وادی شوگران


جواں حوصلہ ،مہم جوﺅں کی آرام گاہ ، اپنے سینے میں چھُپے سر بستہ دل خوش کُن راز لیے ، حسن و جمال کا مرقع ، سیٹیاں بجاتی مدھر ، لمس سے لبریز مراحمت کرتی یخ بستہ ہواﺅں ،لا تعدادگلیشیروں ، برف پوش نوکیلی چوٹیوں ، مکمل طور پر تاریک گھنے جنگلات اور زِگ زیگ لاتعداد موڑوں سے نظر آتے گہرائی میں پرُ پیچ پارے کی نہر کی مانند دریائے کنہار کے نظاروں کی رنگا رنگی سے بھر پور، فضا میں رچی بسی گھلی پھولوں کی تازہ مہک لیے، ہماری نظروں کو خیرہ کرتے تختہ ہائے گل، ہرے بھرے میدان خاص موسمی اہمیت کے حامل، طلوع وغروب آفتاب کے مناظر کے حیرت کدے لیے، فطرت کے انمول رنگوں سے بھرا صناعی و رعنائی کا عظیم شاہکار ، وسعت پکڑے میدانوں میں حد نظرروئیدگی سے بھر پور، شفنگ اُجلے رنگوں کے جنگلی پھولوں سے لبریز کیف آگیں حسین تر مقبولِ عام، صحت افزا مقام وادی شوگران پر جا بجا قوس قزح کے نظارے بارش کے فوراً بعد اکثر نظر آجاتے ہیں۔یہاں کے شفاف ،حقیقت سے کوسوں دور، جادوئی مناظر لطیف اشاروں اور مضبوط ثبوتوںکے ساتھ قدرت کی فیاضیوں اور اسکے اصل روپ کی نمائش کرتے ہوئے ہمیں گنگ ہو جانے پر مجبور کر دیتے ہیں۔
وادی شوگران میں بلندو بالا آسمان چھوتے، سیاحوں سے ہم کلام ہوتے چیڑاور دیودار کے درخت ، ٹوبوں میں تھماپانی ، نیلگوں بھیگے رنگ کی برساتی جھیلیں، بارش کے بعد چمکیلے دنوں میں دہکتے باغیچے اور کیاریاں ، ڈوبتا ہوا خورشید اور گلِ تر، رنگ فشاں شاخیں ، خنک بھیگی دوپہروں میں زندگی کے پر کھولتی بولتی فاختائیں ، گھنے جنگلات کے وسط میں شاداں شاداب پھول بھرے میدان میں چہل قدمی، قدرتی طور اُگنے والے پھولوں کی مدہوش کرتی مہکارہمارے ذوق جمال کی تسکین کی خاطر خُدا کا بنا ہوا ایک لازوال خرینہ لگتے ہیں۔ یہ قدرت کے نگار خانہ کا انمول شاہکار ،پاکستان کو خدا تعالیٰ کی عطا کردہ بے پایا ں فیاضیوں میں سے ایک فطری حسن کا نمونہ ہے جس کو بیان کرتے ہوئے الفاظ کا ذخیرہ بھی کم پڑجاتا ہے۔
”شو“ کا مطلب ہند کو زبان میں ”خوبصورت“ او رگراں کے معنی ”گاﺅں “ کے ہیں۔اجتماعی مطلب ”خوشنما یادیدہ زیب گاﺅں ہے“۔ ”شو“ مقامی زبان میں ’تند و تیز ہوا ‘کو بھی کہا جاتا ہے ۔ یعنی ایسا مقام جہاں تیز ہواﺅں کا راج ہواُسے شوگران کہا جا سکتا ہے۔
کوائی یونین کونسل میں واقع شوگران کی مقامی آبادی 250گھروں پر مشتمل ہے اور کل 1ہزار نفوس کے لگ بھگ ہو گی۔
