وحدت الوجود

محترم شاکر القادری صاحب۔ آپ کے پیش کردہ اقتسابات بہت مفید ھیں۔ جزاک اللہ خیر۔ گزارش ھے کہ اگر ممکن ھو تو وحدت الوجود و شہود کی تعریف،مختصر تاریخ اور خصوصاً علامہ اقبال رحہ کے وجودی و شہودی نظریاتی ارتقاء کے بارے میں فرمایئے۔ نیز ایک اور سوال عرض ھے کہ علامہ صاحب کی ایک معروف نعت (لوح بھی تو ،قلم بھی تو تیرا وجود الکتاب) ۔۔ ۔ کیا یہ نعت ھے؟ یا حمد باری تعالیٰ؟ بظاہر یہ سوال غیر ضمنی محسوس ھو رہا ہو گا۔ مگر میرے ذہن میں یہ معمہ اوپر والے سوال سے غیر متعلق نہ ہے اور یہ عقدہ آپ کی رہنمائی سے ضرور کشا ہو گا انشااللہ العزیز۔
 

چھوٹاغالبؔ

لائبریرین
بہت بہت زبردست شاکر صاحب، مزہ آگیا دیکھ کر یہ دھاگہ
میں ہوں تو چھوٹا سا غالبؔ مگر غالبؔ کو پڑھنے کیلئے یہ سب بھی سمجھنا اور پڑھنا پڑا
آپ نے بہت بہت زبردست تبصرے لکھے ہیں (مگر چونکہ آپ نے خاص خاص چنیدہ باتیں لکھ دیں ہے اس لیے کچھ لوگوں کو ابہام کی وجہ سے اعتراض ہوگا)
یہ مسئلہ الجھا ہوا تب تک تھا جب تک یونانیوں کے ہاں رہا، اور اس میں کئی ویک پوائنٹ بھی تھے
مگر اللہ تعالیٰ اجر دے مسلمان فلاسفہ ، صوفیا ، اور خاص طور پر شعرا مرزا عبدالقادر بیدل، اور مرزا اسد اللہ خان غالبؔ جنہوں نے اس مسئلے کو بامِ عروج تک پہنچایا، اور اس میں موجود تمام ابہام دور کیے
مجھے آپ سے تبادلہ خایل کر کے مزید سیکھنے کو ملے گا، اس لیے اس زبردست دھاگے کو جاری رہنا چاہیے
لیکن یہ بھی اپنی جگہ حقیقت ہے کہ اس مسئلے پر بات کرنا پل صراط پر چلنے کے مترادف ہے۔ اس لیے معترض دوستوں اور بھائیوں سے درخواست ہے جو تصوف اور فلسفہ کی شدھ بدھ نہیں رکھتے وہ براہ کرم اعتراضات سے اس دھاگے کا ٹیمپو نہ بگاڑیں
میرے جیسے طالب علم یہاں سے کافی کچھ سیکھیں گے
 
