ہر کمیشن میں مولوی نکلے گا تم کتنے مولوی مارو گے۔
اقلیتی کمیشن میں احمدی نمائندگی کے سوال پر حکومت کا یوٹرن
01/05/2020 سید مجاہد علی
مسلم لیگ (ق) کے صدر چوہدری شجاعت حسین اور بعض مذہبی لیڈروں کے احتجاج کے بعد حکومت نے قومی اقلیتی کمیشن میں احمدی نمائندہ نامزد کرنے کا فیصلہ تبدیل کرنے کا اشارہ دیا ہے۔ خبروں کے مطابق 15 اپریل کو کابینہ کے اجلاس میں وزیر اعظم کی ہدایت پر فیصلہ کیا گیا تھا کہ اقلیتوں کے قومی کمیشن میں احمدیوں کا ایک نمائندہ بھی شامل کیا جائے۔ تاہم اس معاملہ پر سامنے آنے والے احتجاج کے بعد وزیر مذہبی امور نور الحق قادری نے دوبارہ کابینہ سے رجوع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اور کسی احمدی کو اقلیتی کمیشن میں نمائندگی نہ دینے کا مشورہ دیا ہے۔
وزیر مذہبی امور نور الحق قادری اب اس معاملہ پر یہ توجیہ پیش کرتے ہیں کہ کابینہ کے اجلاس میں کمیشن کی تشکیل نو پر غور کیا گیا تھا لیکن کمیشن کے نام فائینل نہیں ہوئے تھے ۔ وزارت مذہبی امور اس سلسلہ میں کابینہ کی منظوری کے بعد کمیشن کے ارکان کا اعلان کرے گی۔ انہوں نے ایک بیان میں واضح کیا کہ ’کابینہ ہی یہ فیصلہ کرے گی کہ قادیانی اقلیت کا کوئی نمائندہ کمیشن میں شامل ہو یا ایسا کرنا مناسب نہیں ہے۔ اس معاملہ کے تمام پہلوؤں کا جائزہ لے کر ہی کابینہ کوئی حتمی فیصلہ کرے گی‘۔ نور الحق قادری نے بیان میں مزید کہا ہے کہ ’ختم نبوت ہمارے ایمان کا حصہ ہے اور اس پر کسی صورت مفاہمت نہیں کی جاسکتی‘ ۔
بیان کے اس حصے سے یہ اندازہ کرنا مشکل نہیں ہے کہ وفاقی وزیر مذہبی امور اقلیتی کمیشن میں احمدیوں کی نمائندگی کے بارے میں کیا خیالات رکھتے ہیں۔ اس مؤقف کے ساتھ وہ کابینہ کو اپنا گزشتہ فیصلہ تبدیل کرنے پر آمادہ کرنے کے لئے دلائل دیں گے۔ ملک کی موجودہ سیاسی صورت حال میں یہ بعید از قیاس نہیں ہونا چاہئے کہ کابینہ بھی اپنے ایک حلیف اور ملکی مذہبی اکثریت کے شدید جذبات کی روشنی میں وہی فیصلہ کرے گی جو سیاسی لحاظ سے قابل قبول ہو۔ ا س معاملہ میں اصول کوئی اہمیت نہیں رکھتے اور نہ ہی یہ پہلو قابل غور ہوتا ہے کہ ملک کا آئین عقیدہ ونسل، ذات پات کی تخصیص کے بغیر پاکستان کے سب شہریوں کو مذہبی عقائد رکھنے کا حق دیتا ہے۔ ریاست پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اقلیتوں کی حفاظت کو یقینی بنائے۔ پاکستان میں اقلیتوں کے حقوق کی بات کرنے کے باوجود کوئی حکومت اس حوالے سے ٹھوس اقدامات کرنے کا حوصلہ نہیں کرتی۔
یوں تو تمام مذہبی اقلیتوں کو تعصب، امتیازی سلوک، تشدد اور غیر قانونی اقدامات کا سامنا کرنا پڑتا ہے لیکن احمدیوں کو خاص طور سے ملک کے مذہبی گروہ نشانہ بناتے رہے ہیں۔ ختم نبوت کے نام پر شروع کی گئی تحریک کے تحت احمدیوں کو معاشرے میں مسترد کرنے کی باقاعدہ مہم جوئی کی جاتی ہے اور عوام کو ان کا سماجی بائیکاٹ کرنے پر اکسایا جاتا ہے۔ سادہ لوح مسلمانوں کو یہ یقین دلا دیا گیا ہے کہ کسی احمدی کے ساتھ میل جول یا مراسم سے کسی بھی مسلمان کا عقیدہ خطرے میں پڑ جاتا ہے۔ احمدی املاک پر حملے اور ان کے قبرستانوں میں قبروں کی بے حرمتی روز کا معمول ہے۔ عام طور سے پولیس اس قسم کی قانون شکنی کرنے والوں کی گرفت کرنے میں ناکام رہتی ہے۔ احمدیوں کے خلاف کھلے عام نفرت کا اظہار کرنے اور اشتعال پر اکسانے والے کسی مذہبی لیڈر کی کبھی گرفت نہیں ہوسکی۔
