پر اتفاقِ رائے ہو گیا تو لاگت نکالنے کا مرحلہ آ گیا۔ اردو بازار مارکیٹ سے پرنٹنگ کی لاگت کا معلوم کیا گیا تو پتہ چلا کہ جس معیار اور تعداد کا میگزین ہم چھاپنا چاہتے ہیں اسکی لاگت کسی صورت دس ہزار روپے سے کم نہیں ہو سکتی۔ اس زمانے میں دس ہزار روہے بڑی رقم تھی خاص طور پر ہم جیسے مڈل کلاسئیے کے لیے تو کوہِ گراں تھا کہ اس کام کے لیے گھر سے پیسے ملنے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ نتیجتاً ہمارے ہی تیار کردہ ایٹوریل بورڈ نے یہ بھاری ذمہ داری ہمارے نازک کندھوں پر یہ کہہ کر ڈال دی کہ ’تمھیں ہی شوق چڑھا ہوا تھا پیسے بھی تم ہی اکٹھے کرو۔‘
اس دور میں موبائل فون تو عام نہیں تھے لہٰذا پبلک کال آفس جسے عرفِ عام میں پی سی او کہا جاتا وہاں سے ہم انکوائری سروس کے ذریعے مختلف صنعتی و تجارتی اداروں کے نمبر معلوم کر متعلقہ افراد سے رابطہ کرتے اور اگلے دن سخت گرمی میں ویگنوں میں ککڑ بن کر عزت افزائی کرواتے ہوئے ان اداروں کے متعلقہ افراد سے بالمشافہ ملاقات کر کے اور ان کو اگلے شمارے میں انٹرویوز چھاپنے کا لالچ دے کر اشتہارات اکٹھے کرتے۔ یوں گھر سے جتنا خرچ ملا ہوتا وہ ان کارروائیوں پر خرچ ہو جاتا اور ہم ملکی معیشت کی طرح دوستوں کے ادھار پر گزارہ کرنے پر مجبور ہو جاتے۔ یہ ہمارے اندر کے صحافی کے شوق، محنت، لگن اور جدوجہد کا منہ بولتا ثبوت تھا۔
بہرحال سخت گرمی میں تین ماہ کی لگاتار محنت و بھاگ دوڑ کے بعد ہم سہراب، یونس فین، پاک فین، سروس شوز، پِیک فرینز اور ڈی ایچ اے کے چند پراپرٹی ڈیلروں سے چھوٹے چھوٹے اشتہارات جمع کر کے دس ہزار روپئے جمع کرنے میں کامیاب ہو گئے تو کسی کو یقین نہ آیا۔ بہرحال میگزین کے لئیے اعلٰی مضامین منتخب کر کے کمپوزنگ اور پبلشنگ کیلئیے اردو بازار ایک پبلشر کو میرٹ پر منتخب کر کے مواد اسے دے دیا گیا۔ بالآخر وہ دن بھی آ گیا جب میگزین کی اڑھائی سو کاپیاں تیار ہو کر ہمارے سامنے پڑی تھیں۔ فخر سے پہلی کاپی اٹھا کر دیکھی تو اندازہ ہوا کہ میگزین میں چھپی ہوئی رنگین تصاویر کے نیلے پیلے ہرے اور لال رنگ ایک دوسرے کے اوپر اوور لیپ ہی نہیں ہوئے، مضامین کے صفحات کی ترتیب درست نہیں اور پرنٹنگ کی کوالٹی نہایت نکمی ہے۔ اڑھائی سو کاپیوں میں سے بہ مشکل ڈیڑھ سو کاپیاں قابلِ فروخت تھیں۔