ش

شہزاد احمد

مہمان
اللہ تعالیٰ "خالق" ہے ۔۔۔ وحدت الوجود کے فلسفے کو ماننے والے عموماََ اسی عقیدے پر کاربند رہتے ہیں تو پھر ہم پر بھی لازم ہے کہ ہم خوش گمانی سے کام لیں ۔۔۔ اصل بات بھی یہی ہے ۔۔۔ "وحدت الوجود" کے فلسفے کے ماننے والوں میں سے شاید ہی کوئی ایسا ملے گا جو یہ کہے گا کہ ہم بھی خالق ہیں ہاں وہ اتنا ضرور کہہ دیتے ہیں کہ سب کچھ منجانب اللہ ہے ۔۔۔ فلسفیانہ موشگافیوں سے قطع نظر ایک وسیع تناظر میں یہ بات بالکل درست ہے کہ سب کچھ واقعی منجانب اللہ ہے۔۔۔ لیکن یہاں اس امر کا خاص خیال رکھنا چاہیے کہ معاملہ یہیں تک محدود رہے تو اچھا ہے ۔۔۔ بات آگے بڑھتی ہے تو معاملات الجھاؤ کی طرف چلے جاتے ہیں اور یہ نظریہ اسلام کے بنیادی فلسفے سے ٹکرانا شروع ہو جاتا ہے ۔۔۔ عمومی طور پر اس نظریے سے ہمیں بھی کوئی اختلاف نہیں لیکن اس نظریے کے پرچارک ابن عربی کے علاوہ بھی بہت سے اصحاب رہے ہیں اس لیے سبھی کی تعبیرات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے ۔۔۔ ہم تو ان سب سے خوش گمانی کا ہی معاملہ رکھتے ہیں لیکن ایسا بھی ہوا ہے کہ وحدت الوجود کے فلسفے پر یقین رکھنے والے اصحاب میں سے بعض نے، جن میں شعراء بھی شامل ہیں، ایسی ایسی تعبیرات کی ہیں کہ ہم اس فلسفے کی روح سے کافی دور نکل گئے ہیں اور اب ہمیں اس میں ایسے عناصر پنہاں ملتے ہیں جو اسلام کے بنیادی عقائد سے ٹکراتے ہوئے معلوم ہوتے ہیں لیکن سچ پوچھیے تو بہت کچھ نیت پر منحصر ہوتا ہے ۔۔۔ اگر کوئی وحدت الوجودی صوفی اللہ کو خالق ماننے کے ساتھ ساتھ یہ عقیدہ بھی رکھتا ہے کہ سب کچھ اسی کا پیدا کردہ ہے اور سب کچھ اسی کی طرف لوٹ جائے گا تو اس میں کیا غلط بات ہے؟ لیکن اس نظریے کا کوئی ماننے والا یہ کہنے لگ جائے کہ خالق اور مخلوق میں کوئی فرق ہی نہیں ہے تو یہاں سے یہ فلسفہ اسلام کے بنیادی عقائد سے متصادم ہو جاتا ہے ۔۔۔ لیکن وحدت الوجودی فلسفے کے ماننے والے عموماََ ایسا نہیں سمجھتے ۔۔۔ اس لیے خوش گمانی رکھنا بہرصورت بہتر ہو گا ۔۔۔
 

پپو

محفلین
یہ ایسا معاملہ ہے جس کا تعلق مشاہدہ سے ہے اور لوگ اس کو گفتگو سے حل کرنے کی کوشش کرتے ہیں یہی سب سے بڑی خامی ہے
اگر "" لوہا آگ میں تپ جانے کے بعد کہے میں جلاتا ہوں تو بات اس کی درست ہوگی مگر دعوہ کرنا باطل ہوگا کیونکہ تپش جس کی وجہ سے وہ جلانے پر قادر ہوا ہے وہ مستعار ہے ""
اللہ تعالیٰ نے غروہ بدر میں پھینکی جانے والی کنکریاں کو اپنی طرف منسوب کیا ہے
ابن عربی رحمتہ اللہ علیہ اس کے بیان کرنے والے ہیں مگر یہ ایک عرفانی غلطی کی بنا پر ہوا تھا بعد میں یہ بات عاموں میں چلی اور کچھ کا کچھ بن گئی
شریعت ظاہر کا نام ہے اور اس کا نفاذ ظاہر پر ہی ہوتا ہے اگر کوئی باظن کا دعوہ لیکر آئے تو وہ اس کے اپنے واسطے ہو سکتا دوسرا اس کی تقلید کا پابند نہیں ہے ظاہر پر حکم شریعت ہے اور وہ سب کو معلوم سیدھی راہ ہے
میں انشااللہ اس پر مزید تفصیل سے لکھوں گا انشااللہ
 

