نیرنگ خیال
لائبریرین
مسافر نے موذی مکتب میں چھٹیوں کا اعلان کیا کیا۔ سب طلباء کے تو مزے لگ گئے۔ وہ طلباء بھی خوشی کا اظہار کرتے پائے گئے۔ جن کو کبھی مکتب کے اندر جھانکتے نہیں دیکھا گیا تھا۔ کچھ پرانے طلباء جو کئی سالوں سے مکتب کی خاک چھان رہے تھے۔ انہوں نے اک بھی مشق نہ کی۔ اور نہ ہی مقابلے کے امتحانات کی تیاری کی۔ کہ ہمیں تو سب پتہ ہے۔ ہفتوں سے دیکھ رہے ہیں کہ کیا ہو رہا ہے۔ کیسے کام ہونے ہیں۔
ویسے ہمارے ہاں عمومی طور پر لڑکیا ں ہر تدریسی کام میں آگے آگے ہوتی ہیں۔ مگر یہاں کچھ صورت حال مختلف تھی۔ اکثر لڑکیاں تو موذی کو دور سے ہی سلام کر کے گزر جاتی۔ کچھ ہاتھ نہیں آتا بے آہِ سحرگاہی کا راگ الاپ کر نکل جاتیں۔ یہ دیکھ کر اک چھوٹی مانو کا دل کڑھتا۔ وہ سوچتی کہ ایسی ہم مکتب ہمجولیوں کی موجودگی میں تو یہ ساری تاریخ الٹ جائے گی۔ اور بازی مارجائیں گے لڑکے۔ مگر مکتب کا ماحول دیکھ کر لگتاتھا کہ کسی کو یہ ڈر نہیں کہ وہ فیل ہوجائے گا۔ بلکہ یہ ڈر ہے کہ کہیں وہ پاس نہ ہوجائے۔ مانو نے تاریخ برقرار رکھنے کے لیئے محنت کی اور موذی کے تمام بتائے گئے اسرار و رموز سے خوب واقفیت حاصل کی۔ یہ دیکھ کر ننھی نٹ کھٹ کو بھی غصہ آگیا۔ اور اس نے بھی موذی کے خواص سے آگاہی حاصل کرنا شروع کر دی۔ ان حالات میں محفلی بلونگڑے کو اپنا رقص ابلیسی ذرا روکنا پڑا۔ اس نے سوچا کہ اگر میں نے مشقیں نہ کیں تو میں تو پیچھے رہ جاؤں گا۔ اور یہ سب ابلیسی رقص و وعدے دھرے رہ جائیں گے۔ سو اس نے بھی کچھ نہ کچھ ہاتھ صاف کر لیا۔ مگر جلد ہی بور ہوگیا۔ کہ اس قدر آرام سے کسی وحشی قسم کے ادہم کے بغیر کوئی کام کرنا اس کے بس کی بات نہ تھی۔ لیکن چھٹیوں میں اس نے بھی آرام ہی کا فیصلہ کیا۔
چھٹیوں سے پہلے الواداعی ملاقات ہوئی۔ جس میں موذی کی تدریس پر طلباء سے اظہار خیال کا کہا گیا۔ کچھ نے اظہار خیال میں کہا کہ کچھ سمجھ نہیں آیا۔ بقیہ نے خود کو الزام دینے کی بجائے وقت کو مورد الزام ٹھہرایا اور کہا کہ اگر وقت مل جاتا تو موذی کو وہ تگنی کا ناچ نچاتے کہ موذی ہم سے موذی ہونے کے گر سیکھتا پایا جاتا۔ محفلی بلونگڑے نے بھی چھٹیوں کے بعد جارحانہ عزائم کا اظہار کیا۔ اور اک سیاسی بیان میں کہا کہ وہ سدھر تو نہیں سکتا۔ مگر دوران مکتب اپنے وحشیانہ رقص سے کچھ باز رہے گا۔ اک نے کہا کہ جناب میں تو اب مشقوں کا حل کرنے کی ضرورت نہیں سمجھتا تو اس پر خادم اعلیٰ بھی فوراً بولے کہ میں ایسی بچگانہ مشقیں ذہن میں ہی حل کر لیتاہوں۔ بعد میں پتہ چلا کہ جناب جب فائنل پراجیکٹ جمع کرانے گئے تھے تو تب بھی یہی جواب دیا تھا کہ پراجیکٹ ذہن میں بنا پڑا ہے۔ اب اس کو کمپیوٹر پر کیا منتقل کرنا۔ سنا ہے معلم نے نمبر بھی ذہن میں ہی دے دیئے کہ اب ڈگری پر کیا لکھنا۔ واللہ اعلم
تعطیلات کا اعلان ہوتے ہی کھیل کے میدان بھی سنسان ہوگئے۔ اور طلباء جو ہر وقت کھیل کے میدان کو اکھاڑہ اردو بنائے رکھتے تھے۔ پاؤں دھرنا تو درکنار دیوار پر سے دیکھنے سےبھی گئے۔
شاعر جس کا شروع میں خیال تھا کہ موذی سے دوستی اور زہر کے سبب ہجر و فراق کی داستانوں میں تلخی بڑھ جائے گی۔ اس کو اپنے اندر اک مثبت تبدیلی نظر آئی۔ اور ہر چیز میں دریچہ ہائے امکان روشن نظر آنے لگے۔ ذہنی رو اسقدر بہک گئی کہ گھنٹوں دیوار کو دیکھتا رہتا۔ اور سوچتا کہ اک دن اس میں سے بھی امید کا سورج طلوع ہوگا۔ مسافر نے بارہا سمجھایا کہ سورج مشرق سے طلوع ہوگا۔ مگر شاعر نے اس جملے کو خارج از بحر قرار دے کر مسترد کر دیا۔ اب اسکو موذی میں امید نظر آنے لگی۔ اور یہی امید اسکی شاعری میں چھلکنے لگی۔ جو کہ عوام میں بے حد مقبول ہوئی۔ مسافر نے بھی کہا کہ یہ میرے دل کی آواز ہے۔ جس پر شاعر کو گماں گزرا کہ مہتمم اعلی مذاق کے موڈ میں ہے۔ موذی کے زہر نے اس کے اندر امید کا دیا کچھ اسطرح روشن کیا کہ اس نے تعطیلات سے واپسی آنے پر طلباء کے لیئے اک بہتخوبصورت نظم بھی لکھ لی۔ جس میں اس نے محنت سے جی چرانے کے عمومی رویے پر مکتب کے طلباء کو شرم دلانے کی کوشش کی۔ اور در موذی پر چپکا دی۔ طلباء کو تو فورا اندازہ ہوگیا کہ یہ پھر موذی کی طرف بلانے کی سازش ہے۔ مگر بقیہ لوگ اسے دریچہ ہائے امکان ہی سمجھے۔
تعطیلات سے واپسی پر دیکھا گیا کہ کچھ نئے دوست بھی داخل مکتب ہوچکے ہیں۔ شاعر نے ان کے غیر فعال ہونے کا اعلان کیا تو مسافر نے چپکے سے اسکے کان میں کہا کہ سابقہ کونسے فعال ہیں۔ آہستہ آہستہ سب ٹھیک ہو جائے گا۔ اتنی اونچی ایسی باتیں نہ کرو۔
تعطیلات کا موسم گزر چکا ہے۔ مکتب کی رونقیں ابھی بحال نہیں ہوئیں کہ کچھ طلباء دوسرے اساتذہ کا نام لے کر ابھی تک چھٹیاں منا رہے۔ کچھ کہہ رہے کہ بارش بہت ہے۔ اس وجہ سے آ نہیں پایا۔ اور کچھ کے پاس بہانہ نہیں تو وہ ویسے ہی کونے کھدروں میں چھپ گئے۔ مگر مسافر نے بھی اعلان کردیا کہ وہ گھات لگائے بیٹھا ہے۔ اور چھٹی ملنے والی نہیں کسی کو بھی۔ موذی کو لے کر اب اور مذاق نہ ہوگا۔
کیا چلتا رہے گا یہ مکتب یونہی؟
کیا شاعر کے دریچہ ہائے امکان روشن رہیں گے۔ یا پھر سے ہجر و فراق کا رنگ غالب آجائے گا؟
کیا مسافر کامیاب رہے گا اپنی گھات میں۔ یا طلباء دے جائیں گے چکمہ؟
کیا منا رقص ابلیس جاری رکھ پائے گا؟ یا سفلی طاقتوں کا اثر ہوگا غالب؟
کیا طلباء جاری رکھیں گے اپنے بہانے؟
یہ سب ملاحظہ کیجیئے اگلے شمارے میں