اس نقشے میں نئی بات کیا ہے؟
پاکستان کے نئے سیاسی نقشے میں کیا ہے؟
- عمر دراز ننگیانہ
- بی بی سی اردو لاہور
4 اگست 2020
اپ ڈیٹ کی گئی 6 گھنٹے قبل
،تصویر کا ذریعہGETTY IMAGES
پاکستان کے وزیرِاعظم عمران خان نے منگل کو پاکستان کے 'نئے سیاسی نقشے' کی باقاعدہ رونمائی کی ہے جس میں انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر کو بھی پاکستان کا حصہ دکھایا گیا ہے۔
پاکستان کی طرف سے یہ اقدام اس وقت کیا گیا ہے جب انڈیا کی طرف سے کشمیر کی نیم خود مختاری ختم کرنے کا ایک سال ایک روز بعد مکمل ہو رہا ہے۔ اس موقع پر انڈیا نے اپنے زیر انتظام کشمیر میں سخت کرفیو نافذ کرنے کا اعلان کر رکھا ہے۔
وزیرِاعظم عمران خان نے رونمائی کے موقع ہر بات کرتے ہوئے بتایا کہ 'کابینہ کی طرف سے منظوری کے بعد اس نئے نقشے کو پاکستان کے سرکاری نقشے کی حیثیت حاصل ہو گئی اور یہ سکولوں اور کالجوں میں استعمال ہو گا۔'
پاکستان کی طرف سے نئے سیاسی نقشے کے سامنے آنے کے بعد انڈیا کی وزارتِ خارجہ کی جانب سے جاری ہونے والی بیان میں کہا گیا کہ 'اس قسم کے مضحکہ خیز دعوے کی کوئی قانونی حیثیت ہے اور نہ ہی کوئی بین االاقوامی قبولیت۔'
نئے نقشے میں انڈیا کے زیرِانتظام کشمیر کو پاکستان کا حصہ دکھاتے ہوئے اس پر لکھا گیا ہے 'انڈیا کے غیر قانونی قبضے میں جموں اور کشمیر' جبکہ ساتھ ہی سرخ سیاہی میں درج کیا گیا ہے کہ 'متنازع علاقہ، حتمی فیصلہ اقوامِ متحدہ کی سکیورٹی کونسل کی سفارشات کی روشنی میں ہونا ہے۔'
پاکستان کے وزیرِاعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ پاکستان نے ہمیشہ کشمیر کو اپنا حصہ سمجھا ہے اور یہ اس جانب پہلا قدم ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ کشمیر کے تنازع کا واحد حل سکیورٹی کونسل کی سفارشات پر عملدرآمد ہے۔
'پاکستان طاقت کے استعمال سے مسائل کے حل پر یقین نہیں رکھتا، ہم سیاسی جدوجہد کریں گے۔ ہم اقوامِ متحدہ کو بار بار یاد دلاتے رہیں گے کہ آپ نے کشمیر کے لوگوں سے ایک وعدہ کیا تھا جو کہ ابھی تک پورا نہیں ہوا۔'
،تصویر کا ذریعہGOVERNMENT OF PAKISTAN
نئے سیاسی نقشے میں نیا کیا دکھایا گیا ہے؟
پاکستان کے وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی نے نئے سیاسی نقشے کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ اس میں گلگت بلتستان اور پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر کو پاکستان کے نقشے کا حصہ دکھایا گیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس نقشے سے 'یہ واضح کر دیا گیا ہے کہ مسئلہ کشمیر کا حل سکیورٹی کونسل کی سفارشات کی روشنی ہی میں ممکن ہے اور دوسرا یہ کہ سیاچن ہمارا ہے اور ہمارا رہے گا۔'
ان کی طرف سے نئے سیاسی نقشے کی جو تصویر دکھائی گئی اس میں سر کریک اور انڈیا کی ریاست گجرات کے علاقے جوناگڑھ اور مناوادر کو بھی دکھایا گیا ہے۔
سر کریک کے حوالے سے بات کرتے ہوئے پاکستان کے وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ 'پاکستان نے انڈیا کے الزامات کو مسترد کر دیا ہے کہ وہ مغربی حصے کی جانب بڑھ رہا ہے، ہم نے واضح کر دیا ہے کہ ہماری سرحد مشرق کی طرف ہے۔'