ہمارا غصہ آسمان کو چھونے لگا، مایوسی اور دھوکہ دہی کے احساس نے اعصاب پر برا اثر ڈالا تھا۔ فوراً اردو بازار کے پبلشر کے دفتر پہنچے، کاپی اٹھا کر اسکے میز پر پٹخی اور بہ مشکل اتنا کہہ پائے کہ ’یہ کیا ہے؟‘
پبلشر نے نہایت سکون سے کاپی کھولی پرنٹنگ کی کوالٹی دیکھی اور نہایت اطمینان سے بولا ’ اوہ یہ۔ ۔ بے فکر ہو جائیں۔۔ اگلی دفعہ بالکل ٹھیک چھپے گا۔‘
ہم تعلیم سے فارغ ہوئے، جلد ہی اپنے فیلڈ کی نوکری مل گئی، کچھ مالی استحکام آیا تو گھر والوں نے شادی کا عندیہ دے دیا۔ شادی کے دن کے لیے بہن بھائیوں کے اصرار پر شہر کا ایک اچھا فوٹو گرافر ہائیر کر لیا۔ ولیمے کی تقریب سے فارغ ہونے کے بعد ہم خوشی خوشی فوٹو گرافر کے پاس تصویریں وصول کرنے گئے، فوٹوگرافر نے البم ہمیں تھمانے سے پہلے ایک بھاری بل تھما دیا۔ بل ادا کرنے کے بعد تصویریں دیکھیں تو شاید ہی کوئی تصویر ڈھنگ سے بنائی گئی ہو۔ کسی میں لائٹ اوور ایکسپوز ہو گئی کسی میں سر کٹا ہوا ہے تو کوئی آؤٹ آف فوکس ہے۔ جب ہم نے تصویریں سامنے رکھ کر کہا کہ ’یہ کیا ہے؟‘ تو جواب ملا ’ وہ دراصل آپکے بھتیجے کو کوریج کے لیے بھیجا تھا اسکا ہاتھ ذرا کچا ہے۔۔۔ آپ فکر نہ کریں۔۔ اگلی دفعہ بالکل ٹھیک تصویریں ہونگی۔‘
یہاں اس تحریر کا مقصد ذاتی مایوسیاں اور تحیرات و تجربات بیان کرنا نہیں بلکہ یہ عرض کرنا ہے کہ ہم بحیثیتِ قوم پیشہ ورانہ طور پر کسی بھی کام یا پیشہ ورانہ خدمات کے غیر معیاری ہونے کی صورت میں خود کو ہر قسم کے احتساب اور جواب دہی سے مبرا سمجھتے ہیں، اوپر سے ہمارے بھول پن کی انتہا یہ ہوتی ہے کہ ایک موقع مکمل طور پر ضائع اور موکل کا وقت و پیسہ برباد کرنے کے بعد ہم سمجھتے ہیں کہ نہ صرف ہم لاتعداد مواقع ملنے کے حقدار بھی ہیں بلکہ موکل پر ہماری تمام کوتاہیاں اور زیاں کو نظرانداز کرنا بھی واجب ہے۔ آپ اپنے اردگرد نظر دوڑائیے، جہاں کہیں پیشہ ورانہ خدمات مہیا کرنے کا معاملہ آتا ہے کیا آپکو روزمرہ میں اس قسم جملے سننے کو نہیں ملتے؟
درزی بھائی تم نے سوٹ کیوں خراب کر دیا؟
وہ جی اگلی دفعہ بالکل ٹھیک سلے گا۔
۔
دودھ والے بھائی، کل دودھ بہت پتلا تھا!!
کوئی بات نہیں، جی اگلی دفعہ بالکل ٹھیک ملےگا۔
۔
کار مکینک بھائی تم نے کار کے بریکس درست نہیں بدلے!
