ڈاکٹرعامر شہزاد
معطل
مطلب آپ نے چھوٹی بحر سے نہ نکلنے کا فیصلہ کر لیا ہے ؟؟آداب !!
مجھے لگتا ہے یہ حسرت، حسرت ہی رہے گی کیونکہ ہم شاعری نہیں چھوڑنے والے ...آپ سب کو ہمیں مزید جھیلنا ہی ہو گا .
مطلب آپ نے چھوٹی بحر سے نہ نکلنے کا فیصلہ کر لیا ہے ؟؟آداب !!
مجھے لگتا ہے یہ حسرت، حسرت ہی رہے گی کیونکہ ہم شاعری نہیں چھوڑنے والے ...آپ سب کو ہمیں مزید جھیلنا ہی ہو گا .
ماشااللہ۔۔۔۔۔المیٰ جی۔وحشت ہے ، فراق ہے ، جنوں ہے
پیہم کوئی غم مرے دروں ہے
یہ بےخبری کہ عالمِ ہوش؟
معلوم نہیں، کہاں سکوں ہے
یارانِ سخن! غرور کیسا
خامہ بھی ورق پہ سرنگوں ہے
کیوں وسعت ِ کائنات ناپوں
نیرنگِ نظر کا سب فسوں ہے
پابند ازل سے ہے حقیقت
آزاد منش خیال کیوں ہے
المٰی کروں کیا! غضب خدا کا
حالِ دلِ زار جوں کا توں ہے
یعنی Alma mater کا مطلب "بدروحوں کی ماں"روح ...وہ بھی عورت کی ...آسان لفظوں میں بد روح
آپ تو "مقبوض" بحور کے خلاف ہمارے اتحادی تھے۔۔۔۔یہ اچانک سائیڈ بدل لیبہت خوب
یہاں اگر چہ لفظی اعتبار سےتنافر ہے تاہم دونوں میم کے ادغام کی وجہ سے موسیقائی ترتیب متاثر نہیں ہوتی لہذا اس طرح کا تنافر خاص گرفت میں نہیں آتا۔جیسے کہ بعض اوقات لفظی طو ر پر نہ ہوتے ہوئے بھی صوتی ترتیب اور روانی کو متاثر کرتا نظر آتا ہے وہ زیادہ گراں ہوتا ہے ۔( مثلا۔کیا قسم ہے ترے ملنے کی کہ کھا بھی نہ سکوں۔غالب)۔یہاں ی اور ہ کے باوجود ک کی کیفیت تنافر کا احساس پیدا کرتی ہے۔پیہم کوئی غم مرے دروں ہے
میں ’غم مرے‘ میں ’م‘ کی تکرار اچھی نہیں۔ اسے تنافر کا عیب کہتے ہیں،
مجھے بحور سے زیادہ شعر کے مضمون سے غرض ہوتی ہے. الّا یہ کہ پڑھنے میں دشواری ہو.ماشااللہ۔۔۔۔۔المیٰ جی۔
غزل تو واقعی میں استادانہ ہے۔
یہ بحر اور بہت سے الفاظ میری پکڑ میں ہی نہیں آسکے
تبھی آپ کو استانی مانتا ہوں
یعنی Alma mater کا مطلب "بدروحوں کی ماں"
ازراہ تفنن
آپ تو "مقبوض" بحور کے خلاف ہمارے اتحادی تھے۔۔۔۔یہ اچانک سائیڈ بدل لی
آخر کیوں؟؟؟
غزل پڑھی جاتی ہے پکڑی نہیں جاتی . آپ کو واقعی ایک استاد کی ضرورت ہے .یہ بحر اور بہت سے الفاظ میری پکڑ میں ہی نہیں آسکے
تبھی آپ کو استانی مانتا ہوں
آپکی تنقیدی بصیرت سے ہم بھی مستفید ہوئے . "دروں" کے یوں استعمال کے حوالے سے اگر یہ آپ کا ذاتی تاثر بھی ہے تو پھر بھی غور طلب ہے . ذوقِ سلیم ہی کسی تخلیق کی تعبیر، تشریح اور اصلاح میں معاون ہوتا ہے . آپ کے تبصرے کا بہت شکریہ .۔
