احباب کو اطلاع ہو کہ واپس جانے کے علاوہ اب ہم گھر سے دفتر بھی خیریت سے نکل آئےہیں۔ تاہم کل کا روزہ ہم پر کافی بھاری ثابت ہوا۔ کچھ سحری میں ہم نے کوتاہ اندیشی سے کام لیا کچھ واپسی پر اسلام آباد میں تاریخ ساز ٹریفک جام تھا اور اپنی زندگی میں پہلی مرتبہ نقاہت سے بے حال ہو کر سوچا کہ فٹ پاتھ پر موٹرسائیکل چڑھا دی جائے اور نکل لیا جائے تاہم فطری سنجیدگی کے باعث ہم کو شرم سی محسوس ہوئی کہ جس راستے پر حق نہیں رکھتے اس پر کیوں چلیں اور پھر روزے کا فائدہ ہمیں قانون کا احترام نہ کریں تو دوسرے کیا خاک کریں گے وغیرہ وغیرہ!
یہ دلائل تو خیر عوامی چہرہ سازی کے لیے ہوا کرتے ہیں، اصل بات یہ ہے کہ نقاہت کے سبب شاید موٹرسائیکل ہم سے فٹ پاتھ پر چڑھی بھی نہیں!
خیر، صرف آٹھ کلومیٹر کا فاصلہ 45 منٹ میں طے کیا، جو گھر کی سڑک پر چڑھے تو کیا دیکھتے ہیں کہ پہاڑی کی چوٹی پر چند پولیس اہلکار معصوم کبوتروں کی طرح ادھر ادھر دیکھ رہے ہیں کہ آن کی آن میں کیا ہو گیا زمانے کو۔۔ ہم کو اس سے جامع اور مختصر تبصرہ اور تو کوئی نہ سوجھا کہ 'ہور چوپو'
ہور چوپو کی وضاحت کے لیے ہم کو وہ تمام لطیفہ بھی سنانا پڑے گا امید ہے بیشتر احباب اس زمیندار کا قصہ سمجھ گئے ہوں گے۔ تاہم وضاحت طلب کی جا سکتی ہے۔
بہرکیف، حیرت کی بات یہ ہے کہ وہاں معمولی سی نقل و حرکت پر بھی سڑک کے آس پاس بھی کسی کو کھڑے نہیں ہونے دیا جاتا کجا کہ تین افراد کا لاؤ لشکر اسلحے سمیت چڑھ گیا، فائرنگ کی اور آرام سے نکل لیا۔ ہمیں ظہور سولنگی صاحب کے ہمراہ یہاں کھڑے ہونے کا اتفاق ہوا کہ پولیس والا آکیا کہنے لگا گیلانی صاحب ملتان سے آتے ہیں۔ ہم نے کہا اچھا پھر ہم کیا کریں؟ کہنے لگا نیچے اتر جائيے۔ ہم نے استفسار کیا کیوں؟ کہنے لگا ان کی نظر پڑتی ہے اچھا نہیں لگتا!
ہم تلملائے اور پولیس اہلکار سے پوچھا کہ کیوں صاحب؟ گیلانی صاحب کو ہم سے پردہ ہے کیا؟ بس اس پر اس سے کوئی جواب نہ بن پڑا ہنس دیا چپ رہا۔ بہرکیف، ہم نیچے اتر گئے۔
تاہم نشانے کی داد دینا پڑتی ہے، کیوں کہ تخیل میں ہم بھی کئی بار یہاں سے فائرنگ کی مشق کر چکے ہیں اور اسے کافی مشکل کام پایا خاص طور پر متحرک اجسام کو اس بلندی سے نشانہ بنانا بہت مہارت کا متقاضی ہے۔ وزیراعظم کے کارواں کی رفتار 200 کلومیٹر سے کچھ اوپر ہی ہوتی ہے۔ یہ ہم یوں کہہ سکتے ہیں کہ معمولی تیرہ سو سی سی کی کاریں رکھنے والے اس سڑک پر 120 تک جاتے ہیں۔ اور ایسا بارہا ہواہے کہ extreme right پر نوے پچانوے کی رفتار پر ہوتے ہوئے بھی عام لینڈ رورز اس رفتار سے گزرتی ہیں کہ خود پر سست رفتار گھونگھے کا گمان ہوتا ہے۔
بہرطور، ان تین اصحاب سے پوچھا جانا چاہئے کہ حضور اس پہاڑی پر چڑھتے اترتے سانس بھی پھولا ہوگا، ایک آدھ میگزین بھی خالی کیا ہوگا اور محض دو گولیاں وہ بھی بلٹ پروف گاڑیوں پر؟ ایں چہ چکر است؟