وہ جی چھوٹے نے کام کیا تھا، اگلی بار شکایت نہیں ہوگی۔
ہمارا یہ مزاج ایک قومی مسئلہ بن چکا ہے، ہم اس ملک میں چار مارشل لاء بھگت چکے ہیں، ہر مارشل لاء مسائل کے حل کے لیے لگایا گیا مگر مسائل کا انبار کھڑا کر کے اٹھایا گیا۔ ہر بار مارشل لاء میں مختلف طبقات امید لگاتے ہیں کہ اگلی بار جمہوریت بہتر کام کرے گی جبکہ جمہوریت میں کچھ طبقوں کی آس ہوتی ہے کہ اگلی دفعہ مارشل لاء بہتر طریقے سے لگوائیں گے۔ عالمی ادارے ہمارے اربابِ اختیار کو چیخ چیخ کر متنبہ کرتے رہتے ہیں اور ہم انکا ٹھٹھہ اڑاتے رہتے ہیں جب ہم پر پابندیاں لگنے کا خطرہ پیدا ہوتا ہے تو ہم ہڑبڑا کر جاگتے ہیں اور جا کر کہتے ہیں ایک موقع اور دیں اگلی دفعہ ایسا نہیں ہوگا۔
مغرب میں اگلی دفعہ کا بہت کم اور مخصوص حالات میں ہی چانس دینے کا رواج ہے، ہر انسان اپنے عمل کا ہر وقت جواب دہ اور قابلِ احتساب ہے۔ بڑے سے بڑا افسر، وزیر، جنرل، جج، ڈاکٹر یا سیاستدان اپنے ایک جملے پر قابلِ احتساب ٹھہرتا ہے اور اسے دوسرا موقع نہیں دیا جاتا۔دوسری طرف ایک جہاں ایک برا عمل قابلِ گردن زدنی قرار دلواتا ہے تو کسی کا کیا ہوا ایک اچھا عمل اسے پورے معاشرے میں ہیرو بھی بنا دیتا ہے۔ مغرب کے معاشرتی فیبرک میں سزا و جزا کا یہ تانا بانا ایک متوازن، محفوظ، مثبت اور تعمیری معاشرہ پیدا کرتا ہے۔ جہاں پھلنے پھولنے والی نسلیں ہر قسم کی زیادتی و ناانصافی سے بےفکر ہو کر تعمیری سوچ لے کر پھلتی پھولتی ہیں۔
جاتے جاتے ایک اور واقعہ سن لی جیے، چند مہینے پہلے یہاں ایک عزیز کے دفتر جانا ہوا جو کراچی سے سامان منگوا کر کینیڈا کے دیسی سٹورز میں مال سپلائی کرتے ہیں۔ موصوف چند ہفتے پہلے کراچی میں کسی بڑے ڈسٹری بیوٹر کو پچیس لاکھ کا آرڈر دے کر آئے تھے۔ جس دن میں انکو ملنے گیا اسی دن انکے سامان کا کنٹینر ٹورنٹو پہنچا تھا۔ کنٹینر میرے سامنے کھولا گیا، شروع کے چار چھ کارٹن کھولے گئے تو پتہ چلا کہ کراچی والے ڈسٹری بیوٹر نے آرڈر کیا گیا نیا سامان بھیجنے کی بجائے اپنے گودام میں پڑا ہوا برسوں پرانا سامان جو تقریباً کچرا ہو چکا تھا، اٹھا کر کنٹینر میں پیک کر کے بھیج دیا۔ میرے جاننے والے یہ صاحب سر پکڑ کر بیٹھ گئے۔ کراچی والے ڈسٹری بیوٹر صاحب کو فون کیا اور پوچھا کہ پٹیل بھائی یہ کیا بھیج دیا ہے؟ جواب ملا، محمود بھائی فکر نہ کرو۔۔اگلی دفعہ بالکل ٹھیک سامان آئے گا۔
شاید ہم پہلی دفعہ میں درست طریقہ سے پیشہ ورانہ خدمات مہیا کرنے کی صلاحیت سے عاری ہوتے جا رہے ہیں، ہماری شعوری کوشش ہوتی ہے کہ جو گاہک یا مؤکل پھنس گیا ہے اسے پہلی بار میں ہی جتنا ٹیکہ لگ سکتا ہے لگا لیا جائے، سونے کے انڈے دینے والی مرغی کو پہلا انڈا حاصل کرنے سے بھی پہلے ذبح کرنے کے شوق نے ہمیں اقوامِ عالم میں پروفیشنلزم کی دوڑ میں بہت پیچھے دھکیل دیا ہے۔
ہم ایک ‘اگلی دفعہ سینڈروم’ یا ‘نیکسٹ ٹائم سینڈروم’ کا شکار قوم ہیں۔
ربط
اس دور میں موبائل فون تو عام نہیں تھے لہٰذا پبلک کال آفس جسے عرفِ عام میں پی سی او کہا جاتا وہاں سے ہم انکوائری سروس کے ذریعے مختلف صنعتی و تجارتی اداروں کے نمبر معلوم کر متعلقہ افراد سے رابطہ کرتے اور اگلے دن سخت گرمی میں ویگنوں میں ککڑ بن کر عزت افزائی کرواتے ہوئے ان اداروں کے متعلقہ افراد سے بالمشافہ ملاقات کر کے اور ان کو اگلے شمارے میں انٹرویوز چھاپنے کا لالچ دے کر اشتہارات اکٹھے کرتے۔ یوں گھر سے جتنا خرچ ملا ہوتا وہ ان کارروائیوں پر خرچ ہو جاتا اور ہم ملکی معیشت کی طرح دوستوں کے ادھار پر گزارہ کرنے پر مجبور ہو جاتے۔ یہ ہمارے اندر کے صحافی کے شوق، محنت، لگن اور جدوجہد کا منہ بولتا ثبوت تھا۔
بہرحال سخت گرمی میں تین ماہ کی لگاتار محنت و بھاگ دوڑ کے بعد ہم سہراب، یونس فین، پاک فین، سروس شوز، پِیک فرینز اور ڈی ایچ اے کے چند پراپرٹی ڈیلروں سے چھوٹے چھوٹے اشتہارات جمع کر کے دس ہزار روپئے جمع کرنے میں کامیاب ہو گئے تو کسی کو یقین نہ آیا۔ بہرحال میگزین کے لئیے اعلٰی مضامین منتخب کر کے کمپوزنگ اور پبلشنگ کیلئیے اردو بازار ایک پبلشر کو میرٹ پر منتخب کر کے مواد اسے دے دیا گیا۔ بالآخر وہ دن بھی آ گیا جب میگزین کی اڑھائی سو کاپیاں تیار ہو کر ہمارے سامنے پڑی تھیں۔ فخر سے پہلی کاپی اٹھا کر دیکھی تو اندازہ ہوا کہ میگزین میں چھپی ہوئی رنگین تصاویر کے نیلے پیلے ہرے اور لال رنگ ایک دوسرے کے اوپر اوور لیپ ہی نہیں ہوئے، مضامین کے صفحات کی ترتیب درست نہیں اور پرنٹنگ کی کوالٹی نہایت نکمی ہے۔ اڑھائی سو کاپیوں میں سے بہ مشکل ڈیڑھ سو کاپیاں قابلِ فروخت تھیں۔