پپو

محفلین
جیسا کہ بیان ہوچکا اس مسئلہ کو سب سے پہلے حضرت محی الدین عربی رحمت اللہ علیہ نے بیان کیا اس کوہمہ اوست بھی کہا جاتا ہے وہ اسے اپنی کتاب فتوحات مکیہ اور فصوص الحکم میں تحریر کرتے ہیں اس وقت عوام میں یہ خیال پیدا ہونا شروع ہوا کہ ہر چیز خدا ہے اور جب بعد کی نسلوں کے دماغ میں یہ خیال مرتسم ہوگیا تو خدا کا خوف جاتا رہا گناہوں پر جسارت پیدا ہوئی توحید خالص کی بنیاد ہل گئی حدود شرعیہ تار عنکبوت کی طر ح توڑ ڈالی گئیں اس فلسفہ کے قائل چونکہ صوفی اور ولی سمجھے جاتے تھے اس لیے بے عمل لوگوں کو اس سے اچھا کیا مل سکتا تھا
ایک طرف یہ لوگ تھے دوسری طرف کچھ مسلمان ایسے بھی تھے جو ان باتوں سے متفر ہو گئے اور سرے سے روحانیت کے قائل نہ رہے اور وہ بجا طور حق بجانب تھے
اس میں شک نہیں حضرت محی الدین عربی رحمت اللہ علیہ اپنے زمانے کے بہت بڑے برزگ اور ولی اللہ تھے لیکن انہوں نے منزل کو مقام اور کیفیت کو حقیقت سمجھ لیا اور آگے جانے کی ہمت نہ ہوئی اس پر غضب یہ ہوا جس کیفت کو حقیقت جانا قلم بند کر دیا عوام یا صوفی جو اس مقام تک بھی پہنچ سکے جہاں وحدت الوجود کی کیفت حقیقت بن کر سامنے آتی ہے ابن عربی کی تحریر کا مطلب خاک سمجھتے مگر انہوں نےاس خیال سے کہ ابن عربی بہت بڑے عالم اور ولی اللہ ہیں ان کی باتوں کے ظاہری مطلب کو درست مان لیا اور اپنے جاہل مریدوں سے بیان کرنا شروع کر دیا نتجہ وہ نکلا جو آپ کے سامنے ہے
وحدت الوجود اصل میں ویدانت کا فلسفہ ہے اسلامی توحید سےاسکا دور کا بھی واسطہ نہیں ہے ہندوؤں کے رشتی اور متی روحانی رقی کے جس آخری نقطہ تک پہنچے وہ یہی مقام ہے جہاں وحدت الوجود کی کفیت طاری ہوتی ہے انہوں نے اسی کو حقیقت اور انتہا تصورکیا ہے اور اسی پر اپنے فلسفہ کی بنیاد رکھی ہے حالانکہ حقیقت کبری یعنی وہ ذات بحت کی وہ حقیقت جہاں کوئی صفت موجود نہیں اس مقام سے کہیں آگے ہے جہاں حدت الوجود کی کیفت طاری ہوتی ہے اور یہی حکمت اسلامی کی فضلیت ہے مسلمان اولیا وہاں پہنچتے جہاں دوسرے ادیان کا کوئی بزرگ بھی نہ پہنچ سکا وہیں پہنچ کر معلوم ہوتا ہے کہ توحید خالص کیا ہے
حضر ت ابن عربی سے پہلے بھی ایسے کلمات کئی بزرگوں کے منہ بہ حالت سکر نکلے ہیں لیکن بعد میں انہوں نے اس کی تسلی بخش تشریح کر دی اس لیئے زیادہ چرچا نہ ہوسکا لیکن ابن عربی نے جس بات کو حق جاناایک ضخیم کتاب میں اپنی پوری علمی طاقت و لیاقت سے تحریر کر دیا زیادہ غلطی ان صوفیا کی ہے جو ابن عربی کے بعد پیدا ہوئے ان میں چند ایسے تھے جن پر حضرت ابن عربی کے مماثل کوائف طاری ہوئے انہوں نے آنکھ بند کرکے حضرت کے اس قول کی تائید کر دی لیکن زیادہ صوفی ایسے گذرے ہیں اور اب بھی ہیں جن پر نہ تو کبھی یہ کوائف طاری ہوئے ہیں نہ وہ ان مقامات تک پہنچے ہیں بلکہ صرف حضرت ابن عربی اور ان کے موئدین و مصدقین کے تتبع میں ہمہ اوست کے قائل ہیں اور ان کے بے شمار مرید اور معتقد جن میں اکثر یت تو بالکل ہی بے علم ہوتے ہیں اپنے پیشیواؤں کی اندھی تقلید میں یہ سمجھتے ہیں کہ ““ہر چیز خدا ہے ““ نعوذ باللہ تعجب تو یہ ہے کہ لوگ قرآن کی طرف کیوں نہیں لوٹتے جو پکار پکار کر کہہ رہا ہے کہ بادشاہی صرف اللہ کی ہے اور وہ ہی سب چیزوں کا خالق و مالک ہے یعنی ہر چیز مخلوق ہے اور وہ ہر چیز پر غالب ہے
اس عقیدے کی اشاعت کا سب بڑا سبب اکبر بادشاہ کا دین الہی بھی ہے کون نہیں جانتا اس کے مقاصد سیاسی تھے اور کچھ عالم بھی اس کا حصہ بن گئے ابواالفضل اور فیضی جیسے جید عالم بھی اس غیر مسلم خوش ہوگئے اس عقیدے جو نقسان مسلم امت کو دیا کسی اور نے نہیں دیا او راس کے بارے میں جو قصے کہانیاں منسوب ہیں وہ ایک الگ داستاں ہے اور اس کے قائل لوگ ایسے ایسے خرافات بیان کرتے ہیں کہ اللہ کی پناہ جب ہر چیز کو خدا مان لیا جائے باقی کیا بچے گا اور اس نظریہ کے قائل لو گوں کا معاشرہ کیا ہوگا

