وقفہ تعطیلات (پائتھون کہانی) راوی نیرنگ خیال

نیرنگ خیال

لائبریرین
مسافر نے موذی مکتب میں چھٹیوں کا اعلان کیا کیا۔ سب طلباء کے تو مزے لگ گئے۔ وہ طلباء بھی خوشی کا اظہار کرتے پائے گئے۔ جن کو کبھی مکتب کے اندر جھانکتے نہیں دیکھا گیا تھا۔ کچھ پرانے طلباء جو کئی سالوں سے مکتب کی خاک چھان رہے تھے۔ انہوں نے اک بھی مشق نہ کی۔ اور نہ ہی مقابلے کے امتحانات کی تیاری کی۔ کہ ہمیں تو سب پتہ ہے۔ ہفتوں سے دیکھ رہے ہیں کہ کیا ہو رہا ہے۔ کیسے کام ہونے ہیں۔​

ویسے ہمارے ہاں عمومی طور پر لڑکیا ں ہر تدریسی کام میں آگے آگے ہوتی ہیں۔ مگر یہاں کچھ صورت حال مختلف تھی۔ اکثر لڑکیاں تو موذی کو دور سے ہی سلام کر کے گزر جاتی۔ کچھ ہاتھ نہیں آتا بے آہِ سحرگاہی کا راگ الاپ کر نکل جاتیں۔ یہ دیکھ کر اک چھوٹی مانو کا دل کڑھتا۔ وہ سوچتی کہ ایسی ہم مکتب ہمجولیوں کی موجودگی میں تو یہ ساری تاریخ الٹ جائے گی۔ اور بازی مارجائیں گے لڑکے۔ مگر مکتب کا ماحول دیکھ کر لگتاتھا کہ کسی کو یہ ڈر نہیں کہ وہ فیل ہوجائے گا۔ بلکہ یہ ڈر ہے کہ کہیں وہ پاس نہ ہوجائے۔ مانو نے تاریخ برقرار رکھنے کے لیئے محنت کی اور موذی کے تمام بتائے گئے اسرار و رموز سے خوب واقفیت حاصل کی۔ یہ دیکھ کر ننھی نٹ کھٹ کو بھی غصہ آگیا۔ اور اس نے بھی موذی کے خواص سے آگاہی حاصل کرنا شروع کر دی۔ ان حالات میں محفلی بلونگڑے کو اپنا رقص ابلیسی ذرا روکنا پڑا۔ اس نے سوچا کہ اگر میں نے مشقیں نہ کیں تو میں تو پیچھے رہ جاؤں گا۔ اور یہ سب ابلیسی رقص و وعدے دھرے رہ جائیں گے۔ سو اس نے بھی کچھ نہ کچھ ہاتھ صاف کر لیا۔ مگر جلد ہی بور ہوگیا۔ کہ اس قدر آرام سے کسی وحشی قسم کے ادہم کے بغیر کوئی کام کرنا اس کے بس کی بات نہ تھی۔ لیکن چھٹیوں میں اس نے بھی آرام ہی کا فیصلہ کیا۔

چھٹیوں سے پہلے الواداعی ملاقات ہوئی۔ جس میں موذی کی تدریس پر طلباء سے اظہار خیال کا کہا گیا۔ کچھ نے اظہار خیال میں کہا کہ کچھ سمجھ نہیں آیا۔ بقیہ نے خود کو الزام دینے کی بجائے وقت کو مورد الزام ٹھہرایا اور کہا کہ اگر وقت مل جاتا تو موذی کو وہ تگنی کا ناچ نچاتے کہ موذی ہم سے موذی ہونے کے گر سیکھتا پایا جاتا۔ محفلی بلونگڑے نے بھی چھٹیوں کے بعد جارحانہ عزائم کا اظہار کیا۔ اور اک سیاسی بیان میں کہا کہ وہ سدھر تو نہیں سکتا۔ مگر دوران مکتب اپنے وحشیانہ رقص سے کچھ باز رہے گا۔ اک نے کہا کہ جناب میں تو اب مشقوں کا حل کرنے کی ضرورت نہیں سمجھتا تو اس پر خادم اعلیٰ بھی فوراً بولے کہ میں ایسی بچگانہ مشقیں ذہن میں ہی حل کر لیتاہوں۔ بعد میں پتہ چلا کہ جناب جب فائنل پراجیکٹ جمع کرانے گئے تھے تو تب بھی یہی جواب دیا تھا کہ پراجیکٹ ذہن میں بنا پڑا ہے۔ اب اس کو کمپیوٹر پر کیا منتقل کرنا۔ سنا ہے معلم نے نمبر بھی ذہن میں ہی دے دیئے کہ اب ڈگری پر کیا لکھنا۔ واللہ اعلم