ہمارا غصہ آسمان کو چھونے لگا، مایوسی اور دھوکہ دہی کے احساس نے اعصاب پر برا اثر ڈالا تھا۔ فوراً اردو بازار کے پبلشر کے دفتر پہنچے، کاپی اٹھا کر اسکے میز پر پٹخی اور بہ مشکل اتنا کہہ پائے کہ ’یہ کیا ہے؟‘
پبلشر نے نہایت سکون سے کاپی کھولی پرنٹنگ کی کوالٹی دیکھی اور نہایت اطمینان سے بولا ’ اوہ یہ۔ ۔ بے فکر ہو جائیں۔۔ اگلی دفعہ بالکل ٹھیک چھپے گا۔‘
ہم تعلیم سے فارغ ہوئے، جلد ہی اپنے فیلڈ کی نوکری مل گئی، کچھ مالی استحکام آیا تو گھر والوں نے شادی کا عندیہ دے دیا۔ شادی کے دن کے لیے بہن بھائیوں کے اصرار پر شہر کا ایک اچھا فوٹو گرافر ہائیر کر لیا۔ ولیمے کی تقریب سے فارغ ہونے کے بعد ہم خوشی خوشی فوٹو گرافر کے پاس تصویریں وصول کرنے گئے، فوٹوگرافر نے البم ہمیں تھمانے سے پہلے ایک بھاری بل تھما دیا۔ بل ادا کرنے کے بعد تصویریں دیکھیں تو شاید ہی کوئی تصویر ڈھنگ سے بنائی گئی ہو۔ کسی میں لائٹ اوور ایکسپوز ہو گئی کسی میں سر کٹا ہوا ہے تو کوئی آؤٹ آف فوکس ہے۔ جب ہم نے تصویریں سامنے رکھ کر کہا کہ ’یہ کیا ہے؟‘ تو جواب ملا ’ وہ دراصل آپکے بھتیجے کو کوریج کے لیے بھیجا تھا اسکا ہاتھ ذرا کچا ہے۔۔۔ آپ فکر نہ کریں۔۔ اگلی دفعہ بالکل ٹھیک تصویریں ہونگی۔‘
یہاں اس تحریر کا مقصد ذاتی مایوسیاں اور تحیرات و تجربات بیان کرنا نہیں بلکہ یہ عرض کرنا ہے کہ ہم بحیثیتِ قوم پیشہ ورانہ طور پر کسی بھی کام یا پیشہ ورانہ خدمات کے غیر معیاری ہونے کی صورت میں خود کو ہر قسم کے احتساب اور جواب دہی سے مبرا سمجھتے ہیں، اوپر سے ہمارے بھول پن کی انتہا یہ ہوتی ہے کہ ایک موقع مکمل طور پر ضائع اور موکل کا وقت و پیسہ برباد کرنے کے بعد ہم سمجھتے ہیں کہ نہ صرف ہم لاتعداد مواقع ملنے کے حقدار بھی ہیں بلکہ موکل پر ہماری تمام کوتاہیاں اور زیاں کو نظرانداز کرنا بھی واجب ہے۔ آپ اپنے اردگرد نظر دوڑائیے، جہاں کہیں پیشہ ورانہ خدمات مہیا کرنے کا معاملہ آتا ہے کیا آپکو روزمرہ میں اس قسم جملے سننے کو نہیں ملتے؟
درزی بھائی تم نے سوٹ کیوں خراب کر دیا؟
وہ جی اگلی دفعہ بالکل ٹھیک سلے گا۔
۔
دودھ والے بھائی، کل دودھ بہت پتلا تھا!!
کوئی بات نہیں، جی اگلی دفعہ بالکل ٹھیک ملےگا۔
۔
کار مکینک بھائی تم نے کار کے بریکس درست نہیں بدلے!