ماخوذ تعمیر ملت' حقیت وحدت الوجود مصنف خواجہ عبدالحکیم انصاری رحمت اللہ علیہ یہ میرے پڑنانا مرشد بھی ہیں اور گذشتہ صدی کی عظیم روحانی شخصیت تھے ان کا مزار شریف 92 جی ماڈل ٹاؤن لاہور میں ہے اگر کسی کو اس پر مزید تفصیلات درکار ہوں وہ ان کی کتاب ""حقیت وحدت الوجود "" سے مستفید ہو سکتا ہے
 

ًماہِ-حق

محفلین
وحدت الوجود اور وحدت الشہود کے لطیف،باریک اور متنازعہ نکات کا صحیح فہم و ادراک حاصل کرنے کے لئے کشف ا لمحجوب کا مطالعہ ازحد ضروری ہے۔اس کتاب کے ابتدائی صفحات میں اتنی خوبصورتی سے ہر بات کی وضاحت کی گئی ہے کہ کوئی ابہام اور غلط گمان باقی نہیں رہتا،اوپر بیان کردہ تشریح بہت اچھی ہے مگر(معزرت کے ساتھ)یہ مکمل اور واضح نہیں ہے،کشف میں نہایت جامع انداز میں نہایت مکمل تفصیل موجود ہے جو قابلِ فہم بھی ہے اور اس کے بعد کسی اور وضاحت کی ضرورت نہیں رہتی۔
 

ًماہِ-حق

محفلین
حضرت مولانا رومی (رحمتہ اللہ علیہ) نے فرمایا جو شخص اللہ کی جانب سے وحی اور خطاب پاتا ہے وہ جو کچھ کہتا ہے بالکل درست ہوتا ہے
جو جان عطا کرتا ہے اگر قتل بھی کرے تو جائز ہے وہ(اللہ)کا قائم مقام ہے اور اس کا ہاتھ خدا کا ہاتھ ہے
حضرت اسمعیلً کی طرح اس کے سامنے سر جھکا دے اور ہنسی خوشی اس کی تلوار سے قتل ہو جا
تاکہ تیری روح ہمیشہ خوش رہے جس طرح کہ احمد(صل اللہ علیہ وسلم(مجتبی) کی روح پاک اللہ کے ساتھ
عاشق خوشی کا جام اس وقت پیتے ہیں جبکہ معشوق اپنے ہاتھ سے ان کو قتل کرتے ہیں
اس کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ اپنی روح اور جان ( اوراس سے متعلق سوال)اسکے سپرد کرو جو زندہ اور منتخب ہے
 
