جب آپ 'بشمول اہل مدرسہ' کہتے ہیں تو شاید آپ کی نظر میں پاکستان میں موجود مسلکی تفریق نہیں ہوتی۔ پاکستان میں مسلکی تفریق ایک محتاط اندازے کے مطابق کچھ یوں ہے :-
- اہل سنت و جماعت (حنفی سنی) یا بریلوی مکتبہ فکر تقریباً 50 فیصد آبادی اور اسی طرح ان کے مدرسوں کی تعداد کم و بیش 6 سے 8 ہزار کے درمیان۔ اس مکتبہ فکر کی صرف ایک تنظیم 'سنی تحریک' (سیاسی جماعت) پر یہ الزامات لگتے آ رہے ہیں کہ وہ مقامی سطح (کراچی) پر کسی نہ کسی طور شدت پسندی کی طرف مائل ہے، لیکن ریاست کے خلاف کوئی شدت پسند کارروائی نہیں۔
- اہل تشیع (فقہ جعفریہ) مکتبہ فکر تقریباً 20 فیصد آبادی، ماسوائے سپاہ محمد نامی تنظیم کے، جس کی تمام کارروائیاں سپاہ صحابہ کے خلاف ہیں۔ کسی بھی سطح پر ریاست کے خلاف کوئی شدت پسندی نہیں ۔ ان کے مدارس کی تعداد نامعلوم
- اہل سنت والجماعت (حنفی سنی) دیوبندی مکتبہ فکر تقریباً 20 فیصد۔ طالبان، سپاہ صحابہ، لشکر جھنگوی نامی تین بڑی شدت پسند تنظیمیں۔ مدرسوں کی تعداد اندازاً 8 سے 10 ہزار کے درمیان۔ اہل تشیع اور ریاست کے خلاف سرگرمیاں
- اہل حدیث مکتبہ فکر تقریباً 5 فیصد، جیش محمد اور لشکر طیبہ نامی دو بڑی شدت پسند تنظیمیں۔ کارروائیوں کا ہدف کشمیر اور بھارت۔ ریاست پاکستان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں۔ مدرسوں کی تعداد اندزاً 8 سو سے 1 ہزار
اب اگر آپ تمام اہل مدرسہ کو طالبان دہشت گردوں کا ہمدرد اور سپورٹر سمجھتے ہیں تو یقیناً باعث حیرت ہے۔ جبکہ پاکستان کے سب سے بڑے مسلکی فرقے اور ان کے مدرسوں میں کوئی ایک بھی طالبان کا حامی نہیں ملے گا۔