نیکسٹ ٹائم سینڈروم

زمانہء طالب علمی یعنی کالج دور کی بات ہے کہ ہمارے من میں کالج کا میگزین پبلش کرنے کا سودا سما گیا، کالج انتظامیہ سے بات کی، چونکہ کالج کی تاریخ میں اسے سے پہلے کبھی ایسی کوئی حرکت نہ ہوئی تھی لہٰذا انتظامیہ نے جھجھکتے جھجھکتے مشروط اجازت دے دی۔ شرط نہایت آسان تھی، یعنی کہ جو کرنا ہے خود کرو ہم سے کوئی توقع نہ رکھنا۔ سادہ لفظوں میں کالج انتظامیہ نے ایک ٹکا بھی لگانے سے صاف انکار کر دیا۔ بات چونکہ کالج کے باقی سینئیر و جونئیر سمسٹرز کے طالب علموں تک پھیل چکی تھی لہٰذا اب یہ ہمارے لئیے انا کا مسئلہ بن چکا تھا۔ فوراً تنظیم سازی کی، بنیادی ڈھانچہ تیار کیا، انگلش اور اردو سیکشنز کے لیے طلباو و طالبات کے الگ الگ انٹرویوز کر کے ایڈیٹوریل بورڈ تشکیل دیا اور خود بورڈ کی متفقہ رائے سے چیف ایڈیٹر منتخب ہو گئے۔ چند میٹنگز کے بعد مجوزہ میگزین کے سٹرکچر پر اتفاقِ رائے ہو گیا تو لاگت نکالنے کا مرحلہ آ گیا۔ اردو بازار مارکیٹ سے پرنٹنگ کی لاگت کا معلوم کیا گیا تو پتہ چلا کہ جس معیار اور تعداد کا میگزین ہم چھاپنا چاہتے ہیں اسکی لاگت کسی صورت دس ہزار روپے سے کم نہیں ہو سکتی۔ اس زمانے میں دس ہزار روہے بڑی رقم تھی خاص طور پر ہم جیسے مڈل کلاسئیے کے لیے تو کوہِ گراں تھا کہ اس کام کے لیے گھر سے پیسے ملنے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ نتیجتاً ہمارے ہی تیار کردہ ایٹوریل بورڈ نے یہ بھاری ذمہ داری ہمارے نازک کندھوں پر یہ کہہ کر ڈال دی کہ ’تمھیں ہی شوق چڑھا ہوا تھا پیسے بھی تم ہی اکٹھے کرو۔‘

اس دور میں موبائل فون تو عام نہیں تھے لہٰذا پبلک کال آفس جسے عرفِ عام میں پی سی او کہا جاتا وہاں سے ہم انکوائری سروس کے ذریعے مختلف صنعتی و تجارتی اداروں کے نمبر معلوم کر متعلقہ افراد سے رابطہ کرتے اور اگلے دن سخت گرمی میں ویگنوں میں ککڑ بن کر عزت افزائی کرواتے ہوئے ان اداروں کے متعلقہ افراد سے بالمشافہ ملاقات کر کے اور ان کو اگلے شمارے میں انٹرویوز چھاپنے کا لالچ دے کر اشتہارات اکٹھے کرتے۔ یوں گھر سے جتنا خرچ ملا ہوتا وہ ان کارروائیوں پر خرچ ہو جاتا اور ہم ملکی معیشت کی طرح دوستوں کے ادھار پر گزارہ کرنے پر مجبور ہو جاتے۔ یہ ہمارے اندر کے صحافی کے شوق، محنت، لگن اور جدوجہد کا منہ بولتا ثبوت تھا۔