مانسہرہ سے 50کلو میٹر دور، بالاکوٹ ،بٹہ راسی کے سر شاری سے دو چار کرتے جنگلات سے گزر کر ڈیڑھ گھنٹے کے سفر کے بعد پہنچا جا سکتا ہے۔ برفیلا دریائے کنہار گڑھی حبیب اللہ کے مقام پر ہمارا مستقل ہمسفر بن جاتا ہے۔بالا کوٹ پہنچتے ، پہنچتے ہر موڑ پر نئی پرتیں ، نئی ترتیب اور نئے مناظرنئے افق کے جلوے ہمیں حیران کرتے دکھائی دیتے ہیں۔آس پاس سبزہ لیے، مکئی اور چاولوں کے کھیتوں کے درمیان بہتا دریائے کہنار (پہاڑی نہر) روایتی شان اور آب و تاب سے بہتا ہمیں کئی جگہ سڑک کنارے آکر آنکھ مچولی کے درس دیتا لگتا ہے۔ ہم ایبٹ آباد سے 72 کلو میٹر دور واقع ،جوان حوصلہ رکھنے والے وادی کاغان کے سیاحوں کے لیے مرکزی کیمپ کی حیثیت رکھنے والے تاریخی طور پر معروف بالا کوٹ تک گورنمنٹ ٹرانسپورٹ اور ہائی ایس کے ذریعہ ہمہ وقت پہنچ سکتے ہیں۔ ماضی میں پہاڑی جنگلات کے درختوں کی منڈی کے طور پر ایک معروف مقام، بالاکوٹ سے24کلومیٹر دور”شاہراہ وادی کاغان “پر کیوائی ایک ابھرتا ہوا مقام تھا جو زلزلہ سے یکسر صفحہ ہستی سے مٹ گیا۔
بالا کوٹ کیوائی کا 24کلومیٹر کا راستہ پہاڑوں کی تمام رگوں ، مساموں سے جھانکتے سبزے، پتھروں کے سینوں سے جاری چشموں اور دھاروں کا ملاحظہ کرتے ہوئے گزرتا ہے ۔اسلام آباد سے مشرق میں 194کلو میٹر دور واقع 1445 میٹر بلندبالا کوٹ سے کیوائی تک4/3 جگہ لینڈ سلائیڈ سے بچتے بچاتے اب ہمیں کیوائی سے دائیں اوپر جانے والی پکی سڑک پرمسلسل چڑھائی والے راستے پر گامزن ہونا ہوتا ہے۔ستواں اونچے دیودا روں کی گھنی خنک چھاﺅں اور گہر ی منہ کھولے ڈراؤنی کھائیوں کے پر کیف نظاروں سے بھرپور کیوائی سے شوگران تک سفر ایک جادو نگری کاسفر لگتاہے جو بلند و بالا چھتری اور چھجے کی مانند پھیلے درختوں سے لبریزسرسبز ڈھلوانوں، سائیں سائیں کرتی تیز ہواؤں اور اُس کا طلسم توڑتے پہاڑی کالے کوئے کی کائیں کائیں ، مسلسل بلند ہوتی ہوئی سڑک کے کنارے لاتعداد جنگلی پھولوں سے سج دھج کر وجدان اور نظروں کو خیرہ کرتے نظاروں سے مزین ہوتا ہے۔ جب کاذب صبح کے بعد سورج کی سنہری کرنیں پہاڑوں کے بلند کناروں سے چھن چھن کر سیال مادے کی طرح بہتی نیچے وادیوں میں اترتی ہیں،ممکن ہے راستے میں خانہ بدوش گوجر (پاؤندے) اپنے مختصرسامان والے گدھوں کولیے ، گھوڑوں کو ہنکاتے ، بھیڑ بکریوں کے لا متناہی گلے کے ہمراہ،خوفناک سدھائے ہوئے تھوتھنیاں اُٹھائے کتوں کے حصار میں اپنے تکان بھرے سفروں کے مقدر ماپتے کسی بلندچر اگاہ پر خیمے لگانے کی اُمید میں جوش و خروش کے ساتھ رواں دواں ہوتے ہیں،آپ کے راستے میں دیوار بن کر آ ٹپکیں۔کیوائی سے 10کلو میٹر پر مشتمل بلندی کے دل دہلا دینے والے گھاٹیوں اور کھائیوں سے بھر پورپر پیچ پہاڑی راستوں پرسفر طے کر کے ہم نسبتاًکشادہ وسیع میدانوں کی شکل کے مقام 2400میٹر بلند(7750فٹ مری کے برابر بلندی) شوگران پہنچ جاتے ہیں۔شوگران تک یہ سفر شارٹ کٹ کے ذریعے بھی طے کیا جا سکتا ہے ۔ لیکن غیر ضروری تھکاوٹ سے بچنے کے لیے اور اپنی توانائیوں کو مجتمع رکھنے کے لیے بہتر ہے کہ یہ سفر دستیاب ٹرانسپورٹ (جیپ یا وین)کے ذریعے ہی طے کیا جائے۔شوگران آنے کے لیے زیادہ مستعمل راستے بذریعہ جیپ براستہ گنول، مانا منڈوس ، بد گراں (کل 6کلو میٹر آدھاراستہ کچاہے)اور براستہ سانگڑ اور لوگی ہیں۔ شوگران آنے کے لیے جیپ، کو سٹر کا ذریعہ آمدو رفت بھی بآسانی دستیاب ہے۔
