کیا وزل کو اردو شاعری میں وہ مقام حاصل ہے جسکی وہ متقاضی ہے؟

  • ہاں

  • نہیں

  • سوچ کر بتاؤں گا


نتائج کی نمائش رائے دہی کے بعد ہی ممکن ہے۔

جاسمن

لائبریرین
شعراء عموماً عام لوگوں سے زیادہ حساس ہوتے ہیں اور اُن کے لئے دنیا کے عمومی رویّوں سے مطابقت کرنا آسان نہیں ہوتا بلکہ اکثر تو انہی وجوہات کے باعث شاعری کی طرف آتے ہیں۔

پھر جو شخص مروجہ معاملات سے مطابقت کرلے وہ معاشرے کا مفید شخص (عام شہری) بن جاتا ہے لیکن جو مطابقت نہ کر سکے وہ اپنی دنیا آپ بنانے کی کوشش کرتا ہے اور جو لوگ اپنی نئی دنیا بنانے میں کامیاب ہو جائیں تو یہی عام دنیا اُنہیں سر پر بٹھا لیتی ہے۔

کچھ لوگوں میں عام لوگوں سے زیادہ کام کی صلاحیت (Potential) ہوتی ہے ایسے لوگ اگر اپنی صلاحیتوں، علم اور حلم کو استعمال میں لاتے ہوئے اپنے آج کو کل سے زیادہ تابناک بنانے کا ہنر سیکھ لیں تو جلد یا بدیر دنیا اُن کی صلاحیتوں کا اعتراف کر ہی لیتی ہے۔

زبردست خیالات۔
اللہ پاک آپ کے ہر" آج" و "کل" کو تابناک بنائے۔ آمین!
 

جاسمن

لائبریرین
آداب عرض ہے الشفاء بھائی۔ اطلاعآ عرض ہے کہ یہ’’ طنز و مزاح ‘‘ کا زمرہ وہی ہے جس میں یہ مضمون پہلے دن پیش کیا گیا تھا۔

زمرہ کی طرف نظر ہی نہیں جاتی کسی کی۔ :)
ویسے میری بھی نہیں گئی تھی:D لیکن آپ کی تحریر پڑھتے ہی اندازہ ہو گیا تھا۔
بہرحال یہ ایک دلچسپ لڑی ہے۔ دونوں لحاظ سے۔:)
 

جاسمن

لائبریرین
وزل

گونجی جو ایک جلسے میں آواز ’’گڑگڑوں‘‘
حیران سب ہوئے کہ ہے کیا راز گڑگڑوں!

ہر اک نے دوسرے سے یہ دریافت بھی کیا
کیا اُس کا وہم تھا یا کوئی ساز گڑگڑوں

اتنے میں صدرِ جلسہ نے اعلان یہ کیا
’’حاصل ہے آج ہم کو اِک اعزاز‘‘، ’’گڑگڑوں!‘‘

’’ہیں درمیاں ہمارے جو اک‘‘، ’’گڑگڑوں‘‘، ’’جناب،
اونچی ہے ان کی فکر کی پرواز‘‘، ’’گڑگڑوں‘‘

اس گڑگڑوں میں نام پکارا گیا مِرا
کہ
’’دکھلائیے کلام کا اعجاز‘‘، ’’گڑگڑوں!‘‘

سن کر یہ، میں اُٹھا تو ذرا لڑکھڑا گیا
تھا کپکپی بھرا مِرا انداز، ’’گڑگڑوں‘‘

سرگوشیاں سنائی دیں اس درمیاں مجھے
’’ہے کون یہ؟’’، ’’کیوں آتا نہیں باز؟‘‘، ’’گڑگڑوں‘‘

اسٹیج پر پہنچ کے، میں بس اتنا کہہ سکا
’’آتی ہے میرے پیٹ سے آواز گڑگڑوں‘‘

بھوک

دیکھیں، یہ وزل کی خوبی ہے کہ عنوان اوپر دینے کی بجائے نیچے دیا گیا اور اس سے کیسا خوب صورت حسن پیدا ہوگیا ہے۔ عنوان کے بغیر وزل پڑھ کر آپ کے ذہن میں مزاحیہ خاکہ اُبھرے گا اور آپ لطف اندوز ہوں گے، اور آخر میں عنوان ٹریجڈی ثابت ہوگا۔ بلاشبہ یہ خوب صورتی اور انفرادیت، روایت شکن صنفِ سخن ’’وزل‘‘ ہی کا خاصہ ہے۔