بہرحال سخت گرمی میں تین ماہ کی لگاتار محنت و بھاگ دوڑ کے بعد ہم سہراب، یونس فین، پاک فین، سروس شوز، پِیک فرینز اور ڈی ایچ اے کے چند پراپرٹی ڈیلروں سے چھوٹے چھوٹے اشتہارات جمع کر کے دس ہزار روپئے جمع کرنے میں کامیاب ہو گئے تو کسی کو یقین نہ آیا۔ بہرحال میگزین کے لئیے اعلٰی مضامین منتخب کر کے کمپوزنگ اور پبلشنگ کیلئیے اردو بازار ایک پبلشر کو میرٹ پر منتخب کر کے مواد اسے دے دیا گیا۔ بالآخر وہ دن بھی آ گیا جب میگزین کی اڑھائی سو کاپیاں تیار ہو کر ہمارے سامنے پڑی تھیں۔ فخر سے پہلی کاپی اٹھا کر دیکھی تو اندازہ ہوا کہ میگزین میں چھپی ہوئی رنگین تصاویر کے نیلے پیلے ہرے اور لال رنگ ایک دوسرے کے اوپر اوور لیپ ہی نہیں ہوئے، مضامین کے صفحات کی ترتیب درست نہیں اور پرنٹنگ کی کوالٹی نہایت نکمی ہے۔ اڑھائی سو کاپیوں میں سے بہ مشکل ڈیڑھ سو کاپیاں قابلِ فروخت تھیں۔

ہمارا غصہ آسمان کو چھونے لگا، مایوسی اور دھوکہ دہی کے احساس نے اعصاب پر برا اثر ڈالا تھا۔ فوراً اردو بازار کے پبلشر کے دفتر پہنچے، کاپی اٹھا کر اسکے میز پر پٹخی اور بہ مشکل اتنا کہہ پائے کہ ’یہ کیا ہے؟‘

پبلشر نے نہایت سکون سے کاپی کھولی پرنٹنگ کی کوالٹی دیکھی اور نہایت اطمینان سے بولا ’ اوہ یہ۔ ۔ بے فکر ہو جائیں۔۔ اگلی دفعہ بالکل ٹھیک چھپے گا۔‘

ہم تعلیم سے فارغ ہوئے، جلد ہی اپنے فیلڈ کی نوکری مل گئی، کچھ مالی استحکام آیا تو گھر والوں نے شادی کا عندیہ دے دیا۔ شادی کے دن کے لیے بہن بھائیوں کے اصرار پر شہر کا ایک اچھا فوٹو گرافر ہائیر کر لیا۔ ولیمے کی تقریب سے فارغ ہونے کے بعد ہم خوشی خوشی فوٹو گرافر کے پاس تصویریں وصول کرنے گئے، فوٹوگرافر نے البم ہمیں تھمانے سے پہلے ایک بھاری بل تھما دیا۔ بل ادا کرنے کے بعد تصویریں دیکھیں تو شاید ہی کوئی تصویر ڈھنگ سے بنائی گئی ہو۔ کسی میں لائٹ اوور ایکسپوز ہو گئی کسی میں سر کٹا ہوا ہے تو کوئی آؤٹ آف فوکس ہے۔ جب ہم نے تصویریں سامنے رکھ کر کہا کہ ’یہ کیا ہے؟‘ تو جواب ملا ’ وہ دراصل آپکے بھتیجے کو کوریج کے لیے بھیجا تھا اسکا ہاتھ ذرا کچا ہے۔۔۔ آپ فکر نہ کریں۔۔ اگلی دفعہ بالکل ٹھیک تصویریں ہونگی۔‘

یہاں اس تحریر کا مقصد ذاتی مایوسیاں اور تحیرات و تجربات بیان کرنا نہیں بلکہ یہ عرض کرنا ہے کہ ہم بحیثیتِ قوم پیشہ ورانہ طور پر کسی بھی کام یا پیشہ ورانہ خدمات کے غیر معیاری ہونے کی صورت میں خود کو ہر قسم کے احتساب اور جواب دہی سے مبرا سمجھتے ہیں، اوپر سے ہمارے بھول پن کی انتہا یہ ہوتی ہے کہ ایک موقع مکمل طور پر ضائع اور موکل کا وقت و پیسہ برباد کرنے کے بعد ہم سمجھتے ہیں کہ نہ صرف ہم لاتعداد مواقع ملنے کے حقدار بھی ہیں بلکہ موکل پر ہماری تمام کوتاہیاں اور زیاں کو نظرانداز کرنا بھی واجب ہے۔ آپ اپنے اردگرد نظر دوڑائیے، جہاں کہیں پیشہ ورانہ خدمات مہیا کرنے کا معاملہ آتا ہے کیا آپکو روزمرہ میں اس قسم جملے سننے کو نہیں ملتے؟