سیاحت کے عروج کے دور میں ریسٹ ہاﺅ س میں جگہ نہ ہونے کے باعث سیاح عموماًپائن پارک ہوٹل کار ُخ کر لیتے ہیں۔
شوگران کا کئی ایکٹر رقبہ کا احاطہ کیے ہوئے لا تعدادکمروں (اس عظیم الشان ہوٹل میں15 ڈبل بیڈ روم (1500 روپے میں 3 کاٹیج فیملی روم 3000 روپے) پر مشتمل پائن پارک ہوٹل سیاحوں کو اعلیٰ ترین سہولیات ( کانفرنس ہال بھی موجود ہیں ،ایک ہال میں پھولدار کیاریوں کے نواح میں خوبصورت کر سیاں بچھائی گئی ہیں) سوئس وی آئی پی کاٹیج (کرایہ 3500/- روپیہ )ڈیلکس کمرے اورعالی شان ریسٹورانٹ مہیا کرتا ہے۔ 1980ءسے قبل موجود پائن پارک ہوٹل موجود ہ بڑی جدید تعمیر میں 1992ءمیں قائم کیا گیا۔ یہ سابقہ صوبائی وزیر، صوبہ سرحد ،قائم شاہ اور موجودہ ایم پی اے مظہر قاسم کی ذہنی اختراع ہے۔ اس ہوٹل کے شمالی کونے میں پھولوں کی کیاریوں کے بیچوں بیچ سری پائے کی چوٹیوں کے دامن میں ہنی مون کاٹیج نو بیاہتا جوڑوںکو مثالی تنہائی فراہم کرتے ہیں۔ اس کے اندر لکڑی کا استعمال بہت خوشنما اندازمیں کیا گیا ہے۔
نت نئی تمام سہولیات سے مرصع عالی شان ریسٹوران اور زلزلہ سے بچاﺅ کے لیے جدید نئے انداز کی عمارتوں کے ساتھ کئی نئے ہوٹل سیاحوں کے قیام کو آرام دہ بنانے کی تگ و دو میں مصروف ہیں۔ آفاق، لالہ زار (تباہ شدہ) ہل ٹاپ ، پائن ویو، ٹورسٹ اِن، ہیون روڈ، مانشی، لاہور، پنجاب ،فیصل، شوگران ، سیرینٹی، کوپ رنگ، مانا منڈوس زیادہ مشہور ہوٹل ہیں۔ تقریبا ً تمام ہوٹلوں میں ڈش انٹینا، ٹیلی فون ، گرم پانی، بہترین کھانوں، اوپن ایئر باربی کیو کی سہولیات بآسانی دستیاب ہیں۔
شوگران کے مشرق میں سری پائے اور مکڑا پہاڑموجود ہیں۔ یہاں سے مغرب میں موسیٰ کا مصلیٰ اپنے جلوے دکھا کر با ہمت سیاحوں کو اپنی چٹانوں پر کوہ نور دی کی دعوت دے رہا ہے۔ شمال میں پبرنگ ، مانا مینڈوس ، شنکیاری کے مقامات دیکھنے کو ملتے ہیں ۔جبکہ جنوب میں پرسُکوت گھنا جنگل اپنی دھاک بٹھا رہا ہے۔نواحی چراگاہوں اور سیاحت کے قابل مقامات میں سری پائے ، مانا منڈوس، مانشی ، درشی ، شاڑان،شنکیاری ہٹ زیادہ معروف اور پرسکون ہیں۔ نواحی جنگلات میں مگری، مالکنڈی ، جوانس، لولانی، بیرنگ اور کھیتراتنے گھنے ہیں کہ دن کو بھی ان کی تہہ تک سورج کی روشنی نہیں پہنچ پاتی۔ شوگران کے مغرب میں شٹران کے دیدنی نظارے دل موہ لیتے ہیں۔ درشی کا بن (جنگل)کئی رومانوی داستانوں سے اٹا پڑا ہے۔جرید اور پارس میں اخروٹ اور دیار کی لکڑی پر ہنر مند بہت دیدہ زیب وڈورک کرتے ہیں۔ یہی نفیس وڈ ورک اور فرنیچر شوگران میں سووینیر اور تحائف کی دُکانوں سے بآسانی اور مناسب قیمت پر دستیاب ہیں۔
