کاشف اسرار احمد
محفلین
ایک تازہ غزل اصلاح کے لئے پیش کر رہا ہوں ۔
بحر رمل مثمن مخبون محذوف
فاعلاتن فعلاتن فعلاتن فعلن
استاد محترم جناب الف عین سر سے اصلاح کی درخواست ہے دیگر احباب کے مشوروں اور تبصروں کا بھی منتظر ہوں۔
بحر رمل مثمن مخبون محذوف
فاعلاتن فعلاتن فعلاتن فعلن
استاد محترم جناب الف عین سر سے اصلاح کی درخواست ہے دیگر احباب کے مشوروں اور تبصروں کا بھی منتظر ہوں۔
وقت چلتا ہے، مگر عمر رُکی لگتی ہے
ایک لمحہ جو گزرتا ہے صدی لگتی ہے
ہِجر کے دَشتِ بِیاباں میں سَکُوں ہے، یا پھر
چَھاؤں زُلفوں کی ملے جب تَو گھنی لگتی ہے
یوں اترتا ہے غمِ ہجر کا اِس جاں پہ عذاب
چادرِ کرب سی اک، ہم پہ تنی لگتی ہے
دلِ حساس سمندر ہے غموں کا جس میں
روح غرقاب ہے اور تشنہ لبی لگتی ہے
گال چھوتے ہیں جو آویزے یہ کانوں کے ترے
رنگ اور نور کی آپس میں ٹھنی لگتی ہے
تیرا الزام کہ، "خط میرے سنبھالے نہ گئے"!
"دیکھ !، کیا ان پہ کہیں گرد جمی لگتی ہے"؟
روز اک خواب ڈھلک جاتا ہے مژگاں سے مری
شیشہءِ چشم!، مجھے تجھ میں کجی لگتی ہے!
کیونکہ کم ملتا ہے مصروف زمانے میں فراغ
مارننگ واک کی تفریح بھلی لگتی ہے
اب نہ کچھ شور، شرارت، نہ ہنسی کے لمحے
گھر میں بچّے نہ ہوں کاشف، تو کمی لگتی ہے
ایک لمحہ جو گزرتا ہے صدی لگتی ہے
ہِجر کے دَشتِ بِیاباں میں سَکُوں ہے، یا پھر
چَھاؤں زُلفوں کی ملے جب تَو گھنی لگتی ہے
یوں اترتا ہے غمِ ہجر کا اِس جاں پہ عذاب
چادرِ کرب سی اک، ہم پہ تنی لگتی ہے
دلِ حساس سمندر ہے غموں کا جس میں
روح غرقاب ہے اور تشنہ لبی لگتی ہے
گال چھوتے ہیں جو آویزے یہ کانوں کے ترے
رنگ اور نور کی آپس میں ٹھنی لگتی ہے
تیرا الزام کہ، "خط میرے سنبھالے نہ گئے"!
"دیکھ !، کیا ان پہ کہیں گرد جمی لگتی ہے"؟
روز اک خواب ڈھلک جاتا ہے مژگاں سے مری
شیشہءِ چشم!، مجھے تجھ میں کجی لگتی ہے!
کیونکہ کم ملتا ہے مصروف زمانے میں فراغ
مارننگ واک کی تفریح بھلی لگتی ہے
اب نہ کچھ شور، شرارت، نہ ہنسی کے لمحے
گھر میں بچّے نہ ہوں کاشف، تو کمی لگتی ہے
شکریہ
آخری تدوین: