مہنگائی اکنامکس کا ایک بہت ہی اہم ٹاپک ہے۔ اکنامکس کے مطابق مہنگائی بڑھنےکی 4 بنیادی وجوہات ہوتی ہیں۔ جب بھی کوئی ملک اپنی اکنامک پالیسی بناتا ہے تو ان 4 بنیادی وجوہات کو مدنظر رکھ کر ہی اپنی اکنامک پالیسی بناتا ہے۔ اگر ان وجوہات کو اگنور کیا جائے یا پھر سبسڈیز دیکر مصنوعی طریقے سے مہنگائی کو کنٹرول کرنے کی کوشش کی جائے تو اس کا نتیجہ ہمیں یونہی بھگتنا پڑتا ہے جیسے 2018 کے بعد سے لیکر ابھی تک ہمیں بھگتنا پڑرہا ہے۔ مہنگائی بڑھنے کی وجوہات مندرجہ ذیل ہیں۔
1- اکنامک بوم
2-راء میٹریل کی قیمتوں کا بڑھنا
3-تنخواہیں بڑھنا
4-کرنسی ڈی ویلیو ایشن
1- اکنامک بوم سے مراد جب کسی ملک کی اکنانومی گرو کرتی ہے تو اس ملک میں مہنگائی بڑھنا شروع ہوجاتی ہے۔ اس کی مثال ایسے سمجھیں کہ اکنانومی گرو کرنے سے لوگوں کے پاس پیسہ زیادہ آنا شروع ہوجاتا ہے جس سے وہ پیسہ زیادہ خرچ کرتے ہیں اور یوں چیزوں کی ڈیمانڈ بڑھنا شروع ہوجاتی ہے۔ اور ایکوی لبریم کے مطابق چیزوں کی قیمت بڑھ جاتی ہے۔ یہ یونیورسل لاء ہے جاپان اور دبئی اس کی سب سے بڑی مثالیں ہیں۔ اب اگر 2013 سے 2018 تک اکانومی گرو کررہی تھی تو مہنگائی کو بڑھنا چاہیئے تھا لیکن مہنگائی مارکیٹ ریٹ کے مطابق نہیں تھی مطلب کچھ تو کام خراب تھا۔ کیا کام خراب تھا اس کی سمجھ آپ کو چوتھے فیکٹر میں سمجھ آجائے گی۔
2-تقریبا سارے ممالک راء میٹریلز کے لیئے ایک دوسرے پر انحصار کرتے ہیں لہذا راء میٹریلز کی قیمتوں میں اتار چڑھاؤ آتا رہتا ہے۔ مثلا ہم کروڈ آئل کے لیئے سعودی عرب پر انحصار کرتے ہیں تو جیسے ہی عالمی منڈی میں تیل کی قیمت بڑھتی ہے تو ہمارے ملک میں اس قیمت کے بڑھنے کا ڈائریکٹ اثر ہر چیز پر پڑھتا ہے۔ لہذا مہنگائی ہوجاتی ہے۔
3- تنخواہوں کے بڑھنے سے مہنگائی ہوتی ہے۔ اس کو آسان سی زبان میں سمجھاتا ہوں۔ فرض کریں یونی لیور پاکستان کا ماہانہ پرافٹ 2 کروڑ روپے ہے جس میں سے 50 لاکھ ان کے اخراجات اور 50 لاکھ روپے ملازمین کی تنخواہیں نکال کر نیٹ پرافٹ 1 کروڑ بنتا ہے۔ اب ملازمین کو 1 سال وہاں کام کرتے ہوجاتا ہے۔ 1 سال کے بعد ملازمین کہیں گے کہ ہماری تنخواہیں بڑھاؤ تو کمپنی تنخواہیں بڑھائے گی۔ فرض کریں کمپنی نے اگلے سال 25 لاکھ روپے سیلری کی مد میں بڑھا دیئے تو کمپنی کا پرافٹ 1 کروڑ سے کم ہوکر 75 لاکھ رہ جائے گا۔ لہذا کمپنی اپنے پرافٹ کو بڑھانے کے لیئے اپنی اشیاء کی قیمتیں زیادہ کردے گی تاکہ اس کا پرافٹ مارجن یا پہلے جتنا رہے یا پھر مزید بڑھ جائے۔