موسم گرما میں بھی یہاں رات بہت سرد ہوتی ہے۔ حتی کہ لحاف یا کمبل میں بھی شدید ٹھنڈ لگتی ہے۔ موسم برسات میں شوگران میں بہت زیادہ بارش پڑتی ہے اور یوں جگہ جگہ نت نئی جڑی بوٹیاں افزائش پکڑتی نظر آتی ہیں ۔کئی گمنام اور کار آمد جڑی بوٹیوں کے علاوہ عام مقامی طور پر استعمال ہونے والی جڑی بوٹیاں موشکی بالا ( بخار، گھوڑی، جبڑے (بخار کے لیے اکسیر)، سور گنڈہ، چورہ،نیرہ، پتریس، ماہ میخ( کمردرد) کھٹ وغیرہ اہم ہیں۔
صبح کے دھندلکے میں باریک موڑوں پر سے گزرتے ہوئے کنڈ بنگلہ (2500میٹر بلند) کا منظربہت دیدنی ہوتا ہے ۔شدن گلی تک اپنے سازو سامان کو لے جانے کے لیے گھوڑے کا انتظام بھی اشد ضروری ہے ۔ شدن گلی سے آگے چاقو کی دھار کی مانند پہاڑوں پر چلتے چلتے ہم ”وادی کاغان “اور ”سیرن“ کا دو طرفہ نظارہ کر سکتے ہیں۔ ہو سکتا ہے ہمیں دونوںا طراف مقامی آبادی کی طرف سے لگائی جانے والی آگ سے واسطہ پڑ جائے جو وہ گھاس کو بارش ہونے سے قبل لگاتے ہیں تاکہ بارش کے بعد گھاس بہتر اُگ سکے ۔شدل کاغان سے سیرن آنے جانے والوں کاایک لازمی سٹاپ ہے۔ کہا جاتا ہے کہ موسیٰ ایک چرواہا تھا جس نے اس پہاڑی پر نماز ادا کر نے کی ٹھانی تھی ۔ آج بھی گوجر اس پہاڑ پر جا کر اپنے جانوروں کو اس قبر کی زیارت کراتے ہیں۔ چند بوڑھوں کے مطابق یہاں حضرت موسی ؑ خود آئے ۔یہاں سے ملکہ پربت اور بڑی بہک والی چوٹی کا سبز ڈھلوانوں کے پار نظارہ دل کو موہ لینے والا ہوتا ہے۔بکھری چٹانوں سے اُ بھری سطح (500میٹر لمبی )کے آخری کنارے پر پتھروں کے جمگھٹے پر کئی رنگ برنگے جھنڈے لہرا رہے ہوتے جو موسیٰ کا مصلیٰ کی چوٹی کا نشان منزل ہیں۔ اگر ہم نے چشمہ وغیرہ نہ پہنا ہو توموسیٰ کے مصلیٰ پر سورج کی تیر شعاعوں میں سے الٹر اوائیلٹ (اوپری بنفشی شعاعیں)آنکھوں کو بہت تکلیف دیتی ہیں۔
موسیٰ کا مصلیٰ ، ڈھیر پر اسی اور ملکہ پربت کی چوٹیاں شوگران سے نمایاں نظر آتی ہیں۔ موسیٰ کا مصلیٰ کے دامن میں نباتات سے بھرپور مقام شاڑان بھی واقع ہے۔موسیٰ کا مصلیٰ بچھی ہوئی ایک چوٹی ہے جو دور سے دیکھنے میں قبر کی مانند لگتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ یہیں بلند چوٹی پر کسی بزرگ کی قبر بھی ہے جس پر ایک چٹان سایہ فگن بھی رہتی ہے۔ٹریکنگ کے شائقین میں مقبول عام، 13200 تا13400 فٹ بلند برف میں اٹی مسطح چوٹی ”موسیٰ کا مصلیٰ “بھی شوگران سے مغرب کی جانب پہاڑوں پر ہاشیے کی مانندنمایاں دکھائی دیتی ہے اور اس کی چیڑ اور دیودار کے درختوں سے لبریز ہریالی سے بھر پور ڈھلوانیں سیاحوں کے لیے بہت پرکشش ہیں۔ڈمگلہ سے 30کلو میٹر دور اس چوٹی پر چڑھائی کے لیے تین نمایاں روٹ ذیل ہیں۔
