وحدت الوجود کیا ہے؟

یہاں پر اس موضون کا دھاگا کھولنے کا مقصد مذہبی پنڈتوں سے اس کے حق میں یا اس کے خلاف رائے لینا نہیں بس صرف آپ یعنی ممبران سے یہ معلوم کرنا ہے کہ آخر وحدت الوجود آپ کے نزدیک ہے کیا ؟
آپ صرف اپنی رائے دیجئے یا اس اصطلاح کی وہ تعریف کر دیجئے جو آپ کی رائے میں اس اصطلاح کا مفہوم بنتا ہو۔ اگر کسی کی رائے آپ کو پسند نہ بھی آئے تو برائے مہربانی اس کو گالیاں مت دیجئے اور مذہب کے ٹھیکے دار کی حیثیت سے اس کے پیچھے نہ لگ جائیے بہت شکریہ صرف اپنا نقطہ نظر بیان کریں۔
 

فاتح

لائبریرین
صوفی ازم میں تمام موجودات کو وجودِ باری تعالیٰ کا حصہ سمجھنا۔
(اس سے زیادہ لکھنا اس عقیدے کے حق میں یا اس کے خلاف ٹھیکے داری کے زمرہ میں آ جائے گا;) اس لیے اسی پر قناعت کیجیے)
 

دوست

محفلین
تجھ میں رب دکھتا ہے یارا میں کیا کروں
معذرت میرے ذہن میں فٹ یہ گانا چکرانے لگا سو لکھ دیا۔
 
صوفی ازم میں تمام موجودات کو وجودِ باری تعالیٰ کا حصہ سمجھنا۔
(اس سے زیادہ لکھنا اس عقیدے کے حق میں یا اس کے خلاف ٹھیکے داری کے زمرہ میں آ جائے گا;) اس لیے اسی پر قناعت کیجیے)

دوسرے لفظوں میں تمام موجودات کو وجود باری تعالی سے موجود سمجھنا ؟ یا وجود صرف باری تعالی کا سمجھنا ؟
 

فرخ منظور

لائبریرین
دوسرے لفظوں میں تمام موجودات کو وجود باری تعالی سے موجود سمجھنا ؟ یا وجود صرف باری تعالی کا سمجھنا ؟

تصوف میں خدا کائنات میں جاری و ساری ہے جبکہ شریعت میں خدا کا وجود کائنات سے علیحدہ اور شخصی ہے۔
 

فرخ منظور

لائبریرین
تو کیا شریعت والے تصوف پر ایمان نہیں رکھتے اور صوفی شریعت پر ایمان نہیں رکھتے ؟

میرے خیال میں خدا کا تصور ان دونوں میں مختلف ہے۔ اور کچھ صوفیوں کا شریعت کی طرف زیادہ جھکاؤ ہے اور کچھ کا تصوف کی طرف زیادہ ۔ جیسے حضرت علی ہجویری صوفی ہوتے ہوئے بھی شریعت کی طرف زیادہ مائل دکھائی دیتے ہیں اسی طرح بلھے شاہ شریعت کی بجائے، طریقت اور تصوف کی طرف مائل نظر آتے ہیں۔
 

الف نظامی

لائبریرین
طریقت ساڈی مائی اے
شریعت ساڈی دائی اے
شاید یہ شعر بلھے شاہ کا ہے۔ یا یہ شعر ایسے ہوگا صحیح ترتیب یاد نہیں
شریعت ساڈی مائی اے
طریقت ساڈی دائی اے
 

فرخ منظور

لائبریرین
طریقت ساڈی مائی اے
شریعت ساڈی دائی اے
شاید یہ شعر بلھے شاہ کا ہے۔ یا یہ شعر ایسے ہوگا صحیح ترتیب یاد نہیں
شریعت ساڈی مائی اے
طریقت ساڈی دائی اے