درزی بھائی تم نے سوٹ کیوں خراب کر دیا؟
وہ جی اگلی دفعہ بالکل ٹھیک سلے گا۔

۔

دودھ والے بھائی، کل دودھ بہت پتلا تھا!!
کوئی بات نہیں، جی اگلی دفعہ بالکل ٹھیک ملےگا۔

۔

کار مکینک بھائی تم نے کار کے بریکس درست نہیں بدلے!
وہ جی چھوٹے نے کام کیا تھا، اگلی بار شکایت نہیں ہوگی۔

ہمارا یہ مزاج ایک قومی مسئلہ بن چکا ہے، ہم اس ملک میں چار مارشل لاء بھگت چکے ہیں، ہر مارشل لاء مسائل کے حل کے لیے لگایا گیا مگر مسائل کا انبار کھڑا کر کے اٹھایا گیا۔ ہر بار مارشل لاء میں مختلف طبقات امید لگاتے ہیں کہ اگلی بار جمہوریت بہتر کام کرے گی جبکہ جمہوریت میں کچھ طبقوں کی آس ہوتی ہے کہ اگلی دفعہ مارشل لاء بہتر طریقے سے لگوائیں گے۔ عالمی ادارے ہمارے اربابِ اختیار کو چیخ چیخ کر متنبہ کرتے رہتے ہیں اور ہم انکا ٹھٹھہ اڑاتے رہتے ہیں جب ہم پر پابندیاں لگنے کا خطرہ پیدا ہوتا ہے تو ہم ہڑبڑا کر جاگتے ہیں اور جا کر کہتے ہیں ایک موقع اور دیں اگلی دفعہ ایسا نہیں ہوگا۔

مغرب میں اگلی دفعہ کا بہت کم اور مخصوص حالات میں ہی چانس دینے کا رواج ہے، ہر انسان اپنے عمل کا ہر وقت جواب دہ اور قابلِ احتساب ہے۔ بڑے سے بڑا افسر، وزیر، جنرل، جج، ڈاکٹر یا سیاستدان اپنے ایک جملے پر قابلِ احتساب ٹھہرتا ہے اور اسے دوسرا موقع نہیں دیا جاتا۔دوسری طرف ایک جہاں ایک برا عمل قابلِ گردن زدنی قرار دلواتا ہے تو کسی کا کیا ہوا ایک اچھا عمل اسے پورے معاشرے میں ہیرو بھی بنا دیتا ہے۔ مغرب کے معاشرتی فیبرک میں سزا و جزا کا یہ تانا بانا ایک متوازن، محفوظ، مثبت اور تعمیری معاشرہ پیدا کرتا ہے۔ جہاں پھلنے پھولنے والی نسلیں ہر قسم کی زیادتی و ناانصافی سے بےفکر ہو کر تعمیری سوچ لے کر پھلتی پھولتی ہیں۔