اول شنکیاری شاہراہ قراقرم سے متصل، کنڈبنگلہ(8200فٹ بلند)، شہد پانی ،شدن گلی (فارسٹ ریسٹ ہاﺅس بھی موجود ہے) ٹھڈ گلی( ریسٹ ہاﺅس کے لیے معروف ہے)۔دوئم، ڈاڈر، جبوڑی، سانچے (یہ نسبتاًآسان ہے)۔سوئم ،شاڑان ،مالیاں کے راستے سے ہے۔
مکڑا کی چوٹی بالاکوٹ سے مغرب میں واقع ہے ۔اس چوٹی کا نظارہ بھی شوگران سے ممکن ہے ۔ اس چوٹی کے جنوب میں ”نالہ لوندی“ واقع ہے۔مکڑے کی مانند بچی ڈھلوانیں لیے، زیریں کاغان میں منفرد ،”مکڑا “پر چڑھائی کے لیے شوگران سے سیری کا مشکل سے بھر پور پیدل ٹریک کر کے ہم مکڑا کے بیس کیمپ تک پہنچ سکتے ہیں ۔ دوحصوں پر مشتمل برف میں مستور اِس چوٹی پر جانا عام میدانی سیاح کے لیے جوئے شیر لانے کے مترادف ہے کیونکہ بلندی بڑھنے کے ساتھ ساتھ آکسیجن کم ہوتی چلی جاتی ہے۔مکڑا چوٹی کو برسات کے موسم میں اُس وقت سرکرنا کہ جب موسم دھندلا ہو اور گہرے بادل چھائے ہوں ،خطرے سے خالی نہیں ہوتا۔ کیونکہ یہاں ، بادلوں کے پھٹنے (Cloud burst )کے خطرات عموماً رہتے ہیں۔ بلندی پر بارش کے دوران بجلی کے چمکنے گرجنے کی آواز کمزور دل حضرات کا پتہ پانی کرنے کے لیے کافی ہوتے ہیں ۔ یہاں غیظ و غضب کا پیکر مختلف بادل باہم بلند آوازی کا مقابلہ کرتے نظر آتے ہیں۔یہاں پر سردی کا مقابلہ صرف نواحی ڈھلوانوں پر جا بجا بکھری گذشتہ سال درختوں سے گری بچی پڑی خشک ٹہنیوں کو ایک جگہ اکھٹا کر کے جلانے کے بعد ہی کیا جا سکتا ہے۔شوگران سے ”گھوڑی“تک 3یوم کاٹریک بھی کیا جا سکتا ہے ۔ سری (8800فٹ بلند)اور پائے( 9500 فٹ بلند)کی خوبصورت چراگاہوں کے نواح سے گزر کر ہم 13700 فٹ بلند مکڑا کی چوٹی پر پہنچتے ہیں۔ 4055 میٹر بلند، وہیل مچھلی کی کمر سے مشابہت رکھنے والی، مشرق میں وادی کاغان اور مغرب میں وادی سیرن کے درمیان حد فاصل کا کام دینے والی ،اَن چھوئی برف میں مستور چوٹی پر چڑھنا اگرچہ حقیقی معیاری کوہ نوردکا معیار نہیں ہے لیکن ابتدائی کوہ نورد اس تک چڑھ کر بہت طمانیت محسوس کرتے ہیں۔ صرف موسم سرما میں کوہ پیماﺅں کے لیے یہ چوٹی اس پر پڑی کئی میٹر تازہ اور پرانی برف کی تہہ کی وجہ سے تھوڑی بہت مشکلات پیدا کرسکتی ہے۔ صرف کم بلند پہاڑوں پر چڑھنے کے شوقین حضرات کے لیے یہ جنت ہے۔مکڑا کی بلندی پکڑتی ڈھلوانوں پر ہمیں کئی سرخ گالوں والے چروا ہوں سے ملاقات کا نادر موقع ملتا ہے جو ہماری ذہنی حالت (کہ ہم کیوں خود کو جوکھوں میں ڈال رہے ہیں) پر حیرت زدہ ہوکر ترس کھانے لگتے ہیں۔اکتوبر کے مہینے میں یہاں صرف گندے پانی کے چند حوض رہ جاتے ہیں جبکہ جون جولائی کے ماہ یہاں قسمت آزمائی کے لیے موزوں ترین ہیں۔