یہ شعر بلھے شاہ کا ہرگز نہیں ہے۔ ایسے شعر بلھے شاہ نے کبھی نہیں‌ کہے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
طریقت ساڈی مائی اے
شریعت ساڈی دائی اے
شاید یہ شعر بلھے شاہ کا ہے۔ یا یہ شعر ایسے ہوگا صحیح ترتیب یاد نہیں
شریعت ساڈی مائی اے
طریقت ساڈی دائی اے

جہاں تک میرے ناقص علم میں ہے یہ شعر بلھے شاہ کا ہی ہے، اور ترتیب یہ ہے

شریعت ساڈی مائی اے
طریقت ساڈی دائی اے

(بحوالہ بحرِ بلّھا از صوفی صوفی محمد الدین چشتی نظامی قصوری، بر سبیلِ تذکرہ، یہ کتاب بلھے شاہ کی ایک کافی 'عشق دی نویوں نویں بہار' کی عارفانہ تشریح ہے!)
 

الف نظامی

لائبریرین
سخنور صاحب آپ کے مطالعہ کے لئے:
سوال نمبر 14 : طریقت و تصوف سے کیا مراد ہے؟

جواب : طریقت درحقیقت شریعت ہی کا باطن ہے۔ شریعت جن اعمال و احکام کی تکمیل کا نام ہے ان اعمال و احکام کو حسن نیت اور حسن اخلاص کے کمال سے آراستہ کر کے نتائجِ شریعت کو درجہ احسان پر فائز کرنے کی کوشش علم الطریقت اور تصوف کی بنیاد ہے۔

شیخ احمد سرھندی اپنے ایک مکتوب میں لکھتے ہیں :

’’شریعت و حقیقت ایک دوسرے کا بالکل عین ہیں اور حقیقت میں ایک دوسرے سے الگ اور جدا نہیں ہیں فرق صرف اجمال و تفصیل، کشف و استدلال، غیبت و شہادت اور عدم و تکلف کا ہے۔‘‘

شيخ احمد سرهندی، مکتوبات امام ربانی، 2 : 255

اس کو ایک مثال کے ذریعے یوں سمجھ لیجئے :

اگر کوئی شخص ظاہری شرائط و ارکان کے مطابق نماز ادا کرتا ہے تو فرضیت کے اعتبار سے اس کی نماز ادا تو ہو جائے گی لیکن اس کے باطنی تقاضے پورے نہیں ہوں گے اس لیے کہ نماز میں جس طرح اس کا چہرہ کعبہ کی طرف ہوتا ہے اسی طرح ضروری ہے کہ اس کے قلب و روح کا قبلہ بھی رب کعبہ کی طرف ہوا اور جسم کے ساتھ ساتھ اس کا قلب اور روح بھی خالقِ حقیقی کی طرف متوجہ ہو یہ قلبی اور باطنی کيفیات ہیں جس سے بندے کو روحانی مشاہدہ نصیب ہو جاتا ہے اور ایمان اور اسلام دونوں کو جلا ملتی ہے۔ تصوف کا منشاء انہی روحانی کيفیات کو اجاگر کرنا ہے۔ اس روحانی ترقی اور فروغ کے لئے جو طریقے اہل اﷲ نے وضع کیے ہیں انہیں طریقت کہتے ہیں۔ ان طریقوں کو اصطلاحاً علم التزکیہ و علم التصوف بھی کہتے ہیں وہ بزرگ ہستیاں جنہوں نے قلب و باطن کی تطہیر اور اصلاح و تصفیہ کی خیرات اخلاقی و روحانی تربیت سے امت مسلمہ میں تقسیم کی وہ صوفیاء کرام اور اولیاء اﷲ کہلاتے ہیں۔
سوال نمبر 15 : کیا شریعت کے بغیر محض طریقت پر عمل کرنا کافی نہیں؟

