وصلِ موجِ سوز نے دیوانہ کیا۔۔۔۔۔۔نور سعدیہ شیخ

نور وجدان

لائبریرین
وصلِ موجِ سوز نے دیوانہ کیا
خوگرِ میخانہ کو پیمانہ کیا


قطرہ قطرہ زہر کا قلزم بن گیا
درد نے کچھ مجھ سے یوں یارانہ کیا


نور ؔ نے شیشہ محل کرچی کر دیا
الجھنوں نےمجھ کو یوں دیوانہ کیا


رتبہ محشر میں شہادت کا پاؤں گی
روح کو تجدید نے مستانہ کیا


مے کدے میں جلوہِ حق کو دیکھ کر
سات پھیروں نے ہی پروانہ کیا



شرم ساری ختم کیسے ہو عصیاں کیا
رب! گلہ تجھ سے بھی گستاخانہ کیا


صبح نو کی اک جھلک دکھلا دیجئے
ان غموں نے حال سے اب بیگانہ کیا

 
آخری تدوین:

متلاشی

محفلین
قطرہ قطرہ زہر کا بن قلزم گیا
اس مصرعے کو یوں کر دیں تو روانی بڑھ جائے
قطرہ قطرہ زہر کا قلزم بن گیا
 

متلاشی

محفلین
یہ مصرعے بھی خارج از بحر
شرمساری اب گناہوں کی کیسے جائے
شکوہ مالک! میں نے گستاخانہ کیا۔۔!
استعارہ سحر ، کوئی امید دے۔۔!
مجھ کو تو آشفتگی نے بیگانہ کیا
 
آخری تدوین:
وصلِ موجِ سوز نے دیوانہ کیا
خوگرِ میخانہ کو پیمانہ کیا
بحر میرے لئے غیرمانوس ہے۔ جنابِ متلاشی نے نشان دہی کی ہے، اس پر توجہ فرمائیے گا۔ زبان اور مضامین کے حوالے کچھ عرض کروں گا، ولے ذرا سنبھل کے کہ آج کل میرے "مہربان" خاصی زیرکی کا اظہار فرما رہے ہیں۔
 

نور وجدان

لائبریرین
بحر میرے لئے غیرمانوس ہے۔ جنابِ متلاشی نے نشان دہی کی ہے، اس پر توجہ فرمائیے گا۔ زبان اور مضامین کے حوالے کچھ عرض کروں گا، ولے ذرا سنبھل کے کہ آج کل میرے "مہربان" خاصی زیرکی کا اظہار فرما رہے ہیں۔

بحر تو میرے لیے بھی غیر مانوس ہے ۔۔آپ جانتے ہیں میں کس طرز کی شاعری کرتی ہوں ۔۔ جو دل کی بحر چلتی ہے وہ چلا دیتی ہوں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں انتظار کروں گی آپ کی اصلاح کا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔آخری جملے نے دل کو خوش کر دیا۔۔۔
 
وصلِ موجِ سوز نے دیوانہ کیا
خوگرِ میخانہ کو پیمانہ کیا
۔۔ دونوں مصرعوں کا معنوی تعلق اور رعایت مطلع میں غزل کے بقیہ اشعار کی نسبت کہیں زیادہ اہم ہوتے ہیں۔
 
نور ؔ نے شیشہ محل کرچی کر دیا
وحشتوں نے اس طرح دیوانہ کیا
۔۔ وحشتوں نے دیوانہ کیا؟ سبب اپنا مسبب کیوں کر ہوا؟ ۔۔۔
دوسری بات، اگر اس کو مقطع بنا لیا جاتا؟ کیوں کہ رسم یہی ہے کہ تخلص مقطع میں لاتے ہیں۔
 
رتبہ محشر میں شہادت کا پاؤں گی
روح کو تجدید نے مستانہ کیا
۔۔۔ دوسرا مصرع اپنی سمجھ میں یوں نہیں آیا کہ اس میں یا تو کوئی کڑی ارادی طور پر چھپائی گئی ہے یا بیان نہیں ہو پائی۔ شاعرہ جانے۔
 
مے کدے میں جلوہِ حق کو دیکھ کر
ایک سجدے نے مجھے پروانہ کیا
۔۔۔ مناسب ہے، اظہار کو بہتر بنائیے۔ یہاں تو خیر بحر بھی میرے آڑے آ رہی ہے۔
 
شرم ساری ختم کیسے ہو عصیاں کی
شکوہ مالک! میں نے گستاخانہ کیا۔۔!
۔۔ دونوں مصرعوں کے مفاہیم کا تعلق مضبوط تر ہونا چاہئے تھا۔
 
صبح نو کی اک جھلک دکھلا دیجئے
مجھ کو تو آشفتگی نے بیگانہ کیا
۔۔۔۔ یہاں بھی وہی بات ہے۔ آشفتگی نے بیگانہ کیا؟ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
بحر تو میرے لیے بھی غیر مانوس ہے ۔۔آپ جانتے ہیں میں کس طرز کی شاعری کرتی ہوں ۔۔ جو دل کی بحر چلتی ہے وہ چلا دیتی ہوں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں انتظار کروں گی آپ کی اصلاح کا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔آخری جملے نے دل کو خوش کر دیا۔۔۔
چلئے آپ کی مسرت کا کچھ سامان میرے ہاتھوں بھی ہو گیا۔ اچھی بات ہے۔
 

الف عین

لائبریرین
مطلع کی اصلاح بہت خوب کی ہے آسی بھائی نے۔ ورنہ اصل مطلع میں تو قافیہ ہی غائب تھا۔
وصلِ موجِ سوز نے دیوانہ کیا
درد تجھ کو جاں کا نذرانہ دیا
 

متلاشی

محفلین
مطلع کی اصلاح بہت خوب کی ہے آسی بھائی نے۔ ورنہ اصل مطلع میں تو قافیہ ہی غائب تھا۔
وصلِ موجِ سوز نے دیوانہ کیا
درد تجھ کو جاں کا نذرانہ دیا
استاذِ گرامی ردیف بدل نہیں گیا دوسرے مصرعے کا ؟؟؟؟ یا اس طرح بھی جائز ہوتا ہے ؟؟؟
 

متلاشی

محفلین
مطلع کی اصلاح بہت خوب کی ہے آسی بھائی نے۔ ورنہ اصل مطلع میں تو قافیہ ہی غائب تھا۔
وصلِ موجِ سوز نے دیوانہ کیا
درد تجھ کو جاں کا نذرانہ دیا
اور اس غزل میں ردیف ’کیا‘ فعو کے وزن پر ہے نا؟؟؟ اگر اسی طرح ہے تو پھر تو دوسرا مصرع خارج از بحر ہو جاتا ہے ۔۔۔
 

متلاشی

محفلین
اصل میں نہ آپ کی یہ غزل دو بحروں میں ہے ۔۔۔۔
کچھ اشعار اس بحر میں درست تقطیع ہو رہے ہیں
فاعلاتن فاعلاتن فاعلن
تو کچھ اس بحر میں
فاعلاتن فاعلاتن مستفعلن
اسی لیے مسئلہ ہو رہا ہے آپ سب اشعار کو ایک ہی بحر میں رکھیں
 
Top