مکڑا سے مزید 2تا 3یوم آگے کا ٹریک شہری شورو شغب سے دور دراز ہمیں فطرت کے قریب تر کر دیتا ہے۔ لیکن اس ٹریک کو سر کرنے کے لوازمات میں ایک تجربہ کار سفری راہنمااوّل ہے ۔ بلندی پر کھانے کے لیے پیاز،ٹافیاں ،سورج کی بالا بنفشی شعاﺅں سے بچاﺅ کے لیے سن برن کریم اور کناری ٹوپی ،اشیائے خوردو نوش (اُبلے ہوئے انڈے، ڈبل روٹی، نمکو، کباب، چنے ، اخروٹ ، بادام،چیونگم پھل وغیرہ ) چڑھائی چڑھنے کے لیے ایک چھڑی اور خیمہ جات اور چولہا از حد ضروری ہیں۔
وادی کاغان کی طرف ”نادی بنگلہ“کا ریسٹ ہاﺅس ٹھہرنے اور موسیٰ کے مصلیٰ کی چڑھائی سے حاصل ہوئیں تھکاوٹیں اتارنے کے لیے مثالی جگہ ہے۔
کوائی سے شمال مغرب میں واقع 13374 فٹ بلند موسیٰ کے مصلیٰ کے نواح میںکئی بار ہمارا سامنا بکریوں کی بد بو سے بھر پور قطار اندر قطار بکر والوں کے قافلے سے ہوتا اور اُن کے مالک اپنی آوازوں سے سیٹیاں بجاتے ملتے ہیں تو ان پہاڑوں میں بھی زندگی کا احساس ہوتا ہے۔ نیلے آسمان پر عقابوں کے جوڑے ہمیں امن کی سلطنت میں بے جا دخل اندازی پر گھورتے دکھائی دینے لگتے ہیں۔
کچی پکی دودھیا برف کے سرکتے تودے ،جھرنے اور آبشاریں اور طلوع آفتاب کے سنہرے مناظر ،شفق رنگ ،بے امان حسن فطرت اس علاقے کی اہم خصوصیت ہے۔
سیاحوں کے لیے شوگران میں انواع و اقسام کی دلچسپیاں ہیں۔ گھڑ سواری ، ہائیکنگ ،پہاڑوں میں پیدل چلنا ، سرما میں سکیٹنگ، پرندوں کا مطالعہ کرنا ، نباتات اور جڑی بوٹیوں کاملاحظہ کرنا اور انہیں جمع کرنا، ہوٹلوں کی چھتوںپر بیٹھ کر دور برف پوش چوٹیوں کا دنگ کر دینے والا نظارہ کرنا، مقامی آبادی کے طرز زندگی کا بغور جائزہ لینا، جیپ پر لٹک کر سفر کرنا، ڈھلوانوں پر ننگے پاﺅں گھاس کے لمس کو محسوس کرنا، پھولوں کے حُسن کا نظارہ کرنا ،سرد موسم میں دھوپ تلے سستا نا، ابرو ہوا کے ساتھ ساتھ بہشت میں پیدل سفر ، مون سون بارشوںسے افزائش کرتی نباتات کے مظاہر دیکھنا ، یہاں کی مقبول عام سرگر میاں ثابت ہو سکتی ہیں۔شوگران کے سبزہ زار ہمیں اپنے جلو میں خیمہ لگا کر گھر بار سے دور ویرانوں میں کھلے آسمان تلے نئے انداز زندگی سے متعارف ہونے کا موقع فراہم کرتے ہیں۔چاندنی رات میں شوگران میں بستر سے نکل کر سردی میں نہ ٹھٹھرا جائے یہ ممکنات میں سے نہیں۔
شہری زندگی کی کثافتوں ، ٹریفک کے شور شرابے، موبائل فون کی مسلسل گھنٹیوں ،ہر دم بڑھتے ذہنی تناﺅ ، مادیت پرستی کی دوڑ جیسے مسائل سے دور شوگران ،جہاں جرائم نہ ہونے کے برابر ہیں،آپ کو فطرت کی قربت کا موقع فراہم کرتے ہوئے انجانی خوشی سے روشناس کراتا ہے۔
شوگران کی نئی دنیا جہاں بزرگ سستا رہے ہوتے ہیں ،بچے ہر لمحہ ’ٹِپ‘ کا مطالبہ کر رہے ہوتے ہیں،مادی زندگی کے جھمیلوںکو پیچھے چھوڑنے اور چند لمحے اپنے لیے بیتانے کا مثالی وقت فراہم کرتی ہے۔
ربط
http://pak.net/?p=5928
 