تعطیلات کا اعلان ہوتے ہی کھیل کے میدان بھی سنسان ہوگئے۔ اور طلباء جو ہر وقت کھیل کے میدان کو اکھاڑہ اردو بنائے رکھتے تھے۔ پاؤں دھرنا تو درکنار دیوار پر سے دیکھنے سےبھی گئے۔
شاعر جس کا شروع میں خیال تھا کہ موذی سے دوستی اور زہر کے سبب ہجر و فراق کی داستانوں میں تلخی بڑھ جائے گی۔ اس کو اپنے اندر اک مثبت تبدیلی نظر آئی۔ اور ہر چیز میں دریچہ ہائے امکان روشن نظر آنے لگے۔ ذہنی رو اسقدر بہک گئی کہ گھنٹوں دیوار کو دیکھتا رہتا۔ اور سوچتا کہ اک دن اس میں سے بھی امید کا سورج طلوع ہوگا۔ مسافر نے بارہا سمجھایا کہ سورج مشرق سے طلوع ہوگا۔ مگر شاعر نے اس جملے کو خارج از بحر قرار دے کر مسترد کر دیا۔ اب اسکو موذی میں امید نظر آنے لگی۔ اور یہی امید اسکی شاعری میں چھلکنے لگی۔ جو کہ عوام میں بے حد مقبول ہوئی۔ مسافر نے بھی کہا کہ یہ میرے دل کی آواز ہے۔ جس پر شاعر کو گماں گزرا کہ مہتمم اعلی مذاق کے موڈ میں ہے۔ موذی کے زہر نے اس کے اندر امید کا دیا کچھ اسطرح روشن کیا کہ اس نے تعطیلات سے واپسی آنے پر طلباء کے لیئے اک بہتخوبصورت نظم بھی لکھ لی۔ جس میں اس نے محنت سے جی چرانے کے عمومی رویے پر مکتب کے طلباء کو شرم دلانے کی کوشش کی۔ اور در موذی پر چپکا دی۔ طلباء کو تو فورا اندازہ ہوگیا کہ یہ پھر موذی کی طرف بلانے کی سازش ہے۔ مگر بقیہ لوگ اسے دریچہ ہائے امکان ہی سمجھے۔
تعطیلات سے واپسی پر دیکھا گیا کہ کچھ نئے دوست بھی داخل مکتب ہوچکے ہیں۔ شاعر نے ان کے غیر فعال ہونے کا اعلان کیا تو مسافر نے چپکے سے اسکے کان میں کہا کہ سابقہ کونسے فعال ہیں۔ آہستہ آہستہ سب ٹھیک ہو جائے گا۔ اتنی اونچی ایسی باتیں نہ کرو۔

تعطیلات کا موسم گزر چکا ہے۔ مکتب کی رونقیں ابھی بحال نہیں ہوئیں کہ کچھ طلباء دوسرے اساتذہ کا نام لے کر ابھی تک چھٹیاں منا رہے۔ کچھ کہہ رہے کہ بارش بہت ہے۔ اس وجہ سے آ نہیں پایا۔ اور کچھ کے پاس بہانہ نہیں تو وہ ویسے ہی کونے کھدروں میں چھپ گئے۔ مگر مسافر نے بھی اعلان کردیا کہ وہ گھات لگائے بیٹھا ہے۔ اور چھٹی ملنے والی نہیں کسی کو بھی۔ موذی کو لے کر اب اور مذاق نہ ہوگا۔

کیا چلتا رہے گا یہ مکتب یونہی؟
کیا شاعر کے دریچہ ہائے امکان روشن رہیں گے۔ یا پھر سے ہجر و فراق کا رنگ غالب آجائے گا؟
کیا مسافر کامیاب رہے گا اپنی گھات میں۔ یا طلباء دے جائیں گے چکمہ؟
کیا منا رقص ابلیس جاری رکھ پائے گا؟ یا سفلی طاقتوں کا اثر ہوگا غالب؟
کیا طلباء جاری رکھیں گے اپنے بہانے؟
یہ سب ملاحظہ کیجیئے اگلے شمارے میں
 

محمداحمد

لائبریرین
واہ بھیا واہ۔۔۔۔! آپ جو بھی لکھتے ہیں کمال لکھتے ہیں۔ :applause:

