وحشت ہے، فراق ہے، جنوں ہے

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
میں نے شاعری کو ابھی تک حصولِ انبساط کا ایک ذریعہ سمجھ رکھا ہے لہٰذا مقصدیت عنقا ہونے کی وجہ سے غیر شعوری طور پر توجہ شعر کے توازن ، ترتیب و تناسب ، ہم آہنگی، ربط اور دیگر محاسن کی طرف زیادہ دیر تک مبذول نہیں رہ پاتی اور نتیجتًا کئی اسقام باقی رہ جاتے ہیں . اگرچہ اپنی ذہنی استعداد کے مطابق کچھ شعوری کوشش بھی ہوتی ہے کہ اپنی تسکین کے ساتھ ساتھ قاری کی تشفی بھی ممکن ہو سکے لیکن پھر بھی بعض مقامات پر خود کو عاجز پاتی ہوں .
ان کلماتِ تحسین کے لیے آپ کی بہت ممنون ہوں لیکن اگر آپ معائب سے بھی آگاہ فرمائیں گے تو ممکن ہے کہ ضروری تراش خراش کے بعد میں ان اشعار کو کوئی بہتر شکل دے پاؤں .

وحشت ہے ، فراق ہے ، جنوں ہے
پیہم کوئی غم مرے دروں ہے

دروں کے اس طرح مفرد استعمال پر شاہ صاحب عاطف علی پہلے ہی اشارہ دے چکے ہیں ۔ مرے دروں ہے کا فقرہ اچھا نہیں لگ رہا ۔ عمومی قاعدہ یہ ہے کہ جولفظ نثر میں مفرد استعمال نہیں ہوتا اس سے شعر میں بھی پرہیز کرنا چاہئے ۔ ’’ احمد بھائی درونِ خانہ ہیں‘‘ تو ٹھیک ہے لیکن’’ احمد بھائی گھر کے دروں ہیں ‘‘ بالکل مستعمل نہیں ۔ معیاری اردو نہیں ۔
دوسرے مصرع میں لفظ غم ان تینوں کیفیات کا احاطہ نہیں کرتا کہ جو مصرع اولیٰ میں بیان ہوئیں ۔ فراق کا غم تو ہوسکتا ہے لیکن وحشت اور جنوں کا نہیں ۔ دونوں غم کا نتیجہ ہوسکتے ہیں ۔ سو میری رائے میں بہتر یہی ہے کہ دوسرے مصرع کو نیا قافیہ دے کر تبدیل کردیا جائے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ بےخبری کہ عالمِ ہوش؟
معلوم نہیں، کہاں سکوں ہے

میں جہاں تک سمجھا ہوں اس شعر کا مدعا یہ ہے کہ’’ سکون بے خبری میں ہے یا عالمِ ِ ہوش میں ، معلوم نہیں ‘‘ ۔ اگر میں درست سمجھا ہوں تو پہلے مصرع میں کلیدی لفظ ’’ میں ‘‘ کی کمی ہے ۔ اس کے بغیر بات مکمل نہیں ہوگی ۔ پہلے مصرع کو عمل ِ جراحی سے گزارے بغیر درست کرنے کی کوشش کی جائے تو یوں کہا جاسکتا ہے :
در بے خبری کہ عالمِ ہوش؟
معلوم نہیں کہاں سکوں ہے
لیکن یہ صورت خود مجھے زیادہ پسند نہیں آرہی اگرچہ چل سکتی ہے ۔ آپ اگر کوشش کریں تو اس شعر کی کوئی اور بہتر صورت نکال سکتی ہیں ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیوں وسعت ِ کائنات ناپوں
نیرنگِ نظر کا سب فسوں ہے

خیال اچھا ہے۔ شعر کی جان (اور اصل خیال ) دوسرا مصرع ہے ۔ یعنی وسعتِ کائنات صرف نیرنگِ نظر کا فسوں ہے ۔ پہلا مصرع تو بھرتی کا ہے ۔ پہلے مصرع میں کچھ بھی کہہ دیا جائے تو شعر کے معنی پر اثر نہیں پڑے گا ۔ سو بہتر ہے کہ پہلا مصرع ایسا ہونا چاہئے جو دوسرے مصرع کے تاثر کو بڑھا سکے ۔ یہاں پہلے مصرع میں وسعتِ کائنات ناپنے کی کوئی وجہ یا سیاق و سباق موجود نہیں ۔ چنانچہ یہ سوال کہ میں وسعتِ کائنات کیوں ناپوں بے معنی ہے ۔ اس سے بہتر ’’ کیا وسعتِ کائنات ناپوں ۔یا ۔کیا وسعتِ کائنات دیکھوں ‘‘ ہے ۔ مثال کے طور پر یہ تجویز بھی دیکھ لیجئے ۔ ویسے آپ اس سے کہیں بہتر کہہ سکتی ہیں :
ہے وسعتِ کائنات معلوم!
نیرنگِ نظر کا سب فسوں ہے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پابند ازل سے ہے حقیقت
آزاد منش خیال کیوں ہے