واہ کیا وزل ہے بھئی!
بہت خوب!
روایت شکن۔
 

جاسمن

لائبریرین
نئی اصنافِ سخن کا مذاق اُڑایا جانا اور اُنھیں کسی کھاتے میں نہ گننا فن کے خود ساختہ ٹھیکے داروں اور اساتذہ کا وتیرہ رہا ہے۔
ہم وزل گو نہ بکیں گے نہ جھکیں گے
ہم مشقِ سخن کرتے رہے ہیں اور کرتے رہیں گے​
اس صنفِ سخن میں ایک عظیم اضافہ پیشِ خدمت ہے۔ یہ انتہائی تازہ اور فی البدیہ کلام ہے۔ پیشگی آداب عرض ہے!

دیواروں سے ملنا، ٹکر کھانا، چوٹ کا آنا اچھا لگتا ہے
دل کا کیا ہے دل تو بچہ لگتا ہے

میں نے جس پھل پر بھی ہاتھ رکھا وہ بولے
یہ رہنے دو، وہ لے لو، وہ چھوڑو، یہ لے لو، بلکہ سب رہنے دو کیوں کہ مجھ کو اس ٹھیلے پر رکھا ہر پھل کچا کچا لگتا ہے

جس لمحے سے اُس نے میرے دل پر بول رکھا دھاوا
اس کا ہر اک جھوٹ، بہانہ، اور تسلی، ہر دعوا
مجھ کو سچا لگتا ہے

دیواروں سے ملنا، ٹکر کھانا، چوٹ کا آنا اچھا لگتا ہے
دل کا کیا ہے دل تو بچہ لگتا ہے​

(انتباہ: اگرچہ انتباہ کی قطعی کوئی ضرورت نہیں لیکن اس دھاگے کے ابتدائی مراسلے پر احباب کا ردِّ عمل دیکھتے ہوئے واضح کیا جاتا ہے کہ یہ مراسلہ فقط مزاح کے طور پر لکھا گیا ہے۔) :p
بہت ہی خوب!
 

جاسمن

لائبریرین
کل رات استاد محبوب نرالے عالم کی روح حلول کرگئی تھی، اسی رنگ میں ایک وزل ہوگئی:

اِک تمنا بخت کا اظہار تھی
کیوں ہمیں ایسی شتابی چاہیے

جا تجھے ماضی بعیدا تھا کبھی
اِک مدھانی اضطرابی چاہیے

اُن کے قدموں پر لنڈھا جاتے ولیک
جامِ جم سی وہ گلابی چاہیے

کہہ اُٹھا فوراً رقیبِ روسیہ
رات سی کیفی سرابی چاہیے

آ دبوچا اِک فشارِ حال ِ من
آپ کا چہرہ کتابی چاہیے

کیا نرالا عالمی محبوب ہے
دل جسے اِک طنطنابی چاہیے



واہ واہ واہ واہ واہ۔۔۔۔
کیا طنطنابی وزل ہے!
اک مدھانی اضطرابی چاہیے
واہ خوب!
 

جاسمن

لائبریرین
محترم خلیل الرحمن بھائی
بلاشک یہ کرم ہے قلم کے سچے مالک کا کہ اس نے آپ کے قلم کو یہ خوبی عطا فرمائی کہ
اس سے نکلے لفظ مسکراہٹ بن لبوں پہ بکھرتے اور قہقہہ بن فضاؤں میں پھیلتے زندگی کی جنگ میں الجھے ہوؤں کو کچھ پل راحت پہنچاتے ہیں
بہت دعائیں خدا آپ کے قلم کو رواں دواں مہکتا چہکتا رکھے ۔۔ آمین
نایاب بھائی کا ان کے خاص دعائیہ رنگوں میں رنگا مراسلہ۔
 

جاسمن

لائبریرین
ہاں سہی یا ناں سہی یا ہاں سہی
ہاں یا ناں میں ہو نہ جائے کچھ مگر

بھاگتا پھرتا ہوں کیوں جانے نہ لوگ
ہے مجھے وحشت یہ ڈاکو کا خطر

کتنے مشکل کام پلے پڑ گئے
کارِ انساں، کارِ جن، کارِ دِگر

شعر کہتا پھر چلا ہوں میں سہی
پڑ نہ جائے مجھ پہ اب اس کی نظر

قافیہ اب تنگ پڑ سکتا نہیں
ہیں مرے پیشِ نظر، زیر و زبر​

واہ بھئی واہ!:)
 
Top