جاتے جاتے ایک اور واقعہ سن لی جیے، چند مہینے پہلے یہاں ایک عزیز کے دفتر جانا ہوا جو کراچی سے سامان منگوا کر کینیڈا کے دیسی سٹورز میں مال سپلائی کرتے ہیں۔ موصوف چند ہفتے پہلے کراچی میں کسی بڑے ڈسٹری بیوٹر کو پچیس لاکھ کا آرڈر دے کر آئے تھے۔ جس دن میں انکو ملنے گیا اسی دن انکے سامان کا کنٹینر ٹورنٹو پہنچا تھا۔ کنٹینر میرے سامنے کھولا گیا، شروع کے چار چھ کارٹن کھولے گئے تو پتہ چلا کہ کراچی والے ڈسٹری بیوٹر نے آرڈر کیا گیا نیا سامان بھیجنے کی بجائے اپنے گودام میں پڑا ہوا برسوں پرانا سامان جو تقریباً کچرا ہو چکا تھا، اٹھا کر کنٹینر میں پیک کر کے بھیج دیا۔ میرے جاننے والے یہ صاحب سر پکڑ کر بیٹھ گئے۔ کراچی والے ڈسٹری بیوٹر صاحب کو فون کیا اور پوچھا کہ پٹیل بھائی یہ کیا بھیج دیا ہے؟ جواب ملا، محمود بھائی فکر نہ کرو۔۔اگلی دفعہ بالکل ٹھیک سامان آئے گا۔

شاید ہم پہلی دفعہ میں درست طریقہ سے پیشہ ورانہ خدمات مہیا کرنے کی صلاحیت سے عاری ہوتے جا رہے ہیں، ہماری شعوری کوشش ہوتی ہے کہ جو گاہک یا مؤکل پھنس گیا ہے اسے پہلی بار میں ہی جتنا ٹیکہ لگ سکتا ہے لگا لیا جائے، سونے کے انڈے دینے والی مرغی کو پہلا انڈا حاصل کرنے سے بھی پہلے ذبح کرنے کے شوق نے ہمیں اقوامِ عالم میں پروفیشنلزم کی دوڑ میں بہت پیچھے دھکیل دیا ہے۔

ہم ایک ‘اگلی دفعہ سینڈروم’ یا ‘نیکسٹ ٹائم سینڈروم’ کا شکار قوم ہیں۔

ربط
 

فرقان احمد

محفلین
جب ہم اپنی طلب کو وضاحت کے ساتھ پیش نہیں کریں گے تو ہمیں جواب بھی اُسی انداز میں ملنے کی توقع رکھنی چاہیے۔ شاید ہمیں ڈھنگ سے سوال کرنے کا ہنر نہ آیا۔ مزید یہ کہ، جب بھی کوئی کام کروایا جائے، اچھی شہرت کے حامل فرد یا کمپنی سے کروایا جائے۔ ایک بار پیسے تو زیادہ لگ جائیں گے، تاہم، کام اچھا ہو جائے گا؛ ازاں بعد پچھتانا نہ پڑے گا۔ بے سوادے کام سے بہتر ہے کہ وہ کام کیا یا کروایا ہی نہ جاوے!
 
آخری تدوین:

فاخر رضا

محفلین
بہت اچھی تحریر ہے جس میں مسائل کو اچھی طرح پیش کیا گیا ہے
جب یہ قومی المیہ ہے تو پھر اس میں ہمیں بھی معافی نہیں مل سکتی
سب کو ہی ٹھیک ہونا پڑے گا
اگر ساتھ ہی مضمون نگار حل کی جانب بھی نشاندہی کردیتے تو بات کسی حد تک مکمل ہوجاتی
 
جب ہم اپنی طلب کو وضاحت کے ساتھ پیش کریں گے تو ہمیں جواب بھی اُسی انداز میں ملنے کی توقع رکھنی چاہیے۔ شاید ہمیں ڈھنگ سے سوال کرنے کا ہنر نہ آیا۔ مزید یہ کہ، جب بھی کوئی کام کروایا جائے، اچھی شہرت کے حامل فرد یا کمپنی سے کروایا جائے۔ ایک بار پیسے تو زیادہ لگ جائیں گے، تاہم، کام اچھا ہو جائے گا؛ ازاں بعد پچھتانا نہ پڑے گا۔ بے سوادے کام سے بہتر ہے کہ وہ کام کیا ہی نہ جاوے!
آپ کی بات بھی ٹھیک ہے لیکن کیا کیا جائے کہ ہمارے پیش نظر کام کی کوالٹی سب سے آخر میں اور بجٹ کو کم کرنا سب سے پہلےہوتا ہے۔ سستے سے سستے کی تلاش میں ہم بہت کچھ خراب کروا بیٹھتے ہیں۔
 