یہاں میری رائے میں خیال کے لئے آزاد منش سے زیادہ آوارہ کی صفت مناسب تر ہوگی ۔ آوارہ مرا خیال کیوں ہے ۔ وغیرہ ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
المٰی کروں کیا! غضب خدا کا
حالِ دلِ زار جوں کا توں ہے

پہلا مصرع رواں نہیں ۔ کروں کا واؤ بہت ہی زیادہ دب رہا ہے بلکہ ساقط ہورہا ہے ۔ اس کے علاوہ شعر کا بیانیہ متاثر کن نہیں ۔ غضب خدا کا فقرہ بھرتی کا ہے ۔ اسے نکال بھی دیں تو شعر کےمجموعی تاثر پرکوئی فرق نہیں پڑتا ۔ بات یہ ہے کہ چھوٹی بحر میں ایک ایک لفظ قیمتی ہوتا ہے ۔ اس میں حشو و زائد کی قطعی گنجائش نہیں ہوتی ۔ پہلے مصرع میں ایسےکچھ ایسے الفاظ لائیے کہ جو دوسرے مصرع کے معانی میں اضافہ کریں ۔ اس میں یہ بتائیے کہ آپ نے اب تک ایسا کیا کچھ کیا ہے کہ جس کے باوجود حالِ دل زار جوں کا توں ہے ۔

آپ کی غزل پڑھنے کے بعد یہ کچھ خیالات ذہن میں آئے تھے سو عرض کردیئے ۔ یہ بھی نہ کرتا اگر غزل اس زمرے میں نہ ہوتی ۔ مقصود آپ کی غزل کو بدلنا نہیں بلکہ آئندہ کے لئے کچھ دروازے کھولنا ہے ۔ یہ میری بطور قاری کچھ تجاویز ہیں جنہیں زیادہ سے زیادہ رہنما اشارے کے طور پر لیا جاسکتا ہے ۔ تخلیقی سفر تو آپ ہی کا ہے ۔ گزارش یہ ہے کہ آپ کی شاعری میں روشن امکانات ہیں اور آپ میں اچھی شاعری کی بہت صلاحیت ہے۔ لیکن بغیر کامل توجہ اور محنت کے یہ بیل منڈھے نہیں چڑھتی ۔ غزل لکھنے کے بعد اسے کم از کم دو تین مہینوں کے لئے ایک طرف رکھ دیا کریں ۔ جب اسے تقریبا بھول جائیں تو پھر اٹھا کر دشمن کی نظر سے دیکھیں۔ آپ کو خود اصلاحات سوجھنے لگیں گی ۔ میں اپنی شاعری کے ساتھ یہی کچھ کرتا ہوں اور اس کے باوجود بھی بہت ساری خامیاں رہ ہی جاتی ہیں ۔ لیکن وقت کے ساتھ ساتھ بہتری تو ہوتی ہے ۔
امید ہے اس تبصرے اور تنقید کو مثبت انداز میں لیں گی ۔ اللہ آپ کو اپنی رحمتوں اور نوازشوں کے درمیان رکھے ۔ آمین ۔
خامہ بھی ورق پہ سرنگوں ہے
کیا بات ہے اس شعر کی ! ایکبار پھر آپ کو بہت داد!! اللہ کرے زورِ قلم اور زیادہ !
 

