بالآخر کیل میں ڈرائیونگ سے جان چھوٹی اور ایک ہوٹل کی پارکنگ میں گاڑی کھڑی کی۔ اور فوراً رخ کیا اڑنگ کیل کا۔
کچھ اڑنگ کیل کے بارے میں:
اڑنگ کیل کا جنت نظیر گاؤں کیل سے دریائے نیلم کی دوسری جانب اور لائن آف کنٹرول کے انتہائی نزدیک کافی بلندی پہ واقع ہے۔ کیل کی بلندی 2100 میٹر کے قریب ہے جبکہ اڑنگ کیل کی بلندی 2550 میٹر کے قریب ہے۔ کسی دور میں کیل سے اڑنگ کیل جانے کے لئے پیدل ٹریک کرنا پڑتا تھا، جس میں پہلے بہت سی اترائی کے بعد دریائے نیلم کو عبور کرتے تھے، اس کے بعد تقریباِ دو اڑھائی گھنٹے کی تھکا دینے والی چڑھائی چڑھ کے اڑنگ کیل پہنچتے تھے۔ ہمارا اندازہ ہے کہ دریا کنارے سے اڑنگ کیل کی بلندی 600 میٹر یعنی 2000 فٹ کے قریب ہو گی۔ پھر ایک مشکل پراجیکٹ کے نتیجے میں کیل سے ڈولی نما چیئرلفٹ لگائی گئی، جو کہ اڑنگ کیل کی ٹاپ سے اتنا نیچے پہنچا دیتی تھی کہ آدھے گھنٹے کی نسبتاؐ آسان ٹریکنگ کے بعد اڑنگ کیل پہنچا جا سکتا تھا۔ امتدادِ زمانہ یا مینٹی نینس نہ ہونے کی وجہ سے یہ چیئرلفٹ بیچ میں غیرمستعمل بھی رہی، تاہم دو یا تین سال قبل اس کو دوبارہ سے بحال کر کے چلایا گیا ہے۔ نتیجتاؐ اڑنگ کیل کی سیاحت کو جیسے آگ ہی لگ گئی ہو۔ اب یہاں سیاحوں کی بڑی تعداد آتی ہے اور اچھی بات یہ کہ ہر عمر کے لوگ پہنچ جاتے ہیں۔ ہم نے یہاں عمررسیدہ مرد و خواتین کو بھی ٹریک سے اوپر جاتے دیکھا اور چھوٹے چھوٹے بچوں کو بھی۔ اسی طرح یونیورسٹیوں اور کالجوں کے طلبہ و طالبات کے گروپ بھی کافی تعداد میں آتے یا جاتے دکھائی دیئے۔
اڑنگ کیل کی سیٹنگ ایسی ہے کہ بندہ ایک بار تو مبہوت ہی ہو جائے۔ اڑنگ کیل دیکھ کے ہی یقین آتا ہے کہ اس دنیا میں اڑنگ کیل جیسی خوبصورت جگہیں بھی ہو سکتی ہیں۔ کیل سے دکھائی دینے والی پہاڑوں کی قوس یہاں انتہائی قریب ہو جاتی ہے اور اگر دائرے کے 360 ڈگری زاویے کے حساب سے بات کی جائے تو یہ برف پوش پہاڑ اڑنگ کیل کے اطراف میں تقریباؐ 120 ڈگری کی قوس بناتے ہوں گے۔ انہی پہاڑوں کے دامن میں سرسبز جنگل ہے اور کئی کلومیٹر پر پھیلا تقریباؐ ہموار سرسبز میدانی علاقہ، جس میں رنگ برنگی چھتوں والے گھر یا ہوٹیلز ۔ بلاشبہ یہ ایک غیرمعمولی جگہ ہے۔ اگر کبھی ہم دوبارہ نیلم ویلی گئے تو اڑنگ کیل اس کی سب سے بڑی وجہ ہو گی۔
احمد فراز کے الفاظ میں
ابھی تلک ہے نظر میں وہ شہرِ سبزہ و گل
جہاں گھٹائیں سرِ رہگزار جھُومتی ہیں
جہاں ستارے اُترتے ہیں جگنوؤں کی طرح
جہاں پہاڑوں کی قوسیں فلک کو چُومتی ہیں
تمام رات جہاں چاندنی کی خوشبوئیں
چنار و سرو کی پرچھائیوں میں گھومتی ہیں