فلسفی

محفلین
کاروباری زبان میں اس کو دھاڑی لگانا کہتے ہیں۔ ہم لوگ طویل المعیاد کاروباری تعلق پر یقین نہیں رکھتے ہیں۔ زندگی کے تقریبا ہر شعبے میں یہی حال ہے۔ میرے اکثر دوست کاروباری ہیں۔ وہ مجھے کہتے ہیں کہ بھائی کاروبار ایسے ہی ہوتا ہے۔ میں اکثر ان سے اختلاف کرتا تھا (ہوں)۔ ایک بات جس پراکثر ان سے الجھتا تھا کہ تم اپنے ملازمین کو تنخواہ اور ان کے کام کا معاوضہ وقت پر کیوں نہیں دیتے۔ وہ مجھے اکثر کہتے تھے کہ یار تو اپنے کام سے کام رکھ تجھے نہیں معلوم کام کیسے چلتا ہے۔ میں کہتا تھا کہ یار حدیث میں ہے کہ مزدور کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے اس مزدوری دے دو۔ لیکن وہ سنی ان سنی کردیتے تھے۔

ایک مرتبہ میں ایک بڑھئی کو گھر لے کر آیا کچھ میز اور الماریاں بنوانی تھیں۔ پیسے طے کیے اور کچھ ایڈوانس دے دیا۔ وہ روز آتا کام کرتا اور جاتے ہوئے کچھ مزید پیسوں کا تقاضا کرتا جو میں اسے دے دیتا۔ چوتھے پانچویں دن اس نے آخری پانچ سو روپے مانگے میں نے وہ بھی دے دیے کہ کام تو کر ہی رہا ہے اور اس کے اوزار بھی سارے میرے گھر پر ہی ہیں۔ لیکن اس دن کے بعد وہ غائب ہو گیا۔ دکان پر پتہ کیا تو وہاں بھی نہیں۔ فون کیا تو ایک دو دن ٹالتا رہا پھر فون اٹھانا ہی چھوڑ دیا۔ میرا کام گھر میں ادھورا پڑا تھا۔ میں اس کے گھر گیا لیکن بھائی صاحب گھر سے نکلنے کو تیار نہیں۔ جب بھی جاؤ تو بچہ آ کر کہہ دیتا کہ گھر پر نہیں ہیں۔ اخیر تنگ آکر میں نے اس کے بچے سے کہا کہ بابا کو کہنا کہ اپنے اوزار لے جائیں، مجھے کام نہیں کروانا۔ لیکن مجال ہے وہ شخص اپنے اوزار بھی لینے آیا ہو۔ میرے وہی کاروباری دوست جن سے میں جھگڑتا تھا وہ کہنے لگے "ہن آرام ای ۔۔۔ "۔

اسی طرح کے مختلف واقعات میرے ساتھ اسے کے بعد بھی ہوتے رہے ہیں۔ میں ہر دفعہ یہی سوچ کر اعتبار کرتا ہوں کہ پانچوں انگلیاں برابر نہیں ہوتی ۔۔۔۔ لیکن شاید کاٹ پیٹ کر برابر کی جاسکتی ہیں۔ بدقسمتی سے بحیثیت قوم یہی مزاج تقریبا ہر جگہ دیکھنے میں آیا۔ ایسی بے توکلی قوم ہے کہ جھوٹ بولے بغیر یا غلطی بیانی کرے بغیر روزی کمانے کا سوچتے ہی نہیں۔ جیسے ان کے نزدیک یہی جھوٹ اور غلطی بیانی ان کے رزق میں کثرت کا باعث ہے اور شاید ہو بھی ۔۔۔ لیکن برکت ۔۔۔ وہ ختم ہو جاتی ہے۔
 