ش

شہزاد احمد

مہمان
اس حوالے سے تین اقتباسات پیشِ خدمت ہیں ۔۔۔


مولانا اشرف علی تھانوی نظریہ وحدۃ الوجود کی اصل حقیقت بیان کرتے ہوئے رقم طراز ہیں:
'گو ممکنات موجود ہیں، کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں وجود دیا ہے موجود کیوں نہ ہوتے، مگر وجودِ حق کے روبرو ان کا وجود نہایت ناقص و ضعیف و حقیر ہے، اس لیے وجودِ ممکن کو وجودِ حق کے روبرو گو عدم نہ کہیں گے مگر کالعدم ضرور کہیں گے، جب یہ کالعدم ہوا تو وجودِ معتدبہ ایک ہی رہ گیا ۔ یہی معنی ہیں وحدۃ الوجود کے'
مولانا اشرف علی تھانوی، شریعت و طریقت، مرتبہ: مولانا محمد دین چشتی ص
312
حضرت مجدد الف ثانی، جنہیں بیشتر علماء، شیخ ابن عربی اور وحدۃ الوجود کا مخالف اور ناقد قرار دیتے ہیں، وحدۃ الوجود کی اصلیت کے بارے میں فرماتے ہیں:
'صوفیاء کے نزدیک اشیاء حق سے ہیں نہ کہ حق جل شانہ ہیں۔ پس ان کے کلام 'ہمہ اوست' کے معنی 'ہمہ از اوست' ہی ہیں جو علمائے کرام کا مختار ہے اور علمائے کرام اور صوفیائے عظام کے درمیان فی الحقیقت کوئی نزاع ثابت نہیں ہوتا ہے اور دونوں باتوں کا مآل و انجام ایک بن جاتا ہے۔ البتہ اس قدر فرق ہے کہ صوفیا اشیاء کو حق تعالیٰ کے ظہورات کہتے ہیں اور علماء اس لفظ سے پرہیز کرتے ہیں تاکہ حلول و اتحاد کے وہم سے محفوظ رہ سکیں۔'
الف۔د۔نسیم، مسئلہ وحدت الوجود اور اقبال، ص89


شیخ ابن عربی کا قول ہے،
'بندہ بندہ ہے چاہے وہ کتنی ترقی کیوں نہ کر لے اور خدا خدا ہے چاہے وہ کتنا بھی تنزل اختیار کیوں نہ کر لے'
ابن عربی، فتوحاتِ مکیہ، مترجم: صائم چشتی جلد 3 ص 114
 

فرخ منظور

لائبریرین
شیخ ابن عربی کا قول ہے،
'بندہ بندہ ہے چاہے وہ کتنی ترقی کیوں نہ کر لے اور خدا خدا ہے چاہے وہ کتنا بھی تنزل اختیار کیوں نہ کر لے'
ابن عربی، فتوحاتِ مکیہ، مترجم: صائم چشتی جلد 3 ص 114

یعنی خدا بھی تنزل اختیار کر سکتا ہے؟
 

Ukashah

محفلین
اس دھاگے پر غو رکرنے کی بلکل سعی نہ کریں ،اس سے بہتر ہے کہ قرآن کریم کی بمعہ تفسیر ابن کثیر غور کریں ۔
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
اس سوال سے یہ سوال بھی ابھرتا ہے کہ " کیا خدا کو مکار کہا جا سکتا ہے " ؟
یا " صفت مکاری "کو خدا کے لیئے ثابت کیا جا سکتا ہے ۔ ؟
لیکن بطور مسلمان ہم تو یہ کہتے ہیں خدا سب کچھ کر سکتا ہے مگر وہ کوئی برا کام نہیں کرتا۔
 

نایاب

لائبریرین
لیکن بطور مسلمان ہم تو یہ کہتے ہیں خدا سب کچھ کر سکتا ہے مگر وہ کوئی برا کام نہیں کرتا۔
میرے بھائی
خدا کب کام کوئی کام کرتا ہے ۔ ؟
وہ تو " کن " فرماتا ہے اور " فیکون " واقع ہوجاتا ہے ۔
خدا کی ذات پر گفتگو اسی لیئے ممنوع و مردود قرار دی جاتی ہے کہ یہ گفتگو رنگ بدلتے بدلتے اس سوال پر پہنچ جاتی ہے کہ
" خدا آیا کہاں سے " ۔۔ وہ ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا ۔ وہ بے نیاز اور حکیم ہستی ہے ۔ اس کے افعال کی حکمت ہم انسانوں کے ناقص علم نہیں کھول سکتے ۔۔۔۔۔۔۔
اللہ ہو نورالسموات و الارض ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کافی ہے ہمارے لیئے ۔
ہمہ اوست یا ہمہ از اوست ۔ دونوں کا انتہائی مرکز ایک ہی ہے ۔
" جز و کل " میں الجھے تو بابا بلھے شاہ یاد آئے ۔۔۔۔۔۔۔ کیہ جاناں میں کون ؟
نصرت فتح مرحوم کی پڑھی قوالی " تو اک گورکھ دھندا " اس بحث کو کافی حد تک سامنے لاتی ہے ۔
اور " وہی خدا ہے " اس بحث کا جواب ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
نایاب بھائی الدنیا جیفہ و طالبہ کلب دنیا مردار ہے اور اس کا طالب کتا ہے ۔۔۔۔۔۔
کیا آپ نے سنا نہیں کہ میاں محمد بخش صاحب کیا فرماگئے ہیں
خاصاں دی گل ، عاماں اگے ، نئیں مناسب کرنی مِٹھی کھیر پکا محمد، ،،،کُتیاں اگے دھرنی
محمود غزنوی الف نظامی
 