شوگران کی کچھ تصاویر

shogran_.jpg

Shogran.jpg

213408%252Cxcitefun-shogran-valley-1.jpg

Payee---Shogran---Kaghan-Valley---Pakistan-2491big.jpg
 

عائشہ عزیز

لائبریرین
ارے یہ وادی سچی میں بھی ہے۔۔میں تو سمجھی ایسے نام جاسوسی ناولز میں ہی ہوتے ہیں۔ اشتیاق احمد کے ناول میں کہیں یہ نام پڑھا تھا یا شاید عمران سیریز میں :)
 
ارے یہ وادی سچی میں بھی ہے۔۔میں تو سمجھی ایسے نام جاسوسی ناولز میں ہی ہوتے ہیں۔ اشتیاق احمد کے ناول میں کہیں یہ نام پڑھا تھا یا شاید عمران سیریز میں :)
صرف یہ نہیں بلکہ کاغان،ناران،دیوسائی وغیرہ بھی "اصل" ہیں:)
 

مہ جبین

محفلین
اور تم اپنے رب کی کن کن نعمتوں کو جھٹلاؤگے

بے شک اللہ نے ہمارے ملک کو بہت خوبصورتی اور رعنائی عطا کی ہے
 

سید ذیشان

محفلین
ارے یہ وادی سچی میں بھی ہے۔۔میں تو سمجھی ایسے نام جاسوسی ناولز میں ہی ہوتے ہیں۔ اشتیاق احمد کے ناول میں کہیں یہ نام پڑھا تھا یا شاید عمران سیریز میں :)

عمران سیریز والا شوگراں چائنا ہے :p
چائنا = چینی، شوگر = چینی
 
اللہ کی ناشکری کسی بھی حال میں نہیں بیٹا
کم از کم دل دماغ ، ہاتھ پیر اور تمام اعضاء تو سلامت دیئے ہیں نا؟؟؟؟
نہیں ایسی ناشکری کے کلمات کبھی نہ کہنا
ارے آنٹی جی میرا مطلب اپنی شکل و صورت سے نہیں تھا:noxxx:
میں تو پاکستان کے ساتھ ہم لوگوں کے رویوں کو "بد صورتی" کہہ رہا تھا :rolleyes:
 

مہ جبین

محفلین
ارے آنٹی جی میرا مطلب اپنی شکل و صورت سے نہیں تھا:noxxx:
میں تو پاکستان کے ساتھ ہم لوگوں کے رویوں کو "بد صورتی" کہہ رہا تھا :rolleyes:
لیکن یہ بدصورتی اللہ نے تھوڑی دی ہے یہ تو ہمارے اپنے کارنامے ہیں :(
ہم خود ہی اپنے پاؤں پر کلہاڑی مارتے ہیں ناقدری کرکے :sad:
 
Top