اس ماحول میں ملک میں آباد احمدی آبادی بنیادی انسانی حقوق سے محروم ہے اور انہیں معاشرہ سے الگ تھلگ کردیا گیا ہے۔ احمدیوں کے مساوی حقوق کی بات تو کجا ان کے خلاف نفرت کے اظہار کو مسلمانوں کے لئے ایمان کا تقاضہ بنا دیا گیا ہے۔ کسی مذہبی عالم کو اس صورت حال پر آواز اٹھانے اور اس صریح ناانصافی کے خلاف بولنے کی توفیق نہیں ہوتی۔ سیاست دان اور حکمران بھی اسی سماجی رویہ پر عمل پیرا ہونے میں ہی عافیت سمجھتے ہیں اور احمدیوں کو تمام مسائل کا سبب قرار دے کر ان کے خلاف نفرت میں اضافہ کرتے ہیں۔ اس کا اظہار چوہدری شجاعت حسین کے انٹرویو اور وزیر برائے مذہبی امور کے بیان سے بھی ہو رہا ہے۔
وفاقی وزیر برائے مذہبی امور نورالحق قادری کے وضاحتی بیان میں احمدیوں کے لئے ’ قادیانی‘ کا لفظ استعمال کرکے واضح سماجی تفریق اور کسی ایک عقیدہ یا گروہ کے لئے نفرت وتعصب کا اظہار کیا گیا ہے۔ احمدی خود کو احمدی مسلمان کہتے ہیں۔ تاہم ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں 1974 میں کی گئی آئینی ترمیم کے تحت انہیں غیر مسلم قرار دیا گیا تھا۔ اقوام عالم کی تاریخ میں یہ اپنی نوعیت کی انوکھی آئینی ترمیم تھی جس میں ریاست یہ فیصلہ کررہی تھی کہ ایک خاص عقیدہ کے لوگ درحقیقت کیا ہیں۔ عام طور سے ہر عقیدہ کے ماننے والے خود یہ طے کرتے ہیں کہ وہ کس عقیدہ پر عمل پیرا ہیں اور انہیں کس نام سے بلایا جانا چاہئے۔ غیر مسلم قرار دینے کے بعد اگرچہ احمدیوں سے مسلمان کہلانے کا حق چھین لیا گیا لیکن پھر بھی اس اقلیتی گروہ کو یہ حق حاصل ہونا چاہئے کہ وہ اپنے لئے جو نام مناسب سمجھے، اسے کسی حیل و حجت کے بغیر قبول کرلیا جائے۔ وہ خود کو احمدی کہلوانا چاہتے ہیں لیکن پاکستان میں سماجی و سیاسی سطح پر انہیں قادیانی کہنے پر اصرار کیا جاتا ہے ۔
احمدیوں کے لئے قادیانی لفظ کا استعمال شدید نفرت اور سماجی دوری کے اظہار کے طور پر کیا جاتا ہے۔ ان حالات میں اندازہ کیاجاسکتا ہے کہ ملک میں آباد لگ بھگ چالیس لاکھ احمدی کن سنگین حالات کا سامنا کررہے ہیں۔ لیکن کوئی حکومت ان کی داد رسی کے لئے کوئی قدم اٹھانے کی سکت نہیں رکھتی۔ جیسا کہ اقلیتی کمیشن میں احمدی نمائندے کی نامزدگی کی تجویز پر حکومت کی پسپائی سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ ا س معاملہ کو سیاسی اور سماجی طور سے کس قدر نازک اور حساس بنا دیا گیاہے۔ ملک میں تعصب کے خاتمہ اور سب عقائد کو مساوی شہری حقوق دینے کے لئے لازم ہے کہ ایک اقلیت کے بارے میں اس مزاج اور لب و لہجہ کو تبدیل کیا جائے۔ ورنہ ایک گروہ کے خلاف نفرت پیدا کرنے کا یہ رویہ پورے معاشرے کو ٹکڑوں میں بانٹ کر فساد اور انتشار کی طرف لے جائے گا۔
وزیر مذہبی امور کے وضاحتی بیان سے پہلے یہ خبریں سامنے آچکی تھیں کہ کابینہ نے اقلیتی کمیشن کی تنظیم نو کی منظوری دیتے ہوئے 7 سرکاری اور 8 غیر سرکاری ارکان کو اس میں شامل کرنے کا فیصلہ کیا تھا ۔ کابینہ نے وزیر اعظم کی خواہش کے مطابق طے کیا تھا کہ احمدیوں کو 1974 کی آئینی ترمیم میں چونکہ اقلیت قرار دیا جاچکا ہے اس لئے ان کا ایک نمائندہ بھی اس کمیشن میں شامل کیا جائے۔ ا س طرح 46 برس قبل ہونے والی اس ترمیم کے بعد پہلی مرتبہ قومی اقلیتی کمیشن میں کسی احمدی کو نمائندگی مل سکتی تھی۔ لیکن اب حکومت اس مؤقف سے پسپا ہو رہی ہے۔ حالانکہ اگر پاکستان کا آئین ، عوام اور حکومت احمدیوں کو مسلمان نہیں مانتے تو ان کی حیثیت ’اقلیت‘ کے سوا کیا ہے؟ کیا یہ اتنا مشکل سوال ہے جس کا جواب نور الحق قادری اور حکومت کے زعما یا اس ملک کی عدالتوں کے پاس موجود نہ ہو۔ یا تعصب کی پٹی اتنی موٹی ہے کہ اس کی اوٹ سے سچ اور حقیقت کی پہچان ناممکن بنا دی گئی ہے۔ نیا پاکستان بنانے کے دعوے دار عمران خان اور ان کے ’روشن خیال ‘ ساتھی بھی اگر یہ اہم کام کرنے میں ناکام رہتے ہیں تو وہ کس منہ سے اقلیتوں کو تحفظ اور مساوی مواقع و احترام فراہم کرنے کا دعوی کرسکتے ہیں۔
