محمد وارث
لائبریرین
ایک اور نوعیت کی شدت پسندی درامد کررہا ہے۔ فحاشی کی۔ ڈراموں کی صورت میں
ارسی ڈی بھی قائم ہوئی تھی مگر چل نہ سکی۔ ترکی کو تعلق یورپ سے اچھا لگتا ہے۔ ایشیا سے نہیں۔ بہت ہی قوم پرست مریض قوم ہے ترکی۔
اپ بھی خوش رہیے
ویسے یہ سوچ نہیں حقیقت ہے۔ یہ برصغیر کے مسلم ہی ہیں جو ترکی کے غم میں پریشان ہیں اور ثقافتی رشتے ڈھونڈتے ہیں۔ خود ترکی یورپ کے لیے مرے جاتے ہیں۔ انھیں ایشیائی لوگ کچھ بھاتے نہیں ہیں
یہ محض آپ کی غلط فہمی ہے بلکہ آپ پروپیگنڈے کا شکار ہیں۔ یورپ سے اپنا تعلق صرف ترکی کی سول اور ملٹری بیوروکریسی اور اشرافیہ جوڑتی ہے بعینہ ایسے ہی جیسے پاکستان کی سول اور ملٹری بیوروکریسی اور اشرافیہ اپنا تعلق امریکہ اور مغرب سے جوڑتی ہے، اور ایسی سوچ کے حامل افراد دونوں ملکوں میں منہ کی کھا رہے ہیں یعنی دھوبی کا کتا نہ گھر کا نہ گھاٹ کا۔
وگرنہ ترکی کے عام افراد اور دیہاتوں اور چھوٹے شہروں میں بسنے والی اکثریتی آبادی اسی طرح ہی سے غیور مسلمان ہیں جیسے کہ دوسرے اسلامی ملکوں کی اکثریتی آبادی غیور مسلمانوں پر مشتمل ہے۔ جس طرح ہم پشتو فلموں سے یہ نتیجہ اخذ نہیں کر سکتے کہ تمام پٹھان قوم ایسی ہی ہے اسی طرح ترکی ڈراموں سے ایسا نتیجہ اخذ کرنا جیسا آپ کر رہے ہیں عقلمندی کی نشانی ہر گز بھی نہیں۔
اور یہ بھی اچھا لطیفہ ہے کہ ترکی کے غم میں برصغیر کے مسلمان پریشان ہیں، آپ تو سو سال پہلے کی بات کر رہے ہیں جب یہاں تحریکِ خلافت چلی تھی لیکن اگر اب بھی پریشان ہوں تو اس میں اعتراض والی کونسی بات ہے، ملت اسلامیہ جسدِ واحد ہے، کیا میں آپ سے پوچھ سکتا ہوں کہ ترکی کی حکومت اور عوام کے پیٹ میں کونسا مروڑ اٹھا تھا کہ انہوں نے فلسطین میں اپنا جہاز بھیج دیا تھا، اور برما کے دورے کیے تھے، آپ کے نزدیک تو یہ سراسر بیوقوفی ہی ہوگی، بقولِ اکبر الہٰ آبادی
ع - بُت ہم کو کہیں کافر، اللہ کی مرضی ہے