La Alma

لائبریرین
وحشت ہے ، فراق ہے ، جنوں ہے
پیہم کوئی غم مرے دروں ہے

دروں کے اس طرح مفرد استعمال پر شاہ صاحب عاطف علی پہلے ہی اشارہ دے چکے ہیں ۔ مرے دروں ہے کا فقرہ اچھا نہیں لگ رہا ۔ عمومی قاعدہ یہ ہے کہ جولفظ نثر میں مفرد استعمال نہیں ہوتا اس سے شعر میں بھی پرہیز کرنا چاہئے ۔ ’’ احمد بھائی درونِ خانہ ہیں‘‘ تو ٹھیک ہے لیکن’’ احمد بھائی گھر کے دروں ہیں ‘‘ بالکل مستعمل نہیں ۔ معیاری اردو نہیں ۔
دوسرے مصرع میں لفظ غم ان تینوں کیفیات کا احاطہ نہیں کرتا کہ جو مصرع اولیٰ میں بیان ہوئیں ۔ فراق کا غم تو ہوسکتا ہے لیکن وحشت اور جنوں کا نہیں ۔ دونوں غم کا نتیجہ ہوسکتے ہیں ۔ سو میری رائے میں بہتر یہی ہے کہ دوسرے مصرع کو نیا قافیہ دے کر تبدیل کردیا جائے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ بےخبری کہ عالمِ ہوش؟
معلوم نہیں، کہاں سکوں ہے

میں جہاں تک سمجھا ہوں اس شعر کا مدعا یہ ہے کہ’’ سکون بے خبری میں ہے یا عالمِ ِ ہوش میں ، معلوم نہیں ‘‘ ۔ اگر میں درست سمجھا ہوں تو پہلے مصرع میں کلیدی لفظ ’’ میں ‘‘ کی کمی ہے ۔ اس کے بغیر بات مکمل نہیں ہوگی ۔ پہلے مصرع کو عمل ِ جراحی سے گزارے بغیر درست کرنے کی کوشش کی جائے تو یوں کہا جاسکتا ہے :
در بے خبری کہ عالمِ ہوش؟
معلوم نہیں کہاں سکوں ہے
لیکن یہ صورت خود مجھے زیادہ پسند نہیں آرہی اگرچہ چل سکتی ہے ۔ آپ اگر کوشش کریں تو اس شعر کی کوئی اور بہتر صورت نکال سکتی ہیں ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیوں وسعت ِ کائنات ناپوں
نیرنگِ نظر کا سب فسوں ہے

خیال اچھا ہے۔ شعر کی جان (اور اصل خیال ) دوسرا مصرع ہے ۔ یعنی وسعتِ کائنات صرف نیرنگِ نظر کا فسوں ہے ۔ پہلا مصرع تو بھرتی کا ہے ۔ پہلے مصرع میں کچھ بھی کہہ دیا جائے تو شعر کے معنی پر اثر نہیں پڑے گا ۔ سو بہتر ہے کہ پہلا مصرع ایسا ہونا چاہئے جو دوسرے مصرع کے تاثر کو بڑھا سکے ۔ یہاں پہلے مصرع میں وسعتِ کائنات ناپنے کی کوئی وجہ یا سیاق و سباق موجود نہیں ۔ چنانچہ یہ سوال کہ میں وسعتِ کائنات کیوں ناپوں بے معنی ہے ۔ اس سے بہتر ’’ کیا وسعتِ کائنات ناپوں ۔یا ۔کیا وسعتِ کائنات دیکھوں ‘‘ ہے ۔ مثال کے طور پر یہ تجویز بھی دیکھ لیجئے ۔ ویسے آپ اس سے کہیں بہتر کہہ سکتی ہیں :
ہے وسعتِ کائنات معلوم!
نیرنگِ نظر کا سب فسوں ہے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پابند ازل سے ہے حقیقت
آزاد منش خیال کیوں ہے

یہاں میری رائے میں خیال کے لئے آزاد منش سے زیادہ آوارہ کی صفت مناسب تر ہوگی ۔ آوارہ مرا خیال کیوں ہے ۔ وغیرہ ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
المٰی کروں کیا! غضب خدا کا
حالِ دلِ زار جوں کا توں ہے

پہلا مصرع رواں نہیں ۔ کروں کا واؤ بہت ہی زیادہ دب رہا ہے بلکہ ساقط ہورہا ہے ۔ اس کے علاوہ شعر کا بیانیہ متاثر کن نہیں ۔ غضب خدا کا فقرہ بھرتی کا ہے ۔ اسے نکال بھی دیں تو شعر کےمجموعی تاثر پرکوئی فرق نہیں پڑتا ۔ بات یہ ہے کہ چھوٹی بحر میں ایک ایک لفظ قیمتی ہوتا ہے ۔ اس میں حشو و زائد کی قطعی گنجائش نہیں ہوتی ۔ پہلے مصرع میں ایسےکچھ ایسے الفاظ لائیے کہ جو دوسرے مصرع کے معانی میں اضافہ کریں ۔ اس میں یہ بتائیے کہ آپ نے اب تک ایسا کیا کچھ کیا ہے کہ جس کے باوجود حالِ دل زار جوں کا توں ہے ۔