جب یہ قومی المیہ ہے تو پھر اس میں ہمیں بھی معافی نہیں مل سکتی
سب کو ہی ٹھیک ہونا پڑے گا
چند ایام قبل ایک دوست جو ذرا بڑے افسر ہیں سے ملنے ان کے دفتر گیا تو کچھ دیر میں ایک درجہ ہفتم کے ملازم کی ڈیوٹی سے غیر حاضرہو جانے کا قضیہ پیش ہو گیا۔ دوست اُسے تحریری تنبیہ سے ہٹ کر کوئی سزا دینا چاہ رہے تھے اور ان صاحب کے سپر وائیزر ’خیر اےسر، جان دیو سر‘۔۔ایندہ غلطی نہی کرے دا سر‘ کی گردان سے ٹھنڈا کرنے کی کوشش کررہےتھے۔ جب دوسری تیسری بار ’خیر اے سر۔۔۔ کی گردان ہوئی تو دوست کہنے لگے یہ جملہ ہمیں لے کے بیٹھ گیا ہے۔
اگر ساتھ ہی مضمون نگار حل کی جانب بھی نشاندہی کردیتے تو بات کسی حد تک مکمل ہوجاتی
حل ایک ہی ہے کہ سوچنے، کام کو مکمل کرنے کا انداز مکمل طور پر بدلا جائے۔ :)
 

فاخر رضا

محفلین
جو لوگ میرے زیر سایہ کام کررہے ہیں وہ سب میری مرضی کے مطابق کام کرتے ہیں
یہ اصول ماننے کے بعد ہمیں سب سے اوپر والی سیٹ پر بیٹھنے کی اہلیت اور صلاحیت پیدا کرنی پڑے گی
 

اوشو

لائبریرین
ایک اور نکتہ ہے۔ کام دینے والے کا بھی کچھ قصور تو بنتا ہے۔ بھئی آپ نے کسی کام کے لیے کسی کو ہائر کرنا ہے تو اس کا پروفیشنلزم چیک کریں پہلے۔ آپ کی دی گئی مثالوں میں ہی دیکھ لیتے ہیں کہ اگر آپ میگزین پرنٹنگ کے لیے دینے سے پہلے مارکیٹ میں موجود پبلشرز کا اچھی طرح جائزہ لیتے اور کسی پرفیشنل اور اچھی شہرت کے حامل پبلشر کو پرنٹنگ آرڈر دیتے، یا شادی کے لیے فوٹوگرافر ہائر کرنے سے پہلے اس کا پروفائل چیک کرتے یا اس کے بارے میں معلومات لیتے تو شاید حالات کچھ مختلف ہوتے۔ کیوں کہ ایسے لوگ ہر جگہ پائے جاتے ہیں لیکن اس بات میں بھی کوئی شک نہیں کہ ہمارے معاشرہ میں یہ شرح زیادہ ہے۔
اب ایک اور بات بھی قابلِ غور ہے۔ انسان غلطیوں سے ہی سیکھتا ہے۔ کام لینے والا اور کام کرنے والا اگر غلطیاں نہیں کریں گے سیکھیں گے کیسے؟ لیکن کام کی نوعیت بھی اہمیت رکھتی ہے۔ کچھ کام ایسے ہوتے ہیں جو اگلی بار ٹھیک ہو گا کے وعدے پر بھی ٹالے جا سکتے ہیں اور کچھ کام ایسے ہوتے ہیں جو ایک ہی بار میں پرفیکشن مانگتے ہیں مزید چانس نہیں ہوتا۔ ایسی اہمیت کے حامل کام کے لیے ہمیشہ کسی پروفیشنل کو ہائر کرنا چاہیے چاہے وہ مہنگا ہو ۔
باقی اس بات سے اتفاق کرتا ہوں سوچ اور کام دینے اور لینے کا انداز بدلنے کی ضرورت ہے۔
 