اور کچھ ایسا لگ رہا ہے کہ اس دفعہ آپ نے قلم کو کچھ زیادہ ہی "دھار" لگا لی۔ :) زیادہ تعریف اس لئے نہیں کروں گا کہ کہیں اس پوسٹ کو بھی "آفیشل" نہ سمجھ لیا جائے۔ پھر کیا ہونا ہے آپ کو پتہ ہی ہے۔ :D
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
:D

شکریہ نایاب بھائی :)

بہت عمدہ نین بھائی۔۔:applause:
اگلی قسط کا انتظار رہے گا۔۔
"رقصِ ابلیس" :laugh:
اگلی قسط اگلی چھٹیوں میں :laugh:
بہت شکریہ انیس بھائی :)
:aadab:

واہ بھیا واہ۔۔۔ ۔! آپ جو بھی لکھتے ہیں کمال لکھتے ہیں۔ :applause:

اور کچھ ایسا لگ رہا ہے کہ اس دفعہ آپ نے قلم کو کچھ زیادہ ہی "دھار" لگا لی۔ :) زیادہ تعریف اس لئے نہیں کروں گا کہ کہیں اس پوسٹ کو بھی "آفیشل" نہ سمجھ لیا جائے۔ پھر کیا ہونا ہے آپ کو پتہ ہی ہے۔ :D
شکریہ احمد بھائی :)
یہ دھار والا خیال تو آپ ہی لائے تھے۔ ورنہ میں تو اچھا بھلا جا رہا تھا سیدھا اور سادہ سا :)
 

فہیم

لائبریرین
اس پائتھون کو تو ہم پائتھن سمجھ کر دور سے ہی کنی کترا جاتے تھے کہ کہیں یہ ہمیں بھی سالم ہی نہ نگل لے۔
لیکن آپ نے تو اس پائتھن کو درخت سے لٹکا کر جھولا بنا ڈالا اور ہمیں بھی مزے کرا دیے:ROFLMAO:

بہت خوب نیرنگ بھائی :)
 

موجو

لائبریرین
بہت خوبصورت تحریر
میرا خیال ہے کہ مکتب اب پہلے سے بھی آہستہ چلے گا کیونکہ موذی بچپن سے لڑکپن میں آچکا ہے اور جوانی میں تو اس سے متھا لگانے والا کوئی کوئی رہ جائے گا۔
 

محمداحمد

لائبریرین
مسافر نے موذی مکتب میں چھٹیوں کا اعلان کیا کیا۔ سب طلباء کے تو مزے لگ گئے۔ وہ طلباء بھی خوشی کا اظہار کرتے پائے گئے۔ جن کو کبھی مکتب کے اندر جھانکتے نہیں دیکھا گیا تھا۔ کچھ پرانے طلباء جو کئی سالوں سے مکتب کی خاک چھان رہے تھے۔ انہوں نے اک بھی مشق نہ کی۔ اور نہ ہی مقابلے کے امتحانات کی تیاری کی۔ کہ ہمیں تو سب پتہ ہے۔ ہفتوں سے دیکھ رہے ہیں کہ کیا ہو رہا ہے۔ کیسے کام ہونے ہیں۔​

:)
 
موذی کا زہر اثر کرے نہ کرے ، شاعر کی شاعری اورراوی کی روایت خوب چمک جائے گی پائتھون ختم ہونے تک۔ :LOL:

پائتھون کورس کے اختتام پر میرے خیال سے اسناد یہ ہوں گی

شاعر: بہترین شاعری زمرہ پائتھون
راوی: بہترین لکھاری کہانی پائتھون
 

محمداحمد

لائبریرین
موذی کا زہر اثر کرے نہ کرے ، شاعر کی شاعری اورراوی کی روایت خوب چمک جائے گی پائتھون ختم ہونے تک۔ :LOL:

پائتھون کورس کے اختتام پر میرے خیال سے اسناد یہ ہوں گی

شاعر: بہترین شاعری زمرہ پائتھون
راوی: بہترین لکھاری کہانی پائتھون

:D

یہ بھی خوب کہا آپ نے محب بھائی۔۔۔! :)