آپ کی غزل پڑھنے کے بعد یہ کچھ خیالات ذہن میں آئے تھے سو عرض کردیئے ۔ یہ بھی نہ کرتا اگر غزل اس زمرے میں نہ ہوتی ۔ مقصود آپ کی غزل کو بدلنا نہیں بلکہ آئندہ کے لئے کچھ دروازے کھولنا ہے ۔ یہ میری بطور قاری کچھ تجاویز ہیں جنہیں زیادہ سے زیادہ رہنما اشارے کے طور پر لیا جاسکتا ہے ۔ تخلیقی سفر تو آپ ہی کا ہے ۔ گزارش یہ ہے کہ آپ کی شاعری میں روشن امکانات ہیں اور آپ میں اچھی شاعری کی بہت صلاحیت ہے۔ لیکن بغیر کامل توجہ اور محنت کے یہ بیل منڈھے نہیں چڑھتی ۔ غزل لکھنے کے بعد اسے کم از کم دو تین مہینوں کے لئے ایک طرف رکھ دیا کریں ۔ جب اسے تقریبا بھول جائیں تو پھر اٹھا کر دشمن کی نظر سے دیکھیں۔ آپ کو خود اصلاحات سوجھنے لگیں گی ۔ میں اپنی شاعری کے ساتھ یہی کچھ کرتا ہوں اور اس کے باوجود بھی بہت ساری خامیاں رہ ہی جاتی ہیں ۔ لیکن وقت کے ساتھ ساتھ بہتری تو ہوتی ہے ۔
امید ہے اس تبصرے اور تنقید کو مثبت انداز میں لیں گی ۔ اللہ آپ کو اپنی رحمتوں اور نوازشوں کے درمیان رکھے ۔ آمین ۔
خامہ بھی ورق پہ سرنگوں ہے
کیا بات ہے اس شعر کی ! ایکبار پھر آپ کو بہت داد!! اللہ کرے زورِ قلم اور زیادہ !
مجھے اس بات کا بخوبی ادراک ہے کہ شاعری، مشاہدات و تجربات اور تخیلات و تاثرات سے آگے کی شے ہے. عارضی کیفیات کے زیرِ اثر لکھنے والا تخلیق کار، ردو قبول سے اس طرح آشنا نہیں ہوتا جس طرح ایک روایت پسند زبان دان اور ادبی تکنیک کار ہوتا ہے . اپنی تخلیق کے ساتھ وقت گزارنے سے لازمی طور پر ہنر سامنے آئے گا لیکن وہ اولین احساس جاتا رہے گا جو تخلیق کا اصل تھا. شاعری جب میکانکی عمل لگنے لگے تو پھر جی اچاٹ ہونے لگتا ہے .
لیکن اس بات سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ مروجہ فنی اصولوں اور شعری اقدار کی پاسداری، نیز اظہار و بیان کے لوازمات کے بغیر تخلیقی ارتقا ممکن نہیں .
بطور مصلح ، معنویت سے ہٹ کر شعر کی ساخت و ہیئت کے متعلق آپکی یہ غیر جانبدارانہ رائے یقیناً میرے ادبی شعور کو مزید جلا بخشنے میں ممد و معاون ثابت ہو گی. آپ کے قیمتی وقت اور اس اجمالی تفصیل، جو بلا مبالغہ آپ کےمنطقی اور اختراعی ذہن کی پیداوار ہے ، کے لیے تہہ دل سے شکریہ . امید ہے آئندہ بھی آپ سے سیکھنے کو ملتا رہے گا . جزاک اللہ خیرا کثیرا .
 

فرقان احمد

محفلین
یہ بےخبری کہ عالمِ ہوش؟​
معلوم نہیں، کہاں سکوں ہے

کیا یہاں "یہ" کی بجائے "ہو" سے کام چل سکتا ہے؟

بس یہ فرما دیجیے گا، شکریہ​
 

La Alma

لائبریرین
یہ غزل آپ کی بہترین غزلوں میں سے ایک ہے المٰی ۔۔۔!!! سلامت رہیں!
ایسے حوصلہ افزا کمنٹس سے ہی مزید لکھنے کی تحریک ملتی ہے . یہ احساس نہایت خوش کن ہے کہ میری کوئی بھی کاوش میرے ذاتی خیالات کی سطح سے بلند ہو کر کسی حد تک قاری کے ذہن کو چھونے میں بھی کامیاب ہوئی ہے . اس فیاضانہ تبصرے کا بہت شکریہ .
یہ بےخبری کہ عالمِ ہوش؟
معلوم نہیں، کہاں سکوں ہے

کیا یہاں "یہ" کی بجائے "ہو" سے کام چل سکتا ہے؟

بس یہ فرما دیجیے گا، شکریہ​
گو کہ شعر کا استفہامیہ انداز کسی حد تک مجروح ہوتا ہے لیکن صرف ایک لفظ کو بدلنے کی یہ ممکنہ بہترین صورت ہے . سر الف عین نے بھی یہی تجویز دی ہے . بصورتِ دیگر مصرع ہی بدلنا ہو گا .
 

