وسوسے ہیں کہ جان ہی لے جائیں
اک زمانے سے دشمنی دے جائیں
جتنا بھی بھٹکیں اِس نگر میں آ
اُس کے بَندے تو پاس اُسی کے جائیں
میں نے دیکھا ہے عیب اپنے یہاں
اُس کے در پر ہی بیٹھنے سے جائیں
جس قدر جتنا ہو سکے ہم سے
یاد اُس کو ہمیشہ کرتے جائیں
یوں ہی بیکار میں بھی لیتے ہیں
دَم پھر اُس کا ہی کیوں نہ بھرتے جائیں
سامنے ہے وہ اپنی آنکھوں کے
اور ہم ہیں کہ بس مکرتے جائیں
آ کے بھولے ہوئے ہیں اُس کو اگر
یاد رکھ کر نہ کیوں جہاں سے جائیں
آخری تدوین: