محمد تابش صدیقی
منتظم
فیس بک پر میرے مختصر تاثرات وارث بھائی کے تعارف کے لیے۔
مجھے نہیں معلوم کہ وارث بھائی سے تعلق کو کیا نام دوں؟
ان سے کبھی ملاقات نہ ہوئی، مگر ان کی رحلت سے ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ گویا کوئی بہت قریبی رخصت ہو گیا ہے۔
میں اگر انھیں استاد کہوں تو بے جا نہ ہو گا۔
انھیں بڑا بھائی کہوں تو غلط نہ ہو گا۔
موجودہ دور میں وہ مجھ جیسے کتنے ہی احباب کہ لیے فارسی شعراء اور شاعری کا تعارف تھے۔
قتیلِ غالبؔ تھے اور زندگی بھر غالبؔ سے اس روحانی تعلق کو نبھایا۔ اسی محبت میں تخلص بھی اسدؔ اپنایا۔
ان جیسے کتاب دوست، بلکہ عاشقِ کتاب کم ہی دیکھے۔
مطالعہ ان کا سب سے مرغوب مشغلہ تھا۔
اردو عروض کا گہرائی و گیرائی کے ساتھ علم رکھتے تھے، اور مجھ جیسے مبتدی شعراء کی رہنمائی کرنے میں پیش پیش رہتے تھے۔
فارسی زبان و ادب سے خاص لگاؤ تھا۔ اور پسندیدہ شعراء کے فارسی کلام کا اردو ترجمہ گاہے گاہے پیش کرتے رہتے تھے۔ جس کی ایک جھلک آپ ان کے فیس بک پیج نقش ہائے رنگ رنگ پر ملاحظہ فرما سکتے ہیں۔
شاعری کم کی، مگر کلام بہت معیاری ہے۔
دو غزلیں ملاحظہ کیجیے:
تازہ ہوا کا جھونکا بنایا گیا مجھے
دنیائے بے نمو میں پھرایا گیا مجھے
میں آنکھ سے گرا تو زمیں کے صدف میں تھا
بہرِ جمالِ عرش اُٹھایا گیا مجھے
سازش میں کون کون تھا، مجھ کو نہیں ہے علم
مُصحَف میں اک ہی نام بتایا گیا مجھے
بخشی گئی بہشت مجھے کس حساب میں؟
دوزخ میں کس بنا پہ جلایا گیا مجھے؟
چیخا کبھی جو دہر کے ظلم و ستم پہ میں
قسمت کی لوری دے کے سُلایا گیا مجھے
بیدادِ دہر نے جو کیا سنگ دل ہمیں
تو کربلا دکھا کے رُلایا گیا مجھے
تسخیرِ کائنات کا تھا مرحلہ اسدؔ
یوں ہی نہیں یہ علم سکھایا گیا مجھے
٭٭٭
آرزوئے بہار لاحاصِل
عشقِ ناپائدار لاحاصِل
قیدِ فطرت میں تُو ہے پروانے
تیرا ہونا نثار لاحاصِل
ہے شفاعت اگر بُروں کے لیے
نیکیوں کا شمار لاحاصِل
دلِ دنیا ہے سنگِ مرمر کا
لاکھ کر لو پکار، لاحاصِل
شعر و گُل میں ڈھلے اسدؔ لمحے
کب رہا انتظار لاحاصِل
٭٭٭
علم کا سمندر تھے، ہر معاملے پر رائے دینے سے گریز کرتے تھے۔ مگر جب رائے دیتے تھے تو انتہائی مدلل اور جامع ہوتی تھی۔ اختلافی آراء دیتے ہوئے بھی شائستگی کا دامن نہ چھوڑتے تھے۔
جس کام کا بھی بیڑا اٹھایا، اسے انتہائی اخلاص اور تندہی سے کیا۔ سخنور ایسے کہ اگر شہرت طلب ہوتے تو بہت پذیرائی ملتی، مگر داد و شہرت کی طلب کبھی ان کے قریب بھی نہ پھٹکی۔
خاموش طبع تھے۔ پہلے تولو، پھر بولو کی عملی تفسیر تھے۔ کبھی اپنی تکالیف و مشکلات کا تذکرہ نہ کیا۔ اس بات ہی سے اندازہ لگا لیجیے، کہ جو بیماری انتقال کا سبب بنی، ان سے اتنا عرصہ کے تعلق کے باوجود مجھ سمیت اکثر احباب اس سے ناواقف تھے۔
ان سے تعلق اردو محفل کی وجہ سے جڑا
اور اردو محفل سے تعلق ان کی وجہ سے جڑا
ان کا کام ان کے بلاگ پر، اردو محفل پر جا بجا موجود ہے۔ جس میں علمِ عروض پر ان کی تحاریر اور آراء، فارسی شعراء کے کلام کا اردو ترجمہ، تبصرہ کتب وغیرہ شامل ہے۔ اگر کوئی فرد اس کام کو یکجا کرنے کا بیڑہ اٹھا سکے تو یہ اردو دب کے حوالے سے ان کی خدمات کا ہم پر قرض ہے۔ یہ ان کی ہمارے لیے چھوڑی گئی میراث ہے۔
اللہ تعالیٰ وارث بھائی کی مغفرت فرمائے، ان کے درجات بلند فرمائے، اور لواحقین کو صبر عطا فرمائے۔ آمین