محمدظہیر

محفلین
دوبارہ پڑھنے پر آپ کی شاعری لطف دے گئی
اور نہ جانے کیوں احمد فراز کا یہ شعر یاد آیا
عشق بس ایک کرشمہ ہے ، فسوں ہے ، یوں ہے
یوں تو کہنے کو سبھی کہتے ہیں، یوں ہے ، یوں ہے :)
 

La Alma

لائبریرین
دوبارہ پڑھنے پر آپ کی شاعری لطف دے گئی
اور نہ جانے کیوں احمد فراز کا یہ شعر یاد آیا
عشق بس ایک کرشمہ ہے ، فسوں ہے ، یوں ہے
یوں تو کہنے کو سبھی کہتے ہیں، یوں ہے ، یوں ہے :)
احمد فراز کے کیا ہی کہنے .
آپ بھی دوبارہ شکریہ وصول کیجئے .
 

عباد اللہ

محفلین
یارانِ سخن! غرور کیسا
خامہ بھی ورق پہ سرنگوں ہے
ارے واہ واہ کیا عمدہ شعر ہے ہمیں ایک شعر یاد آ رہا ہے مگر کمبخت گوگل بھی رہنمائی نہیں کر پا رہا دوسرا مصرع یوں ہے
چرا بہ ہر سخنی خامہ در سجود آید
پہلے مصرعے سے یوں بھی ہم کو اتفاق نہیں تھا، شاعری کے آسمان سے اترنے کی بات تھی کچھ محمد ریحان قریشی سے مدد طلب کرتے ہیں
 
آخری تدوین:

سید عاطف علی

لائبریرین
ارے واہ واہ کیا عمدہ شعر ہے ہمیں ایک شعر یاد آ رہا ہے مگر کمبخت گوگل بھی رہنمائی نہیں کر پا رہا دوسرا مصرع یوں ہے
چرا بہ ہر سخنی خامہ در سجود آید
پہلے مصرعے سے یوں بھی ہم کو اتفاق نہیں تھا کچھ شاعری کے آسمان سے اترنے کی بات تھی کچھ محمد ریحان قریشی سے مدد طلب کرتے ہیں
اگر کلام نہ از آسماں فرود آید
چرا بہ ہر سخنی خامہ در سجود آید
صائب تبریزی۔
 

فرقان احمد

محفلین
ارے واہ واہ کیا عمدہ شعر ہے ہمیں ایک شعر یاد آ رہا ہے مگر کمبخت گوگل بھی رہنمائی نہیں کر پا رہا دوسرا مصرع یوں ہے
چرا بہ ہر سخنی خامہ در سجود آید
پہلے مصرعے سے یوں بھی ہم کو اتفاق نہیں تھا کچھ شاعری کے آسمان سے اترنے کی بات تھی کچھ محمد ریحان قریشی سے مدد طلب کرتے ہیں

اگر کلام نه از آسمان فرود آيد
 

فرقان احمد

محفلین
ارے واہ واہ کیا عمدہ شعر ہے ہمیں ایک شعر یاد آ رہا ہے مگر کمبخت گوگل بھی رہنمائی نہیں کر پا رہا دوسرا مصرع یوں ہے
چرا بہ ہر سخنی خامہ در سجود آید
پہلے مصرعے سے یوں بھی ہم کو اتفاق نہیں تھا کچھ شاعری کے آسمان سے اترنے کی بات تھی کچھ محمد ریحان قریشی سے مدد طلب کرتے ہیں
اسی بہانے، گوگل سرچ کے ایک ٹوٹکے کی شراکت بھی کرتے چلیں۔ اگر آپ کو دوسرا مصرع معلوم ہو تو بہتر ہو گا کہ اسے انورٹڈ کوماز میں لکھ کر تلاش کریں۔ مثال کے طور پر "خامه در سجود آید" ٹائپ کر کے تلاش کریں گے تو آپ کو لینڈنگ سرچ پیج پر بہت کم، تاہم، آپ کی منشاء کے مطابق نتائج ملیں گے۔ :)
 
Top