ایک مرتبہ میں ایک بڑھئی کو گھر لے کر آیا کچھ میز اور الماریاں بنوانی تھیں۔ پیسے طے کیے اور کچھ ایڈوانس دے دیا۔ وہ روز آتا کام کرتا اور جاتے ہوئے کچھ مزید پیسوں کا تقاضا کرتا جو میں اسے دے دیتا۔ چوتھے پانچویں دن اس نے آخری پانچ سو روپے مانگے میں نے وہ بھی دے دیے کہ کام تو کر ہی رہا ہے اور اس کے اوزار بھی سارے میرے گھر پر ہی ہیں۔ لیکن اس دن کے بعد وہ غائب ہو گیا۔ دکان پر پتہ کیا تو وہاں بھی نہیں۔ فون کیا تو ایک دو دن ٹالتا رہا پھر فون اٹھانا ہی چھوڑ دیا۔ میرا کام گھر میں ادھورا پڑا تھا۔ میں اس کے گھر گیا لیکن بھائی صاحب گھر سے نکلنے کو تیار نہیں۔ جب بھی جاؤ تو بچہ آ کر کہہ دیتا کہ گھر پر نہیں ہیں۔ اخیر تنگ آکر میں نے اس کے بچے سے کہا کہ بابا کو کہنا کہ اپنے اوزار لے جائیں، مجھے کام نہیں کروانا۔ لیکن مجال ہے وہ شخص اپنے اوزار بھی لینے آیا ہو۔ میرے وہی کاروباری دوست جن سے میں جھگڑتا تھا وہ کہنے لگے "ہن آرام ای ۔۔۔ "۔
میرا بےشمار مرتبہ مستری، مزدور، بڑھئی و دیگر وغیرہ سے واسطہ پڑا ہے اور آئندہ بھی پڑتا رہے گا۔ اس واسطے کے بہت اوائل میں دو چار مرتبہ میرے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا ہے لیکن پھر ان ہنرمندوں کی سوچ کی اکثریت کو تقریباً حفظ ہی کر لیا تو اب ایسا نہیں ہوتا۔ ہر بات، ہر زاویہ، پہلے ہی نکھیڑ کر رکھ دیتا ہوں۔ پہلےہی ملاقات میں یہ واضح کر دیتا ہوں کہ کم از کم ایک دن کی مزدوری روک کے رکھوں گا، کام کرنا ہے تو بصد شوق ورنہ آپ کو کام اور مل جائے مجھے ہنر مند اور۔
 

فلسفی

محفلین
میرا بےشمار مرتبہ مستری، مزدور، بڑھئی و دیگر وغیرہ سے واسطہ پڑا ہے اور آئندہ بھی پڑتا رہے گا۔ اس واسطے کے بہت اوائل میں دو چار مرتبہ میرے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا ہے لیکن پھر ان ہنرمندوں کی سوچ کی اکثریت کو تقریباً حفظ ہی کر لیا تو اب ایسا نہیں ہوتا۔ ہر بات، ہر زاویہ، پہلے ہی نکھیڑ کر رکھ دیتا ہوں۔ پہلےہی ملاقات میں یہ واضح کر دیتا ہوں کہ کم از کم ایک دن کی مزدوری روک کے رکھوں گا، کام کرنا ہے تو بصد شوق ورنہ آپ کو کام اور مل جائے مجھے ہنر مند اور۔
میں اس ہنر سے ابھی تک عاری ہوں۔ اس لیے ایسے کام اگر پاکستان میں ہوں تو بڑا بھائی یا چھوٹا بھائی ذمے داری لے لیتا ہے اور مجھے کہتے ہیں "تو سائیڈ تے بے جا"
ادھر سعودی عرب میں تو ابھی تک اپنے لوگوں سے اسی سلوک کا مستحق ٹھہرا ہوں جس کا ذکر پہلے کیا۔ بڑے بھائی کہتے ہیں تو نے دنیا داری نہ سیکھی اور نہ سیکھنی ہے۔
 