وہ جی چھوٹے نے کام کیا تھا، اگلی بار شکایت نہیں ہوگی۔
ہمارا یہ مزاج ایک قومی مسئلہ بن چکا ہے، ہم اس ملک میں چار مارشل لاء بھگت چکے ہیں، ہر مارشل لاء مسائل کے حل کے لیے لگایا گیا مگر مسائل کا انبار کھڑا کر کے اٹھایا گیا۔ ہر بار مارشل لاء میں مختلف طبقات امید لگاتے ہیں کہ اگلی بار جمہوریت بہتر کام کرے گی جبکہ جمہوریت میں کچھ طبقوں کی آس ہوتی ہے کہ اگلی دفعہ مارشل لاء بہتر طریقے سے لگوائیں گے۔ عالمی ادارے ہمارے اربابِ اختیار کو چیخ چیخ کر متنبہ کرتے رہتے ہیں اور ہم انکا ٹھٹھہ اڑاتے رہتے ہیں جب ہم پر پابندیاں لگنے کا خطرہ پیدا ہوتا ہے تو ہم ہڑبڑا کر جاگتے ہیں اور جا کر کہتے ہیں ایک موقع اور دیں اگلی دفعہ ایسا نہیں ہوگا۔
مغرب میں اگلی دفعہ کا بہت کم اور مخصوص حالات میں ہی چانس دینے کا رواج ہے، ہر انسان اپنے عمل کا ہر وقت جواب دہ اور قابلِ احتساب ہے۔ بڑے سے بڑا افسر، وزیر، جنرل، جج، ڈاکٹر یا سیاستدان اپنے ایک جملے پر قابلِ احتساب ٹھہرتا ہے اور اسے دوسرا موقع نہیں دیا جاتا۔دوسری طرف ایک جہاں ایک برا عمل قابلِ گردن زدنی قرار دلواتا ہے تو کسی کا کیا ہوا ایک اچھا عمل اسے پورے معاشرے میں ہیرو بھی بنا دیتا ہے۔ مغرب کے معاشرتی فیبرک میں سزا و جزا کا یہ تانا بانا ایک متوازن، محفوظ، مثبت اور تعمیری معاشرہ پیدا کرتا ہے۔ جہاں پھلنے پھولنے والی نسلیں ہر قسم کی زیادتی و ناانصافی سے بےفکر ہو کر تعمیری سوچ لے کر پھلتی پھولتی ہیں۔
جاتے جاتے ایک اور واقعہ سن لی جیے، چند مہینے پہلے یہاں ایک عزیز کے دفتر جانا ہوا جو کراچی سے سامان منگوا کر کینیڈا کے دیسی سٹورز میں مال سپلائی کرتے ہیں۔ موصوف چند ہفتے پہلے کراچی میں کسی بڑے ڈسٹری بیوٹر کو پچیس لاکھ کا آرڈر دے کر آئے تھے۔ جس دن میں انکو ملنے گیا اسی دن انکے سامان کا کنٹینر ٹورنٹو پہنچا تھا۔ کنٹینر میرے سامنے کھولا گیا، شروع کے چار چھ کارٹن کھولے گئے تو پتہ چلا کہ کراچی والے ڈسٹری بیوٹر نے آرڈر کیا گیا نیا سامان بھیجنے کی بجائے اپنے گودام میں پڑا ہوا برسوں پرانا سامان جو تقریباً کچرا ہو چکا تھا، اٹھا کر کنٹینر میں پیک کر کے بھیج دیا۔ میرے جاننے والے یہ صاحب سر پکڑ کر بیٹھ گئے۔ کراچی والے ڈسٹری بیوٹر صاحب کو فون کیا اور پوچھا کہ پٹیل بھائی یہ کیا بھیج دیا ہے؟ جواب ملا، محمود بھائی فکر نہ کرو۔۔اگلی دفعہ بالکل ٹھیک سامان آئے گا۔
شاید ہم پہلی دفعہ میں درست طریقہ سے پیشہ ورانہ خدمات مہیا کرنے کی صلاحیت سے عاری ہوتے جا رہے ہیں، ہماری شعوری کوشش ہوتی ہے کہ جو گاہک یا مؤکل پھنس گیا ہے اسے پہلی بار میں ہی جتنا ٹیکہ لگ سکتا ہے لگا لیا جائے، سونے کے انڈے دینے والی مرغی کو پہلا انڈا حاصل کرنے سے بھی پہلے ذبح کرنے کے شوق نے ہمیں اقوامِ عالم میں پروفیشنلزم کی دوڑ میں بہت پیچھے دھکیل دیا ہے۔
ہم ایک ‘اگلی دفعہ سینڈروم’ یا ‘نیکسٹ ٹائم سینڈروم’ کا شکار قوم ہیں۔
ربط