مجھے نہیں معلوم کہ وارث بھائی سے تعلق کو کیا نام دوں؟
ان سے کبھی ملاقات نہ ہوئی، مگر ان کی رحلت سے ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ گویا کوئی بہت قریبی رخصت ہو گیا ہے۔
میں اگر انھیں استاد کہوں تو بے جا نہ ہو گا۔
انھیں بڑا بھائی کہوں تو غلط نہ ہو گا۔
موجودہ دور میں وہ مجھ جیسے کتنے ہی احباب کہ لیے فارسی شعراء اور شاعری کا تعارف تھے۔
قتیلِ غالبؔ تھے اور زندگی بھر غالبؔ سے اس روحانی تعلق کو نبھایا۔ اسی محبت میں تخلص بھی اسدؔ اپنایا۔
ان جیسے کتاب دوست، بلکہ عاشقِ کتاب کم ہی دیکھے۔
مطالعہ ان کا سب سے مرغوب مشغلہ تھا۔
اردو عروض کا گہرائی و گیرائی کے ساتھ علم رکھتے تھے، اور مجھ جیسے مبتدی شعراء کی رہنمائی کرنے میں پیش پیش رہتے تھے۔
فارسی زبان و ادب سے خاص لگاؤ تھا۔ اور پسندیدہ شعراء کے فارسی کلام کا اردو ترجمہ گاہے گاہے پیش کرتے رہتے تھے۔ جس کی ایک جھلک آپ ان کے فیس بک پیج نقش ہائے رنگ رنگ پر ملاحظہ فرما سکتے ہیں۔
شاعری کم کی، مگر کلام بہت معیاری ہے۔
دو غزلیں ملاحظہ کیجیے:
تازہ ہوا کا جھونکا بنایا گیا مجھے
دنیائے بے نمو میں پھرایا گیا مجھے
میں آنکھ سے گرا تو زمیں کے صدف میں تھا
بہرِ جمالِ عرش اُٹھایا گیا مجھے
سازش میں کون کون تھا، مجھ کو نہیں ہے علم
مُصحَف میں اک ہی نام بتایا گیا مجھے
بخشی گئی بہشت مجھے کس حساب میں؟
دوزخ میں کس بنا پہ جلایا گیا مجھے؟
چیخا کبھی جو دہر کے ظلم و ستم پہ میں
قسمت کی لوری دے کے سُلایا گیا مجھے
بیدادِ دہر نے جو کیا سنگ دل ہمیں
تو کربلا دکھا کے رُلایا گیا مجھے
تسخیرِ کائنات کا تھا مرحلہ اسدؔ
یوں ہی نہیں یہ علم سکھایا گیا مجھے
٭٭٭
آرزوئے بہار لاحاصِل
عشقِ ناپائدار لاحاصِل
قیدِ فطرت میں تُو ہے پروانے
تیرا ہونا نثار لاحاصِل
ہے شفاعت اگر بُروں کے لیے
نیکیوں کا شمار لاحاصِل
دلِ دنیا ہے سنگِ مرمر کا
لاکھ کر لو پکار، لاحاصِل
شعر و گُل میں ڈھلے اسدؔ لمحے
کب رہا انتظار لاحاصِل
٭٭٭
علم کا سمندر تھے، ہر معاملے پر رائے دینے سے گریز کرتے تھے۔ مگر جب رائے دیتے تھے تو انتہائی مدلل اور جامع ہوتی تھی۔ اختلافی آراء دیتے ہوئے بھی شائستگی کا دامن نہ چھوڑتے تھے۔
جس کام کا بھی بیڑا اٹھایا، اسے انتہائی اخلاص اور تندہی سے کیا۔ سخنور ایسے کہ اگر شہرت طلب ہوتے تو بہت پذیرائی ملتی، مگر داد و شہرت کی طلب کبھی ان کے قریب بھی نہ پھٹکی۔
خاموش طبع تھے۔ پہلے تولو، پھر بولو کی عملی تفسیر تھے۔ کبھی اپنی تکالیف و مشکلات کا تذکرہ نہ کیا۔ اس بات ہی سے اندازہ لگا لیجیے، کہ جو بیماری انتقال کا سبب بنی، ان سے اتنا عرصہ کے تعلق کے باوجود مجھ سمیت اکثر احباب اس سے ناواقف تھے۔
ان سے تعلق اردو محفل کی وجہ سے جڑا
اور اردو محفل سے تعلق ان کی وجہ سے جڑا
ان کا کام ان کے بلاگ پر، اردو محفل پر جا بجا موجود ہے۔ جس میں علمِ عروض پر ان کی تحاریر اور آراء، فارسی شعراء کے کلام کا اردو ترجمہ، تبصرہ کتب وغیرہ شامل ہے۔ اگر کوئی فرد اس کام کو یکجا کرنے کا بیڑہ اٹھا سکے تو یہ اردو دب کے حوالے سے ان کی خدمات کا ہم پر قرض ہے۔ یہ ان کی ہمارے لیے چھوڑی گئی میراث ہے۔
اللہ تعالیٰ وارث بھائی کی مغفرت فرمائے، ان کے درجات بلند فرمائے، اور لواحقین کو صبر عطا فرمائے۔ آمین