جواب : نہیں ہرگز نہیں! شریعت کے بغیر طریقت کی راہ پر ایک قدم آگے نہیں بڑھ سکتے اور جو لوگ ایسا کرتے ہیں وہ دین میں ملحد و زندیق ہیں اور ایسا عقیدہ رکھنے والا کوئی جھوٹا مبلغ، صوفی یا جعلی پیر جو لوگوں کو دعوت کے اس اصول پر بلاتا ہے وہ خود بھی جہنمی ہے اور دوسروں کو بھی جہنم میں لے جا رہا ہے۔ ایسے آدمی کی صحبت سے بچنا چاہیے کیونکہ شریعت اور اسلام میں کسی شخص کے لئے کوئی استثنیٰ اور چھوٹ نہیں علمِ باطن وہی قابلِ قبول ہے جو شرعی علم ظاہر کا پابند ہو۔ ظاہر و باطن لازم و ملزوم ہیں مثلاً جب کوئی چوری کرتا ہے تو وہ گناہ ایک سیاہ نقطے کی طرح اس کے قلب پر لگ جاتا ہے اور اس کا جو نقش انسان کے دل اور روح پر ثبت ہوتا ہے اور جو کيفیات اس کے اندر مرتب ہوتی ہیں اسے باطن سے تعبیر کرتے ہیں۔ اس سے پتا چلا کہ باطن ظاہر سے نکلا ہے۔ اسی طرح جب ہم نماز پڑھتے ہیں، روزہ رکھتے ہیں، قرآن مجید کی تلاوت کرتے ہیں، حج اور عمرہ ادا کرتے ہیں۔ الغرض جو بھی نیک عمل کرتے ہیں اس کا اثر قلب و روح پر ہوتا ہے اور اس کا عمل ایک نور بن جاتا ہے۔ جس سے اس کا دل منور ہو جاتا ہے۔ یہی اس عمل کا باطن ہے، اس سے ظاہر اور باطن کے تعلق کا پتا چلتا ہے اگرظاہر ہی نہ ہو تو باطن کہاں سے آئے گا۔

اس نکتے کو پھلوں کی مثال سے بھی سمجھا جا سکتا ہے۔ مثلاً کیلے کے اوپر چھلکا ہوتا ہے وہ اس پھل کا ظاہر ہے۔ اب اگر کوئی کہے کہ میں تو ظاہر کو مانتا ہی نہیں اور چھلکے کے بغیر کیلے خریدوں گا تو اس کا پھل جلد ضائع اور خراب ہوجائے گا کیونکہ اب اس پھل پر ظاہر کی حفاظت کا خول نہیں رہا۔ لہٰذا جس باطن پر ظاہر کی حفاظت نہ رہے وہ خراب ہو جاتا ہے۔ اسی طرح جو شریعت کے ظاہری احکام و امور کی اتباع سے ہٹ گیا تو یوں سمجھئے کہ اس کا باطن بگاڑ کا شکار ہو گیا۔ جب تک کوئی راہِ تصوف و طریقت میں ظاہر یعنی شریعت کا ظاہری اتباع پوری پابندی سے ملحوظ نہ رکھے اس وقت تک اس کا باطن پاک و صاف اور نورانی ہو ہی نہیں سکتا۔
سوال نمبر 16 : کیا ازروئے قرآن و حدیث شریعت کے بغیر محض طریقت پر عمل پیرا ہونا ممکن ہے؟

جواب : علم دین کا ظاہر ہو یا باطن یہ سارے چشمے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات گرامی کے اتباع سے پھوٹتے ہیں۔ جس علم کا ماخذ، منبع اور چشمہ بارگاہ نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نہیں پھوٹتا وہ باطل و مردود ہے۔ صرف وہی دین قابل قبول ہے جو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات پاک سے صادر ہو۔ سنت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قرآن مجید کے احکام کی عملی تفسیر ہے اور قرآن و سنت پر مبنی اوامر و نواہی کا نظام ہی تو شریعت کہلاتا ہے۔ قرآن مجید نے کئی مقامات پر واضح طور پر بیان فرما دیا :

وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانتَهُوا.