فرخ منظور

لائبریرین
اس سوال سے یہ سوال بھی ابھرتا ہے کہ " کیا خدا کو مکار کہا جا سکتا ہے " ؟
یا " صفت مکاری "کو خدا کے لیئے ثابت کیا جا سکتا ہے ۔ ؟

جناب آپ نے محی الدین ابنِ عربی کی کتاب کا اقتباس نہیں پڑھا؟ میں نے تو اسی بات کو نقل کیا ہے۔ واہ صاحب۔ یعنی ابنِ عربی کہے تو ٹھیک، ہم کہیں تو غلط۔ :) ویسے ابنِ عربی کو کبھی سنجیدگی سے پڑھیے گا ایسے بہت سے اقتباسات مل جائیں گے۔
 

نایاب

لائبریرین
نایاب بھائی الدنیا جیفہ و طالبہ کلب دنیا مردار ہے اور اس کا طالب کتا ہے ۔۔۔ ۔۔۔
کیا آپ نے سنا نہیں کہ میاں محمد بخش صاحب کیا فرماگئے ہیں
خاصاں دی گل ، عاماں اگے ، نئیں مناسب کرنی مِٹھی کھیر پکا محمد، ،،،کُتیاں اگے دھرنی
محمود غزنوی الف نظامی
محترم روحانی بابا جی
" اردو محفل " پر مجھ جیسے " عاموں " کے ساتھ ساتھ " خاص " بھی موجود ہیں ۔ اور خاص کو اپنی " تشکیک " سنا کر آگہی کی طلب رکھنی کسی طور غلط کہاں ؟
 

نایاب

لائبریرین
جناب آپ نے محی الدین ابنِ عربی کی کتاب کا اقتباس نہیں پڑھا؟ میں نے تو اسی بات کو نقل کیا ہے۔ واہ صاحب۔ یعنی ابنِ عربی کہے تو ٹھیک، ہم کہیں تو غلط۔ :) ویسے ابنِ عربی کو کبھی سنجیدگی سے پڑھیے گا ایسے بہت سے اقتباسات مل جائیں گے۔
محترم بھائی " ہم آپ " ابھی زندوں میں ہیں ۔ سو محاسبہ ہوتے " سولی " پا سکتے ہیں ۔
جہاں تک بات ہے لکھی کتابوں میں" اقتباسات " کی
اور اکثر ان اقتباسات کو پڑھ کر بابا بلھے شاہ کی صدا یاد آ جاتی ہے ۔
" علموں بس کریں اور یار اک الف اللہ مینوں درکار "
ویسے آپ کو غلط نہیں کہا آپ کے سوال سے اک اور سوال منسلک کیا ہے ۔
 

فرخ منظور

لائبریرین
محترم بھائی " ہم آپ " ابھی زندوں میں ہیں ۔ سو محاسبہ ہوتے " سولی " پا سکتے ہیں ۔
جہاں تک بات ہے لکھی کتابوں میں" اقتباسات " کی
اور اکثر ان اقتباسات کو پڑھ کر بابا بلھے شاہ کی صدا یاد آ جاتی ہے ۔
" علموں بس کریں اور یار اک الف اللہ مینوں درکار "
ویسے آپ کو غلط نہیں کہا آپ کے سوال سے اک اور سوال منسلک کیا ہے ۔

جناب، میں نے تو سوال ان سے کیا تھا جنہوں نے یہ اقتباس شئیر کیا تھا۔ میں نے یہ اقتباس شئیر کیا ہوتا تو ضرور آپ مجھ سے سوال کرتے۔
 
Top