یہاں اگر چہ لفظی اعتبار سےتنافر ہے تاہم دونوں میم کے ادغام کی وجہ سے موسیقائی ترتیب متاثر نہیں ہوتی لہذا اس طرح کا تنافر خاص گرفت میں نہیں آتا۔جیسے کہ بعض اوقات لفظی طو ر پر نہ ہوتے ہوئے بھی صوتی ترتیب اور روانی کو متاثر کرتا نظر آتا ہے وہ زیادہ گراں ہوتا ہے ۔( مثلا۔کیا قسم ہے ترے ملنے کی کہ کھا بھی نہ سکوں۔غالب)۔یہاں ی اور ہ کے باوجود ک کی کیفیت تنافر کا احساس پیدا کرتی ہے۔
البتہ یہاں دروں کا ایسا استعمال ( سادہ فقراتی شکل میں ) کچھ عجیب محسوس ہوا ۔(عین ممکن ہے یہ میرا ذاتی تاثر ہو) لیکن ایسا لگا کہ دروں کو کسی مرکب انداز میں برتنا چاہیئے۔
غزل یقینا اچھی ہے۔اگرچہ اس بحر میں غزل کم کہی گئی ہے۔غالبا منظومات زیادہ ہیں اس میں ۔
جی نہیں . پاکستان میں Alma Mater کا ترجمہ" بھوت سکول " کیا جاتا ہے .یعنی Alma mater کا مطلب "بدروحوں کی ماں"
ازراہ تفنن
آپ کی یہ غزل کئی لحاظ سے منفرد ہے:قدر افزائی کے لیے بہت شکریہ . آپ جیسے سخن شناس احباب کے تبصرہ جات کی کسوٹی پر ہی ہمیں اپنی شاعری کو پرکھنے کا موقع ملتا ہے . اصلاح کے ضمن میں تجاویز بھی دیتے رہا کریں .
مفعول مفاعلن فعولنیہ بحر اور بہت سے الفاظ میری پکڑ میں ہی نہیں آسکے
سر یہی بات ہے۔۔۔۔۔۔۔آپ نے دس سال میں تین چار غزلیں پڑھی ہیں اور میں نے شاعری "پڑھنا" ہی شاید سال بھر پہلے شروع کی ہے۔آپ کی یہ غزل کئی لحاظ سے منفرد ہے:
سب سے پہلے تو اس کی بحر۔ قسم لے لیں، دس سال ہو گئے سوشل میڈیا پر شاعری پڑھتے ہوئے، اس بحر میں صرف یہ تیسری چوتھی غزل پڑھ رہا ہوں، اور اب تسلی بھی ہو گئی کہ یہ بحر ختم یا متروک نہیں ہوگی۔ مثنوی تو اب کوئی لکھتا نہیں کہ اس بحر کو زیادہ استعمال کرے لیکن اساتذہ نے اس بحر میں بہت خوبصورت غزلیں بھی کہی ہیں۔
پھر یہ کہ آپ کی سوچ اس غزل میں واضح ہے، مطلب یہ کہ بہت زیادہ فلسفیانہ سطح پر الجھی ہوئی نہیں ہے جہاں کلام اور قاری کا تعلق کمزور پڑ جاتا ہے۔
تنافر کے عیب کو میں عیب برائے عیب ہی سمجھتا ہوں، اگر کوئی عیب غالب کے کلام میں نکل آئے اور لوگ اسے لاکھ "عیب" سمجھتے رہیں ہمیں وہ عیب بھی دل و جان سے عزیز اور قبول ہے اور تنافر غالب تو کیا دیگر اساتذہ کے کلام میں بھی ہے سو یہ کوئی خاص پریشانی کی بات نہیں
سب سے پہلے یہی کام کیا تھا محمد وارث سر!مفعول مفاعلن فعولن
اس میں تسکین اوسط بھی استعمال ہوتی ہے یعنی مفعولن فاعلن فعولن بھی جائز ہے۔
جس دن سے حرام ہو گئی ہے
مے، خلد مقام ہو گئی ہے
ریاض خیر آبادی
مجھے لگتا ہے آپ نے میری شکایت لگائی ہےغزل پڑھی جاتی ہے پکڑی نہیں جاتی . آپ کو واقعی ایک استاد کی ضرورت ہے .