آخری تدوین:
ایک اور نکتہ ہے۔ کام دینے والے کا بھی کچھ قصور تو بنتا ہے۔ بھئی آپ نے کسی کام کے لیے کسی کو ہائر کرنا ہے تو اس کا پروفیشنلزم چیک کریں پہلے۔ آپ کی دی گئی مثالوں میں ہی دیکھ لیتے ہیں کہ اگر آپ میگزین پرنٹنگ کے لیے دینے سے پہلے مارکیٹ میں موجود پبلشرز کا اچھی طرح جائزہ لیتے اور کسی پرفیشنل اور اچھی شہرت کے حامل پبلشر کو پرنٹنگ آرڈر دیتے، یا شادی کے لیے فوٹوگرافر ہائر کرنے سے پہلے اس کا پروفائل چیک کرتے یا اس کے بارے میں معلومات لیتے تو شاید حالات کچھ مختلف ہوتے۔ کیوں کہ ایسے لوگ ہر جگہ پائے جاتے ہیں لیکن اس بات میں بھی کوئی شک نہیں کہ ہمارے معاشرہ میں یہ شرح زیادہ ہے۔
ملک صاحب اگر آپ صاحب تحریر کے پہلے دو تجربات کو دیکھیں تو وہ ایسے کام تھے جو پہلی بار کیے جا رہے تھے، ایسے میں کسی قسم کا ذاتی تجربہ تو سرے سے تھا ہی نہیں۔ یقیناً ہلکی پھلکی پوچھ پڑتال تو کی ہی گئی ہو گی۔ دراصل دکاندار صاحبان یا ہنر مندان حضرات کسی بھی گاہک سے بات چیت کرتے ہوئے یہ اندازہ لگا لیتے ہیں کہ انھیں اس کام کا کتنا تجربہ ہے۔ بس پھر ان کا سارا برتاؤ اس پر منحصر ہوتا ہے۔ صاحب تحریر نے بھی اس بارے میں لکھا ہے۔
ہماری شعوری کوشش ہوتی ہے کہ جو گاہک یا مؤکل پھنس گیا ہے اسے پہلی بار میں ہی جتنا ٹیکہ لگ سکتا ہے لگا لیا جائے، سونے کے انڈے دینے والی مرغی کو پہلا انڈا حاصل کرنے سے بھی پہلے ذبح کرنے کے شوق نے ہمیں اقوامِ عالم میں پروفیشنلزم کی دوڑ میں بہت پیچھے دھکیل دیا ہے۔
کوئی ڈیڈھ ماہ قبل ایک دوست جو پرنٹنگ کے شعبے سے وابستہ ہیں، ملنے آئے تو کہنے لگے مجھے اسلام آباد کے ایک نئے بنے ہوئے سیکٹر کے 60نقشے پرنٹ کرنے کا آرڈر ملا تھا۔ وہ تو میں نے کر لیے ہیں لیکن ابھی کسٹمر کی ڈیمانڈ ہے کہ ان پر کوٹنگ کروا کے سپائرل بھی کر دیں۔ اب نقشہ عمومی A4 پیپر سے کافی بڑا ہوتا ہے تو اتنی بڑی کوٹنگ کہاں سے ہو گی؟ اگر آپ کچھ مدد کر دیں۔ میں نے کہا جہاں سے پرنٹ کروائیں ہیں انھی سے بات کرنا تھی۔ کہنے لگے انھی سے پہلا رابطہ کیا ہے، وہ فی نقشہ 350 روپے مانگ رہے ہیں۔ میرے منہ سے بے ساختہ نکلا۔۔۔۔۔’ہیں‘:eek:۔ کہنے لگے نقشہ 90 روپے میں پرنٹ ہوا ہے اور کوٹنگ کا 350 روپے، سمجھ نہیں آ رہی اب کیا کروں کہ کوٹنگ کا کام میں نے آج تک نہیں کروایا۔ میں نے ان سے نقشے کا سائیز پوچھا اور پھر اپنے احباب کے سرکل میں رابطے شروع کر دئیے۔ اگلے پندرہ بیس منٹ میں مجھے اندازہ ہو چکا تھا کہ اس بڑے سائیز کی کوٹنگ کی جائز قیمت کیا ہو گی۔ وہی 350 روپے فی کوٹنگ والا کام میں نے انھیں 55 روپے فی کوٹنگ کے حساب سے کروا کے دیا۔
 

اوشو

لائبریرین
Top