،تصویر کا ذریعہEPA
،تصویر کا کیپشن
انڈیا کی طرف سے کشمیر کی نیم خود مختاری ختم کیے جانے کو ایک سال مکمل ہو رہا ہے
انڈیا کا ردِ عمل کیا ہے؟
پاکستان کی طرف سے نئے سیاسی نقشے کے سامنے آنے کے بعد انڈیا کی وزارتِ خارجہ کی جانب سے ایک بیان جاری کیا گیا ہے۔ اس میں کہا گیا ہے کہ 'پاکستان کا طرف سے انڈیا کی ریاستوں گجرات اور اس کے یونین علاقوں کشمیر اور لداخ ہر ناقابلِ مدافعت حق ظاہر کرنا سیاسی طور پر ایک بے معنی مشق ہے۔'
بیان میں کہا گیا ہے کہ انڈیا نے پاکستان کے وزیرِاعظم عمران خان کی جانب سے جاری کیے جانے والا 'نام نہاد نیا سیاسی نقشہ دیکھا ہے۔'
ان کا کہنا تھا کہ 'اس قسم کے مضحکہ خیز دعوے کی نہ تو کوئی قانونی حیثیت ہے اور نہ ہی کوئی بین االاقوامی معتبریت ہے۔'
'درحقیقت یہ نئی کوشش صرف سرحد پار دہشت گردی کے ذریعے پاکستان کے علاقائی اضافے کے جنون کی حقیقت کو تقویت دیتی ہے۔'
'انتہائی بچگانہ اقدام ہے'
پاکستان کی طرف سے نئے سیاسی نقشے کے اجرا کے حوالے سے بی بی سی نے کچھ مبصرین سے بات کی جن کا کہنا کہ اس نوعیت کے اقدامات سے بین الاقوامی سطح پر پاکستان کی مسئلہ کشمیر کے حوالے سے کی جانے والی کوششوں کو کوئی مدد حاصل نہیں ہو گی۔
لاہور کی پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ سیاسیات کے پروفیسر شبیر احمد خان کا کہنا تھا پاکستان کا جو سیاسی نقشہ نیا کہہ کر پیش کیا گیا ہے اس میں کچھ زیادہ نہیں ہے۔ پاکستان پہلے بھی 'کشمیر میں اپنے زیر انتظام کشمیر کو دکھانے کے لیے نقشے پر لائن آف کنٹرول کو نقطوں کی لائن لگا کر دکھاتا تھا۔ پھر ہم نے فیصلہ کیا کہ اس کو بھی ختم کر دیا جائے تو وہ ہٹا دی گئی۔'
تاہم شبیر احمد خان کا کہنا تھا کہ اس نقشے کو جاری کرنے کے پیچھے جو مقصد ہے 'وہ پاکستان کی طرف سے ایک انتہائی قابلِ شرم اور بچگانہ اقدام ہے۔ یہ کوئی علامتی پیغام بھی نہیں ہے۔ بڑی طاقتیں ایک دوسرے کو اس طرح اکساتی نہیں ہیں۔'
ان کا کہنا تھا کہ 'اس طرح نقشے بنانے سے یا کسی شاہراہ کا نام سرینگر شاہراہ رکھنے سے کوئی اس کو تسلیم تھوڑی کر لے گا۔' ان کا کہنا تھا کہ ایٹمی طاقت ہونے کے ناطے ذمہ دار حکومتیں کسی دوسری بڑی طاقت کا ان طریقوں سے اکساتی نہیں ہیں۔
'اس طرح کے نقشوں کو بین الاقوامی حمایت نہیں مل سکتی'
تجزیہ کار ڈاکٹر حسن عسکری رضوی کا بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہنا تھا کہ اس نوعیت کے اقدامات سے حکومت اندرونی سطح پر جذبات کو خوش کر سکتی ہے تاہم 'بین الاقوامی حمایت اس طرح بنائے گئے نقشوں کو نہیں ملتی۔'
اس کا کہنا تھا کہ کشمیر کے مسئلے کے حقیقی حل کے لیے اب بھی پاکستان کو بین الاقوامی سطح پر حمایت حاصل کرنے کے لیے کوشش کرنا ہو گی۔
حسن عسکری رضوی کا یہ بھی کہنا تھا کہ نئے سیاسی نقشے میں کچھ زیادہ ایسا نہیں ہے جو نیا ہو۔ ان کا کہنا تھا کہ سنہ 1971 سے قبل پاکستان ریاست جونا گڑھ کو سیاسی نقشے کا حصہ دکھاتا تھا تاہم بعد ازاں اس کو نکال دیا گیا تھا۔
،تصویر کا ذریعہGETTY IMAGES
،تصویر کا کیپشن
پروفیسر شبیر احمد خان کے مطابق کوئی بھی ملک ایسا نہیں کرتا کہ وہ کسی متنازع علاقے کو اپنا علاقہ ظاہر کردے
'پاکستان کے علاقوں کا تعین آئین کرتا ہے'
ڈاکٹر حسن عسکری رضوی کا یہ بھی کہنا تھا کہ پاکستان کی طرف سے یہ اقدام نقشوں کی اس جنگ کا ردِ عمل ہو سکتا ہے جو گذشتہ کچھ عرصے سے خطے میں جاری ہے جیسا کہ نیپال اور انڈیا کے درمیان تنازع پر نیپال نے ایک نقشے پر متنازع علاقے کو اپنے علاقے میں شامل دکھایا۔
تاہم ڈاکٹر حسن عسکری رضوی کے مطابق 'متنازع علاقوں کے حل کے لیے پھر بھی پاکستان کو بین الاقوامی حمایت حاصل کرنا ہو گی۔'
ان کا کہ بھی کہنا تھا کہ اس قسم کے نقشوں کی اجرا میں قانونی سقم بھی ہوتے ہیں۔ پاکستان میں شامل علاقوں کا تعین پاکستان کے آئین کا آرٹیکل 1 کرتا ہے۔ اس طرح پاکستان کے علاقوں میں اضافہ پارلیمان کی جانب سے ہوتا ہے۔ اس لیے اس میں قانونی سقم بھی موجود ہیں۔'
'تو کیا آپ نے تسلیم کر لیا کہ تنازع ختم ہو گیا؟'
پنجاب یونیورسٹی لاہور کے شعبہ سیاسیات کے پروفیسر شبیر احمد خان کے مطابق اس طرح کے نقشے جارے کرنے کے اقدامات الٹا آپ کے خلاف بھی جا سکتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ کوئی بھی ملک ایسا نہیں کرتا کہ وہ کسی متنازع علاقے کو اپنا علاقہ ظاہر کردے۔ ان کا کہنا تھا حتیٰ کہ ایسے ملک جنہوں نے کسی علاقے پر قبضہ کر رکھا ہو وہ بھی اس علاقے کو اپنا حصہ ظاہر نہیں کرتے۔
'اس طرح کے یکطرفہ اقدام سے کیا آپ یہ تسلیم کر رہے ہیں کہ تنازع ختم ہو گیا۔ کل کو اگر آپ بین الاقوامی سطح پر جا کر یہ کہتے ہیں کہ فلاں علاقہ متنازع ہے تو ہو سکتا ہے وہ تسلیم نہ کریں۔ وہ کہیں گے کہ جی ہم نے آپ کا سرکاری طور پر جاری نقشہ دیکھا ہے اس میں تو یہ متنازع علاقہ نہیں ہے۔'
'نقشہ نگاری کا فریب نظر': سوشل میڈیا پر ردِ عمل
پاکستان کی طرف سے نیا سیاسی نقشہ جاری کرنے کے ساتھ ہی سوشل میڈیا کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر یہ عنوان ایک ٹرینڈ کے طور پر ابھرا جہاں چند افراد نے اس پر پاکستان کے وزیرِاعظم کو سراہا۔
ریحان علوی نامی ایک صارف کا کہنا تھا کہ 'یوں تو علامتی ہے لیکن یہ حکومت کا ایک ماسٹر سٹروک ہے۔ اس سے یقیناً ایک بحث چھڑے گی اور بین الاقوامی برادری کو ایک مضبوط پیغام جائے گا۔'
طلحہ مصطفوی نامی دوسرے ایک صارف نے لکھا کہ 'یقین کریں یا نہیں آج کی صدی ٹینکوں اور میزائیلوں سے جنگ کرنے کی نہیں ہے۔ یہ بیانیے، میڈیا، ڈپلومیسی اور سیاسی دانشمندی کا وقت ہے۔ پاکستان کی وزارتِ خارجہ کے پاکستان افواج کے ساتھ الائنس نے پاکستان کے سفارتی مقام کو انتہائی نیچے سے اٹھا کر مطلوبہ سطح پر پہنچا دیا ہے۔'
تاہم تویٹر پر کئی صارف پاکستان کے اس اقدام کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے اس پر سوالات اٹھاتے بھی نظر آئے۔
ماہ زالہ خان نامی ایک صارف نے لکھا کہ 'ایک سوال ہے، کیا یہ پاکستان کا نیا نقشہ بین الاقوامی سطح پر تسلیم یا استعمال کیا جائے گا؟ مجھے سمجھ نہیں آئی۔'
اسی طرح ایک صارف ولید طارق نے نقشے کی تصویر کے ساتھ صرف اتنا لکھا 'نقشہ نگاری کا فریب نظر۔'
بعیمان نامی ایک صارف نے لکھا کہ 'اور ایسے کرائیں گے ہم کشمیر آزاد، گانے بنا کر اور اسے نقشے میں شامل کر کے اور امید کریں گے کہ ایک دن یہ سچ ہو جائے گا۔'