یہ بھی سوچنا چاہئے کہ پندرہ رکنی کمیشن میں ایک احمدی نمائندہ کیا کردار ادا کرسکتا ہے۔ ایک تنہا آواز قانون سازی کے عمل یا سماجی رویوں میں کون سی اہم تبدیلی لانے کے قابل ہوسکتی ہے۔ کمیشن میں بیوروکریسی اور حکومت کے نمائندے لمحہ بھر میں کسی بھی اختلافی آواز کو نظر انداز کرنے اور دبانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ یوں بھی کسی ایک مذہبی اکثریت کے مفادات پر استوار کسی معاشرے میں اقلیتی کمیشن کی حیثیت نمائشی سے زیادہ نہیں ہوتی۔ اس کمیشن میں اسلامی نظریاتی کونسل کے چئیرمین اور سرکاری نمائندے بھی شامل ہوں گے۔ احمدی تو کیا کسی بھی اقلیتی نمائندے کو کوئی ایسا مؤقف سامنے لانے کا حوصلہ نہیں ہوسکتا جو ملکی اکثریت کے مزاج نازک پر گراں گزرنے کا اندیشہ ہو۔
اقلیتی کمیشن میں احمدی نمائندہ شامل ہونے کی خبر عام ہونے پر سب سے سخت رد عمل حکومت کی حلیف جماعت مسلم لیگ (ق) کے صدر چوہدری شجاعت حسین کی طرف سے سامنے آیا تھا۔ ایک ٹی وی پروگرام میں بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا تھا کہ ’ اس وقت احمدیوں کا پنڈورا باکس کھولنا ناقابل فہم ہے۔ احمدی خود کو غیر مسلم نہیں مانتے اور نہ ہی پاکستان کے آئین کو تسلیم کرتے ہیں۔ ان حالات میں احمدیوں کی حمایت میں فیصلے کرنا ناقابل قبول ہے‘۔ حیرت ہے چوہدری شجاعت جیسا جہاں دیدہ سیاست دان جو ملک کے وزیر اعظم بھی رہ چکے ہیں، اس نازک معاملہ کو قومی حمیت کا سوال بنا کر سامنے لائے ہیں۔ حالانکہ یہ بات بلاجواز ہے کہ احمدی ملکی آئین کو نہیں مانتے۔ پاکستان میں رہتے ہوئے تمام احمدی ملکی آئین اور مروجہ قوانین کی پابندی کا اعلان کرتے ہیں۔ اگر ان کی طرف سے 1974 کی آئینی ترمیم کے حوالے سے سوال اٹھائے جاتے ہیں تو اس سے یہ اخذ نہیں کیا جاسکتا کہ وہ ملکی آئین کو تسلیم نہیں کرتے۔ موجودہ حکومت آئین کی اٹھارویں ترمیم کے متعلق تحفطات رکھتی ہے اور متعدد بار اس میں تبدیلی کے اشارے دے چکی ہے۔ کیا اس سے یہ مان لیا جائے کہ وزیر اعظم سمیت وہ تمام لوگ جو اٹھارویں ترمیم کے خلاف بات کرتے ہیں، وہ دراصل ملکی آئین کونہیں مانتے۔ قومی لیڈروں کو اس قسم کے متعصبانہ اور خود ساختہ بیانات سے پرہیز کرنے کی ضرورت ہے ورنہ پاکستان کبھی بھی مذہبی انتہا پسندی اور تعصب سے نجات حاصل نہیں کرسکے گا۔
پاکستانی عوام اور حکومت، بھارت میں مسلمانوں کے ساتھ ہونے والے سلوک، متعصبانہ قوانین اور سماجی رویوں کے خلاف آواز بلند کرتے رہتے ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان بھارت میں ہندو انتہا پسندی کو نازی نظریہ کے مماثل قرار دے کر متنبہ کرتے رہتے ہیں کہ مودی حکومت مسلمانوں کی نسل کشی کے منصوبے پر عمل پیرا ہے۔ سوچنا چاہئے اپنے ملک کی ایک امن پسند اقلیت کے ساتھ برتے جانے والے سماجی اور سرکاری سلوک کی روشنی میں کون سا ملک پاکستانی لیڈروں کی باتوں کو اہمیت دے گا؟