آج تو نین بھائی کہیں غائب ہیں۔
 

محمداحمد

لائبریرین
ویسے ہمارے ہاں عمومی طور پر لڑکیا ں ہر تدریسی کام میں آگے آگے ہوتی ہیں۔ مگر یہاں کچھ صورت حال مختلف تھی۔ اکثر لڑکیاں تو موذی کو دور سے ہی سلام کر کے گزر جاتی۔ کچھ ہاتھ نہیں آتا بے آہِ سحرگاہی کا راگ الاپ کر نکل جاتیں۔ یہ دیکھ کر اک چھوٹی مانو کا دل کڑھتا۔ وہ سوچتی کہ ایسی ہم مکتب ہمجولیوں کی موجودگی میں تو یہ ساری تاریخ الٹ جائے گی۔ اور بازی مارجائیں گے لڑکے۔ مگر مکتب کا ماحول دیکھ کر لگتاتھا کہ کسی کو یہ ڈر نہیں کہ وہ فیل ہوجائے گا۔ بلکہ یہ ڈر ہے کہ کہیں وہ پاس نہ ہوجائے۔ مانو نے تاریخ برقرار رکھنے کے لیئے محنت کی اور موذی کے تمام بتائے گئے اسرار و رموز سے خوب واقفیت حاصل کی۔ یہ دیکھ کر ننھی نٹ کھٹ کو بھی غصہ آگیا۔ اور اس نے بھی موذی کے خواص سے آگاہی حاصل کرنا شروع کر دی۔ ان حالات میں محفلی بلونگڑے کو اپنا رقص ابلیسی ذرا روکنا پڑا۔ اس نے سوچا کہ اگر میں نے مشقیں نہ کیں تو میں تو پیچھے رہ جاؤں گا۔ اور یہ سب ابلیسی رقص و وعدے دھرے رہ جائیں گے۔ سو اس نے بھی کچھ نہ کچھ ہاتھ صاف کر لیا۔ مگر جلد ہی بور ہوگیا۔ کہ اس قدر آرام سے کسی وحشی قسم کے ادہم کے بغیر کوئی کام کرنا اس کے بس کی بات نہ تھی۔ لیکن چھٹیوں میں اس نے بھی آرام ہی کا فیصلہ کیا۔​

واقعی عائشہ اور مقدس نے معاملہ "ون سائڈڈ" نہیں ہونے دیا۔ بلکہ ان کی ہر ہر موڑ پر شرکت ہمارے لئے بہت حوصلہ افزا رہی۔

بلال شروع میں تو خوب جا رہے تھے لیکن شاید تعلیمی مصروفیات کے باعث کچھ سست ہوگئے۔ ویسے فطری طور پر شرارت کا عنصر بھی بلال کو چین سے بیٹھنے نہیں دیتا اور وہ زیادہ تر گپ شپ کے دھاگوں میں ہی "مشقیں" کرتے نظر آتے ہیں۔ :)
 
قیصرانی نیرنگ تو چھایا ہوا کہ اس نے چار ہفتوں میں تقریبا سارے اسباق بھی کر لیے ہیں ، تم بتاؤ کتنی اور چھٹیاں مناؤ گے ۔

یہی حال رہا تو ڈیٹابیس میں بھی "دغا" دے جاؤ گے :cool:
 

محمداحمد

لائبریرین
چھٹیوں سے پہلے الواداعی ملاقات ہوئی۔ جس میں موذی کی تدریس پر طلباء سے اظہار خیال کا کہا گیا۔ کچھ نے اظہار خیال میں کہا کہ کچھ سمجھ نہیں آیا۔ بقیہ نے خود کو الزام دینے کی بجائے وقت کو مورد الزام ٹھہرایا اور کہا کہ اگر وقت مل جاتا تو موذی کو وہ تگنی کا ناچ نچاتے کہ موذی ہم سے موذی ہونے کے گر سیکھتا پایا جاتا۔ محفلی بلونگڑے نے بھی چھٹیوں کے بعد جارحانہ عزائم کا اظہار کیا۔ اور اک سیاسی بیان میں کہا کہ وہ سدھر تو نہیں سکتا۔ مگر دوران مکتب اپنے وحشیانہ رقص سے کچھ باز رہے گا۔ اک نے کہا کہ جناب میں تو اب مشقوں کا حل کرنے کی ضرورت نہیں سمجھتا تو اس پر خادم اعلیٰ بھی فوراً بولے کہ میں ایسی بچگانہ مشقیں ذہن میں ہی حل کر لیتاہوں۔ بعد میں پتہ چلا کہ جناب جب فائنل پراجیکٹ جمع کرانے گئے تھے تو تب بھی یہی جواب دیا تھا کہ پراجیکٹ ذہن میں بنا پڑا ہے۔ اب اس کو کمپیوٹر پر کیا منتقل کرنا۔ سنا ہے معلم نے نمبر بھی ذہن میں ہی دے دیئے کہ اب ڈگری پر کیا لکھنا۔ واللہ اعلم

