ابن توقیر
محفلین
عبداللہ بھائی کے ساتھ خنجراب کا تصویری دورہ کیا تو شدید خواہش پیدا ہوئی کہ عیدکی چھٹیوں میں گلگت بلتستان کی جانب سفر کیا جائے۔ہماری نالائقی کے رمضان میں سستی کی وجہ سے گاڑی سے حال احوال پوچھ ہی نہیں پائے،اس کا نقصان یہ ہوا کہ عید کے دوسرے روز جب جنڈ شہر گئے تو راستے میں آئے پہاڑوں میں اندازہ ہوا کے گاڑی کے ’’گوڈے گٹے‘‘ کافی آواز کررہے ہیں،واپس آکربڑی منت ’’ترلے‘‘ کرکے مکینک سے کام کروایا۔تیسرے دن ایک کزن کو چھوڑے کو اسلام آباد ایئرپورٹ چلے گئے تو اگلے دن پشاور جانا ہوا، تو واپسی رات گئے ہوئی تب یہ انکشاف ہوا کے ہیڈ لائٹس کے’’ایڈجسٹرز‘‘ بھی فارغ ہیں،ساتھ ہی یہ راز بھی کھلا کے پٹرول کی سیٹنگ بھی نہیں ہے۔مسائل کی اس ’’بوری‘‘ تلے ہمیں اپنا سفر ’’دبتا‘‘ محسوس ہوا۔خیرجن دوستوں کو خنجراب کی تصاویر دیکھائی ہوئی تھیں ان کا اصرار تھا کہ ہر صورت جانا ہے اس لیے رات بارہ بجے مکینک اور الیکٹریشن کو ان کے گھروں سے نکال کر لائے اور کام کروایا۔چونکہ ہماری اپنی فیلڈ یہی ہے اس لیے مکینک لوگ اتنے ہنگامی نوٹس پر بھی کام کرنے پر تیار ہوگئے۔خیرقصہ مختصرکہ جب رات کو دو بجے کے بعد فارغ ہوئے تو گاڑی کی حالت اور خنجراب کے لمبے سفر نے ارادے کو بدل دیا۔تب اچانک پروگرام بنا کے چلو کالام چلتے ہیں۔
یہ اچھا ہی ہوا کہ گلگت نہیں گئے وگرنہ سیزن کے رش میں پھنس جاتے،پر کالام سے واپسی پر گاڑی کو ’’تھپکی‘‘ دیتے وقت یہ احساس ضرور ہوا کہ ’’شہزادی‘‘ بغیر کسی پریشانی کے کالام کے سفر سے واپس آگئی ہے تو یقیناً اس کے لیے گلگت کا سفر آسان رہتا۔چلیے گلگت یاترا پھر کبھی سہی،فی الحال آپ ہمارے ساتھ چند لمحے مہوڈنڈ میں گزارآئیے۔
تصاویرکھینچے کے ہنر سے قطعاً ناواقف ہونے کی وجہ سے معذرت خواہ ہوں اور معیار پر سمجھوتے کی درخواست کرتا ہوں۔امید کرتا ہوں کہ مزید دس پندرہ سالوں میں زیک جی اور یاز جی کے سفروں کو دیکھتے دیکھتے کچھ نہ کچھ اس ہنر کو پالوں گا۔زیادہ تر تصاویر سیمسنگ ایس سیون کی ہیں جبکہ چندایک ڈیجیٹل کیمرہ کی ہوں گی۔
مردان کراس کرکے ایک لمبے سفر کے بعد جب وادی سوات میں داخل ہونے لگے تو آہستہ آہستہ پہاڑوں کی کشش ہم پر حاوی ہونے لگی۔
یہ اچھا ہی ہوا کہ گلگت نہیں گئے وگرنہ سیزن کے رش میں پھنس جاتے،پر کالام سے واپسی پر گاڑی کو ’’تھپکی‘‘ دیتے وقت یہ احساس ضرور ہوا کہ ’’شہزادی‘‘ بغیر کسی پریشانی کے کالام کے سفر سے واپس آگئی ہے تو یقیناً اس کے لیے گلگت کا سفر آسان رہتا۔چلیے گلگت یاترا پھر کبھی سہی،فی الحال آپ ہمارے ساتھ چند لمحے مہوڈنڈ میں گزارآئیے۔
تصاویرکھینچے کے ہنر سے قطعاً ناواقف ہونے کی وجہ سے معذرت خواہ ہوں اور معیار پر سمجھوتے کی درخواست کرتا ہوں۔امید کرتا ہوں کہ مزید دس پندرہ سالوں میں زیک جی اور یاز جی کے سفروں کو دیکھتے دیکھتے کچھ نہ کچھ اس ہنر کو پالوں گا۔زیادہ تر تصاویر سیمسنگ ایس سیون کی ہیں جبکہ چندایک ڈیجیٹل کیمرہ کی ہوں گی۔
مردان کراس کرکے ایک لمبے سفر کے بعد جب وادی سوات میں داخل ہونے لگے تو آہستہ آہستہ پہاڑوں کی کشش ہم پر حاوی ہونے لگی۔