4- کرنسی ڈی ویلیو ایشن کا مطلب ہوتا ہے کہ کرنسی کی جو ویلیو فرض کریں 1947 میں تھی وہ ویلیو اس کی اس وقت نہیں ہے بلکہ کم ہوچکی ہے۔ 1947 میں 1 پاکستانی روپے کی ویلیو 2020 میں تقریبا ایک اندازے کے مطابق 600 پاکستانی روپے کے برابر ہے۔ یعنی جتنی چیزیں 1947 میں 1 روپے کی آتی تھی اتنی چیزیں اب 600 روپے میں آئیں گی۔ لہذا کرنسی نے ڈی ویلیو ہونا ہی ہے تو اس فیکٹر کو ذہن میں رکھ کر ہمیشہ اکنامک پالیسی بنائی جاتی ہے۔
کرنسی ڈی ویلیو ایشن کی ایک بڑی وجہ ٹھوک کے حساب سے کرنسی نوٹوں کا چھاپنا ہے۔ 2013 سے لیکر 2018 تک حکومت بینکوں سے قرضے لیتی تھی جس کی وجہ سے بینکوں کو نوٹ زیادہ چھاپنا پڑتے تھے تو یوں کرنسی ڈی ویلیو ایشن ہوتی گئی۔ ہماری پاکستان کی ماضی کی حکومتوں نے اس فیکٹر کو کبھی ذہن میں رکھا ہی نہیں۔ بلکہ ہمیشہ ڈالر کو سٹیبل رکھنے کے چکر میں ایکسچینج ریٹ سے چھیڑ چھاڑ کرکے اس کو ایک جگہ پر قائم رکھتے رہے۔ اس سے وقتی طور پر مہنگائی رک جاتی تھی۔ اور جب اگلی حکومت آکر ڈالر کو مارکیٹ ریٹ پر لاتی تھی تو جو مہنگائی پچھلے 4 سالوں سے ایک ہی جگہ پر رکی ہوئی تھی وہ یک دم اس ڈالر کے ریٹ کے مطابق سیٹ ہوجاتی تھی ۔ عوام گالیاں نکالتی تھی اور وہ حکومت پریشر میں آکر پھر وہی فکسڈ ڈالر ایکسچینج ریٹ پالیسی کو اپنا کر اپنے باقی کے 5 سال نکالتی تھی کہ اگلی حکومت خود ہی بھگت لے گی۔
جس کا نتیجہ یہ ہوتا تھا کہ برآمدات بھی تباہ ہوتی رہی، اکانومی بھی گرو نہیں ہوئی اور ہماری اکانومی امپورٹ بیسڈ بنتی گئی۔ جس کی 5.8 فیصد گروتھ ریٹ دکھا کر ہر جگہ شوخیاں ماری جاتی ہیں۔ یعنی کاغذوں میں دکھانے کے لیئے گروتھ ریٹ اچھا ہے لیکن گراؤنڈ پر 5.8 فیصد کی ویلیو پاکستان کے لئے زہر کی حیثیت رکھتی ہے۔
اکانومی کی الف ب کی سمجھ بوجھ رکھنے والے 2018 سے لیکر 2020 کے درمیان ہونے والی مہنگائی کو آرام سے سمجھ جائیں گے۔ اسی لیئے پی ٹی آئی گورنمنٹ نے شروع میں کہا تھا کہ مشکل حالات سے گزرنا پڑے گا اور انہی مشکل حالات سے ہم گزر رہے ہیں۔