’’جو کچھ رسول اکرم ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) تمہیں عطا فرمائیں وہ لے لیا کرو اور جس سے منع فرما دیں اس سے رک جاؤ۔‘‘

الحشر، 59 : 7

اس لیے ایسی طریقت جس میں شریعت کا اتباع نہ ہو یا جو شریعت سے ہٹ کر ہو وہ باطل، مردود اور ناقابل قبول ہے۔

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

فقيه اَشدّ علی الشيطان من ألف عابدٍ.

’’شریعت کا علم رکھنے والا شخص، شیطان کے مقابلے میں ایک ہزار عبادت گزاروں سے افضل ہے۔‘‘

ترمذی، الجامع : 722، رقم : 2681، کتاب العلم، باب ما جاء فی فضل الفقه علی العبادة.

اور امام مالک بن انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :

’’جس نے فقہ یعنی علم ظاہر حاصل کیا مگر تصوف کو چھوڑ دیا وہ فاسق ہوا جس نے علم باطن کو لے لیا او رفقہ و شریعت کے ظاہری علم کو چھوڑ دیا وہ زندیق ہوا اور جس نے دونوں کو جمع کیا پس اس نے حق کو پا لیا۔‘‘

ملا علی قاری، مرقاة المفاتيح، 1 : 313

اس سے ثابت ہوا کہ بغیر شریعت کے طریقت مردود اور ناقابل قبول ہے۔
بحوالہ
 

فرخ منظور

لائبریرین
جہاں تک میرے ناقص علم میں ہے یہ شعر بلھے شاہ کا ہی ہے، اور ترتیب یہ ہے

شریعت ساڈی مائی اے
طریقت ساڈی دائی اے

(بحوالہ بحرِ بلّھا از صوفی صوفی محمد الدین چشتی نظامی قصوری، بر سبیلِ تذکرہ، یہ کتاب بلھے شاہ کی ایک کافی 'عشق دی نویوں نویں بہار' کی عارفانہ تشریح ہے!)

وارث صاحب بلھے شاہ اور امیر خسرو سے لاتعداد اشعار منسوب کئے جاتے ہیں۔ ضروری نہیں کہ کسی بھی کتاب میں اگر کوئی شعر بلھے شاہ کے حوالے سے لکھ دیا جائے تو بلھے شاہ کا ہی کہلائے گا۔ میرے پاس پنجابی ادبی بورڈ کی چھپی ہوئی "آکھیا بلھے شاہ" نے ہے اور آصف صاحب نے اسے مرتب کیا تھا۔ آصف صاحب ہر لحاظ سے معتبر اور متفقہ طور پر ایک بہترین محقق کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ اس کتاب میں میں نے ایسا کوئی شعر نہیں پڑھا ویسے تو ایک اور شعر بھی بلھے شاہ سے منسوب کیا جاتا ہے۔
جے توں پتر سائیں دا
وسا نہ کھائیں ارائیں دا
اوراسی طرح کے اور بھی بہت سے اشعار ہیں جو بلھے سے منسوب کئے جاتے ہیں۔
 

محمد وارث

لائبریرین
وارث صاحب بلھے شاہ اور امیر خسرو سے لاتعداد اشعار منسوب کئے جاتے ہیں۔ ضروری نہیں کہ کسی بھی کتاب میں اگر کوئی شعر بلھے شاہ کے حوالے سے لکھ دیا جائے تو بلھے شاہ کا ہی کہلائے گا۔ میرے پاس پنجابی ادبی بورڈ کی چھپی ہوئی "آکھیا بلھے شاہ" نے ہے اور آصف صاحب نے اسے مرتب کیا تھا۔ آصف صاحب ہر لحاظ سے معتبر اور متفقہ طور پر ایک بہترین محقق کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ اس کتاب میں میں نے ایسا کوئی شعر نہیں پڑھا ویسے تو ایک اور شعر بھی بلھے شاہ سے منسوب کیا جاتا ہے۔
جے توں پتر سائیں دا
وسا نہ کھائیں ارائیں دا
اوراسی طرح کے اور بھی بہت سے اشعار ہیں جو بلھے سے منسوب کئے جاتے ہیں۔


جی اسی لیے لکھا تھا کہ 'جہاں تک میرے "ناقص علم" میں ہے'!