کافی فکر پرور اور فقیدالمثال قسم کا بلاگ ہے آپ کا . چلیں اس بہانے آپ کے بصیرت افروز تجزیاتی مطالعےسے ہم بھی فیضیاب ہو سکیں گے .
بہت خوبصورت غزل ہے المٰی۔ ماشا اللہ۔وحشت ہے ، فراق ہے ، جنوں ہے
پیہم کوئی غم مرے دروں ہے
یہ بےخبری کہ عالمِ ہوش؟
معلوم نہیں، کہاں سکوں ہے
یارانِ سخن! غرور کیسا
خامہ بھی ورق پہ سرنگوں ہے
کیوں وسعت ِ کائنات ناپوں
نیرنگِ نظر کا سب فسوں ہے
پابند ازل سے ہے حقیقت
آزاد منش خیال کیوں ہے
المٰی کروں کیا! غضب خدا کا
حالِ دلِ زار جوں کا توں ہے
شکریہ . جزاک اللہبہت خوبصورت غزل ہے المٰی۔ ماشا اللہ۔
اوہ معذرت دھیان نہیں رہا یہ تو آپ کا تخلص ہے دراصل انگریزی حروف تہجی میں آپ نے اپنا نام لکھا ہے نہ تو میرا دھیان اس طرف نہیں گیا کہ یہ تخلص ہوگا بلکہ ہم نے گوگل مہاراج سے اس کا مطلب پوچھا وہ بتانے سے قاصر رہے تو آپ سے پوچھ ڈالا!!مہربانی !!
روح ...وہ بھی عورت کی ...آسان لفظوں میں بد روح
واہ واہ!! بہت خوب !!
یارانِ سخن ! غرور کیسا
خامہ بھی ورق پہ سرنگوں ہے
کیا خوبصورت شعر ہے! سبحان اللہ سبحان اللہ!! اس شعر پرآپ کو جتنی داد دی جائے کم ہے ! سچا شعر ہے!!! سلامت رہیں ، آباد رہیں !
میں نے شاعری کو ابھی تک حصولِ انبساط کا ایک ذریعہ سمجھ رکھا ہے لہٰذا مقصدیت عنقا ہونے کی وجہ سے غیر شعوری طور پر توجہ شعر کے توازن ، ترتیب و تناسب ، ہم آہنگی، ربط اور دیگر محاسن کی طرف زیادہ دیر تک مبذول نہیں رہ پاتی اور نتیجتًا کئی اسقام باقی رہ جاتے ہیں . اگرچہ اپنی ذہنی استعداد کے مطابق کچھ شعوری کوشش بھی ہوتی ہے کہ اپنی تسکین کے ساتھ ساتھ قاری کی تشفی بھی ممکن ہو سکے لیکن پھر بھی بعض مقامات پر خود کو عاجز پاتی ہوں .خامہ اور ورق والا شعر اتنا اچھا ہے کہ اب دوسرے اشعار پر تبصرہ کرنے کو جی نہیں چاہتا ۔ باقی اشعار میں بہتری کی بہت زیادہ گنجائشیں ہیں ۔ کچھ روز ٹھہر کر آپ خود ہی نظرثانی کریں گی تو غزل چمک جائے گی ۔ اگر آپ کہیں گی تو میں اختصار سے کچھ عرض کردوں گا ۔ شاید کوئی کام کی بات کہہ جاؤں ۔
شکریہ حمیرا !!بہت خوب بہت سی داد قبول فرمائیے
جی بہتر۔ اس وقت تو کمپیوٹر سے اٹھنا ہے ۔ میں ان شا ءاللہ وقت نکال کر پھر حاضرِ خدمت ہوتا ہوں ۔ مجھے کچھ وقت دیجئے ۔اگر آپ معائب سے بھی آگاہ فرمائیں گے تو ممکن ہے کہ ضروری تراش خراش کے بعد میں ان اشعار کو کوئی بہتر شکل دے پاؤں .