وزیراعظم کے خطاب کا کچھ حصہ۔
پاکستان اپنی سیاسی تاریخ کے اہم دوہراے پر کھڑا ہے ۔ ہم نے ہمیشہ سیات میں مفاہمت، صبر و تحمل کو اہمیت دی ہے ۔
جمہوریت اور جمہوری ادارے اس وقت تک مستحکم نہیںہوتے جب تک سیاسی اکابرین اور جماعتیں ایک دوسرے کے مینڈیٹ کا احترام نہ کریں۔ آج وکلاء مطالبات کے حق میں احتجاج کررہے ہیں جو ان کا سیاسی حق ہے ۔
پاکستان پیپلز پارٹی اور وکلائ برادری کا رشتہ بہت برانا اور اٹوٹہے ۔ جمہوریت کی بحالی اور حقوق کی جدوجہد میں شانہ بشانہ رہے ہیں۔
معاشرے کے باشعور قانون دان ملک میں قانون اور آئین کی عملدرآمد میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔
جب چیف جسٹس کو معزول کیا گیا تھا تو اس کے خلاف شروع ہونے والی تحریک میں ہماری شہید قائد بے نظیر بھٹو عملی طور پر شریک ہوئیں ، لانگ مارچ میں شریک ہوئیں اس لیے انہیں نظر بند کیا گیا ۔ میںخود بھی گرفتار ہوا ۔ وکلاء ، پی پی پی اور دیگر سیاسی جماعتوں کے کارکنوں نے عطیم کاربانیاںدیں اور جانوں کے نذرانہ بھی پیش کئے۔
بے نظیر بھٹو شہید نے وعدہ کیا تھا کہ افتخار محمد چوہدری کو چیف جسٹس کے عہدے پر بحال کریں گی ۔ جب پیپلز پارٹی کی حکومت بنی تو پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئر پرسن اور صدر آصف علی زرداری نے وعدہ کیا کہ ججز کو بحال کریں گے۔ وہ اپنے وعدے پر قائم رہے لیکن اس وقت افتخار محمد چوہدری کو چیف جسٹس کے عہدے پر بحال کرنا ممکن نہیں تھا اور عبدالحمید ڈوگر چیف جسٹس کی حیثیت سے کام کررہے تھے ۔ صدر آصف علی زرداری نے وعدہ کیا تھا کہ وہ قبل از وقت کسی جج کو ہٹائیں گے نہیں۔
اب عبدالحمید ڈوگر کی ریٹائرڈمنٹ کے موقع پر مشاورت کے بعد فیصلہ کیا گیا ہے کہ افتخار محمد چوہدری سمیت تمام معزول کئے گئے ججز کو ان کے عہدوںپر بحال کیا جائے گا۔
باقی نوٹ نہیں کیا۔ نیند آرہی ہے ۔
ہاں ۔ وزیراعظم نے دفعہ 144 ختم اور گرفتار تمام سیاسی کارکنوںکو رہا کرنے کا بھی حکم دیا۔