منسوب کی خوب کہی، امیر خسرو کی مشہور و معروف و شہرہ آفاق نعت "نمی دانم چہ منزل بود شب جائے کہ من بودم' متفقہ طور پر تحقیق شدہ ہے کہ ان کے غزلیات کے پانچوں دواوین اور کلیات میں، جنہیں بڑے بڑے علماء و فصحاء نے مرتب کیا ہے، نہیں ہے، لیکن مانی انہی کی جاتی ہے۔

عرض کرنے کا مقصد یہ کہ جب تک کسی منسوب کلام کی بالتحقیق تردید نہ ہو جائے، چاہے وہ کسی کے مرتب کردہ کتاب میں ہو یا نہ ہو، منسوب الیہ ہی کی مانی جاتی ہے!

باقی مجھے اس سے کوئی غرض نہیں ہے کہ مذکورہ شعر کیا ہے اور کس کا ہے، میں نے فقط اپنی معلومات شیئر کی تھیں!
 

فرخ منظور

لائبریرین
جی اسی لیے لکھا تھا کہ 'جہاں تک میرے "ناقص علم" میں ہے'!

منسوب کی خوب کہی، امیر خسرو کی مشہور و معروف و شہرہ آفاق نعت "نمی دانم چہ منزل بود شب جائے کہ من بودم' متفقہ طور پر تحقیق شدہ ہے کہ ان کے غزلیات کے پانچوں دواوین اور کلیات میں، جنہیں بڑے بڑے علماء و فصحاء نے مرتب کیا ہے، نہیں ہے، لیکن مانی انہی کی جاتی ہے۔

عرض کرنے کا مقصد یہ کہ جب تک کسی منسوب کلام کی بالتحقیق تردید نہ ہو جائے، چاہے وہ کسی کے مرتب کردہ کتاب میں ہو یا نہ ہو، منسوب الیہ ہی کی مانی جاتی ہے!

باقی مجھے اس سے کوئی غرض نہیں ہے کہ مذکورہ شعر کیا ہے اور کس کا ہے، میں نے فقط اپنی معلومات شیئر کی تھیں!

حضور اگر میری کوئی بات بری لگی ہو تو معذرت چاہتا ہوں میں نے آج کے ایک مستند مجموعے کے حوالے سے بات کی تھی کہ اس مجموعے میں حشو و زوائد کو الگ کیا گیا ہے۔ اور اس مجموعے میں ایسا کوئی شعر نہیں ہے۔ ویسے بھی یہ تو شعر ہی بتا رہا ہے کہ وہ بلھے شاہ کا نہیں‌ ہے۔ یہ شعر کم اور نعرہ زیادہ نظر آتا ہے۔ جبکہ وہ نعت پکار پکار کر کہتی ہے کہ امیر خسرو ہی ایسی نعت لکھ سکتے ہیں۔ اس شعر اور اس نعت میں زمین و آسمان کا فرق ہے
 
الف نظامی صاحب کے جواب سے یہ بات واضح ہوئی کہ شریعت اور طریقت دونوں ایک ہی ہیں۔

الف نظامی صاحب آپ کے اس تفصیلی جواب سے یہ بات تو واضح ہو گئی کہ طریقت اور شریعت دونوں ایک ہی ہیں دونوں میں کوئی فرق نہیں اور اسلام میں صوفیہ بھی شریعت کے اتنے ہی پابند اور ایمان رکھنے والے ہیں جتنے کہ غیر صوفیہ ہیں اس سلسلے میں کسی تفریق کی کوئی گنجائش نہیں۔ اور نہ ہی تصوف اور شریعت کو دو الگ چیزیں کہہ کر فقہا کو شریعت اور صوفیا کو تصوف یا طریقت پر ایمان رکھنے والا جاننا چاہیے۔
لیکن سوال پھر بھی وہی ہے کہ وحدت الوجود کیا ہے ؟
 
Top