:D:p

نظر لگے نہ کہیں تیرے زورِ بازو کو​
:)
 

محمداحمد

لائبریرین
شاعر جس کا شروع میں خیال تھا کہ موذی سے دوستی اور زہر کے سبب ہجر و فراق کی داستانوں میں تلخی بڑھ جائے گی۔ اس کو اپنے اندر اک مثبت تبدیلی نظر آئی۔ اور ہر چیز میں دریچہ ہائے امکان روشن نظر آنے لگے۔ ذہنی رو اسقدر بہک گئی کہ گھنٹوں دیوار کو دیکھتا رہتا۔ اور سوچتا کہ اک دن اس میں سے بھی امید کا سورج طلوع ہوگا۔ مسافر نے بارہا سمجھایا کہ سورج مشرق سے طلوع ہوگا۔ مگر شاعر نے اس جملے کو خارج از بحر قرار دے کر مسترد کر دیا۔ اب اسکو موذی میں امید نظر آنے لگی۔ اور یہی امید اسکی شاعری میں چھلکنے لگی۔ جو کہ عوام میں بے حد مقبول ہوئی۔ مسافر نے بھی کہا کہ یہ میرے دل کی آواز ہے۔ جس پر شاعر کو گماں گزرا کہ مہتمم اعلی مذاق کے موڈ میں ہے۔ موذی کے زہر نے اس کے اندر امید کا دیا کچھ اسطرح روشن کیا کہ اس نے تعطیلات سے واپسی آنے پر طلباء کے لیئے اک بہتخوبصورت نظم بھی لکھ لی۔ جس میں اس نے محنت سے جی چرانے کے عمومی رویے پر مکتب کے طلباء کو شرم دلانے کی کوشش کی۔ اور در موذی پر چپکا دی۔ طلباء کو تو فورا اندازہ ہوگیا کہ یہ پھر موذی کی طرف بلانے کی سازش ہے۔ مگر بقیہ لوگ اسے دریچہ ہائے امکان ہی سمجھے۔
:)
تعطیلات سے واپسی پر دیکھا گیا کہ کچھ نئے دوست بھی داخل مکتب ہوچکے ہیں۔ شاعر نے ان کے غیر فعال ہونے کا اعلان کیا تو مسافر نے چپکے سے اسکے کان میں کہا کہ سابقہ کونسے فعال ہیں۔ آہستہ آہستہ سب ٹھیک ہو جائے گا۔ اتنی اونچی ایسی باتیں نہ کرو۔
:D:p
واہ ! کیا بات ہے۔ ہمیں کوئی اس وقت دیکھیے تو ضرور پوچھے گا کہ "تم اتنا جو مسکرا رہے ہو" :)

تعطیلات کا موسم گزر چکا ہے۔ مکتب کی رونقیں ابھی بحال نہیں ہوئیں کہ کچھ طلباء دوسرے اساتذہ کا نام لے کر ابھی تک چھٹیاں منا رہے۔ کچھ کہہ رہے کہ بارش بہت ہے۔ اس وجہ سے آ نہیں پایا۔ اور کچھ کے پاس بہانہ نہیں تو وہ ویسے ہی کونے کھدروں میں چھپ گئے۔ مگر مسافر نے بھی اعلان کردیا کہ وہ گھات لگائے بیٹھا ہے۔ اور چھٹی ملنے والی نہیں کسی کو بھی۔ موذی کو لے کر اب اور مذاق نہ ہوگا۔

بہت اعلیٰ ! جیتے رہیے۔ :)
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
واقعی عائشہ اور مقدس نے معاملہ "ون سائڈڈ" نہیں ہونے دیا۔ بلکہ ان کی ہر ہر موڑ پر شرکت ہمارے لئے بہت حوصلہ افزا رہی۔

بلال شروع میں تو خوب جا رہے تھے لیکن شاید تعلیمی مصروفیات کے باعث کچھ سست ہوگئے۔ ویسے فطری طور پر شرارت کا عنصر بھی بلال کو چین سے بیٹھنے نہیں دیتا اور وہ زیادہ تر گپ شپ کے دھاگوں میں ہی "مشقیں" کرتے نظر آتے ہیں۔ :)
اصل میں آج کل موسم کا کچھ زیادہ ہی اثر ہو گیا ہے، اس لیے ہر جگہ "مشقیں" کرتا نظر آتا ہوں۔:p
 
Top